قیامت کی بڑی علامات کی صحیح ترتیب


احادیث کا تجزیاتی مطالعہ

الواقعۃ شمارہ: 82 – 85، ربیع الاول تا جمادی الثانی 1440ھ

اشاعت خاص : فتنہ دجالیت

از قلم : محمد زبیر شیخ

الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رحمۃ للعالمین. یہ کائنات جو ہمیں آج رنگ برنگی اور بھری بھری نظر آتی ہے، کہیں صحرا، کہیں پہاڑ، کہیں ریگستان، کہیں گلستان، ایک وقت آئے گا کہ اس کی یہ ساری دل کشی اور خوب صورتی ختم ہو جائے گی۔ اس وقت کو قیامت کہا جاتا ہے۔ قیامت کے بارے میں رب کائنات نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ وہ اچانک آئے گی: –
لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً [الاعراف: ۱۸۷]
’’وه تم پر محض اچانک آپڑے گی۔‘‘
یہی بات سورۃ الانعام: ۳۱، یوسف: ۱۰۷، الانبیاء: ۴۰، الحج: ۵۵ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
رسول کائنات ﷺ نے بتایا ہے کہ قیامت سے پہلے چند نشانیاں نمودار ہوں گی، اس کے بعد قیامت آئے گی۔ بلکہ خود قرآن مجید میں ہی ایک مقام پر موجود ہے کہ قیامت کی نشانیاں آ چکی ہیں:-
فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَا ۚ [محمد: ۱۸]
’’یقیناً اس کی علامتیں تو آ چکی ہیں۔‘‘
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علامات مختلف قسم کی ہیں۔ علماء کرام نے انھیں دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ علاماتِ صغریٰ اور علاماتِ کبریٰ یعنی قیامت کی چھوٹی اور بڑی علامات۔ چھوٹی علامات میں سے کچھ وہ ہیں جو مکمل طور پر واقع ہو چکی ہیں، کچھ کا ابتدائی حصہ نمودار ہو چکا ہے اور کچھ ابھی مکمل طور پر پردہ غیب میں ہیں۔ جبکہ بڑی علامات قیامت وہ نشانیاں ہیں جو قیامت کے بالکل قریب ظہور پذیر ہوں گی۔ ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن العریفی کی تحقیق کے مطابق علامات قیامت صغریٰ کی تعداد ۱۳۱ ہے جن میں سے ۸۴ علامات قیامت ظہور پذیر ہو چکی ہیں جبکہ ۴۷ میں سے کچھ کا ابتدائی حصہ نمودار ہو چکا ہے اور کچھ باقی ہیں۔ قیامت کی بڑی علامات ۱۰ ہیں۔ (نہایۃ العالم از عریفی)
زیر نظر مضمون میں احادیث کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ قیامت کی بڑی علامات کی صحیح ترتیب کیا ہے۔ اس حوالہ سے بنیادی روایت صحیح مسلم کی ہے، ذیل میں اس کا متن اور ترجمہ دیا جا رہا ہے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: "مَا تَذَاكَرُونَ؟” قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: ” إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ – فَذَكَرَ – الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ؑ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ۔” (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب في الآیات التي تکون قبل الساعۃ، رقم الحدیث: ۲۹۰۱۔ الزھد والرقاق لابن المبارك، رقم: ۱۶۰۶، مسند أبي داود الطیالسي، رقم: ۱۱۶۳، مسند الحمیدي، رقم: ۸۴۹، مسند ابن أبي شیبۃ، رقم: ۸۱۷، مسند أحمد، رقم: ۱۶۱۴۱، ۱۶۱۴۳، ۱۶۱۴۴، سنن ابن ماجہ، رقم: ۴۰۴۱، ۴۰۵۵، سنن أبي داود، رقم: ۴۳۱۱، سنن الترمذي، رقم: ۲۱۸۳، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم: ۴۰۴۱، السنن الکبری للنسائي، رقم: ۱۱۳۱۶، ۱۱۴۱۸، الکنی والأسماء للدولابي: ۲۰۴، ۴۰۶، شرح مشکل الآثار، رقم: ۹۵۹، ۹۶۱، ۹۶۲، صحیح ابن حبان، رقم: ۶۷۹۱، ۶۸۴۳، المعجم الکبیر للطبراني، رقم: ۳۰۲۸، ۳۰۲۹، ۳۰۳۰، ۳۰۳۱، ۳۰۳۲، ۳۰۳۳، ۳۰۳۴، الایمان لابن مندہ، رقم: ۱۰۰۱، ۱۰۰۲، ۱۰۰۳، ۱۰۰۴، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني: ۱/۳۵۵، السنن الواردۃ في الفتن للداني، رقم: ۵۲۰، ۵۳۳، مصنف ابن أبي شیبۃ، رقم: ۳۷۴۶۴، ۳۷۵۴۲، الفتن لحنبل بن إسحاق، رقم: ۲۰، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني، رقم: ۱۸۶۵، شرح السنۃ للبغوي، رقم: ۴۲۵۰)
سیدنا حذیفہ بن اَسِیْد غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ہم پر جھانکا جبکہ ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نےدریافت کیا: ”کیا باتیں کر رہے تھے ؟“ ہم نے کہا: ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک دس نشانیاں نہیں دیکھ لو گے۔“ پھر آپ ﷺ نے ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور (دابۃ الارض) کا، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا، یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، تین جگہ خسف ہونے یعنی زمین میں دھنسنے کا، ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جزیرہ عرب میں اور ان سب نشانیوں کے بعد یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔‘‘

