الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
روایت:۔
عن کعب قال: "یوشک أن یزیح البحر الشرقی حتی لا یجری فیہ سفینۃ، وحتی لا یجوز أھل قریۃ الی قریۃ، وذٰلك عند الملاحم، وذٰلك عند خروج المھدی۔”۔
تخریج:۔
۔(1) السنن الواردۃ فی الفتن (رقم: 494)۔
ترجمہ:۔
قریب ہے کہ بحر شرقی کی ناکہ بندی کر دی جائے حتیٰ کہ اس میں کوئی جہاز نہ چلے اور یہاں تک کہ ایک بستی والوں کو دوسری بستی نہ جانے دیا جائے۔ اور یہ ملاحم (جنگوں) کے قریب ہو گا اور خروجِ مہدی کے قریب۔
تعارف کتاب و مصنف:۔
اس روایت پر تفصیلی کلام سے پہلے مناسب ہے کہ جس کتاب میں یہ روایت پیش کی گئی ہے اس کا اور اس کے مصنف کا اختصار کے ساتھ تعارف کرا دیا جائے، کیوں کہ یہ کتاب اور مصنف عوام الناس میں معروف نہیں۔ کتاب کے فاضل مصنف امام ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی اندلس کے مشہور محدث، مفسر اور ماہر قرأۃ تھے۔ 371ھ میں قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ فن قرأت پر متعدد کتابیں لکھیں۔ احادیث فتن پر ایک اہم مجموعہ "السنن الواردۃ فی الفتن وغوائلھا والساعۃ وأشراطھا” تیار کیا۔ یہ مجموعہ حدیث انتہائی اہم اور نادر معلومات پر محتوی ہے۔ مصنف اپنی سند سے احادیث کو روایت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارک پوری کی تحقیق سے یہ اہم کتاب دار العاصمہ ریاض سے طبع ہو چکی ہے۔ امام ذہبی، ابن بشکوال، امام ابن الجوزی وغیرہم نے ان کے علم و فضل کی تعریف کی ہے۔ امام ابو عمرو الدانی کی وفات 15 شوال 444ھ کو ہوئی۔
حکم الروایۃ:۔
فنی اعتبار سے یہ روایت مقطوع ہے، مقطوع اصطلاح حدیث میں ایسی روایت کو کہتے ہیں جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی تک پہنچتا ہو۔ اصطلاح میں ہم اسے حدیث نہیں کہہ سکتے۔ عصر کے معروف عالم و محدث ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی اپنی کتاب "معجم مصطلحات الحدیث ولطائف الأسانید” میں مقطوع روایات کے حکم سے متعلق لکھتے ہیں:-۔
۔”أنہ لا یحتج بہ، الا أنہ یستأنس بقول أھل العلم من التابعین وأتباعھم، لأنھم کانوا فی القرون المشھود لھا بالخیر، اذا أخبروا بشیء ولم یکن معارضاً بالمرفوع، أو بقول الصحابی، قُدّم علی رأی الآخرین۔” (ص: 454)۔
۔”مقطوع روایات حجت نہیں ہیں، تاہم یہ اہل علم میں تابعین اور ان کے پیروکاروں کے اقوال پر مشتمل ہے۔ بلاشبہہ یہ لوگ خیر القرون سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب ان کی خبر کسی مرفوع حدیث یا قولِ صحابی کے خلاف نہ ہو تو ان کی بات دوسروں کی بات سے افضل قرار پائے گی۔”۔
ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری جنھوں نے "السنن الواردۃ فی الفتن”کی تحقیق کی ہے، وہ اس روایت سے متعلق لکھتے ہیں:-۔
۔”ھو مقطوع من کلام کعب الأحبار، واسنادہ الیہ حسن۔” (السنن الواردۃ فی الفتن: 934)۔
"یہ کعب الاحبار کی مقطوع روایت ہے۔ جس کی سند ان تک حسن درجے کی ہے۔”
کعب الأحبار:۔
ابو اسحاق کعب بن مانع حمیری، یمن کے مشہور حمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھےا۔ کعب کا شمار طبقہ اول کے تابعین عظام میں ہوتا ہے۔ وہ مخضرمین میں سے ہیں۔ مخضرم اسے کہتے ہیں جس نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ رسالت دونوں پایا ہو مگر قبول اسلام کی سعادت اسے زمانہ رسالت کے بعد ملی ہو۔ قبولِ اسلام سے قبل کعب یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور تورات کے بہت بڑے عالم تھے۔ قبول اسلام کے بعد بھی وہ کثرت سے اسرائیلیات بیان کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ انھیں احبار کے لقب سے متصف کیا جاتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق کعب نے زمانہ رسالت یا عہد صدیقی میں اسلام قبول کیا لیکن یہ روایات درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انھوں نے عہدِ فاروقی کے اوائل میں اسلام قبول کیا۔ امام محمد بن سعد نے "الطبقات الکبریٰ” میں مشہور تابعی سعید بن مسیب کا قول کا نقل کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کعب سے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو عہدِ رسالت یا عہدِ صدیقی میں اسلام قبول کرنے سے روکے رکھا حتیٰ کہ آپ اب عہد فاروقی میں اسلام لائے ؟ کعب نے کہا کہ میرے والد نے مجھے تورات میں سے کچھ نقل کر کے دے دیا تھا اور کہا کہ اسی پر اپنا عمل رکھو اور بقیہ تمام کتابوں پر مہر لگا دی اور مجھ سے عہد لیا کہ میں یہ مہر نہ توڑوں اور کہا کہ تم پر میرا یہ حق ہے اسے ضائع نہ کرنا۔ پھر جب میں نے اسلام کی ایسی ترقی دیکھی تو میرے دل میں خیال آیا کہ شاید میرے والد نے مجھ سے علم چھپایا ہے اور اس پر پردہ ڈالا ہے کاش میں مہر توڑ کر ان کتابوں کو دیکھ لوں۔ چنانچہ میں نے مہر توڑ دی اور کتابوں کا مطالعہ کیا تو ان میں نبی کریم ﷺ اور ان کی امت کی صفت پائی اسی لیے فوراً مسلمان ہو گیا۔ (جلد 9، ص: 449)۔
کعب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں یمن سے مدینہ تشریف لائے۔ شہادت فاروقی کے بعد وہ شام چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے بہت گہرے تعلقات تھے۔ تمام اکابر صحابہ ان کی عزت کرتے تھے۔ انھوں نے صحابہ کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد کعب الاحبار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اخذِ علم کیا۔ وہ عموماً مرسلاً احادیث روایت کرتے ہیں۔ خود ان سے کبار صحابہ مثلاً حضرت معاویہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھم اور کبار تابعین مثلاً مالک بن ابی عامر اصبحی (امام مالک کے دادا بزرگوار)، عطاء بن ابی رباح وغیرہم نے اسرائیلیات کو روایت کیا ہے۔ (تھذیب التہذیب: جلد 8، ص: 438)۔
صحیح بخاری میں کعب سے متعلق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول موجود ہے:-۔
۔”ان کان من أصدق ھؤلاء المحدثین الذین یحدثون عن أھل الکتاب، و ان کنا مع ذلک لنبلو علیہ الکذب۔” (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ،باب: قول النبی لا تسألوا أھل الکتاب عن شیء)۔
"اہل کتاب سے روایت کرنے والے لوگوں میں کعب سب سے سچے ہیں، باوجویکہ کبھی ان کی بات غلط بھی نکلتی ہے۔”
مطلب یہ کہ کعب خود سچے راوی ہیں، لیکن جیسا کہ اہل کتاب کی کتابوں میں کئی غلط باتیں بھی ہیں اس لیے کعب جو بیان کرتے ہیں ان میں کچھ غلط بھی نکل جاتا ہے۔
کعب سے ایسی کئی روایات بھی ہیں جن میں انھوں نے تورات سے اسلام کی صداقت پر استدلال کیا ہے۔ کثرت سے اسرائیلیات کو بیان کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تفسیر میں اسرائیلیات کا کافی ذخیرہ شامل ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محققین ان کی روایات کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ لیکن تمام نقاد محدثین نے انھیں ثقہ راوی تسلیم کیا ہے اور ان کی دیانت کی تعریف کی ہے یہی وجہ ہے کہ ضعفاء کے حالات پر لکھی گئی کتابوں میں کعب الاحبار کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
مستشرقین نے یہ مفروضہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ کعب الاحبار کو وہی حیثیت حاصل ہے جو سینٹ پال کو عیسائیت میں ہے۔ اس مفروضے کو استشراق زدہ اور انکارِ حدیث کا رجحان رکھنے والوں نے قبول کیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ مفروضہ مستشرقین کے احساس کہتری کا شاخسانہ ہے جس کی وجہ سے انھوں نے محض ایک سازشی نظریہ پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کعب الاحبار کی بیان کردہ اسرائیلیات کو دین اسلام میں عقیدے کی جگہ حاصل نہیں ہے۔ اسرائیلیات کے باب میں عدم تصدیق و تکذیب کے نبوی منہج کو محققین و محدثین نے تسلیم کیا اور اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔
کعب الاحبار کی وفات حمص (شام) میں معروف روایات کے مطابق 32ھ میں ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 104 برس تھی۔
تشریح:۔
جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو اس کا متن واضح ہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے نہیں۔ اس کا تعلق اخبارِ مستقبلہ سے ہے اور جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے تصریح کی ہے کہ عموماً کعب رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو مرسلاً روایت کیا کرتے تھے۔ گزشتہ مذہب کی علمی روایات کا اثر ان میں باقی تھا۔ یہی وجہ رہی کہ وہ روایات کو بیان کرنے میں اسناد پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ یہ روایت مقطوع ہے اور اس کا سلسلہ سند کعب الاحبار تک پہنچتا ہے لیکن ان تک یہ روایت بسند حسن پہنچتی ہے اور جیسا کہ اصولِ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے کہ تابعی کا قول اگر صحیح حدیث اور اقوالِ صحابہ کے خلاف نہ ہو تو لائق التفات ہے۔
موجودہ دور میں یہ روایت کئی اعتبار سے چشم کشا واقع ہوئی ہے۔ اس روایت میں موجودہ حالات کا عکس غیر معمولی طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ واقعات کا صحیح علم اللہ ہی کو ہے اور یقیناً اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم تاریخ انسانی کے کون سے پڑاؤ پر ہیں۔ لیکن ایک بستی والوں کو دوسری بستی نہ جانے دیا جائے یعنی لاک ڈائون کی عملی تصویر کشی ہے۔ لاک ڈائون انسانی تاریخ کا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ جس کی قبل ازیں کوئی نظیر نہیں تھی۔ یہ بات عموماً حاشیہ خیال میں بھی نہ تھی کہ کبھی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ پوری دنیا عملاً قید (لاک ڈائون) کا شکار ہو جائے گی۔ لاک ڈائون نے انسانی تاریخ اور انسانی فکر و نظر کے زاویے کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اربوں کھربوں روپے محض چند دنوں میں مٹی ہو گئے ہیں جس نے عالمی تجارتی مراکز میں کساد بازاری کو پروان چڑھا دیا ہے۔
روایت کے مطابق یہ واقعہ اس زمانے میں ہوگا جب ملاحم (جنگوں) کا آغاز قریب ہوگا۔ اگر ہم پورے شعور و اذعان کے ساتھ دنیا پر نظر ڈالیں اور اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھیں کہ احادیث فتن کے ذخیرے میں ملاحم سے مراد خاص اسلامی دنیا پر برپا ہونے والی جنگیں ہیں، تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت اسلامی دنیا حالتِ جنگ ہی میں ہے۔ شام، فلسطین، لبنان، عراق، ترکی، سعودی عرب، یمن، کشمیر، افغانستان وغیرہا اسلامی ممالک حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہندوستان میں بیس کڑوڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں اور آج وہ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ کسی طرح بھی حالتِ جنگ سے کم نہیں۔ ہندوستانی مسلمان اپنی بقا اور شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فی الحال یہ جنگیں اپنے اپنے خطوں تک محدود ہیں۔ لیکن کسی بھی وقت ان کا دائرہ غیر معمولی حد تک بڑھ سکتا ہے۔
سازشی نظریات کا ابلاغ مناسب نہیں لیکن انھیں یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ یہ عالمی سازش کار ہی ہیں جو جنگوں کی آگ کو بھڑکاتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کس طرح رونما ہوئی اور اس نے انسانی دنیا پر کیسے اثرات مرتب کیے۔ تاریخ و سیاست کے طالب علم سے مخفی نہیں۔
حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ جریدے دی اکانومسٹ نے اپنے مطبوعہ رسائل کے جو سرورق شائع کیے وہ بہت معنی خیز ہیں۔ ان میں بھی یہ پوشیدہ اشارہ ملتا ہے کہ 2020ء جنگوں کا سال ہوگا۔ 2020ء جنگوں کا سال ہو یا نہ ہو لیکن عالم اسلام پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے کسی بھی طرح صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملاحم (جنگوں) کے آغاز کے بعد امام مہدی کا خروج ہوگا۔ اور یہ بات ایسی ہے جو صحیح احادیث کے مخالف نہیں بل کہ ان کے مطابق ہے۔
حاصل کلام:۔
روایت سے حسبِ ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں:-۔
۔(1) ایک وقت ایسا آئے گا کہ بحری راستوں کی ناکہ بندی کر دی جائے گی، حتیٰ کہ اس میں کوئی جہاز نہ چلے گا۔
۔(2) ایک بستی (ملک) والوں کو دوسری بستی (ملک) میں نہ جانے دیا جائے گا۔ موجودہ لاک ڈاؤن نے اس مفہوم کو مزید واضح کر دیا ہے۔ جب ایک ملک کے اندر ہی عام آدمی کے لیے آمد و رفت آسان نہیں رہی۔
۔(3) یہ واقعات قرب قیامت میں ہونے والی عظیم جنگوں کے قبل واقع ہوں گے۔
۔(4) ان ہی جنگوں سے متصل (دوران) یا کسی بڑی جنگ کے فوراً بعد امام مہدی کا ظہور ہوگا۔