دجال – مادّہ پرستوں کا خدا (اداریہ)۔


الواقعۃ شمارہ: 82 – 85، ربیع الاول تا جمادی الثانی 1440ھ

اشاعت خاص : فتنہ دجالیت

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

خواہش ضرورت بن جائے اور ضرورت کی تکمیل جنون قرار پائے۔

مذہب سے بغاوت ہو، انکارِ معبود عقیدہ بن جائے اور زندگی اس عقیدے کی عملی تفسیر قرار پائے۔

اباحیت پسندی عام ہو جائے، زندگی بے ضابطہ ہو، ہر حدود و قیود سے آزاد، اور یہی آزادی حاصلِ زندگی قرار پائے۔

شیطان ایک ایسے ہی معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جو مذکورہ صفاتِ مذمومہ کی حامل ہو۔ وہ انسانی فطرت کے حساس تاروں کو چھیڑتا ہے۔ منصب و جاہ کی خواہش، عیش و نشاط کی ہوس، شہرت و ناموری کی آرزو، ان میں سے ہر ایک تمنا ایسی ہے جو اگر بیدار ہو جائے اور اپنی آرزوئے تکمیل میں حد سے تجاوز کر جائے تو اسے مہیا کرنے والے کے سامنے انسان کو عجز و درماندگی کی انتہا تک پہنچا سکتی ہے۔ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اس کے لیے پیش کر دیتا ہے جو اس کی بے لگام خواہشات کی تکمیل کر دے۔ وہ اپنا سر اس کے قدموں میں جھکا دیتا ہے اور گو زبان سے نہ سہی لیکن حقیقتاً اسے اپنا معبود تصور کرلیتا ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جس کی روحانی اقدار مٹ چکی ہوں اور وجدانی احساس و شعور کی دنیا مادیّت پرستی سے گہنا گئی ہو۔ اس کے پاس معبود برحق کا کوئی واضح تصور نہیں ہوتا۔ مادیّت پرستی کی انتہا کسی اَن دیکھے معبود کی بجائے نظر آنے والے اس "دجل وفریب” کو اپنا معبود تسلیم کر لے گی جو اس کی خواہشات کی تکمیل کر دے۔

اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے خدائوں کو پوجنے کا رجحان اب ختم ہو چکا۔ ابلیس نے شرک کے بھی ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔ خود کو عقل کل سمجھنے والا، اور آنکھوں دیکھی پر یقینِ کامل رکھنے والا،مادہ پرست انسان چاہتا ہے کہ اس کا خدا اس کی آنکھوں کے سامنے آ جائے تاکہ وہ اپنے مادی پیمانوں سے اپنی روحانیت کے اعلیٰ ترین مدارج حاصل کر لے۔

دجال – انھیں مادہ پرستوں کا خدا ہے۔

اب قریب ہے کہ شیطان دنیا کو شرک کی ایک نئی منزل سے آشنا کرے۔ دجال آسمان کی بلندیوں سے ظاہر ہو، سطح ارضی پر گھومتا پھرتا نظر آئے، اور "متاع الغرور” کے دام اسیر اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کریں اور وہ اپنی استدراجی قوت سے ان کی ہر خواہش پوری کر دے۔

آہ، مادیت پرستی کو اپنا پیمانہ حیات بنانے والا،یہ بد قسمت انسان اس کے سامنے اپنا سر جھکا دے گا اور زبانِ حال ہی سے نہیں بلکہ زبانِ قال سے بھی اسے بر ملا اپنا معبود تسلیم کر لے گا۔ لَّـقَدْ جِئْتُـمْ شَيْئًا اِدًّا – تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (1(۔

٭-٭-٭-٭-٭

آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو عقل و ذہانت و فطانت کے نام پر مذہب کو پرکھتے ہیں۔ افکار و نظریات کی دنیا میں اپنی عقل ہی کو پیمانہ حق قرار دیتے ہیں۔ سچا مذہب کبھی عقل کا مخالف نہیں ہوتا۔ لیکن انسان روحِ لطیف اور جسم ظاہر کا مرکب ہے۔ انسانی عقل کی ایک حد ہے اور وہ روحانیت کے تمام مدارج طے نہیں کر سکتا۔ عقیدے کی دنیا میں ایسی کئی باتیں ہیں جو عقل میں نہیں سما سکتیں لیکن انھیں ماننا پڑتا ہے۔ جس بات کو انھوں نے خلافِ عقل سمجھ لیا ہے وہ درحقیقت ماورائے عقل ہے، اسی کو "یومنون بالغیب” کہتے ہیں۔

