مشاہیر صدیقی


سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد و احفاد کا تذکرہ

الواقعۃ شمارہ: 96 – 97، جمادی الاول و جمادی الثانی 1441ھ

اشاعت خاص: سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

خانوادہ صدیق رضی اللہ عنہ

اہل بیتِ نبوی ﷺ کے بعد خانوادہ صدیق رضی اللہ عنہ کو اسلام میں خاص امتیازی مقام حاصل ہے، جس کی دوسری کوئی نظیر نہیں۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:-۔

٭ – حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی چار پشتوں نے اسلام قبول فرمایا۔ والد نے بھی اور والدہ نے بھی، یہ چار پشتیں بیٹے کی جانب سے بھی بنیں اور بیٹی کی جانب سے بھی۔ یعنی:-۔
حضرت محمد ابو عتیق بن عبد الرحمن بن ابی بکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنھم
حضرت عبد اللہ بن اسماء بنت ابی بکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم

٭- بعثتِ نبویﷺ کے وقت قریش مکہ کی دس بارہ بڑی شاخیں تھیں۔ہر شاخ نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت میں حصہ لیا۔ لیکن سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی شاخ بنو تیم بن مرہ کے کسی قابلِ ذکر شخص نے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں حصہ نہیں لیا۔

٭- مخالفت کے بر عکس قبولیت اسلام میں  قریش کا جو گھرانہ سب سے آگے تھا وہ بنو تیم بن مرہ کا گھرانہ تھا، جو اپنی عددی کمی کے باجود سبقتِ اسلام میں نمایاں وصف رکھتا ہے۔ قریش مکہ کا کوئی گھرانہ اس باب میں ان کا ہمسر نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور اعلانیہ قبول کیا۔ السابقون الاولون میں بنو تیم سے تعلق رکھنے والے افراد میں خانوادہ صدیقی سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، ان کی والدہ ام الخیر رضی اللہ عنہا، ان کی زوجہ ام رومان رضی اللہ عنہا، ان کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا، ان کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ، ان کی بہو عاتکہ رضی اللہ عنہا بنت زید (عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ)، ان کی بہنیں ام فروہ و قریبہ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ربیب اور ام رومان رضی اللہ عنہا کے فرزند طفیل رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت اسلام کے بعد ہوئی۔ اس کے علاوہ ان مولیٰ عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ بھی قدیم الاسلام تھے۔

بنو تیم کا دوسرا گھرانہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبید اللہ کا تھا، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوئے۔ یہ اسلام قبول کرنے والے پہلے آٹھ صحابہ میں سے ہیں۔ (الاصابۃ: 3/430، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ان کا خاندان متعدد افراد پر مشتمل تھا اور وہ سب کے سب مسلمان ہوئے۔ جن میں خاص طور سے ان کی والدہ صعبۃ رضی اللہ عنہا بنت الحضرمی بھی شامل تھیں۔(الاصابۃ: 8/208)۔

بنو تیم کا تیسرا قدیم الاسلام گھرانہ حارث رضی اللہ عنہ بن خالد بن صخر بن عامر تیمی، وہ اور ان کی اہلیہ ریطۃ رضی اللہ عنہا بنت حارث بن جبلہ مہاجرینِ حبشہ میں سے ہیں۔ ارضِ حبشہ میں ان کے ایک بیٹے موسیٰ اور تین بیٹیاں عائشہ، زینب اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔ (الاصابۃ: 1۔665)۔

بنو تیم کے ایک فرد عمرو رضی اللہ عنہ بن عثمان بھی تھے، یہ بھی حبشہ ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔ (الاصابۃ: 4/548) ۔

خانوادئہ بنو تیم بن مرہ کے ایک حلیف حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ بھی قدیم الاسلام صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم میں سے ایک ہیں۔

٭- حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تقدیرِ الٰہی نے جو عالی مرتبت داماد عطا کیے۔ اس کے شرف میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ سب سے پہلے شخصیت تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے جن کے عقد میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دوسرے داماد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام، اسماء رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔ تیسرے داماد طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبید اللہ[1]،  ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔ یہ دونوں داماد عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ ام کلثوم کی تزویج حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عبد الرحمن الاحول سے ہوئی۔ (کتاب المحبر)۔

٭- عشرہ مبشرہ میں سے تین افراد خانوادہ صدیق رضی اللہ عنہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ اور دو ان کے داماد زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام و طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبید اللہ۔ موخر الذکر بنی تیم ہی کے رکن تھے۔

٭- صحابیات مبشرات میں سے بھی تین کا تعلق خانوادہ صدیق رضی اللہ عنہ سے تھا۔ ایک ان کی زوجہ ام رومان اور دو بیٹیاں سیدہ عائشہ و سیدہ اسماء رضی اللہ عنھن۔

ازدواج

سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پانچ شادیاں کیں:۔

۔1- قتیلہ بن عبد العزیٰ: یہ مسلمان نہیں ہوئیں تھیں، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں چھوڑ دیا تھا۔ ان کے بطن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دو اولادیں ہوئیں: سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا اور سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ۔

۔2- اُم رومان رضی اللہ عنہا: ام رومان کنیت، نام و نسب زینب بنت عامر بن عويمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذينہ بن سبيع بن دھمان بن الحارث بن غنم بن مالک بن کنانہ ہے۔ السابقون الاولون میں سے ہیں۔ قبل از اسلام یہ عبد اللہ بن حارث بن سخبرۃ الازدی کے عقد میں تھیں۔ عبد اللہ بن حارث مکہ آ کر بس گئے تھے اور یہاں وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حلیف بن گئے تھے۔ عبد اللہ بن حارث سے ام رومان رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے طفیل رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔[2] قبل از اسلام ہی عبد اللہ بن حارث کی وفات ہوئی۔ جس کے بعد ام رومان رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں۔ ام رومان رضی اللہ عنہا سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہوئیں۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے 6ھ میں وفات پائی۔ ان کی قبر میں رسول اللہ ﷺ خود اترے اور ان کی مغفرت کی دعا کی اور ایک روایت کے مطابق اس موقع پر ارشاد فرمایا:-۔

۔”مَن سَرَّه أن ينظر إلى امرأة من الحور العين فلينظر إلى أم رومان۔” (طبقات ابن سعد: 10/262، تحقیق الدکتور علی محمد عمر، المکتبۃ الخانجی القاھرۃ، اسنادہ مرسل)۔

"جو کوئی (جنت کی) حور عین میں سے کسی عورت کو دیکھنا چاہتا ہے وہ ام رومان کو دیکھ لے۔”

۔3- ام بکر: یہ قبیلہ کلب سے تھیں، چونکہ مسلمان نہیں ہوئی اس لیے ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔

