قرآن مجید کے لفظ خاتم النبییٖن کی تفسیر


وہی صحیح اور معتبر ہے جو قرآن حمید سے ثابت ہو

الواقعۃ شمارہ: 70 – 71 ربیع الاول و ربیع الثانی 1439ھ

اشاعت خاص : ختم نبوت

از قلم : مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی

اس وقت ہم کو مسلمانوں کی عام جماعت کے سامنے قرآن مجید کے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی تفسیر اور صحیح مفہوم و مراد سمجھنے کے متعلق چند امور پیش کر دینا ہے۔

— 1 —

کسی لفظ کے مفہوم کی تعیّن دو اعتبار سے ہوتی ہے۔ ایک لغوی معنی کے حیثیت سے، دوسرے اصطلاحی مراد کے لحاظ سے۔پھر اگر اصطلاحات چند ہیں تو ہر اصطلاح کے اعتبار سے اس کا مفہوم خاص خاص ہو سکتا ہے،لا مناقشۃ فی الاصطلاح۔[1] لیکن جو لفظ جس اصطلاح میں استعمال ہو گا اس کی صحیح تفسیر اور صحیح مراد وہی متعین کرنا ہو گا جو اس اصطلاح کے مطابق ہو۔ تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں۔[2]۔

اس بنا پر لفظ خاتم النبیین چونکہ شریعت اسلام کا لفظ ہے اور قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم و مراد علماء صوفیہ یا حکماء و فلاسفہ یا متکلمین یا معتزلہ وغیرہ وغیرہ کے خاص خاص اصطلاحات کے اعتبار سے جو کچھ لیا جائے وہ ان لفظوں کی صحیح تفسیر نہیں کہی جا سکتی ہے بلکہ شریعت اسلام کی ہدایتوں کے مطابق جو مفہوم متعین ہو وہی صحیح تفسیر ہے اور قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت اسلام کی بنیادی کتاب ہے اور رسول مقبولe اس کے حامل امین اور صادق و مصدوق ہیں اس لیے خود قرآن مجید سے اور رسول اللہe کے ارشادات عالیہ سے جو مراد و مفہوم واضح ہو وہی حقیقی اور صحیح و شرعی تفسیر ہے۔

— 2 —

یہ امر تو نص صریح ہے اور متفق علیہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں:-

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب: 40)

یعنی : ’’محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘

لیکن لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ میں دو الفاظ کا مفہوم شرعی اور مراد قرآنی تعیین و تنقیح طلب ہے۔ ایک لفظ نبی اور ایک لفظ خاتم۔ پہلے ہم لفظ نبی کے مفہوم شرعی و مرادِ قرآنی کی وضاحت کر دیتے ہیں جو شریعت اسلام اور قرآن مجید کے استعمال سے ثابت ہوتا ہے۔

اصطلاح شریعتِ اسلام میں رسول اور نبی کا منصب بہت متقارب ہے لیکن دونوں لفظوں میں نسبت عام خاص مطلق کی ہے۔ لفظ نبی عام ہے اور رسول اس سے خاص ہے۔ یعنی ہر رسول نبی ہے مگر ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں ہے۔ عامہ علمائے اسلام کی یہی تحقیق ہے لیکن بعض علماء کی تحقیق میں دونوں لفظ ایک ہی منصب کے دو خطاب و لقب ہیں اور دونوں میں عموم و خصوص مطلق نہیں ہے بلکہ ہر رسول نبی ہے اور ہر نبی رسول ہے لیکن بہر حال نبی و رسول میں یہ باتیں قدرِ مشترک ہیں اور ہر رسول اور ہر نبی میں ان باتوں کا ثابت ہونا لازم ہے اور جس میں ان باتوں کا ہونا ثابت نہ ہو وہ شریعتِ اسلام کی زبان میں نبی و رسول نہیں ہو گا اور شرعاً اس پر نبی یا رسول ہونے کا استعمال صحیح نہیں ہو گا۔

۔1 صاحبِ وحی ہونا یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے جبرئیل امین کا ہر رسول و نبی کے پاس وحی لایا کرنا ضروری ہے

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا (النساء: 163 – 164

یعنی : ’’اے محمد (ﷺ) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجا جیسا کہ نوح کے پاس اور نوح کے بعد نبیوں کے پاس وحی بھیجا تھا۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اولادِ یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے پاس وحی بھیجا تھا اور ہم نے داود کو زبور دیا۔ اور ان رسولوں کو بھیجا جس کا ذکر ہم نے آپ سے کیا اور ان رسولوں کو بھیجا جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے یقینی کلام کیا۔‘‘

۔2 ہر نبی و رسول پر باذن اللہ ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا فرض ہے

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (النساء: 64

یعنی : ’’ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰیٓ اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ – لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ – وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَیُؤْمِنُوْا بِہٖ فَتُخْبِتَ لَہٗ قُلُوْبُھُمْ (الحج: 52 – 54