معجزے اسبابِ مادّی کے ماتحت نہیں ہوتے، کہ ان کی دلیل پیش کی جائے۔ جہاں دلائل عاجز آ جائیں اور عقل سرتاپا حیرت بن جائے اسے ہی "معجزہ” کہتے ہیں۔ اللہ نہ کل معجزے پیش کرنے سے عاجز تھا، نہ آج ہے اور نہ کبھی ہوگا اس کی دنیائے تقدیر تو محض کلمہ "کن فیکون” پر آراستہ ہے، جس کے سامنے ساری طاقتیں سرنگوں ہیں۔

پھر ذرا غور کرو معجزات کا ظہور کیوں ہوتا ہے ؟ جب انکارِ رشد و ہدایت کی سرکشی عام ہو جائے۔ انسان اپنے روحانی تقاضوں سے اس درجہ غافل ہو کہ اس کے کان ہوں مگر کلمہ حق سننے کے لیے تیار نہ ہو، آنکھیں ہوں مگر مشاہدہ حق کی قوت سے محروم ہوں، عقل دل کی ہر دلیل کو مسترد کر دے، پھر بتاؤ کہ وہ کون سا ایسا مادی پیمانہ ہے جو نہ سننے والوں کو کچھ سنا سکے، ان آنکھوں کو جو دیکھنا ہی نہ چاہتی ہوں کچھ دکھا سکے، اور اس عقل میں سما جائے جس نے رشد و ہدایت کے ہر پیغام کو مسترد کر دیا ہو۔

اس دنیا کی ابتدا غیر معمولی حالات و واقعات کے زیر اثر ہوئی تھی اگر اس کا اختتام بھی کسی غیر معمولی واقعے کے ظہور کے ساتھ ہو تو یہ قطعاً خلاف عقل نہیں۔

اگر اب بھی کوئی اعراض و انکار ہی کے کوچے میں ہے تو

بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَلَمَّا يَاْتِـهِـمْ تَاْوِيْلُـهٗ ۚ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِيْنَ (یونس: ۳۹)

"بلکہ انھوں نے اسے جھٹلایا جس کا احاطہ نہ کر سکے، اور جس کی حقیقت کو وہ پا نہ سکے، اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے تھے انھوں نے بھی جھٹلایا تھا، سو دیکھ لو کہ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔”

٭-٭-٭-٭-٭

مادّہ پرستوں کی اس دنیا میں ایک صاحبِ ایمان سے اس کا ایمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ خواہ حالات کا جبر کیسا ہی ہو، خواہ دنیا اس کی کتنی ہی مخالف ہو جائے اور خواہ بادِ مخالف کی کیسی ہی تند و تیز ہوا چلے لیکن وہ اپنے ربّ تعالیٰ کی توحید سے خود کو وابستہ رکھے۔ وہ دنیا کے ہر باطل خدا کی بر ملا تکذیب کر دے۔ اس کا سر جھکے تو اسی ایک کے سامنے جھکے، جس کے سامنے جھکانا سزاوار ہے۔

تعداد کی قلت و کثرت، آلات حرب کی کمی و زیادتی اور وسائل گوناگوں کی وسعت و فراخی، اس کے سامنے بے معنی ہوں۔ کیونکہ ایمان و توکل کا الٰہی پیمانہ، اس کی راہِ حیات کا تعین کرے گا۔

وہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک، دل کی آخری دھڑکن تک اور خون کے آخری قطرے تک دجال اور دجالیت سے لڑتا رہے گا۔

رنگینی دنیا کی دلفریبیاں اور شبستانِ وجود کی اٹھکھیلیاں اسے مغلوب نہیں کر سکتیں۔ گو حوادث زمانہ کی کتنی ہی آزمائشیں اس پر آ وارد ہوں لیکن اس حال میں بھی اس کی روح کی شادمانی اور دل کی خوشحالی برقرار رہے گی۔

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

حاشیہ

(1) "بلا شبہ کیا ہی سخت بات ہے جو تم زبان پر لائے ہو، کہ جس سے ابھی آسمان پھٹ جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔” (مریم: ۸۹-۹۰)

 

 

 

 

One thought on “دجال – مادّہ پرستوں کا خدا (اداریہ)۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.