ارض پاک و ہند میں اصحاب رسول ﷺ کی آمد


الواقعۃ شمارہ : 88 – 89، رمضان المبارک و شوال المکرم 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ارضِ پاک و ہند میں رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ اسلام و توحید کا چرچا خود عہد رسالت ہی میں ہو چکا تھا۔ تاہم پہلے پہل اصحابِ رسول ہی کے مبارک قدموں سے یہاں اسلام کی فاتحانہ آمد ہوئی۔ اصحابِ رسول کی یہاں فاتحانہ آمد کا آغاز رسول اللہ ﷺ کی وفات سے صرف 4 سال بعد 15ھ میں بعہدِ فاروقی ہوا۔

امیر المومنین سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے 15ھ میں حضرت عثمان بن ابی العاص کو بحرین اور عمان کا والی مقرر کیا، حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے برادر محترم حضرت حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا کمانڈر بنا کر ہندوستان کی بندرگاہ ’’تھانہ‘‘ اور ’’بھروچ‘‘ کے لیے روانہ کیا اور اپنے دوسرے بھائی مغیرہ بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کو فوج دے کر ’’دبیل (کراچی)‘‘ کے لیے روانہ کیا، مگر یہ غیر مستقل جھڑپیں تھیں، کوئی مستقل فوج کشی اور جنگ نہیں تھی، اس لیے عام تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا، اسی طرح بلوچستان، سندھ اور بعض دیگر علاقوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت کا ورود مسعود تاریخ کی بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔

قاضی اطہر مبارک پوری کے مطابق ارضِ ہند کو 17 صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی قدمبوسی کا شرف حاصل ہوا ہے، جبکہ مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اپنی تحقیق سے ایسے 25 صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام دریافت کیے جوپاک و ہند کے موجودہ خطوں میں تشریف لائے۔ تاہم یہاں اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:-

’’برصغیر پاک و ہند کے مختلف مقامات میں مسلمان بغرض جہاد 15 ہجری میں حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں آئے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی وفات پر صرف چار سال کا عرصہ گزرا تھا اور وہ صحابہ کرام کا زمانہ تھا۔ بندرگاہ تھانہ، بھڑوچ، دیبل اور مکران کے دور دراز اور اجنبی علاقوں میں جہاد کا قصد دو چار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہوگا، ظاہر ہے اگر ہزاروں کی تعداد میں نہیں تو مجاہدین سینکڑوں کی تعداد پر ضرور مشتمل ہو ں گے اور وہ سب کے سب رسول اللہ ﷺ کے صحابی تھے۔[1] ان خوش نصیب حضرات میں وہ بھی ہوں گے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی رویت و صحبت کی سعادت حاصل کی، اور مخضرم[2] اور مدرک[3] صحابی بھی ہوں گے۔ جہاد، تجارت، محنت مزدوری، کاروبار، تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دینِ اسلام کے سلسلے میں صحابہ کرام مختلف علاقوں اور مختلف بلاد و امصار میں پھیل گئے تھے، ان کا مسکن مکہ و مدینہ یا عرب کے بعض علاقے ہی نہ رہے تھے۔ تاریخ کی کتابوں سے ہمیں صرف پچیس صحابہ کے اسمائے گرامی کا پتا چل سکا ہے، جن کے مبارک قدم جہاد کے لیے برصغیر میں پہنچے، ورنہ خیال یہ ہے کہ بہت سے صحابہ یہاں تشریف لائے ہوں گے، جنھوں نے اس خطۂ ارض کے مختلف مقامات کو اپنا مسکن ٹھہرایا ہوگا۔‘‘ [4]۔

مولانا اسحاق بھٹی نے مخضرم و مدرک تمام افراد کو اصحاب رسول مانتے ہوئے 25 کی تعداد پوری کی ہے، لیکن یہ محدثین کرام کی متعین کردہ اصحاب رسول کی تعریف کے مطابق نہیں ہے۔

صحابی کی تعریف:

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ صحابی کی جامع اور واضح تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:-

’’کُلُّ مَنْ صَحِبَہُ سَنَۃً اَوْ شَہْرًا اَوْ یَوْمًا اَوْ سَاعَۃً اَوْ رَآہُ، فَہُوَ مِنْ اَصْحَابِہِ، لَہُ مِنَ الصُّحْبَۃُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَہُ۔‘‘ [5]۔
’’ہر وہ شخص جس نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو، ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ ﷺ کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی۔‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ صحابی کی تعریف بیان کرتے ہیں:-

’’وَمَنْ صَحِبَ النَّبِیَّ ﷺ اَوْ رَآہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَہُوَ مِنْ اَصْحَابِہِ۔‘‘[6]۔
’’مسلمانوں میں سے جس نے بھی نبی کریم ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو یا صرف آپ ﷺ کو دیکھا ہو، وہ شخص آپ ﷺ کا صحابی ہے۔‘‘

علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صحابی کی بہت جامع تعریف کی ہے جو اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے، فرماتے ہیں:-

’’من لقی النبی ﷺ مؤمناً بہ، ومات علی الاسلام، فیدخل فیمن لقیہ من طالت مجالستہ لہ أو قصرت، ومن روی عنہ أو لم یرو، ومن غزا معہ أو لم یغزُ، ومن رآہ رؤیۃ ولو لم یجالسہ، ومن لم یرہ لعارض کالعمی۔‘‘[7]۔
’’جس نے نبی ﷺ سے حالت ایمان میں ملاقات کی ہو اور حالتِ اسلام میں وفات پائی ہو، وہ ’’لقا‘‘ میں داخل ہے، خواہ یہ مجالست طویل ہو یا مختصر، اور خواہ وہ آپ ﷺ سے روایت کرے یا نہ کرے، اس نے آپ ﷺ کے ساتھ کسی غزوے میں شرکت کی ہو یا نہ کی ہو، اس نے آپ ﷺ کی رویت کی ہو اگرچہ مجالست نہ ہو، اور اگرچہ اس نے کسی عارضے کی وجہ سے نہ دیکھا جو جیسے نابینا ہونا۔‘‘