یعنی : ’’ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس نبی و رسول نے جب اللہ کی آیتوں کو پڑھا تو شیطان نے اس میں لگاوٹ کی پھر اللہ شیطان کی لگاوٹ کو مٹا دیتا ہے پھر اپنی آیتوں کو مضبوط کر دیتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے تاکہ شیطان کی لگاوٹ کو باعث فتنہ بنا دے ان لوگوں کے واسطے جن کے دل میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بے شک ظالم لوگ دور از اتفاق پھوٹ میں ہیں۔ اور تاکہ علم والے جانیں اور سمجھیں کہ آپ کے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے پس اس پر ایمان رکھیں اور اس کے واسطے ان کے دل جھک جائیں۔‘‘

وَکَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ – وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِؤُن – فَاَھْلَکْنَآ اَشَدَّ مِنْھُمْ بَطْشًا وَّمَضٰی مَثَلُ الْاَوَّلِیْنَ (الزخرف: 6 – 8

یعنی : ’’اگلوں میں ہم نے کتنے نبی بھیجے اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے استہزاء کرتے تھے پس ہم نے ان لوگوں کو غارت کر دیا جو ان سے قوت میں سخت تھے اور ان اگلوں کے قصے گزر گئے۔‘‘

۔3 ہر نبی اور رسول کی بعثت ضابطہ شرعیہ اور اللہ کی سنت جاریہ ثابتہ کے مطابق ہونا ضروری ہے

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران: 144

یعنی : ’’اور محمد (ﷺ) نہیں ہیں مگر رسول ان سے پہلے بہت سے رسول گزرے ہیں۔‘‘

قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ (الاحقاف: 9

یعنی : ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں کچھ نیا رسول نہیں آیا ہوں۔‘‘

ان سب آیتوں سے یہ واضح طور پر معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلام کی اصطلاح میں اور فرقانِ حمید کی زبان میں نبی و رسول ہونے اور نبی و رسول کہے جانے کے واسطے ان تین باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اس کا صاحبِ وحی ہونا صاف صاف شرعی مآخذ سے ثابت ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا باذن اللہ واجب الاطاعت ہونا ثابت ہو اور اسی بنا پرا مم سابقہ کے جن لوگوں کی نسبت نبوت و رسالت کا کوئی شخص دعویٰ کرے جس کی شہادت صریح شریعتِ اسلام میں نہ ہو تو نہ اس کے تصدیق کی ہدایت کی گئی ہے اور نہ تکذیب کا حکم ہے بلکہ اجمالی ایمان باللہ و کتبہ و رسلہ پر اکتفا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے حتیٰ کہ حضرت خضر، حضرت لقمان، حضرت ذو القرنین کے اوصاف قرآن مجید میں موجود ہونے کے باوجود ان لوگوں کی نبوت و رسالت پر کوئی واضح شہادت نہ ہونے کے سبب سے ان لوگوں کے نبی یا رسول ہونے پر ایمان نہیں لایا جا سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی صداقتِ نبوت میں اللہ جل شانہ نے اپنے سنتِ جاریہ کے مطابق آپ کی بعثت ہونے کو خصوصیت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے : وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۔ اور آپ کو اس اعلان کا حکم فرمایا ہے : قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ۔ اس سے امت محمدیہ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس کے بعد کسی نبوت کا ظہور ہو یا کوئی بعثت رونما ہو تو یہ معیارِ صداقت بھی نہایت ضروری طور پر سامنے رکھنا ہو گا۔ پس جو نبی ایسا ہو کہ اس کے صاحبِ وحی ہونے کی اور اس کے نبوت پر ایمان لانے کی اور بحیثیت نبی اس کی اطاعت فرض ہونے کی شہادت فرقانِ حمید اور حاملِ وحی ﷺ کے لسانِ صدق سے ثابت نہ ہو اور وہ علیٰ سنۃ الاوّلین نہ ہو بلکہ بدع من الرسل ہو تو اپنے طور پر اس کو کچھ کہہ لیا جائے لیکن وہ شرعی اور اسلامی نبی کہا نہیں جا سکتا ہے۔ الحاصل جماعت انبیاء و رسل جن میں اوصافِ مخصوصہ نبوت و رسالت جن کا ذکر ہوا موجود ہوں اور جن کو شریعتِ اسلام کی اصطلاح میں اور قرآن مجید کی زبان میں نبی و رسول کہا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ان سب کے خاتم ہیں اور اس سے انحراف کی گنجائش نہیں ہے اور نبوت تشریعی و غیر تشریعی اور بروزی و تمثیلی وغیرہ خاص خاص مصطلحات مخترعہ ہیں جو اصطلاح قرآن و لسانِ حامل قرآن ﷺ سے باہر ہیں اور اگر بالفرض ان سب مصطلحات کو بھی شرعی اصطلاح اور ان سب اقسام کو بھی نبوت قرآنی تسلیم کر لیا جائے تو آپ کی ذاتِ اقدس ان سب اقسام نبوت و رسالت کی بھی خاتم ہو گی اور آپ بجمیع الوجوہ خاتم النبییٖن ہیں۔