فوائد:-

1- راوی حدیث صحابی کا نام حذیفہ بن اَسِید ہے۔ کنیت: ابو سَرِیحہ ہے۔ اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ (مشکل الآثار: ۹۶۱) بنو غِفار سے تعلق ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۳۰۳۰) اصحاب صفہ میں سے ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء: ۱/۳۵۵) مدینہ سے کوفہ چلے گئے تھے اور وہیں وفات پائی۔ (مستدرک حاکم: ۳/۶۵۱۹، ۶۸۶۰)
2-  مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کے بالا خانہ کے نیچے بیٹھے مذاکرہ کر رہے تھے۔ آپ ﷺ اس وقت اوپر تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے اوپر سے جھانکا اور پھر مذکورہ بالا گفتگو فرمائی۔ ابو داود کی روایت کے مطابق دوران مذاکرہ صحابہ کرام کی آوازیں بلند ہو گئی تھیں، جس پر آپ ﷺ نے نیچے دیکھا۔ ”شرح مشکل الآثار“ کی روایت کے مطابق یہ بالا خانہ حجرہ عائشہ کے اوپر تھا۔
3-  مسلم کی اس روایت کو ابو الطفیل سے بیان کرنے والے شعبہ کے دو استاد ہیں۔ ایک فرات القزاز اور دوسرا عبد العزیز بن رفیع۔ عبد العزیز بن رفیع نے یہ روایت موقوف بیان کی ہے یعنی اسے نبی کریم ﷺ سے منسوب نہیں کیا۔ اسی طرح ابو الطفیل کے شاگرد عبد الملک بن میسرہ نے بھی اسے موقوف بیان کیا ہے، لہٰذا یہ موقوفاً ہی صحیح ہے۔ مرفوعاً بیان کرنے والے صرف فرات ہیں۔ (الالزامات والتتبع للدارقطنی: ۱/۱۸۲، رقم: ۵۴، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت) اس کا جواب یہ ہے کہ فرات ثقہ، حافظ ہیں، ان کی توثیق متفق علیہ ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا اس روایت کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کرنا بالکل درست ہے۔ (المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج: ۱۸/۲۷، رقم: ۲۹۰۱)
4-  شعبہ کہتے ہیں کہ فرات اور عبد العزیز بن رفیع میں سے ایک نے نزولِ عیسیٰu کا تذکرہ کیا ہے اور دوسرے نے ایسی آندھی کا جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔ مسلم اور دیگر کتب احادیث کی اس متن والی تمام روایات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ عبد العزیز بن رفیع نے کیا ہے اور آندھی کا فرات القزاز نے۔ لیکن مسلم کی دوسری روایت جو فرات کے شاگرد سفیان بن عیینہ نے بیان کی ہے، اس میں صرف نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا ذکر موجود ہے، آندھی کا نہیں۔ گویا فرات نے دونوں نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح فرات کی بیان کردہ نشانیاں مجموعی طور پر گیارہ بن جاتی ہیں۔ ”معرفۃ الصحابہ“ کی روایت میں ان گیارہ نشانیوں کا اکٹھا ذکر ہے۔ یہ روایت شعبہ از فرات ہی ہے، اور کسی کتاب میں ان گیارہ نشانیوں کا اکٹھا ذکر نہیں ملا۔ واللہ اعلم۔ ملا علی قاری کے مطابق ممکن ہے کہ یہ آندھی آگ کے ساتھ ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۸/۳۴۵۰، رقم: ۵۴۶۴) اس لیے زیادہ تر روایات میں اس کا ذکر نہیں ہے اور دس نشانیوں کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
5-  میدانِ محشر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ زمین سفید و سرخی آمیز ہو گی جیسے میدہ کی روٹی صاف و سفید ہوتی ہے۔ اس زمین پر کسی (چیز) کا کوئی نشان نہ ہو گا۔ (بخاری: ۶۵۲۱)
