الواقعۃ شمارہ: 82 – 85، ربیع الاول تا جمادی الثانی 1440ھ
اشاعت خاص : فتنہ دجالیت
از قلم : ابو عمار سلیم
کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش اور امتحان کے لیے بنایا ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ کیا تھا تو فرشتوں کو یہ خبر دی تھی کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بناؤں گا۔ یقیناً اللہ رب العزت نے جو تمام حاضر اور غائب کا علم رکھنے والا ہے اور بہترین پلان بنا نے والا ہے، اپنے نائب اور خلیفہ کی آزمائش کا بھی بندوبست کر رکھا ہو گا۔ اور اس آزمائش کا بنیادی مقصد اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے تھا کہ کون اچھے اعمال کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کون اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ اسی لیے رب کائنات نے انسان کے راستے میں فتنوں، ابتلاؤں اور آزمائشوں کے پہاڑ کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ سب سے پہلی آزمائش سے حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا علیہا السلام کو گزرنا پڑا اور اس آزمائش کے لیے شیطان مردود و لعین کو ہمارے ان دونوں بزرگوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ابلیس لعین عمر اور تجربہ میں ان دونوں سے بہت زیادہ تھا اور اللہ کے مقرب فرشتوں میں شامل رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور طاقت سے بڑی اچھی واقفیت رکھتا تھا۔ اوپر سے حضرت انسان کی نا تجربہ کاری اور اس سے عداوت اور پرخاش رکھنے کے باعث اس نے اپنی دشمنی کا آغاز ہمارے والدین کو جنت میں بے عزت کرواکے انھیں دنیا میں بھیج دیے جانے کے ذریعہ سے کیا۔ مگر اس کے انتقام کی آگ یہاں پر تو ختم نہیں ہوئی کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے آگے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ بنی آدم کو ایسا بھٹکائے گا کہ قیامت والے دن اکثریت اللہ کے نا شکر گذار بندوں کی ہوگی۔ ہماری شکر گذاری یا نا شکری سے اللہ کی سلطنت، عظمت اور قدرتوں میں نہ تو کمی آ سکتی ہے اور نہ ہی زیادتی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو بے نیاز ہے۔ وہ بڑا ہے، طاقت و قدرت والا ہے، تمام کائنات پر اس کی حکومت ہونے کے علاوہ اور کہاں کہاں تک اس کی سلطنت پھیلی ہوئی ہے یہ تو صرف وہی جانتا ہے۔ شیطان کی خود سری ہو، اس کی بغاوت ہو یا اس کی اپنی سعی و کوشش اللہ کے خلاف ہو تو وہ سب کی سب دھوکہ کی باتیں ہیں ۔ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے احکامات کا نہ صرف پابند ہے بلکہ اس کے حکم سے سر مو انحراف نہیں کر سکتا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ شیطان مردود کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ وہ انسان کو جس طرح چاہے بھٹکائے اور جو چاہے سبز باغ دکھائے اور اس کام کے لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قیامت تک کی مہلت دے رکھی ہے بلکہ اس کو شاید اور بہت سی مراعات بھی دے رکھی ہیں۔ بہت ساری خرق عادت چیزوں پر اس کو قدرت بھی دے رکھی ہے جس کا وہ خوب خوب استعمال کر رہا ہے۔
انسان کے زمین پر اتار دیے جانے کے بعد سے ہمارا وہ دشمن لگاتار اپنے کام میں مصروف ہے اور ہمیں اور آپ کو مختلف حیلے بہانوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انسانی معاشرہ میں گوناگوں خرابیاں پیدا کرکے ان کو اس طرح خوشنما بنا دیا ہے کہ انسان اس کے جال میں بڑی آسانی سے جا پھنستا ہے۔ آپ اپنے گردا گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو معاشرہ میں موجود تمام برائیوں کی جڑیں شیطان کی چالاکیوں اور اس کی پلاننگ سے جا کر ملتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ قتلِ انسانی ہو، جھوٹ اور کذب ہو، دھوکہ دہی اور بے ایمانی ہو، سود کا کاروبار ہو، فحاشی و زنا ہو یا ایذا اور تکلیف رسانی کا کوئی کام ہو سب کے تانے بانے شیطان نے ہی بُنے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ نے انسان کو فطرت پر پیدا کیا ہے اور اس کے خمیر میں برائی کاکوئی خاصہ نہیں رکھا ہے۔ وہ تو شیطان کے بہکاوے میں آکر نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ کے کتنے ہی بندے فطرت سلیم پر ہوتے ہوئے یا تو اس کے دام میں آتے ہی نہیں یا پھر غلطی کو پہچان کر واپس ہو جاتے ہیں۔ یہی نیک روحیں ہیں اور ان ہی کی سعادت اور پاکیزگی کی بدولت دنیا بھی قائم ہے اور بھلائی اور سچائی بھی۔