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا جس نے حالت ایمان میں رسول اللہ ﷺ کی رویت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا، تو وہ صحابی ہے۔

’’مخضرمین‘‘ سے متعلق حافظ ابن حجر کا فیصلہ ہے:-

’’وھؤلاء لیسو أصحابہ باتفاق من أھل العلم بالحدیث۔‘‘[8]۔
’’یہ حضرات بالاتفاق اہل علم محدثین صحابی نہیں ہیں۔‘‘

جب کہ مدرک میں سے جنھیں رسول اللہ ﷺ کی رویت حاصل ہوئی وہ صحابی ہیں، اور جنھیں نہیں ہوئی وہ تابعی ہیں، اور رویت کے لیے بالاتفاق محدثین سن بلوغت شرط نہیں ہے۔

ارض پاک و ہند میں اصحاب رسول ﷺ

ہماری پیش کردہ تعریف کے مطابق خطۂ پاک و ہند میں تشریف لانے والے اصحابِ رسول کے جن ناموں کو تاریخ کے صفحات محفوظ رکھ سکے وہ حسبِ ذیل ہیں۔

عہدِ فاروقی میں

23 جمادی الاول 13ھ کو خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی بیعت خلافت کی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ساڑھے دس برس پر مشتمل ہے۔ ان کے عہدِ خلافت میں اسلامی مملکت بہت وسیع ہوئی اور جنگی فتوحات میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ان کامیابیوں کے نتیجے اسلامی ریاست موجود پاک و ہند کے حدود تک پھیل گئی۔ ان کے عہد میں 11 اصحابِ رسول کے نام ملتے ہیں جو بلادِ ہند کے کسی خطے میں تشریف لائے۔ ان کے اسمائے گرامی اور مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:-

۔1 حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ بن ابی العاص ثقَفِی

حضرت عثمان بن ابی العاص بن بشر طائف کے رہنے والے اور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق تھا۔ 9 ہجری میں 16، 17 برس کی عمر میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ وہ کم عمری ہی سے نہایت ذہین وفطین تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس لڑکے میں اسلام کو سمجھنے اور قرآن کو سیکھنے کی حرص دیکھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے انھیں طائف کا امیر مقرر کیا تھا۔ طائف میں ان کی امارت کی مدت چھے برس رہی، ڈیڑھ سال عہدِ نبوت میں، ڈھائی سال عہدِ صدیقی میں اور دو سال عہدِ فاروقی میں۔[9] 15ھ میں انھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عمان اور بحرین کا والی (گورنر) مقرر کیا۔ اسی سال انھوں نے ایک بحری بیڑا تیار کرایا اور اپنے چھوٹے بھائی حکم بن ابی العاص کی زیر قیادت ہندوستان کی طرف روانہ کیا۔ اس لشکر اسلامی نے موجودہ ممبئی کے اطراف میں واقع تھانہ اور بھڑوچ کی بندرگاہوں پر حملہ کیا۔ حضرت عثمان نے اپنی زندگی میں مختلف مقامات میں کی جانے والی متعدد جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ امام ابن حزم اپنی مشہور کتاب ’’جمہرۃ الانساب العرب‘‘ میں عثمان بن ابی العاص کے ذکر میں لکھتے ہیں:-

’’وغزا فارس، وثلاثۃ من بلاد الھند، ولہ فتوح۔‘‘[10]۔
’’انھوں نے فارس میں اور ہندوستان کے تین شہروں میں جہاد کیا اور ان کی بہت سی فتوحات ہیں۔‘‘

مشہور روایت کے مطابق 51ھ اور ایک روایت کے مطابق 50ھ یا 55ھ میں انھوں نے بصرہ میں وفات پائی۔ [11]۔

۔2 حضرت حکم رضی اللہ عنہ بن ابی العاص ثقَفِی

حضرت عثمان بن ابی العاص کے چھوٹے بھائی تھے۔ تمام امیرانہ و فاتحانہ سرگرمیوں میں اپنے بھائی کے شریکِ کار رہے ہیں۔ 15ھ میں جب سیدنا عمر فاروق نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو عمان اور بحرین کا والی (گورنر) مقرر کیا تو حضرت عثمان نے انھیں اپنی جگہ طائف کا امیر مقرر کیا۔ کچھ عرصہ بعد انھیں بحرین کا امیر مقرر کیا۔ حضرت حکم رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کے حکم سے بلادِ سندھ و ہند کے کئی ساحلی علاقوں پر لشکر کشی کی جن میں تھانہ، بھڑوچ، اور اس کے اطراف شامل ہیں، جہاں بھی یلغار کی کامیاب و کامران رہے۔ زیاد بن ابی سفیان نے انھیں خراسان کا والی مقرر کیا تھا۔ آخری دور میں یہ بصرہ میں مقیم ہو گئے تھے اور وہیں 45ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ علامہ ذہبی کے مطابق ان کی وفات 47ھ میں ہوئی۔[12]۔

۔3 حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بن ابی العاص ثقَفِی

حضرت عثمان اور حضرت حکم کے بھائی ہیں اور اپنے بھائیوں کے امیرانہ و فاتحانہ سرگرمیوں میں ان کے شریکِ کار رہے ہیں۔ حضرت مغیرہ اپنے بھائی حضرت عثمان کے حکم سے امیر لشکر کی حیثیت سے دیبل کی مہم پر روانہ ہوئے اور کامیابی حاصل کی۔ ’’چچ نامہ‘‘ کا یہ بیان درست نہیں کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ دیبل کے محاذ میں شہید ہوئے کیونکہ مستند تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد بھی طویل عرصہ زندہ رہے۔[13] زندگی کے آخری سالوں اپنے بھائیوں کے ساتھ بصرہ مقیم ہو گئے وہیں وفات پائی تاہم سن وفات سے آگاہی نہ ہو سکی۔ [14]۔

