الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ
از قلم : سید خالد جامعی
میڈیا کا کام ہی یہ ہے کہ خودساختہ خیالات، اوراِصطفائیت یا انتخابیت
(Electicism)
کے طریقے سے ایک خود ساختہ حقیقت تعمیر کر دی جائے جو حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہ رکھتی ہو مثلاً عالم آن لائن کے پروگرام میں ’’علماء عوام کی عدالت‘‘ میں ایک اینکر نے علماء سے پوچھا پاکستانی معاشرے میں ظلم بڑھ رہا ہے اس کی وجہ علماء ہیں وہ منبرو محراب سے ظلم کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے۔ علماء نے اپنی وضاحتیں شروع کر دیں کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کا سوال ہی غلط ہے یہ خود ساختہ حقیقت ہے یہ مدارس، علماء پر جھوٹ، الزام دشنام بہتان و الزام ہے۔ پاکستان میں پانچ لاکھ مساجد ہیں اگر آپ زندگی میں ایک مرتبہ ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ سنیں تو پانچ لاکھ مساجد کے خطبے سننے کے لیے آپ کو پانچ لاکھ ہفتے چاہئیں یعنی اگر آپ کی عمر ساڑھے نو ہزار سال ہو تو آپ زندگی میں ایک مسجد کی صرف ایک تقریر سن سکتے ہیں اگر آپ صرف ایک لاکھ مساجد کے جمعہ کے خطبے بھی سننا چاہیں تو اس کے لیے بھی (۱۹۱۷ سال) آپ کو عمر نوح کی ضرورت ہوگی لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ آپ نے کبھی کسی مسجد میں جمعہ کا خطبہ نہیں سنا یہ سوال آپ کا خود ساختہ
۔[Fabricated / concoacted]
ہے یقیناً آپ نے کسی این جی او کے سربراہ سے رابطہ کرکے یہ سوال تخلیق کیا ہے ایسے جھوٹے سوال کا کیا جواب دیا جائے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا یہ سوال نا مکمل اور غلط ہے سب سے پہلے یہ بتائیے کہ حضرت ظلم کی تعریف کیا ہے ؟ تعریف کون متعین کرے گا ؟آپ یا میں، اسلام یا لبرل ازم، اللہ، رسول ﷺ یا منشور انسانی حقوق کا عالمی منشور۔ کیونکہ ظلم اور عدل کا تعلق کسی تہذیب کے تصور حقیقت سے ہوتا ہے یہ اس تہذیب کی مابعد الطبیعات بتاتی ہے مثلاً مغرب میں توہین رسالت کرنا عدل ہے مغرب میں کسی کو بھی گالی دینے کی آزادی ہے یہ عد ل ہے۔ اسلام گالی دینے کو ظلم کہتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ کفار کے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو۔ لہٰذا آپ ظلم کی تعریف بتائیے کہ وہ تعریف آپ کہاں سے لے رہے ہیں ؟ مغرب سے یا اسلام سے ؟
آپ کی نظر میں سب سے بڑا ظلم کون سا ہے قرآن تو شرک کو سب سے بڑا ظلم قرار دیتا ہے اور شرک کے خلاف تو ہر مسجد میں ہر جمعہ کو خطبہ ہوتا ہے اگر آپ کی مراد کچھ اور ہے تو وہ بتائیے چوری، رشوت، نا انصافی تو یہ سب گناہ کبیرہ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران نظام تعلیم اور ریاست فرد کی تعمیر تربیت اصلاح تزکیہ کے لیے کچھ نہیں کر رہا ہر فرد کو بس آزادی مساوات ترقی کا سبق دیا جا رہا ہے میڈیا ہر شخص کو اپنا معیار زندگی مستقل و مسلسل بلند کرنے کی دعوت دے رہا ہے اس صورت حال میں ہر شخص بہترین زندگی گزارنے کے لیے چوری چکاری میں مصروف ہے مسجد اس سلسلے میں کیا کرسکتی ہے جو کچھ وہ کر رہی ہے اگر وہ اپنا کردار ادا نہ کرے تو یہاں خانہ جنگی برپا ہو جائے۔
قندیل بلوچ کے قتل کا مسئلہ ہوا تو ٹی وی پر علماء سے پوچھا گیا کہ اسلام میں اس طرح کسی بھائی کو، بہن کے قتل کرنے کی اجازت ہے۔ علماء کے ہاتھ پاؤں پھول گئے سب ٹی وی پر کہنے لگے نہیں نہیں اسلام اس کی مذمت کرتا ہے اسلام میں اس کی اجازت نہیں کسی نے اینکر سے یہ نہیں پوچھا کہ قندیل بلوچ جس طرح کی زندگی گزار رہی تھی اسلام میں ایسی زندگی گزارنے کی اجازت یا ایسی زندگی بسر کرنے کی آزادی ہے یا نہیں اگر آزادی کی بات ہے تو پوری بات ہوگی ہر پہلو سے ہوگی کیونکہ مغرب اور منشور انسانی حقوق کا عقیدہ آزادی ہی دنیا بھر میں دہشت گردی، تباہی، بربادی کا اصل سبب ہے اس عقیدے کو جب روایتی مذہبی معاشروں میں سیکولر تعلیم اور میڈیا کے ذریعے مسلط کیا جاتا ہے تو اس کا شدید رد عمل ہوتا ہے اور رد عمل کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا
