الواقعۃ شمارہ : 76 – 77 رمضان المبارک و شوال المکرم 1439ھ
اشاعت خاص : سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد و احفاد کا تذکرہ
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مختلف اوقات میں کئی شادیاں کیں اور ان کے علاوہ ان کی کئی باندیاں بھی تھیں۔ خلفائے راشدین میں سب سے کثیر الاولاد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
آپ کا پہلا نکاح جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا اور ان سے تین صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور محسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ جناب محسن کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو صاحبزادیاں زینب کبریٰ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم کبریٰ پیدا ہوئیں۔ جب تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بقید حیات رہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی اور سے نکاح نہ کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد مختلف اوقات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کئی نکاح کیے۔ ان کے نکاح اور اس نکاح سے ہونے والی اولاد کی و نیز ام ولد سے ہونے والی اولاد کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:-
۔2- سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوسرا نکاح ام البنین رضی اللہ عنہا بنت حرام سے کیا۔ ان سے چار فرزند عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان پیدا ہوئے۔ عباس کے سوا ان میں سے کسی کا سلسلہ اولاد جاری نہیں ہوا۔(ابن اثیر) بقیہ تینوں کربلا میں شہید ہوئے۔ (البدایۃ و النہایۃ) عباس بھی کربلا میں شہید ہوئے تھے۔ (المعارف لابن قتیبۃ)۔
۔3- حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تیسرا عقد لیلیٰ بنت مسعود بن خالد تمیمیہ سے ہوا۔ ان سے دو لڑکے عبید اللہ اور ابوبکر پیدا ہوئے۔ ان دونوں سے اجرائے نسل نہ ہو سکا۔ ہشام بن الکلبی کے مطابق ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے۔ اور واقدی کے مطابق عبید اللہ کو مختار الثقفی نے قتل کیا۔ (البدایۃ و النہایۃ، ص: ۱۱۷۶)۔
۔4- چوتھی شادی اسماء رضی اللہ عنہا بنت عمیس سے ہوئی۔ ان سے یحییٰ اور محمد اصغر پیدا ہوئے۔
۔5- پانچویں صہباء بنت ربیعہ ثعلبیہ ہیں، یہ ام ولد ہیں۔ ان سے عمر اور رقیہ پیدا ہوئے۔
۔6- چھٹا عقد امامہ رضی اللہ عنہا بنت ابی العاص سے ہوا جو نواسی رسول ہیں۔ ان سے محمد اوسط پیدا ہوئے۔
۔7- ساتویں خولہ بنت ایاس بن جعفر ہیں، یہ ام ولد ہیں۔ ان سے محمد اکبر پیدا ہوئے، جو محمد بن الحنفیہ کے نام سے معروف ہیں۔
۔8- آٹھویں ام سعید بنت عروہ بن مسعود ثقفیہ ہیں، جن کے بطن سے ام الحسن، رملہ کبریٰ اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔
۔9- نویں مخبئہ بنت امراءالقیس ہیں، ان کے بطن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئیں۔
متعدد با ندیوں سے پیدا ہونے والی آپ کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں:-
ام ہانی، میمونہ، زینب صغریٰ، رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، فاطمہ، امامہ، خدیجہ، ام الکرام، ام سلمہ، ام جعفر، جمانہ اور نفیسہ۔
یہ 14 صاحبزادوں اور 20 صاحبزادیوں کی تفصیل ہے۔ جس کا علم مختلف کتبِ تاریخ سے ہوا۔ اولاد کی تعداد میں مختلف تعداد کا ذکر ملتا ہے۔
ابن قتیبہ نے لکھا ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کل 10 بیٹے اور 16 بیٹیاں تھیں۔ (المعارف، اردو ترجمہ، ص: 199، قرطاس کراچی 1999ء)۔
امام ابن حزم کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے 13 صاحبزادے تھے، جن میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، محمد بن الحنفیہ، عمر اور عباس سے سلسلہ نسل کا اجراء ہوا۔ (ص: 37-38، دار المعارف قاہرہ )۔