شیطان انسان کو بہکا کر جہنم میں بھیج بھی رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بہکانے کے راستوں کو مزید مضبوط بنانے کے عمل پر بھی لگا ہوا ہے، اور اسی پلان کے تحت اس نے زمین پر اپنا ایک ایسا کارندہ لانے کا فیصلہ کیا ہے جس پر وہ بڑی جانفشانی سے کام بھی کر رہا ہے اور اس کو ہر طرح سے قابل عمل بنانے اور ناقابل شکست بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔ اس نے جو بھی پلان بنایا ہے اللہ تعالیٰ اس کے پلان سے بڑی ہی اچھی طرح واقف ہیں اور انھوں نے اس کو کھلی چھٹی بھی دے رکھی ہے اور اس کے اس پلان کی خبر انسانوں کو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بھی دے رکھی ہے تاکہ انسانیت بے خبری میں شیطان کے جال میں نہ جا پھنسے۔ میرا اشارہ اس کے عظیم ترین کارندے ’’المسیح الدجال ‘‘ کی طرف ہے۔ جس کو وہ قیامت کے قریب ظاہر کرنے والا ہے۔ اور بقول ہمارے پیغمبر اعظم نبی برحق صادق الوعد ﷺ کے کہ انھوںنے اسے کائنات کی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس سے عظیم کوئی فتنہ نازل نہیں ہوا۔ اس فتنہ کے لانچ (Launch) کرنے سے پہلے اس نے بہت سارے کام اسی حوالے سے کیے ہیں۔ اس فتنے کے لیے اس نے تمام راستے ہموار کیے ہیں۔ انسان کو بھٹکانے کے معمولی کام تو وہ اپنے چیلے چانٹوں اور اپنی ذریت کے ذریعہ سے لیتا رہتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے بالمقابل آکر کھڑے ہونے کے لیے اسے بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت تھی جو براہ راست اس کے دسترس میں نہیں تھیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ابلیس ملعون علم میں انسان سے کہیں کم تر ہے۔ اس لیے کہ انسان کی تخلیق کے بعد حضرت آدمu کو اللہ نے خود تمام علوم سکھائے تھے۔ جب ہی تو امتحان کے طور پر اللہ نے چیزوں کے نام فرشتوں سے پوچھے تو اس وقت ان فرشتوں میں ابلیس بھی موجود تھا۔ مگر نہ کوئی فرشتہ کسی چیز کا نام بتا سکا اور نہ ہی ابلیس کے پلے کچھ پڑا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام نے ان تمام چیزوں کے نام فر فر بتا دیے۔ اللہ نے کن چیزوں کے بارے پوچھا تھا ان کے نام پوچھے تھے یا اور تفصیلات پوچھیں تھیں اس کا نہ ہمیں علم ہے اور نہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ ابلیس بھی ان کا نام بتانے سے قاصر تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا علم انسان کے علم سے ناقص ہے۔ اس کو اس بات کا ادراک رہا ہے کہ وہ کائنات کے علوم و فنون میں انسان کی برابری نہیں کر سکتا۔ اس کو انسانی مدد کی ضرورت تھی جو اس کی ہدایات کے مطابق ایسے تجربات کر سکتا اور وہ سب کچھ سائنسی بنیادوں پر حاصل کر لیتا جو اللہ سے مقابلے پر آنے کے لیے ضروری تھا اور اس کو یہ موقع یہودیوں کی صورت میں میسر آ گیا۔ اللہ نے خود قرآنِ حکیم میں بنی اسرائیل کے لیے ارشاد فرمایا ہے:-
وَلَقَدِ اخْتَـرْنَاهُـمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِيْنَ (الدخان: ۳۲)
"اور ہم نے اپنے علم سے ان کو جہان والوں پر چن لیا تھا۔”
یہودیوں کو علوم پر اللہ نے فضیلت بھی دے رکھی تھی اور اپنی سرشت میں وہ اللہ کے باغی بھی ہیں۔ اس لیے وہ جلد ہی اس کے حلیف بن گئے اور ابلیس کے جھوٹے وعدوں اور بھٹکاوے میں آکر اس کے ساتھ تحالف پیدا کر لیا۔ آج بھی آپ دنیا کے ترقی کے میدان میں اور علم و سائنس میں نظر دوڑائیں تو آپ کو یہودی ہی سب سے آگے نظر آئیں گے۔ بنو اسرائیل کی بغاوت پسندی اور اللہ کے احکامات کو نہ ماننے اور ان سے روگردانی کی روش نے ان کو شیطان مردود کے لیے بڑا ہی تر نوالہ بنا دیا اور اس لعین نے ان کے ساتھ معاہدہ کر کے ان سے تحالف(Pact)قائم کر لیا۔ پھر اس نے ان یہودیوں کو اس راستہ پر لگایا جہاں وہ اپنی ریسرچ کرتے، اپنے علم و فن کی بدولت وہ سب کچھ بنا لیتے یا تیار کرلیتے جو شیطان ان کے کانوں میں ڈالتا۔ دیکھیے کہ آج کے دنیا کی ایک بہت عظیم برائی جس کے لیے اللہ کے تمام نبیوں نے منع کیا اور بچنے کی ہدایت کی یعنی سود اور سودی کاروبار، اس کو شیطان نے کس چابکدستی سے انسان کے تمام مالی و معاشی معاملات میں داخل کر دیا ہے۔ آج کے ماہرین اس بات پر بضد ہیں کہ معاشی معاملات سودی کاروبار کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے۔ اسی سودی نظام کے تحت اس کا سب سے بڑا کارندہ موجودہ بینکنگ کا نظام ہے۔ بینک کے بغیر آج کسی بھی قسم کا کاروبار چلانا ممکن ہی نہیں۔ آپ سود سے چاہے گریز کرتے ہوں مگر بینک کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ آپ کی تنخواہ بینک میں آتی ہے، آپ کے تمام بل بینک میں جمع ہوتے ہیں، کاروباری قرضے بینک کے علاوہ اور کوئی دینے کو تیار نہیں اور مشکل یہ کہ آپ نے بینک کے حدود میں قدم رکھا اور سود کے شکنجے آپ کو جکڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور سود کا یہ سارا نظام یہودیوں کا تیار کردہ ہے اور جدید بینکنگ ان کی ہی دماغی کاوشوں کا شاخصانہ ہے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپ غیر ارادی طور پر اللہ کے خلاف جنگ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ العیاذ باللہ۔
ابلیس نے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے جو کچھ چاہا ہے وہ اسے ان یہودیوں کی مدد سے حاصل کر رہا ہے۔ آج دنیا کی معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ سارے بینک ان کے ہیں۔ موجودہ دور کی پلاسٹک کرنسی بھی انھیں کی ایجاد ہے اور اس کے تانے بانے بینک آف اسرائیل سے ملتے ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کے بیشتر ذخائر یہودی قبضے میں ہیں۔ میڈیا سب کا سب یہود کا ہے اور وہاں سے ہی ان کو اشارے ملتے ہیں جن کے اوپر چل کر یہ دنیا بھر میں اپنی مرضی کی خبریں چلاتے ہیں اور اسی میڈیا کے ذریعہ لوگوں کے دماغوں اور سوچ کو ایک خاص ڈگر پر لگا دیتے ہیں۔ دنیا کی تقریباً تمام حکومتیں اور حکومتی کارندے ان یہود کی زیر نگرانی چلتے ہیں اور یہ بات اس دنیا کے بچے بچے کو معلوم ہے۔ امیر ترین ممالک جیسے امریکہ یا روس، یا غریب ترین ممالک جیسے پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکام سب اسی یہودی استبداد کے پنجوں میں دبے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب چیزیں تو وہ ہیں جو ابلیس نے پوری دنیا کو ایک نظام کے تحت لانے کے لیے آہستہ آہستہ تیار کی ہیں۔ اس کا مطمح نظر یہ ہے کہ ابلیس اپنے شاہکار کو سامنے لانے سے پہلے پوری دنیا کا کنٹرول سنبھال لے اور اس کے بعد اس مسیح الدجال کو دنیا کے تخت پر بٹھا کر انسانیت کو نہ صرف اپنا غلام بنا لے بلکہ دجال کو اللہ کا ہم پلہ بنا کر اس کی پرستش کروا دے تاکہ تمام کی تمام انسانیت پلک جھپکتے ہی اللہ کی نا فرمان ہو جائے اور ابلیس کا دعویٰ پورا ہو۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ کے معاملات میں بھی مداخلت کرے اور اپنے پارٹنر کے ساتھ مل کر اس موت پر قابو پالے جس سے یہودی سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ (دیکھیے: سورۃ الجمعۃ: ۶-۸) اور پھر اس کی کوشش ہو گی کہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ کی حکومت میں دخل اندازی کر سکے۔
ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اس نے انہی یہودیوں کے ہاتھوں موجودہ دور کی ٹیکنالوجی کی ترقی کروائی ہے تاکہ وہ اس سے اپنے عظیم شاہکار دجال کے ہاتھ مضبوط کرے۔ دنیا بھر کے مختلف سائنسی اداروں میں تحقیق و تجربہ کے جو پراجیکٹ چل رہے ہیں ان میں سے بیشتر مخفی رکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی بھنک بھی عام لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔ مگر پھر بھی ان ریسرچ اور ترقیوں کے کچھ حصے بقیہ دنیا میں بھی اس کو پرکھنے کی خاطر سامنے لائے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کی روشنی میں ان پر مزید کام ہوتا ہے۔ گویا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں جو سائنسی ترقی ہو رہی ہے وہ تقریباً سب کی سب دجال کی خدمت کے لیے ہو رہی ہے جس کے ذریعہ دجال اور اس کے باس ابلیس کے ہاتھ مزید مضبوط کیے جا سکیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کی تخلیق کی تو انھوں نے اس کو چلانے کے لیے کچھ قوانین مرتب کیے۔وہ قوانین خواہ طبیعات سے متعلق ہو یا کیمیاء سے متعلق ہو، اصول طب ہوں یا نباتات سے متعلق ہوں یا حیوانات سے، زمین کے اوپر کے معاملات ہوں یا بالائی فضا کے ہوں۔ سب کے سب ایک مقررہ حدود اور اللہ کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق چل رہے ہیں۔ ان اصول و ضوابط میں کوئی فرق نہیں آتا اور یہ ترتیب اللہ کے حکم سے طے پائی ہے اور اس کے احکامات کی پابند ہے۔ ہم اپنی زندگیوں میں جو مختلف سائنسی تجربے کرتے ہیں اور محیر العقول نتائج برآمد کرتے ہیں وہ سب ان ہی اصول و قواعد کے تحت ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول برحق نبی اکرم ﷺ نے ہمیں دجال سے متعلق بہت ساری باتیں ایسی بتائی ہیں جو اپنے وقت کے مطابق عجیب اور ناقابل یقین معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن جو کچھ نبی برحق ﷺ نے ارشاد کیا ہے ہمارا ایمان ہے کہ وہ سب کچھ ہو گا اور اسی طرح ہو گا خواہ ہماری عقل اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ آج ہم ٹیکنالوجی کی ترقی کی دنیا میں رہ رہے ہیں اور اگر بغور جائزہ لیا جائے اور سائنسی ترقیوں کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو وہ تمام محیر العقول باتیں درست ہوتی نظر آ تی ہیں۔ آئیے ایک چھوٹا سا جائزہ اس بات کا لیتے ہیں کہ دجال کی جو قوتیں ہمیں بتائی گئی ہیں کیا واقعی وہ اس کو حاصل ہو چکی ہیں۔
مسلم شریف کی کتاب الفتن میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جو یہ کہتی ہے:-
"معه جنة ونار فناره جنة وجنته نار۔”
اس کا ترجمہ یوں ہے: "دجال کے ساتھ ایک جنت ہوگی اور ایک جہنم ہوگی۔ اس کی جہنم دراصل جنت ہوگی "اور اس کی جنت جہنم۔”۔
ایک عام آدمی اس حدیث کو سرسری نظر سے دیکھے تو شاید بھٹک جائے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دجال اپنے ساتھ جنت و دوزخ ساتھ ساتھ لیے چل رہا ہو۔ تو جان لیجیے کہ یہ ممکن ہے۔ اور یہ ممکن ہوا ہے سائنس کی ایک انوکھی ایجاد سے جسے
Immersive Virtual Reality
یعنی ایک ایسا مصنوعی ماحول پیدا کیا جانا جس میں داخل ہو کر انسان کو ایسا محسوس ہو کہ وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے یا محسوس کر رہا ہے وہ سب حقیقتاً ویسا ہی ہے۔ یوں جب کسی کو دجال کی جنت ملے گی تو وہ اس میں داخل ہو کر وہی سب کچھ دیکھے گا اور محسوس کرے گا جو اس نے جنت کے بارے میں سوچ رکھا ہے۔ انسانی ذہن کو اپنی مرضی کے مطابق محسوس کرانا اب کچھ پرانا ہو گیا ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے تھری ڈی یا فور ڈی کی فلموں وغیرہ کا تجربہ کافی ہو گا۔ جنت و دوزخ کا یہ ماحول بہت ہی جدید بنیادوں پر انتہائی ماہرانہ ہاتھوں میں انجام پا رہا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی دجال کی خدمت کے لیے ہی ایجاد ہوئی ہے۔
ہم یہ حدیث بھی جانتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دجال ایک گدھے پر سوار ہو گا جس کے کان مشرق و مغرب تک پھیلے ہوں گے اور بادلوں کی رفتار سے بھی تیز چلے گا اور دنیا میں جہاں چاہے گا پہنچ جائے گا۔ جس وقت آپ نے یہ حدیث اپنے صحابہ کرام کو سنائی ہو گی تو شاید کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ہو گا کہ گدھے جیسا سست رفتار جانور کیسے ایسی طاقت کا مالک ہو گا کہ وہ مشرق و مغرب کو تاراج کر دے گا۔ آج ہم خود اس گدھے پر سور ہو کر ہزاروں میل کا سفر صرف تھوڑے سے وقت میں طے کر لیتے ہیں۔ دجال کا یہ گھوڑا یقیناً سپر سانک یا اس سے بھی زیادہ طاقت والی کسی سواری کی طرح ہو گا۔ صدقت یا رسول اللہ۔
مستدرک حاکم میں ایک حدیث مبارک حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:-
"فانه يبدأ فيقول أنا نبي ولا نبي بعدي ثم يثني حتى يقول أنا ربكم۔”
اس کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا: "وہ پہلے کہے گا کہ میں اللہ کا نبی ہوں حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ "پھر اعلان کرے گا کہ میں ہی تمہارا اللہ ہوں۔
اسی طرح مسند احمد میں اور مستدرک حاکم میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے:-
"وإن رأسه من ورائه حبك حبك، وإنه سيقول: أنا ربكم۔”
مطلب اس کا یوں ہے: ’’وہ (دجال) سر میں پیچھے سے گنجا ہو گا اور وہ یہ کہے گا کہ میں تمہارارب ہوں۔‘‘
اور یہی نہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا یہ اعلان ساری دنیا کے لوگ دیکھیں گے اور سنیں گے۔ ’’یا اللہ یہ سب کیسے ممکن ہوگا ؟‘‘ یہ شاید آج سے سو سال پہلے کے لوگ سوچتے ہوں گے مگر ہم اور آپ جانتے ہیں کہ یہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ ممکن ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن کی ترقی اس حد تک جا چکی ہے کہ ہمیں اور آپ جیسے عام آدمیوں کے علم میں بھی نہیں ہے اس لیے کہ ہم وہی جانتے ہیں جو اس دجالی دور میں ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل درست ارشاد فرمایا ہے اور ایسا ہی ہوگا۔
ایک اور عجیب و غریب حدیث حضرت نواس بن سمعانt سے مسلم شریف کی کتاب الفتن میں درج ہے:-
"فیاتی علی القوم فیدعوھم فیومنون بہ ویستجیبون لہ فیامرالسمآء فتمطروا الارض فتبت.”