۔4- اسماء رضی اللہ عنہا بن عمیس: جلیل القدر صحابیہ ہیں۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ان کا لقب صاحبۃ الہجرتین (دو ہجرت والی) تھا۔ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا بنت حارث کی اخیافی بہن تھیں۔ ان سے تزویج کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ہمزلف بن گئے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بنت عمیس کا پہلا نکاح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے ہوا تھا، ان سے عبد اﷲ، محمد اور عون پیدا ہوئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت (8ھ) کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں ان سے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنھما پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد (13ھ) حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے نکاح میں آئیں۔ ان سے یحییٰ اور عون پیدا ہوئے۔ یہ سب باہم اخیافی بھائی ہیں۔

۔5- حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت خارجہ: انصاری صحابیہ ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت یہ حاملہ تھیں۔ ان سے ام کلثوم پیدا ہوئیں۔

اولاد

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں بعض تو آسمان اسلام کے درخشندہ ستارے ہیں، جن کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑ سکتی اور تاریخ اسلام کا ورق ورق ان کی عظمت کی گواہی دے گا۔ ان کے تین بیٹے عبد الرحمن، عبد اللہ، محمد اور تین بیٹیاں ام المومنین عائشہ، اسماء اور ام کلثوم تھے۔ رضی اللہ عنھم

اللہ نے ان کے اولاد و احفاد میں بڑی برکت دی۔ ان کے نسل سے مشاہیر علماء، مجاہد، فضلاء پیدا ہوئے جنھوں نے دینِ اسلام کی خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ گو یہ تعداد بہت زیادہ ہے جس کا احصاء ممکن نہیں تاہم ذیل میں چند مشاہیر صدیقی کا ذکر خیر پیش خدمت ہے۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے افضل یہی ہیں۔ یہیں وہ مقدس خاتون ہیں جن کی فرزندی ہر صاحبِ ایمان کا فخر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی چہیتی زوجہ مکرمہ ہیں۔ ماہ شوال 9 برس قبل ہجرت پیدا ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ کے عقد میں آنے والی واحد کنواری اور سب سے کم عمر خاتون ہیں۔ 17 رمضان المبارک 58ھ میں وفات پائی۔

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بڑی بیٹی تھیں۔ ہجرت سے 27 برس قبل ولادت ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ذات النطاقین کا لقب دیا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کی اہلیہ تھیں۔ ہجرت کے بعد اسلام میں سب سے پہلی ولادت انھیں کے بطن سے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی ہوئی۔ طویل عمر پائی اور 73ھ میں وفات پائی۔

حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما

السابقون الاولون میں سے ایک ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے سفر ہجرت کے موقع پر انھوں نے بھی کمالِ دانش مندی سے غیر معمولی خدمت انجام دی۔ محاصرہ طائف کے موقع پر انھیں ایک تیر لگا تھا جس نے زخم کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اسی زخم سے شوال 11ھ میں رسول اللہ ﷺ کی وفات سے چالیس دن بعد وفات پائی۔ ان کے ایک بیٹے اسماعیل تھے جنھوں نے بچپن میں وفات پائی اور اس طرح حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا اجرائے نسل نہ ہو سکا۔

حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے فرزند، انھوں نے قدرے تاخیر سے اسلام قبول کیا۔ غزوہ بدر میں  مشرکین مکہ کی جانب سے شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے دعوت مبارزہ دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقابلے کے لیے جانے لگے لیکن رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد اسلام اسلام قبول کیا۔ قبولیتِ اسلام کے بعد انھوں نے ایک بار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یوم بدر کو کئی بار ایسا ہوا کہ آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے والد کا خیال کرتے ہوئے آپ پر تلوار نہیں چلائی۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! اگر تو میری تلوار کی زد میں آ جاتا تو میں ہرگز نہ چھوڑتا۔

قبولیت اسلام کے بعد کسی غزوے اور جہاد سے پیچھے نہیں رہے۔ وہ بہت بہادر اور جری تھے۔ ان کا شمار جرنیل صحابہ میں ہوتا ہے۔ جنگ یمامہ میں کمال کر دکھایا دشمن کے سات بڑے جنگی افسروں کی زندگی کا خاتمہ انھوں نے اپنے تیر سے نشانہ بنا کر کیا۔ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ ایک رشتے سے رسول اللہ ﷺ کے ہمزلف بھی تھے۔ حضرت عبد الرحمن نے قریبۃ الصغریٰ سے شادی کی تھی جو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔ یہ بڑا دل چسپ اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ایک رشتے سے ہمزلف تھے۔ اس طرح دونوں باپ بیٹا نبی کریم ﷺ کے ہمزلف تھے۔ 53ھ میں وفات پائی۔

حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنھما

حجۃ الوداع 10ھ کے موقع پر ذو الحلیفہ کے مقام پر 25 ذیقعد کو ان کی ولادت ہوئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کی عمر ڈھائی برس کے لگ بھگ تھی۔ اس کے بعد ان کی والدہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی اور اس طرح محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی تربیت آغوشِ مرتضوی میں ہوئی۔ یہ بڑے عبادت گزار تھے جس کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ انھیں بہت پسند کرتے تھے۔ (الاستیعاب: 1367، دار الجبل بیروت)۔

ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت میں ملوث تھے، لیکن یہ محض اتہام ہے امام ابن عبد البر نے ایک جماعت اہلِ علم سے اس کی نفی ثابت کی ہے اور ایک معاصر کنانہ مولیٰ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا (جو شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے دن موجود تھے) کا قول پیش کیا ہے کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کا شہادت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الاستیعاب: 1367، دار الجبل بیروت)۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے انھیں مصر کا والی مقرر کیا تھا۔ 38ھ میں عمرو بن العاص نے مصر پر حملہ کیا تو انھیں شکست ہوئی ایک غار میں پناہ لی اور پکڑے جانے پر شہید کر دیے گئے ان کی میت کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان کی اس طرح موت کا علم ہوا تو سخت افسوس ہوا فرماتیں تھیں میں اسے اپنا بھائی اور بیٹا سمجھتی تھی۔ چونکہ انھیں آگ میں جلایا گیا تھا جس کی وجہ سے ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اس کے بعد کبھی بھنا ہوا گوشت نہیں کھایا۔ (اسد الغابۃ: 5/58، دار الکتب العلمیۃ بیروت)۔

ام کلثوم بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ

یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔ ان کا پہلا نکاح حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبید اللہ سے ہوا جن سے ایک بیٹے زکریا اور ایک بیٹی عائشہ پیدا ہوئیں۔ عائشہ بنت طلحہ اپنے زمانے کی بڑی عالمہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ام کلثوم کا نکاح عبد الرحمن بن عبد اللہ مخزومی سے ہوا۔

