حرمت رسول ﷺ اور ہمارا لائحہ عمل – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 78  – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مغرب ایک شدید ترین احساس کہتری کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے پاس اسلام کی عظمت رفتہ کے مقابل پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ اس کے پاس سیرت محمدی کی رفعتوں کا کوئی جواب ہے۔ ہر چند برسوں میں توہین رسالت کے اقدامات اور توہین آمیز خاکے مغرب کی شکست کا ذلت آمیز اظہار ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے جاری کشمکش اب ایک نئے موڑ پر آ پہنچی ہے۔ نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر گیرت وائلڈر نے رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کا اپنی پارلیمینٹ ہائوس میں عالمی سطح پر مقابلہ کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام کے حوالے سے اس کے خیالات قبل ازیں بھی متعصبانہ اور فتنہ انگیز ہی رہے ہیں۔ وہ نیدر لینڈ میں قرآن کریم پر پابندی کی مہم چلاتا رہا ہے۔ مسلم ممالک سے مہاجرین کی آمد کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ مساجد کی تعمیر کو ممنوع قرار دینے کی حمایت کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے اس کے نظریات نا قابلِ بیان حد تک جارحانہ ہیں۔ اس نے "فتنہ” کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی جس میں اسلام، قرآن اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑایا۔ اپنے اسلام مخالف بیانات کی وجہ سے وہ مسلسل خبروں میں رہتا ہے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں کی اپنے رسول ﷺ سے جذباتی وابستگی بھی محتاجِ بیان نہیں۔ ہمارے لیے نا ممکن ہے کہ ہم اپنے محبوب نبی ﷺ سے محبت کرنا ترک کردیں یا اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیں یہ محبت بالکل غیر مشروط ہے۔ یقینی اور ایمانی تقاضا ہے۔ محبت اور نفرت کی اس جنگ میں اب ایک اہم اور کسی درجہ میں فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔ آج مغرب میں ایسے کئی عناصر ہیں جو اظہارِ رائے کی آزادی کے پردے میں رسول اللہ ﷺ کی توہین کا پیہم ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ مغربی معاشرہ اسے فرد کی آزادی سے تعبیر کرتا ہے جب کہ اس "آزادی” سے مسلمانوں کے جذبات مجروح و مشتعل ہوتے ہیں۔ مغرب کے وہ عناصر جو توہینِ رسالت میں فرد کی آزادی تلاش کر رہے ہیں اس وقت ان کی یہ تلاش کہاں چلی جاتی ہے جب ہولو کاسٹ کا انکار کیا جائے۔ مغربی اظہار رائے کی آزادی کے تصور کی منافقت اس وقت کھل کر عیاں ہو جاتی ہے جب ہولو کاسٹ کا انکار کیا جاتا ہے۔ کئی مغربی ممالک ہیں جہاں ہولو کاسٹ کا انکار غیر قانونی اور لائقِ سزا جرم ہے۔
ہمارے خیال سے ہولو کاسٹ کے انکار سے کہیں زیادہ توہینِ رسالت کا ارتکاب انسانی جرم ہے۔ ہمارا تصورِ رسالت صرف جناب رسالتمآب محمد رسول اللہ ﷺ تک محدود نہیں بلکہ انبیائے سابقہ علیہم السلام بھی اس میں شامل ہیں۔ مغرب کی اکثریتی آبادی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں پر مشتمل ہے ہماری نظر میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی توہین بھی نا قابل برداشت ہے۔ مذعومہ ہولو کاسٹ کے شکار یہودی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اپنا نبی مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک جلیل القدر نبی ہیں اور ان کی توہین بھی نا قابل معافی جرم ہے۔ اس اعتبار سے ہم مسلمانوں کا نظریہ حرمت رسالت دنیا کے تین بڑے مذاہب کی وحدت کی اساس ہے لیکن اسے ہی ہمارا جرم بنا دیا گیا۔
مغرب کو یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنے رسول کی عزت و حرمت پر حرف گیری کسی طور برداشت نہیں کر سکتے۔ چند شر پسندوں کی یہ چھیڑ چھاڑ کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور اس کے لیے مسلمانوں سے کہیں زیادہ مغربی ریاستوں کے ارباب اقتدار ذمہ دار ہیں جو ان شر پسندوں کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک دہشت گرد بم دھماکہ کرتا ہے جس سے چند افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دس بیس یا پھر سو ڈیڑھ سو۔ گیرت وائلڈر کے اقدام سے سوا ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ چند اکائی یا چند سو نہیں بلکہ کڑوڑوں افراد اس سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور کسی بھی جگہ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ جذبات کی اشتعال انگیزی قانون کی زبان نہیں سمجھتی اور اس اشتعال انگیزی کا ذمہ دار محض ایک شخص ہے، نیدر لینڈ کا باسی ایک بد دماغ شخص جو دنیا کو تفرق و ا نتشار سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ ہم مغرب سے سوال کرتے ہیں کیا وہ اسلام اور مغرب کی جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں اور کیا دنیا اس ہلاکت آفرینی کو برداشت کر سکتی ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ مغرب کی کثیر تعداد گیرت وائلڈر کے اقدام کو نا پسند کرتی ہے۔ لیکن ان کی خاموشی گیرت وائلڈر اور اس قماش کے لوگوں کی ہمت بڑھا رہی ہے مغرب کے امن پسند اور صلح جو باسیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالیں اور اس قماش کے لوگوں کا سماجی مقاطعہ کیا جائے۔ شر پسندوں کی شرارت پر امن پسندوں کی خاموشی سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔
اس کے بر عکس ہمارا جو طرزِ عمل ہے وہ محض جذبات کی ہیجانگی اور عقل و شعور سے بے بیگانگی کی خبر دیتا ہے۔ خاکوں کی جتنی تشہیر ہماری جذبات سے لبریز مگر عقل سے عاری پاکستانی قوم نے کی ہے، اتنی تو گیرٹ وائلڈر اورہالینڈ کی حکومت بھی نہ کرسکی۔ ہم رد عمل میں اپنا ہی گریباں چاک کرتے اور اپنا ہی سینہ پیٹتے ہیں۔ اگر سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلیں گے تو اپنے ہی بھائیوں کی املاک کا نقصان کرکے اپنے جذبات کی تسکین کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے اور ہمارا احتجاج کوئی رنگ نہیں لارہا۔ اس کے برعکس اگر پورے شعور و اذعان کے ساتھ کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جاتا اور متحد ہو کر اس شر انگیزی کا سامنا کیا جاتا تو آج نوبت اس مقام تک نہ پہنچتی۔ بار بار اس شر انگیزی کو اب بہر صورت ختم ہو جانا چاہیے۔
توہین آمیز خاکوں کی تشہیر کرنے کی بجائے ان کو نظر انداز کرکے ہم اس طرح اپنا لائحہ عمل مرتب کر سکتے ہیں:-
1- وہ تمام ممالک جو ان شر پسند عناصر کے پشت پناہ ہیں، ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔
2- دنیا بھر میں ان ممالک کے سفارت خانوں کے باہر پُر امن رہتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جائے۔ تاکہ ان کی حکومتوں کو اندازہ ہو سکے کہ ایسے شر پسندوں کی سر پرستی انھیں کس مقام پر لے جائے گی۔
3- تمام مسلمان ممالک کی عوام اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان ممالک کا معاشی مقاطعہ کریں اور سفارتی تعلقات منقطع کر لیں۔
4- اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی جائے کہ مقدس شخصیات کو نشانہ تضحیک بنانا عالمی سطح پر نا قابل معافی جرم قرار دیا جائے۔ تاکہ دنیا میں پیدا ہونے والے انتشار و افتراق کا کچھ مداوا ہو سکے۔
5- مغربی دنیا ہولو کاسٹ کے لیے بڑی ہمدردانہ جذبات رکھتی ہے۔ اگر وہ توہین رسالت کا ارتکاب کرتے ہیں تو بخوبی جانتے ہیں  مسلمان نہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی اور نہ ہی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی توہین کر سکتے ہیں۔ لیکن انھیں ان ہی کی طرح اذیت پہنچانے کے لیے ہولو کاسٹ کا انکار کیا جائے اور اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر اس کا مذاق بنایا جائے۔
مسلمان اپنی قوت نہیں جانتے۔ ان کی جذباتیت ان کی عقل پر غالب آ جاتی ہے۔ اور معلوم ہے کہ جذبات کے طوفان خواہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ اٹھ جائیں بالآخر تھم جاتے ہیں اس کے برعکس عقل و شعور سے کیے گئے فیصلے دیرپا تاثیر رکھتے ہیں اور دنیا کو بدلنے کی قوت بھی۔
سوا ارب مسلمان اگر کسی ملک کا معاشی مقاطعہ کر دیں تو اس ملک کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔
ہم صرف اپنے اتحاد سے ناموس رسالت پر حملہ کرنے والوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ مغرب کی اس شر انگیزی کا واحد جواب یہ ہے کہ ہم متحد ہو جائیں۔ نبی کریم ﷺ کی محبت وحدت امت کی اساس ہے۔ اگر ہمارے سینے محبتِ رسول کے جذبے سے لبریز ہیں تو ہم ضرور ایک ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم ایک ہوں گے اور ہمیں ایک ملت واحدہ بنانے والے گیرت وائلڈر جیسے لوگ ہی ہوں گے جن کی نفرت ہمیں اپنے رسول سے اور بھی شدت سے محبت کرنے پر آمادہ کرے گی۔

دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفُق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

1 thoughts on “حرمت رسول ﷺ اور ہمارا لائحہ عمل – اداریہ

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.