Reaction has no Ideology
آزادی کے اس عقیدے نے روایتی مذہبی معاشروں میں شدید قسم کے مسائل پیدا کیے ہیں جب آزادی کے عقیدے کا رد عمل سامنے آتا ہے تو لبرل ازم اسے اپنے حق میں استعمال کرتا ہے حالانکہ اگر آزادی کا عقیدہ ہی نہ ہو تا تو کبھی یہ رد عمل سامنے نہ آتا اور ایسے موقع پر ہم آزادی کے عقیدے کو رد کرنے اس کی تنقید کرنے اس پر اعتراض کرنے کے بجائے اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور میڈیا ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے جزوی سچ
[Partial Truth]
آخر کار کلی سچ
[Whole Truth]
کا قلع قمع کر دیتا ہے قندیل بلوچ کے قتل سے متعلق اینکر کا علماء سے یہ سوال ہی غلط تھا اور اس کا جواب بالکل غلط بلکہ غلط در غلط تھا۔ سوال کا شر سوال کی بنت
[Construction]
سے واضح ہے۔
علماء کو پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ قندیل بلوچ کی موت کے بارے میں سوال پوچھنے کے لیے ہمارے پاس کیوں آئے ہیں ؟ آپ کبھی قندیل بلوچ کی زندگی میں اس کی ذلیل زندگی کے بارے میں علماء سے پوچھنے کبھی نہیں آئے آخر کیوں ؟ آپ کے لیے قندیل بلوچ کی زندگی غیر اہم ہے موت بہت اہم ہے کیوں ؟ آپ اس کی زندگی میں اس لیے نہیں آئے کہ آپ ہیومن رائٹس ڈسکورس میں اس کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ ہر شخص کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی ہے آپ صدر اوباما کی ۲۰۱۲ء کی تقریر کے تحت قندیل بلوچ کی آزادی کا تحفظ کر رہے ہیں جس میں اوباما نے کہا تھا کہ
We have taken these positions because we believe that freedom and self-determination are not unique to one culture. These are not simply American values or Western values – they are universal values.
Here in the United States, countless publications provoke offense. Like me, the majority of Americans are Christian, and yet we do not ban blasphemy against our most sacred beliefs. As President of our country and Commander-in-Chief of our military, I accept that people are going to call me awful things every day – (laughter) – and I will always defend their right to do so. (Applause.)
Americans have fought and died around the globe to protect the right of all people to express their views, even views that we profoundly disagree with. We do not do so because we support hateful speech, but because our founders understood that without such protections, the capacity of each individual to express their own views and practice their own faith may be threatened.
We do so because given the power of faith in our lives, and the passion that religious differences can inflame, the strongest weapon against hateful speech is not repression; it is more speech – the voices of tolerance that rally against bigotry and blasphemy, and lift up the values of understanding and mutual respect.
But in 2012, at a time when anyone with a cell phone can spread offensive views around the world with the click of a button, the nation that we can control the flow of information is obsolete.