حضرت محمد ابو عتیق بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنھم

یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پوتے اور صحابی رسول ہیں۔ حجۃ الوداع کے سال پیدا ہوئے۔ سالِ وفات سے آگاہی نہیں ہوتی۔

عبد اللہ بن عبد الرحمن

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔ ان کی والدہ قریبۃ الصغریٰ رضی اللہ عنہا ہیں۔ انھیں ایک یہ فضیلت بھی حاصل ہے اور جس میں وہ منفرد ہیں کہ ان کی پھوپھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور خالہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا دونوں امہات المومنین میں سے ہیں۔ اپنے زمانے کے جلیل المرتبت تابعی تھے۔

امام قاسم بن محمد

ابو محمد قاسم بن محمد عالی مرتبت تابعی تھے۔ ان کے والد محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہمزلف تھے۔ امام قاسم اور امام زین العابدین خالہ زاد بھائی تھے۔ ان کی تربیت و نگہداشت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کی۔ مدینہ طیبہ کے فقہائے سبعہ میں سے ایک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آلِ ابی بکر میں یہ سب سے زیادہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے۔ 106ھ، 107ھ، 108ھ یا 112ھ میں وفات پائی۔

عبد اللہ بن ابی عتیق

عبد اللہ بن ابی عتیق محمد بن عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہم، اپنے زمانے کے جلیل المرتبت عالم و ماہر انساب تھے۔

طلحۃ الدراہم

طلحہ بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما، ان کے والدہ عائشہ بنت طلحہ بن عبید اللہ تھیں۔ عرب کے مشہور سخی و جواد تھے اسی نسبت سے ان کا لقب طلحۃ الدراھم پڑ گیا۔ اپنے والدین کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے بھی روایت حدیث کیا۔ 111ھ یا 120ھ میں وفات پائی۔

عبد الرحمن الفقیہ

امام قاسم بن محمد کے فرزند ہیں۔ ان کے غیر معمولی علم و فضل اور جلالت و امامت پر تمام تذکرہ نگاروں کا اتفاق ہے۔ قرأت سبعہ کے ایک امام نافع اور امام مالک ان کے شاگرد تھے۔ ارضِ شام کے ایک مقام فدین میں 126ھ میں وفات پائی۔

قاضی عبد اللہ

قاضی عبد اللہ بن عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما، ابو جعفر منصور عباسی کے عہد میں مدینہ طیبہ کے قاضی تھے۔

قاضی ہاشم بن ابی بکر

ہاشم بن ابی بکر بن عبد الرحمن بن ابی بکر بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنھم، کوفہ میں جا بسے تھے۔ پہلے کوفہ اور پھر مصر کے قاضی بنے۔ محرم 196ھ میں وفات پائی۔

قاضی محمد بن عبد اللہ

محمد بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما، عہدِ عباسی میں مدینہ اور پھر بصرہ کے قاضی رہے۔ صاحبِ علم و فضل تھے۔

محرز بن خلف التونسی

امام محرز بن خلف، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے احفاد میں سے تھے۔ 340ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے زمانے کے مشہور زہاد میں شمار کیے جاتے ہیں۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے عالم تھے اور ان علوم کی تدریس فرماتے تھے۔ تونس میں 413ھ میں وفات پائی۔

عتیق علم السنۃ

ابوبکر عتیق بن عبد اللہ البکری الواعظ الاشعری، علم السنۃ کے لقب سے معروف تھے۔ بلادِ مغرب میں سے کسی مقام سے تعلق تھا۔ بغداد تشریف لائے۔ نظام الملک طوسی نے ان کی قدر افزائی کی۔ 476ھ میں وفات پائی۔

قوام بن زید المری

ابو الفرج قوام بن زید المری، مشہور شافعی فقیہ تھے۔ 432ھ میں پیدا ہوئے۔ ابوبکر خطیب بغدادی کے شاگرد تھے۔ 509ھ میں وفات پائی، دمشق میں مدفون ہوئے۔

شیخ ابو النجیب سہروردی

شیخ ابو النجیب ضیاء الدین عبد القاہر سہروردی، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے احفاد میں سے تھے۔ شافعی فقیہ تھے، تصوف کا سلسلہ سہروردیہ ان ہی کی جانب منسوب ہے۔ 563ھ میں وفات پائی۔

امام ابن الجوزی

امام ابو الفرج جمال الدین عبد الرحمن بن علی الجوزی، امام قاسم بن محمد کی نسل سے تھے۔ اپنے زمانے کے بہت بڑے امام اور ائمہ اعلام میں سے تھے۔ 508ھ، 510ھ یا 514ھ میں ولادت ہوئی۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، رجال، ادب ہر فن کے امام تھے اور ہر فن میں ان کی نفیس تصنیفات ملتی ہیں۔ کثیر التصانیف تھے۔ پہلی کتاب صرف 13 برس کی عمر میں لکھی۔ ان کی مشہور کتابوں میں "زاد المسیر فی علم التفسیر”، "جامع المسانید”، "العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ”، "تلبیس ابلیس”، "صید الخاطر” وغیرہا شامل ہیں۔ 597ھ میں وفات پائی۔

سلطان العلماء شیخ بہاء الدین ولد

شیخ بہاء الدین محمد ہروی، سلطان العلماء کے لقب سے معروف تھے۔ 542ھ یا 545ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ تمام علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل تھی۔ مولانا جلال الدین رومی کے والد ہیں۔ 620ھ میں وفات پائی۔

شیخ شہاب الدین سہروردی

شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر بن محمد سہروردی، اپنے زمانے کے مشاہیر صوفیہ میں سے ایک ہیں۔ 539ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا شیخ ابو النجیب عبد القاہر سہروردی، شیخ عبد القادر جیلانی، ابو زرعہ مقدسی وغیرہم سے اخذِ علم کیا۔ "عوارف المعارف” ان کی مشہور ترین کتاب ہے۔ 632ھ میں وفات پائی۔

یوسف نجل ابن الجوزی

امام ابو المحاسن یوسف بن جمال الدین عبد الرحمن ابن الجوزی 580ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد امام ابن الجوزی کے شاگرد تھے۔ 632ھ میں مدرسہ مستنصریہ بغداد میں حنابلہ کے مسند درس پر فائز ہوئے۔ دمشق میں "مدرسہ جوزیہ” قائم کیا۔ انھیں عوام و خواص میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ بڑے بڑے مناصب پر فائز کیے گئے۔ قرآنِ کریم کی تفسیر بنام "معادن الابریز فی تفسیر الکتاب العزیز” لکھی۔ 656ھ میں تاتاریوں کے فتنہ میں ان کی اور ان کے دو ذی علم صاحب زادوں علامہ جمال الدین المحتسب اور علامہ شرف الدین عبد اللہ نے شہادت پائی۔