— 3 —

رہا لفظ خاتم۔ تو آیۃ کریمہ صدر میں خاتم کی قرأت بفتح التاء بھی ثابت ہے اور بکسر التاء بھی۔ خاتم بفتح التاء کا معنی ہے مہر اور خاتم بکسر التاء کا معنی ہے مہر کر دینے والا، ختم کر دینے والا، آگے نہ بڑھنے دینے والا۔

تاویلات وغیرہ سے صافی الذہن ہوکر اس کے معنی سے صاف صاف جو مفہوم و مراد متبادر ہوتا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا مفہوم متبادر فی الذہن نہیں ہوتا ہے یہ ہے کہ آپ کا وجود اقدس سلسلہ انبیاء پر مہر ہے جس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہے اور اس سلسلہ کی آپ آخری کڑی ہیں اور آپ پر سلسلہ نبوت ختم ہے۔ کوئی شخص آپ کے بعد نہ ہو گا جس کو نبی کہا جائے۔ اگر قرآن مجید سے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے یہ ظاہر ہو کہ آپ کے بعد بھی بعثت انبیاء کا سلسلہ جاری رہے گا اور نبی ہوا کریں گے تب تو لفظ خاتم سے یہ مراد و مفہوم نہیں ہو سکتا ہے اور کوئی دوسرا مفہوم تلاش کرنا ہو گا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے بلکہ شواہدِ شرعیہ سے حضور اقدس ﷺ کے بعد کسی نبی کا ہونا نہ ثابت ہو بلکہ نہ ہونا ثابت ہو تو پھر اس مفہوم کے سوا کوئی دوسرا مفہوم اختیار کرنا در حقیقت مفہوم قرآن کو بدل دینا ہے۔

— 4 —

نبوت و رسالت کوئی کسبی و اکتسابی صفت نہیں ہے اور نہ مقام نبوت و رسالت کوئی ایسا مقام ہے جس کو عبادت و ریاضت اور مجاہدات یا دیگر علوم و فنون کے ذریعہ حاصل کیا جا سکے۔ بلکہ یہ ایک جلیل القدر رفیع الشان محض وہبی منصب و عہدہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے جس کو چاہا اس منصب سے سرفراز فرمایا :-

اَللہ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (الانعام: 124

یعنی : ’’اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں دیگا اور اپنے منصبِ رسالت کا حامل کس کو بنائے گا۔‘‘

خدا کے دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے

اس لیے اس عہدہ کے عہدہ داروں (انبیاء و رسل) کے پاس بہت زبردست اور واضح خط و سرٹیفیکیٹ اور ثبوت و شہادت اپنے اس منصب کا ہونا اشد ضروری اور کسی نبی و رسول کی اپنی بیان کردہ وحی اس تقرری کی سند نہیں ہو سکتی ہے جب تک خود مقرر کرنے والے اللہ سبحانہ کی شہادت نہ ہو اور اب اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے واسطے بالکل قطعی و پختہ اور آخری شہادت کے لیے اپنی کتاب مہیمن فرقانِ حمید کو اپنے آخری پیغامبر خاتم النبیین ﷺ پر نازل فرما دیا ہے، اس کو خوب تعمق کے ساتھ نظر غائر کے ساتھ دیکھنے سے یہ شواہد بالکل واضح طور پر عیاں ہو جاتے ہیں۔ جن سے حضورِ اقدس ﷺ کے بعد کسی جدید نبی یا رسول کا بحیثیت نبی و رسول پیدا اور مبعوث نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

۔1 اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سابق انبیاء و رسل کا نہایت کثرت کے ساتھ اور بہت متعدد اور متنوع اسلوب بیان کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی نبوت و رسالت کی واضح شہادت دی ہے لیکن وہ سلسلہ آپ کی ذات اقدس پر ختم کر دیا جاتا ہے۔ آپ کے بعد کسی ایک نبی یا متعدد انبیاء کی آمد کا ذکر تک نہیں فرمایا جاتا ہے بلکہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ کے بعد آپ پر ایمان لانے اور آپ کی اتباع کرنے ہی کا حکم ہوتا ہے اور ان کی سرفرازی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے لقب سے کی جاتی ہے:-

اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ھٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (آل عمران: 68

یعنی : ’’سب لوگوں میں زیادہ خصوصیت ابراہیم کے ساتھ ان لوگوں کو تھی جو ان کے متبع ہوئے اور اِس نبی کو ہے اور جو اِس نبی پر ایمان لائے۔‘‘

