الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ
از قلم : ابو عمار سلیم
سالِ رواں چین سے نکلنے والے کورونا وائرس کے خوف نے ساری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس وائرس میں مبتلا ہوئے اور چند دنوں کے اندر اس سے ہونے والی ہلاکتوں نے نہ صرف چین بلکہ تمام دنیا کو ایک ان دیکھے خوف میں جکڑ لیا۔ اس وائرس کا نہ تو کوئی توڑ دریافت ہوا ہے اور نہ ہی اس سے بچنے کی کوئی صاف اور واضح طبی ہدایات ہیں۔ نتیجہ کے طور پر جو لوگ اس میں گرفتار ہوئے ان کو تو اپنی موت کا یقین کامل ہو گیا اور جن لوگوں کو اس نے ابھی نہیں پکڑا وہ بھی موت کے خوف سے لرزاں و ترساں ہیں۔ تمام دنیا نے چین سے اپنا رابطہ منقطع کر لیا اور چین کے قریب کے ممالک اس افتاد کے اپنے ملک میں در آنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں مگر جلد اس وائرس نے نہ صرف چین کے قریبی ممالک بلکہ پوری دنیا کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی یہ وائرس آ گیا ہے۔ فی الوقت اس کی دریافت ایران سے آنے والے کسی شخص کے حوالہ سے ہے۔ حیرت انگیز طور پر بہت ہی کم دنوں میں یہ وائرس پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل گیا ہے۔ پاکستان میں تو اسباب اور وسائل پہلے ہی سے کمیاب ہیں اور اس ابتلا سے بچنے کے لیے جو کچھ احتیاطی تدابیر کرنے کی ضرورت ہے وہ یقیناً بہت ہی محدود ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اللہ نہ کرے، یہ بلا اسی تیز رفتاری سے ہمارے یہاں پھیلتی گئی تو اس کے نقصانات کا اندازہ بھی لگانا بہت مشکل ہو گا۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہم اپنی پرانی روایات کے مد نظر اللہ کی طرف متوجہ ہونے لگے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمان اللہ کو عام حالات میں یاد کریں یا نہ کریں مگر مشکل وقت میں ہمیں صرف اللہ ہی یاد آتا ہے اور اس کو ہی پکارتے ہیں اور آہ و زاری کرتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر سوشل میڈیا پر بھانت بھانت قسم کی دعائیں اور اس بلا سے نمٹنے کے لیے قرآن پاک کی آیات آ گئیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان دعائوں اور آیات کلام پاک میں کوئی اثر نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ہر چیز سے بچائو اور ہر بیماری سے شفا کا ایک معاملہ ضرور رکھا ہے۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان دعائوں اور آیات شفا کے پڑھنے سے اثر اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب اس کے پڑھنے والے اور دعائیں مانگنے والے ہمیشہ اللہ کی رضا کے طالب ہوں اور اللہ اور اس کی مرضیات کو اپنی زندگی میں شامل رکھیں۔ تمام زندگی اللہ کی نا فرمانی کرنے والے آخر وقت میں اگر کہیں بھی کہ میں اللہ پر ایمان لایا تو اللہ اس وقت نہیں سنتا اور اپنا فیصلہ مقدر کر دیتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت بھی ہے۔
اللہ رب کائنات ہے۔ اسی نے تمام جن و انس کو خلق کیا ہے۔ اتنی بے کراں کائنات جس کا ابھی تک کوئی آخری سرا دریافت نہیں ہوا اور نہ ہی اجسام فلکی کی کوئی حدمعلوم ہوئی ہے، نہ کائنات کے انتظام و انصرام کا کوئی فارمولا ہاتھ آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سلطنت اور اس کی طاقتوں کی نشاندہی کر سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک اللہ نے ہی اس تمام نظام ہستی کو وجود دیا ہے اور وہ خود اکیلا ہی ان تمام معاملات کو چلا رہا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری دنیاوی حکومتوں کو چلانے کے لیے حکومتی سطح پر کچھ ایجنسیاں اور ادارے قائم کیے جاتے ہیں جو احکام کی بجا آوری اور عوام کو فائدے پہنچانے یا ان کو قابو میں رکھنے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج ہوتی ہے تو اندرونی معاملات میں امن و امان