شیخ سعید العمودی

شیخ ابو عیسیٰ سعید بن عیسیٰ العمودی حضرموت (یمن) کے کبار مشائخ میں سے ایک ہیں۔ 550ھ میں پیدا ہوئے۔ انتہائی سخی تھے، فقراء و مساکین پر کثرت سے خرچ کرتے تھے۔ 670ھ میں وفات پائی۔

مولانا جلال الدین رومی

مولانا جلال الدین محمد رومی ربیع الاول 604ھ کو بلخ میں پیدا ہوئے۔ مشہور عالم، فلسفی اور شاعر تھے۔ "مثنوی معنوی”، "فیہ ما فیہ” اور "دیوان شمس تبریز” ان کی معروف کتب ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی لازاول تصنیف "مثنوی” کی بدولت جانے جاتے ہیں۔ مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن ان کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 برس تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ مولانا رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔علامہ محمد اقبال، مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ ان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغا بھی جاری کیا گیا۔ مولانا رومی نے قونیہ (ترکی) میں 672ھ میں وفات پائی۔ ان کے سلسلہ تصوف سے منسلک افراد کو مولویہ یا جلالیہ کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی ترکی و ایشیائے کوچک میں بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔

شہاب الدین النویری

امام شہاب الدین احمد النویری، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق کے احفاد میں سے تھے۔ 677ھ میں پیدا ہوئے۔ مصر کے مشہور ماہر دائرۃ المعارف، محقق، خطاط، شاعر، ادیب اور مؤرخ تھے۔ اُنھوں نے جامعۃ الازہر سے تعلیم حاصل کی۔ تفسیر، حدیث، عربی ادب اور تاریخ کے ممتاز عالم تھے۔ عہد شباب میں وہ بطور خطاط کام کرنے لگے۔ عربی زبان و ادب سے خاص شغف تھا اور عربی کتب کی خطاطی سے وہ بہترین معاوضہ حاصل کیا کرتے تھے۔ النویری کے ہاتھ کا لکھا ہوا صحیح بخاری کا ایک نسخہ ایک ایک ہزار دینار میں فروخت ہوتا تھا۔ مصر میں جلیل القدر مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ کوتوال، محصل اور ناظر جیسے عہدوں سے گزرتے ہوئے طرابلس الغرب کے لشکر کی سپہ سالاری حاصل کی۔ سلطان الناصر کے بعض مخصوص اُمور میں اُن کے نائب بھی رہے۔ لیکن جلد ہی سلطانی مراتب و مناصب سے الگ ہو کر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔ "نهاية الأرب في فنون الأدب” ان کی مشہور کتاب ہے، جو 33 جلدوں پر محیط ہے۔ رمضان 733ھ میں قاہرہ میں ان کی وفات ہوئی۔

قاضی زین الدین ابن الوردی

امام ابو حفص زین الدین عمر بن مظفر ابن الوردی مشہور شافعی فقیہ، ادیب، شاعر اور مورخ تھے۔ 689ھ میں پیدا ہوئے۔ "تاریخ ابن الوردی” ان کی مشہور کتاب ہے۔ 749ھ میں حلب (شام) میں بعارضہ طاعون وفات پائی۔

قاضی عضد الدین الایجی

قاضی عضد الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن رکن الدین الایجی، شیراز کے اطراف میں واقع ایک مقام ایج میں پیدا ہوئے۔ اپنے زمانے کے بہت بڑے متکلم، فقیہ و ادیب تھے۔ ان کے شاگردوں میں امام شمس الدین کرمانی شارح بخاری (وفات: 786ھ)، علامہ سعد الدین تفتازانی (وفات: 792ھ)، قاضی ضیاء الدین قزوینی القرمی (وفات: 780ھ) جیسے مشاہیر شامل ہیں۔ علم کلام میں ان کا ایک متن "المواقف” مشہور زمانہ ہے جس کی درجنوں شروح و حواشی لکھے گئے۔ علوم کلام و ادب میں ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ 753ھ یا 756 میں وفات پائی۔

امام محمد بن یعقوب فیروز آبادی

امام ابو طاہر محمد بن یعقوب فیروز آبادی، مفسر، محدث، لغوی و ادیب تھے۔ عربی زبان کی مشہور لغت "القاموس المحیط” ان ہی کی تصنیف ہے۔ 729ھ میں  بمقام کازرون (ایران) پیدا ہوئے۔ کبار علماء سے تحصیل علم کیا جن میں امام ابن قیم بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مختلف بلادِ اسلامیہ کے کئی سفر کیے۔ مکہ مکرمہ و مدینہ طیبہ کئی بار گئے۔ عراق، شام، یمن کا سفر کیا۔ دو بار ہندوستان تشریف لائے۔ صاحبِ تصانیف کثیرہ تھے۔ 817ھ میں وفات پائی۔

قاضی عز الدین بغدادی

قاضی ابو البرکات عبد العزیز عز الدین بن علاء الدین صدیقی بغدادی، 768ھ میں پیدا ہوئے۔ فقہ حنبلی کے ماہر و فقیہ تھے۔ دمشق، بیت المقدس اور مصر کے قاضی رہے۔ کئی کتابیں لکھیں۔ 846ھ میں دمشق میں وفات پائی۔

سراج الدین ابن الوردی الحفید

سراج الدين أبو حفص عمر بن المظفر بن الوردي، مشہور عالم، ماہر نباتات اور جغرافیہ دان تھے۔ ان کی مشہور ترین کتاب "خريدة العجائب وفريدة الغرائب” ہے۔ اس کتاب میں دنیا کا ایک رنگین نقشہ اور کعبہ کی ایک تصویر منسلک ہے۔ یہ اس زمانے میں عرب دنیا کی جغرافیائی معلومات کا نچوڑ ہے۔ اس میں دنیا کے موسم، پہاڑوں، حیوانات و نباتات، آبادی، طرز زندگی، رائج الوقت ریاستیں اور ان کی حکومتوں کے حالات مذکور ہیں۔ غلطی سے یہ کتاب ان کے دادا قاضی زین الدین ابن الوردی کی جانب منسوب ہو گئی ہے۔ 852ھ میں وفات پائی۔

آق شمس الدین

آق شمس الدین، شیخ شہاب الدین سہروردی کے پوتے تھے۔ 792ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے مشہور قاضی، شاعر، طبیب، عالم اور فقیہ تھے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے مشیر خاص بھی تھے۔ سلطنت عثمانیہ میں اُن کی عظمت و جلالت کا دور دورہ تھا کیونکہ اُنھوں نے سلطان محمد فاتح کے عہد میں صحابیٔ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی گمشدہ قبر دریافت کی تھی اور فتح قسطنطنیہ کی پیشگوئی کی تھی۔ انھیں فتح قسطنطنیہ میں حصہ لینے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد وہ گوینوک (ترکی) میں مقیم ہو گئے تھے اور یہیں اپنی آخری زندگی بسر کی اور 863ھ میں وفات پائی۔