یعنی: ’’وہ (دجال) ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے۔ پھر وہ آسمان کو حکم دے گا کہ زمین پر بارش برسا اور بارش ہو گی۔‘‘
یہ کیسے ممکن ہو گا کہ بادل بارش برسا دے گا۔ شیطان نے اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے انسان سے کام کروایا اور اب زراعت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے انتہائی اعلیٰ درجہ پر پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک شخص اپنی بنائی ہوئی ایک مشین کے ذریعہ ایک خطہ پر پانی کے ذریعہ بھاپ بناتا ہے جو اوپر جاکر بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور جب گہرے ہو جاتے ہیں تو بارش برسا دیتے ہیں۔ اور یہ بھی آپ کے علم میں یقیناً ہوگا کہ ہوائی جہاز کے ذریعہ بادلوں سے اوپر جاکر اس پر کوئی ایسا کیمیائی پائوڈر چھڑکتے ہیں جو بادلوں میں پانی کے قطروں کو اتنا بھاری کر دیتا ہے کہ وہ بارش برسا دیتے ہیں۔ اس طریقہ سے ہمارے پاکستان میں بھی آج سے تقریباً پچاس سال پہلے کچھ کامیاب تجربے بھی ہوئے تھے۔ حضور پاک ﷺ کی احادیث حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی دجال کی خدمت پر کمر بستہ ہے۔
زراعت انسان کی بڑی اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ اچھی زراعت اور اچھی پیداوار انسان کے آرام اور پر سکون و پر آسائش زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ زراعت کے اوپر بھی دجال کا عمل دخل نہ ہو۔ کیونکہ اچھی فصل کی پیداوار دجال کو خدائی کے دعوے کروانے اور اس کو منوانے میں بڑا اہم رول ادا کرے گا۔ یہ حدیث تو ہم جانتے ہیں کہ دجال جب زمین کو حکم دے گا تو زمین پر بارش بھی ہوگی اور آناً فاناً اس پر سبزہ بھی اگے گا اور فصلیں بھی اگ آئیں گی۔ مسلم کی حدیث نواس بن سمعانt ہی میں ہے:-
”ویصدقونہ فیأمرالسمآءأن تمطر فتمطر ویامرالارض ان تنبت فتنبت فتروح علیھم سارحتھم کاطول ما کانت ذرا وامدہ خواصر وادرہ ضروعا.“
’’وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا وہ برسائے گا زمین کو درخت لگانے کا حکم دے گا وہ درخت اگائے گی شام کو ان کے جانور چراگاہوں سے اس حالت میں لوٹیں گے کہ ان کے کوہان لمبے لمبے کولہے چوڑے اورپھیلے ہوئے اور تھن دودھ سے بھرے ہوں گے۔‘‘
آیئے جان لیتے ہیں کہ
Precision Agriculture اور Terra Farming and Terra Defarming
کے تجربات نے انتہائی تیز رفتاری اور سرعت سے زمین سے نباتات اور فصلیں اگانے کا تجربہ کامیاب بنا لیا ہے اور یہی ٹیکنالوجی دجال کے ہاتھ میں آئے گی تو یقیناً اس میں اور بھی زیادہ ترقی ہو چکی ہو گی اور جن سے وہ لعین خوش ہو گا ان کے لیے آناً فاناً فصلیں کھڑی کر دے گا اور جن سے نا خوش ہو گا ان کی زمین کو دیکھتے دیکھتے بنجر بنا دے گا۔ ٹیکنالوجی دجال کی خدمت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ صادق الوعد سید المرسلین ﷺ نے بالکل سچ ارشاد کیا اور آج ہم اس حدیث کے نتائج دیکھنے کے بہت قریب ہیں۔
موجودہ دور کے مغربی عیسائی مبلغ دجال
Anti Christ
کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دجال بہت زبردست مقرر ہو گا اور دنیا جہاں کے ٹیلی ویژن پر آکر تقریر کرے گا اور اپنے عیسیٰu ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹی وی کی بجائے وہ لیزر اور ہولو گرام
(Laser and Hologram)
کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ بیک وقت ساری دنیا کے افق پر نمودار ہو گا۔ لوگ اس کو جاگتی آنکھوں سے آسمان پر چھائے ہوئے دیکھیں گے اور اس کی تقریر سنیں گے اور جب وہ کہے گا کہ میں ہی تمہارا رب اعلیٰ ہوں تو واللہ اعلم کتنے لوگ بھٹک جائیں گے اور اس کے آگے حیرت زدہ ہو کر سجدے میں گر پڑیں گے۔ ابلیس مردود کی یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ مسلمانو ! اللہ نے ہمیں آزمانے کے لیے بڑے بڑے فتنے پیدا کیے ہیں۔ ہم اللہ کو مانیں یا نہ مانیں اس سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ فرق تو صرف ہماری اپنی ذات کو پڑے گا۔ ثابت قدم رہے تو اللہ کے بندوں میں شامل ہوں گے ورنہ دجال کے ساتھ جہنم کا کندہ بنیں گے۔ العیاذ باللہ۔ ہولو گرام تو اب ایک معمولی سی چیز بنتی جا رہی ہے کیونکہ اس کا تجربہ تو اب ہر جگہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعہ آپ کسی شخص کو جو آپ سے ہزاروں میل دور ہو جیتا جاگتا گوشت پوست میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں اور اس کی آواز سن سکتے ہیں۔ اس کا تجربہ تو ہمارے کسی چینل پر پچھلے دنوںہوا اور اغلباً بلاول بھٹو زرداری کا انٹرویو ہولو گرام کے ذریعہ سے دکھا یا گیا۔
Genetic Engineering
