الواقعۃ شمارہ : 80 – 81، محرم الحرام و صفر المظفر 1440ھ
از قلم : مولانا عبد المعید مدنی (نئی دہلی، بھارت)۔
مقدمہ
شرک کیا ہے جس کی قباحت اور برائی سب سے زیادہ ہے اور وہ کون سے اعمال و عقائد ہیں جن کی بنیادپر انسان شرک کا مرتکب ہو جاتاہے اور اللہ تعالی کی تمام وعیدوں کا مستحق قرار پاتاہے۔
دراصل شرک یہ ہے کہ وہ صفات و افعال دوسروں کے لیے مان لیے جائیں جو اللہ کے لیے خاص ہیں اور وہ اعمال دوسروں کے لیے بجا لائے جائیں جو صرف اللہ کے لیے ہوتے ہیں۔ اس طرح شرک کے دائرے بہت وسیع ہو جاتے ہیں لیکن انھیں دو دائروں کے اندر سمیٹا جا سکتاہے۔
1- شعائر تعبدیہ:
شعائر تعبدیہ سے مراد وہ امور و اعمال ہیں جو اعمال عبادت کی حیثیت سے اللہ کے لیے خاص ہیں ان کی بجا آوری کسی دوسرے کے لیے نہیں ہو سکتی جیسے:-
غیر اللہ کے لیے رکوع و سجود اور قربانی :
ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ – لَا شَرِيْكَ لَـهٗ ۖ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (الانعام: ۱۶۲-۱۶۳)
"آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا مرنا اور میرا جینا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اس کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔”
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْـرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (حج:۷۷)
"اے ایمان والو ! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”
قبروں اورمزارات کے لیے شدّ رحال:
"لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد المسجد الحرام و مسجدی ھذا و المسجد الاقصی۔” (البخاری:۸۶۴ و مسلم: ۷۱)
"شد رحال صرف تین مساجد کے لیے درست ہے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی۔”
قبر پرستی اور مجاوری:
"اللّٰھم لا تجعل قبری وثنا یعبد اشتد غضب اللہ علی قوم اتخذوا قبورانبیاء ہم مساجد۔” (الموطا:۶۱)
"اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بننے دینا جس کی عبادت کی جائے، اللہ کا شدید غضب نازل ہو ان لوگوں پر جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔”
ان کے علاوہ غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز چڑھاوے چڑھانا غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑنا غیر اللہ کے نام پر بال چھوڑنا، قبر، شجر و حجر وغیرہ کو چومنا چاٹنا بوسے لینا، مردوں سے فریاد استعانت اوران کا وسیلہ اور ان سے حاجت روائی مشکل کشائی غیر اللہ سے پناہ طلب کرنا، جن بھوت اور دیگر مرئی و غیر مرئی مخلوقات کی پوجا کرنا اور انھیں خوش رکھنے کے لیے چڑھاوے چڑھانا زمین کی پوجا کرنا، دیوی دیوتاؤں کے نام تعظیم بجا لانا، قومی و غیر قومی ایسے ترانے گانا جن میں دھرتی یا دیگر مخلوقات کے لیے عبدیت کا اعتراف ہو، فلموں میں شرکیہ مکالمات اور گانے، قوالیوں اور غزلوں میں غیر اللہ کی دہائی اور ان کی الوہیت و ربوبیت کے عقیدے کا اظہار غیر اللہ کی قسم کھانا، اعتکاف علی القبور، ریا کاری یہ تمام چیزیں شرک کے دائرہ میں آتی ہیں جن میں سماج و معاشرہ شعوری و غیر شعوری طور پر ڈوبا ہوا ہے۔
شعائر تعبدیہ میں غیر اللہ کے نام نذر و نیاز اور چڑھاوے کے حوالے سے مختلف علاقوں اور خاندانوں اور فرقوں میں بے حساب شرک کی قسمیں داخل ہیں جن کی اگر تفصیل تلاش کی جائے تو شرک کے لا تعداد اور انوکھے طریقے سامنے آئیںگے۔
2- اللہ کے اسماء و صفات و افعال میں غیر اللہ کو شریک کرنا:
جیسے اللہ کی حکومت میں کسی کو شریک کرنا، اللہ کے علم امر و نہی، قضا و قدر، مشیث و ارادت میں دوسرے کو شریک کرنا، اللہ کی شریعت کے سوا دوسرے وضعی قوانین کو ماننا اور تسلیم کرنا اور انھیں لاگو کرنا، نفع و نقصان پہنچانے میں دوسروں کے لیے غیر سببی اہلیت تسلیم کرنا، دوسروں کو کلی غیب داں جاننا، کسی انسان کو اللہ کی اولاد جاننا یا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں جاننا، مردوں کو اللہ کے اولیاء جاننا اور انھیں نظام کائنات چلانے میں اللہ کا شریک جاننا، وحدۃ الوجود کے نظریہ کو تسلیم کرنا، جن اور تصور اتی غیر مرئی مخلوقات کو غیب داں اور قادر جاننا اوران کی مدد حاصل کرنا ان حوالوں سے شرک کی وہ بہتات ہے کہ علم الاعداد، علم الجفر، دست شناسی، رمل، لکیروں کا چکر، دھاگے، تانت، غیر شرعی رقیہ سعد و نحس کا چکر، ان گنت قسم کے تعویذ و تولہ، کہانت کی بے شمار شکلیں، بے نام مجہول لوگوں کے چمتکار اور غیب دانی، جادو کرنے کرانے اور اتارنے میں غیر اللہ کی غیب دانی اور مشیت کا چکر، نچھتروں کی تاثیر اور ان کی قدرت، علم نجوم کی بدبختی اور لوگوں کی قسمت بنانے بگاڑنے کا چکر وغیرہ۔