خواجہ عبید اللہ احرار

نویں صدی ہجری کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں۔ 806ھ میں توران (تاشقند) میں پیدا ہوئے۔ چند کتابیں بھی لکھیں۔ 895ھ میں سمرقند میں وفات پائی۔

محقق جلال الدین الدوانی

علامہ ابو الفضل جلال الدین محمد بن سعد الدین اسعد الدوانی، محمد بن ابی بکر الصدیق کے احفاد میں سے ہیں۔ 830ھ میں پیدا ہوئے۔ علامہ دوانی مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ علوم عقلیہ و ادب پر ان کی متعدد تالیفات ہیں۔ مسلم فلاسفہ میں محقق دوانی کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ ان کا شمار اکابر علمائے اہل سنت میں ہوتا ہے، وہ اشعری شافعی تھے۔ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شیعہ ہو گئے تھے مگر یہ درست نہیں، جیسا کہ ان کی اپنی تحریریں اس پر شاہد ہیں۔ ایران میں جب اہل تشیع کا غلبہ ہوا تو ان کے پوتے عبد اللہ بن علی محمد بن محقق دوانی نے ایران کی سکونت ترک کرکے پشاور میں اقامت اختیار کرلی تھی۔ محقق دوانی نے 908ھ میں شیراز میں وفات پائی۔

ابو الحسن البکری

امام ابو الحسن شمس الدین محمد تاج العارفین بن جلال الدین محمد البکری علوم اسلامیہ کے متبحر عالم تھے۔ مفسر، محدث اور فقیہ تھے۔ 899ھ میں قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف پر ان کی کئی کتابیں ہیں۔”تسہیل السبیل فی معانی التنزیل” ان کی تفسیر ہے۔ مشہور محدث تھے اور کبار محدثین نے حدیث میں ان سے استفادہ کیا۔ 952ھ میں قاہرہ میں وفات پائی۔

مخدوم نوح ہالائی

ارضِ سندھ کے مشہور بزرگ مخدوم نوح کا سلسلہ شیخ فخر الدین سہروردی کے توسط سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ وہ 911ھ میں پیدا ہوئے اور 998ھ میں وفات پائی۔

سیدی شیخ عبد القادر السماحی

بلادِ افریقا کے مشاہیر مشائخ میں سے ایک ہیں۔ 951ھ میں الجزائر کے ایک مقام عین الصفراء میں پیدا ہوئے۔ فقہ امام مالک سے انسلاک تھا۔ ان سے تصوف کے ایک سلسلے شیخیہ شاذلیہ کا اجرا ہوا۔ 1025ھ میں الجزائر کے ایک مقام کراکدہ میں وفات پائی۔

ابن علان

محمد بن علی الشہیر بزین الدین جار اللہ ابن علان صدیقی مشہور مفسر و محدث تھے۔ 996ھ میں پیدا ہوئے۔ مکہ مکرمہ سے تعلق تھا۔ قرآن کریم کی تفسیر "ضیاء السبیل” لکھی، حدیث میں "ریاض الصالحین” کی شرح "دلیل الفاتحین” لکھی۔ 1057ھ میں وفات پائی۔

شیخ احمد معمار

شیخ احمد معمار عہدِ شاہجہانی کے مشوہر ماہرین فن میں سے تھے۔ شاہانِ مغلیہ کی جانب سے نادر العصر کا خطاب تھا۔ اقلیدس، ہیئت، ریاضی، فلکیات وغیرہ علوم پر مہارت رکھتے تھے۔ تاج محل اور لال قلعہ کو انھوں نے ہی تعمیر کیا تھا۔ 1059ھ میں وفات پائی۔

ملا احمد جیون

شیخ احمد بن ابو سعید معروف بہ ملّا احمد جیون 1047ھ میں امیٹھی (اتر پردیش، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستان کے جلیل القدر عالم تھے جنھیں بڑی عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ سلطان ہند اورنگ زیب عالمگیر ان کا قدر شناس اور شاگرد تھا۔ اسی طرح شاہ عالم بھی ان کی غایت درجے تعظیم کرتا تھا۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا، ورق کے ورق انھیں زبانی یاد ہو جاتے تھے۔ حرمین شریفین کی زیارت کی پانچ برس یہاں قیام کیا۔ اسی دوران اپنی مشہور کتاب "نور الانوار” تصنیف فرمائی، اس کے علاوہ "تفسیرات احمدیہ” بھی ان کی ایک معروف کتاب ہے۔ ملا جیون نے 1130ھ میں دہلی میں وفات پائی اور انھیں امیٹھی میں دفن کیا گیا۔

شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی

شاہ کلیم اللہ بن نور اللہ بن احمد معمار 1060ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا شیخ احمد معمار تھے۔ ان کے والد شیخ نور اللہ بھی اپنے فن میں کامل تھے۔ جامع مسجد دہلی کے کتبے ان ہی کی با کمال انگلیوں کا کرشمہ ہیں۔ شاہ کلیم اللہ علوم و معارف کے بہت بڑے عالم تھے۔ انھوں نے مدینہ طیبہ میں شیخ یحیٰ مدنی سے استفادہ کیا۔ واپس آکر دہلی میں اپنی مسند تدریس سجائی۔ تصانیف میں "قرآن القرآن”، "عشرہ کاملہ”، "کشکول” وغیرہا کا ذکر ملتا ہے۔ 1140ھ میں وفات پائی۔

شاہ نظام الدین اورنگ آبادی

شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کے خلیفہ تھے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے توسط سے سلسلہ نسب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ علاقہ دکن (جنوبی ہند) انھوں نے اصلاح و تربیت کا کام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ایک لاکھ مرید و عقیدت مند تھے۔ 1142ھ میں وفات پائی۔

امام ابن مبارک اللمطی السجلماسی

شیخ ابو العباس شہاب الدین احمد بن مبارک السجلماسی 1090ھ میں پیدا ہوئے۔ تفسیر، حدیث و فقہ کے متبحر عالم اور مرتبہ اجتہاد کے دعویدار تھے۔ کئی کتابیں لکھیں۔ 1155‫ھ میں وفات پائی۔

مولانا محمد عابد لاہوری

مفسر، فقیہ، مدرس اور انتہائی عبادت گزار تھے۔ ان کی مجلس درس بڑی کشادہ تھی۔ شوق عبادت بہت غالب تھا۔ اس قدر عالی ہمت تھے کہ لاہور سے حرمین شریفین پیدل تشریف لے گئے اور مناسک حج و زیارت کے بعد لاہور واپس آئے۔ علوم القرآن پر چند کتابیں لکھیں۔ 13 رمضان المبارک 1160ھ میں وفات پائی۔

