عشق چیست


الواقعۃ شمارہ: 86 – 87، رجب المرجب و شعبان المعظم 1440ھ

از قلم : مولانا محمد ابو القاسم فاروقی

عشق عربی زبان کا لفظ ضرور ہے لیکن "محبت” کی سحر انگیز یوں نے اسے پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا، عرب کے ریگستانوں اور صحراؤں میں عشق کو اس کی فطری شادابی بھی نہ مل سکی، قیس لیلی کا ایسا اسیر ہوا کہ آہیں بھرتا تو ضعف سے غش کھا جاتا، باپ سے دیکھا نہ گیا، نجد کے بے آب و گیاہ چٹیل میدانوں کو عبور کر کے ہزاروں میل دور مکہ کی وادی میں لایا، خانہ کعبہ کے اندر لے گیا، کہا بیٹے اللہ سے دعا کرو یہ کالی بلا تمہارا پیچھا چھوڑ دے ، اس نے دعا مانگی: –

یا رب لا تسلبنی حبھا ابدا و یرحم اللہ عبدا قال آمینا

"یا پاک پرور دگار لیلی کی محبت مجھ سے جدا نہ کرنا اور میری اس دعا پر جو آمین کہے، اس پر رحم کرنا۔”

"کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا”، محبت نے اسے مجنوں بنا دیا، یہ عشق صرف مجنوں ہی کے گرد گردش کرتا رہا۔
غالب کہتے ہیں:-

شوق ، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا

اکیلے قیس تک محدود ہونا عشق کی فطرت نہ تھی، مجبور ہو کر اس نے عجم کا رخ کیا، اسلامی فتوحات کے ساتھ یہ لفظ ایران پہنچا، یہاں کی سر زمین حسن و عشق کی کہانیوں سے پہلے ہی لبریز تھی، ثنوی تہذیب نے اس کا بھر پور استقبال کیا، پھر تو اس کی وسعتوں اور پنہائیوں نے ایرانی تہذیب و ثقافت، تصوف اور ادب سب کو اپنے اندر سمیٹ لیا، وہ تصوف کے ماتھے کا جھومر بنا، فارسی شاعری اس کے جلووں سے متوالی ہوئی، ایرانی صوفیا اور شعرا کہنے لگے کہ ملاٰئکہ سے افضل انسان صرف عشق کی وجہ سے ہے، فرشتے درک عشق سے عاجز ہیں، عشق کی امانت اٹھانے کی صلاحیت پوری کائنات میں صرف انسانوں کے پاس ہے، اللہ نے روز ازل سے ہی انسان کے وجود میں عشق کو پیوست کر دیا ہے، حافظ کہتے ہیں:-

در ازل پرتو حسنت زتجلی دم زد
عشق پیدا شد و آتش بہ ہمہ عالم زد

"ازل میں تیرے حسن کے پرتو نے پل بھر کے لیے تجلی ڈالی، جس کے اثر سے عشق کا ظہور ہوا اور پوری دنیا کو گرمئ عشق کے لپیٹ میں لے لیا۔”

مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:-

جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد

"یہ خاکی جسم عشق کی وجہ سے آسمان پر پہنچا، پہاڑ رقص میں آگیا اور ہوش دار ہوگیا۔”

مگر عشق کوئی کھیل نہیں ہے، جگر مراد آبادی کہتے ہیں:-

یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

حافظ اسی بات کو دوسرے انداز میں کہتے ہیں:-

الا ایھا الساقی ادر کاسا و ناولھا
کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا

"اے ساقی جام کا دور چلا اور مجھے عطا کر کہ عشق پہلے آسان معلوم ہوتا ہے پھر ایسی مشکلیں پڑتی ہیں کہ اللہ دے بندہ لے۔”

سعدی شیرازی عشق بازی کے بارے میں کہتے ہیں:-

عشق بازی چیست؟ سر در پائے جاناں باختن
با سر اندر کوئے دلبر عشق نتواں باختن

"عشق بازی کیا ہے ؟ عاشقی محبوب کے قدموں میں سر نچھاور کرنا ہے، دلدار کے کوچے میں سر کے ساتھ جانا عشق بازی نہیں ہو سکتی۔”

عاشق کو جب عشق کا خزانہ مل جاتا ہے تو دنیا اس کی نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے، معشوق کی ایک نگاہ کے بدلے میں وہ کائنات کو قربان کر سکتا ہے، حافظ فرماتے ہیں:-

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را بہ خال ہندویش بخشم سمرقند بخارا را

"اگر وہ ترک شیرازی ہمارا دل قبول کرلے تو اس کے حسین تل کے عوض میں سمر قند اور بخارا بخش دوں۔” (یہ معلوم نہیں کہ سمر قند و بخارا حافظ کی ملکیت میں تھے کہ نہیں ؟)