یعنی جینیاتی انجینئرنگ جس میں انسانی جین کو حسب ضرورت تبدیل کرکے اپنی مرضی کی مخلوق بنا لینا بھی کافی حد تک ترقی پا چکی ہے۔ باہر کی دنیا میں تو پیدا ہونے والے بچوں کا رنگ، ان کی جسمانی ساخت، ذہنی استعداد اور دیگر بہت ساری چیزوں کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ اور اپنی مرضی کے بچے پیدا کرنے کا کام اب رو بہ ترقی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کلوننگ کے ذریعہ کافی عرصہ پہلے سائنس دانوں نے بھیڑ کا بچہ مصنوعی طریقوں سے پیدا کر لیا تھا۔ اب اس میں ایسی محیر العقول ترقی ہوئی ہے کہ جس کے ذریعہ وہ زندگی اور موت کو اپنی مرضی کے مطابق کرلیں گے۔
Cryonics
نام کی ٹیکنا لوجی کے ذریعہ زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کی مدد کے ساتھ جانوروں کی معدوم ہوئی نسل کو دوبارہ پیدا کرنے کا کام کافی زوروں پر جای و ساری ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ عنقریب وہ راز جان لیں گے جس کے ذریعہ انسان موت کو شکست دے اور امر ہو جائے۔ یہ یہودیوں کا خواب ہے کیونکہ وہ موت کے اوپر قابو پانا چاہتے ہیں۔
Regenerative Medicine اور Stem Cell Treatment
کے ذریعہ سے انسان کے مختلف اعضاء کی دوبارہ پیدائش کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا کان ایک حادثہ میں ختم ہو گیا تو اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کے جسم میں ہی کسی حصہ پر ایک نیا کان پیدا کر لیا گیا جو مکمل ہونے کے بعد اس کے کان کی جگہ پر لگا دیا گیا۔ اور تو اور مصنوعی دماغ کی تیاری پر بھی کام ہو رہا ہے اور
Artificial Intelligence
کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہم اور آپ سب گو گل کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ آپ ایک سوال گو گل سے پوچھتے ہیں تو وہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں لاکھوں فائل کھنگال کر آپ کو آپ کے سوال کا جواب مہیا کر دیتا ہے، ہے نا محیر العقول بات۔ مگر دیکھیے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب مصنوعی ذہانت کا کرشمہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گو گل کی عقلی ذہانت اس وقت صرف آٹھ یا دس برس کے بچے کی ذہانت جتنی ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب گو گل اپنی بلوغت تک پہنچے گا تو کیا عالم ہو گا۔ اور یہی چیز جب دجال کی خدمت کرے گی تو دجال کے پاس کون سی بات کا جواب نہیں ہو گا اور ہم سب کو عقلی طور پر کیسا حیران و پریشان کردے گا۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس مصنوعی ذہانت کو مصنوعی دماغ میں لگا کر ایک ایسا انسان پیدا کرنے کی کوشش ہے جو دجال کی مرضی کے مطابق چلے۔
اس کے ساتھ ہی میڈیکل سائنس کو ایک قدم اور آگے لے جاکر دل، گردوں، پھیپھڑوں اور دیگر اعضائے انسانی کی تبدیلی کے بعد انسانی دماغ کی تبدیلی کے اوپر بھی کام ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق یہ کام بہت ہی مشکل اور پیچیدہ ہے مگر انھوں نے اس میں بہت ترقی کرلی ہے اور امکان ہے کہ دیگر جسمانی اعضاء کے ساتھ انسانی دماغ بھی ایک جسم سے اتار کر دوسرے جسم میں لگا دیا جائے گا۔
Brain Computer Interface
کے اوپر بھی بڑی شدومد سے کام ہو رہا ہے اور انسانی دماغ کو کمپیوٹر کے ساتھ جوڑنے اور اس کے ساتھ ملا کر انسانی دماغ کی استعداد میں اضافہ کا پروگرام بھی جاری و ساری ہے۔ اور یہ ایجاد دجال کے کس قدر کام آئے گی اس کا اندازہ پوری شدت سے ہم اِس وقت نہیں لگا سکتے۔ مگر وہ وقت دور نہیں جب ایسا ہو گا۔
DNA Digital Data Storage
ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ سے انسانی خون میں موجود ڈی این اے کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ تمام اطلاعات جو ہم آج کمپیوٹر میں جمع کرتے ہیں وہ اس کو اپنے پاس نہ صرف یہ کہ جمع کرے بلکہ بوقت ضرورت وہ انسان کے کام میں آئے۔ اس طرح انسان کی قابلیت میں بھی اضافہ ہو گا اور اس کے کام کرنے کی استعداد بھی بڑھے گی۔ پھر انسان ایک روبوٹ بن جائے گا اور اس کو جہاں اپنی ذہانت استعمال کرنے کی اجازت ہوگی وہاں وہ اپنے مالکوں کی دی گئی ہدایات سے رو گردانی نہیں کر سکے گا اور دجال کی مکمل تابعداری اس کے خون میں دوڑ رہی ہوگی۔ اللہ محفوظ رکھیں۔
Automated Technology
ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعہ سے تمام کام کو بغیر انسانی شمولیت کے کیا جا سکے گا۔ اس سلسلہ میں آپ نے بغیر ڈرائیور کے چلنی والی گاڑیوں کا سنا ہو گا۔
Tesla
نامی گاڑی تو امریکہ وغیرہ میں سڑکوں پر آگئی ہیں اور استعمال میں ہیں۔ گو گل کمپنی نے ایک ایسی ہی سائیکل ایجاد کی ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ گرتی نہیں، سیدھی کھڑی رہتی ہے۔ دھکا بھی دیں تو سیدھی ہو جاتی ہے۔ خود کار نظام کے تحت چلتی ہے اور
GPS
کے ذریعہ اس کو راستے کی ہدایت ملتی ہے اور وہ اپنا راستہ بھی معلوم کرتی ہے اور رکاوٹوں اور خطرات سے بھی اپنے آپ کو بچاتی ہے۔ ڈرون کی ٹیکنالوجی بھی اسی کے قبیل میں سے ایک ایجاد ہے جو انسانیت کی فلاح کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے تو اسی کو اسلحہ سے لیس کر کے انسان کو تباہ کرنے کا کام بھی لیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ کل دجال کی فوج کا ایک بڑا حصہ ایسی ہی ایجادات پر مبنی ہو گا جس کے ذریعہ سے وہ تباہی بھی پھیلائے گا اور اس کی افرادی قوت محفوظ بھی رہے گی۔