قائم کرنے کے لیے پولیس وغیرہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سلطنت میں اللہ کی ہدایات کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے رسولوں اور نبیوں کا سلسلہ قائم کیا گیا ہے، اور سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد علماء و مشائخ کے ذمہ وقتاً فوقتاً وعظ و پند کے ذریعہ لوگوں کو سیدھے راستہ پر رکھنے کا سلسلہ اپنا کام کر رہا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے باغیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنی فوجیں بھی ترتیب دے رکھی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی باغیوں سے جنگ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے جہاد و جنگ کا نظام ترتیب دیا ہے۔ انسان کی تاریخ تو اس کائنات کی تاریخ میں صرف دوچار سیکنڈوں کے برابر ہے۔ انسانوں سے پہلے اس دھرتی پر جن آباد تھے اور ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب ان جنوں نے سرکشی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکوبی کے لیے فرشتوں اور نیک مسلمان جنوں سے کام لیا۔ ہماری معلومات تو بہت ہی واجبی ہیں اور اللہ کی کائنات بہت عظیم ہے۔ واللہ اعلم اس کائنات میں اور کتنی مخلوقات ہیں اور ان کے کیا مسائل ہیں اور ان کو قابو میں رکھنے کے لیے اللہ نے کیا انتظامات کر رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم نہ جان سکتے ہیں اور نہ ہمیں شائد ان کو جاننے کی ضرورت ہے۔ مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو نہ سرکشی پسند ہے اور نہ ہی وہ اپنی ذات میں کسی قسم کا شرک برداشت کرتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف دنیا میں بھی سزا دینے کا فیصلہ کرکے ان دشمنوں کو برباد کر دیتا ہے بلکہ موت کے بعد سزا کا نظام بھی قائم کر رکھا ہے اور اس سے ڈرانے کی ہدایات بھی دے رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قوت اور عظمت اور اس کے اختیارات کا ہمارے وہم و گمان میں بھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی فوجوں کا ایک نظام قائم کیا ہوا ہے اور اللہ نے خود اپنے کلام پاک میں سورۃ المدثر کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرمایا:-۔
وَمَا يَعْلَمُ جُنُـوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ
"اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔”
ہم نے اس قرآنی آیت سے یہ جانا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک خاص فوجی نظام بنایا ہوا ہے اور اس کی اس فوج کا انتظام و انصرام کیا ہے اور وہ کتنی تعداد میں ہیں اور وہ کب استعمال میں آتی ہیں، یہ ہمارے دائرہ علم سے باہر ہے۔ مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ اپنے اختیارات کے ذریعہ اپنے کسی دشمن کو سزا دینے کی خاطر اپنی ان نادیدہ فوجوں کو استعمال کرتا ہے اور باغیوں کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ دیکھیں کہ قوم لوط یا قوم عاد و ثمود یا اور دیگر اقوام جن کی سزا کا قرآن پاک میں ذکر ملتا ہے ان میں سے کسی پر کسی انسانی لشکر نے نہ حملہ کیا نہ ان کی زمینوں کو تاخت و تاراج کیا گیا بلکہ اللہ کی ایک فوج ہوا کی شکل میں آئی اور فتح یاب ہوئی یا پھر آسمان سے پتھروں کی شکل میں ایک فوج آئی اور اللہ کے نا فرمانوں کو ملیا میٹ کر گئی۔ پومپائی میں آتش فشاں پھٹا اور دھوئیں اور آگ نے پوری کی پوری باغی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ پانی اور دریا کی روانی کی طاقت نے جہاں قوم موسیٰ علیہ السلام کو پار اترنے دیا وہیں قوم فرعون کو ڈبو کر غرق کر دیا۔ قوم نوح علیہ السلام کو ان کی نا فرمانی کی سزا پانی برسا کر اور زمین سے پانی نکال کر غرق کر کے دیا گیا۔ بلکہ آپ کی توجہ اس امر کی طرف بھی کرانا چاہتا ہوں کہ آخر الزماں کی احادیث میں آیا ہے کہ جب یاجوج ماجوج کی شورش حد سے بڑھ جائے گی اور اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اپنی فوجوں کو لے کر کوہ طور پر پناہ گزیں ہو کر اللہ سے ان کی ہلاکت کی مناجات کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کے کانوں کے پیچھے ایک کیڑا پیدا کر دیں گے جو ان کا راتوں رات صفایا کر دے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کیڑا بھی تو اللہ کی فوج ہی ہوگی۔ الغرض انسانی تاریخ میں بے شمار واقعات ایسے ہیں جہاں اللہ رب العزت نے اپنے دشمنوں سے خود اپنی فوجوں کے ذریعہ سے نمٹا جن کا ان کے وقت کے باغیوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ اللہ نہ تو کسی کا محتاج ہے اور نہ اس کے پاس فوجوں اور طاقتوں کی کمی ہے۔ ہمارے اور آپ کے جسموں کے اندر کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جو کسی بھی وقت ہمارے اور آپ کے خلاف اللہ کے حکم سے رخنہ ڈال سکتی ہیں اور ہمیں ناکوں چنے بھی چبوا سکتی ہیں اورہمیں ہلاکت میں بھی ڈال سکتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا مچھر نمرود مردود کی ناک میں گھس کر اس کی موت کا سبب بن گیا۔ اسی طرح کی بہت سی ایسی معمولی چیزیں بھی اللہ کے حکم سے ایسی تباہی پھیلا سکتی ہیں جن کا انسان وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا۔
ایک اس کرونا وائرس کا کیا تذکرہ، اس سے پہلے بھی دنیا میں کتنے قسم کے وائرس اور تباہی پھیلانے والے جراثیم بھیجے گئے۔ طاعون کی وبا تو بہت پرانی ہے اور انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ بیماری بھی انتہائی چھوٹے جرثومہ سے پھیلتی ہے اور یہ جرثومہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں ایک وبا انفلوئنزا کی آئی اور پوری دنیا میں اس کے جراثیم نے بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ابھی پچھلے عشرہ دو عشرہ قبل افریقہ میں پھیلنے والی وبا ایبولا نے پوری دنیا میں سنسنی پھیلائی اور لوگ موت کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ڈینگی کی وبا ہو یا ملیریا بخار، ٹائیفائڈ ہو یا اور کوئی دوسری متعدی بیماری سب کے آگے انسان بے بس نظر آتا ہے۔ بڑی مشکلوں اور کافی نقصان کے بعد ان وبائوں کا توڑ ملتا ہے مگر اس وقت تک کافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے اور ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے دیکھیں کہ انسان کے اپنے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو نظام تخلیق کیا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہی ایک متعین انداز میں چل رہا ہے اور اللہ کے حکم سے ہی اس کے اندر اگر کوئی معمولی سی خرابی پیدا ہو جائے تو انسان کی جان جا سکتی ہے۔ کوئی اگر تفصیلات میں جانا چاہے تو ان وبائوں کی پوری تاریخ انٹر نیٹ پر مل جاتی ہے۔ ان تمام وبائوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دیتی ہے اور وہ ہے ان میں انتہائی معمولی اور چھوٹے جرثوموں کی موجودگی جن کو ہم انسانی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ ان کا حملہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ان کے آنے کی آواز ہی آتی ہے۔ بس معمولی نزلہ زکام کھانسی اور بخار کی کیفیت کے بعد لوگ دھڑا دھڑ اوپر پہنچا دیے جاتے ہیں۔ تو کیا ہم ان جرثوموں کو اللہ کی فوج کا نام نہ دیں۔ ایسی فوج جو اللہ کے لیے اللہ کے نا فرمانوں کے خلاف حملہ آور ہو اور حضرت انسان کے پاس نہ ہی ان کا توڑ ہو اور نہ ان سے بچنے کی کوئی تدبیر۔
اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے اور وہ ہم سے بڑی محبت کرتا ہے۔ ہماری غلطیوں کو بار بار معاف کرتا ہے اور ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اس کی طرف رجوع کریں، توبہ کریں، معافی مانگیں اور اس کی رحمتوں سے بہرہ اندوز ہوں۔ مگر انسان بھی بڑا ہی سرکش اور ضدی ہے۔ شیطان کے بہکاوے میں فوراً آ جاتا ہے اور اللہ کی نا فرمانی کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ اور جب انسان کی سرکشی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کی پکڑ آتی ہے اور انسان انتہائی بے بسی اور بے چارگی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس وبا کی ابتدا ہوئی تو چین سے ہوئی ہے۔ شائد یہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی گرفت ہو اس لیے کہ چین والوں نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا ہے۔ پاکستان کے تو وہ مربی اور بڑے بھائی بنے ہوئے ہیں اور پاکستانی لوگوں کی ہمت نہیں ہے کہ ان کے خلاف آواز بلند کریں کہ مسلمانوں پر ظلم بند کرو۔ امت مسلمہ بھی اور خصوصی طور پر عالم اسلامی کی تنظیمیں بھی دم سادھے بیٹھی ہوئی ہیں۔ تو کیا ان مظلوم مسلمانوں کی آوازیں اللہ تعالیٰ بھی نہیں سنے گا۔ مظلوموں کی آہیں آخر رنگ تو لائیں گی۔ انھوں نے چند ہزار مسلمانوں کو محصور کر رکھا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس وبا کے ذریعہ ان کے پانچ صوبوں کے لاکھوں افراد کو قرنطینہ میں تبدیل کر دیا۔ چین سے آنے والی تصویریں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس وبا اور اس کے ذریعہ ہونے والی اموات نے لوگوں کو کس قدر خوف زدہ کر رکھا ہے۔ ماسک مل نہیں رہے تو لوگوں نے کس طرح پانی کی بڑی بوتلیں سروں پر منڈھ لی ہیں۔ کیا کیا جتن کیے جا رہے ہیں۔ کسی نے اپنے پورے جسم پر پلاسٹک کا بیگ لپیٹ رکھا ہے تو کوئی چلتا پھرتا پلاسٹک کا خیمہ بنا ہوا ہے۔ العیاذ باللہ۔ کیا خوف ہے۔
اس وبا کا آغاز چین سے ہوا اور جلد ہی اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب اس کا خوف پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ ہے تو پھر وہ تمام ممالک جو اللہ کی سرکشی میں مبتلا ہیں، خواہ اللہ کی نا فرمانی اور اس کے احکامات نہ مان کر یا مظلوموں پر بے جا ظلم کرکے تو ان سبھوں پر یہ وبا ضرور آئے گی اور ان لوگوں پر بھی جو اس ظلم و نا انصافی پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ کشمیر کے مسلمانوں اور ہندوستان میں اللہ کا نام لینے والوں پر جو آفت ڈھائی جا رہی ہے کیا وہ اللہ کی گرفت میں نہیں آئے گی ؟
میں اپنے قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اس وبا سے محفوظ ہے تو یہ وقت دوسروں پر ہنسنے یا ان پر افسوس کرنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کا اور اپنا جائزہ لینے کا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے عافیت میں رکھا ہوا ہے۔ اپنے گناہوں کو ٹٹولا جائے، اس کے بارے میں غور کیا جائے، ان تمام گناہوں کی معافی مانگی جائے جو دانستہ یا نا دانستہ طور پر سرزد ہوئے۔ تمام غلط کاموں کو چھوڑ دیا جائے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی کوشش کی جائے۔ وہ تمام برائیاں جن میں ہم من حیث القوم مبتلا ہیں اللہ کے واسطے ان کی طرف توجہ کیجیے اور ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کیجیے۔ ہماری سب سی بڑی بیماری اور ہماری طرف سے اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بغاوت کا ایک کوہ گراں جو کھڑا ہوا ہے وہ ہے سود کی لعنت۔ ہمارا پورا نظام معیشت اور تجارت سود کے اصولوں پر بنایا گیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ سود اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے برابر ہے۔ ہماری خام خیالی ہے کہ اس جنگ میں جیت ہماری ہوگی۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ چیلنج ہے کہ جیت صرف اس کی اور اس کے رسولوں کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-۔
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْ ۚ (المجادلۃ: 21)۔
یعنی: "جیت آخر کار میری اور میرے رسولوں کی ہوگی۔” ۔