صوفیا اور تصوف زدہ اردو و فارسی کے شعرا کے نزدیک کائنات اور ماورائے کائنات عشق کے علاوہ کچھ نہیں، مذاہب کا جوہر عشق ہے، عشق خدا ہے، عشق کائنات ہے، عشق رسول ہے، عشق نبی ہے، عشق نور الانوار ہے، عشق من و تو کا فرق مٹا دیتا ہے، عشق عشق ہے نہ مجازی ہے نہ حقیقی، میرؔ کہتے ہیں:-

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم پہ چھا رہا ہے عشق

ولیؔ دکنی کہتے ہیں کہ ہمیں تو صرف عشق سے مطلب ہے ،چاہے حقیقی ہو چاہے مجازی:-

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقت و کیا مجازی کا

میر تقی میرؔ کے والد نے انھیں بچپن ہی سے آتش عشق میں جلنے کی تربیت دی تھی، وہ کہتے تھے کہ بیٹا عشق کرو، عشق ہی اس کارخانے پر مسلط ہے، اگر عشق نہ ہوتا تو یہ تمام نظام درہم برہم ہو جاتا، بے عشق زندگانی وبال ہے اور عشق میں دل کھونا اصل کمال ہے، عالم میں جو کچھ ہے،عشق کا ظہور ہے، آگ سوز عشق ہے، پانی رفتار عشق، خاک قرار عشق ہے، ہوا اضطرار عشق، موت عشق کی ہستی ہے، حیات عشق کی ہوشیاری ہے، رات عشق کا خواب ہے اور دن عشق کی بیداری ہے۔

میرؔ زندگی بھر عشق کی آگ میں جلتے رہے اور اسی عشق نے ان کا کام تمام کیا، وہ کہتے ہیں:-

عاشقی جی ہی لے گئی آخر
یہ بلا کوئی ناگہانی تھی

اقبال تو عشق کا پیام بر بن گئے، انھوں نے رومی کو اپنے عشق کا رہبر ضرور بنایا، لیکن ان سے کئی قدم آگے نکل گئے ، مغرب کو مشرق کا پیام دیا کہ آؤ ہم مل کر علم اور عشق کو ہم آغوش کرلیں اور انسانیت کی ایک نئی دنیا تعمیر کریں، حالاں کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ مغربی علم کی بنیاد عقل ہے اور عقل و عشق کا میل نا ممکن ہے، وہ خود کہتے ہیں:-

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد نہ حکیم

عجیب سا فلسفہ ہے عشق کا،یہاں کمال فنا کمال بقا ہے، فنا کی راہوں پر چلنا اور اس کے مراحل طے کرنا انسانی وجود کا مقصد ہے، ہر قسم کے نفسانی امراض سے خالص ہو کر عالم ناسوت سے رشتہ توڑ کر بحر لاہوت میں غرق ہو جانا اور خود عشق کا ایک حصہ بن جانا معراج عشق ہے، اس مرحلے میں وہ احکام شرعی کی قیود سے بے نیاز ہو جاتا ہے، یہاں پہنچ کر عشق اور مذہب کی راہیں الگ ہو جاتی ہیں ” مذھب عشق از ہمہ دینہا جدا است””تذکرہ نگار کہتے ہیں کہ حسین بن منصور اس منزل کی تابناکیوں کی تاب نہ لاسکا اور "انا الحق” کا نعرہ لگا دیا، سرمد تو اثبات و نفی کا پل ہی نہیں عبور کر سکا کہ فقیہان حرم نے اس پر کفر کا فتوی عائد کر دیااور ارتداد کے جرم میں وہ مارا گیا، کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے ہر بن مو سے الا اللہ کی صدا آنے لگی، بہر حال وحدت اور فردانیت میں جذب ہو جانا ان دونوں کا مطلوب و مقصود تھا، سو ہو گئے اور عاشق سے معشوق بن گئے، غالبؔ کہتے ہیں:-

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ اس قسم کے وجودی صوفیا اور شعرا کی ارواح اس قدر جمالی اور جلالی ہوتی ہیں کہ ناری مسکن اور بہشتی نشیمن ان کے انوار و تجلیات کو اپنی وسعتوں میں سمونے سے قاصر ہیں وہ شراب الست میں مست سیارگانِ آوارہ کی طرح آفاق میں مسلسل گردش کر رہی ہیں۔