۔4 حضرت رُبیَّع رضی اللہ عنہ بن زیاد حارثی مذحجی

حضرت ربیع کا تعلق قبیلہ بنو مَذحِج سے تھا۔ انھوں نے بہت سی جنگوں میں حصہ لیا اور ہر جنگ میں حریف کو شکست سے دوچار کیا۔ 17ھ میں عہد فاروقی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انھیں لشکرِ اسلامی کا امیر بنا کر ایران کی جانب مختلف محاذوں پر بھیجا، انھوں نے ہر محاذ پر جرأت و بسالت کا مظاہرہ کیا۔ ’’فتوح البلدان‘‘ میں مکران کے علاقے شیرجان اور اس کے اطراف کا ذکر ہے۔[15] اس زمانے کے مکران کا بیشتر علاقہ موجودہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا حصہ تھا۔ حضرت ربیع رضی اللہ عنہ کی فاتحانہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز عہد فاروقی سے شروع ہوا اور عہد معاویہ تک جاری رہا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں خراسان کا والی بنا دیا تھا۔ مشہور تابعی امام حسن بصری ان کے کاتب تھے۔ حضرت ربیع رضی اللہ عنہ نے عہد معاویہ میں 51ھ یا اس کے کچھ عرصہ بعد وفات پائی۔ [16]۔

۔5 حضرت حکم رضی اللہ عنہ بن عمرو ثعلبی غِفاری

حضرت حکم بن عمرو بن مُجَدَّع کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنو غفار کی شاخ بنو ثعلب سے تھا اسی نسبت سے ثعلبی غفاری کہلاتے تھے۔ جلیل المرتبت صحابی رسول تھے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ ابن سعد کے مطابق حضرت حکم، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ سے بصرہ چلے گئے تھے اور وہیں اقامت اختیار کر لی تھی۔ 17ھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں مکران کے مفتوحہ حصوں کا والی مقرر کیا۔ 23ھ میں انھوں نے پورے مکران کا محاصرہ کر لیا اور اسے فتح کیا۔ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ کے حکم پر زیاد بن ابی سفیان نے انھیں 44ھ میں خراسان کا امیر و حاکم بنایا۔ وہاں پہنچ کر حضرت حکم نے اپنی مجاہدانہ سرگرمیاں شروع کر دیں جس سے بہت سے بلاد و امصار فتح ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ پہلے مسلمان ہیں جنھوں نے علاقہ ماوراء النہر میں سب سے پہلے نماز ادا کی ہے۔ باختلاف روایت حضرت حکم رضی اللہ عنہ نے 45ھ یا 50ھ یا 51ھ میں خراسان میں وفات پائی۔ ایک روایت کے مطابق مرو میں وفات پائی۔ [17]۔

۔6 حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ انصاری

حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبان انصاری رضی اللہ عنہ عالی مرتبت اصحابِ رسول میں سے ایک تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا جب حضرت عمر نے انھیں عراق و ایران کے محاذ پر بھیجنے کا ارادہ کیا تو انھیں مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی اس موقع پر حضرت سعد نے حضرت عبد اللہ انصاری کو اپنی جگہ کوفے کا گورنر مقرر کیا۔ بعد ازاں حضرت عمر نے حضرت عبد اللہ کو اصفہان کی گورنری پر مامور فرمایا جہاں انھوں نے مخالفینِ اسلام سے جہاد بھی کیا۔ حضرت عبد اللہ نے فارس (ایران) کے ایک مقام ’’جی‘‘ کی جنگ میں بھی نمایاں حصہ لیا، اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور کفار نے جزیہ کی شرط پر صلح کی۔ صلح نامہ حضرت عبد اللہ نے تحریر فرمایا، یہ 23ھ کا واقعہ ہے۔ اسی سال حضرت عبد اللہ کو مکران بھیجا گیا جہاں حضرت حکم بن عمرو غفاری مصروف جہاد تھے۔ حضرت عبد اللہ یہاں ان کے معاون ہوئے۔[18]۔

۔7 حضرت سہل رضی اللہ عنہ بن عدی خزرجی انصاری

حضرت سہل بن عدی بن مالک انصارِ مدینہ کی ایک شاخ قبیلہ خزرج سے تعلق رکھنے والے جلیل المرتبت صحابی رسول تھے جنھوں نے غزوہ بدر و احد میں شرکت کی سعادت حاصل کی تھی۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا تھا کہ حضرت سہل کو مکران کا والی مقرر کیا جائے۔ چنانچہ حضرت سہل مکران گئے اور اس کے گرد و نواح کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ 23ھ کا واقعہ ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحابِ رسول نے مکران اور اس کے اطراف کے متعدد علاقے فتح کیے جو اس وقت موجودہ بلوچستان کا حصہ ہیں۔ ارض پاکستان کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ایک بدری صحابی رسول کی آمد ہوئی۔[19]۔

۔8 حضرت صحار رضی اللہ عنہ بن عباس عبدی

حضرت صحار رضی اللہ عنہ بن عباس بن شراحیل عبدی بحرین کے قبیلہ بنو عبد القیس کی شاخ بنو ظفر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام صخر بھی بتایا جاتا ہے۔ 5ھ میں وفد عبد القیس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ حضرت صحار رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دو یا تین حدیثیں بھی روایت کی ہیں۔ حضرت صحار رضی اللہ عنہ نہایت عالم و فاضل تھے، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں مشہور تھے، علم الانساب کے زبردست ماہر تھے۔ ابن ندیم نے ان کی ایک تصنیف ’’کتاب الامثال‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔[20]۔

