سانحہ کرائسٹ چرچ اور امت مسلمہ کا رویہ


الواقعۃ شمارہ: 86 – 87، رجب المرجب و شعبان المعظم 1440ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

جمعۃ المبارک ۱۵ مارچ ۲۰۱۹ء کے دن نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں کچھ دہشت گردوں نے مسلمانوں کی دو مساجد پر مسلح حملہ کیا اور درجنوں نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کو اپنی گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اب تک کی خبروں کے مطابق تقریباً پچاس مسلمان شہید ہوئے اور بے شمار زخمی بھی ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا امکان بھی ہے۔ دہشت گردی کی اس لہر نے اکثر کلمہ گو مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر اس حملہ کی زبردست باز گشت سنائی دی اور بڑی ہا ہا کار مچی۔ حکومتی سطح پر بھی اور انفرادی حیثیت میں بھی لوگوں نے اپنے دکھ و غم کا اظہار کیا۔

مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی ایسی کارروائی وقتاً فوقتاً دنیا کے مختلف ممالک میں ہوتی رہتی ہے۔ انسانی جانیں بھی جاتی ہیں اور کافی شور بھی مچتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی دہشت گرد پولیس کے ہتھے بھی چڑھ جاتا ہے مگر اکثر و بیشتر ملزمان غائب ہو جاتے ہیں۔ جہاں یہ واقعہ پیش آتا ہے اس جگہ کے مسلمان باشندے کچھ دنوں تک احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی حکومتی بڑے کی طرف سے بیان بھی آجاتا ہے کہ غلط ہوا۔ اکثر اوقات ان ملزمان کو دیوانہ یا ذہنی مریض ثابت کر دیا جاتا ہے اور عدالتی کارروائیوں میں ان کے چھوٹ جانے یا سزا میں تخفیف کے لیے راہ ہموار کر دی جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے آتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی کارروائی ہوتی ہے جس سے آئندہ کے لیے ایسے تکلیف دہ قتل عام کے آگے بند باندھنے کی کوئی کوشش ہو۔ ہاں اگر یہی کارروائی بدلے کے جنون میں آکر کوئی مسلمان کر لے تو ایسا شورو شرابا ہوتا ہے کہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر دیکھنے میں آتا ہے کہ امت مسلمہ کی طرف سے منمنائی ہوئی آواز میں معذرتی بیان آجاتا ہے اور سارا ملبہ جو مغرب ہمارے اوپر ڈالتا ہے اسے اپنا لیا جاتا ہے۔ ہماری اسی روش نے مغرب کو بے انتہا دلیر کر دیا ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا وہ کھل کھیلتے ہیں اور بار بار ضرب لگا رہے ہیں ۔

اسلامو فوبیا کا جو خوف مغرب کو لاحق ہے وہ اسی کی وجہ سے ہمیں تباہ کرنے اور بے دردی سے ختم کرنے کے درپے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو مغرب نے اور غیر مسلم دنیا نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ پچھلی کئی صدیوں پر پھیلے ہوئے واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ اسلام کے خلاف نفرتیں اگلنے کے بعد عوام کو اس قدر اکسایا گیا کہ وہ ہتھیار لے کر نہتے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ فتنہ تاتار ہو یا صلیبی جنگوں کی کارروائیاں سب اسی نفرت کا شاخسانہ ہیں ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہم نے کبھی ان واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور امت مسلمہ کو متحد اور متفق کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ بلکہ امت ہمیشہ ہی اختلاف اور آپس کی منافرتوں میں ڈوبی رہی اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ایسی ہی کارروائیوں کی زد میں آتی رہی۔