شرک کے یہ اساسی دائرے اور اصول ہیں:
مسلم سماج شرک کی ان گنت قسموں میں ملوث ہے بلکہ اس کا واسطہ اللہ سے کم اور معبودان باطل اور ارباب باطلہ سے زیادہ ہے ہر طرف شرک کا میلہ لگا ہوا ہے اور بہت سے معبود برحق کی معرفت اور پرستش کے دعویدار پوری طرح قدم سے سر تک شرک کے دلدل میں دھنسے ہیں۔
اور ایسے حق پرست بھی ہیں جو شرک کے ان مظاہر کو جانتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں لیکن ریا کاری، مفاد پرستی، خوف و لالچ اور حب و جاہ و مال انھیں اللہ سے روکے ہوتے ہیں اور ان راہوں سے بسا اوقات انھیں بھی شرک کی گندگی لگ جاتی ہے ان گناہوں کے سبب ایسا لگتا ہے جیسے وہ اللہ کو حاکم، رازق، مالک اور رب نہیں سمجھتے بلکہ ان کا حاکم رازق مالک اور رب اللہ کے سوا کوئی اور ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے منافقت کا رویہ اپنا لیتے ہیں اور ہر باطل کو ہاں کہنے پر تیار نظر آتے ہیں ایسی منافقانہ ذہنیت اور کردار پر بھی قرآن کا بھرپور تجزیہ ہے اور ان کے لیے ہلاکت و تباہی کی وعید بھی ہے۔
قرآنی تمثیلات میں شرک کی قباحت جس وضاحت سے بتائی گئی ہے۔ وہ شرک میں مبتلا مسلمانوں اور انسانوں کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ شرک میں مبتلا کسی معنی میں مسلمانوں کو خاص کر ان آیات قرآنیہ میں غورکرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان آیات میں اتنا زور اور اتنی تاثیر ہے کہ اگرانسان خالی الذہن ہو کر ان کا مطالعہ کرے تو شرک سے کوسوں دور بھاگے گا اور شرک کے انجام کو پڑھ کر اس پر کپکپی طاری ہو جائے گی۔
دراصل مسلمانوں کی پستی و تباہی اس لیے ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت شرک کی جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے اور انھیں راستہ دکھلانے والے بہت کم ہیں، بند کمروں میں فلسفے بگھارے جا رہے ہیں لڑیچر تیار ہو رہے ہیں یا فرضی کمالات کے گن گائے جا رہے ہیں یا دین کے نام پر جہالت اور شرک و بدعات پھیلانے پر زور ہے بلکہ عجیب المیہ ہے کہ ایک بھیڑ تبلیغ کے نام پر زیادہ سے زیادہ شرک پھیلا رہی ہے اور ایک نیم سیاسی نیم دینی جماعت اپنے خود ساختہ سیاسی فلسفوں میں اس طرح مگن ہے کہ اس کے نزدیک شرک کا یہ پھیلا ہوا اندھیرا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
شرک کا معمولی شائبہ انسان کے لیے ہلاکت خیز بن سکتا ہے۔ اگر شرک کے اثرات انسان کی پوری زندگی پر چھا جائیں اور مختلف درجات میں وہ ان سے بچنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اسے درخور اعتناء ہی نہ سمجھے تو ایسا انسان دنیا کا سب سے بڑا پاپی انسان ہے۔ شرک کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سب سے تباہ کن یہ ہے کہ شرک انسان کے ذاتی دائرہ کار میں رسوخ حاصل کرلے اور وہ بخوشی قبول کرلے یا داعی ذاتی دائرہ کارمیں داخل شرک کو کوئی اہمیت نہ دے اس کے بجائے اجتماعی دائرہ کار کے شرک کو سب سے اہم قرار دے حالانکہ اسے دورکرنے کی سکت نہیں یا یہ کہ وہ بجبردوسروں کی زبردستی سے مسلم سماج میں در آیا ہے جیسے وضعی قوانین پر سماج میں عمل۔ وہ شخص نہایت ہی فریب خوردہ ہے جو شخصی دائرہ کار کی شرکیات پر خاموشی اختیار کر لیتا اور جبری مسلم سماج میں داخل شرک کو کبھی تھوکارے اور کبھی اسی کو سماج کا حل سمجھے ایسی ذہنیت کے حامل ابلیس کی سواری اور اس کے رضا کار ہیں۔ ابلیس کے رضا کاروں، منافقوں، مشرکوں، ریا کاروں، مفاد پرستوں سب کے لیے تمثیلات قرآنی میں عبرت ہی عبرت ہے سبھی لوگوں سے التماس ہے کہ ان کو غور سے پڑھیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ افْـتَـرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء: ۴۸،۱۱۶)
"بے شک اللہ معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اس کے سوا وہ جس کو چاہے معاف کر سکتاہے۔”