ابن جریر الطبری کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے 14 صاحبزادے اور 17 بیٹیاں تھیں۔ (البدایۃ و النہایۃ، ص: 1177)۔
ایک روایت میں 16 لڑکے اور 16 لڑکیاں، ایک روایت کے مطابق 12 لڑکے اور 17 لڑکیاں، بروایت محب طبری 14 لڑکے اور 18 لڑکیاں، اور بروایت صفوۃ الصفوہ 16 لڑکے اور 19 لڑکیاں ہیں۔ (شمس التواریخ، از حکیم مظہر الحق، ص: 1302، مطبع منبع النور آگرہ 1908ء)۔
تاریخی روایات کا یہ اختلاف فطری ہے۔ اصل میں کثرت اولاد کی وجہ سے اس قسم کے ابہامات پیدا ہو جاتے ہیں جو ماہرین انساب سے مخفی نہیں۔ دوسری وجہ یہ رہی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعدد صاحبزادے بچپن میں جوانی میں اجرائے نسل سے قبل ہی وفات پا گئے تھے، اسی طرح کئی صاحبزادیاں تھیں جو بچپن میں وفات پا گئیں تھیں۔ جن صاحبزادگان نے سن بلوغت کو پایا یا جن سے اجرائے نسل ہوا ان کے ضروری حالات تاریخ میں محفوظ ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو نسل سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلی وہ نواسہ رسولﷺ ہونے کی وجہ سے تاریخ میں امتیازی مقام کی حامل رہی۔ حسنی، حسینی و فاطمی کہلاتے رہے جب کہ دیگر اولادیں امتیاز کے لیے علوی کہلاتی ہیں۔ تاہم یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ عربی زبان کی کتب تراجم و تاریخ میں حسنی و حسینی اشخاص کے ساتھ بھی علوی کی نسبتیں معروف رہی ہیں۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے مجازاً اپنا بیٹا قرار دیا۔ اللہ رب العزت نے ان کی نسل میں بڑی برکت عطا فرمائی۔ تاریخ اسلام میں متعدد رفیع المنزلت شخصیات ایسی گزری ہیں جنھیں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے نسبی تعلق رہا۔ حسنی و حسینی خانوادوں کی تفصیل اور امت کے لیے ان کی خدمات کا جائزہ ہم آیندہ کے لیے چھوڑتے ہوئے یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دیگر اولادوں کا ذکر خیر کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز حسنی و حسینی اشخاص و خانوادوں پر تفصیل سے لکھا جائے گا۔
حسنی و حسینی کی غیر معمولی نسبت کی وجہ سے علویوں کی طرف مورخین کی توجہ کم ہی منعطف ہو سکی۔ یہ نسبتاً وہ گوشہ ہے جو نمایاں نہ ہو سکا۔ تاریخ میں جو مشاہیر علوی گزرے ہیں ان کا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
عباس بن علی
ابو الفضل عباس بن علی بن ابی طالب 28ھ میں پیدا ہوئے اور 61ھ میں کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے۔ ان کے دو فرزندوں عبید اللہ اور حسن سے سلسلہ نسل کا جراء ہوا۔
عمر بن علی
عمر بن علی کی سنین ولادت و وفات سے آگاہی نہیں ہوتی۔ ان کی ولادت خلافتِ فاروقی میں ہوئی۔ حدیث کے راوی تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کرتے ہیں۔
محمد بن الحنفیہ
محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بابن الحنفیہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں 21ھ میں پیدا ہوئے۔ علم، زہد، ورع اور تقویٰ میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ محمد بن الحنفیہ کا شمار کبار و فقہائے تابعین میں ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے بڑی محبت تھی۔ 81ھ میں ان کی وفات ہوئی۔
سالار مسعود غازی
مجاہدِ اسلام سالار مسعود غازی، محمد بن الحنفیہ کی نسل سے تھے۔ سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے۔ بڑے مجاہدانہ صفات کے حامل بزرگ تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں جنگیں لڑیں اور اسلامی عملداری قائم کی۔ جواں سالگی کی عالم میں محض 18 برس کی عمر میں 424ھ کو بہرائچ کے مقام پر شہادت پائی۔
عمر بن علی علوی
ابو الخطاب عمر بن علی علوی یمن کے حنفی فقیہ، ادیب اور شاعر تھے۔ "منتخب الفنون” ان کی مشہور کتاب ہے جو 7 جلدوں پر محیط ہے۔ 703ھ میں وفات پائی۔