اور ارشاد ہوا :-

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ (النساء: 163 – 164

اس میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ چند انبیاء و رسل کا نام ذکر فرما کر یہ بھی فرما دیا کہ اور ایسے رسول بھی گزرے ہیں جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا ہے اور ان سب کی نبوت و رسالت پر شہادت دیدی۔ لیکن آپ کے بعد کسی آنے والے نبی کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا ہے اور اس کی نبوت و رسالت پر کوئی شہادت نہیں دی جاتی ہے۔ اگر خاتم النبیین ﷺ کے بعد یہ سلسلہ نبوت باقی رہنے والا ہوتا تو اسی آیت میں یہ ارشاد بھی ہو جاتا اور یہ شہادت بھی دیدی جاتی کہ ’’رسلاً یاتون من بعدک‘‘[3] اور اسی طرح نزول وحی کے سلسلہ میں ’’انا اوحینا الیک‘‘[4] کے بعد ’’و نوحی الی الذین من بعدک‘‘[5] بھی واضح فرما دیا جاتا۔ مگر اللہ سبحانہ کی مشیت خاتم النبیین کے بعد سلسلہ نبوت کو باقی رکھنے اور کسی نبی کو مبعوث کرنے کی نہیں تھی۔ اسی لیے اس کا کلام پاک ان بیانات اور ایسی شہادت سے منزہ رہا۔

۔2 سابق انبیاء سے محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کرنے کا میثاق لیا جاتا ہے اور آپ کی تشریف آوری کی بشارت ان لوگوں کی زبانِ مبارک سے دلوائی جاتی ہے لیکن حضورِ اقدس ﷺ کے بعد کسی آنے والے نبی کی نہ بشارت دلوائی جاتی ہے اور نہ اس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کا میثاق کسی نبی سے لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتاہے :-

وَاِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ (الصف: 6

یعنی : ’’جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل ! میں تم لوگوں کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں تورات کی تصدیق کرنے والا اور ایک رسول کی بشارت دینے والا جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا (ﷺ)۔‘‘

اور ارشاد ہوتا ہے :-

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ (آل عمران: 81

یعنی : ’’جب اللہ نے پیغمبروں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب و حکمت دے چکوں، پھر تمہارے پاس ایک رسول آئے جو تصدیق کرنے والا ہو اس کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لائو گے اور ضرور اس کی نصرت و مدد کرو گے۔‘‘

اس آیہ کریمہ میں رسل بصیغہ جمع کے عوض رسول بصیغہ واحد ذکر فرما کر کے ایک رسول خاتم النبیین کے سوائے کسی دوسرے نبی کی آمد کا سدباب فرما دیا گیا ہے۔

۔3 ہر نبی و رسول پر جس کی تصدیق شریعتِ محمدیہ نے کی ہو اور جو کچھ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی ان سب پر ایمان لانا شریعت اسلام نے فرض قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے قرآن پاک میں جا بجا اللہ پر اور محمد رسول اللہ ﷺ پر اور اس پر جو آپ ﷺ پر بذریعہ وحی نازل ہوا ایمان لانے کے ساتھ انبیاء و رسل سابقین پر اور جو کچھ ان پر بذریعہ وحی نازل ہوا اس پر بھی ایمان لانے کا حکم صادر ہوا ہے مگر کسی آنے والے نبی پر اور اس کے بیان کردہ وحی پر ایمان لانے کا حکم ایک جگہ بھی نہیں ملتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے اور قرآن پاک کا آغاز اسی سے کیا جاتا ہے :-

الٓمّٓ – ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ – الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ – وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ : 1- 4

یعنی : ’’وہ یہی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے جو نہایت ہے پرہیزگاروں کے واسطے، جو ایمان لاتے ہیں، غیب پر اور نماز قائم رکھتے ہیں اور میرے دیئے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر اتار گیا اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔‘‘

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے اور خود حاملِ قرآن ﷺ کو حکم ہوتا ہے :-

قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِم (آل عمران : 86

یعنی : ’’آپ کہیے کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا ہے اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ اور دیگر انبیاء اپنے رب کی طرف سے دیئے گئے۔‘‘

ایک اور جگہ ایمان مفصل کا اس طرح پر حکم ہوتا ہے:-

یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا (النساء : 136

یعنی : ’’اے ایمان والو ! ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسول (محمد ﷺ) پر اور اس کتاب (قرآن) پر جو ان پر اتاری گئی ہے اور اس سب کتاب پر جو پہلے اتاری گئی ہے اور جو منکر ہو اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور روزِ آخرت کا تو وہ بڑی گمراہی میں پڑا۔‘‘