موجودہ دور میں نائن الیون کے بعد کی جتنی کارروائیاں ہوئیں وہ سب کی سب مسلمانوں کو تہس نہس کرنے اور ان کی نسلوں کی نسلیں مٹانے کی جدوجہد رہی۔ اس دور میں مسلمانوں کے اوپر حملے کے جتنے بھی بہانے بنائے گئے سب کے سب بودے اور جھوٹے نکلے۔ نہ عراق کے پاس ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نکلے اور نہ ہی لیبیا کی دفاعی تیاریوں اور مغرب پر حملہ کرنے کی تیاریوں کا کوئی ثبوت ہاتھ آیا۔ ہاں انھوں نے ہمارے ملکوں کو البتہ تیرہ و تاراج کردیا۔ مگر امت مسلمہ نے کیا کیا۔ کیا کوئی ملک بھی ایسا نکلا جس نے مغرب کی ان وحشیانہ کارروائیوں کے بارے میں کوئی جواب دیا ؟ ہماری اپنی اسلامی اتحاد کی انجمن کھڑی تھر تھر کانپتی رہی۔ ہر ایک کو یہ خوف لاحق تھا کہ کچھ بولا تو اس کے بعد ہماری باری ہے۔ہر ایک کو اپنا تخت و تاج پیارا تھا۔ خواہ اس کے بدلے میں اسلامی دنیا ساری کی ساری تباہ و برباد ہو جائے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، روس سب کو ہماری اس کمزوری کا علم تھا اور ہر ایک شیر بنا پھر رہا تھا۔ پس گئی بے چاری امت مسلمہ۔

اس سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔پاکستان اور ترکی کے علاوہ کسی نے بھی اس حملہ کو مغرب کی طرف سے دہشت گردی نہیں کہا۔ بڑے بڑے اسلامی ممالک جو اپنی چودھراہٹ دکھانے میں ذرا بھی نہیں چوکتے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم شلوار قمیض پہن کر سر پر دوپٹہ ڈالے مساجد اور سانحہ کے متاثرین کے پاس چکر لگا رہی ہے اور اظہار یک جہتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس حملہ کو مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردی کہنے سے کترا رہی ہے۔اس بات کو خوب اچھالا جا رہا ہے کہ حملہ آور آسٹریلیا سے آئے تھے۔ وہ خواہ کہیں سے آئے ہوں یہ حملہ تھا تو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا واقعہ۔ میڈیا میں تو یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ ایک حملہ آور تو بچپن سے ہی فرشتہ صفت انسان تھا وہ ایسی کارروائی میں کیسے ملوث ہو گیا ؟

ہماری OIC تو اتنی غیر فعال ہے اور اس قدر اپنا مفاد عزیز رکھتی ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حالیہ پاکستان ہندوستان کی کشمکش میں اس تنظیم نے پاکستان کے حق میں کچھ نہیں کہا الٹا اس نے ہندوستان کو اس کانفرنس میں مدعو کر لیا کہ وہ اس میں شرکت کرے۔ پاکستان نے بطور احتجاج ہندوستان کی شرکت کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ ہندوستان نے ہمارے ملک پر حملہ کیا ہے اس لیے اس کو اس کانفرنس میں شرکت سے روکا جائے تو انھوں نے آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیا مگر ہندوستان کی شرکت کا راستہ نہیں روکا۔ پاکستان نے جب احتجاجی طور پر کانفرنس میں شرکت نہیں کی تو اس کو نشانہ بنایا گیا اور ایک ممبربرادر اسلامی ملک کے بدلہ میں ایک غیر مسلم غیر ممبرمشرک ملک کی حمایت کی گئی۔ اور تو اور پاکستان کو سزا دینے کی خاطر ایک اسلامی ملک نے جس کے ساتھ باہمی قرضوں کا اور پاکستان میں سرمایہ کاری کا معاہدہ پچھلے دنوں ہوا تھا، اس کی پیسوں کی ادائیگی روک لی گئی اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا دھچکا لگایا گیا۔ یہ ہے ان کا حال جن کو ہم اپنا سمجھتے ہیں۔ جن کی خاطر ہم اپنی جان لڑا دینا اپنی آخرت کی بھلائی اور نجات گردانتے ہیں۔ تمام کے تمام اسلامی ممالک پیسوں کے پجاری ہیں۔ انھیں اسلامی غیرت و حمیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور یہ بات مغرب کو بہت اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ذات پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ان کے خاکے بنا کر چھاپتے ہیں۔ مگر وہ ممالک جو یہ سب کرتے ہیں ان کے خلاف اور کارروائی تو دور کی بات ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرو اور ان کی تیار کی ہوئی چیزوں کا بائیکاٹ کرو۔ آپ بھی اتفاق کریں گے کہ کتنے میسج آتے ہیں کہ اگر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو وہ ممالک معاشی بحران میں مبتلا ہو جائیں گے مگر کیا کسی کے کان پر جوں بھی رینگتی ہے۔ ان کی مصنوعات اسی طرح تیزی سے استعمال بھی ہوتی ہیں اور درآمد بھی ہوتی ہیں۔ تو وہ ملک کہاں سے اپنی شرارتیں بند کرے اور کیوں کرے۔ اگلے کو اگر یہ ڈر ہو کہ سامنے والا ایک مکہ رسید کر دے گا تو وہ کیوں غصہ دلائے گا بلکہ سو مرتبہ سوچے گا۔ یہاں ہمارا اپنا یہ حال ہے کہ ہم اغیار سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ہم اپنی بے عزتی برداشت کیے جا رہے ہیں۔ العیاذ باللہ۔

پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے کہ اس سانحہ میں ہمارے اپنے پاکستانی بھی شہید ہوئے اور زخمی بھی۔ حکومت کی سطح پر تو وزیر اعظم کا بیان بھی آیا اور وزیر خارجہ نے بھی بڑے مثبت اقدامات کرنے کا بیڑہ اٹھا یا مگر کیا ہم پاکستانی بحیثیت مسلم قوم اس غم کو محسوس کر رہے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ نہیں۔ اس کی مثال میں اس واقعہ سے دے رہا ہوں کہ PSL کرکٹ کا فائنل کراچی میں اتوار کے دن ہوا ہے، یعنی اس حادثہ کے عین تیسرے دن۔ اس فائنل میں جو ہلہ گلا ہوا ہے، کیا اس کی گنجائش نکلتی تھی۔ ایک منٹ کی علامتی خاموشی کے بعد آتش بازی اور رقص و موسیقی کی جو محفل اسٹیڈیم میں سجائی گئی جس میں صدر مملکت اور مقتدر ارباب ریاست نے بھی شرکت کی، کیا ایسے موقعہ پر ہمیں زیب دیتی ہے ؟ کیا ہم کسی قسم کے غم میں مبتلا ہوئے ؟ کیا ہمارا دل رویا ؟ کیا ان خاندانوں کے ساتھ جو اس حادثہ کے سوگوار ہیں ہم نے اظہار یکجہتی کیا ؟ ہمارا میڈیا اس دہشت گردی کی ویڈیو خوب نشر کر رہا ہے اور اپنی خبروں اور ٹاک شوز میں دکھ کا اظہار بھی کر رہا ہے مگر کیا ان تمام میڈیا نے اپنا راگ رنگ کا کوئی سا بھی پروگرام بند کیا۔ اسی طرح گانے چل رہے ہیں، کوک اسٹوڈیو بھی اپنی خباثت پھیلا رہا ہے۔ ناچ گانے لگاتار دکھائے جا رہے ہیں۔ کس کو غم ہوا ہے ؟ پاکستانیوں کو ؟ استغفر اللہ۔ ذرا سوچیں کہ ہم لوگ کس قدر منافق ہیں۔ یہ منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے اور کیا ہم نہیں جانتے کہ منافقوں کے لیے کیا احکامات ہیں۔ کیا ہم نے نہیں پڑھا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں عظیم عذاب میں ہوں گے۔ مگر میری یہ بات بہت سے لوگ نہیں قبول کریں گے اور کہیں گے کہ منافقت یہ تھوڑا ہی ہے۔ وہ تو مذہب کے معاملہ میں ہوتی ہے۔ اے نادان مسلمانوں جان لو کہ اسلام ہماری پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ ہماری وہ تمام حرکتیں جو ہم کرتے ہیں اللہ کے نزدیک ریکارڈ ہو رہی ہیں اور اللہ بہترین منصف ہے اور وہ کچھ نہیں بھولتا۔ ہم اپنے دل کو تسلیاں دے کر تمام نا جائز چیزوں کو جائز بنا لیں تو کیا ہوگا۔ کیا وہ جائز ہو جائیں گی۔ مسلمانو! اللہ سے ڈرو۔ اپنی اصلاح کرو اور جان لو کہ دنیا دھوکے کا گھر ہے۔ یہاں ہماری آزمائش ہے۔ غلط کو غلط کہنے اور اس کے خلاف احتجاج کرنے اور اس کو روکنے میں ہماری جان بھی چلی جائے تو یہی تو ہمارا ٹارگٹ ہے یہی تو ہماری کامیابی ہے۔