۔ 22ھ میں احنف بن قیس نے فتح ہرات کے بعد انھیں وہاں اپنا نائب مقرر کیا۔[21] 23ھ میں حضرت صحار فتح مکران میں شریک تھے۔ فتح مکران کے بعد انھیں دربارِ خلافت میں مژدہ خلافت سنانے کے لیے بھیجا گیا۔ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کا شاندار استقبال کیا اور دریافت کیا کہ مکران کیسا علاقہ ہے ؟ انھوں نے ادیبانہ اسلوب میں بیان کیا:-

’’فھلھا جبل، وماء ھا وشل، وتمرھا وقل، وعدوھا بطل۔‘‘
’’اس کی نرم و ہموار زمین پہاڑ ہے، پانی کم، کھجوریں ردی اور دشمن بے باک ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر مزید پیش قدمی سے روک دیا۔

حضرت صحار رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آخری عہد میں ان کی رہائش بصرہ میں تھی۔[22]۔

۔9 حضرت عاصم رضی اللہ عنہ بن عَمرو تمیمی

حضرت عاصم رضی اللہ عنہ بن عمرو عرب کے مشہور قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بھائی حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ بن عمرو بھی مشہور صحابی ہیں۔ لیکن ابن عبدالبر کے مطابق ان دونوں بھائیوں کی رسول اللہ ﷺ سے صحبت، لقا اور روایت تینوں محدثین کے نزدیک ثابت نہیں۔ لیکن امام طبری نے تصریح کی ہے کہ عاصم اصحاب رسول میں سے ہیں۔
حضرت عاصم شاعرانہ طبیعت اور مجاہدانہ فطرت کے حامل تھے۔ جنگ قادسیہ میں شریک تھے، فتح عراق کے ضمن میں ان سے کئی اشعار منقول ہیں۔ 17ھ میں حضرت سہل بن عدی کے زیر اہتمام مختلف خطوں میں جہاد کے لیے امراء اور ان کے لواء متعین کیے گئے تو عاصم بن عمرو کو سجستان میں جہاد کا لواء دیا گیا۔ 23ھ میں عاصم بن عمرو نے سجستان میں فتوحات کیں اور اسی ضمن میں سندھ سے متصل بعض علاقوں کو بھی فتح کیا۔[23]۔

۔10 حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عمیر اشجعی

حضرت عبد اللہ بن عمیر اشجعی ان اصحاب رسول میں سے ہیں جنھوں نے اپنے قبیلہ سے آکر مدینہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ انھیں رسول اللہ ﷺ سے روایتِ حدیث کا شرف بھی حاصل ہے۔ محدثین نے ان کا شمار علمائے مدینہ میں کیا ہے۔ 23ھ میں سجستان میں حضرت عاصم بن عمرو تمیمی کے ساتھ شاندار مجاہدانہ خدمات انجام دیں۔ جس کے نتیجے میں سندھ کے بعض علاقے فتح ہوئے۔[24]۔

۔ 11 حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عامر بن کریز

حضرت عبد اللہ بن عامر بن کریز مشہور اموی صحابی ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ماموں زاد بھائی ہیں۔ کثیر المناقب ہیں، جن کی مجاہدانہ خدمات سے فارس و خراسان کا بہت بڑا خطہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوا۔ 4ھ میں پیدا ہوئے۔ عام طور پر ان کی مجاہدانہ خدمات کے ذکر میں جن خطوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ موجودہ ایران و افغانستان کے خطے ہیں۔ لیکن اس میں خراسان کا ذکر بطور خاص ملتا ہے۔ اس عہد میں خراسان ایک بڑا وسیع خطہ تھا جس کا ایک حصہ آج موجودہ ایران میں ہے تو ایک حصہ موجودہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شامل ہے۔ ’’چچ نامہ‘‘ کی ایک روایت سے حضرت عبد اللہ بن عامر کی موجودہ بلوچستان کے خطوں میں آمد کا اثبات ہوتا ہے۔ لکھا ہے:-

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ عمل میں آیا اور خلافت امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ملی جنھوں نے ہند اور سندھ میں جنگ کرنے کے لیے لشکر بھیجنا چاہا۔ اس وقت لشکر قندابیل اور مکران میں تھا اور اس کے سردار عبد اللہ بن عامر بن کریز بن ربیعہ تھے۔‘‘[25]۔

یہ 23ھ کے آخری ایام ہوں گے۔ محرم 24ھ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ 29ھ میں سیدنا عثمان  نے انھیں سیدنا ابو موسیٰ اشعری کی جگہ بصرہ کا والی بنایا۔ اس کے بعد فارس کا بھی والی بنا دیا۔ ان کے عہد میں تقریباً پورا فارس و خراسان اسلامی حکومت کے زیر نگیں آگیا۔ حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بھرپور مجاہدانہ زندگی گزاری۔ 57ھ، 58ھ یا 59ھ میں ان کی وفات ہوئی۔[26]۔

عہدِ عثمانی میں

یکم محرم الحرام 24ھ کو خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ 18 ذی الحجہ 35ھ کو حضرت عثمان کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا۔ ان کا عہد خلافت 12 برس پر مشتمل ہے۔ ان کے عہدِ خلافت میں بھی اسلامی حدود سلطنت میں کافی اضافہ ہوا۔ عہد عثمانی میں 4 اصحابِ رسول کے نام ملتے ہیں جو خطہ برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے۔ ان کے اسمائے گرامی اور مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:-