علامہ ابن کثیر نے آیت کی تفسیر میں رقم کیا ہے:-
"أخبرتعالی أنہ ’’لا یغفر أن یشرک بہ‘‘ ای لا یغفر لعبد لقیہ وھو مشرک بہ ’’ویغفر مادون ذلک‘‘ ای من الذنوب ’’لمن یشاء‘‘ من عبادہ۔” (ابن کثیر۱/۶۳۱)
"اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا ہے کہ وہ یہ نہیں معاف کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے یعنی وہ ایسے بندے کو نہیں معاف کر سکتا ہے جو حالت شرک میں اس سے ملے اور وہ شرک کے سوا اپنے جن بندوں کے دوسرے گناہوں کو چاہے معاف کر سکتا ہے۔
اس آیت کی تشریح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:-
"من لقی اللہ لا یشرک بہ شیئا دخل الجنۃ ومن لقیہ یشرک بہ شیئا دخل النار۔”(مسلم ۲۶۹)
"جس نے اللہ سے ملاقات کی اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس سے ملاقات کی وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا رہا جہنم میں داخل ہوگا۔”
دوسری آیت میں ارشاد ہے:-
اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّـةَ وَمَاْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدہ:۷۲)
"بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اللہ نے اس کے اوپر یقیناً جنت حرام کر دیاہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔”
شرک کا اتنا بھیانک عذاب اس لیے ہے کہ یہ سب سے بڑا انسانی جرم ہے رب کریم نے فرمایا:-
اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِـيْمٌ (لقمان:۱۳)
"بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔”
شرک کے ذنب عظیم ہونے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایاحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :-
"قلت یا رسول اللہ : أی الذنب اعظم عند اللہ قال أن تجعل للہ ندا وھو خلقک (مسلم: ۲۵۷،۲۵۸)
"میںنے کہا اے اللہ کے رسول ! اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اللہ کے لیے ہم رتبہ ٹھہرا لے درانحالیکہ وہ تمہارا خالق ہے۔”
ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:-
"کنا عند رسول اللہ ﷺ فقال ألا أنبئکم باکبر الکبائر ثلاثا: الاشراک باللہ وعقوق الوالدین وشہادۃ الزور أو قول الزور وکان رسول اللہ ﷺ متکأ فجلس فما زال یکررہا حتی قلنا لیتہ سکت۔”(مسلم:۲۵۹)
"ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے آپ نے تین بار فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے متعلق آگاہ نہ کردوں (۱) اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا (۲) والدین کی نا فرمانی کرنا (۳) جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور انھیں بتکرار کہتے رہے حتی کہ ہم نے (جی میںکہا) کا ش آپ چپ ہو جاتے۔”
شرک کی قباحت اسی لیے ہے کہ یہ قبیح ترین گناہ ہے، سب سے بڑا گناہ ہے، تمام گناہوں اور جرائم میں سب سے بڑا جرم ہے، سب سے بڑی زیادتی ہے، شرک سے رب العالمین کی تنقیص ہوتی ہے، شرک کا مطلب ہوتا ہے حقوق اللہ کو اٹھاکر دوسروں کو دیدیا جائے اور خالق و مخلوق کو یکساں قرار دے دیا جائے۔
اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُـمَاتِ وَالنُّوْرَ ۖ ثُـمَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّـهِـمْ يَعْدِلُوْنَ (الانعام: ۱)
"تمام تعریف اس کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور اجالے کو بنایا مگر اپنے رب کے منکرین (خالق و مخلوق کو) یکساں قرار دے رہے ہیں۔”
شرک رب العالمین سے انتہا درجے کی دشمنی کا اظہار ہے، شرک مقصد تخلیق و نظام حیات و کائنات کی مخالفت ہے، شرک اللہ کی اطاعت سے بغاوت ہے، شرک رب کریم کے سامنے جھکنے اور اس کی فرماں برداری کرنے سے اِبا و استکبار ہے اور جب یہ تنفر، اِبا اور استکبار اس قدر بڑھ جائے گاکہ اللہ کا نام دھرتی پر لیا ہی نہیں جائے گا تو قیامت آ جائے گی۔ (مسلم ۳۷۵،۳۷۶/عن انس) شرک سب سے بڑا فتنہ اور فساد فی الارض ہے۔
