تبصرہ کتب: یادگارِ سلف، الاربعین فی مناقب الخلفاء الراشدین


الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ

یادگارِ سلف

(استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات)
مولف: حافظ شاہد رفیق
طبع اول: جولائی 2019ء
صفحات: 588     قیمت: 1000 روپے
ناشر: دار ابی الطیب، گل روڈ، حمید کالونی، گلی نمبر 5، گوجرانوالہ برائے رابطہ: 0553823990

گزشتہ صدی کے جن بزرگوں نے اپنے کردار و عمل سے عہدِ سلف کے بزرگوں کی یاد تازہ کی ان میں ایک نمایاں نام استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کا ہے۔ جو زہد و تقویٰ میں اپنے زمانے میں درجہ امامت پر فائز تھے جنھیں دیکھ کر ان کے معاصرین عہدِ گزشتہ کے بزرگوں کا تصور کیا کرتے تھے۔ اپنے عہد میں جدید طرز کی اوّلین درس گاہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ (آرہ) کے صدر مدرس اور ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے بانی صدر تھے۔ جنھوں نے بذریعہ درس و تدریس ایسی غیر معمولی خدمت انجام دی کہ بقول علامہ سلیمان ندوی:-۔

۔’’کہا جا سکتا ہے کہ مولانا سیّد نذیر حسین صاحب کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اور شاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی اور کو ان کے شاگردوں میں نہیں ملا۔‘‘ (مقدمہ ’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘، ج 1، ص: 37)۔

دور و نزدیک کے تلامذہ کی وسعت، ہمہ جہت خطوں سے تعلق رکھنے والے طلابِ علم کا رجوع اور مختلف مسالک و طبقہ فکر سے وابستہ اہلِ علم کا اخذ و استفادہ کرنا یہی وہ خوبیاں ہیں جن کے باعث انھیں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا اور بجا طور پر۔

حافظ صاحب غازی پوری مئوناتھ بھنجن کے محلہ نیا پورہ میں تقریباً 1261ھ میں پیدا ہوئے۔ حافظ صاحب کی ابتدائی زندگی نا مساعد حالات کا شکار رہی۔ بچپن ہی سے کسبِ معاش میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کی وجہ سے حافظ صاحب کو یکسوئی سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا۔ لیکن قلب کا اخلاص تھا جس نے ان دقتوں کے اثرات کو جلد ہی زائل کر دیا۔ حافظ صاحب کو مفتی رحمت اللہ فرنگی محلی، مولانا نعمت ﷲ فرنگی محلی، مفتی محمد یوسف فرنگی محلی، سید نذیر حسین محدث دہلوی، شیخ حسین بن محسن یمانی، علامہ عباس بن عبد الرحمن الحسنی الشہاری وغیرہم جیسے اساتذہ کبار سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔

حافظ صاحب کی زندگی کے بہت سے اوراق ہیں جن میں عظمت و عزیمت کے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ اپنے وقت کی ان آزمائشوں میں انھوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ عدالتوں میں مقدمات بھی لڑے اور فتنوں کا سد باب بھی کیا۔ وہ طبیعتاً صلح پسند تھے اسی لیے تخریب کے پتھروں کو بھی برداشت کیا اور تعمیر کی بنیاد بھی رکھی۔ وہ ایک مستقیم المزاج شخص تھے جنھیں وقت کے طوفان اپنی جگہ سے ہلا نہ سکتے تھے۔ یہ ان کے کردار کی عظمت تھی جو ان کی پوری زندگی پر محیط رہی۔

حافظ صاحب کا ایک بہت بڑا کارنامہ ان کی خدمت تدریس ہے۔ مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور، ڈیانواں، ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ، ’’مدرسہ ریاض العلوم‘‘ دہلی، ’’مدرسہ علی جان‘‘ دہلی اور لکھنو میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ جہاں بھی گئے طلاب علم کا ایک بڑا حلقہ ان کے خرمن علم سے وابستہ ہوا۔ ان کے تلامذہ میں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے متعدد مشاہیر علماء شامل ہیں۔ جن میں ناشر کتبِ حدیث مولانا تلطف حسین عظیم آبادی، مولانا محمد سعید محدث بنارسی، مولانا ظہیر احسن شوق نیموی مصنف ’’آثار السنن‘‘، شاہ علی نعمت پھلواروی، شاہ عین الحق پھلواروی، شاہ محمد سلیمان پھلواروی، مولانا حفیظ ﷲ بندوی (ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے اوـلین صدر مدرس)، مولانا عبدالرحمن بقا غازی پوری، مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری صاحبِ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘، مولانا عبدالسلام مبارکپوری مصنف ’’سیرت البخاری‘‘، مولانا ابوبکر محمد شیث جون پوری (استاد دینیات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ)، مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی، مولانا محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، سید مصباح الدین طرابلسی شامی وغیرہم شامل ہیں۔