۔12 حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ بن مَعْمَر تیمی قرشی

حضرت ابو معاذ عبید اللہ بن معمر بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ قرشی قریش کی مشہور شاخ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی شاخ سے خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھی تعلق تھا۔ عمرو پر دونوں کا نسب مل جاتا ہے اور نسبی رشتے کے اعتبار سے دونوں بھائی ہیں۔ حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ کا شمار اصاغر صحابہ میں ہوتا ہے۔[27] انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایتِ حدیث کا شرف بھی حاصل کیا۔ فتوحات عجم میں انھوں نے شاندار خدمات انجام دیں۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبید اللہ رضی اللہ عنہ بن معمر کو مکران کی مہم کا امیر بنا کر بھیجا یہاں انھوں نے نمایاں فتوحات حاصل کیں۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ہمراہ دشمن کا صفایا کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور ’’نہر‘‘ کے مقام تک جا پہنچے۔ پھر فارس کے امیر بنائے گئے۔ 29ھ میں اصطخر کے مقام پر اس جلیل المرتبت صحابی رسول نے شہادت پائی۔ ایک روایت کے مطابق شہادت کے وقت ان کی عمر 29 برس اور ایک روایت مطابق 40 برس تھی۔ واللہ اعلم[28]۔

۔13 حضرت عمیر رضی اللہ عنہ بن عثمان بن سعد

حضرت عمیر بن عثمان بن سعد کا ذکر 29ھ کے واقعات میں طبری نے اپنی تاریخ اور ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں کیا ہے۔ جس کے مطابق حضرت عثمان نے انھیں خراسان کا امیر بنایا تو انھوں نے خراسان سے فرغانہ تک کا پورا علاقہ فتح کر لیا۔ پھر حضرت عثمان نے جب حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ بن معمر تیمی کا تبادلہ مکران سے فارس کر دیا تھا تو ان کی جگہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ  کو مکران کا والی بنایا اور غالباً جب حضرت عبید اللہ اصطخر کے مقام پر شہید ہو گئے تو ان کی جگہ حضرت عمیر کو فارس کا امیر بنایا۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت عمیر رضی اللہ عنہ فارس کے امیر تھے۔ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:-

’’تاریخ طبری اور کامل ابن اثیر میں متعدد مقامات پر یہ نام اسی طرح آیا ہے، مگر مجھے تاریخ اور طبقات و رجال کی پیش نظر کتابوں میں عمیر بن عثمان بن سعد کے نام سے کسی صحابی کا تذکرہ نہیں ملا، خیال ہے کہ یہ بزرگ حضرت عمیر بن سعد بن عبید بن نعمان بن قیس بن عمرو بن عوف بن مالک انصاری اوسی رضی اللہ عنہ ہیں۔جن کے دادا کا نام بعض علما نے شہید بن عمرو بتایا ہے۔‘‘[29]۔

قاضی صاحب نے اپنا قیاس ظاہر کیا ہے پھر اسی پر اعتماد کرتے ہوئے، حضرت عمیر بن سعد کے حالات نقل کیے ہیں۔ لیکن جس شخص کتب طبقات صحابہ و رجال پر نظر ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ باہم ایک جیسے اسما کے حامل بیک متعدد صحابہ موجود تھے۔ اس لیے کسی قرائن کے بغیر محض یہ قیاس درست نہیں جب کہ حضرت عمیر بن سعد کے حالات میں خراسان و مکران وغیرہ کی کوئی تصریح بھی نہیں ملتی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے معرفتِ صحابہ کا ایک اصول بیان کیا ہے:-

’’کانوا لا یؤمرون فی المغازی الا الصحابۃ، فمن تتبع الأخبار الواردۃ فی الردۃ والفتوح وجد من ذٰلک شیئا کثیراً، وھم من القسم الاول۔‘‘[30]۔
’’غزوات میں صرف صحابہ ہی امیر بنائے جاتے تھے۔ جو شخص بھی فتنہ ردّہ (ارتداد) اور فتوح کے اخبارات ملاحظہ کرے گا وہ ایسے بہت سے صحابہ کو پائے گا اور یہ وہ صحابہ ہیں جو قسم اول میں داخل ہیں (یعنی رسول اللہ ﷺ کی رویت و روایت جن سے ثابت ہے)۔‘‘

یہی اہم اصول ہے جس کے تحت حضرت عمیر بن عثمان کو قاضی صاحب نے بھی اصحاب رسول میں شامل کیا ہے اور ہم نے بھی۔ [31]۔

۔14 حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ بن مسعود سَلمِی

حضرت مجاشع بن مسعود سلمی مشہور صحابی رسول ہیں جن کی روایات صحیحین، مسند احمد اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں۔ وہ جاہلیتِ عرب کے مشہور ترین شاعر امراء القیس کے احفاد میں سے تھے۔ وہ اور ان کے بھائی حضرت مجالد نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ حضرت مجاشع فرماتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی دونوں دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے ہجرت پر بیعت کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہجرت کا دور اب گزر چکا، فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ پھر کس بات پر ہم بیعت کریں ؟ ارشاد فرمایا: اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ پر۔ بعض روایات میں صرف اسلام اور بعض میں صرف احسان کا ذکر بھی ہے۔ یہ روایات مسند احمد میں موجود ہیں۔

حضرت مجاشع نے اپنی پوری زندگی خدمتِ اسلامی میں بسر کی۔ عہدِ فاروقی و عثمانی کی فتوحات میں نمایاں حصہ لیا۔ ایران کے مرکزی شہر توَّج کا محاصرہ لشکر اسلامی نے حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ ہی کی زیرِ امارت کیا تھا۔ حضرت مجاشع نے کابل اور پاکستان کے علاقے بلوچستان و کرمان وغیرہ فتح کیے۔ عہدِ عثمانی میں حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ کی فتوحات کے بعد مسلمان مستقل طور پر بلوچستان میں آباد ہوئے۔ حضرت مجاشع نے زندگی کے آخری ایام بصرہ میں گزارے۔ 36ھ میں جنگ جمل میں شہید ہوئے وہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے طرف دار تھے۔ ان کی اہلیہ سُمیلہ بنت الوحیدہ بن ازیہر دوسیہ تھیں جنھوں نے ان کی وفات کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے نکاح کر لیا تھا۔[32]۔

