تبصرہ کتب : پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء


الواقعۃ شمارہ : 80 – 81، محرم الحرام و صفر المظفر 1440ھ

پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء

مؤلف: سیّد محمد قاسم
صفحات : 560
طبع اوّل: 2018ء
ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، آفس نمبر ۵، کتاب مارکیٹ، اردو بازار، کراچی0345-2610434

جناب سیّد محمد قاسم عصر حاضر کے معروف تذکرہ نگار ہیں۔ ان کی تذکرہ نگاری کا دائزہ ماضی قریب سے لے کر زمانہ حال کی شخصیات پر محتوی ہے۔ وہ تذکرہ نگاری کے فنی لوازمات سے واقف ہیں اور اپنی کتابیں بڑے سلیقے اور ذمہ داری کے ساتھ تحریر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ عصری ادب کے لیے ان کی خدمات یقیناً ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

زیر نظر کتاب پاکستان کے "صاحبانِ مجموعہ ہائے غزل و نعت” کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ اس تذکرے میں آرزوؔ لکھنوی، احسان دانشؔ، احمد ندیم قاسمی، اختر شیرانی، افتخار عارف، افسر ماہ پوری، اقبال عظیم، امجد اسلام امجدؔ، حفیظؔ جالندھری، ذہین شاہ تاجی، راغبؔ مراد آبادی، رئیسؔ امروہوی، ساغرؔ صدیقی، سیمابؔ اکبر آبادی، شاکرؔ کنڈان، صوفی غلام مصطفیٰ تبسمؔ، عبد العزیز خالدؔ، قتیلؔ شفائی، استاد قمرؔ جلالوی، ماہرؔ القادری، نعیمؔ صدیقی وغیرہم سمیت کل ۱۵۳ شعرا کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ اسلوب تحریر یہ ہے کہ پہلے شاعر کے مختصر مگر جامع حالات ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ اس کے اسلوب کلام پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ شاعر کے حالات کے بعد اس کی ایک نعت اور ایک غزل کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان شعرا میں مرحومین بھی ہیں اور موجودین بھی۔

سیّد محمد قاسم شائبہ یبوست سے پاک خوش مزاج قلمکار ہیں۔ انھوں نے یہ تذکرہ بہت شوق سے مرتب کیا ہے۔

ابو اللیث قریشی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:-

"ان کا نعتیہ مجموعہ "تاباں تاباں” بھی کراچی سے شائع ہوا، جس میں عبد اور معبود کے درمیان ایک حدِ فاصل شعوری طور پر موجود ہے، اور یہی امتیاز انھیں عہدِ حاضر کے نعت گو شعراء پر فوقیت دلاتا ہے۔” (ص: ۴۴-۴۵)

نعت گوئی ایک مذہبی فریضہ بھی ہے اور اس حیثیت سے اس کے تقاضے کمالِ احتیاط پر مشتمل ہیں۔ مؤلف نے ابو اللیث قریشی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:-

"بعض نعت گو حضرات غلو، اغراق اور مبالغے سے اس قدر کام لیتے ہیں کہ مدحت رسول ﷺ میں اللہ جل جلالہٗ کے اوصاف بھی شامل کر دیتے ہیں۔” (ص: ۴۵)

احسان دانشؔ کی خود نوشت "جہانِ دانش” سے متعلق مؤلف فرماتے ہیں:-

"(یہ) ایک ایسے فرد کی خود نوشت ہے جو سچائیوں اور فروغِ علم کے لیے تمام عمر کوشاں رہا۔” (ص: ۵۱)

احمد ندیم قاسمی کے بارے میں لکھتے ہیں:-

"کیوں کہ احمد ندیمؔ قاسمی کا تعلق ایک صوفی خانوادے سے رہا ہے اِس لیے ممکن ہے آنے والے زمانے میں ان کے کلام میں تصوف کے تمام تلازمے دریافت کر لیے جائیں اور انھیں تصوف سے منسلک کر دیا جائے۔” (ص: ۶۵)