[Remarks from President Barack Obama to the UN General Assembly, New York, 2012.09.26]
ظاہر ہے آپ سب لبرل ہیں اور لبرل ازم کے مذہب میں قندیل بلوچ جو کچھ کر رہی تھی وہ تواس کی فریڈم تھی اس کی فریڈم کے بارے میں آپ مولوی سے، اسلام سے کیوں پوچھیں ؟ فریڈم تو
taken for granted
ہے اس کے بارے میں سوال کی کیا ضرورت ہے اس کی زندگی سے بے چارے مولوی اور ملا کا کیا تعلق وہ تو خدا اور بندے کا معاملہ ہے مولوی کا مسئلہ ہے ہی نہیں ہے اس لیے کہ آپ کبھی کسی مولوی کے پاس یہ پوچھنے کے لیے نہیں گئے کہ قندیل بلوچ کی آوارہ، غلیظ زندگی کے بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے کیونکہ آپ مولوی کے پاس زندگی میں نہیں کسی کے مرنے پر ہی آتے ہیں کیوں کہ آپ اس کی تدفین نہیں کر سکتے اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھا سکتے یہ سارے کا م مولوی ہی کر سکتا ہے۔ مولوی نہ ہو تو آپ کی نماز جنازہ بھی نہیں ہوتی سلمان تاثیر کے جنازے کے وقت یہی ہوا تھا لاہور کے گورنر ہاؤس کی مسجد کے امام صاحب بھی غائب ہو گئے تھے اور بادشاہی مسجد کے گریڈ بیس کے سرکاری خطیب اس دن کسی ضروری کام کے باعث شہر میں نہیں تھے لہٰذا کسی نے غلط سلط نماز پڑھا دی لبرل تو لبرل کا جنازہ بھی نہیں پڑھا سکتے لہٰذا آپ کے لیے اصل مسئلہ زندگی نہیں موت ہے۔ مولوی کو آپ بس اپنی موت پر، قندیل بلوچ کی موت پر یا کسی اور کی موت پر ہی یاد رکھتے ہیں۔ مشال خان کی زندگی میں بھی آپ کو مولوی یاد نہیں آیا بس اس کی موت پر آپ کو مولوی کی ضرورت پڑ گئی۔
قندیل بلوچ کی موت نے اس کی فریڈم چھین لی لہٰذا تم اس کی فریڈم کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظرجاننا چاہتے ہو۔ اسلام کُل سے بحث کرتا ہے جزو سے نہیں قندیل بلوچ کی موت اس تماشے ڈرامے، حادثے اور سانحے کا آخری جزو ہے اور تماشے کا آخری مرحلہ بھی ہے۔ آخری مرحلے کے بارے میں سب سے آخر میں بات ہوگی سب سے پہلے قندیل بلوچ کی زندگی کے بارے میں بات ہوگی۔
اگر قندیل بلوچ اور اسلام کا کوئی تعلق ہے تو اسلام قندیل بلوچ کے کُل پر حکم لگائے گا جزو پر حکم نہیں لگائے گا قندیل کا بھائی کے ہاتھوں قتل سب سے آخر میں ہوا ہے۔ اس آخری سوال کا جواب سب سے آخر میں دیا جائے گا مگر اس آخری سوا ل کا جواب دینے سے پہلے۔ یعنی
(۱) سب سے پہلے ہم اس سوال کا جواب دیں گے کہ قندیل بلوچ جو کچھ کر رہی تھی کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے ؟ کیا اسلام منشور انسانی حقوق کے تحت ہر شخص کو جو چاہے کہنے کرنے کی مطلق آزادی دیتا ہے یا نہیں اس آزادی کا استعمال کیا پاکستا ن کی اسلامی ریاست میں ہو سکتا ہے یا نہیں۔
(۲) مدینہ النبی میں صرف زبان سے فحش افواہیں پھیلانے والوں کے لیے جو ٹی وی، میڈیا کے ذریعے فحش نہیں پھیلا رہے تھے ورنہ یہ فحش فتنہ سامانی میں حد سے آگے بڑھ جاتا، ان کے لیے قرآن نے حکم دیا قتلو ا تقتیلا تو برقی میڈیا کے ذریعے اپنے جسم بیچنے والی رنڈی اور معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کے جرم _میں اپنے ذرائع، وسائل استعمال کرنے والوں کے لیے قرآن کا کیا حکم ہوگا ؟
(۳) دوسرا سوال یہ ہے کہ اس شرمناک صورت حال میں پاکستان کی اسلامی ریاست اور اس کے خلیفۃ المومنین کیا کر رہے تھے جس نے اسلام کے تحفظ کا حلف بھی اٹھا یا ہے، اس کی غفلت کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ کیا خلیفہ نے کفر بواح کا ارتکاب کیا یا نہیں ؟
