سلسلہ تنزیلِ وحی کا ظہورِ کامل – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 96 – 97، جمادی الاول و جمادی الثانی 1441ھ

اشاعت خاص: سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اللہ رب العزت نے سلسلہ تنزیلِ وحی کا اختتام رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر کیا۔ اسی لیے انھیں خاتم النبیین بنا کر بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ تمام صفاتِ نبوت کے جامع اور مراتب رسالت کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔ وہ اولین و آخرین کے رسول ہیں۔ انھیں جو شریعت عطا کی گئی وہ گزشتہ شریعتوں کی ناسخ، ابدی اور پوری انسانیت کے لیے ہے۔ انھیں جو کتاب دی گئی وہ لاریب ہے، گزشتہ کتب کی تصدیق کنندہ بھی، ناسخ بھی، اور ہر طرح سے کامل بھی۔ گزشتہ کتابیں جانے کے لیے تھیں اس لیے چلی گئیں ان کی حفاظت کا کوئی اہتمام نہ تھا مگر رسول اللہ ﷺ کی طرح ان کی کتاب بھی ابدی ہے یہ جانے کے لیے نہ تھی کہ چلی جاتی۔ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے لیا۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الـذِّكْـرَ وَاِنَّا لَـهٗ لَحَافِظُوْنَ (1)۔

لیکن سلسلہ تنزیلِ وحی کے ظہور اتم کے لیے لازم تھا کہ اگر پیغام آیا ہے تو کوئی پیغام قبول کرنے والابھی ہو، اور صرف قبول کرنے والانہیں بلکہ جس طرح پیغام کامل، پیغام پیش کرنے والاکامل اسی طرح اسے قبول کرنے والابھی کامل ہو۔ صدق ہو تو تصدیق کنندہ بھی ہو۔ تب ہی اس سلسلہ تنزیل وحی کا ظہور کامل ہوگا۔ وَالَّـذِىْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ (2) کا یہی تقاضا ہے۔

چنانچہ اس سلسلہ تنزیل وحی کے آخری پیغام حق کی تصدیق کرنے والابھی اپنے ایمانی مراتب میں کامل تھا۔ اس کی تصدیق بھی معمولی نہ تھی۔ جب ساری دنیا رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ توحید کا مذاق اڑا رہی تھی اور ان کے واقعہ اسراء کو افسانہ اور دیوانگی کہہ تھی تو اس وقت صدیق رضی اللہ عنہ کی فرزانگی ہی تھی جس نے ایمان و یقین کی ہر منزل کو سر کیا۔ ابو جہل جو مکہ کی گلیوں میں رسول اللہ ﷺ کے واقعہ اسراء کا تمسخر کرتا پھر رہا تھا۔ جب صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان و یقین سے اس کا جہلٹکرایا تو حیرت سے مبہوت رہ گیا۔فَـبُهِتَ الَّـذِىْ كَفَرَ۔(3)۔

اس دن ایمان، یقین، تصدیق اور عقیدے کی دنیا نے دیکھ لیا کہ صدیق رضی اللہ عنہ مراتبِ تصدیق کے کس مقام پر فائز ہیں۔ افضل البشر بعد الانبیاء رضی اللہ عنہ کی یہی شان ہونی چاہیے تھی، جو پوری قوت سے نمایاں ہوئی۔ آسمان اور زمین میں ان کی صدیقیت کا شہرہ ہوا۔ اللہ نے انھیں صدیق کہا (4)، فرشتوں نے ان کا ذکر اپنی مجلس میں کیا، رسول اللہ ﷺ نے اپنا خلیل بنایا اور اصحابِ کرام رضی اللہ عنھم نے انھیں خلیفہ بلا فصل منتخب کیا۔

٭-٭-٭-٭-٭

اسلامی تاریخ میں دو ہی غار ہیں جنھیں خاص امتیاز حاصل ہے۔ ایک غارِ حرا جہاں وحی کا نزول ہوا اور دوسرا غارِ ثور جہاں اس وحی کی حفاظت ہوئی۔ غار حرا کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں لیکن قرآن غارِ ثور کو حق و باطل میں خط امتیاز کی طرح پیش کرتا ہے اور یہ وہی مقدس مقام ہے جہاں زبانِ رسالت ﷺ نے پوری انسانیت کے سامنے اللہ، رسولﷺ اور صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت کا اعلان فرما دیا۔ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَنَا (5)۔

