الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
زندگی فریبِ نفس و نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ قریب ہے کہ "متاع الغرور” کی حقیقت آشکارِ عالم ہو جائے۔ کتنی ہی امیدیں ہیں جو دم توڑ رہی ہیں اور کتنے ہی خواب ہیں جو بکھر چکے ہیں۔ دل آرزوؤں کے مدفن بن رہے ہیں اور حسرت نا تمام کے داغ انسانی زندگی کا فسانہ بیان کر رہے ہیں۔
انسان جسے جہد للبقا سمجھ کر اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرتا رہا ہے قریب ہے کہ وہ زمیں بوس ہو جائے۔ انسانی زندگی کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ تعمیر کے بعد تخریب اور تخریب کے بعد تعمیر نَو کی مشقت۔
صرف ایک وائرس اور اس وائرس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن نے انسانی زندگی کی حقیقت کو عریاں کر کے رکھ دیا۔ جو لوگ اب بھی دل سے دنیا کو لگائے بیٹھے ہیں انھیں آنے والے وقتوں میں مایوسی ہوگی کیوں کہ تسبیح کے دانے ٹوٹ چکے ہیں اور جس طرح ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے یکے بعد دیگرے گرتے چلے جاتے ہیں اسی طرح یکے بعد دیگرے فتنے بھی ہم پر ٹوٹ پڑیں گے۔
شعلے بلند ہو رہے ہیں اور ابلیس کا رقص جاری ہے۔
————————————
کرونا وائرس اور لاک ڈاؤں نے پوری انسانی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ صورت حال حقیقی ہے یا مصنوعی، لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ دنیا اس کے صدمے سے جلد جاں بر نہ ہو سکے گی۔
————————————
حبس کے اس عالم اور ہراس کے موسم میں جب کہ ظلمتِ نفس کی تاریکی نے روشنی کی ہر راہ کو بند کرنا چاہا ہے۔ اللہ کے مخلص بندوں کی دنیا اب بھی آباد اور منور ہے۔ یہ لاک ڈاؤن سب کے لیے تھا۔ معیشت کی تباہی پوری دنیا پر نازل ہوئی۔ لیکن خود کو مہذب کہلانے والوں اور حقوقِ عالم کا پرچار کرنے والوں کی دنیا کی حقیت یہ ہے کہ وہاں انتشار و انارکی نے جنم لیا۔ لوگوں نے اپنے ہی ابنائے جنس پر حملے کیے اور بند دکانوں کو توڑ کر نہ صرف ضروریاتِ زندگی بلکہ تعیشاتِ زندگی کی بھی تکمیل کی۔ یہ کسی تیسری دنیا کی تصویر نہیں بلکہ انسانیت کے سب سے بڑے علم بردار امریکا کی کہانی ہے۔
اور اپنی تہذیب و تربیت کے سانچے میں ڈھلی اسلامی دنیا آج بھی اپنے اخلاقی اقدار سے وابستہ ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکی ہو یا بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا کہیں بھی ان چار مہینوں میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے باجود انتشار و انارکی نے جنم نہیں لیا۔ جب لاک ڈاؤن کی ابتدا ہوئی تو مہذب دنیا کے باسیوں نے سب سے پہلے وسائل زندگی کی ذخیرہ اندوزی کی طرف توجہ کی۔ لیکن ہاری ہوئی دنیا کے غیر مہذب باسیوں نے اس وقت اپنے ابنائے جنس کی ضرورتوں کی طرف توجہ دی اور انھیں اپنا شریکِ نوالہ بنایا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار و روایات میں غیر مسلم معاشرے سے کہیں بہتر ہے۔ ہمارے معاشرے کا اصل المیہ انتظامی ہے۔ ہم میں اجتماعیت کی کمی ہے ورنہ انفرادی سطح پر آج بھی خیر ہماری سرشت میں کہیں پوشیدہ ہے۔
یہی خیر ہے جو رحمٰن کے بندوں اور طاغوت کے غلاموں کے درمیان مابہ الامتیاز ہے۔
————————————
یقیناً ہر عسر کے بعد یسر کی ایک دنیا ہے اور ہر ظلمت کے نصیب میں نور سے شکست پانا ہے۔ تاریکی خواہ حد سے سوا ہو جائے لیکن روشنی کی محض ایک کرن سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ پھر جن کے دلوں کو اللہ نے اپنے ایمان کے نور سے منور کیا ہو وہ کبھی شکستہ حال نہیں ہوتے۔ ان کی امیدوں کا مرکز اور ان کا منتہائے مقصود اللہ رب العزت کی ذات گرامی ہے، جس کی دنیائے کن کے سامنے اسباب و وسائل کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ہم جانتے ہیں کہ ابھی ظلمت کا موسم ہے، تاریکی بڑھے گی ۔۔۔۔ توکیا ہوا! رب تعالیٰ پر غیر متزلزل یقین ہمیں قوت دے گا اور رسول اللہ ﷺ کی محبت ہر ظلمت میں نور بن کر رستہ دکھائی گی۔
c c c c c