نظام الملک آصف جاہ اوّل

مملکت آصفیہ حیدر آباد دکن کے بانی تھے جو 1724ء سے 1748ء تک ریاست حیدر آباد کے تخت پر متمکن رہے۔ اصل نام میر قمر الدین خاں صدیقی تھا۔ وہ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے تربیت یافتہ تھے۔ 1722ء میں محمد شاہ کے دور میں وہ مغلیہ سلطنت کے وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے اصلاحات کرنی چاہیں لیکن نا اہل بادشاہ اور اس کے مصاحب آڑے آئے۔ بد دل ہو کر دکن کی طرف چلے آئے۔ یہاں جنوبی ہند میں ایک خود مختار ریاست قائم کی۔ مملکت کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے کم نہ تھا۔ نظام الملک نے مغلیہ سلطنت کے بہت بڑے حصے کو مرہٹوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ کر دیا تھا اور ایک ایسے وقت میں جبکہ پورے بر صغیر میں انتشار پھیلا ہوا تھا انھوں نے دکن میں امن و امان کی فضا قائم کی۔ نظام الملک ایک دیانتدار، دیندار اور صاحب کردار حکمران تھے۔ ان کی انتظامی صلاحیت اور تدبر کا مورخین نے کھل کر اعتراف کیا ہے۔ دکن میں نظام آباد کا شہر ان ہی کا آباد کیا ہوا ہے۔ ان کی علمی اور ادبی سرپرستی کی وجہ سے دار الحکومت حیدرآباد علم و ادب کا مرکز بن گیا۔نظام الملک آصف جاہ اول کا انتقال یکم جون 1748ء/1161ھ کو برہان پور میں ہوا۔

شاہ محمد عاشق پھلتی

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تلمیذِ خاص تھے۔ ان کے ساتھ سفر حج کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں شیخ ابو طاہر الکردی سے استفادہ کیا۔ 1187ھ میں وفات پائی۔

مولانا شاہ فخر الدین دہلوی

شاہ نظام الدین اورنگ آبادی کے صاحبزادے تھے۔ 1126ھ کو اورنگ آباد (دکن) میں پیدا ہوئے۔ علم حدیث سے خاص دل چسپی تھی۔ ہندوستان کے مشاہیر مشائخ نقشبندیہ میں سے ایک ہیں۔ 1199ھ میں دہلی میں وفات پائی۔

مولانا عبد الحی صدیقی بڑہانوی

حضرت محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے احفاد میں سے ہیں۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد اور داماد تھے۔ سید احمد شہید کے کبار خلفاء میں سے ہیں۔ 1237ھ میں سید احمد شہید و شاہ اسماعیل شہید کے ساتھ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے واپسی میں امام شوکانی سے سند حدیث لی۔ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لیا اور اسی راہ میں مرضِ وفات میں مبتلا ہوکر 1243ھ میں وفات پائی۔

مفتی الٰہی بخش کاندھلوی

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ سید احمد شہید سے بھی استفادہ کیا اور خلافت کی سند لی۔ کثیر الدرس تھے۔ ان کے تلامذہ و مستفدین کا حلقہ وسیع تھا۔ ان کی نسل میں کئی کبار علما ہوئے۔ مفتی صاحب نے مولانا رومی کی مثنوی معنوی کا تکملہ لکھا ہے جو بہت معروف ہوا۔ 1245ھ میں وفات پائی۔

مولانا مملوک العلی ناناتوی دہلوی

حضرت محمد بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما سے سلسلہ نسب جا ملتا ہے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، مفتی الٰہی بخش کاندھلوی وغیرہم سے شرف تلمذ تھا۔ دہلی کالج میں ان کا سلسلہ تدریس جاری تھا۔ ان کا حلقہ تدرس بہت وسیع تھا۔ تلامذہ میں منشی جمال الدین دہلوی، مولانا احمد علی سہارن پوری، شیخ محمد تھانوی، مولانا محمد قاسم ناناتوی، مولانا محمد مظہر ناناتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی جیسے مشاہیر شامل ہیں۔ 1267ھ میں وفات پائی۔

مولانا کرامت علی جون پوری

ہندوستان کے مشہور واعظ، مبلغ اور کثیر الدرس و التصانیف تھے۔ مشرقی ہند میں ان کے بڑے وسیع تبلیغی اثرات مرتب ہوئے۔ 1290ھ میں وفات پائی۔

مولانا حکیم ارادت حسین صادق پوری

عالم، طبیب، مجاہد اور محدث تھے۔ امیر المجاہدین مولانا ولایت علی صادق پوری سے تفسیر و حدیث پڑھی۔ انگریزی استعمار کے خلاف اندرونِ ہند جماعت مجاہدین کے ایک اہم رکن تھے۔ 1281ھ میں ہندوستان سے مستقل ہجرت کر کے مکہ مکرمہ جا بسے تھے۔ قیام مکہ کے زمانے میں کئی اہم فلاحی کام کیے۔ 1294ھ میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کے قریب ہی مدفون ہوئے۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی

مولانا محمد قاسم بن اسد علی صدیقی نانوتوی، بانی دار العلوم دیوبند، 1248ھ میں پیدا ہوئے۔ مشاہیر علمائے ہند میں سے تھے۔ عیسائیوں سے مناظرے کیے اور ان پر دین اسلام کی حقانیت ثابت کی۔ کئی کتابیں لکھیں۔ علمائے دیوبند کا سلسلہ علم انھیں سے جا ملتا ہے۔ جمادی الاول 1297ھ میں وفات پائی۔

منشی جمال الدین دہلوی

۔1217ھ میں پیدا ہوئے۔ شاہ محمد اسحاق دہلوی و دیگر علمائے کبار سے اخذِ علم کیا۔ ریاست بھوپال کے مدار المہائم (وزیر اعظم) تھے۔ انھوں نے علوم اسلامیہ بالخصوص قرآن کریم کی نشر و اشاعت میں گراں قدر حصہ لیا۔ کئی کتبِ تفاسیر اپنے خرچ سے طبع کروائیں۔ 1299ھ میں وفات پائی۔ نواب صدیق حسن خاں ان کے داماد تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی

مولانا فضل الرحمن بن اہل اللہ صدیقی، 1208ھ میں پیدا ہوئے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، مرزا حسن علی صغیر لکھنوی، شاہ محمد اسحاق دہلوی وغیرہم کے شاگرد تھے۔ ہندوستان کے کبار مشائخ میں سے ایک ہیں۔ ان کا حلقہ فیض و افادہ بہت وسیع تھا۔ 1313ھ میں وفات پائی۔