۔15 حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن سُمرہ قرشی

حضرت عبد الرحمن بن سمرہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف قریش کے معزز فرد تھے۔ عبد مناف پر ان کا نسب رسول اللہ ﷺ سے مل جاتا ہے اور نسبی رشتے سے رسول اللہ ﷺ کے بھائی ہوتے ہیں۔ فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ قبولیت اسلام کے وقت ان کا نام عبد الکعبہ یا عبد کلال تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام عبد الرحمن رکھا۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوئہ موتہ و غزوئہ تبوک میں بھی شریک ہوئے۔

فتوحات عراق و فارس میں حصہ لیا۔ کئی بار خراسان و سجستان کی جنگی مہموں میں شریک ہوئے۔ 23ھ میں انھیں سجستان کا والی مقرر کیا گیا اور شہادت عثمان کے وقت تک اس منصب پر فائز رہے۔ 42ھ میں عبد اللہ بن عامر نے دوبارہ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ کو غزوہ کے لیے سجستان بھیجا۔ اس بار حضرت ابن سمرہ نے بلاد ہند کے کئی علاقوں کو فتح کیا۔ ’’فتوح البلدان‘‘ کے مطابق عبد الرحمن بن سمرہ نے زرنج کے مقام پر کفار کی عید کے دن مرزبان (ایرانی سردار) کو اس کے قصر میں محصور کر لیا۔ اس نے بیس لاکھ درہم اور دو ہزار وصائف پر صلح کرلی۔ اس کے بعد ابن سمرہ بلاد ہند میں اس علاقے پر کہ زرنج اور کِش کے درمیان ہے اور اس علاقے پر کہ رخج کے اور بلاد الداور کے درمیان ہے، غالب آئے۔ بلاد الداور پہنچے اور وہاں کے باشندوں کو جبل الزور میں محصور کیا، انھوں نے امان چاہی اور صلح کرلی۔ اس کے ساتھ آٹھ ہزار مسلمان تھے۔ غنیمت تقسیم ہوئی تو ہر ایک کو چار ہزار (درہم) ملے۔ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ جبل الزور میں داخل ہوئے، یہاں ایک صنم خانہ تھا، اس میں سونے کا بت تھا جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں، انھوں نے بت کا ہاتھ کاٹا، دونوں یاقوت نکالے اور مرزبان سے کہا میں نے یہ اس لیے کیا کہ تجھے بتادوں کہ یہ نہ ضرر پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔[33]۔

حضرت عبد الرحمن بن سمرہ نے بلاد ہند کے کئی علاقوں کو فتح کیا۔ آخری دور میں بصرہ منتقل ہو گئے تھے یہیں 50ھ یا 51ھ میں وفات پائی۔[34]۔

عہدِعلوی میں

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ ان کی مدت خلافت چار برس نو مہینے بنتی ہے۔ 17 رمضان المبارک 40ھ کو حضرت علی کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عہد گو کہ بہت پُر آشوب رہا لیکن ان حالات میں بھی عساکرِ اسلامی نے اپنی فتوحات جاری رکھیں۔ عہد علوی میں ہمیں صرف ایک صحابی حضرت خریت بن راشد کا ذکر ملتا ہے جو ارض پاک و ہند تشریف لائے۔ ان کے مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:

۔16 حضرت خِریّت رضی اللہ عنہ بن راشد ناجی سامی

حضرت خِریّت بن راشد عمان کے قبیلہ بنو سامہ کی شاخ بنو ناجیہ سے ہیں۔ بنو سامہ کے ایک وفد کے ساتھ مکہ و مدینہ کی درمیان رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارکانِ وفد کی باتوں کو توجہ سے سنا اور اہل قریش سے فرمایا کہ یہ لوگ تمہاری قوم سے ہیں۔ اس کے بعد قریش نے انھیں اپنا مہمان بنایا اور ان کی میزبانی کی۔

حضرت خریت نے خلافتِ صدیقی میں فتنہ ارتداد کے خلاف بنو ناجیہ کے سردار کی حیثیت سے حصہ لیا اور قتالِ مرتدین میں نمایاں شرکت کی۔ خلافت عثمانی میں عبد اللہ بن عامر نے انھیں فارس کا امیر بنایا۔ 37ھ یا اس کے کچھ بعد حضرت علی کے عہد خلافت میں حضرت خریت حالات سے دل برداشتہ ہو کر مکران چلے آئے تھے۔[35]۔

عہد معاویہ رضی اللہ عنہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کے نتیجے میں حضرت معاویہ قلمرو اسلامیہ کے متفقہ خلیفہ بنے۔ اس سے قبل وہ تقریباً بیس برس شام کے والی رہے تھے۔ 22 رجب 60ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دمشق میں وفات پائی۔ گویا بیس برس گورنر اور بیس برس خلیفہ رہے۔ ان کے زمانہ خلافت میں ایک صحابی رسول حضرت سنان بن سلمہ ہذلی کا ذکر ملتا ہے جو ارض پاک و ہند تشریف لائے۔ ان کے مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:

۔ 17 حضرت سنان رضی اللہ عنہ بن سلمہ ہذَلی

حضرت سنان بن سلمہ بن مُحَبَّق ہذلی ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے دن اور دوسری روایت کے مطابق غزوئہ حنین کے موقع پر پیدا ہوئے۔ اثنائے جنگ جب سلمہ رضی اللہ عنہ بن محبق کو ولادت کی اطلاع ملی تو انھوں نے کہا:-