اسی سانحہ کرائسٹ چرچ کے حوالہ سے پچھلے دنوں ایک بڑی دل کو چھونے والی تحریر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، مجھ تک بھی پہنچی۔ وہ تحریر پتہ نہیں کس نے لکھی مگر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی ضرور کرتی ہے۔ میں یہ تحریر من و عن نقل کرتا ہوں تاکہ وہ لوگ جنھوں نے یہ نہیں پڑھی ہے اس مضمون کے حوالے سے اسے پڑھ لیں۔

’’جن لوگوں نے نیویارک کے ٹاورز سے جہاز ٹکرائے تھے اگر وہ بھی ذہنی مریض ڈکلیر ہو جاتے تو افغانستان میں لاکھوں جانیں بچ جاتیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ بش جونیر اور ٹونی بلیر نے جلد بازی میں کروسیڈ وار شروع کر دی۔ اگر صدام حسین ذہنی مریض قرار دے دیا جاتا تو عراق کی بربادی کے مناظر ہم نہ دیکھتے اور برطانوی وزیر اعظم کو سر بازار غلطی کا اعتراف نہ کرنا پڑتا۔ ٹونی بلیر کے سوری کرتے کرتے لاکھوں عراقی زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ بشار الاسد کو اگر امریکہ ذہنی مریض قرار دے کر اگر اپنے کام سے کام رکھتا تو آج شام کے باغات نہ ا جڑتے اور گلی محلوں اور سڑکوں پر پڑی لاکھوں لا وارث لاشوں پر کوئی نوحہ کناں نہ ہوتا۔ معمر قذافی کو سبق سکھانے کی بجائے اس کو ذہنی مریض قرار دے کر اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا اور امریکی کرائے کے غنڈوںداعش کی خدمات نہ حاصل کی جاتیں تو خوشحال لیبیا آج خانہ جنگی کی آگ میں نہ جل رہا ہوتا۔ ہمارے ممالک اجڑتے گئے اور ہمارے ہی سینوں پر دہشت گردی کے نت نئے تمغے سجتے گئے۔ ہم سے پہلے سات ممالک نے اعلانیہ ایٹمی بم کے تجربات کیے مگر کسی کے بم کو عیسائی بم، یہودی بم یا ہندو بم قرار نہیں دیا گیا اور جب ایک اسلامی ملک نے اپنے دفاع کے لیے ایٹم بنانا شروع کر دیا تو آپ نے اسلامی بم کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ آپ نے ہمارے لاکھوں لوگوں کو مارا، ہمارے طرابلس، دمشق، بغداد کو تباہ کر دیا لیکن آپ پھر بھی امن کے علمبردار کہلائے جب کہ ہم ٹھہرے اسلامی دہشت گرد۔ ٹھیک ہے کہ آپ نے ہمیں ’’جرم ضعیفی‘‘ کے خوب سبق سکھائے، ہم سبق سیکھ رہے ہیں۔ بس گذارش اتنی سی ہے کہ ہمارے والوں کو بھی ذہنی مریض قرار دے دیاکریں انھیں اسلام یا مسلمان دہشت گرد نہیں گردانیں۔ مائوزے تنگ نے پانچ کروڑ قتل کیے، اسٹالن نے ساڑھے تین کروڑ قتل کیے، ہٹلر نے نوے لاکھ قتل کیے، لیو پولڈ کرسچن نے ایک کروڑ قتل کیے، بیدیکس شنتو نے پچاس لاکھ قتل کیے، لیکن دہشت گرد صرف مسلمان ؟ بیلو لبرل فاشسٹ کوئی شرم نامی چیز ہے تمہارے اندر، یہ مجرم ذہنی مریض تھا مگر جانتا تھا کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے۔ ذہنی مریض تھا مگر جانتا تھاکہ جدید اسلحہ کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ذہنی مریض تھا مگر جانتا تھا کہ سر پر کیمرہ لگا کر ویڈیو لائیو چلانی ہے۔ ذہنی مریض تھا مگر جانتا تھا کہ ایک دو کو نہیں تین چار درجن مسلمانوں کو شہید کرنا ہے۔ ذہنی مریض تھا مگر جانتا تھا کہ ابھی جمعہ کا وقت ہے اور ابھی ہی مسجد میں جانا چاہیے۔ کب تک ؟ آخر کب تک ؟؟؟ صرف مسلمان ہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے ؟؟ وہاں نیوزی لینڈ میں نمازیوں کو مار کر پوری دنیا کا رخ کرائسٹ چرچ کی طرف پھیر کر اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا جس کی خبر کسی کو بھی نہ ہوئی۔ وہ سب کچھ کر کے بھی امن پسند اور مسلمان کچھ نہ کر کے بھی دہشت گرد ؟؟؟؟؟ ‘‘