مولانا ابو محمد ابراہیم آروی

مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی آروی بڑے عالی مرتبت اور صاحبِ عزیمت عالم تھے۔ 1264ھ میں بمقام آرہ (بہار) پیدا ہوئے۔ اصلاح امت میں  بہت زیادہ ساعی تھے۔ 1297ھ میں "مدرسہ احمدیہ” آرہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ قدیم و جدید کا سنگم تھا۔ یہیں پہلی بار طلبہ کے لیے دار الاقامہ قائم کیا گیا تھا۔ جو مدارس کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ مدرسے میں انگریزی کی تعلیم کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ مدرسے کے زیر اہتمام سالانہ جلسہ مذاکرہ بھی ہوتا جس میں دور و نزدیک اور ہر مکتبِ فکر اکابر علم کو شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ مولانا آروی "ندوۃ العلماء” کے قیام میں بھی شریک رہے۔ کئی کتابیں لکھیں۔ ہندوستان میں انگریزی استعماری حکومت کے سخت مخالف تھے۔ آخر عمر میں مستقل ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے وہیں 1319ھ میں وفات پائی۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی

علامہ ابو الطیب شمس الحق بن امیر علی صدیقی عظیم آبادی، 1273ھ میں عظیم آباد پٹنہ پیدا ہوئے۔ جلیل القدر عالم، محدث، مفسر و فقیہ ہیں۔ سید نذیر حسین محدث دہلوی، شیخ حسین یمانی و دیگر علمائے کبار سے شرف تلمذ تھا۔ علم حدیث میں ان کی تصانیف کا شہرہ پورے بلادِ اسلامیہ میں ہوا۔ تصانیف میں "سنن ابی داود” کی دو شرحیں "غایۃ المقصود” (32 جلد) اور "عون المعبود” (4 جلد)، "سنن دارقطنی” کی شرح "التعلیق المغنی” (2 جلد) کے علاوہ کئی عالمانہ کتب ان سے یادگار ہیں۔ حلقہ درس و افادہ بھی بہت وسیع تھا، اندرونِ ہند و پاک کے علاوہ دیگر بلادِ اسلامیہ سے بھی طلاب علم ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ 19 ربیع الاول 1329ھ کو ڈیانواں (بہار) میں وفات پائی۔

مولانا تلطف حسین عظیم آبادی

۔1265ھ میں پیدا ہوئے۔ سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذِ خاص تھے۔ حدیث اور اسلاف کی متعدد کتب تصحیح و تحقیق کے ساتھ طبع کیں۔ دہلی میں ایک "مدرسہ ریاض العلوم” قائم کیا۔ 1334ھ میں دہلی میں وفات پائی۔

مولانا عبد العزیز رحیم آبادی

عالم، مبلغ، محدث اور صاحب عزیمت تھے۔ کئی مساجد و مدارس کا قیام کیا۔ "مدرسہ احمدیہ سلفیہ” دربھنگہ ان کی یادگار ہے۔ انگریزی استعماری حکومت کے خلاف جماعت مجاہدین کی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیا۔ 1334ھ میں وفات پائی۔

شیخ محمد توفیق البکری

مصر کے جید عالم، نامور شاعر، ادیب اور ماہر انساب تھے۔ 1287ھ میں پیدا ہوئے۔ کئی زبانوں کے ماہر تھے۔ کئی کتابیں لکھیں۔ جن میں "أراجيز العرب”، "بيت الصديق” وغیرہا شامل ہیں۔ 1351ھ/ 1932ء میں  وفات ہوئی۔

شیخ عبد الستار دہلوی مکی

شیخ ابو الفیض عبد الستار بن عبد الوہاب دہلوی مکی، مشہور مورخ اور ماہر انساب و تراجم تھے۔ ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ احمد یار (وفات 1141ھ) نے مکہ مکرمہ میں اقامت اختیار کر لی تھی۔ یہیں شیخ عبد الستار کی 1286ھ میں ولادت ہوئی۔ انھوں نے اہل سنت و الجماعت کے ہر مسلک اور بلادِ اسلامیہ کے تقریباً ہر بڑے خطے سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم سے استفادہ کیا اور اسانید حاصل کیں۔ تذکرہ و تراجم پر ان کی کئی کتابیں ہیں۔ 1355ھ میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔

علامہ سیماب اکبر آبادی

سیمابؔ اکبر آبادی اپنے دور کے قادر الکلام شاعر تھے۔ 1880ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ انھوں نے قرآن پاک کا منظوم اردو ترجمہ وحی منظوم کے نام سے کیا۔ مثنوی مولانا روم کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی کتابوں کی تعداد 250 سے زائد ہے جن میں 22 شعری مجموعے شامل ہیں۔ ان کی وفات 1951ء / 1370ھ میں ہوئی۔

علامہ عبد اللہ عمادی

۔1295ھ میں پیدا ہوئے۔ جید عالم، صحافی، مورخ و مترجم تھے۔ کئی کتابیں لکھیں اور کئی رسائل کے ادارت سے وابستہ رہے۔ "دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ” (حیدر آباد دکن) کے مترجم و ناظر تھے۔ عربی زبان کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ کیا۔ ان کی ترجمہ شدہ کتابوں میں مسعودی کی "التنبہ والاشراف” اور "مروج الذھب”، ابن سعد کی "طبقات کبیر”، ابن حزم کی "الملل و النحل” اور طبری کی "تاریخ الامم والملوک” کی آخری دو جلدیں شامل ہیں۔ 1366ھ میں وفات پائی۔

میر عثمان علی خاں نظام حیدر آباد دکن

ریاست حیدرآباد، دکن اور برار کی آصف جاہی سلطنت کے ساتویں اور آخری بادشاہ تھے۔ 1886ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مؤثر منتظم اور ایک رعایا پرور بادشاہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1912ء میں تخت نشین ہوئے۔ وہ نہایت سخی اور علم پرور تھے۔ ان کے دور میں انجمن ترقی اردو نے ان کے تعاون سے بے حد ترقی کی اور بے شمار کتب شائع ہوئیں۔ علما، مشائخ، مساجد و مدارس اور ہر مذہب کے عبادت خانوں کو ان کے دربار سے معقول امداد ملتی تھی۔ 1918ء میں انھوں نے جامعہ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ جو اس وقت ہندوستان کی چند بڑے درس گاہوں میں سے ایک ہے۔ دار الترجمہ عثمانیہ سے بڑے بڑے اہل علم منسلک ہوئے اور علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت کے اس ادارے کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں۔ ان کے عہد میں شہر حیدر آباد کی ازسرنو تعمیر ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت نے ریاست حیدر آباد کے خلاف پولیس ایکشن کرکے اُسے ہندوستان میں مدغم کر لیا۔ اس طرح آصف جاہی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ 24 فروری 1967ء / 1386ھ کو ان کا انتقال ہوا۔