نفع و ضرر، منع و عطا کا اختیار صرف اللہ تعالی کو ہے اسی اختیار کی بناء پر اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگا جاتا ہے، اس لیے اسی سے ڈرنا ہوتا ہے، اسی سے آس لگائی جاتی ہے اور توکل اسی پر ہوتا ہے اور عبادت کی ساری شکلیں اسی کے لیے ہوتی ہیں۔ لیکن جب نفع و ضرر، منع و عطا کا اختیار مخلوقات کے لیے تسلیم کر لیا جاتاہے جن کے پاس نہ نفع و ضرر کا اختیار ہے نہ مارنے و جلانے کی طاقت نہ بعث و نشور کی قدرت اور پھر اللہ کے الہ و معبود ہونے کے خصائص بھی انھیں سونپ دیا جاتاہے تو یہ خالق و مخلوق کو ایک بنانے کی ناروا کوشش ہوتی ہے اور مخلوق کو اس خالق کے ہم مثل بنانا ہوتا ہے جس کے لیے کل حمد ہے، ساری خلقت، کل بادشاہی، تمام خیر اسی کے ہاتھ میںہے اور سب کا مآل اسی کے پاس ہے۔
اللہ کے معبود ہونے کے خصائص میں سے ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ تمام ناحیوں سے کمال مطلق اسی کے لیے ہے، اس کے اندر کسی طرح کا کوئی نقص نہیں ہے اس کا تقاضا ہے کہ عبادت کی ساری شکلیں صرف اسی کے لیے خاص ہوں، تعظیم، اجلال، خشیت، خضوع، دعا، رجاء، انابت، توکل، توبہ، استعانت، غایت حب مع غایت ذل سب اسی کے لیے خاص ہوں۔ یہ سب عقلاً، شرعاً اورفطرۃً اسی کے لیے واجب ہیں اور شرعاً، عقلاً اور فطرۃً دوسروں کے لیے یہ ممنوع ہیں۔
اگر عبادات کی یا ان میں سے کسی ایک کی بجا آوری غیر اللہ کے لیے ہو تو اس کا مطلب ہوگا اللہ کو اور اس کی مخلوقات کو ایک درجہ پہ رکھا گیا اور مخلوقات کو خالق کے برابر کھڑا کر دیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا نہ کوئی مثیل ہے نہ شبیہ ہے نہ ہمسر ہے۔ اسی طرح شرک کو سب سے بھیانک جرم قرار دیا گیا جو قطعی نا قابل معافی ہے اور آخرت میں ساری کاوشوں کو درجہ صفر پر پہنچانے کا ذریعہ ہے اور جہنم رسیدگی کا سبب۔
قرآن کریم میں شرک کی مذمت میں مختلف اسالیب اخیتار کیے گئے ہیں۔ شرک کی مذمت میں قرآن کریم میںایک موثر اور اہم اسلوب تمثیلات و تشبیہات کا اختیار کیا گیا ہے، تمثیلات سے مطلوب معانی و مفاہیم کو حسی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ ذہنوں میں وضاحت سے بیٹھ جائیں اور ان کی تاثیر دلوں پر بھرپور طورپر مرتب ہو۔ ایک حقیقت زور اور اثر کے ساتھ انسانی وجود کے اندر سرایت کر جائے اور حقیقت صرف غیر محسوس معانی کے بجائے حسی شکل اختیار کرلے۔ تمثیلات ایک طرح سے حقائق و معانی کی الفاظ میں تصویر کشی اوران کی لفظی صورت گری ہے۔ انسانی طبعی خاصیت میں یہ داخل ہے کہ جب تمثیلی شکل میں حقائق پیش کیے جاتے ہیں تو اذہان و قلوب پر ان کا انعکاس بہت نمایاں اور انمٹ ہوتا ہے۔ قرآن کریم اپنے معانی و حقائق کے اعتبار سے معجزہ ہے، اس طرح وہ اپنے اسلوب و تعبیر میں بھی معجزہ ہے، قرآنی تمثیلات بھی انوکھے نرالے اور ممتاز ہیں۔ بسا اوقات تشبیہات میں ممثل اور ممثل لہ یا مشبہ و مشبہ بہ ایک ہو گئے ہیں اور ان کی افادیت کے بجائے انسان نے اسے مضرت کا سامان بنا دیا ہے اور حقائق کو اپنی تحریفات کا نشانہ بنا ڈالا ہے لیکن قرآنی تشبیہات میں یہ خوبی ہے کہ ممثل اور ممثل لہ کے درمیان گڈمڈ کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
شرک کی مذمت کے لیے جن تشبیہات کو رب کریم نے استعمال کیا ہے ان سے شرک کی قباحت اس طرح نمایاں ہوتی ہے کہ اگر اس مرض مہلک میں مبتلا لوگ ان پر غور کریں تو شرک کی قباحت کی بناء پر انھیں اپنے ارتکاب شرک پر شرم آئے گی بلکہ اپنے وجود پر بھی انھیں شرمندگی محسوس ہوگی، اور شرکاء اولیاء اوراپنے معبودان باطل کی بے مایگی پر انھیں ترس آئے گا۔
قرآن کریم میں شرک کی مذمت میں کئی سورتوں میں تمثیلات کا ذکرہے اور دسیوں آیتوں میں بہ تفصیل ان کا تذکرہ ہے۔
1- شرک پستی و تباہی:
سورہ حج میں ارشاد ہے:-
وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (الحج: ۳۱)
"اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو جیسے وہ آسمان سے گر پڑا پھر پرندوں نے اسے نوچ ڈالا یا ہوا نے اسے کسی دور دراز جگہ جا پھینکا۔”
آیت میں رب پاک نے توحید کو، علو رفعت وسعت اور شرف کے سبب آسمان کے مماثل و مشابہ قرار دیا اور تارک توحید مشرک کو آسمان سے انتہائی پستی میں گرنے والی شے کے ہم مثل قرار دیا کیونکہ وہ ایمان کی بلندی سے کفر کی پستی میں جا گرتا ہے اور وہ شیاطین جو اسے ہراساں کیے رہتے ہیں ان پرندوں سے تشبیہہ دیئے گئے ہیں جو مشرک کے اعضاء نوچ ڈالتے ہیں اور اس کی نفس پرستی کو جو راہ حق سے دور پھینک دیتی ہے ہوا سے تشبیہ دی گئی جو اسے دور دراز جگہ اٹھا کر پھینکتی ہے۔