اپنی بھرپور تعلیمی و تدریسی زندگی کے باوجود حافظ صاحب نے ایسی کئی دینی و علمی، ملی اور جماعتی ذمہ داریاں نبھائیں جن پر بلاشبہہ ناز کیا جا سکتا ہے۔ وہ جماعتِ مجاہدین سے وابستہ اور منسلک تھے۔ یوں تو ان کے عقیدت مند پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے تاہم یوپی کے مشرقی اضلاع، بہار اور بنگال میں ان کا خاص حلقۂ اثر تھا۔ وہ ان علاقوں میں تبلیغی دورے بھی کیا کرتے تھے اور مجاہدین کے لیے بڑی بڑی رقوم جمع کر کے بھجوایا کرتے تھے۔ حافظ صاحب کی یہ سرگرمیاں حکام وقت کی بھی نظروں میں تھیں۔ چنانچہ تحریکِ ریشمی رومال سے متعلقہ انگریز گورنمنٹ کے خفیہ دستاویزات میں حافظ صاحب کا نام جماعتِ مجاہدین کے اہم ترین رہ نما کی حیثیت سے ملتا ہے۔

حافظ صاحب ’’ندوۃ العلماء‘‘ کی اصلاحی تحریک کے کبار موئدین میں سے تھے۔ اس کے ابتدائے قیام ہی سے حافظ صاحب نے اس کی اخلاقی و عملی تائید کی۔

دعوت و تبلیغِ دین کے تو حافظ صاحب حریص تھے۔ اس کے لیے جیسی ان تھک محنت انھوں نے کی وہ توفیقِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔ درس و تدریس اور تصنیف و افتا کی ذمے داریوں کے باوجود انھوں نے جس طرح دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ان کی تبلیغی زندگی کے کئی حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں جنھیں پڑھ کر شدید حیرت ہوتی ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘، دل بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ ایک بے غرض انسان اور صحیح معنوں میں ولی اللہ تھے جنھیں اللہ رب العزت نے اس عہدِ ظلمت میں لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے بھیجا تھا۔

حافظ صاحب کی پوری زندگی اخلاص، بے غرضی، استغنا اور شانِ توکل و رضا کی قابلِ رشک مثالوں سے معمور رہی۔ جو لوگ حافظ صاحب کی بارہا کی مجالس کے شریک تھے وہ اگر حافظ صاحب کے کردار و عمل کے گرویدہ ہوں تو محل تعجب کیا ہے، لیکن جس نے صرف ایک آدھ بار سرسری ملاقاتیں کیں وہ بھی اس پیکر حلم و شرافت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:-۔

۔’’مجھے لکھنو میں مولانا سیّد عبد الحی صاحب ناظم ندوہ کی قیام گاہ پر مولانا سے ملاقات کی سعادت ایک دو دفعہ حاصل ہوئی، دبلے، پتلے، نحیف، داڑھی کے بال خفیف، سادی وضع، صورت سے متواضع اور حلیم معلوم ہوتے تھے۔‘‘ (یادِ رفتگاں ص: 40)۔

مولانا عبد الماجد دریابادی نے صرف ایک مرتبہ زیارت کی تھی، اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں:-۔

۔’’حافظ صاحب مرحوم و مغفور کے مرتبۂ فضل و کمال سے واقف ہوں۔ لکھنو میں ایک بار سرسری زیارت بھی کی تھی، وضع و لباس کی سادگی سے اس وقت میں متاثر ہوا تھا۔‘‘ (ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور: 2 نومبر 1962ء)۔

مجلسِ رشد و ہدایت کی اس نورانی شمع کے لیے بالآخر قانونِ الٰہی کے مطابق سفر آخرت کا پروانہ جاری ہوا۔ مئو ناتھ بھنجن سے حافظ صاحب کی زندگی کا سورج طلوع ہوا، غازی پور، ڈیانواں، آرہ اور دہلی میں اپنی آب و تاب سے چمکا اور بالآخر لکھنو میں آ کر غروب ہو گیا۔ ایک ہفتے کی علالت کے بعد ۲۱ صفر ۱۳۳۷ھ / ۲۶ نومبر ۱۹۱۸ء کو نمازِ عصر پڑھنے کے بعد وفات پائی۔ شیخ محمد عرب یمانی نے نمازہ جنازہ پڑھائی اور لکھنو کے عیش باغ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