اور بھی ایسی بہت سی آیتیں ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول خاتم النبیین ﷺ پر اور قرآن مجید پر ایمان لانے کے ساتھ انبیاء سابقین اور ان کی کتابوں پر ایمان لانے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ الحاصل تذکرئہ انبیاء اور تصدیقِ انبیاء اور ایمان بالانبیاء کے متعلق اسلوب بیان و تصریحات سے شواہدِ قرآنیہ کو جس قدر تتبع کیا جائے اور ان میں جس قدر تعمق کے ساتھ تفکر و تدبر کیا جائے اسی قدر پختگی کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ کے بعد کسی آنے والے نبی کا کوئی ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب فرقانِ حمید میں نہیں کیا اور ایسے نبی کی کوئی تصدیق نہیں فرمائی اور شہادت نہیں دی ہے اور ایسے کسی نبی پر اور اس کے بیان کردہ وحی پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے کا حکم ایمان والوں کو نہیں دیا ہے۔ پس خاتم کی تفسیر یہی ہونا متعین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ سلسلہ نبوت کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ہے۔

— 5 —

شواہدِ قرآنیہ کے ساتھ خود حامل قرآن ﷺ کے ارشادات و ہدایات کثیرہ میں سے بھی چند کو ہم پیش کر دیتے ہیں جس سے آپ کے بعد کسی نبی کا نہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

۔1 آپ نے فرمایا ہے کہ میں تم میں دو مجموعہ چھوڑے جاتا ہوں جب تک ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہو گے راہ سے نہ بھٹکو گے : اللہ کی کتاب اور اپنا اسوئہ حسنہ۔

۔2 آپ کا ارشاد ہے کہ میری سنت و طریقہ و خلفائے راشدین کی سنت و طریقہ کی پابندی کرنا۔

۔3 آپ کا حکم ہے کہ میرے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کی اقتدا کرنا۔

۔4 آثارِ قیامت میں آپ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السلام روح اللہ کے آسمان سے نزول فرمانے کی خبر دی ہے لیکن اس وقت حضرت عیسیٰ  علیہ السلام نبی نہیں ہوں گے بلکہ افراد امت محمدیہ میں سے ایک فرد ہوں گے۔

۔5 صاف اور صریح لفظ میں بھی ارشاد ہے کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ یعنی : ’’میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔‘‘۔

یہ سب وہ احادیث ہیں جن کی صحت پر کوئی تنقید نہیں ہے اور نہ معنی میں کوئی اغلاق و ابہام ہے۔ پہلی حدیث میں قرآن مجید اور سنت نبوی کو مضبوط پکڑے رہنے کی امت کو تاکید کی گئی ہے اور دوسری حدیث میں سنت نبوی اور سنت خلفائے راشدین کے التزام کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ اور تیسری حدیث میں مخصوص طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کا حکم دیا گیا ہے لیکن کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے یا اس کی اطاعت کرنے یا ان کی اقتدا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ پھر بھی اگر امت محمدیہ میں کسی مدعی نبوت کا خروج ہو جائے تو ایک مشکل سوال یہ بھی ہوگا کہ اس کا درجہ نبوت بڑا ہوگا یا ابوبکر و عمر و دیگر خلفائے راشدین  رضی اللہ عنھم کا درجہ صحابیت و منصبِ خلافت جیسا چوتھی حدیث میں ایک اہم واقعہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کی اطلاع دی گئی ہے جو سابق میں ایک جلیل القدر نبی تھے مگر اب وہ صرف ایک فرد افراد امت محمدیہ سے ہوں گے۔ اس سے اور بھی زیادہ وضاحت اس کی ہوتی ہے کہ خاتم النبیین ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت بالکل منقطع کر دیا گیا ہے۔

پانچویں حدیث تو خاتم النبیین ﷺ کی تفسیر میں نص صریح ہے جو بالکل محتاجِ بیان نہیں ہے۔ ان احادیث صحیحہ قویہ مرفوعہ کے مقابلے میں تین مقولے جو حدیث کے نام سے منقول ہیں ان کو بھی پیشِ نظر رکھ کر جو شکوک غلط فہمیاں ان سے ہو سکتی ہیں ان کا رفع ہو جانا بہتر ہے۔