دنیا و آخرت میں بطلان شرک اور شرک کی ناکامی کی یہ تشبیہ مرکب تشبیہ ہے یعنی ایک مجموعی حالت کو کئی چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ ایک عام آدمی بھی اگر شرک کی قباحت کو جاننا چاہے تو اپنی نگاہوں سے دیکھ لے کہ مشرک کی حالت کی عکاسی قرآن میں کیسے کی گئی۔ انسان کی ایمانی رفعت آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے لیکن جب وہ شرک کا ارتکاب کرتاہے تو آسمان کی بلندیوں سے گرتا رہتا ہے اور پستی کے انتہائی گہرے گڑھے میں جا گرتاہے۔ نگاہ تصور دیکھے شرک کرنے والا آسمانِ رفعت سے گرتا آ رہا ہے، گرنا ہی اس کا مقدر ہے، اسے کہیں ثبات نہیں، انجام پستی میں اتر جاتا ہے اور مرتکب شرک کے پیچھے ہمیشہ شیطان لگا رہتا ہے اور یہ اجتیال شیطانی ایساہے کہ وہ درندہ صفت پرندہ بن کر مشرک کے جسم کے ایک ایک حصے کو نوچ ڈالتا ہے مشرک کو گویا ہر وقت پرندہ نوچتا رہتا ہے اور اگر خطف طیور سے انسان بچ گیا، شیطان نے پرندہ بن کر اس کی تکا بوٹی نہیں کی تو اس کا نفس تیز ہوا بن کر رفعت سے گرتے پستی کی طرف اترتے مشرک کو نا معلوم دور دراز مقام پر جاپھینکے گا۔
اس آیت نے محسوس انداز میں واضح کر دیا کہ شرک پستی میں گرتے رہنے کا نام ہے اور مشرک پستی میں گرتا رہتا ہے یا نوچ ڈالنے والے پرندوں کا شکار ہو جاتا ہے یا ہوا اسے نا معلوم جگہ اٹھا کر پھینک دیتی ہے۔ کوئی مددگار نہ ہمنوا، نہ بچانے والا، انتہائی بے چارگی اور بھیانک انجام، نہ دنیا میں ٹھکانا نہ آخرت میں۔
وہ شرک جو اتنا خطرناک ہو اور اس کا انجام ہو کہ مشرک کا آسمان رفعت سے پستی میں برابر گرتے رہنا جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہونا اور بے عزتی کے ساتھ بغیر کسی وقعت کے کہیں بھی پھینک دیا جانا اور حسی صورت میں مشاہدہ کرا دیا جائے تو اذہان و قلوب پر اس کا کیسا اثر مرتب ہونا چاہیے ؟ ہر فرد خود طے کر سکتا ہے کہ اس کے لیے شرک کی رسوائی، تباہی اور مسلسل عذاب باعث عبرت ہوگی۔
شرک کا ارتکاب خواہ مسلمان کرے یا غیرمسلم جب عملًا و اعتقاداً شرک کا شکار ہو گیا تو ہر ایک کے لیے شرک کی یہ فضیحت و قباحت اور انجام بد مقدر ہوگا۔ جب انسان شرک کرتا ہے تو اس کے فکر و خیال کی جو کیفیت ہوتی ہے اور اس کی جو حالت بنتی ہے وہ بالکل یہی ہوتی ہے جس کی قرآن کریم نے اس آیت میں عکاسی کی ہے اور واقعتاً اس کی حالت و کیفیت پستی میں گرتے رہنا، تباہی کا شکار ہوتے رہنا اور بے وقعتی کا ہدف بنتے رہنا ہی ہوتی ہے، اس حالت میں اسے اللہ کی توفیق نصرت اور بچاؤ کی کوئی امید بھی نہیں ہو سکتی۔
2- شرک حیرت:
سورہ الانعام میں اللہ تعالی نے فرمایا:-
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدَانَا اللّـٰهُ كَالَّـذِى اسْتَـهْوَتْهُ الشَّيَاطِيْنُ فِى الْاَرْضِ حَيْـرَانَۖ لَـهٗ اَصْحَابٌ يَّدْعُوْنَهٗ اِلَى الْـهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّـٰهِ هُوَ الْـهُدٰى ۖ وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ (الانعام: ۷۱)
"آپ کہہ دیجئے کیا ہم اللہ کے سوا ایسے کو پکاریں جو نہ ہم کو نفع پہنچا سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور کیا ہم الٹے پاؤں واپس پھر جائیں اس کے بعد کہ اللہ ہم کو ہدایت دے چکا ہے اس شخص کی مانند جس کو شیطانوں نے بیابان میں بھٹکا دیا ہو وہ بھٹکتا پھرتا ہو، اس کے ساتھی اسے پکارتے پھرتے ہوں آ جا راستے پر ہمارے پاس۔ آپ کہہ دیجئے اللہ کی رہنمائی ہی اصل رہنمائی ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم سارے جہانوں کے رب کے آگے سر تسلیم خم رکھیں۔”
ایک طرف وحدانیت الہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اسے دل و جان سے مان چکے ہیں، دوسری طرف کفر و اصحاب کفر ہیں جن کا اصرار ہے کہ محتاج و بے بس معبودان باطل کی دہائی لگائی جائے اور شرک کیا جائے۔ اگر دباؤ میں آ کر موحد شرک کا ارتکاب کرنے لگے تو اس پورے شرکیہ عمل کی مثال ایسے ہے جیسے وہ قافلۂ حق کے ساتھ جا رہا تھا اور وہ غول بیابانی کا شکار ہو گیا، انھوں نے اسے ساتھیوں سے الگ کر دیا، وہ جنگل میں راستہ بھٹک گیا اور ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا ہے، اسے راہ مل ہی نہیں رہی ہے، اسے قافلۂ حق اور اس کے مخلص مومن ساتھی پکار رہے ہیں، راستہ بتلا رہے ہیں لیکن شیاطین کے زیر اثر اسے کچھ نہیں سمجھائی دے رہا ہے، بھٹکنا ہی اس کے لیے مقدر ہو گیا ہے۔