(۴) پاکستانی میڈیا قندیل بلوچ کے جسم کے ساتھ جو کچھ کر رہا تھا اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ پرنٹ میڈیا کے مالکان جو تشیع فاحشہ کے جرم کے مرتکب ہوئے ان کا کیا حکم ہے ؟
(۵) پیمرا کے ابصار عالم، شریعت کے ساتھ کیا تماشے کر رہے تھے اس کا کیا حکم ہے ؟ ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کیا اصول، قواعد، بیان کیے ہیں اور کیا سزا ئیں تجویز کی ہیں ؟ ان کا کیا حکم ہے ؟
(۶) پاکستانی عدالت عظمیٰ جو بات بات پر سو موٹو نوٹس لیتی ہے اس انتہائی اہم معاشرتی، تہذیبی اخلاقی معاملے سے بالکل لا تعلق رہی تو اس عدلیہ کا کیا حکم ہے ؟ اس بات کا بھی فتویٰ دیا جائے گاکہ ہماری عدالتیں قندیل بلوچ کی زندگی، آوارگی، فحاشی، عریانی پر تو چپ رہتی ہیں کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیتیں لیکن اگر کوئی جذبات میں غصے میں اشتعال میں اسے قتل کر دے تو وہ قاتل کا فوراً نوٹس لیتی ہیں اور اس کی گرفتاری کا حکم دے دیتی ہیں کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر، ماں باپ، خاندان کی عزت اور مال لے کر لڑکے کے ساتھ فرار ہو جائے تو یہ عدالتیں کوئی نوٹس نہیں لیتیں یعنی خاندانی، اسلامی، روایتی، مذہبی اقدار کے قتل سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ اقدار نہیں، انسان نہیں لہٰذا ان کے حقوق ہی نہیں، حقوق تو صرف انسانوں کے ہوتے ہیں،بھارت کی ہائی کورٹ نے حال ہی میں دریائے گنگا کو قرار دے کر اس کے حقوق کے تحفظ کا حکم جاری کیا ہے۔
ہماری عدلیہ ، لڑکی کی جانب سے شریعت کی پامالی کا تو کوئی نوٹس نہیں لیتی، شریعت توڑنے پر قانون حرکت میں نہیں آتا، اگر اس لڑکی،بیٹی کا باپ، بھائی، خالو، چچا اشتعال میں آکر اس لڑکی کو زخمی کر دے یا قتل کر دے تو عدالتیں فوری سو موٹو نوٹس لیتی ہیں سوال یہ ہے کہ عدلیہ اقدار، روایات، اسلامی احکام، شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی پر اس بھگوڑی لڑکی کے خلاف کوئی سو موٹو ایکشن کیوں نہیں لیتی ؟ ہم اس کا شرعی حکم بھی بتائیں گے
(۷) پاکستان کے اخبارات، مولوی عبد القوی اور قندیل بلوچ کی گندی باتیں شائع کر کے اسلامی مملکت میں جو غلاظت فروخت کر رہے تھے، غیر ت سے محروم، سرمایہ کمانے میں مصروف ان لالچی اخباروں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ مولوی عبد القوی کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے ؟ عریانی، فحاشی سے اربوں کھربوں روپے کی آمدنی کا کیا حکم ہے ؟کیا اس آمدنی پر اسلامی ریاست کا ٹیکس لگانا جائز ہے اور اس ٹیکس کو عوام پر خرچ کرنا درست ہے ؟ ہم یہ بھی بتائیں گے
(۸) اخبارات اور میڈیا کو عریاں اشتہارات مہیا کرنے والی ایڈورٹائز منٹ انڈسٹری اور ان کے کلائنٹ ملٹی نیشنل کارپوریشنز کا کیا حکم ہے ؟ جو مشترکہ طور پر عریانی فحاشی کی سرپرستی کر رہے ہیں ہم اس کی شرعی حیثیت بھی بتائیں گے
(۹)پاکستان کے وزیر اطلاعات شریعت کے ساتھ کیا کر رہے تھے ان کا کیا حکم ہے ؟
(۱۰) ایف، ایس، سی وفاقی شرعی عدالت جو نفاذ شریعت کا ادارہ ہے وہ کیا کر رہی تھی اس کی خاموشی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے۔ وہ بھی ہم بتائیں گے۔