٭-٭-٭-٭-٭

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رحمٰن اور رسول کے خلیل تھے۔ انھیں مقام خلت حاصل ہے۔ مقام خلت وہ مقام ہے جو کسی نسبت کا محتاج نہیں اور خود اس سے بڑی کوئی نسبت نہیں۔

٭-٭-٭-٭-٭

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی ہی فضیلت سے معمور ہے۔ حیات صدیق رضی اللہ عنہ کا دوسرا نام ہی فضیلت ہے اور اگر فضیلت انسانی پیکر میں ڈھل جائے تو صدیق قرار پائے۔ حیات صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ ایسا کونسا گوشہ ہے جس میں فضیلت کا کوئی پہلو نمایاں نہ ہو اور اسی فضیلت نے انھیں مقام افضلیت پر فائز کیا ہے۔ ایمان قبول کیا تو اس شان سے کہ اول المسلمین قرار پائے۔ تصدیق کی تو ایسی کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بنا دیا۔ جو اسلام کے اولین مبلغ تھے۔ قریہ بہ قریہ، کو بہ کو دعوت و تبلیغ میں رسول ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ رسول ﷺ کے ہمسفر بنے تو قرآن نے ثانی اثنین سے خطاب فرمایا۔ زمین کے جس ٹکرے تو خرید کر آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے قدموں میں پیش کیا وہ ٹکڑہ زمین ریاض الجنۃ قرار پایا۔ انفاق کیا تو اس قدر کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام کے سوا سب کچھ رسول ﷺ کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ یہ انفاق کی وہ منزل تھی کہ قلبِ صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کے دل میں اس کا خیال تک نہ گزرا تھا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک، اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک، ہر خوشی ہر غم میں، ہر یسر اور ہر عسر میں رفاقت کی تو ایسی کہ قرآن نے رسول ﷺ کا صاحب قرار دیا۔ جنھیں رسول ﷺ نے امیر الحج اور اپنے مصلے کا وارث بنایا۔ یہ رفاقت اور معیت تو اس درجہ مقبول عام رہی کہ موت بھی انھیں جدا نہ کر سکی اور صدیوں سے رسول ﷺ اور صدیق رضی اللہ عنہ ایک ہی مقام پر محو استراحت ہیں۔ رسول ﷺ کے اتنے قریب نہ ان کی کوئی زندگی میں صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا رہا اور نہ آج کوئی دوسرا ہے۔ رسول ﷺ اور صدیق رضی اللہ عنہ تو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ما ظنك باثنين الله ثالثھما۔ (6)۔

حواشی

۔[1] "بے شک ہم نے یہ ذکر (قرآن) اتارا ہے اور بے شک ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔” (الحجر: 9)۔

۔[2] "اور جو سچی بات لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی۔” (الزمر: 33) سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ صدق سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں اور صدّق بہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ۔

۔[3] "پس وہ کافر مبہوت رہ گیا۔” (البقرۃ: 258) یہ الفاظ قرآنِ کریم میں نمرود کے لیے استعمال ہوئے جو ایمان ابراہیمی کے سامنے اپنے کفر کی کوئی دلیل نہ دے سکا اور حیرت سے مبہوت رہ گیا۔ پس ایمان و کفر کے معرکے میں تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ صدیق رضی اللہ عنہ کے یقین کے سامنے ابو جہل کا مسخرہ پن بھی ماند پڑ گیا۔

۔[4] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” يا أبابكر، إن الله سماك الصديق ۔”(مسند الدیلمی، کنز العمال) ترجمہ: "اے ابو بکر ! اللہ تعالی نے تمہارا نام” صدیق "رکھا ہے۔”۔

۔[5] "غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔” (التوبۃ: 40) یہ وہ الفاظ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے غارِ ثور میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمائے اور اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ان کلمات کو ہمیشہ کے قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا۔

۔[6] "تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو۔” (البخاری فی کتاب التفسیر و کتاب فضائل الصحابہ، مسلم فی کتاب فضائل الصحابہ) یہ وہ الفاظ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے غار ثور میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمائے۔

 

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.