دیکھا آپ نے ! اس مضمون میں مغرب کے رویہ اور ہر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد ان کا مجموعی رد عمل جو ہوتا ہے اس کی بڑی اچھی عکاسی کی گئی ہے۔ مگر ہمارا المیہ ایسی تحریروں کو لکھنے اور پڑھنے سے ختم نہیں ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس قابل اپنے آپ کو بنائیں کہ ہم جو کہیں وہ مانا جائے۔ ہماری آواز پر کان دھرے جائیں۔ مغرب کی دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ مسلمان قوم ناراض ہو رہی ہے۔ انھیں ناراض نہیں کرنا چاہیے ورنہ بڑا نقصان ہو گا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے کہ ہم ایسی پوزیشن میں آ جائیں کہ ہماری خفگی اور ناراضگی کو لوگ محسوس کرنے لگیں۔

میری اس تحریر کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ مسلمانوں کو بدلہ لینے کے لیے اکسایا جائے۔ ہمارا مذہب ہمیں صبر اور تحمل سکھاتا ہے۔ ظلم کا بدلہ لینا ایک قانونی فعل ہے مگر اسلام کے احکامات کے مطابق متوازن اور بہتر بدلہ جو آئندہ کے لیے امن اور بھلائی کا راستہ کھول دے احسن اور زیادہ دیر پا ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے کہ ہمارا قرآن مجید فرقان حمید ہمیں یہ حکم دیتا ہے:-

وَاِنْ عَاقَـبْتُـمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِـبْتُـمْ بِهٖ ۖ وَلَئِنْ صَبَـرْتُـمْ لَـهُوَ خَيْـرٌ لِّلصَّابِـرِيْنَ – وَاصْبِـرْ وَمَا صَبْـرُكَ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْـهِـمْ وَلَا تَكُ فِىْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُـرُوْنَ – اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الَّـذِيْنَ اتَّقَوا وَّالَّـذِيْنَ هُـمْ مُّحْسِنُـوْنَ (النحل: ۱۲۶-۱۲۸)

ترجمہ : ’’اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والے کے لیے بہت اچھا ہے۔ اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور یہ جو بداندیشی کرتے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو۔ کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اور جو نیکو کار ہیں اللہ ان کا مددگار ہے۔‘‘

اس پیغام ربانی میں سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ ’’اور صبر ہی کرو‘‘ یعنی ہمارے ہاتھوں کو جائز بدلے کی بجائے صبر اختیار کرکے روک لینا بہتر اقدام گردانا گیا۔ اور پھر یہ بتا کرمسلمانوں کو تلقین کی گئی:-

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ – فَسَبِّـحْ بِحَـمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السَّاجِدِيْنَ – وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّـٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (الحجر: ۹۷-۹۹)

ترجمہ: ’’اور ہم جانتے ہیں کہ ان باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے تو تم اپنے پروردگار کی تسبیح کہتے اور اس کی خوبیاں بیان کرتے رہو اور سجدہ کرنے والوں میں داخل رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت کیے جائو یہاں تک کہ تمہاری موت کا وقت آجائے۔‘‘

اور بات صرف یہاں تک ہی نہیں رہی بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ اعلان کرکے ہمارے ہمت بندھائی ہے کہ

اِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَـهْزِئِيْنَ (الحجر: ۹۵)