تمثیل میں حق و باطل اور حق پرستوں اور باطل پرستوں کی اپنی راہ اور اپنی جدوجہد کی الگ کہانی ہے دعوت توحید اور راہ راست کی کہانی ہے اور موحدین کی باہم خیر خواہی اور حق پرستی اور راستے پرلگے رہنے کی کوشش ہوتی ہے اور شرک نام ہے حیران و پریشان بے راہ جنگل میں بھٹکنے کا اور شیاطین ضُلاّل کا کام ہے گمراہ کرنے اور بھٹکانے کا اور جو ان کے زیر اثر آ جائیں انھیں سدا گمراہی اور حیرانی میں رکھ کر بے راہ و منزل پریشان کیے رکھنے کا۔
ایک مسلمان جو شرک میں گرفتار ہے اس کی حالت سدا یہی رہتی ہے کہ وہ گویا جنگل میں ہے اور توحید پرستوں کا ساتھ چھوڑ چکا ہوتا ہے، اسے بیابان کے غول و شیاطین اپنے قبضے میں لیے بھٹکاتے پھرتے ہیں اور ہر سمت حیران، ششدر بھاگتا پھرتا ہے اسے لاکھ توحید رب کی دعوت دی جائے، راہ دکھلائی جائے، اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے وہ صرف بھٹکنا جانتا ہے اور فقط حیران ہونا۔
غیر اللہ کی دہائی لگانے کا جنھیں چسکا لگ گیا ہے چاہے مدد مانگنے کے لیے، کشادگی رزق کے لیے یا آفات و بلیات دور کرنے کے لیے یا تصور شیخ کے چکر میں دل کی مرمت کروانے کے لیے یا اولیاء، اقطاب اور اوتاد کے نام پر انھیں کائنات میں متصرف مان کر ان سے دینی و دنیوی مدد حاصل کرنے کے لیے انھیں اپنے آپ کو اس آیت کریمہ کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا چاہیے کہ جنہیں نفع و ضرر کا ذرہ برابربھی اختیار نہیں ہے کیا ا نھیں پسند ہے کہ جبہ و قبہ، القاب و آداب، ڈگری و سند کے تام جھام مریدوں کے جمگھٹوں، تقریروں کے ہنگاموں اور تحریری پشتاروں کے باوجود انھیں پکار کر خود کو غول بیابانی کا شکار بنا کر سدا حیران و ششدر، گمراہی و بے راہ روی کا قرآنی فتوی اپنے حق میں صحیح ثابت کریں۔
تمثیل کا یہ شاندار انداز تو زیر ملاحظہ ہے، اسلوب خطاب قابل غور ہے۔ موحدین کو جو مشرکین شرک کی دعوت دیں انھیں رب پاک نے رسول اقدس ﷺ کی زبان مبارک سے بہ استفہام انکار خطاب کیا ہے کہ شرک، دعوت شرک، اورمشرکین کی یہ حالت ہے تو کیا دعوت شرک قبول کی جا سکتی ہے اور مشرکوں کی بے راہ روی کو اختیار کیا جا سکتا ہے یا ان کے اصرار کے سامنے جھکا جا سکتا ہے ہرگز نہیں اور اس خطاب کے حوالے سے قرآن کو حرز جان بنانے والی امت کا قیامت تک کے لیے یہ وطیرہ طے ہو گیا کہ دعوت شرک اور اصرار شرک کے جواب میں ان کا یہی دو ٹوک استفہام انکارمیںجواب ہونا چاہیے۔
اس تمثیل کے بعد آیت کے اخیر میں پھر، باطل پرستوں کو رب پاک کا رسول کریم ﷺ کی زبان مبارک سے خطاب ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں میں یہ اعلان کر دیں کہ یہ طے شدہ اور اٹل حقیقت ہے کہ ہدایت وہی ہے جس کو اللہ نے دیا ہے بقیہ دیگر غیر اللہ کی دعوت اور راہ نمائی کا دعوی محض غول بیابانی کا دھوکہ اور فریب ہے، جس دعوتِ ہدایت کا رشتہ وحی و رسالت سے نہ ہو وہ محض نفس پرستی اور اغواء شیطانی ہے اور ہدایت کا تقاضا اور رب کریم کا حکم ہے کہ انسان امر الٰہی کے سامنے سر طاعت خم کر کے جینا سیکھے۔
3-شرک سراب:
وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَعْمَالُـهُـمْ كَسَرَابٍ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً ۖ حَتّــٰٓى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَّوَجَدَ اللّـٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفَّاهُ حِسَابَهۗ وَاللّـٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ (النور: ۳۹)
"اور جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کر رکھی ہے ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب، پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے، جب وہ وہاں چل کے آتاہے تو وہ اسے کچھ نہیں پاتاہے اور وہ وہاں قضاء الہٰی موجود پاتاہے پھر اللہ اس کا حساب چکتا کر دیتا ہے اور اللہ ہے ہی بہت جلد حساب لینے والا۔”
