الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ
از قلم : محمد شاہ رخ خان – کراچی
جب کبھی اسلام پر حملہ مقصود ہو تو اسلامی شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خواہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جیسے مقدس شخصیات کی توہین ہوں، یا کسی بھی اسلامی تاریخی شخصیت کے کردار پر الزامات، جیسے حال ہی میں محمد بن قسم کے خلاف مذموم مہم چلائی گئی۔
ہمیشہ اس شخص کو کہ جس کی اسلام کے بارے میں بہت سی خدمات رہی ہو اس پر مختلف اعتراضات کر کے مسلمانوں میں انتشار پھیلایا جاتا ہے۔
حال ہی میں ترکی سے نشر ہونے والے ایک ڈرامے ارطغرل کی وجہ سے ایک طرف ارطغرل کی تاریخی شخصیت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ تو دوسری طرف لبرل طبقے نے ارطغرل بن سلیمان شاہ کے اسلام ہی کو مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ دراصل یہ کارروائی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی کچھ غیر مسلموں کی جانب سے ایسی کوششیں کی گئی ہے۔
اس میں سب سے زیادہ نام پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک پروفیسر کا سامنے آرہا ہے جن کا ایک کالم اس وقت انٹرنیٹ پر گردش کر رہا ہے۔ موصوف نے کچھ مستشرقین اور برصغیر کے ایک مورخ ڈاکٹر محمد عزیر کی دو جلدوں پر مشتمل ’دولتِ عثمانیہ‘کی کتاب کو اپنے مدعی کا مرجع و ماخذ بنایا ہے۔
اب آئیے قدیم مسلمان مورخین کی جانب:-۔
دمشق کے ثقہ عالم ِدین، قاضی اور مورخ شیخ احمد بن یوسف قرمانی رحمہ اللہ، جن کی وفات 1019ھ بمطابق 1610ء میں ہوئی، وہ اپنی کتاب "اخبار الدول و آثار الاول فی التاریخ” (ج 3، ص: 6-7) پر سلیمان شاہ کا ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے سلطان علاء الدین سے مل کر تاتاری اور دیگر کفار کے خلاف لڑائی کی اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ارطغرل نے اسی طرح سلطان علاء الدین کے ساتھ مل کر کفار کے خلاف جہاد کیا اور کئی علاقے فتح کیے یہاں تک اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے ہی وفات پائی۔ جب سلطان کو ان کی وفات کا علم ہوا تو سلطان علاء الدین نے افسوس کا اظہار کیا اور ان کے بیٹے عثمان کو ان کی جگہ مقرر کیا۔
یہاں احمد قرمانی، ارطغرل کو کفار کے خلاف جہاد کرنے والا، مالِ غنیمت حاصل کرنے والا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہونے والا کہہ رہے ہیں جو ان کے نزدیک ارطغرل کے نہ صرف مسلمان ہونے کی دلیل ہے بلکہ ایک نیک صالح مجاہد ہونے کی بھی دلیل ہے۔
اسی طرح معروف مصری مورخ محمد بن محمد بن أبى السرور الصدیقی (المتوفی: 1650ء) اپنی کتاب "المنح الرحمانیة فی الدولة العثمانیة” میں لکھتے ہیں کہ سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھے جن میں سے دو نے عجم کا رخ کر لیا اور دو سلطان علاء الدین کے پاس آ کر ان سے اجازت مانگ کر ان کے علاقے میں رہنے گے، نیز ان کی اجازت سے کفار کے خلاف جہاد کرنے میں مصروف ہوگئے یہاں تک کہ اسی مصروفیت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے بھی ارطغرل کے لیےجہاد اور کفار کے خلاف جنگوں کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
اسی طرح ایک تونسی مورخ حسین خوجة (1165ھ) نے اپنی کتاب "بشائر اهل الايمان بفتوحات اٰل عثمان” میں ارطغرل کا ایسا ہی تذکرہ کیا ہے۔
جس سے ثابت ہوا کہ ارطغرل رحمہ اللہ کو مسلمان مورخین نے جن کا تعلق بھی مختلف علاقوں سے تھا، انھوں نے ارطغرل کو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا نیک مسلمان بتایا ہے۔ نیز کچھ قرائن جیسے:۔
اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھنا، مسلمانوں کے ساتھ مل کر مسلسل تاتاریوں سے اور صلیبی کفار سے لڑکر مختلف علاقہ جات آزاد کروانا، ان کے بیٹے کا اسلامی ریاست قائم کرنا اور اپنی باپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی سلطنت کے سکوں پر ان کا نام نقش کروانا۔
ارطغرل آج تک غازی ارطغرل کے نام سے معروف ہیں اور ان کا مقبرہ بھی معروف ہے۔
یہ سب ثابت کرتا ہے ہے کہ ارطغرل ایک عظیم مجاہد تھے۔ جن کے بیٹے نے ان سے متاثر ہو کر باقاعدہ اسلامی سلطنت کا قیام کیا اور اپنے والد کو یاد رکھنے کے لیے ان کا ذکر تمام کرنسی پر عام کر دیا۔ نیز تواتر سے مختلف اسلامی ادیب اور مورخین کے ہاں ارطغرل کو ایک نیک مرد مجاہد کے نام سے ہی یاد کیا جاتا رہا ہے۔ ماضی قریب کے بعض اردو مضامین جن میں ارطغرل رحمہ اللہ کا تذکرہ ہے اس میں بھی انھیں ذکر خیر سے ہی یاد کیا گیا ہے۔
ارطغرل کے مسلمان نہ ہونے کا شوشہ سب سے پہلے ایک امریکی جرنلسٹ
Herbert Adams Gibbons
نے اپنی کتاب
"Foundation of the Ottoman empire”
میں چھوڑا پھر اس کو تقویت
"Cambridge History of Turkey”
نامی کتاب میں دی گئی جس کی طباعت غالباً 2006ء میں ہوئی ہے۔
اور برصغیر کے ایک مسلمان مورخ ڈاکٹر محمد عزیر نے اپنی کتاب "دولتِ عثمانیہ” میں اس طرح کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ یہ کتاب تقریباً 1358ھ بمطابق 1939ء میں لکھی گئی اور افسوس کے ساتھ اس میں بھی امریکی جرنلسٹ
Herbert Adams Gibbons
کے پراپیگنڈے کو دہرایا گیا اور تحقیق سے کام نہیں لیا گیا۔ یاد رہے
Herbert Adams Gibbons
ایک متعصب مصنف ہے جس کا متعصبانہ اسلوب اس کی تحریر میں نمایاں ہے۔ اس نے سلطنت عثمانیہ پر بہت سے الزامات بھی لگائے ہیں۔ جن کی تردید مختلف اوقات میں اہل ترک کی جانب سی کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ قدیم مسلمان مورخین جن کی تاریخ ان سے قبل لکھی گئی ہے اور خود ترکوں کے علمی ذخیرے میں ارطغرل کو مجاہدِ اسلام کی حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے۔
اگر آپ لبرل نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ کو ارطغرل کی مقبولیت صرف اس لیے برداشت نہیں ہو رہی کہ آپ کسی طبقے کی محبت میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں تو یاد رکھیے کہ کسی بھی مسلمان کو کافر ثابت کرنا آپ کی عاقبت برباد کر سکتا ہے۔ نیز آپ کی طیب اردگان سے سیاسی اختلاف میں دولتِ عثمانیہ کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ تو مسلمانوں کی مشترکہ میراث اور اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