یعنی: ’’ہم تمہیں ان کے شر سے بچانے کے لیے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں۔‘‘

اسلام کا یہ پیغام ان لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے بہت کافی ہے جو اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب قرار دیتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ عدل و انصاف سے کام لیا جائے اور بدلے کی بات منصفانہ ہو۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر ضروری بات یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اس قدر مضبوط کیوں نہ بنالیں کہ کوئی ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہو کہ یہ مسلمان ہیں، بڑی طاقت والے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی حرکت نہ کرو ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ ذرا سوچیں کی جو طاقت ور ممالک ہیں ان کے ساتھ کوئی جارحانہ رویہ نہیں اختیار کرتا ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ معلوم ہے کہ آج امریکہ کو ناراض کر دیا تو وہ پوری فوج لے کر ہمارے ملک پر حملہ آور ہو جائے گا اور ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اتنی طاقت والے کیسے بن سکتے ہیں ؟ بن سکتے ہیں، یقیناً بن سکتے ہیں۔ کیا ہم پہلے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور نہیں تھے ؟ کیا ہمارے خوف سے غیر مسلم اور مشرک تھر تھر نہیں کانپتے تھے۔ یقیناً ایسا ہی تھا مگر وہ دور وہ تھا جب ہمارے نزدیک اللہ کی اطاعت اور اس کے احکامات پر عمل درآمد سب سے اہم چیز تھی۔ اس وقت ہمارے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا تھا۔ آج کے دور میں ہمارے دلوں میں یہود و نصاریٰ کا خوف بیٹھا ہوا ہے۔ اگر ہم اللہ کے احکامات کی پامالی نہ کریں اور صرف اور صرف اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں تو ہمارے اندر بھی وہی جذبہ اور وہی طاقت پیدا ہو جائے گی جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تھی اور جب دشمن ہمیں نہیں ڈراتا تھا بلکہ ہم دشمنوں کو کانپنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ دشمن کی تعداد اور ان کے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان ہمارے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی اور ہم نہتے ہوکر بھی ان پر حاوی ہو جاتے تھے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری میں دے دیں تو یقیناً آج بھی ہمارا ہر معرکہ غزوہ بدر کی صورت ہو گا۔ آج عیاشی، تن آسانی، دولت پرستی، ہوائے نفس اور بد اعمالی ہمارا شعار ہے۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں۔ نہ ہمیں اسلام سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی اسلام کے احکامات سے کوئی سروکار۔ قرآن ہم پڑھتے نہیں اس لیے کہ پڑھنا نہیں آتا اور سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی، عربی ہمیں آتی نہیں کہ اگر اس کے الفاظ ہمارے کانوں میں پڑ بھی جائیں تو ہم جان لیں کہ کیا حکم دیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے دلوں میں اللہ کا ڈر اور خوف ہے ہی نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سود خوری، سودی لین دین اور سودی کاروبار اللہ کو سخت نا پسند ہے اور اس کے اوپر شدید سزا کی وعید ہے مگر ہم دھڑا دھڑ سودی کاروبار کر رہے ہیں۔ جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی اور تجارتی بے ایمانی سے ہمیں روکا گیا ہے مگر کیا ہم رک گئے ہیں۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے سراسر خلاف ہے اور پھر ہم یہ امید رکھیں کہ اللہ ہماری مدد کو آئے گا۔ دشمن ہم سے ڈرے گا۔ استغفر اللہ۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا بلکہ اس کے بدلے دشمن کے مقابلے میں خود ہماری ہوا سرک جائے گی۔

اللہ رب العزت سے یہ دعا میں بھی کرتا ہوں اور آپ بھی کیجیے کہ اے اللہ ! ہمیں اپنے دین پر چلا دیجیے۔ ہمارے دلوں میں اپنا تقویٰ اور اپنا ڈر ڈال دیجیے۔ اے اللہ ! ہمیں نیک اور صالح بنا دیجیے۔ ہمیں دین کا علم عطا کیجیے اور نبی اکرم حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کا سچا امتی بنا دیجیے۔ دنیا میں بھی عزت عطا کیجیے اور ہماری آخرت بھی سنوار دیجیے۔ آمین یا رب العالمین۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.