انسان کفر و شرک کی حالت میں مختلف اعمال بجا لاتا ہے اور انھیں کار آمد سمجھتا ہے، اسے پوری امید ہوتی ہے کہ اسے اجر و ثواب ملے گا، آخرت میں وہ اس کی کامیابی کا سبب بنیں گے۔ کفر و شرک کی اس صورت حال کو اور مشرک و کافر کے اعمال کی بے نتیجہ خیزی اور اس کی بربادی کو اللہ تعالی نے تمثیل کے ذریعہ واضح کیا تاکہ حق کا متلاشی انسان شرک و کفر کی قباحت کو پوری طرح سمجھ لے۔ تمثیل میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک مشرک و کافر شرکیہ و کفریہ اعمال کر کے انھیں اہمیت دیتا ہے اور انھیں بار آور سمجھتا ہے اور پھر جہنم میں گرنا اس کی آخری منزل ہوتی ہے۔ اس پورے مجموعی صورت حال کی مثال ایسے ہے جیسے ایک پیاسا آدمی صحرا و چٹیل میدان میں دھوپ کی شدت میں لپلپاتے ہوئے سراب کو پانی سمجھ لے اور اس کی تلاش میں چل نکلے اور جب وہاں پہنچے تو اسے وہاں کچھ بھی نہ ملے اور شدت پیاس سے وہ وہیں ہلاک ہو جائے اور اللہ اسے وفات دیدے اور کفر و شرک کے سبب اسے جہنم کا مستحق قرار دیدے۔
انسان شرک و کفر کی قباحت کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ رب کریم نے اس آیت کریمہ میں شرک کی بے ثمری اور مشرک کی حیرانی اور شرکیہ اعمال سے بے جا امید کو مثال کی شکل میں حسی شکل دے کر انسان کے لیے بہت آسان کر دیا ہے کہ وہ شرک کی بے ثمری اور مشرک کے بے نتیجہ عمل اور حیرانی کا محسوس صورت میں ادراک کرلے۔
مادی دنیا میں کون ایسا فرد ہے جس نے دوپہر کے وقت کڑی دھوپ میں ایسا منظر نہیں دیکھا ہے۔ اللہ تعالی نے شرک اور اس کی بے وقعتی اور بے ثمری کی منظر کشی کرکے یہ آشکارا کر دیا ہے کہ جو انسان شرک اور کفر کرتا ہے وہ گویا سراب کے پیچھے دوڑتا ہے اور اسے پانی سمجھ کر صحرا میں بھاگا چلا جا رہا ہے، جدوجہد ہے، تپش اور دھوپ کی شدت ہے، پیاس کی شدت ہے، امید بندھی ہے اور جب چٹیل میدان کے پاس لپلپاتے سراب کو پانی سمجھ کر پہنچتا ہے تو پانی کا کوئی سراغ تک نہیں ملتا، اس حالت میں پیاسے انسان پر کیا بیتتی ہے ہرشخص اس کا تصور کر سکتا ہے، جس طرح وہاں مایوسی ہوئی اسی طرح آخرت میں مشرک کو شرکیہ اعمال کے نتیجے کے متعلق مایوسی ہو گی وہ اللہ کی پکڑسے بچ نہیں سکتا۔ انسان کی جدوجہد تمام ہوئی حساب شروع اور انجام سامنے جس طرح پانی کی تلاش کی جدوجہد سراب کے پیچھے جاری رہے اور وہاں پہنچ کر مایوسی اور تلاش ختم۔
قرآن کریم کی زبان میں ساری دنیا کے کفار و مشرکین اس دنیا میں پیاسے بے حقیقت سراب کو پانی بنائے چٹیل میدان اور صحرا میں بھاگ رہے انتھک کوشش کرتے ہیں اور بلا وجہ کی دھوپ اور پیاس کی شدت برداشت کر رہے ہیں۔ انجام زیرو ہونے والا ہے۔ اگر کسی کا فر و مشرک سے اس زبان میں سوال ہو کہ کیوں سراب کے پیچھے بھاگ کے بلا وجہ تھک رہے ہو جبکہ پانی ملنے والا نہیں اور پوری زندگی اس میں ہانپتے برباد کیے دے رہے ہو تو اسے تعجب ہوگا وہ ضرور اپنے کارنامے اور کامیابیاں گنائے گا لیکن یہ محض متاع الغرور ہے اصل حقیقت یہی ہے کہ شرک و کفر سراب ہے اور شرک و کفر سراب کی شکل میں چٹیل جگہ قرار پا چکا ہے۔ اس کو کوئی وقعت اور ثبات و قرار نہیں اور مشرک صرف پیاسا ہے اس کی پیاس کہیں سے بجھ نہیں رہی، صحرا اور چٹیل میدان میں اسے پانی ملے گا کہاں اور اس کی ساری جدوجہد بے آب وگیاہ صحرا اور چٹیل میدان میں سراب کے پیچھے بھاگ دوڑ ہے جس کا انجام صفر ہے۔
دنیائے کفر و شرک چاہے جتنی بڑی ہو اور کفار و مشرکین کی تعداد چاہے جس قدر زیادہ ہو اور ان کے نشانات چاہے جتنی عظیم ہوں بلا ادنی ارتیاب اور جھجھک دو ٹوک الفاظ میں وہ صرف پیاسی سراب کے پیچھے چٹیل میدان میں بھاگ رہی ہے جس کا کوئی حاصل نہیں ہے۔ اس قرآنی اسلوب کی عظمت و جلال اور ہیبت اگر دلوں میں بیٹھ جائے تو شرک کے قریب پھٹکنے کی کسی کے اندر ہمت نہ ہوگی۔ شرک اور مشرکین کے اعمال کی بے وقعتی کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کہاں مل سکتی ہے اس کے صحیح ادراک کے لیے صحیح ذہنیت اور صحت مند دل و دماغ چاہیے۔
4-شرک ظلمت:
اَوْ كَظُلُمَاتٍ فِىْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشَاهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۖ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٗ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّـٰهُ لَـهٗ نُـوْرًا فَمَا لَـهٗ مِنْ نُّوْرٍ (النور: ۴۰)