Automated Guided Vehicles
مستقبل کے انسان کو ڈرائیونگ کے جھنجھٹ سے نجات دے گی۔ بظاہر تو یہ ہمارے فائدے کی چیز نظر آرہی ہے مگر اس سے دجال کے گماشتے کیا کیا کام لیں گے یہ ہم فی الوقت سوچ بھی نہیں سکتے۔
جدید ٹیکنالوجی کا یہ موضوع اس قدر طویل اور پیچیدہ ہے کہ اس کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ یہ تمام کام انتہائی رازداری کے ساتھ بہت چھپا کر کیے جا رہے ہیں اور اس کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑنے دی جاتی ہے۔ بعض ایجادات کو جب آزمانے کا موقع آتا ہے تو اس کو ایک خوش نما رنگ دے کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ دنیا اس کو استعمال کرے اور اس کے نتائج حاصل کرکے اس کی روشنی میں اس کو مزید بہتر بنایا جائے۔ امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک میں ان کی فوج نے ادارے قائم کیے ہوئے ہیں جو رازداری سے اپنی ریسرچ بھی کر رہے ہیں اور مختلف چیزیں ایجاد کر رہے ہیں۔ اور ان کی یہ مساعی صرف زمین پر ہی نہیں ہے بلکہ فضا میں، چاند اور مریخ پر بلکہ اس سے پرے کائنات کے مختلف گوشوں میں بھی یہ مصروف عمل ہیں۔
حضرات جان لیجیے کہ یہ دنیا بڑی تیزی کے ساتھ دجال کے حوالہ کر دیے جانے کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔ یہود تو خیر ہیں ہی ابلیس کے حامی اور پارٹنر، انھوں نے نصاریٰ کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا ہے اور دھوکہ سے اپنے آپ کو ان کا حامی بتا تے ہیں اور مسلمانوں کو عیسائیوں کا دشمن گردانتے ہیں۔ مگر ہمارا ایمان یہ ہے کہ دجال جتنی مرضی ترقی کرلے اور اس کے گماشتے جتنی بڑی اور عجیب و غریب ٹیکنالوجی لے کر اس کی مدد کو آ جائیں اس کو کامیابی نہیں مل سکتی۔ اس کی قسمت میں اللہ رب کائنات نے ناکامی لکھ رکھی ہے۔ ابلیس اپنی انتہائی کوشش کے باوجود نہ دجال کو اور نہ ہی اپنے حامی یہود کو موت سے چھٹکارا دلا کر امر کر سکتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مقابلہ کر کے اللہ کی "کون” (قدرت) پر قبضہ کر سکتا ہے۔ یہ ابلیس اور اس کے دوست سب بھٹکے ہوئے ہیں۔ ابلیس تو اپنی ہٹ پر اڑا ہوا ہے اور انسانیت کے بھٹکانے میں ہی اس کو اپنی بھلائی نظر آ رہی ہے کیونکہ جو بڑ اس نے اللہ کے حضور ہانکی تھی وہ اس کو پورا کرکے دکھانا چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دجال ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ انسانیت کو اللہ کی راہ سے ہٹانے کا ایک بہانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ اس کو بغیر امتحان میں ڈالے جنت میں داخلے کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ اس امتحان میں ہمیں پاس ہونا ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے یہ فتنہ اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ بڑا سانحہ ابو البشر کو جنت سے نکال دینے کا تھا ۔
جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بڑائی اور بزرگی کا تعلق ہے ہمارا ایمان ہے کہ اس تک اللہ کی کوئی مخلوق نہیں پہنچ سکتی خواہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
كَتَبَ اللّـٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْ ۚ(المجادلۃ: ۲۱)
یعنی : ’’اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی یقیناً ہمیشہ غالب ہوں گے۔‘‘
اس ارشاد ربانی کے بر خلاف کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ابلیس اور اس کے دجال کے نصیب میں شکست ہے، بربادی ہے۔
ہم سب فانی ہیں اور بقا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ایک حکم کے اوپر جب صور پھونک دیا جائے گا تو سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا۔ نہ ابلیس بچے گا، نہ دجال اور نہ ہی یہود۔ ہم سبھوں کو اللہ کے حضور کھڑے ہونا ہے اور صرف وہی ذات ہے جو ہمیں انصاف کے ساتھ دیکھے گا کہ کس نے اس کی اطاعت و فرماں برداری کی اور کون بھٹکتا رہا۔ کس نے زندگی کو صرف مزے کرنے اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا دیا اور کون اللہ کی خاطر تمام دکھ جھیل کر بھی سیدھے اور سچے راستے پر گامزن رہا۔ دجال کا فریب اور دھوکہ صرف مجھے اور آپ کو اللہ کی اطاعت اور اس پر ایمان رکھنے سے بھٹکانا ہے۔ وہ لوگ جو اس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے اور اللہ کی جنت کے حقدار ہوں گے۔ اے کاش کہ ہم آج کل کے مسلمان اس بات کا ادراک کرلیں اور اپنی زندگی دجال کو شکست دینے میں لگا دیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اور آپ جیسے معمولی انسان جن کے پاس کوئی طاقت ہے نہ ٹیکنالوجی، دجال کو شکست دے سکتے ہیں؟ ؟ ؟ جی ہاں میرا ایمان ہے کہ ہم دجال کو شکست دے سکتے ہیں۔ آئیے ایک نظر اس بات کی طرف بھی ڈالیں کہ وہ کیا ذرائع ہیں اور وہ کیا اقدامات ہیں جن کے عمل سے دجال ہم پر قابو نہیں پا سکتا۔ ابھی جو کچھ میں تحریر کر رہا ہوں یہ میری ذہنی اپچ ہے اور نہ میری طرف سے کوئی بڑی اچنبھے والی بات، بلکہ یہ سب کچھ وہ ہے جو ہمارے آقا و مولا سید المرسلین صادق الوعد حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمیں پہلے سے بتا رکھا ہے اور ہم ان کی ان تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دجال کے چنگل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اس فتنہ عظیم سے بچنے کے لیے ہمیں آپ ﷺ کی ہدایات پر عمل کرنا ہی ہو گا۔
دجال کو شکست دینے کے طریقے
1- اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک اور رب کائنات ہونے کا مکمل ایمان۔ یہ ایمان کہ وہ ہی ہمارا مالک ہے اور اس نے ہمیں ہدایت کے راستے دکھا دیے ہیں اور ہمارا کام اس کے احکامات کی مکمل پاسداری ہے۔ اس کے ساتھ نہ کسی کو شریک کیا جائے نہ اس کے علاوہ کسی سے خوف کھایا جائے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور کو اپنا مددگار سمجھا جائے۔ یہ کہ ہمیں اس کے پاس واپس جانا ہے اور اپنی پوری زندگی کا حساب دینا ہے۔
2- اللہ تعالیٰ کے رسول اور ہمارے آقا و مولا کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہنا۔ اسلامی عقائد اور عبادات کی پابندی کے علاوہ حضور ﷺ کی تعلیم کی ہوئی تمام اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرنا۔ اچھا اور سچا مسلمان بننے کی کوشش میں رہنا اور دوسروں کو بھی دجال کے خطرہ اور اس کے بھٹکاوے سے بچنے کی ہدایت کرنا۔
3- یہ یاد رکھنا کہ دنیا ایک عارضی ٹھکانا ہے اور یہاں کا قیام صرف اس لیے ہے کہ ہمیں جس آزمائش میں اللہ ڈالے ہم اس میں اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق پورے اتریں۔ یہ یاد رکھیں کہ اَلَّـذِىْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (سورۃ الملک: ۲) کے مصداق ہمیں آزمائشوں سے یقیناً گزرنا ہے اور ان آزمائشوں میں ثابت قدمی اور استقامت سے اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کو کام میں لانا ہے۔ خواہ اس میں ہماری جان کو ہی خطرہ کیوں نہ ہو۔ ایمان کی سلامتی کے ساتھ جان سے گزر جانا ہی تو اس آزمائش میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے۔
4- سورہ کہف سے مکمل وابستگی اختیار کرنا۔ احادیث میں ہے کہ جو شخص سورئہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یا آخری دس آیتیں یاد کر لے گا اور اس پر مداومت اختیار کرے گا وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ اسی طرح ہر جمعے کو اس سورئہ مبارکہ کی تلاوت بھی فتنہ دجال سے محفوظ رکھنے کا سبب بنے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اس سورئہ مبارکہ کو یاد کرلیں۔ اس کے معانی و مطالب پر غور و فکر کریں کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فتنہ دجال سے نجات کے لیے اس سورئہ مبارکہ کی بطورِ نشاندہی بلا سبب نہیں ہو سکتی۔
5- ہمارے پیغمبر بر حق نے دجال کے فتنوں سے مکمل آگہی دے دی ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ دجال کے ظہور سے پہلے بھی اس جیسے دیگر فتنے ظاہر ہوتے رہیں گے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ اس کے فتنوں کی مکمل آگہی ہو جائے تاکہ اس کے فتنوں کا پتہ چلے اور جب پتہ چل گیا کہ یہ فتنہ دجالی ہے تو اس سے بچنے کی کوشش کرلی جائے۔ اس لیے احادیث مبارکہ کا مطالعہ اس فتنے سے بچنے کا ایک بڑا ذریعہ بن جائے گا۔
6- اسلامی شعائر کی مکمل پابندی کرنا۔ تمام عبادات کو عزم اور تندہی سے انجام دینا۔
7- ہربھٹکانے والی چیز سے پرہیز کرنا۔ جن کاموں سے روکا گیا ہے اس سے رک جانا۔
8- معاشرہ میں برائی پھیلانے والی چیزوں کو سمجھنا اور ان سے خود بھی اجتناب کرنا اور اس کے سدباب کے لیے دوسروں کو بھی ترغیب دینا۔
9- ناچ گانے، بے حیائی، فحاشی اور اسی قسم کی دیگر چیزیں جو معاشرہ میں بے راہ روی پھیلائیں، ان سے دور رہنا اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تعلیم دینا۔
آئیے برادرانِ اسلام اس آنے والے عظیم فتنے کی ابھی سے تیاری کرلیں اور اس کو شکست سے دوچار کرنے کا عزم کرلیں اور اپنے راستے درست کرکے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر گامزن ہو جائیں۔ اللہ آپ کا بھی حامی ہو اور ہمیں بھی ہدایت کے راستے پر ڈال دے ۔ آ مین۔ وما توفیقی الا باللہ۔
السلام علیکم! محترم کیا مجھے ہیومن رائٹس کے فلسفیانہ اور تاریخی ارتقائی پس منظر اور بنیادوں پر کوئی مختصر تعارفی کتاب یا جامع مضمون یا مضامین مل سکتے ہیں؟ جس میں معلوم ہوسکے کہ ہیومن رائٹس کیسے ، کیوں اور کن بنیادوں پر وجود میں آیا؟ شکریہ کا موقع دیں
Sent from my Sprint Samsung Galaxy S8+.
پسند کریںپسند کریں