۔1 رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرزند ابراہیم کے متعلق فرمایا کہ : لو عاش لکان صدیقا نبیا[6]۔ یہ روایت ابن ماجہ کی ہے لیکن اوّل تو یہ اس درجہ ضعیف ہے کہ جماعت محدثین نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ یہاں تک کہ ملّا علی قاری موضوع کو موضوع کہنے میں بہت نرم اور متساہل ہیں۔ اس وجہ سے اس حدیث سے بھی موضوع ہونے کی جرح کو دفع کرنے کی انھوں نے کوشش کی ہے، لیکن اس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی کلام نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اس آیہ کریمہ کے نزول کے بعد یہی رسول اللہ ﷺ کے یہاں ولا ذکر کی ولادت ہونے والی تھی اور حضرت ابراہیم کی ولادت ظہور میں بھی آئی۔ لیکن عالم الغیب سبحانہ و تعالیٰ نے اس سے قبل ہی اس کی اطلاع دے دی اور اپنے مشیت و علوم غیبیہ میں سے اس کو ظاہر فرما دیا کہ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ چنانچہ اس کی صداقت از قبیل مشاہدات ہونا لازمی تھا اور ہر شخص نے مشاہدہ و معائنہ کر لیا کہ حضرت ابراہیم کی ولادت بھی ہوئی اور قبل اس کے کہ رجل ہونے کا اطلاق حضرت ابراہیم پر کیا جا سکے بہت ہی صغر سنی میں ان کا انتقال بھی ہو گیا لیکن بہ نظر امورِ دنیا اور بہ اقتضائے بشریت یہ اطلاع اور یہ خبر مسرت بخش نہ تھی۔ اس لیے اسی کے ساتھ ساتھ بنظر سعادت اخروی و بہ اقتضائے فضل و شرف نبوت یہ مژدہ فضیلت بھی بخشا : وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔ اس کے بعد جملہ : لو عاش لکان صدیقا۔ اگر قولِ پیغمبر ﷺ ہونا تسلیم کر کے آیہ کریمہ کے سامنے رکھا جائے تو اس کا مطلب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے تو وہ نبی صدیق ہوتے۔ جس سے دنیاوی نقطہ نظر سے تو وہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے لیکن شرف و سعادت اُخروی کے لحاظ سے میری فضیلت خاتم النبییٖن ہونے کی نہ ہوتی۔ اس لیے اللہ سبحانہ نے اپنے ارادہ و مشیت کے مطابق ابراہیم کو اٹھا لیا اور میرے واسطے حقیقی و اُخروی شرف ختم نبوت کو پسند و مقرر فرمایا، جس کو ابراہیم کی ولادت سے بھی پہلے ظاہر فرما دیا تھا۔ تیسرے یہ کہ جملہ : لو عاش لکان صدیقا نبیا میں لفظ لو کا استعمال ہی ابراہیم ہی کی زندگی کو بھی اور ان کے نبی صدیق ہونے کو بھی مطابق قواعد نحو ممتنع الوقوع ہونا ظاہر کر رہا ہے جیسے: لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا[7] (الانبیاء: ۲۲) میں تو اٰلھۃ اور فساد کونین دونوں کا ممتنع الوقوع ہونا ظاہر ہے۔

۔2 ایک مجہول روایت یہ منقول ہے

انا خاتم الانبیاء و انت یا علی خاتم الاولیاء۔[8]۔

اول تو رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبییٖن ہونے پر نص صریح قرآنی وارد ہے۔ جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے اور اس سے انکار کرنا قرآن مجید سے انکار کرنا ہے جو کفر کے مرادف ہے اور رسول اللہ ﷺ کے بعد سے اب تک کسی مصدق نبی کا نہ ہونا کلام ربانی کی صداقت کا ایک کھلا ہوا معجزہ ہے۔ بخلاف اس مجہول روایت کے کہ اس کے ضعیف اور غیر صحیح ہونے کی روشن دلیل بھی کافی ہے کہ اہل سنت کے یہاں بھی اور اہل تشیع کے یہاں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد سے بہت سے ولی گزرے ہیں۔ جن کو اکابرین علمائے امت نے ولی تسلیم کیا ہے اور ولی ہونے کا جو معیار شریعت اسلام نے بتایا ہے وہ ان میں موجود تھا۔ دوسرے یہ کہ لفظ خاتم کا معنی مہر ہے اور مہر زیادہ تر تو آخر میں ثبت کی جاتی ہے لیکن کبھی سرنامہ پر بھی ثبت کر دی جاتی ہے اس لحاظ سے اس جملہ کا اگر یہ معنی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور غیر صحیح اور غیر مقبول و نا قابلِ قبول کہے جانے سے محفوظ رہ سکے گا کہ ہم آخری نبی ہیں اور تم اے علی اوّلین ولی ہو۔ چونکہ سلسلہ نبوت رسول اللہ ﷺ کے بہت قبل سے جاری تھا اور آپ کے بعد اس کے باقی رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور سلسلہ ولایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد برابر جاری رہا اور زمانہ مرتضوی سے پہلے کسی ولی کا ثبوت نہیں ہے۔[9]۔

۔3 حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف یہ جملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ

قولوا انہ خاتم الانبیاء و لا تقولوا لا نبی بعدہ۔[10]۔

بلا شک و شبہ جملہ اہل سنت و الجماعت کے یہاں حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنھا کا پایہ دینی مشاغل میں بہت بڑا ہے اور بہت وافر دینی مسائل کی بنیاد آپ کی روایت بلکہ آپ کے اجتہاد پر بھی ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ایک طرف تو بہ روایت صحیح خود رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی ہے کہ: لا نبی بعدی۔ اور دوسری طرف یہ روایت مجہولہ غیر مقطوع الصحۃ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول ٹھیک اس کی تردید میں پیش کیا جائے کہ لا تقولوا لا نبی بعدہ۔ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بدلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف بھی اس طرح کی روایت منسوب ہوتی تو بھی اس مرفوع صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ مجہول الروایت غیر مقطوع الصحۃ موقوف جملہ لا یعبابہ ہوتا۔ اگر بہ سند صحیح حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا سے حدیث : لا نبی بعدی کی کوئی توضیح مروی ہوتی تو البتہ اس پر غور کیا جاتا۔ پھر یہ کہ ایک طرف قول رسول صادق مصدوق ہے کہ لا نبی بعدی اور ایک طرف قول عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ہے کہ لا تقولوا لا نبی بعدہ تو تاویل ولے برندش حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے قول میں کرنا ہوگا نہ کہ قولِ پیغمبر میں جو کہ خود خاتم النبییٖن کی تفسیر ہے۔

