الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ
از قلم : ابو عمار سلیم
اللہ خالق کائنات نے جب انسان کو خلق کیا تو باری تعالیٰ کا مقصد روئے ارض پر اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کرنا تھا۔ اس مالک کون و مکاں نے انسان کی خلقت میں اس کے مقصد حیات کے عین مطابق بہت ساری خصوصیات رکھیں جو اس کے عمل اور اس کے حیات ارضی کے لیے لازم و ملزوم تھیں۔ انسان کی خلقت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو خلق کیا تھا۔ ان کا جو مقصد تخلیق تھا اس کے مطابق ان کے اندر خصوصیات رکھیں اور انھیں ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھا۔ اسی طرح احکامات کی بجا آوری اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ان کے اندر رکھی گئی۔ جنوں کو خلق کیا تو ان کو مکلف کیا اور خیر و شر دونوں کو قبول کرنے کی ان کے اندر خصوصیت رکھ دی۔ ابلیس ملعون جو جنوں میں سے تھا، جب اللہ کے احکامات سے روگردانی کر بیٹھا تو عین اسی وقت سے اس کی سرشت میں شر ہی شر لکھ دیا گیا کہ وہ جو بھی کرتا ہے اللہ کے احکامات کی مخالفت میں ہی کرتا ہے۔ اسی طرح انسان کی سرشت میں اللہ رب العزت نے خیر و شر دونوں کا مادہ رکھ دیا۔ دونوں راستے واضح اور صاف طور سے اس کے اندر الہام کر دیئے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:-۔
فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا (الشمس: ۸) ۔
یعنی: "ہم نے اس کو شر کے بارے میں بھی الہام کر دیا اور خیر کے بارے میں بھی بتا دیا۔”۔
اور اس کے بعد معاملہ چھوڑ دیا انسان کی اپنی صوابدید پر کہ وہ خیر اور بھلائی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا برائی اور شر کا۔ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ فرشتوں کی طرح صرف نیک اعمال کرے اور گناہ اس سے سرزد نہ ہوں اس لیے کہ اس کے خمیر میں خیر اور شر کی بڑی پختہ آمیزش ہے۔اسی لیے ہم دن بھر میں ہزاروں کام ایسے کرتے ہیں جن کا تعلق خیر سے نہیں ہوتا۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جب اللہ نے خلق کیا تو ان کو جنت میں رہنے کی جگہ دی جہاں ہر طرف صرف خیر ہی خیر تھا۔ آپ کی سرشت میں بھی برائی کے اختیار کرنے کی اہلیت موجود تھی مگر چونکہ فطرت میں خود بخود شر کی طرف جانے کی کوئی تحریک نہیں ہوتی اس لیے آپ کو جب تک ابلیس لعین نے بہکایا نہیں آپ برائی کی طرف نہیں گئے۔ مگر ہمارے اس ازلی دشمن نے ہمارے جد امجد کو بہلا پھسلا کر اور غلط بیانیاں کرکے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی بات مان کر آدم علیہ السلام ایسی بھلائی اور خیر حاصل کرلیں گے جو اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب ہوگی۔ شر کو اس مردود نے خیر کی پیکنگ میں لپیٹ کر پیش کیا اور ہمارے بابا آدم کم عمر، ناتجربہ کار اور سیدھے سادھے ہونے کی بدولت اس کی شرارت کو نہ سمجھ سکے اور اس کی چالوں میں آگئے اور یوں انسان نے اپنی تخلیق کے بعد سب سے پہلا گناہ کا کام کیا اور شر کے راستوں پر اپنا قدم رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ جو نہ صرف خالق ہے بلکہ ہماری نیت اور ارادوں اور ہمارے ان اعمال کا بھی علم رکھتا ہے جو ہم نے ابھی کیے بھی نہیں، اس لیے اس نے ہر برائی کو مٹانے کا ایک ذریعہ بھی رکھا ہے، اور وہ ہے توبہ کا راستہ۔ توبہ کر لینے کی یہ صفت بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں رکھی ہے اسی لیے جب حضرت آدم علیہ السلام کویہ پتہ چلا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور اللہ کے احکامات کے خلاف ورزی ہو گئی ہے تو انھوں نے فوراً اپنا سر اللہ کے آگے ٹیک دیا اور معافی کے طالب ہوئے گو کہ معافی کے وہ الفاظ جو انھوں نے ادا کیے وہ اللہ تعالیٰ نے ہی انھیں سکھائے مگر آپ نے ذرا بھی دیر نہ لگائی اور توبہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ مہربان عظیم ہے اس لیے اس نے انھیں فوری معاف بھی کر دیا اور نسل انسانی کے لیے تاقیامت توبہ کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تاکہ اگر غلطی ہو جائے تو انسان اللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ ایسی غلطی دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کرے اور معافی کی التجا کرے تو اللہ تعالیٰ کو یہ ادا بہت پسند آتی ہے اور وہ فوراً معاف کر دیتا ہے۔
توبہ کرنے کے بارے میں قرآن کریم میں جا بجا تاکید آئی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر گناہ کریں گے اور اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے خلاف بھی چلے جائیں گے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ جیسے ہی ہمیں احساس ہو کہ غلطی ہوگئی تو بس توبہ کرنا اور معافی مانگنے کے لیے گڑگڑانا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا تُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاۖ (التحریم: ۸)۔