علامہ سیّد سلیمان ندوی اپنے تعزیتی شذرے میں وہ لکھتے ہیں:-۔

۔’’مولانائے مرحوم نے گو طبعی عمر پائی، لیکن اس خیال سے کہ وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کے تنہا یادگار تھے، ہم ان کے لیے اس سے دراز عمر کے متوقع تھے۔ مولانا اتباعِ سنت، طہارت و تقویٰ، زہد و ورع، تبحرِ علم، وسعتِ نظر اور کتاب و سنت کی تفسیر و تعبیر میں یگانۂ عہد تھے۔ اپنی عمر کا بڑا حصہ انھوں نے علومِ دینیہ خصوصاً کتابِ مجید اور حدیث شریف کے درس و تدریس میں گزارا اور سیکڑوں طلباء ان کے فیضِ تربیت سے علما بن کر نکلے۔‘‘ (یادِ رفتگاں، ص: 40)۔

حافظ صاحب کی وفات 1918ء میں ہوئی پوری ایک صدی کے بعد 2018ء میں بتوفیقِ الٰہی حافظ شاہد رفیق صاحب نے حافظ محدث غازی پوری کی حیات و خدمات پر ایک محققانہ کتاب لکھنے کا آغاز کیا اور سال بھر کی محنت کے بعد ’’یادگارِ سلف‘‘ کے عنوان سے عہدِ سلف کی اس یادگار کے حالات لکھنے میں کامیاب ہوگئے۔

کتاب 13 ابواب پر منقسم ہے۔ اپنے حرفِ آغاز میں مؤلف نے اپنے ماخذ و مراجع کا تعارف کرایا ہے۔ کتاب کے بعض امتیازات حسبِ ذیل ہیں:-۔

۔1- صاحبِ سوانح کے تمام سوانحی اجزا بھرپور طریقے سے پیش کیے گئے اور کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا۔

۔2- حافظ صاحب جن تعلیمی اداروں سے کسی بھی نوع سے وابستہ رہے ان اداروں کا بھی بھرپور تعارف کتاب میں آ گیا ہے۔ جیسے: مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور، مدرسہ اسلامیہ امام بخش جون پور، ڈیانواں، مدرسہ احمدیہ آرہ، مدرسہ ریاض العلوم دہلی، مدرسہ علی جان دہلی اور ندوۃ العلماء لکھنؤ۔

۔3- جن ملی تحریکات سے حافظ صاحب کی وابستگی رہی ان کی اجمالی تاریخ بھی مولف نے پیش کر دی۔ جن میں جماعت مجاہدین اور آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس شامل ہیں۔

۔4- متحدہ ہندوستان میں دعوت و تبلیغ کی راہ کی مشکلات اور تبلیغی جماعت کے اولین و ابتدائی نقوش کو جن بزرگوں نے استوار کیا ان میں حافظ صاحب کی خدمات بھی شامل ہیں۔ فاضل مولف نے صاحبِ ترجمہ کی زندگی کے اس پہلو کو بھی تفصیل سے بیان کیا۔

۔5- اصول و عقائد کے زیر عنوان باب میں  مولف نے حافظ صاحب کے دینی افکار و عقائد کو پیش کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے علم و مسلک میں خاصا توسع تھا۔ اہل علم کے لیے اس میں علمی لوازمہ موجود ہے۔

۔6- حافظ صاحب کی تمام دستیاب مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ اس میں فقہی و حدیثی رسائل بھی ہیں اور منطق و معقولات کا علمی سرمایہ بھی۔

۔7 – حافظ صاحب کے اخلاق و کردار کے ضمن میں پُر از نصائح واقعات درج کیے ہیں۔

۔8- تلامذہ کے حالات میں خصوصی توجہ دی اور 125 تلامذہ کے نام اور ان کے مختصر سوانحی اشارے کتاب میں با حوالہ محفوظ کر دیے ہیں۔

۔9- اساتذہ و معاصرین اور اہم علمی افرادِ خاندان کے حالات بھی اپنے اپنے عنوان کے تحت درج کیے ہیں۔

۔10- آخری باب میں حافظ صاحب کی وفات پر دستیاب مختلف اہل علم کے تاثرات نظم و نثر کو نقل کر دیا گیا ہے۔

