الواقعۃ شمارہ : 78 – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ
از قلم : ابو الحسن
حضرت خاتم النبیین ﷺ کے بے شمار امتی اپنے نبی کے قریب ترین رشتہ داروں کے حالات، نام، تعداد کے تعلق سے اتنا نہیں جانتے جو دعوائے حبّ رسول کا تقاضا ہے کہ جانیں۔
مختصر مضمون میں اعداد و شمار کے ساتھ مختصر ترین تعارفی حالات درج کیے گئے ہیں۔
ازواج النبی (امہات المومنین)۔
۔1- حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
۔2- حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
۔3- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
۔4- حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
۔5- حضرت زینب (ام المساکین) رضی اللہ عنہا
۔6- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
۔7- حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت حجش
۔8- حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا
۔9- حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
۔10- حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا بنت یزید
۔11- حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہ
۔۔12- حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
۔13- حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بنت الحارث
امہات المومنین رسول کریم ﷺ سے نکاح میں آنے سے قبل مختلف سماجی، مذہبی، نسلی پس منظر رکھتی تھیں۔ دو امہات المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا نے رسول کریم ﷺ کی زندگی میں وفات پائی۔
بخاری، مسلم اور ترمذی کی ایک مشہور روایت ہے:-
"ما مست يد رسول اللہ يد امرأة قط إلا امرأة يملكها.”
"کسی ایسی عورت سے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ مس نہیں ہوا جو حضور ﷺ کے نکاح میں نہ ہو۔”
فرزندانِ رسول:
آنحضرت ﷺ کے تین صاحبزادے تھے۔
۔1- حضرت قاسم رضی اللہ عنہ: یہ آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ ان ہی کے نام سے آپ ﷺ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ صغر سنی میں انتقال کیا۔ بعض روایات میں ہے صرف پیروں پر چلنے کی عمر تھی۔
۔2- حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ: زمانہ نبوت میں پیدا ہوئے۔ بہت کم عمر پائی۔
۔3- حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ: رسول کریم ﷺ کے یہ تیسرے صاحبزادے، وہ واحد اولاد ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے جو ایک مصری نژاد خاتون تھیں۔ ذی الحجہ 8 ہجری میں ولادت ہوئی۔ ابو رافع نے ولادت کا مژدہ سنایا تو آنحضرت ﷺ نے انھیں غلام عطا کیا۔ ساتویں دن عقیقہ ہوا۔ جب یہ بیمار تو رسول کریم ﷺ کو اطلاع دی گئی، تشریف لائے۔ حالتِ نزع میں تھے تو حضور ﷺ نے گود میں اٹھایا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے حضور نے نمازِ جنازہ پڑھایا۔ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ تاریخ انتقال 29 شوال 10 ہجری (27 جنوری 632ء) بیان ہوئی۔ عمر 16 مہینے 8 دن، ایک سال 10 ماہ 6 دن، 17 یا 18 مہینے بیان ہوئی۔
رسول کریم ﷺ کی صاحبزادیاں:
رسول کریم ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ چاروں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔
۔1- حضرت زینب رضی اللہ عنہا : سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب تھیں۔ بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئیں، جب رسول کریم ﷺ کی عمر 30 سال تھی۔ آپ کا نکاح آپ کے خالہ زاد ابو العاص رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ ابو العاص رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں مشرکین کے ساتھ شریک ہوئے اور قید ہوئے۔ بلا ادائی فدیہ مکہ واپس ہوئے اور حسبِ وعدہ بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ روانہ کر دیا۔ 31 سال کی عمر میں 8 ہجری میں انتقال ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر قبر میں اتارا۔ 2 بچوں کی ماں بھی تھیں، جن کا ذکر آگے آئے گا۔
۔2- حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا: آنحضرت ﷺ کی دوسری صاحبزادی رقیہ 7 برس قبل نبوت پیدا ہوئیں۔ فتح بدر کے دن رمضان 2 ہجری میں انتقال ہوا۔ ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے قبل بعثت نکاح ہوا تھا۔ بعثت کے بعد بد بخت ابو لہب نے طلاق دلوائی۔ حضرت عثمان سے نکاح ہوا۔ نبوت کے پانچویں سال جب مسلمانوں کی ایک تعداد نے مشرکین کے ظلم و ستم اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حسد سے جینا محال کر دیا تو حبشہ کو ہجرت کی۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا مدینہ واپس آنے نکلیں، حالات ناسازگار دیکھ کر پھر حبشہ کو ہجرت کی۔ جب ہجرت مدینہ کا عمل شروع ہوا تو دونوں نے راست حبشہ سے مدینہ ہجرت کی۔ دونوں نے طویل عرصہ حبشہ میں گزارا۔
۔3- حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا : بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد رسول کریم ﷺ نے اپنی تیسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان سے ہی کرا دیا۔ 6 برس شوہر کے ساتھ رہیں۔ کوئی اولاد نہیں ہوئی، 9 ہجری میں انتقال ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھایا۔
۔4- حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا : رسول کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ بعض روایات کے مطابق ایک برس قبل نبوت ولادت ہوئی۔ 10 نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو شفقتِ مادری سے محرومی پر رسول کریم ﷺ کی توجہ و شفقت اور محبت و چاہت اور بڑھ گئی۔ ذی الحجہ 2 ہجری میں حضرت علیرضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ وفات کے وقت 24 سال عمر بیان کی گئی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے مرض موت میں اپنی صاحبزادی کے غم و اندوہ کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ میرے بعد مجھ سے جلد ملنے والی تم ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا وفاتِ نبوی کے تقریباً چھ ماہ بعد بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا انتقال فرما گئیں۔