یعنی: "اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو۔” ۔
پھر ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:-۔
وَتُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ جَـمِيْعًا (النور: ۳۱) ۔
یعنی: "اور مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔”۔
توبہ کے لیے اور بھی بہت ساری آیات کلام پاک میں موجود ہیں اور ہر موقعہ پر اللہ نے توبہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور اس کے فوائد بھی گنوائے ہیں اور اس سے اللہ کی جو رضا حاصل ہوتی ہے اس کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔مگر توبہ کے لیے لازمی شرط اخلاص اور شرمندگی کی موجودگی ہے اور یہ احساس اور پکا ارادہ شامل ہونا چاہیے کہ آئندہ یہ غلط کام نہیں کروں گا۔ توبہ کرنے والا اللہ کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:-۔
اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ (البقرۃ: ۲۲۲)۔
یعنی: "بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔”۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:-۔
۔”التائب من الذنب كمن لا ذنب له۔” (سنن ابن ماجة)۔
یعنی: "گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔”۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ اولاد آدم کو معصیت بھی وراثت میں ملی ہے اور ندامت، شرمندگی اور توبہ بھی۔ انسان اپنی گمراہی اور نادانی سے، یا کم علمی اور جہالت کی بدولت غلط کاموں کی طرف جا گھستا ہے اور یوں اللہ کے احکامات کے خلاف کام کرتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ بزرگوں اور اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ گناہ کا کام کرتے ہی توبہ واجب ہو جاتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان توبہ تو جب ہی کرے گا جب اس کو معلوم ہو گا کہ یہ کام جو میں نے کیا ہے یہ اللہ کے احکامات کے خلاف کر دیا ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ انسان کے لیے اس بات کا علم حاصل کرنا لازمی ہے کہ کن باتوں سے دور رہنا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عموماً بچپن میں ہی انسان اپنی اولاد کو بہت ساری صحیح اور غلط باتوں کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان تعلیم کے ذریعہ یا معاشرہ میں میل جول اور لین دین کے ذریعہ سے بہت ساری باتوں کا علم حاصل کرلیتا ہے اور اس کے اندر غلط اور صحیح باتوں کے علم کا کافی بڑا ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے۔ انسان اپنی سرشت اور معلوم علوم کے سہارے اپنی زندگی کو ایک درست راستے پر لگانے کا اہل ہو جاتا ہے۔ تاہم وقت کی گرد پڑ کر اور احساس شرمندگی کے ماند پڑ جانے کی وجہ سے انسان رفتہ رفتہ غلط اور صحیح کے درمیان تفریق کرنا کم کر دیتا ہے اور پھر کچھ لوگ تو ایسے ہو جاتے ہیں جو اخوان شیاطین بن جاتے ہیں اور انھیں اس بات کا خوف بھی نہیں رہتا کہ وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور ا تنے نڈر ہو جاتے ہیں کہ انھیں آخرت کے عذاب کا بھی کوئی خوف نہیں رہتا۔ بہت سے لوگ ایسے ہو جاتے ہیں جنھیں شیطان ان کی حرکتوں کو خوشنما بنا دیتا ہے اور اسی کام پر ڈٹے رہنے کے لیے آمادہ کر لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کو غلط کاموں میں اتنا منافع ہو جاتا ہے کہ وہ اس کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن مجید کا فرمان ہے:-۔
اِنَّا جَعَلْنَا فِىٓ اَعْنَاقِهِـمْ اَغْلَالًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُـمْ مُّقْمَحُوْنَ – وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ اَيْدِيْـهِـمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِـمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنَاهُـمْ فَهُـمْ لَا يُبْصِرُوْنَ – وَسَوَآءٌ عَلَيْـهِـمْ ءَاَنْذَرْتَـهُـمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُـمْ لَا يُؤْمِنُـوْنَ (یٰسین: ۸-۱۰)۔
