فرانس، زنیموں کا معاشرہ اور توہینِ رسالت


الواقعۃ شمارہ: 104 – 106، محرم الحرام تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ایک رپورٹ کے مطابق فرانس کی 60 فیصد آبادی مجہول النسب افراد پر مشتمل ہے اور ولد الزنا افراد پر مشتمل آبادی میں فرانس دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے۔ قرآنی اصطلاح میں ایسے افراد "زنیم” کہلاتے ہیں۔ فرانس میں تو "زنیموں” کا معاشرہ ہی تشکیل پا چکا ہے۔
دوسری طرف فرانس کی تاریخ توہین رسالت میں بھی کافی پرانی ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے پیہم فرانس کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی توہین پر مبنی ڈرامے اور خاکے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ "زنیموں” کا معاشرہ اگر ایسا کرے تو محل تعجب بھی کیا ہے ؟

آپ نے یہ خبر بھی سنی ہوگی کہ ترکی کے صدر نے فرانس کے صدر کو دماغی علاج کا مشورہ دیا جس پر فرانس نے انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ "زنیموں” میں اتنی غیرت کیسے آ گئی ؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ امر حیرت انگیز ہے کہ 57 اسلامی ممالک میں سے کسی نے رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کی خاطر اپنا سفیر پیرس سے واپس نہیں بلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ؟ ؟ ؟

یہ "کیوں” ہی تو ایک دہکتا ہوا ناسور ہے ہمارے سینوں کا۔ کیا فرانس کے بغیر ہم سطح ارضی پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ؟ کیا فرانسیسی اشیاء کے بغیر ہم مر جائیں گے ؟ اور اگر ایسا ہو تب بھی اس زندگی سے موت بہتر ہے جس میں ہم رسول اللہ ﷺ کے عزت و ناموس کی حفاظت نہ کرسکیں۔

ہمیں یقین ہے کہ 57 اسلامی ممالک میں شاید ہی کوئی ملک فرانس سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرے۔ اس کا وبال یقیناً ان کے سر ہوگا جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن امت مسلمہ کا ہر ہر فرد جو رسول اللہ ﷺ سے اپنی جان، مال، عزت اور خاندان سے بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے "زنیموں” کے اس معاشرہ کا ہر ہر سطح پر مکمل بائیکاٹ کرے گا۔

ہم اپنی تمام تر بے بسی اور لاچارگی کے باوجود عظمت رسول ﷺ کے لیے یہ تو کر ہی سکتے ہیں اور ہم ضرور کریں گے تاکہ روز حشر رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں سر رکھ کر اپنے گناہگار آنسوؤں کا ہدیہ پیش کر سکیں۔

پامال ہو کے بھی نہ اٹھا کوئے یار سے
میں اس گلی میں سایۂ دیوار ہو گیا

فرانس کی اسلام اور رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہر چند برسوں کے بعد رسول اللہ ﷺ کی توہین پر مبنی خاکے اور ڈرامے، اس بدکار معاشرے کے خبثِ باطن کو ظاہر کرتے ہیں جو ان کا مجموعی مزاج بن چکا ہے۔ اس لیے فرانس کا جزو وقتی معاشی بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔ درست طریقہ یہی ہوگا کہ مسلمان اپنے طور پر ہمیشہ کے لیے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں۔

مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک غیر معمولی حصہ ہیں اور اپنی قوت خرید سے دنیا کا معاشی توازن بدل سکتے ہیں اگر ہم مسلمان اپنی اس طاقت کا ادارک کر لیں تو بلاشبہ دنیا کی تاریخ بدل سکتے ہیں۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.