’’سنان اطعن بہ فی سبیل اللہ احب الی منہ۔‘‘
’’جس نیزہ سے میں اللہ کی راہ میں جہاد کر رہا ہوں وہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے جب ان کا حوصلہ مندانہ جملہ سنا تو بچے کا نام سنان رکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تحنیک بھی فرمائی۔
تمام تذکرہ نگاروں نے ان کی شجاعت و بہادری کا نمایاں طور سے ذکر کیا ہے۔ حضرت سنان رضی اللہ عنہ کئی بار حدود پاک و ہند میں امیر مقرر کیے گئے۔ 42ھ میں راشد بن عمرو کی شہادت کے بعد ہندوستان کے کسی خطے میں امیر بنائے گئے۔ 47ھ میں عبد اللہ بن سوار عبدی کی شہادت کے بعد ان کی جگہ امیر بنے۔ خلیفہ بن خیاط کہتے ہیں:-

’’ولاہ زیاد غزو الھند بعد قتل راشد بن عمرو وذٰلک سنۃ خمسین ولہ خبر عجیب فی غزو الھند۔‘‘ [36]۔
’’زیاد نے انھیں راشد بن عمرو کی شہادت کے بعد معرکہ ہند کا امیر بنایا، یہ سن ۵۰ھ تھا۔ معرکہ ہند میں ان کی (شجاعت و بہادری) کی عجیب خبریں ہیں۔‘‘

’’چچ نامہ‘‘ کے مطابق بدھیہ کے مقام پر انھیں دھوکے سے شہید کیا گیا۔ ان کی سن شہادت میں اختلاف ہے۔ 90ھ، 94ھ اور 95ھ بتائی جاتی ہے۔[37] ایک روایت کے مطابق عراق میں حجاج بن یوسف کے آخر عہد ولایت میں وفات پائی۔[38]۔

عہد یزید

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے یزید نے زمام حکومت سنبھالی۔ یزید کی حکومت تین سال آٹھ مہینے رہی۔ 10 ربیع الاول 64ھ کو یزید کی وفات ہوئی۔ عہدِ یزید میں ایک صحابی رسول حضرت منذر بن جارود عبدی ارضِ پاک و ہند تشریف لائے۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں:

۔18 حضرت منذر رضی اللہ عنہ بن جارود عبدی

حضرت منذر بن جارود اصاغر صحابہ میں سے تھے۔ اپنے قبیلہ بنو عبد القیس کے سردار اور اپنے وقت مشہور سخی تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں اصطخر کا امیر مقرر کیا تھا۔ یزید کے عہد میں عبید اللہ بن زیاد کے کہنے سے انھیں سرحدات ہند کی طرف روانہ کیا گیا۔ انھوں نے بوقا، قلات اور خضدار کی جنگوں میں نمایاں حصہ لیا۔ 61ھ یا 62ھ میں انھیں سندھ کے شہر قندابیل کا امیر مقرر کیا گیا۔ 62ھ میں قندابیل میں وفات پائی۔ وفات کے وقت ان کی عمر ساٹھ سال تھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر سات آٹھ سال رہی ہوگی۔[39]۔

تاریخ سے ہمیں ان 18 اصحابِ رسول کا ذکر ملتا ہے جو ارض پاک و ہند تشریف لائے۔ ان میں سے بعض یہیں مدفو ن ہوئے اور بعض کچھ عرصہ یہاں گزار کر رخصت ہوئے۔ ارض پاک و ہند کی تاریخ کا یہ ایک اہم گوشہ ہے جسے ہمیں جاننا چاہیے۔

حواشی

۔[1]  ممکن ہے ان میں کچھ تابعین بھی ہوں تاہم اس میں شبہ نہیں کہ ان ابتدائی جہادی سرگرمیوں میں غالب اکثریت اصحاب رسول ﷺ ہی کی تھی۔

۔[2] مخضرم اسے کہتے ہیں جس نے زمانہ جاہلیت بھی پایا اور عہد رسالت بھی تاہم رسول اللہ ﷺ کے فیض صحبت سے محروم رہا۔ تاہم نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں یا ان کے بعد اسلام قبول کر لیا۔

۔[3] مدرک اسے کہتے ہیں جس نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ پایا۔ ان میں صحابی بھی ہیں تابعی بھی۔

۔[4] برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش ص: 25 – 26

۔[5]  الکفایۃ فی علم الروایۃ، ص: 51

۔[6] بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب فضائل اصحاب النبی ﷺ

۔[7] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ج 1، ص: 158)۔ حافظ عسقلانی اسے بھی صحابی کی تعریف میں شامل کرتے ہیں جس نے درمیان ارتداد اختیار کر لیا ہو، لیکن حالت ایمان میں وفات پائی ہو۔ ’’نزھۃ النظر‘‘ (ص: 140) تاہم اس میں اختلاف ہے۔

۔[8] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج 1، ص: 156

۔[9] اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ص: 47

۔[10]  جمہرۃ الانساب العرب، ص: 266

۔[11]  جمہرۃ الانساب العرب (ص: 266)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 19، ص: 208 – 209)، الاستیعاب (ص: 1035 – 1036)، طبقات ابن سعد (ج 8، ص: 48 تا 70، ج 9، ص: 39 – 40)، تہذیب التہذیب (ج 7، ص: 127 – 128)، البدایۃ والنہایۃ (ص: 1214)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 373 – 374)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 573 – 574)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 522 – 523)، اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (ص: 21 تا 40، و نیز متفرق صفحات)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 255 تا 258)

۔[12]  الاستیعاب (ص: 358)، طبقات ابن سعد (ج 9، ص: 70، ج 9، 60)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 2، ص: 90 – 91)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 639)، نزہۃ الخواطر (ص: 31 – 32)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 50)، اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (ص: 62 تا 68، و نیز متفرق صفحات)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 237 – 238)

۔[13] چچ نامہ، ص: 95 – 96، 416

۔[14] چچ نامہ (ص: 95 – 96، 416)، نزہۃ الخواطر (ص: 37)، اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (ص: 69 تا 71)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 261 – 262)