۔”بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں پس وہ ٹھوڑیوں تک ہیں سو وہ اوپر کو سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ہم نے ان کے سامنے ایک دیوار بنا دی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک دیوار ہے پھر ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے کہ وہ دیکھ نہیں سکتے۔ اور ان پر برابر ہے کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔”۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر مومن کو ایسی کسی حالت میں پڑنے سے بچا لے۔ دلوں پر اگر زنگ لگ جائے تو پھر تو اس کا اترنا بہت ہی مشکل ہے جیسے کہ قرآن مجید نے خود مثال دی ہے کہ جب انسان گناہوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر اس کے دل پر زنگ کا غبار چڑھ جاتا ہے ۔ ارشاد ہوا:-۔
كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ مَّا كَانُـوْا يَكْسِبُوْنَ (المطففین:۱۴)۔
یعنی: "ہرگز ایسا نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال (بد) کا زنگ بیٹھ گیا ہے۔”۔
اور پھر یوں ہوتا ہے کہ زنگ کے لگتے ہی اس کو اتارنے کی کوشش نہ کی جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ زنگ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس زنگ کو دور کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایسی کسی حالت میں پہنچنے سے پہلے ہی ہدایت دے دے اور ہمیں اپنے توبہ کے در پر جھکالے۔ آمین۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:-۔
۔”أَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحسنةَ تَمْحُهَا۔” (الترمذی)۔
یعنی: "گناہ کرنے کے بعد فوراً کوئی نیکی کرو کہ یہ نیکی اس معصیت کو مٹا دے گی۔” ۔
مضمون کے اس حصے میں ہم نے دیکھ لیا کہ گناہ کی طرف لپکنا بھی انسان کی طبیعت میں شامل ہے اور پھر نیک روحوں کا شرمندگی و ندامت کے ساتھ توبہ کی طرف رجوع کرنا بھی اسی فطرت کا حصہ ہے۔ مگر ہمارا ازلی دشمن ابلیس ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے اور ہمیں ہر لمحہ اور ہر آن گناہ کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کے بیان کے مطابق جب انسان گناہ کے کرنے میں بے انتہا نڈر اور بے باک ہو جاتا ہے تو اللہ ان کی ہدایت کی خاطر ان میں اپنے پیغمبر بھیجتا ہے جو اسے ڈراتے ہیں اور گناہوں کو چھوڑنے اور اللہ کی طرف واپس بلانے اور رجوع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مگر جب انسان بغاوت پر اتر آئے اور اللہ کے رسولوں کی بات بھی نہ مانے تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اتارتا ہے اور پوری کی پوری قوم کو تباہ کر دیتا ہے اور گناہ گاروں سے دنیا کو پاک کرتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ نوح علیہ السلام کی قوم نو سو برس کی تبلیغ اور ڈراوے کے بعد بھی نہ سدھری۔ حضرت نوح علیہ السلام نے انھیں توبہ کی طرف بلایا اور یہ بھی بتایا کہ توبہ کرنے سے اللہ ان کو کس قدر انعام و اکرام سے نوازے گا کہ ان کی اولاد کو بڑھا دے گا، کھیتی باڑی میں برکت ہوگی، رزق کی فراوانی ہوگی، خوب بارشیں ہوں گی اور خشک سالی اور پانی کی کمی ختم ہو جائے گی۔ مگر جب قوم نے اپنے پیغمبر کو حد سے زیادہ مایوس کر دیا کہ نو سو برس کی کوششوں کے باوجود اسی پچاسی آدمیوں کے علاوہ کوئی نہ راستہ پر آیا تو اللہ کے پیغمبر بھی ان کے لیے بد دعا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر جب اللہ کا عذاب آیا تو پوری کی پوری قوم کو طوفان میں غرق کر دیا اور ان کا صفایا کر دیا۔ عین اسی طرح بعد میں بھی لوگ بہکتے رہے اور اللہ کے پیغمبروں کا مذاق اڑاتے رہے تو اللہ نے کیسی کیسی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ سب قرآن مجید کے صفحات میں موجود ہے۔ قوم عاد و ثمود، قوم ابراہیم و لوط، قوم شعیب وغیرہم کے واقعات درس عبرت کے لیے بہت کافی ہیں۔ صرف قوم یونس شاید ایسی قوم رہی کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر ڈر گئی اور ان کی اجتماعی توبہ اور معافی نے اس عذاب کو ٹال دیا جو تقریباً آ ہی چکا تھا۔ پرانے وقتوں میں پیغمبروں کا آنا، ان کا قوم کو سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کے بعد قوم کے نہ ماننے اور حد سے زیادہ نا فرمانی میں مبتلا ہونے کی بدولت اللہ تعالیٰ عذاب ان پیغمبروں کی موجودگی میں ہی بھیج دیا کرتا تھا اور پوری قوم کے نا فرمانوں کو ایمان والوں کی نظروں کے سامنے ہی ملیا میٹ کر دیتا تھا اور ایمان والوں کی مٹھی بھر جماعت سے پھر ایک نئی قوم جنم لیا کرتی تھی۔ دنیا کے تقریباً تمام علاقوں میں اللہ کی یہی سنت قائم رہی یہاں تک کہ اللہ کے آخری نبی یعنی پیغمبر انسانیت رحمت للعالمین ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا اور ان کے ذریعہ ایک ایسا ہدایت نامہ دنیا کو عطا کیا جو رہتی دنیا تک کے لیے انسان کی کامیابی اور سلامتی کا ذریعہ بنا۔ حضور پاک ﷺ کی آمد اور قرآن کریم کے نزول کے بعد نہ تو کسی کتاب کی اور نہ ہی کسی دوسرے پیغمبر کے آمد کی حاجت باقی رکھی گئی اس لیے کہ ہدایت انسانی کے تمام معاملات اور مشکلات کا اس کتاب اور سنت نبوی ﷺ میں شافی جواب موجود ہے۔ آج ہم اپنے گردا گرد دیکھتے ہیں تو گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہمیں معاشرہ کے ہر حصے میں سرائیت کی ہوئی نظر آتی ہے مگر اللہ تعالیٰ شاید ہمیں ڈھیل پر ڈھیل دیے چلا جا رہا ہے۔ اور اپنے عذاب کو ٹال رہاہے۔ مگر کب تک ؟