دامادانِ رسول:
رسول اللہ ﷺ کے تین داماد تھے۔
۔1- پہلے حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ جن کا کچھ ذکر حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول کے ذکر میں ہوا۔ انھوں نے جنگِ بدر میں قید ہونے کے بعد رہائی پائی اور حضرت زینب کو حسبِ وعدہ مکہ سے مدینہ روانہ کر دیا۔ خود مکہ میں رہے اسلام قبول نہیں کیا۔ تاجر پیشہ تھے۔ 6 ہجری میں ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کے سفر سے واپس مکہ آ رہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں میں تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص رضی اللہ عنہ چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب نے ان کو پناہ دی۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابو العاص رضی اللہ عنہ کا مال و سامان واپس کردو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص رضی اللہ عنہ ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ مدینہ آکر حضرت زینب کے ساتھ رہنے لگے۔ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی انھوں نے حضرت زینب کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی دوسری شادی نہیں کی۔ رسول کریم ﷺ اپنے داماد ابو العاص رضی اللہ عنہ بن ربیع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : ’’ اس نے مجھ سے بات کی اور سچی بات کی اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا اور اسے پورا کر دکھایا۔ ‘‘ (بخاری) جناب ابو العاص رضی اللہ عنہ کی وفات ماہِ ذی الحجہ 12 ہجری مطابق ماہِ فروری 634ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
۔2- رسول اللہ ﷺ کے دوسرے داماد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے جنھوں نے یکے بعد دیگرے رسول کریم ﷺ کی دوسری اور تیسری صاحبزادی سے نکاح کیا۔ اسلام لانے والوں میں وہ پانچویں شخص تھے۔ 12 سال خلیفہ رہنے کے بعد 35 ہجری میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد دور رَس اثرات ہی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی المناک شہادتیں شامل ہیں۔ ان کے اذکار سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ان کا دہرانا اس مضمون کے مقاصد میں شامل نہیں۔
۔3- حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ کے تیسرے داماد، رسول کریم ﷺ کے پروردہ اور چچا زاد بھائی تھے، چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ 4 سال 9 ماہ خلافت کے بعد 20 رمضان 40 ہجری میں کوفہ میں شہید کیے گئے۔ کون مسلمان ہے جو ان کی فضیلت و عظمت کا قائل نہیں ؟ ان کی شخصیت اور کارنامے انسانی تاریخ کا سرمایہ ہیں۔ مضمون ان تفصیلات کا متحمل نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ صدر دو داماد شہید ہوئے۔ خلفائے راشدین میں شریک ہیں اور عشرہ مبشرہ میں بھی۔
رسول کریم ﷺ کے نواسے:
رسول کریم ﷺ کے پانچ نواسے تھے۔ ایک حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے ایک حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے، تین حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے۔
۔1- رسول کریم ﷺ کے پہلے نواسے حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی العاص تھے۔ ابن عساکر نے لکھا ہے کہ جنگِ یرموک میں شہادت پائی۔ فتح مکہ کے وقت رسول کریم ﷺ کے ردیف تھے یعنی اس اونٹ پر سوار تھے جس پر سوار ہو کر رسول اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے۔
۔2- دوسرے نواسے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ تھے، جن کے نام پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ حبشہ میں پیدا ہوئے۔ تقریباً 6 برس کی عمر میں 4 ہجری میں وفات پائی۔ رسول اللہ ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور ان کے والد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں لحد میں اتارا۔
۔3- حضرت حسن رضی اللہ عنہ بن علی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزندِ اول 3 ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ روانہ ہوئےاور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کے مشیر و دستِ راست رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حسبِ وصیتِ پدر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت اور بیعت کرلی۔ مدینہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات سے قبل وفات پائی اور اپنی والدہ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر کے قریب مدفون ہوئے۔
۔4- حضرت حسین رضی اللہ عنہ بن علی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزندِ دوم شعبان 4 ہجری میں پیدا ہوئے۔ 10 محرم 60 ہجری میں کربلا کے معرکہ میں شہید ہوئے۔
۔5- حضرت علی رضی اللہ عنہ و سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تیسرے فرزند حضرت محسن کم سنی میں وفات پا گئے۔
رسول کریم ﷺ کے نواسوں میں حضرات حسنین ہی پختہ عمر (زائد از 40 سال) کو پہنچے۔
رسول کریم ﷺ کی نواسیاں:
رسول کریم ﷺ کی تین نواسیاں تھیں۔
۔1- حضرت امامہ رضی اللہ عنہا بنت ابو العاص: یہ حضرت رسول کریم ﷺ کی پہلی نواسی، پہلی بیٹی کی دوسری نسل میں پہلی اولاد تھیں۔ رسول کریم ﷺ کو عزیز تھیں۔ آپ ﷺ انھیں اپنی گود میں لے کر نماز پڑھتے اور سجدہ کے وقت اتار دیتے تھے۔ ان کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بی بی فاطمہ کے حین حیات کوئی شادی نہیں کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت بی بی امامہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔
۔2- حضرت ام کلثوم: یہ بی بی فاطمہ کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست پر ان کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔
۔3- حضرت زینب: بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کے پاس دمشق روانہ کی گئیں وہاں انھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ یزید سے گفتگو کی۔ دمشق میں وفات پائی۔