۔[15] فتوح البلدان، ص: 551

۔[16] تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 9، ص: 80 تا 82)، الاستیعاب (ص: 488)، طبقات ابن سعد (ج 8، ص: 279 – 280)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 487)، تہذیب التہذیب (ج 3، ص: 243 – 244)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 255 – 256)، خلافت راشدہ اور ہندوستان (ص: 262 – 263)

۔[17]  الاستیعاب (ص: 356 تا 358)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 7، ص: 124 تا 129)، غایۃ المقصود شرح سنن ابی داود (ج 1، ص: 278)، جمہرۃ الانساب العرب (ص: 186)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 403 – 404)، طبقات ابن سعد (ج 5، ص: 116 – 117، ج 9، ص: 370)، تہذیب التہذیب (ج 2، ص: 436 – 437)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 51 تا 53)، البدایۃ والنہایۃ (ص: 1214)، اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (ص: 69 تا 71)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 238 تا 240)

۔[18] الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 135)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 299)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 249 – 250

۔[19] طبقات ابن سعد (ج 4، ص: 303)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 3، ص: 169)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 578)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 246 – 247

۔[20] الفہرست، ص: 221

۔[21] چونکہ حضرت صحار عبدی 22ھ میں ہرات میں احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے نائب تھے۔ اس لیے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے خیال سے ان کا حضرت عمر کے دربار میں ان خیالات کا اظہار کرنا صحیح درست نہیں۔ ان کے خیال سے ان خیالات کا اظہار حضرت حکیم بن جبلہ نے حضرت عثمان کے سامنے کیا تھا۔ (چچ نامہ، ص: 419) اصل یہ ہے کہ حضرت صحار  نے حضرت عمر کے سامنے اور حضرت حکیم نے حضرت عثمان کے سامنے تقریباً ایک ہی اسلوب میں اظہار خیال کیا تھا۔ یہ دو مختلف واقعات ہیں۔ حضرت صحار کا ہرات میں احنف بن قیس کی نیابت کے بعد 23ھ میں فتح مکران میں حصہ لینا قطعاً بعید از امکان نہیں۔ امام ابن کثیر نے حضرت صحار کا 22ھ میں ہرات اور 23ھ میں فتح مکران میں شرکت دونوں ہی لکھی ہیں۔ (البدایۃ والنہایۃ)

۔[22] الفہرست (ص: 220 – 221)، الاستیعاب (ص: 735 – 736)، طبقات ابن سعد (ج 8، ص: 122 – 123، ج 9، ص: 86)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 3، ص: 328 تا 331)، کتاب المحبر (ص: 212)، اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (ص: 69 تا 71)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 247 – 248

۔[23] الاستیعاب (ص: 786)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 3، ص: 465)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 248 – 249

۔[24] الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 171)، الاستیعاب (ص: 960)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 351)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 250 -251

۔[25] چچ نامہ، ص: 96 – 97

۔[26] جمہرۃ الانساب العرب (ص: 75)، الاستیعاب (ص: 931 تا 933)، فتوح البلدان (متفرق صفحات)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 515 تا 517)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 289 – 290)، تہذیب التہذیب (ج 5، ص: 272 تا 276)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 248 – 249)، طبقات ابن سعد (ج 7، ص: 47 تا 53

۔[27] ابن اثیر نے ان کے شرف صحابیت پر بعض اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن وہ درست نہیں۔ کیونکہ دیگر محدثین و مورخین انھیں صحابی تسلیم کرتے ہیں۔ پھر وہ خود قریشی النسب تھے اس لیے نبی کریم ﷺ کی رویت کا غالب امکان ہے۔ پھر براہ راست نبی کریم ﷺ سے روایت بھی کرتے ہیں۔

۔[28]  طبقات ابن سعد، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 335 – 336)، الاستیعاب (ص: 1013 – 1014)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 526 – 527)، چچ نامہ (ص: 420)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 253 تا 255

۔[29] خلافتِ راشدہ اور ہندوستان، ص: 259

۔[30] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج 1، ص: 161

۔[31] چچ نامہ (ص: 420)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 258 تا 260

۔[32] طبقات ابن سعد (ج 6، ص: 187)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 27، ص: 216 تا 217)، الاستیعاب (ص: 1457 – 1458)، تہذیب التہذیب (ج 10، ص: 38)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 5، ص: 569 – 570)، اسد الغابۃ (ج 5، ص: 55 – 56)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 299)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 260 – 261

۔[33] فتوح البلدان، ص: 555

۔[34] تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 17، ص: 157 تا 160)، فتوح البلدان (ص: 555 تا 558)، طبقات ابن سعد (ج 6، ص: 40، ج 9، ص: 15، 370)، الاستیعاب (ص: 835)، تہذیب التہذیب (ج 6، ص: 190 – 191)، البدایۃ والنہایۃ (ص: 1214)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 262 – 263)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 250 – 251)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 419 – 420)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 251 تا 253

۔[35] الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 2، ص: 235)، الاستیعاب (ص: 458 – 459)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 165)، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 240 – 241

۔[36] تھذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج 12، ص: 151

۔[37] تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 12، ص: 149 تا 151)، چچ نامہ (ص: 103 تا 109)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 560 – 561)، الاستیعاب (ص: 657 – 658)، طبقات ابن سعد (ج 9، ص: 122 – 123، 210)، تہذیب التہذیب (ج 4، ص: 241 – 242)، خلافت راشدہ اور ہندوستان (ص: 243 تا 246)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 938 – 939

۔[38] طبقات ابن سعد (ج 9، ص: 210)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 561

۔[39] تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 724 – 725، 884 – 885)، چچ نامہ (110 – 111)، خلافت راشدہ اور ہندوستان (ص: 262 – 263

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.