مضمون کے اس حصے پر پہنچ کر ہم وقتی طور پر ساری دنیا کو چھوڑ کر اپنے ملک پاکستان کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔ گو کہ ہماری خواہش ہے کہ سارے عالم اسلام میں اللہ کا ڈر اور خوف پیدا ہو اور ہم سب توبہ کی طرف رجوع کریں مگر میں فی الوقت اپنی توجہ صرف پاکستان کی طرف مرکوز رکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارا ملک بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت سے اسلام کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے قیام میں بزرگوں کی تمام مساعی کا واحد مقصد دین الٰہی پر بنا ہوا ایک معاشرہ قائم کرنا تھا۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہم پاکستانی اس مقصد اور ارادہ کو لے کر چلنے میں ناکام ہوگئے۔ وہ نسل جو آزادی کی جدوجہد کرنے والے بزرگوں کے فوراً بعد منصہ شہود پر آئی اس نے اپنے اسلاف کے نظریات، ان کی قربانیوں اور کوششوں اور مشکلات کو بھلا دیا اور ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے اپنے اپنے حلوے مانڈے کے چکر میں پڑ گئی اور وہ مقصدِ عظیم جس میں اللہ کی رضا تھی اسے گم کر دیا۔ نتیجہ کے طور پر نہ ہمارا آئین اسلامی شریعت کے مطابق بنا، نہ عدلیہ اسلامی اصولوں کے اوپر قائم ہوئی، نہ نظام حکومت درست اسلامی خطوط پر آیا، نہ طرز معاشرت اور نہ ہی معیشت کو اسلامی اقدار پر سنوارا گیا۔ نظام تعلیم کا سارا زور مغربی اصول تعلیم کی طرف موڑ دیا گیا اور اپنی اولاد کی تربیت اور ان کو سنوارنے کا کام کارٹونوں، ٹیلی ویژن اور فلموں کے حوالے کر دیا گیا۔ نتیجہ کے طور پر معاشرہ میں افراتفری، مذہب سے دوری اور اسلامی اقدار کی پامالی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ تو رکتا نظر آ رہا ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی بہتری کے کوئی آثار ہیں۔ ہمارا آج کا پاکستانی معاشرہ سڑا گلا اور انتہائی بودا، تعفن سے بھرا ہوا ہے جس میں سے سڑاند کی بو آ رہی ہے۔ اپنے گردا گرد جس چیز پر بھی نظر ڈالیے بدی ہی بدی نظر آتی ہے۔ سود کے معاملہ کو ہی لے لیجیے۔ یہ واحد برائی ہے جو معاشرہ کی تمام برائیوں کی جڑ ہے مگر ہم اس میں ایسے ڈوبے ہیں کہ کوئی آج اس کو برائی ماننے کو ہی تیار نہیں۔ قرآن حکیم کی آیت کی آیت بیان کرتے چلے جائیے مگر لوگوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگے گی۔ ایک ماہر فن اور دانشور نے تو یہ بھی فرما دیا کہ آج کی دنیا میں سود کے بغیر کوئی کاروبار ہو ہی نہیں سکتا اس لیے اس کو چھوڑنے کے بارے میں سوچنا ہی حماقت ہے۔ اللہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ سودی کاروبار کرنا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ پاکستان کا تاجر اور کاروباری حلقہ اس امید پر زندہ ہے کہ اعلان جنگ ہے تو کیا ہوا آخر میں تو ہم ہی جیتیں گے۔ معاذ اللہ۔ اللہ کی طاقتوں اور اس کی قدرتوں پر اتنا سا بھی ایمان نہیں رہ گیا اور اللہ کا فرمان ٹھکرا دیا گیا اور اللہ نے جو فرمایا تھا:-۔
لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ (المجادلۃ: ۲۱)۔
یعنی: "آخر کار جیت تو میری اور میرے رسولوں کی ہی ہوگی۔ "۔
اس کو سرے سے بھلا دیا گیا بلکہ سود کے بارے میں کوئی تھوڑا سا اگر کھٹکا تھا بھی تو اس کو معیشت کے ماہرین نے اسلامی بینکنگ کے کاروبار میں تبدیل کر کے اسلامی پہناوا پہنا کر دھوکہ دیا جب کہ در حقیقت بینک کے کاروبار کو سود سے الگ رکھنا انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ ہمارا بینکنگ کا سارا نظام سود کے اوپر اور اس کی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے۔ یہ اسلامی ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ۱۹۷۷ء یا ۱۹۷۸ء میں جس زمانے میں نیا نیا اسلامی بینکنگ کا کھڑاگ پیدا کیا گیا تھا اس زمانہ میں بڑا شور و غوغا ہوا کہ آسٹریلیا سے ماہرین کی ایک جماعت آئی ہے جو ہمارے بینکینگ نظام کو اسلامی طرزپر ڈھالے گی۔ غور کیجیے ہمیں اسلام سکھانے والے غیر اسلامی لوگ آئے۔ استغفر اللہ۔ سود کو ہماری حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ حکومت سود پر قرض لیتی ہے، سود کی ادائیگی کرتی ہے، اسٹیٹ بینک کے لیے شرائط سود حکومت طے کرتی ہے، سود کا ریٹ بھی حکومت کے حکم سے ہی گھٹایا بڑھایا جاتاہے۔ سرکاری ملازمین اپنے ہی جمع کیے ہوئے پیسوں پر اگر ایڈوانس لیں تو اس کی واپسی بھی سود کے ساتھ ہوتی ہے۔ مکان بنانے کے لیے قرض لیں تو ہائوس بلڈینگ ایک بڑے سود خوار کی طرح آپ کا سارا خون چوسنے کے لیے کیل کانٹوں سے لیس ہے۔ ہم یہ سب صرف اس نظریہ اور بنیادوں پر کر رہے ہیں کہ سود کے بغیر نظام قائم نہیں رہ سکتا جو غلط ہے۔ دنیا میں کئی ایک ممالک جیسے جاپان اپنی معیشت سود سے پاک نظام پر چلا رہے ہیں۔ اگر وہ نہیں ڈوب رہا تو ہماری معیشت کیسے زمین پر آ گرے گی۔ اسی طرح مائیکرو فنانسنگ (Micro Financing) سسٹم اگر سوود سے پاک کرکے چلایا جا رہا ہے تو بینکینگ کا نظام کیوں نہیں چل سکتا۔ کوئی اس پر غور کرنے کو تیار ہی نہیں۔ اور تو اور میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس موٹی رقم موجود ہوتی ہے وہ اپنے ضرورت مند دوستوں اور عزیزوں کو روپیے قرض پر دیتے ہیں مگر سود کے ساتھ۔ قرض حسنہ جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دی تھی وہ اب غائب ہو گیا۔ بے حسی، بے دردی اور خود غرضی نے اس کی جگہ لے لی ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا پیسہ بغیر منافع لیے ہوئے کیوں دوں۔ الامان و الحفیظ۔ ہر آدمی اس امید پر یہ جنگ اللہ کے خلاف لڑ رہا ہے کہ جیت تو ہماری ہی ہوگی۔ کیسی نادانی ہے اور کیسا بھٹکاوا ہے۔ اللہ کی پناہ۔ پیسہ کمانے اور راتوں رات دولتمند بن جانے کا ایسا سودا لوگوں کے سروں میں سمایا ہوا ہے کہ آج ہم جلدی جلدی روپیہ کمانے کی خاطر گدھوں، مرداروں، چوہوں، کتوں اور مینڈکوں کا گوشت لوگوں کو کھلا رہے ہیں۔ حرام و حلال کی تمیز نہ اپنے لیے اور نہ ہی غیروں کے لیے۔ گٹر کے پانیوں اور سڑی گلی چربی اور آنتوں سے نکالا ہوا تیل بازاروں میں عام مل رہا ہے۔ مجھے اور آپ کو شاید پتہ نہ چلے مگر جو لوگ یہ کاروبار کر رہے ہیں اور جو لوگ یہ چیزیں جان بوجھ کر خرید رہے ہیں ان کا مطمح نظر صرف اور صرف دولت کا حصول ہے۔ دولت کے حصول کے لیے آسان سے آسان ذرائع ڈھونڈھے جا رہے ہیں۔ حکومتی پرائز بانڈ، مختلف انعامی اسکیمیں وغیرہ سب ایک سازش کے ذریعہ سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ یہ چیزیں جوئے کے برابر ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے روک رکھا ہے۔ علماء نے لوگوں کو یہ تعلیم ہی نہیں دی کہ جوا کس کو کہتے ہیں۔ جوا کتنی قسم کا ہوتا ہے اور معاشرہ میں رائج کتنی چیزیں جوئے کے زمرے میں آتی ہیں۔ جوا کو بھی اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے۔ (دیکھیے: سورۃ المائدہ: ۹۰)۔ اتنے واضح احکامات کے بعد بھی اگر ہمارے مفتی صاحب چپ سادھے بیٹھے رہیں تو معاشرہ برائی کی طرف ہی جائے گا۔ ان کے علاوہ اور کتنی ہی برائیاں ہیں جو اس پاکستانی معاشرہ میں رائج ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ بے پردگی جو عصمت فروشی کی پہلی سیڑھی ہے اس سے کس کو انکار ہے۔ آج ہماری اسکول اور کالج کی لڑکیاں اور لڑکے اس گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ گو کہ یہ برائی ہر معاشرہ میں ہمیشہ رائج رہی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بعد اس میں اگر رکاوٹ نہ پڑے تو بے غیرتی ہے اور اللہ کے خلاف اعلان بغاوت نہیں ہے تو کیا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی برائیاں آج معاشرہ میں کیا تباہیاں نہیں پھیلا رہی ہیں۔ لڑکے لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کر رہے ہیں۔ ناروا تعلقات قائم ہو رہے ہیں، ہم جنس پرستی معاشرہ میں بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اور تو اور اب معاذاللہ مغرب کی دیکھا دیکھی لڑکے لڑکوں کے ساتھ اور لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کر رہے ہیں۔ یہ خباثت ابھی ہمارے معاشرہ میں کھل کے سامنے نہیں آئی ہے مگر درپردہ کیا ہو رہا ہے ؟ یہ ایک سوال سوچنے والا ہے۔ ہماری پاکستانی لڑکیوں کی غیر ملکی لڑکیوں کی شادی باہر کے ملکوں میں ہونے کی خبر آ ہی جاتی ہے تو کیا یہ پاکستان میں اندرون خانہ نہیں ہو رہا۔ ان بڑے بڑے گناہوں کے علاوہ دیگر دوسرے گناہ سر عام اور کھلم کھلا ہو رہے ہیں جن کو ہم برائی ماننے کو بھی تیار نہیں۔ جھوٹ بولنا تو اب بس ایک ضرورت بن گیا ہے۔ جہاں کام نہ نکل رہا ہو جھوٹ کے سہارے چل جاتا ہے۔ دھوکہ دہی بھی ایک عام صفت بنتی جا رہی ہے۔ خاص کر کاروبار میں دھوکہ دہی سے تو شاید ہی کوئی بچتا ہوگا۔ ہمارا تاجر زیادہ روپیہ بٹورنے کی خاطر یہ بھول گیا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی پوری قوم اسی ناپ تول میں کمی اور تجارت میں دھوکہ بازی کے سبب تباہ کر دی گئی۔ ان تمام خرابیوں کو گنانے کا مقصد یہ نہیں کہ ان کو بیان کر کے ایک فہرست تیار کی جائے بلکہ اس کا واحد مقصدصرف یہ یاد دہانی کرانی ہے کہ ہم پاکستانی بے تحاشہ گناہوں میں مبتلا ہیں۔ وہ چیزیں جنھیں ہم نے چھوٹا سمجھ رکھا ہے دراصل ایک گناہ ہے اور گناہ معصیت ہے اللہ کی ناراضگی مول لینے کا ایک ذریعہ ہے جس سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اگر غلطی سے ایسا کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر اللہ کے آگے معافی مانگنا اور توبہ کرنا از حد ضروری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آئندہ اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کا پکا وعدہ بھی لازمی ہے۔مگر ہم لوگ نہ صرف یہ کہ معافی مانگنے سے بے پروا ہو گئے ہیں بلکہ توبہ ، ندامت اور شرمندگی کی بھی کوئی تحریک ہمارے اندر نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ میرے ایک جاننے والے حضرت نے مجھ سے کہا کہ ’’سارا ہفتہ پتہ نہیں میں کتنے غلط کام کرتا ہوں۔ دھوکہ ، بے ایمانی، جھوٹ وغیرہ سب چلتا ہے تاکہ میرا کاروبار چلتا رہے اور میرے بچوں کو روٹی ملتی رہے مگر ہر جمعہ مبارک کو میں نماز جمعہ کے بعد اللہ کے آگے سجدے میں جاکر کافی دیر تک معافی مانگتا ہوں۔‘‘ یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کا علم ہو جائے اور وہ غلطی کرنے کے بعد اللہ کے آگے توبہ کرے اور معافی کا طلب گار ہو۔ ہمارے معاشرہ میں بہت سارے لوگ اسی روش پر چلتے ملیں گے مگر یہ سب لوگ اس بات سے لا علم ہیں کہ توبہ کا مطلب، اس بات کا اللہ سے وعدہ کرنا ہے کہ میں آئندہ یہ کام نہیں کروں گا اور اس گناہ کو چھوڑ دوں گا۔ مگر جو شخص سارا ہفتہ غلط کاموں میں الجھا رہے اور جمعہ کے دن توبہ کرے اور اگلی سنیچر کو پھر وہی سارے کام شروع کر دے تو آپ ایسے آدمی کو کیا کہیں گے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ایسا آدمی اللہ کا مذاق اڑا رہا ہے اور اللہ کے احکامات کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی توبہ قبول ہو رہی ہے کہ نہیں کیونکہ یہ اللہ کا معاملہ ہے اور وہ قادر مطلق ہے جو چاہے سو کرے مگر تعلیم اسلامی کے مطابق خلوص نیت نہ ہو تو اس کے لیے نبی پاک ﷺ کا ارشاد موجود ہے:-۔
۔” إنما الأعمال بالنيات.” (صحیح البخاری)۔
یعنی: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔” ۔
اے پاکستانی مسلمانو ! میں آپ سے مخاطب ہوں اور آپ سے یہ التجا کر رہا ہوں کہ اپنے حالات پر نظر ڈالیے اور یہ سوچیے کہ جو کچھ اس وقت ہم کر رہے ہیں تو کیا یہ سب اسی طرح چلتا رہے گا۔ اگر ہم نے اپنے حالات نہیں بدلے تو کیا معاشرہ زیادہ سے زیادہ تباہ نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کی بڑی فکر رہتی ہے۔ ان کو اچھی زندگی گزروانے اور آرام و آسائش میں رکھنے کی خاطر ہم یہ ساری برائیاں اپنے اوپر لازم کیے ہوئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ روپیہ کما کر ان کو اچھی زندگی دینا چاہتے ہیں۔ مگر اس بات سے بالکل بے پروا ہیں کہ معاشرے کی بڑھتی ہوئی برائی پورے معاشرہ کو کھا جائے گی اور پھر نہ کوئی اچھائی رہے گی نہ اچھی زندگی کا وجود ہوگا جو ہماری آل اولاد کو ملے گی۔ کیسی نادانی ہے اور کیا حماقت ہے کہ یہ جانتے بوجھتے کہ جو چیز برائی کی طرف لے جارہی ہے اس کو اور زیادہ بڑھایا جائے اور اپنے بچوں کا مستقبل خراب کیا جائے۔گناہ ہم سے بے تحاشہ سرزد ہو رہے ہیں اور ہم گردن گردن تک گناہ میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر توبہ کرنے کی اور ان گناہوں کو چھوڑنے کی ہمارے اندر کوئی تحریک نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے بعد ہم یہ گلہ کر رہے ہیں کہ ہم تو اللہ کے آگے گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں۔ پوری قوم کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا ہے۔ بھانت بھانت قسم کی بیماریاں آخر کیا ہیں۔ یہ اللہ کی آزمائش اور عذاب و امتحان نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ ایک معمولی حادثہ ہوتا ہے تو دس بیس جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ طوفانی بارشیں اور ان کے ذریعہ سے پیدا شدہ مشکلات، بیماریاں اور سختی کو آپ کیا نام دیں گے۔ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے انسانیت کو جھنجھوڑتا ہے۔تاکہ انسان جاگ جائے۔ ذرا غور کیجیے کہ صوبہ بہار کے زلزلہ میں کتنے لوگ مارے گئے، کوئٹہ کے ۱۹۳۶ء کے زلزلہ میں کیا ہوا کہ پورا شہر تباہ ہو گیا۔ ۲۰۰۸ء کے کشمیر کے زلزلہ میں پورا پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر بستیوں پر امڈ آیا اور اس ہفتہ ستمبر ۲۰۱۹ء میں میر پور کا زلزلہ کتنے لوگوں اور ان کی املاک کو نگل گیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ میں نے صرف ان آفات کا تذکرہ کیا ہے جو ہمارے ملک میں نازل ہوئے باقی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے علم میں یقیناً ہوگا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم ان آفات و بلیات کو چند دنوں میں ہی بھول جاتے ہیں اور اپنی روش پر دوبارہ چل پڑتے ہیں۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم کو اس طرح نہیں جھنجھوڑا ہے جیسے انھوں نے دیگر اقوام کو سزائیں دی ہیں۔ شاید کہ اللہ ہمیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ ہم سدھر جائیں۔ جان لیجیے کہ اللہ کا غصہ اور اس کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے۔ ہماری بگڑتی ہوئی صورت حال یقیناً اللہ کے غیض و غضب کو زیادہ بھڑکانے کا باعث ہوگی۔ اللہ کس طرح کا عذاب نازل کریں گے ہماری سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔
پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں داخلہ کا پہلا قدم ہے۔ جتنی خون ریزیوں کے بعد یہ وجود میں آیا ہے اور جن نامساعد حالات سے گذرنے کے باوجود آج بھی قائم و دائم ہے تو یہ صرف اللہ کے ایک بڑے فیصلہ کی وجہ سے ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی تمام احادیث پر ہمارا مکمل ایمان ہے۔ وہ احادیث بھی جن میں آخر الزماں سے متعلق پیش گوئیاں کی گئی ہیں ہمیں ان پر پورا یقین ہے کہ وہ بعینہٖ ہوں گی اور آخر کار غزوہ ہند کے لیے ایک مضبوط جنگجو اور اللہ پر ایمان رکھنے والی فوج کا ایک بڑا حصہ یقیناً اسی پاکستانی علاقہ کے لوگوں کا مجموعہ ہوگا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے وہ سپاہی جن کی بشارت اور جن کے لیے جنت کی خوشخبری آقائے نامدار ﷺ نے دی ہے کیا وہ آج کی بگڑی ہوئی ملحدانہ اور کافرانہ روش لیے ہوئے پاکستانی قوم ہوگی۔ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ میرا ایمان ہے کہ وہ لشکر اسلامی ایسا ہوگا جو قرون اولیٰ کے مجاہدوں کی شان رکھنے والا ہوگا۔ ایسا لشکر جو اللہ کے احکامات پر اپنی جان نچھاور کرنے والا ہوگا۔ اللہ کا نظام اور اس کی پاکی و بڑائی بیان کرنے والا ہوگا۔ قرآن مجید کے اعلان کے مطابق ’’کبر ہ‘ تکبیرا ‘‘ پر عمل کرنے والا ہوگا۔ ہماری آج کی سڑی گلی سوسائٹی کا فرد یقیناً نہیں ہوگا۔ اگر ہمارا گمان درست ہے تو کیا ہو گا ؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ کیا ایسا کچھ ہو جائے گا کہ معاشرہ میں ایسی کوئی تحریک پیدا ہو جائے گی کہ لوگ اپنے اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اللہ کی طرف رجوع کریں گے اور ایک انتہائی پاکیزہ معاشرہ قائم ہو جائے گا جو اس ملحمہ کبریٰ میں حصہ لے گا۔ اگر اللہ کی یہ مرضی ہو گی تو یقیناً ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ اس معاشرہ کے سدھار کے لیے کوئی راستہ نکال دیں یا ہمیں ایسے لیڈر عطا کر دیں جو ہماری کایا پلٹ دے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ مگر جیسا کہ قرآن مجید کا اعلان ہے:-۔
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (النجم: ۳۹)”۔
"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کوشش کی۔”
تو کیا ہماری سعی کے بغیر اور ہمارے توبہ کیے بغیر ایسا کچھ ہو جائے گا۔ آثار سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں ہونے لگا۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ اللہ رب العزت اپنی سنت کے مطابق یہ فیصلہ کرلیں کہ اس نا فرمان اور شیطان کے زیر اثر قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ پاکستان کی سر زمین اور پاکستان کا نام تو باقی رہے مگر ہمارے آپ کے جیسے آج کے گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ زمین پر سے غائب کر دے۔ ایسا عذاب دے کہ تمام کے تمام نا فرمان نیست و نابود ہو جائیں بالکل اسی طرح جیسے عاد و ثمود کی قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور پھر اس سر زمین کی باقیات سے اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو اٹھائے جو اللہ کے احکامات کو ماننے والی ہو اور اللہ کی رضا جوئی جس کا مقصد ہو اور وہ اللہ کی مدد کے لیے وہ لشکر ترتیب دے جو ملحمہ الکبریٰ کے لیے ضروری ہے۔میرے منہ میں خاک ۔ اللہ نہ کرے کہ ایسی کوئی تباہی ہو۔ دیکھا جائے تو موجودہ ہندوستان پاکستان کے تعلقات جو انتہائی نا خوشگوار ہوتے جا رہے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہیں بہت سنجیدگی سے دیکھنے والے ہیں۔ بین الاقوامی برادری اس جھگڑے کو اس خوف سے دیکھ رہی ہے کہ دونوں ملک جوہری ہتھیار رکھتے ہیں اس لیے ان کی ہاتھا پائی ہوئی تو دونوں طرف سے ایٹم بم چلیں گے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا کوئی اقدام حکومتیں اٹھائیں اس لیے کہ پھر دونوں طرف صرف تباہی ہی تباہی ہوگی۔ ہم نے جس طرح اللہ کو ناراض کررکھا ہے اور اس کی نافرمانی میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ واپسی کا راستہ مشکل نظر آ رہا ہے تو ایسے میں اگر اللہ پاک کوئی فیصلہ اس قوم کو ہٹا کر دوسری قوم کو لانے کا کر لیں تو کوئی بعید نہیں کہ یہ لڑائی اللہ کے حکم سے قائم ہو جائے اور وہ سب کچھ اللہ نہ کرے کہ ہو جائے جس کا میں نے خدشہ ظاہر کیا ہے۔ پرانی تاریخوں میں اگر بنی اسرائیل کی تاریخ کو دیکھیں تو جب اس قوم نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہہ دیا کہ جائو تم اور تمہارا اللہ لڑائی کرو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ تو اللہ نے ان کے لیے فیصلہ فرما دیا اور اس وقت کوئی ایٹم بم تو نہیں چلا مگر اللہ نے اس نا فرمان امت سے بدلہ لیا اور اللہ کے اقدامات کو ہم اور آپ جان بھی نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو صحرا میں چالیس برس تک بھٹکائے رکھا یہاں تک کہ اللہ کے سارے نا فرمان صحرا کے شدائد کے ہاتھوں مر کھپ گئے اور ان کی جگہ ایک نئی قوم پیدا ہوئی جو اپنے اسلاف سے مختلف تھی اللہ کے رسولوں کی عزت کرنے والی اور اللہ کے احکامات پر جان چھڑکنے والی تھی تو اللہ نے ان کے ہاتھوں کافروں کو شکست دی اور بنی اسرائیل کو عزت بخشی اور حکومت سے سرفراز فرمایا۔ گو کہ اللہ کی قدرت اور اس کے غیض و غضب سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اس طرح کا کوئی فیصلہ کر دے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا اس بات سے ڈرایا ہے کہ اگر تم سیدھے راستے پر نہ آئے تو میں تمہیں دنیا سے ہٹا دوں گا اور تمہاری جگہ ایک ایسی قوم کو کھڑا کروں گا جو تابعدار ہوگی۔ یہ اللہ کی سنت رہی ہے اور اس پر ایک مرتبہ پھر عملدرآمد پر اللہ کو کون روک سکتا ہے اور اللہ نہ کرے کہ ایسا کچھ ہوگیا تو پھر اللہ اسی سرزمین سے ایک ایسی امت کھڑی کر دے جو ہماری اولاد وں میں سے ہی ہو مگر ہمارے جیسی نہ ہو بلکہ اللہ کی فرماں بردار ہو اور اس کے لیے صرف چالیس پچاس سال سے زیادہ عرصہ نہیں چاہیے ہوگا۔ میری یہ باتیں میرے قاریوں کو بہت عجیب لگ رہی ہوں گی مگر میری گزارش ہے کہ بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ کیا میں نے سب کچھ غلط کہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اللہ میرے اس ڈرائونے خواب سے پوری قوم کو محفوظ رکھے وگرنہ میری التجا ہے کہ حالات کی سنگینیوں پر غور کریں اور اپنی روش بدلنے کے بارے میں سوچیں۔
میں اپنے ملک کے لوگوں کے آگے ایک بار پھر اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ میری بات تمام پاکستانیوں کے کانوں تک پہنچا دیں یہ التجا کرنا چاہتا ہوں کہ محترم پاکستانیو! رک جائو، باز آ جائو، اللہ کے غیض و غضب سے ڈرو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ اللہ کے آگے سچی توبہ کرو۔ اپنے تمام گناہوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا عزم مصم کرو اور اس پر ڈٹ جائو۔ معاشرہ میں اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں اور احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرو۔ اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اللہ کو اپنے تمام معاملات میں بڑا جانو اور اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔ ہمارے سامنے قوم یونس کی مثال موجود ہے۔ اجتماعی توبہ سے پوری قوم کے اوپر آیا ہوا عذاب ٹل گیا۔ آج بھی اگر اسی خلوص سے معافی مانگی جائے سچی توبہ کی جائے تو عین ممکن ہے کہ اللہ کی رحمت جوش میں آئے اور ہمارے وہ تمام معاملات جو ہم سے کسی طور سیدھے نہیں ہو رہے اللہ ان کے لیے سبب پیدا کر دے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے اور آج ہم دنیا کی تمام اقوام میں جہاں انتہائی پستی میں کھڑے ہیں وہاں سے ایک ہی جست میں ساری قوموں کے لیڈر بن جائیں۔ یہ کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ہے بلکہ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور آئندہ بھی ہو سکتا ہے صرف ایک پر خلوص قوم کی ضرورت ہے جو اللہ کے ساتھ تمام معاملات میں سچی ہو اور بھائیو جان لو کہ اگر ہم نے توبہ نہیں کی اور اللہ کے آگے نہ جھکے تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔ العیاذ باللہ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھیں ۔ آمین ثم آ مین۔