عشق کا منبع اور مرجع دونوں ہی حسن ہے، یہی عشق حسن آفرینی کرتا ہے، حسن و عشق دونوں ایک دوسرے کی علت معلول ہیں، اگر چہ یہ منطقی اعتبار سے محال ہے، لیکن یہ بزم عشق ہے یہاں امکاں کی حکم رانی ہے، صوفیا کے اس فلسفے کی بنیاد ایک بغیر سند کی موضوع روایت ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث قدسی ابن عربی کو بذریعۂ کشف معلوم ہوئی تھی، جس کا مفہوم ہے کہ، خدا کا جمال ایک مخفی خزانہ تھا، اس میں ذوق نمود پیدا ہوا، جس سے کائنات اور اس کے اندر حسن ازلی کا مشاہدہ کرنے والے معرض شہود میں آئے، یہ حسن کی عشق آفرینی اور عشق کی حسن آفرینی ہے جو فلک پر چاند ستاروں اور زمین پر گل عذاروں کی تخلیق کا سبب بنی، گویا حسن عشق ہے اور عشق حسن ہے پھر دونوں میں جدائی کیوں ہے، حسن سے ملاپ کے لیے عشق میں اس قدر تڑپ، اضطراب اور بے قراری کیوں ہے کہ اصغر گونڈوی کو کہنا پڑا:-

اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے
قطرہ ہے بے قرار سمندر لیے ہوئے

حسن ازلی کو ہم وحدت کا مترادف بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی خالق کائنات سے الگ نہیں ہے، یہ محض ایک وجود ہے جو کائنات، ماورائے کائنات سب میں موجود ہے،میر کہتے ہیں:-

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

صوفیا کے نزدیک عشق کی دو قسمیں ہیں، عشق حقیقی اور عشق مجازی پھر عشق مجازی کی دوقسمیں ہیں عشق حیوانی یا بہیمی اور عشق نفسانی، عشق مجازی کے متعلق حکما کا کہنا ہے ” العشق مرض سوداوی یعنی عشق ایک سوداوی بیماری ہے اور صوفیا کا کہنا ہے ” عشق مجازی عشق حقیقی کا پل ہے، عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی تک پہنچنا محال ہے ، سالک کا کمالِ عرفان یہ ہے کہ وہ حسن مجازی میں حسن حقیقی کا مشاہدہ کرتا ہے، جب وہ حسینوں کو دیکھتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ یہ جمال حق ہے جو مراتب کونیہ میں اپنی تجلیات انڈیل رہا ہے:-

شیخ عاشق گفت از عین الیقین
حسن تو در حسن خوباں دیدہ ام

"عاشق یقین نہیں بلکہ عین الیقین سے کہتا ہے کہ اس نے محبوب کے حسن میں تیرا حسن دیکھا ہے۔”

اسے وہ عشق نفسانی کہتے ہیں جو عاشق و معشوق کا ایک حجاب ہے، مجاز ہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے لیکن حسینوں کا یہ دیدار غیر عارف کے لیے ممنوع ہے وہ دیکھے گا تو مراتب عرفان سے محروم ہونے کی وجہ سے فتنۂ آفت و خذلان کے دلدل میں جا گرے گا، عاشقین نے اپنے لیے کیا راہ نکالی ہے،عشق نفسانی کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ دختران و غلمان سے لذت یاب ہونے کی محض صوفیانہ تاویل ہے، ایک صوفی شاعر کہتا ہے:-

در عشق خانقاہ و خرابات فرق نیست
ہر جا پرتو روئے حبیب است

"ہرجگہ محبوب کے چہرے کا عکس موجود ہے پس خانقاہ اور خرابات میں کوئی فرق نہیں ہے۔”(یاد رہے کہ صوفیا خانقاہ سے عالم تنزیہ اور خرابات سے عالم تشبیہ مراد لیتے ہیں)

دوسری قسم عشق بہیمی یا عشق حیوانی ہے جسے عشق صور مردان و نسوان بھی کہہ سکتے ہیں ، کسی حسین صورت کو دیکھ کر جنسی اشتعال پیدا ہو اور اس سے ہم آغوش ہونے کی خواہش شدت سے انگڑائی لینے لگے اور اس کے حصول کے لیے دل اس طرح مچل جائے کہ قابو میں نہ آئے، ناکامی پر دیوانگی طاری ہو جائے تو اسے عشق بہیمی کا نام دیں گے، یہی وہ عشق ہے جس نے اردو و فارسی شاعری کا وہ ناپاک دفتر پیدا کیا جس نے فن لطیف کو فن کثیف بنا دیا اور ایسے مخرب حیات و اخلاق عشق کے بارے میں حالیؔ کو کہنا پڑا:-

ہے عِشق طبیب، دِل کے بیماروں کا
یا گھر ہے وہ خود، ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے، پہ اِتنی ہے خبر!
اِک مشغلہ دلچسپ ہے، بیکاروں کا

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پوری کائنات کے ہر ذرہ میں جب ایک ہی نور کا ظہور اور ایک ہی حسن کی جلوہ گری ہے تو یہ حسن زنان و مردان میں ہی کیوں نظر آتا ہے، صوفیا کے بے شمار قصے ہم نے پڑھے، دکان نوخیز ہی پر خاص طور سے ان کی نظریں کیوں پڑتی ہیں ؟ میر تقی میر فرماتے ہیں:-

میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں
اس نسخے کی کوئی نہ رہی حیف دوا یاد

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.