ان حقائق و شواہد کی بنا پر خاتم النبییٖن کی صحیح اور حقیقی تفسیر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے کہ شریعت اسلام کی اصطلاح میں قرآن مجید کے محاورہ کے مطابق جن لوگوں پر لفظ نبی کا اطلاق صحیح ہے اور زمرئہ انبیاء میں جو داخل ہیں۔ حضور اقدس ﷺ ان سب کے خاتمے پر ہیں اور آپ کے بعد سلسلہ نبوت منقطع ہے اور یہ وصف آپ کا منتہائے کمال ہے کہ سلسلہ نبوت آپ پر منتہی کر دیا گیا۔

سرور انبیاء ہونے میں وہ توصیف نہیں ہے جو وصف سلسلہ نبوت کے منتہائے کمال ہونے میں ہے۔ یہاں پر کلام ربانی کے کمالِ بلاغت کا ایک لطیف و دقیق نکتہ بھی خیال میں رکھنا چاہیے وہ یہ کہ اس آیہ کریمہ میں لفظ خاتم ا لنبییٖن خود آپ اپنی تفسیر ہے۔ اس اجمال کی تفصیل و توضیح یہ ہے کہ اس میں حضور اقدس ﷺ کے دو وصف موقع مدح میں بیان کیے ہیں۔ ایک رسول اللہ ہونا، دوسرا خاتم النبییٖن ہونا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب و برگزیدہ بندے جو صلحائے بنی آدم ہیں  دو حال سے خالی نہیں اور دو تقسیم سے باہر نہیں ہیں۔ ایک گروہ انبیاء اور ایک گروہ غیر انبیاء۔ یعنی ایک وہ جماعت جن کو منصبِ نبوت عطا ہوا ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے ان کی نبوت کی شہادت دی ہے اور تصدیق کی ہے اور ان کو نبی کے لقب سے ممتاز کیا ہے۔ اور ایک وہ جماعت جن کو یہ منصب نہیں عطا ہوا ہے۔ پھر بعض خصوصی امتیازات کی بنا پر گروہ انبیاء میں سے ایک جماعت کو نبوت کا بھی ایک اخص درجہ رسالت کا عنایت کیا گیا جو باقی زمرئہ انبیاء کو نہیں تفویض ہوا۔ اور یہ ایسی واضح اور کھلی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہ ہوگا۔ اب بہت توجہ اور غور کے ساتھ بالکل صافی الذہن ہو کر یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر لفظ خاتم سے مقصود سروری اور سیادت و امامت ہوتی تو بجائے خاتم النبییٖن کے خاتم ا لرسل کے لفظ میں مدح و وصف کی شان زیادہ اعلیٰ ہوتی اور خاصانِ خدا کی سرداری سے اخص خاصانِ خدا کی سرداری کے لفظ میں بدرجہا زیادہ علو و رفعتِ شان ہے اور اگر اس کے عوض نبییٖن کا لفظ افادئہ عمومیت کے واسطے ذکر کیا گیا ہے تو پھر سیّد ولد آدم خاتم البشر وغیرہ میں افادئہ عمومیت بہ نسبت خاتم ا لنبییٖن کے بہت زیادہ تھا بہ خلاف اس کے خاتم کا حقیقی اور اصلی و صحیح معنی اپنی جگہ پر رکھنے سے کمالِ مدح و وصف ٹھیک ٹھیک باقی رہتا ہے اور خاص لفظ خاتم النبییٖن ہی سے وہ مفہوم و مقصود ادا ہوتا ہے کیونکہ منصبِ رسالت بھی منصبِ نبوت ہی کا ایک اعلیٰ درجہ ہے۔ اگر خاتم الرسل کہا جاتا تو صرف اس اعلیٰ درجہ کا سلسلہ آپ پر منتہی ہونا ظاہر ہوتا اور خاتم النبییٖن فرما دینے سے منصبِ رسالت اور اس سے عام منصبِ نبوت دونوں کا آپ پر ختم ہو جانا واضح ہو جاتا ہے جس سے آپ کا انتہائے مدح و وصف اور علو و رفعتِ شان بیان کر دینا مقصود باری تعالیٰ ہے اور اسی توضیح و تشریح سے نبی کا بھی وہی معنی اس آیت میں مراد ہونا متعین ہو جاتا ہے جس معنی میں خود اللہ سبحانہ نے نبی کا لفظ اپنی کتاب عزیز میں استعمال فرمایا ہے کیونکہ شریعتِ اسلام کی اصطلاح اور قرآن مجید کے محاورہ کے مطابق اگر نبی کا مفہوم نہ مراد لیا جائے بلکہ ہر من گھڑت مدعی نبوت اس میں شامل کر لیا جائے تو وہ سلسلہ رسول اللہ خاتم النبییٖن ﷺ کے عہد مبارک ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ اور اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ سلسلہ بدع من الرسل کا کس پر ختم ہو گا۔ ایسے نبیوں کے آپ بے شک اور ہر گز خاتم نہیں ہیں۔ لیکن آپ خاتم النبییٖن ہیں ضرور اور اس پر ایمان نہ رکھنا خلافِ ایمان ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس آیت میں نبی کا وہی معنی مراد ہے جو قرآن مجید میں ہر جگہ مراد ہے۔