ابن فہد العلوی
ابو الفضل تقي الدين محمد ابن فهد الهاشمي العلويّ الاصفوني ثم المكيّ الشافعي مؤرخ اور فقیہ تھے۔ ان کی ایک کتاب "لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ” کا ذکر ملتا ہے۔ 871ھ میں وفات پائی۔
معتمد الملوک حکیم محمد ہاشم علوی
حکیم محمد ہاشم علوی، محمد بن الحنفیہ کی نسل سے تھے۔ اپنے عہد میں نادر روزگار تھے۔ 1080ھ میں شیراز میں پیدا ہوئے۔ 1111ھ میں ہندوستان تشریف لائے اور دربارِ مغلیہ سے وابستہ ہوئے۔ فنِ طب میں یگانہ تھے۔ شاہانِ دہلی کے مقرب خاص رہے۔ طب میں ایک کتاب "جامع الجوامع” لکھی۔ 1160ھ میں وفات پائی۔
مرزا مظہر جانِ جاناں دہلوی
مرزا شمس الدین مظہر جانِ جاناں دہلوی 1111ھ میں پیدا ہوئے۔ سلسلہ نسب محمد بن الحنفیہ سے جا ملتا ہے۔ علویانِ ہند میں انتہائی بلند مرتبت مشائخ میں سے ایک ہیں۔ نہایت عابد و زاہد اور متبع سنت تھے۔ ان کا مجموعہ مکاتیب علوم و معارف کا خزینہ ہے۔ ان کے خلفاء و مریدین میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی، شاہ غلام علی دہلوی، مولانا غلام یحیٰ بہاری، شاہ نعیم اللہ بہرائچی وغیرہم شامل ہیں۔ شاگردوں کے نام سے ہی استاد کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 1195ھ میں شہید ہوئے۔
حاجی شاہ فقیر اللہ علوی شکار پوری
حاجی شاہ فقیر اللہ بن عبد الرحمن علوی شکار پوری، محمد بن الحنفیہ کی نسل سے تھے۔ جلال آباد (افغانستان) میں ولادت ہوئی۔ نوجوانی میں 1150ھ کے لگ بھگ ہجرت کرکے شکار پور آئے اور پھر یہیں مقیم ہوگئے۔ حاجی صاحب بہت بڑے عالم اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ انھیں بیت اللہ حاضری کا بہت شوق رہتا تھا اس زمانے میں جب کہ سفر کی مشقتیں بہت تھیں اور راستے دشوار گزار تھے، حاجی صاحب نے سات حج کیے۔ 1195ھ میں اس جلیل المرتبت عالم کی وفات ہوئی۔
مرزا حسن علی صغیر محدث لکھنؤی
لکھنؤ میں جس بزرگ کی ذات سے علم حدیث کی ترویج و اشاعت ہوئی اور علمائے فرنگی محل تک نے جس سے استفادہ کیا وہ مرزا حسن علی صغیر کی ذات گرامی ہے۔ مرزا صاحب علوی نسب تھے، شاہ عبد العزیز دہلوی کے تلمیذ خاص تھے۔ تدریس کا مشغلہ تھا۔ چند کتابیں بھی لکھیں۔ 1255ھ میں بمرضِ استسقاء وفات پائی۔
شاہ غلام علی دہلوی
شاہ غلام علی علوی دہلوی 1156ھ میں بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ کبار مشائخ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حدیث و فقہ میں درک رکھتے تھے۔ نہایت متقی، پرہیز گار اور متبع سنت تھے۔ دہلی میں سکونت پذیر ہونے کی وجہ سے دہلوی کی صفتِ نسبتی سے معروف ہوئے۔ 1240ھ میں دہلی میں وفات پائی۔
حافظ بارک اللہ لکھوی
حافظ بارک اللہ لکھوی پنجاب کے نامور عالم و صاحب کرامات بزرگ تھے۔ 1156ھ میں ولادت ہوئی۔ سیدنا محمد بن الحنفیہ کی نسل سے تھے۔ شاہ غلام علی دہلوی کے خلیفہ تھے۔ "انواع بارک اللہ” ان کی مشہور کتاب ہے۔ 1266ھ میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں وفات پائی۔
مولانا حافظ محمد لکھوی
متحدہ پنجاب کے ایک عظیم مصلح مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی 1221ھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے پنجابی زبان میں پہلی مکمل منظوم تفسیر بنام "تفسیر محمدی” لکھی جو اپنے زمانے میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے "سنن ابی داود” اور "مشکوٰۃ المصابیح” پر عربی زبان میں مختصر حواشی لکھے۔ 1311ھ میں وفات پائی۔
مولانا محی الدین عبد الرحمن لکھوی
مولانا حافظ محمد لکھوی کے صاحبزادے ہیں، 1253ھ میں ولادت ہوئی۔ بڑے عابد و زاہد اور مرتاض بزرگ تھے۔ ان کی زندگی کا عظیم الشان کارنامہ عقیدہ ختم نبوت کے لیے تحفظ کے لیے دجال کاذب مرزا قادیانی کی تردید ہے۔ قادیانیت کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ 1313ھ کو مدینۃ النبی میں بحالتِ سجدہ وفات پائی۔