اخترؔ شیرانی سے متعلق تحریر کرتے ہیں:-

"اخترؔ رومان کو مفروضے سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آئے۔ انھوں نے ضمیر غائب کی جگہ رو بہ رو تخاطب کا انداز برتا۔ شاعری میں مکالماتی فضا قائم کی۔ جس نے آنے والے شعرا کو ایک روش دی۔” (ص: ۷۰)

اسلمؔ فریدی کے نسبی تعلق سے متعلق لکھتے ہیں:-
"ان کا نسبی تعلق بابا مسعود الدین فرید گنج شکر سے ہے۔ اِسی نسبت سے فریدی تخلص اختیار کیا۔” (ص: ۹۳)

بابا فرید گنج شکر مشہور و معتبر روایت کے مطابق نسباً فاروقی تھے۔ جناب مؤلف نے ان کے نام کے ساتھ سیّد کی صفت نسبتی لکھی ہے ممکن ہے کہ خود اسلم فریدی یا ان کے متعلقین ایسا لکھتے ہوں، تاہم اس کی نشاندہی ضروری تھی۔ گو کہ لفظ سیّد کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور حسنی و حسینی افراد کے سوا بھی دوسرے اپنے نام کے ساتھ سیّد لکھ سکتے ہیں۔ قرنِ اوّل میں سیّد اور شریف کی اصطلاح تمام اہل قریش کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ احمد بن یحیٰ البلاذری (م ۲۷۹ھ) کی "الأنساب الأشراف” معروف کتاب ہے جس میں بلا تفریق اہل قریش کا نسب و شجرہ ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم اپنی اصل نسبت کا اظہار ضروری ہے اور ایسے شائبوں سے گریز بھی کیا جانا چاہیے جس میں نسبت کی تبدیلی کا امکان پایا جاتا ہو۔

سیّد محمد قاسم کے مطابق افسرؔ صابری دہلوی کی "تابشِ افسر”: "پاکستان میں نثر اور نعتیہ کلام کی یہ سب سے پہلی کتاب ہے جسے غیر محتاط اور تحقیق سے بے بہرہ تذکرہ نگاروں نے بیان نہیں کیا ہے۔” (ص: ۱۱۴)

"تابش افسر” ۱۹۴۸ء میں طبع ہوئی۔

مشہور شاعر امیدؔ فاضلی ڈبائی ضلع بلند شہر (یوپی) سے تعلق رکھتے تھے۔ عرصہ تک ان کی صفتِ نسبتی "ڈبائیوی” رہی۔ جناب مؤلف بڑے دل چسپ پیرایے میں لکھتےہیں:-

"امیدؔ ڈبائیوی کو جب احساس ہوا کہ "ڈب ڈبائیو” قسم کی آوازوں سے نام بگڑ جاتا ہے تو انھوں نے اپنا خاندانی نام "امیدؔ فاضلی” استعمال کرنا شروع کر دیا۔” (ص: ۱۳۶)

سیّد محمد قاسم شخصیت کی اعلیٰ قدریں بھی بیان کرتے ہیں تاکہ ان تذکروں سے لوگوں کو اپنی زندگیوں کے لیے راہ نمائی ملے۔ عارفؔ اکبر آبادی کے بارے میں بتاتے ہیں:-

"نابینا ہونے کے باوجود کسی کے دستِ نگر نہ رہے۔” (ص: ۳۸۶)

کہیں کہیں کچھ تسامحات بھی در آئی ہیں۔ جیسے راغبؔ مراد آبادی کا انتقال ۲۰۱۱ء میں ہوا ہے ان کے تذکرے میں لکھتے ہیں:-

"راغبؔ مراد آبادی کا شمار اِس وقت اساتذئہ سخن میں ہوتا ہے۔” (ص: ۲۵۴)

کتاب میں تنقیدی رجحان بھی کئی مقامات پر نمایاں ہے۔ جس کا زیادہ شکار ڈاکٹر شہزاد احمد ہوئے ہیں۔ بیشتر مقامات پر جناب مؤلف نے ان پر مضبوط لیکن سخت گرفت کی ہے۔

"ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں عموماً بڑی چیزیں بہت چھوٹی اور چھوٹی چیزیں بہت بڑی نظر آتی ہیں۔”(ص: ۱۱۸)

"ڈاکٹر شہزاد احمد نا قابلِ فہم "معاصر فوبیا”میں مبتلا ہیں۔” (ص: ۲۹۱)

ڈاکٹر ریاض مجید کے تذکرے میں لکھتے ہیں:-

"اہلِ علم و تحقیق کی توجہ مبذول کرانے کے لیے میں ڈاکٹر ریاض مجید کی لکھی ہوئی عبارت من و عن نقل کر رہا ہوں تاکہ اس کذب بیانی کے رجحان کی تردید ہو سکے جس کا اظہار ڈاکٹر شہزاد احمد نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔” (ص: ۲۹۱)

لیکن ڈاکٹر شہزاد احمد کی "کذب بیانی” کی تصریح جناب مؤلف نے نہیں کی۔ اگر اس کی وضاحت بھی موجود ہوتی تو قاری کے لیے عبارت کی تفہیم آسان ہو جاتی۔

کہیں کہیں مبالغہ آرائی کا عنصر بھی نمایاں ہے، جیسے:-

"جہاں جہاں اردو زبان بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں کے اہل علم محسن احسان سے واقف ہیں۔ شاید ہی کوئی ادب کا ایسا قاری ہو جس نے پروفیسر محسن احسان کو نہ پڑھا ہو۔” (ص: ۴۹۳)

اشعار کے انتخاب میں بھی جناب مؤلف کا اپنا ذوقِ سخن جھلکتا ہے۔ نعت کے بعض منتخب شدہ اشعار ملاحظہ ہوں:-

دل میں ہے بہت گردِ کدورت سے اندھیرا
یہ آئنہ رکھتا ہے صفائی کی تمنا
(ابو اللیث قریشی)

ثنا ہم اس قدر لکھیں، درود ہم اس قدر لکھیں
قلم جب تھک کے رک جائے تو ہم با چشمِ تر لکھیں
(افسرؔ ماہ پوری)

انوارِ نبی کے جلوئوں سے ہر گوشہ دل معمور ہوا
وحدت کا اُجالا پھیل گیا، الحاد کا سایہ دُور ہوا
(جمیلؔ عظیم آبادی)

جب گناہوں کی ندامت آنسوئوں میں ڈھل گئی
یوں لگا جیسے کہ رحمت کے دریچے کھل گئے
(سجاد سخنؔ)

جب تلک روضہ اقدس کی زیارت نہ ہوئی
زیست بے کیف تھی دشوار تھا جینا مجھ کو
(سیّد مظفر احمد ضیاؔ)

وہی ہیں واقفِ مفہوم اتباعِ رسول
خلافِ نفس جو عزم جہاد رکھتے ہیں
(قمرؔ وارثی)

غزل کے بعض منتخب شدہ اشعار ملاحظہ ہوں:-

ہے عشق و ہوس میں فرق لیکن
درکار ذرا سا امتحاں ہے
(احسان دانشؔ)

اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایہ ابر کی مانند گزر جائوں گا
(احمد ندیمؔ قاسمی)

ترکِ دنیا کا یہ دعویٰ ہے فضول اے زاہد
بارِ ہستی تو ذرا سر سے اتارا ہوتا
(اخترؔ کاشمیری)

او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھائوں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
(حفیظؔ جالندھری)

وہ ایک چہرہ کہ جس کے حسن کی تفہیم کی خاطر
مری بینائی رقصاں ہے ہر اک شاخ گل تر میں
(رفیع الدین رازؔ)

یہاں جو بڑھ کر اٹھائے مینا، اسی کا ساغر اسی کا مینا
ہیں اپنے اپنے نصیب ساقی کسی کا کوئی سجن نہیں ہے
(ساغرؔ صدیقی)

بحیثیت مجموعی کتاب بڑی عمدہ اور معلوماتی ہے اور شائقینِ ادب کے لیے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

(مبصر: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی)

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.