6-  اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے جن دس نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے، انھیں ہی قیامت کی بڑی نشانیاں کہا جاتا ہے۔ (فیض القدیر للمناوی: ۲/۳۴۴، ط: المکتبہ التجاریہ، مصر) یہ علامات درج ذیل ہیں:-
1- جزیرۃ العرب میں لوگوں کا زمین میں دھنسنا
2- مشرق میں لوگوں کا زمین میں دھنسنا
3- مغرب میں لوگوں کا زمین میں دھنسنا
4- دجال کا ظہور
5- عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول
6- یاجوج ماجوج کا خروج
7- سورج کا مغرب سے طلوع ہونا
8- دابۃ الارض کا نکلنا
9- دھویں کا نکلنا
10- یمن کے شہر عدن کے آخری علاقہ سے آگ کا نکلنا
ان علامات کے بیان میں رسول اللہ ﷺ نے لفظ ’’واؤ‘‘ استعمال کیا ہے جو عربی گرامر کے اعتبار سے مطلق جمع کےلیے آتا ہے۔ یعنی اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ یہ ہوگا، لیکن ترتیب اس سے معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے دیگر احادیث کو دیکھنا ضروری ہے تاکہ ترتیب کا پتہ چل سکے۔
۱،۲،۳ : ہماری تحقیق کے مطابق سب سے پہلے خسف یعنی زمین میں دھنسنے والے واقعات پیش آئیں گے۔ خسف تین مقامات پر ہوگا۔ ان میں سے ایک جزیرۃ العرب ہے۔ جزیرۃ العرب سے مراد مکہ، مدینہ، یمامہ اور یمن کا علاقہ ہے۔ کیونکہ ان علاقوں کو بحر ہند، بحر قلزم اور دجلہ و فرات نے گھیرا ہوا ہے۔ (فیض القدیر: ۲/۳۴۴، رقم: ۲۰۰۶) یہ خسف مدینہ کے قریب بیداء کے مقام پر ہو گا۔ (مسلم: ۲۸۲۸) بیت اللہ کے پناہ گاہ کے مقابلہ میں لشکر آئے گا جو دھنس جائے گا۔ یہ پناہ گاہ مہدی ہے، جیسا کہ امام ابو داود کے اس حدیث کو کتاب المہدی میں ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ (رقم الحدیث: ۴۲۸۹) لہٰذا یہ دھنسنا ظہورِ دجال سے پہلے ہو گا۔ کیونکہ مہدی کے زمانہ میں دجال آئے گا۔ باقی دو خسوف کے بارے میں واضح نص نہیں مل سکی۔
۴، ۵، ۶ : اس کے بعد دجال کا ظہور ہو گا۔ دجال کو قتل کرنے کےلیے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا۔ دجال کے قتل کے بعد یاجوج ماجوج کا خروج ہو گا۔ جیسا کہ صحیح مسلم: ۲۹۳۷ میں ہے:-
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا …. فرمایا: وہ شام اور عراق کی راہ سے نکلے گا …. پھر آپ ﷺ نے اس کی چالوں کے بارے میں خبر دی اور فرمایا: دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا …. پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ پائیں گے اس کو باب لد پر سو اس کو قتل کریں گے۔ پھر …. وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں تو پناہ میں لے جا میرے مسلمان بندوں کو طور کی طرف اور اللہ بھیجے گا یاجوج اور ماجوج کو اور وہ ہر ایک اونچائی سے نکل پڑیں گے …. الخ۔
۷ : اس کے بعد سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانی سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ہے اور چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے دابۃ الارض کا نکلنا ہے، اور جو نشانی ان دونوں میں سے پہلے ہو تو دوسری بھی اس کے بعد جلد ظاہر ہو گی۔“ (مسلم: ۲۹۴۱)