کتاب میں جس شخصیت کی سوانح درج کی گئی ہے وہ حنفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتداً حنفی علمائے ذی اکرام سے اخذ علم کیا اور اس کے بعد جب کہ وہ صاحبِ مسند و ارشاد بن چکے تھے ان کے خیالات تبدیل ہوئے اور ان کے مزاج و فکر میں اہل حدیث کی طرف میلان بڑھتا چلا گیا۔ تاہم ان کے علمی روابط ہر مسلک کے اہل علم کے ساتھ استوار رہے۔ ان کے اساتذہ، تلامذہ اور معاصرین میں ہر مسلک کے اہل علم شامل تھے۔ درس قرآن کا انھیں خاص ذوق تھا۔ قرآنی فکر و فہم سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ وہ جہاں بھی گئے ان کا سلسلہ درس قرآن جاری رہا۔ بانکی پور (پٹنہ) میں ان کا ہفت وار درس قرآن کا سلسلہ برسہا برس جاری رہا جس میں سر علی امام اور بیرسٹر مظہر الحق جیسے قومی رہ نما بھی بصد شوق شریک ہوا کرتے تھے۔

اردو زبان و ادب میں فن سوانح پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں یہ کتاب ایک ثمین اضافہ ہے۔ جس میں تحریر کی روانی بھی ہے اور تحقیق کی جولانی بھی۔ مولف نے اپنی کتاب میں صرف حافظ صاحب غازی پوری کی سوانح نہیں لکھی بلکہ حافظ صاحب سے وابستہ اس پورے عہد کو قرطاس ابیض پر سمیٹ لیا ہے۔

سوانح علما سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک خوب صورت علمی تحفہ ہے۔ جس میں ایک فرد کی سوانح کے ذیل میں قریباً 150 اکابر علم کے سوانحی نقوش بھی مل جاتے ہیں۔

کتاب کی طباعت بھی بہت معیاری ہے اور حروف خوانی پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے۔

الاربعین فی مناقب الخلفاء الراشدین

مولف: مولانا ساجد خان نقشبندی
طبع : مئی 2019ء
صفحات: 32     قیمت: 50 روپے
ناشر: جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ پاکستان
برائے رابطہ: 03482175472

خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم سے محبت اور عقیدت رکھنا ایک سچے مسلمان کا ایمانی تقاضا ہے۔ اسی طرح تمام اصحابِ رسول ﷺ سے محبت اور احترام جزو ایمان ہے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔ دین اسلام کے لیے ان کی قربانیاں، ان کا ایثار، جدو جہد اور اخلاص تاریخ اسلام کا عظیم سرمایہ ہے جس کے نقوش اوراقِ تاریخ پر نمایاں ہیں۔ ہر دور میں اہل علم و تحقیق نے خلفائے راشدین اور بعض دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم پر مستقل کتابیں تالیف کیں۔ ان کے فضائل و مناقب پر کتابیں لکھی گئیں۔ تاکہ امت کا ان سے عقیدت و احترام کا رشتہ برقرار رہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہی اصحابِ رسول ﷺ ہیں جنھوں نے ہم تک اللہ کا دین پہنچایا۔ قرآن بھی ان ہی کے توسط سے ہم تک پہنچا اور رسول اللہ ﷺ کے معمولاتِ روز و شب کی آگاہی بھی ہمیں ان ہی کے ذریعے سے ہوئی۔ قرآن اور حدیث میں ان کے بے شمار فضائل و مناقب درج ہیں۔

محدثین کرام میں اربعین نویسی کی روایت بہت قدیم ہے۔ جس کے مطابق کسی ایک موضوع یا مختلف موضوع پر چالیس احادیث جمع کی جاتی ہیں۔ مولانا ساجد نقشبندی نے اسی روایت کے مطابق خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب پر 40 احادیث جمع کی ہیں۔ کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ پہلے ہر خلیفہ راشد کے مختصر حالات بیان کیے اور پھر ان کے فضائل میں 10 حدیثیں نقل کی ہیں۔ احادیث نقل کرنے کے بعد ان کی مختصر شرح بھی کر دی ہے۔ عام افراد کے لیے یہ کتابچہ بہت مفید ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات 13ھ میں ہوئی تھی کتاب میں 31ھ درج ہے (ص: 6)، شاید کتابت کی غلطی ہو۔

فاضل مولف نے آخر میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس کے بعد ’’الاربعینات فی مناقب خلفاء سید الکائنات‘‘ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ہر خلیفہ راشد کے فضائل و مناقب پر چالیس احادیث جمع کریں گے۔ اللہ رب العزت انھیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اس ضمن میں ایک گزارش یہ ہے کہ ہر خلیفہ راشد کے نسبتاً جامع حالات لکھے جائیں اور وہ بھی با حوالہ۔ تاکہ عام طلابِ علم میں تحقیق کا ذوق پروان چڑھے۔

مبصر: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.