ان شواہدِ واضحہ و حقائقِ ثابتہ کے باوجود بھی سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد کسی نبی کا بروز و ظہورِ نبوت تشریعی و غیر تشریعی اور نبوت بروزی و تمثیلی وغیرہ الفاظ لا یعنی و تاویلات سخیفہ کی آڑ میں شریعتِ اسلام کے مسلک کے مطابق قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے۔

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ (آل عمران: 85

یعنی : ’’جس نے اسلام کے علاوہ دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔

اور یہی نہیں کہ وہ نبی غیر تشریعی ہوگا بلکہ غیر شرعی و نا مشروع ہوگا اور شرعی نقطہ نگاہ سے وہ منجملہ طواغیت کے ہوگا جس کو کوئی تائید و شہادت اللہ سبحانہ کی طرف سے اس کے فرقانِ حمید میں اور اس کے رسول امین خاتم النبییٖن ﷺ کے لسانِ صدق سے نہیں حاصل ہے اور نہ اپنی امت کو اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی۔ بلکہ اللہ پاک نے اس سے انکار کرنے کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے :-

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ (النساء : 60

یعنی : ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو خیال نہیں کیا جن کو دعویٰ ہے کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو آپ پر اترا ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے اترا ہے وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ حاصل کریں غیر کتاب اللہ و سنت رسول اللہ (طاغوت) سے حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اس سے انکار کریں۔‘‘

اور ایسا غیر مصدق و غیر موثق نبی سنت اللہ کے مطابق نبی نہیں ہوگا بلکہ بدع من الرسل اور انوکھا نبی ہوگا۔

مسیلمہ کذاب اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کی اکابر امت محمدیہ نے انھیں حقائق و شواہد کے پیشِ نظر کبھی تصدیق نہیں کی اور نہ پھر ایسے غیر مصدق کسی نبی نے کبھی بروز و ظہور کیا۔ جس کی تصدیق اکابر و علمائے امت نے کی وہ اور اسی وجہ سے معنی نبوت میں خوب خوب موشگافیوں کے باوجود اور بڑے بڑے اہل اللہ اور اولیاء اور مجددین کے ہوتے رہنے کے باوجود صحیح معنی میں نہ کوئی نبی پیدا ہوا اور نہ کسی نے مدعی نبوت کی تائید و تصدیق کی۔ سچ فرمایا اور حکم دیا اللہ ربّ العالمین نے اپنے رسول خاتم النبییٖن ﷺ کو کہ

قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ (الاحقاف: 9

و فیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ ومن یستزد فزد۔ و اخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

حواشی

۔[1] اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں۔ (الواقعہ)۔

۔[2] مصنف اپنی تصنیف کو بہتر بیان کر سکتا ہے۔ (الواقعہ)۔

۔[3] رسول جو آپ کے بعد آئیں گے۔ (الواقعۃ)۔

۔[4] بے شک ہم نے آپ کی طرف وحی کی۔ (الواقعۃ) ۔

۔[5] اور ہم ہی وحی کریں گے ان لوگوں کو جو آپ کے بعد آئیں گے۔ (الواقعۃ)۔

۔[6] اگر وہ زندہ رہتا تو نبی صدیق ہوتا۔(الواقعۃ)۔

[7]

۔[8] میں خاتم الانبیاء ہوں اور تم اے علی ! خاتم الاولیاء ہو۔ (الواقعۃ)۔

۔[9] یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ یہ تمام تر توجیہات فاضل مضمون نگار نے ایک مجہول روایت کی کی ہے۔ و نیز از روئے قرآن نبوت کے بعد صدیقیت کا مرتبہ ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق اکبر ہیں، اور یہ بھی کہ شرف صحابیت مقام ولایت سے بلند تر ہے۔ (تنزیل)۔

۔[10] کہو کہ آپ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (الواقعۃ)۔

One thought on “قرآن مجید کے لفظ خاتم النبییٖن کی تفسیر

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.