ہمارا اس پر ایمان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان مجبور محض ہے، کمزور ہے اور ناتواں ہے۔ ہماری کوئی چال اللہ کی چال کے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔ تاریخ انسانی نے بارہا یہ مشاہدہ کیا ہے کہ کافروں اور نا فرمانوں نے بھی پلان بنایا اور اپنی چال چلی مگر ان کی چال کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی اس لیے کہ اللہ ہی بہترین پلان بنانے والاہے اور اس کی چال کبھی بھی ناکام نہیں ہوتی۔ ہمیں اللہ کی طاقتوں کا علم ہی نہیں ہے۔ ہم دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں۔ مسلمانو! ہوش میں آئو۔ اپنے تمام غلط معاملات کو چھوڑو۔ سود سے باز آ جائو، کاروبار میں بے ایمانی اور جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کرو اور اپنا کاروبار صحیح اسلامی اصولوں پر استوار کرلو۔ اللہ کے حقوق بھی ادا کرو اور نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی پابندی کرو۔ اور اس کے ساتھ ہی حقوق العباد کی طرف بھی توجہ کرو۔ معاشرہ میں ہر طرف رشوت، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور دھوکہ دہی عام ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے ہی گندے گناہ ہیں اور ان سے خلاصی صرف اللہ کے آگے توبہ کرنے سے نہیں ہوگی بلکہ جس کا نقصان کیا ہے اس کے معاف کرنے سے ہوگی۔ آج تو تم نے اپنے گھر کی خواتین کو دبا لیا اور ان کو ان کا حق وراثت نہیں دیا یا اس کی شادی قرآن سے کراکر اس کے دعوے مٹی میں دفن کر دیے یا اور کوئی بیجا ظلم کر لیا تو کیا یہ سب اللہ نے نہیں دیکھا اور کیا جس کے ساتھ تم نے ظلم کیا اللہ اس کا معبود نہیں ہے یا اس کی پکار نہیں سن رہا ہے۔ بھائیو! باز آ جائو۔ عقل کے ناخن لو۔ اپنے گناہوں کی طرف دیکھو اور ان گناہوں کی سزا سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو سدھارو۔ میرا یہ ایمان ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹا دیا جاتا ہے۔ اللہ کی طاقتیں اس کے خلاف بر سر پیکار ہوتی ہیں اور ظلم کو ملیا میٹ کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں خواب غفلت سے جاگنا چاہیے۔ ہم جو ظلم کر رہے ہیں ان کو چھوڑ دینا چاہیے اور اپنے راستے اللہ کے بتائے ہوئے راستوں سے بدل لینا چاہیے کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے۔ وگرنہ کرونا وائرس صرف چودہ دن لیتا ہے، اس کے بعد معاملہ اللہ کے سامنے پہنچا دیا جاتا ہے جہاں ہم جانتے ہیں کہ کوئی شنوائی نہیں ہوگی اور تمام معاملات کا حساب وہیں ہوگا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد عذاب اور اللہ کی ناراضگی کا جو باب شروع ہوگا وہ نہ جانے کس قدر شدید ہوگا۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے التجا ہے کہ اے مالک! ہم یقیناً بہت گناہ گار ہیں، آپ کے احکامات کی پامالی بڑے آرام سے کر لیتے ہیں، گردن گردن نا فرمانیوں میں ڈوبے ہیں، ہمارے دن و رات آپ کے بتائے ہوئے اصولوں کے بر خلاف گزرتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی میں ہماری طرف سے کوتاہی ہوتی ہے، آپ کے حقوق ادا نہیں کرتے اور آپ کے بندوں کے حقوق بھی مار لیتے ہیں۔ اے مالک! اگر آپ ہمیں سزا دیں تو میرے رب ہم آپ کے بندے ہیں اور آپ کا اختیار ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں مالک کہ آپ بڑے غفور و رحیم ہیں معاف کر دینے میں آپ اتنی دیر بھی نہیں لگاتے جتنی دیر ہم گناہ کرنے میں لگاتے ہیں۔ سو اے رب کریم! اے رحمان و رحیم! ہمیں معاف کر دیجیے۔ ہمیں سیدھی راہ پر آپ ہی ڈال دیجیے اور ہمیں اپنے غیظ و غضب سے آپ خود ہی محفوظ رکھیے۔ ہم نا فرمان ہو گئے ہیں مگر آپ کے پیارے رسول ﷺ کے امتی ہیں سو ان کے صدقے سے ہمیں معاف کر دیں اور ہمیں ہر بلا سے اور اپنے غصے سے محفوظ رکھیں۔ آمین یا رب العالمین۔