شیخ عبد الرحمن معلمی یمانی

علامہ عبد الرحمن بن يحيى بن علي بن أبي بكر المعلمي اليماني، 1313ھ کو محاقرہ (یمن) میں پیدا ہوئے۔ کبار عالم حدیث تھے۔ "دائرۃ المعارف العثمانیہ” (حیدر آباد دکن) سے بھی منسلک رہے۔ یہاں ان کی کوششوں سے حدیث، تاریخ اور ادب کی متعدد امہات الکتب تصحیح و تحقیق کے بعد طبع ہوئیں۔ "التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الاباطیل” اور "الانوار الکاشفۃ” ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ 1386ھ میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔

چوہدری خلیق الزماں

تحریک آزادی کے نامور رہنما چوہدری خلیق الزماں لکھنؤ کے مشہور صدیقی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ 25 دسمبر 1889ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ تحریک خلافت میں سرگرم حصہ لیا۔ کچھ عرصہ کانگرس سے وابستہ رہے۔ پھر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ یوپی اسمبلی میں لیگی اراکین کے قائد رہے۔ 1946ء میں لیگ کے ٹکٹ پر ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آزادی کے بعد فوراً بھارتی آئین ساز اسمبلی میں لیگی ارکان کے قائد چنے گئے۔ نومبر 1947ء میں پاکستان آ گئے۔ 1949ء میں کل پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے، لیکن ایک سال بعد مستعفی ہو گئے۔ اپریل 1953ء تا اپریل 1954ء مشرقی پاکستان کے گورنر رہے۔ انھوں نے ایک کتاب

Pathway to Pakistan

بھی لکھی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’شاہراہ پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ 18 مئی 1973ء/1393ھ کو کراچی میں انتقال ہوا۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی

پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کیمیائی سائنس دان، محقق، مصنف اور شاعر تھے۔ 1897ء میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ فرینکفرٹ یونی ورسٹی (جرمنی) سے پی ایچ ڈی کیا۔ 1931ء میں حکیم اجمل خاں کی قیادت میں شعبہ تحقیق برائے آیورویدک اور یونانی طب قائم کیا۔ لیاقت علی خاں وزیر اعظم پاکستان کے اصرار پر وہ 1951ء میں پاکستان آ گئے۔ یہاں انھوں نے سائنسی علوم و فنون کی ترویج میں کئی اہم اور بڑے کارنامے انجام دیے۔ ملکی و غیر ملکی کئی بڑے اعزازات انھیں حاصل ہوئے۔ 1994ء/1414ھ میں وفات ہوئی۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نواسے

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسوں میں بھی ایک سے ایک با کمال پیدا ہوئے۔ ذیل میں کتبِ تذکرہ و تراجم کے ایک سرسری جائزے سے دریافت ہونے والے ان افراد کا مختصر ذکر پیش خدمت ہے جو والدہ کی جانب سے نسباً صدیقی ہیں:-۔

٭ سیدنا عبد اللہ بن زبیر بن عوام (شہادت: 73ھ)، والدہ: اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما

٭ عروہ بن زبیر بن عوام (وفات: 93ھ تا 101ھ) والدہ: اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما

٭ ابراہیم بن عبد الرحمن المخزومی (وفات: 91ھ تا 100ھ) والدہ: ام کلثوم بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ

٭ امام جعفر الصادق (وفات: 148ھ) ان کی والدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق اور ان کی نانی اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق تھیں، اسی بنیاد پر فرمایا کرتے تھے کہ صدیق نے مجھے دو مرتبہ جنا ہے۔ رضی اللہ عنھم

٭ ابوبکر بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب (وفات: 130ھ) والدہ: عائشہ بنت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنھم

٭ القاسم الامیر بن اسحاق الاطرف بن عبد اللہ الجواد بن جعفر الطیار، والدہ: ام حکیم بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنھم

٭ عبد الملک بن عبد العزیز اموی، والدہ: میمونہ بنت عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنھما

٭ ابوبکر بن عبد اللہ بن مصعب الزبیری (وفات: 195ھ) والدہ: ام عبد اللہ عبیدۃ بنت طلحہ بن عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنھما

٭ ابو المظفر شمس الدین یوسف قزغلی معروف بہ سبط ابن الجوزی (وفات: 654ھ) والدہ: رابعہ بنت ابو الفرج جمال الدین عبد الرحمن بن الجوزی

٭ شیخ علاء الدین ابو الحسن علی سبط ابن الوردی (وفات: 848ھ)۔

٭ ابو المحاسن جمال الدین یوسف معروف بہ ابن الخشاب سبط ابن الوردی (وفات: 911ھ)۔

٭ علامہ حکیم عین الملک شمس الدین علی الشیرازی (وفات: 1003ھ) ان کی والدہ کا سلسلہ نسب محقق جلال الدین دوانی کے توسط سے جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

٭ سعد زغلول پاشا (وفات: 1346ھ / 1927ء) والدہ: سیدہ میمونہ بنت برکات پاشا البکری

حرف آخر

بلاشبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسل میں اللہ نے بہت برکت دی۔ ان کی اولادیں صدیقی، البکری، عتیقی اور بعض دیگر ذیلی نسبتوں سے معروف ہوئیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ چونکہ ہر صاحبِ ایمان کے لیے ایک مقدس مقام رکھتے ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگوں نے اپنے نام کے ساتھ بربنائے عقیدت بھی صدیقی کا انتساب لگا رکھا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں چونکہ ہندوئوں کے اثر سے مسلمانوں میں بھی ذات پات کا رجحان کافی پروان چڑھ گیا ہے، جس طرح نقلی سادات کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے اسی طرح صدیقی و فاروقی نسبتوں کے حامل بھی ایسی برادریاں بڑی تعداد پائی جاتی ہیں جن کا سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنھما سے نسبی تعلق نہیں ہے۔اسی طرح بعض افراد کے بارے میں تحقیق نہ ہونے کے باعث بھی ہمیں ان کا تذکرہ قلم انداز کرنا پڑا۔ جیسے امام رازی جو معروف ترین روایت کے مطابق صدیقی ہیں۔ مگر ایک روایت ان کے فاروقی ہونے کی بھی ہے۔اسی طرح کئی نامور اشخاص کے تذکرے کو طوالت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔ جیسے کاندھلوی خانوادے کے کئی نامور بزرگ، علامہ شوقؔ نیموی مصنف "آثار السنن”، مولانا محمد اسماعیل میرٹھی، شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی، مشہور ادیب رشید احمد صدیقی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الغفار حسن وغیرہم۔

حواشی

۔[1] ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی نے اپنی کتاب "عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت” (ص: 107) میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبید اللہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بہنوئی لکھا ہے جو فاش غلطی ہے۔

۔[2] "اردو دائرہ معارف اسلامیہ” (1/340) کے مقالہ نگار مولانا سعید انصاری نے ام رومان رضی اللہ عنھا کے پہلے شوہر کا نام طفیل بن سخیرہ اور ان کے بیٹے کا نام عبد اللہ لکھا ہے، جو کہ غلط ہے۔

 

 

 

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.