"یا وہ (اعمال) ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے کہ اس کو ایک موج نے ڈھانپ رکھا ہو پھر اسی موج کے اوپر ایک اور موج ہو پھر اس کے اوپر بادل ہو۔ تاریکیاں ہی تاریکیاں اوپر تلے، اگر کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اس کے دیکھنے کا احتمال تک نہیں اور جس کو اللہ ہی نور ہدایت نہ دے اس کے لیے کوئی نور میسر نہیں۔”
کفر و شرک بذات خود ظلمت اور تاریکی ہیں اور جب ان کی بنیاد پر کفریہ و شرکیہ اعمال انجام پائیں تو وہ ایسے بن جاتے ہیں جیسے عظیم گہرے سمندر کے اندھیرے ہیں اور ان کے اندر دو موجوں کی دو تہ تاریکیاں ہیں اور پھر ان کے اوپر چھائے ہوئے گہرے بادل کی تاریکی، ان تہہ بتہہ تاریکیوں میں کوئی انسان اگر اپنا ہاتھ دیکھنا چاہے تو ہاتھ سجھائی دینے تک کا احتمال نہیں ہے۔
گاڑھے شرک و کفر میں جو بھی مبتلاہے خواہ وہ کسی مذہب سے انتساب رکھتا ہو اس کے لیے یہ آیت اعلان ہے کہ وہ تہ در تہ تاریکیوں میں زندگی گذار رہا ہے۔ اس کی تگ و دو تاریکی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ شرک کے سبب وہ ظلمات میں تو پھنسا ہی ہے جب وہ ان ظلمات میںہاتھ پاؤں مارتا ہے تو ظلمتیں اور گمبھیر ہو جاتی ہیں اور شرکیہ و کفریہ اعمال کی تاریکیاں ظلمات پر تہیں چڑھاتی رہتی ہیں۔
قابل غور یہ ہے کہ کیا کسی کو یہ پسند آئے گا کہ وہ عظیم و اتھاہ سمندر کی ظلمات میں زندگی گذارے اور ان کے اوپر تاریکی کی تین تہیں اور ہوں۔ ظاہر ہے انسان پر اس تصور ہی سے بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے لیکن یہ قرآنی حقیقت ہے کہ جو شخص شرک و کفر کی حالت میں زندگی گذارتاہے اور شرک و کفر کی اساس پر وہ شرکیہ و کفریہ اعمال انجام دیتاہے اس کی حالت اس طرح بھیانک ہے کہ وہ اتھاہ عظیم سمندر کی تاریکیوں میں جی رہا ہے نہ کوئی سرا ہے نہ منزل ہے نہ امید کی کوئی کرن ہے، صرف وحشت، خوف بھیانک تاریکی، خطرناک ماحول اور اس حالت میں اگر وہ ہاتھ پاؤں مارتاہے تو تاریکیوں کی تین تہوں کا اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
کفر اور اعمال کفر، شرک اور اعمال شرک کی یہ تمثیل اتنی شاہکار اور عظیم ہے اور ان کی خطرناکی کی المناکی اور ہیبت ناکی بیان کرنے کے لیے اتنی آشکارا ہے کہ ہر فرد منظر کو محسوس کر سکتا ہے اور اس سے اس کے دل میں ہول اٹھ سکتا ہے۔ یہ منظر نگاری اتنی پر اثر ہے کہ دلوں اور نگاہوںمیں یہ منظر جگہ بنالے۔ کون ہے جو اس مہیب منظر کو محسوس نہیں کر سکتاہے اور شرک و کفر اور اعمال شرک و کفر کو ان کی بھیانک اور خوفنا ک شکل میں دیکھ نہیں سکتا ہے۔
دنیا کے سارے کفار اور سارے مشرکین خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو تہ بہ تہ ظلمات میں جی رہے ہیں اور جس قدر ان کا کفر و شرک غلیظ ہے اور ان کی مشرکانہ و کافرانہ تگ و دو زیادہ ہے اس کے بقدر ان کی ظلمتیں بھی گاڑھی ہیں اور اسی کے بقدر ان کے قلوب کی تاریکیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ دراصل وہ جن قلوب و اذہان کے ساتھ جیتے ہیں وہ ظلمات و تاریکی کی آماجگاہ ہیں ان کی ظلمتیں اتنی بڑھی ہوتی ہیں کہ وہ عظیم و اتھاہ سمندر کی اندورنی ظلمتیں بن جاتی ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوتا ہے اور کانوں پر مہر لگی ہوتی ہے اس لیے ان سے بھی تاریکی ہی میسر ہوتی ہے اس لیے یہ دو موجوں کی تاریکی بن جاتی ہیں اور ان کے اعمال گھٹا ٹوپ بدی کی ظلمت کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ شرک و کفر اور اعمال کفر و شرک کا کل حاصل تاریکی ہے اور کفار و مشرکین کی کل زندگی اور بھاگ دوڑ تاریکی ہے۔ ان کے اوپر یہ نحوست لاگو ہے کہ وہ مسلسل اس تاریکی میں جئے جائیں، ان کے لیے اللہ کی توفیق و ہدایت ارزاں نہیں ہو سکتی کہ انھیں نور ہدایت میسر ہو۔
جنہیں ہدایت کا راستہ دکھلایا گیا مگر انھوںنے بغاوت کی اور دین برحق سے دشمنی اختیار کرلی اور باصرار و بضد ضلالت کی راہ پر چلتے رہے ان کی ضلالت کی تاریکیاں بڑھتی رہتی ہیں ان کو نور ہدایت کی ایک کرن نصیب نہیںہو سکتی، جن کا غلط رویہ خود طے کرچکا ہو کہ وہ ظلمات کے دیوانے ہیں تاریکیوں میں ہی انھیں جینا پسند ہے، انھیں ہدایت کی روشنی نہیں مل سکتی۔ نورِ ہدایت اللہ تعالی دیتا ہے جو اس سے نور ہدایت نہ مانگے اسے کہیں سے روشنی مل نہیں سکتی۔