محسن کاکوروی
مداح رسول اکرم ﷺ مولانا محمد محسن کاکوروی اردو زبان میں نعتیہ ادب کے اولین ستون ہیں۔ کاکوری کے مشہور علوی خانوادے سے تعلق تھا۔ 1242ھ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کے تمام اصناف پر ان کی گہری نظر تھی لیکن جب قصیدہ مدیح خیر المرسلین ﷺ لکھا تو عہد کیا کہ
ہے تمنا نہ رہے نعت سے تیرے خالی
نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل
اس کے بعد نعت کے سوا تمام اصنافِ سخن ترک کر دیے۔ محسنؔ کاکوروی کا مجموعہ کلیات نعت طبع ہو چکا ہے۔ 1323ھ بمطابق 1905ء میں وفات پائی۔
مولانا عبد الحق حقانی دہلوی
برصغیر کے نامور عالم و مفسر قرآن مولانا عبد الحق حقانی دہلوی، سیدنا علی کے فرزند عباس سے نسبی تعلق رکھتے تھے۔ 1265ھ میں پیدا ہوئے۔ "فتح المنان فی تفسیر القرآن” معروف بہ "تفسیر حقانی” اردو زبان کے مشہور تفسیر ہے جس کے مصنف مولانا حقانی ہیں۔ 1336ھ بمطابق 1916ء کو وفات پائی۔
محمد العلوی
محمد بن عبد الرحمن بن شہاب الدین العلوی، 1287ھ میں حضرموت (یمن) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں سکونت اختیار کی۔ وہاں تصنیف و تالیف اور وعظ و ارشاد کے ذریعے دینی خدمات انجام دیں۔ 1349ھ میں وفات پائی۔
مولانا محمد بن عبد اللہ علوی
مولانا محمد بن عبد اللہ علوی ہزاروی ثم حیدر آبادی جید عالم و محدث تھے۔ "سنن ابی داود” کی شرح "عون الودود” کے نام سے اور "سنن ابن ماجہ” کی شرح "مفتاح الحاجۃ” کے نام سے عربی میں لکھیں۔ سیرت النبی پر ایک مختصر کتاب اردو میں بنام "عثمان البیان فی سیرۃ النبی آخر الزمان ﷺ” لکھی۔ 1366ھ میں وفات پائی۔
بلادِ اسلامیہ میں علویوں کا اجرائے نسل
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزندانِ گرامی محمد بن الحنفیہ، عباس اور عمر کی اولادیں مختلف بلادِ اسلامیہ میں پھیلیں۔ حکیم محمد اسحاق حقانی لکھتے ہیں:-
۔”سیدنا عباس بن علی کرم اللہ وجہہ کے ابناء مختلف ممالک میں پھیل گئے ہیں چنانچہ شیخ ہادی علوی فارس اور نواح اردبیل میں، خواجہ شرف الدین احمد علوی حزوین میں، نور الدین قاسم علوی تبریز میں سکونت پذیر تھے۔ ان کی تیسری پشت (میں) خواجہ شاہ نظام الدین محمد علوی تبریزی جن کے علوم معقول و منقول کا ڈنکا ملک ایران وغیرہ میں بج رہا تھا ان کے پوتے خواجہ مظفر الدین علوی بن شاہ محمد تبریزی اس خاندان کے پہلے بزرگ ہیں جو بسبب تعصب سلاطین صفویہ بعد فراغت حج بیت اللہ و زیارت رسول اللہ ﷺ بحکم سیرو فی الارض ہندوستان تشریف فرما ہوئے۔” (عقائد الاسلام، ص: 5-6، ادارہ علوم شرعیہ کراچی 1964ء)۔
خواجہ مظفر الدین علوی نے دہلی میں سکونت اختیار کی۔ مولانا عبد الحق حقانی انھیں کی نسل سے ہیں۔ پنجاب میں اعوان برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بھی نسباً علوی ہونے کے دعویدار ہیں۔ سر دست اس پر ہماری تحقیق نہیں۔
کاکوری (لکھنؤ) میں علویوں کا مشہور علمی خانوادہ کئی صدیوں تک آباد رہا جو محمد بن الحنفیہ کی نسل سے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد بھی وہاں یقیناً اس خانوادے کے کچھ لوگ باقی رہ گئے ہوں گے۔
برزگانِ علوی نے اپنی دینی ذمہ داریوں کو یاد رکھا اور جہاں گئے اسلام کی دعوت و تبلیغ میں کوشاں رہے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں:-۔
۔”چودھویں صدی ہجری کے نصف آخر میں فلپائن کے جزیروں میں اسلام سادات علویہ کی ایک جماعت کے ذریعہ پھیلا جو وہاں پہنچے تھے، اور وہاں دعوت اسلام کا عَلم بلند کیا، اور اس ملک کو ترقی دینے اور یہاں کے اجتماعی، ثقافتی اور سیاسی اداروں کو پروان چڑھانے میں بڑا حصہ لیا، نیز جزائر القمر سے لے کر جزیرئہ مڈغاسکر، موزنبیق اور وہاں سے ملایا اور سولو تک اسلامی دعوت کو عام کرنے والے یہی حضرات ـ(سادات علویہ) تھے۔” (المرتضیٰ، ص: 400)۔