اس حدیث مبارکہ میں سورج کے مغرب کی طرف سے نکلنے کو قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ نشانی ہے کہ جس کے بعد کسی کو ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ (مسلم: ۱۵۸) اس بارے میں امام طیبی کہتے ہیں کہ قیامت کی بڑی علامات دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو قربِ قیامت کے اعتبار سے بتائی گئی ہیں جیسے دجال وغیرہ اور دوسری وجود ِ قیامت کے اعتبار سےبتائی گئی ہیں۔ جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ۔ (الکاشف عن حقائق السنن: ۱۱/۳۴۴۹، رقم: ۵۴۶۶، ط: مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قیامت کی علامات میں سے کچھ مانوس ہیں اور کچھ غیر مانوس۔ مثلاً دجال و نزول عیسیٰ علیہ السلام مانوس نشانیاں ہیں کہ یہ انسان ہی ہوں گے اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دابۃ الارض کا خروج غیر مانوس۔ تو غیر مانوس نشانی ہونے کے اعتبار سے اسے پہلی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ یا سورج کا مغرب سے طلوع ہونا پہلی نشانی اس اعتبار سے ہے کہ یہ آسمانی نشانیوں میں سے پہلی نشانی ہے۔ (النہایہ فی الفتن والملاحم لابن کثیر: ۱/۲۱۴، ط: دار الجیل، بیروت)
۸ : مذکورہ بالا حدیث میں سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے ساتھ دابۃ الارض کے خروج کو ملایا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ ان میں سے پہلے کون ہے اور بعد میں کون۔ ہم نے اسے مذکورہ ترتیب میں اس لیے پیش کیا ہے کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے خیال میں دونوں میں یہی ترتیب ہے جو ہم نے اپنائی ہے۔ (ابو داود: ۴۳۱۰) دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سورج طلوع ہو گا تو توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر دابۃ الارض نکلے گا اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کی نشانی کے طور پر ہر بندے پر نشان لگا دے گا کہ کون مؤمن ہے اور کون کافر۔ (فتح الباری: ۱۱/۳۵۳، ط: دار المعرفہ، بیروت)
۹ : دھویں کا نکلنا کون سی نشانی ہے ؟ اس بارے میں کوئی واضح نص نہیں مل سکی۔ کچھ علماء نے اسے پہلے نمبر پر بھی بیان کیا ہے۔ مسند احمد، رقم: ۹۷۵۲ میں ذکر ہے کہ تین چیزیں جب ظاہر ہو جائیں تو پھر کسی کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا، جو پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا اس نے نیک عمل نہ کیے ہوں گے: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دھویں کا نکلنا اور دابۃ الارض کا خروج۔ اس حدیث سے ہم اپنی ترتیب پر استدلال کر سکتے ہیں۔ لیکن یہی حدیث جب مسلم: ۱۵۸ اور دیگر کتب میں آئی ہے تو اس میں دخان کی جگہ دجال کا لفظ ہے۔ واللہ اعلم
۱۰ : یمن سے آگ کا نکلنا آخری نشانی ہے۔ ایک روایت میں عدن کے آخری علاقہ سے آگ نکلنے کا ذکر ہے۔ دونوں میں تضاد نہیں ہے کیونکہ عدن یمن کا شہر ہے۔ ترمذی میں ہے کہ آگ حضرموت سے نکلے گی۔ (رقم الحدیث: ۲۲۱۷) حضر موت عدن کے مشرق میں سمندر کے قریب وسیع علاقہ کا نام ہے۔ حضر موت اور عدن کے مابین ایک مہینہ کی مسافت ہے۔ (معجم البلدان: ۲/۲۷۰، ط: دار صادر، بیروت) گویا اصل میں آگ حضرموت سے ہی نکلے گی جو عدن کا آخری علاقہ ہے۔ ارض حجاز سے بھی آگ نکلنے کو قیامت کی علامات میں ذکر کیا گیا ہے۔ (مسلم: ۲۹۰۲) لیکن یہ آگ اور ہے۔ امام نووی کے بیان کے مطابق ۶۵۴ھ میں یہ آگ ظاہر ہو چکی ہے۔ (المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج للنووی: ۱۸/۲۸، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ سب سے آخری علامت یمن سے آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو میدانِ محشر کی طرف لے جائے گی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آگ کا نکلنا پہلی نشانی ہے۔ (حدیث نمبر: ۳۳۲۹) دونوں حدیثوں میں بظاہر تضاد ہے۔ لیکن در حقیقت اس آگ کا آخری نشانی ہونا مذکورہ نشانیوں کے مقابلہ میں ہے اور پہلی نشانی ہونا قیامِ قیامت کے اعتبار سے ہے کہ اس کے بعد کوئی دنیاوی کام نہیں ہو گا، بلکہ اخروی معاملات شروع ہو جائیں گے، مثلاً صور کا پھونکا جانا۔ (فتح الباری: ۱۳/۸۳)
مسلم کی ایک اور روایت میں اس آگ کی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ ’’وہ لوگوں کے ساتھ رہے گی۔ جہاں وہ اتر پڑیں گے آگ بھی اتر پڑے گی اور جب وہ دوپہر کو سو رہیں گے تو آگ بھی ٹھہر جائے گی۔‘‘ المعجم الکبیر للطبرانی: ۳۰۳۲ کے مطابق وہ آگ سب لوگوں کو ہانک لے جائے گی، کسی کو بھی نہ چھوڑے گی۔ راستہ میں آگ خود رکے گی تاکہ لوگ قضائے حاجت کر لیں۔ پھر انھیں چلنے پر مجبور کرے گی۔ ہم نے جو ترتیب ذکر کی ہے، علامہ ابو الحسن سندھی نے بھی یہی ترتیب لکھی ہے۔ (فتح الودود: ۴/۲۴۵، ط: مکتبہ اضواء المنار، مدینہ)
دوسری ترتیب یہ ہے: دجال، نزولِ عیسیٰ علیہ السلام، خروج یاجوج ماجوج، دابۃ الارض، طلوع شمس از مغرب۔ (التذکرہ باحوال الموتی للقرطبی، ص: ۱۲۶۹، ط: مکتبہ دار المنہاج، الریاض)
تیسری ترتیب یہ ہے: خروجِ دجال، نزولِ عیسیٰ  علیہ السلام، ظہورِ یاجوج ماجوج، طلوعِ شمس از مغرب، خروجِ دابۃ الارض، پھر آگ۔ (فیض القدیر: ۲/۳۴۴، رقم: ۲۰۰۶)
چوتھی ترتیب یہ ہے: دخان، خروجِ دجال، نزولِ عیسیٰ علیہ السلام، ظہورِ یاجوج ماجوج، خروجِ دابۃ الارض، طلوعِ شمس از مغرب۔ (مرقاۃ المفاتیح لملا علی قاری: ۸/۳۴۴۹، رقم: ۵۴۶۴، ط: دار الفکر، بیروت)

خلاصہ کلام:

علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ظاہر بلکہ طے شدہ بات یہی ہے کہ مذکورہ نشانیوں کی ترتیب میں توقف کیا جائے اور اسے اللہ کے حوالہ کر دیا جائے، جیسا کہ ابو الحسن سندھی نے کہا ہے۔‘‘ (تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری: ۶/۳۴۶، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت)

4 thoughts on “قیامت کی بڑی علامات کی صحیح ترتیب

  1. ماشاءاللہ اللھم زد فزد دجال پر الواقعہ کی اشاعت خاص کے ابھی چند مضامین ہی پڑھنے کو ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعتًا الواقعہ میگزین اہل علم کے لیے بہت مفید ہے اسلیے تمام اہل علم کو اس اشاعت خاص کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے اور اس اہم ترین اشاعت پر محترم تنزیل صدیقی حفظہ اللہ اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے اللہ تعالی تمام مضمون نگاروں اور الواقعہ میگزین کی ٹیم کی کوششوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماۓ آمین

    پسند کریں

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.