ان دس سوالوں کا جواب دینے کے بعد ہم گیارہویں یعنی آخری سوال پر آئیں گے جو آپ کا پہلا سوال ہے اور اس سوال پر بحث کرکے اسلامی شریعت کی روشنی میں یہ بتائیں گے کہ قندیل بلوچ کے بھائی نے اپنی بہن کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا شریعت میں کیا حکم ہے تو پہلے ان دس سوالوں کے بارے میں علیحدہ علیحدہ شریعت کا حکم بتایا جائے گا آخر میں قندیل کے قتل کے بارے میں شریعت کا حکم بتایا جائے گا اور یقیناً آپ کو ان دس ابتدائی سوالوں سے نہ تو کوئی دلچسپی ہے نہ آپ کے پاس اتنا وقت ہے آپ تو صرف اسلام کو اپنی آزادی اور قندیل بلوچ کی مادر پدر آزادی کے تحفظ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی رنڈی اس طرح قتل نہ ہو آپ رنڈی کو ایک شریف زادی کی زندگی بسر کرنے کی اجازت دلانے نہیں آئے ہیں آپ ہر رنڈی کو قندیل بلوچ کی طرح بے باک رنڈی بنانے کے لیے اس کی آزادی کاتحفظ اسلام سے کرانے کے لیے آئے ہیں یہی آپ کا اصل ایجنڈہ ہے۔
قندیل بلوچ کے بھائی نے جو کچھ کیا یہ اسلام کا، علماء کا، دینی مدارس کا مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ اسلام اور شریعت تو پاکستان میں عملاً نافذ ہی نہیں ہے وہ تو کاغذ پر لکھی ہوئی، متروک املاک کی دستاویز ہے۔ قندیل کا قتل بلوچ روایت کے تحت ہوا اور یہ غیرت کا مسئلہ ہے غیرت کے مسئلے بے غیرت لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے یہ تو آپ بلوچوں سے اور قندیل کے گھر والوں سے پوچھیں اسلام اس غیرت اور اس قتل کے بارے میں صرف اور صرف اس وقت کچھ کہے گا جب آپ ان دس سوالوں کا جواب نشر کرنے پر آمادہ ہوں گے۔اور آپ کبھی ان دس سوالوں کا جواب نشر ہی نہیں کریں گے لہٰذا ہم آپ کے آخری گیارہویں سوال کا جواب کیوں دیں آپ کے آزادی کے باطل، کافرانہ عقیدے کی تائید و تو ثیق ہم کیوں کریں کیونکہ جزو کی بنیاد پر فتویٰ دینے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
ان شاء اللہ وہ چینل کبھی آپ کو نہ بلائے گا نہ آپ کو اتنا بولنے کا موقع دے گا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ مقصد کا تعین نتیجے کا تعین کر دیتا ہے۔ میڈیا کے وجود کا مقصد متعین ہے، صرف آزادی میں اور آزادی کی ٹھوس شکل سرمایہ یعنی منافع میں مستقل و مسلسل لا محدود اضافہ لہٰذا میڈیا اسلام کے ذریعے قندیل بلوچ کی موت کو ناجائز قرار دلوانا چاہتا ہے اس مقصد نے خود ہی نتیجے کا تعین کر دیا اس تفصیل سے علماء کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ ٹی وی پر کسی مسئلے میں اسلام پر آدھے ایک منٹ کا جواب دینے اور اسلام یا اپنی نمائندگی کے شوق میں علماء جو جواب دیں گے وہ اسلامی علمیت کی نمائندگی نہیں کرے گا بلکہ اسلام کو کفر کی علمیت کے لیے آلہ کار بننے کا مکمل موقع فراہم کرے گا اسی لیے بہت سے سادہ لوح لوگ کہتے ہیں غامدی صاحب کو دیکھئے ہر سوال کا جواب ایک، دو منٹ میں دے دیتے ہیں حالانکہ غامدی صاحب سوال کا جواب مختصر اس لیے دے سکتے ہیں کہ وہ میڈیا کے عقیدے آزادی، مساوات، ترقی کے عین مطابق ہوتا ہے جب آپ کسی مسئلے کی حمایت کریں تو بس ہاں یا نہ کہہ دیں گے لیکن جب آپ کسی مسئلے کی حقیقت بیان کریں، اس کا انکار کریں تو تفصیل بیان کرنا لازمی ہے مثلاً آپ نکاح کریں تو صرف منظور ہے، صرف ایک جملہ کہنا ہے لیکن اگر آپ طلاق دینے کا فیصلہ کریں تو اس میں بہت تفصیل ہے نشوز پر سزا، بستر الگ کرنا، حکمین کا تقرر، صلح کی کوشش، دونوں کا اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش، مسئلہ پھر بھی حل نہ ہو تو طلاق کا فیصلہ، تین طہر میں الگ الگ طلاق، پھر طلاق کے بعد عدت کی مدت، وضع حمل کا مرحلہ، سامان، حقوق، مالی واجبات اولاد کی تعلیم و تربیت، تحویل کے مسائل وغیرہ وغیرہ۔ غامدی صاحب کے جوابات، _یعنی ان کی علمیت اور فلسفہ چونکہ اسلام کا نکاح جدیدیت سے پڑھانے کے لیے ہوتے ہیں لہذا وہ ایک، دو منٹ میں ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں لیکن اسلامی علمیت کے دائرے میں،جواب اگر آپ نے ایک، دو منٹ میں دینے کی کوشش کی تو ابہامات کی دھند پیدا ہوگی مثلاً کوئی ٹی وی پر سوال پوچھ لے کہ کیا بیٹے کے قصاص میں باپ کو قتل کیا جا سکتا ہے ؟ اگر اس سوال کا جواب ایک منٹ میں دیا تو دس سوال آپ سے مزید پوچھے جائیں گے اور آپ کو جواب دینے کا موقع بھی نہیں دیا جائے گا اور آپ سے جواب بھی صرف اپنے پسندیدہ سوال کا پوچھا جائے گا تاکہ اس جواب سے لبرل ایجنڈے کی تکمیل ہو سکے۔ اگر آپ نے جواب نہ دیا یا مختصر جواب دیا جو مختصر وقت میں مکمل اسلامی موقف کو بیان نہیں کر سکے گا تو لبرل اسلامی علمیت پر اعتراض کریں گے کہ علماء، جدید ذہن کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے ایک باطل علمیت کے منہاج میں اسلامی علمیت کا جواب غامدی صاحب کی طرح ایک منٹ میں نہیں دیا جا سکتا۔
میڈیا کا مقصد اسلام مدارس یا علماء کا موقف عوام تک پہچانا نہیں ہے بلکہ وہ صرف اپنے مقاصد اور اہداف کے تحت کسی داڑھی ٹوپی والے کو بلا کر مدارس اور اسلام کی نمائندگی کا ڈھونگ رچاتے ہیں علماء کے ساتھ ان کا رویہ نہایت توہین آمیز، تضحیک آمیز اور شر انگیز ہوتا ہے غامدی صاحب کے مقابلے میں ہمیشہ چھانٹ کر ایک ایسے کمزور عالم کو لاتے ہیں جس نے کبھی غامدی صاحب کو نہیں پڑھا اور اگر پڑھا بھی ہے تو وہ ان کی علمیت پر تنقید کی صلاحیت سے ہی محروم ہے تاکہ غامدی صاحب کا قد علماء کے نمائندے کے سامنے اونچا ہو جائے ۲۰۰۲ء میں لاہور کے ایک چینل نے غامدی صاحب اور ایک معتبر عالم کا ٹی وی کے اسٹوڈیو میں مکالمہ کرایا جس میں ان عالم نے غامدی صاحب سے سوال پوچھ پوچھ کر ان کی علمیت کی قلعی کھول دی تو وہ مکالمہ نشر ہی نہیں کیا گیا۔
غامدی صاحب سے پوچھا جائے کہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو کیوں قتل نہیں کیا جا سکتا ؟ اس سوال کا جواب وہ ایک منٹ میں دیں گے قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ پاب کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا بس جواب ہو گیا اب غامدی صاحب سے کوئی پوچھے کہ آپ کا پورا دینی فلسفہ ، سنت، اجماع اور اجتہاد کی اسلامی اصطلاحات پر کھڑا ہے آپ سنت اجماع سے لیتے ہیں اور اجتہاد کے بغیر دین پر عمل ممکن نہیں اب ان سے پوچھیے کہ غامدی صاحب قرآن میں سنت، اجماع اور اجتہاد کی اصطلاحات کہاں ہیں تو اس کا جواب دینے میں غامدی صاحب کو دو دن لگ جائیں گے، قرآن میں یہ اصطلاحات سرے سے موجود نہیں اور غامدی صاحب کا پورا دینی فلسفہ ان تین اصطلاحات کی من مانی تشریحات پر مبنی ہے لہٰذا میڈیا کے منہاج سے ہم آہنگ سوال کا جواب ہی ایک منٹ میں دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا علماء جب بھی میڈیا کو استعمال کرتے ہیں میڈیا ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔
علماء کی غلطی یہ تھی کہ وہ میڈیا کے ڈسکورس سے واقف ہی نہیں لہٰذا جب میڈیا نے اپنا ڈسکورس ان پر مسلط کرکے پوچھا کہ بھائی کے ہاتھوں قندیل بلوچ کا قتل جائز ہے یا نا جائز۔ تم اپنی پوزیشن بتاؤ وہ خوف زدہ ہو گئے اور انھوں نے خوف کے عالم میں ڈسکورس کے عین مطابق ڈسکورس کو مطلوب جواب دیا کہ اسلام، اس قتل کو جائز قرار نہیں دیتا، اسلام دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ جزوی جواب ہے اور ا پنے کلی تناظر میں بالکل غلط ہے۔ کیونکہ یہ فتویٰ جزو کی بنیا د پر دیا گیا اسلامی علمیت کی کلیت کے تناظر میں نہیں دیا گیا ہے۔ غالب ڈسکورس نے اسلامی علمیت سے اپنی علمیت کی تصدیق حاصل کر لی۔یہ غالب ڈسکورس کی طاقت ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
وہ کہہ سکتے تھے کہ قندیل کو اس کے بھائی نے قتل کیا ہے اس سے پوچھو یا عدلیہ کے جج سے پوچھو، _اب قتل ہو گیا ہے تو عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کرو تم ہم سے اس طرح پوچھ رہے ہو جیسے عدالت ہماری رائے سن کر فیصلہ دے گی وہ بس ہماری رائے کا ہی انتظار کر رہی ہے اور ہم جو رائے دے دیتے ہیں اس پر کون عمل کر رہا ہے۔ ہم نے سود کو حرام قرار دیا، تمام مولوی سود کے حرام ہونے پر متفق ہیں مگر تیس سال میں یہی عدالت آج تک سود کو حرام قرار نہیں دے سکی بلکہ اب تو شریعت کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سود کی تعریف ہی بد ل گئی۔ آج جو سود ہے وہ تو سود نہیں ہے وہ تو افراط زر سے زر کی مالیت کم ہونے کا معاوضہ ہے لہٰذا سب سے پہلے سود کی تعریف از سر نوطے کی جائے گی لہٰذا پندرہ سو سال کی اسلامی علمیت، مولوی، مدرسے، سب کو فارغ کر دیا گیا۔
تو ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو ؟ریاست تمام کام ہمارے بغیر کرتی ہے، ریاست سے جا کر پوچھو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قندیل کے قتل کو دہشت گردی کہنا یہ علمی دہشت گردی ہے پوری اسلامی تاریخ میں کسی قاضی، فقیہہ، خلیفہ نے غیرت کے باعث ہونے والے کسی قتل کو کبھی دہشت گردی نہیں کہا آپ باتیں اسلام کی کر رہے ہیں اصطلاحیں مغرب کی استعمال کر رہے ہیں آخر کیوں ؟ ایک عام جذباتی قتل دہشت گردی کیسے ہوگیا ؟ کیا مغرب میں انبوہ کثیر کے حملے
Mobviolence
کو دہشت گردی کہتے ہیں۔ انقلاب فرانس، انقلاب امریکہ، انقلاب روس، انقلاب چین میں بہت بڑے پیمانے پر
Mobviolence
ہوئے لاکھوں، کروڑوں لوگ قتل کیے گئے کیا کسی نے اسے کہا ؟ لبرل انقلابیوں کے
Mobviolence
نے فرانس کے بادشاہ کے ساتھ انقلاب فرانس میں کیا۔ ژی ژیک کی کتاب پڑھ لیجئے جس میں سب تفصیل درج ہے لہٰذا مغربی اصطلاحوں کو روایتی مذہبی معاشروں میں استعمال کرنا بہت سے مسائل پید ا کرتا ہے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصطلاحات پر گفتگو کرتے ہوئے بہت احتیاط برتیں اور میڈیا والوں کے مقاصد کو اپنی گفتگو سے ناکام بنا د یں۔
جدیدیت و اسلامی جدیدیت ہمیشہ دوسرے سوال کا جواب دیتی ہے۔ میڈیا کبھی پہلا سوال نہیں پوچھتا، دوسرا سوال پوچھتا ہے۔
جدیدیت اور اسلامی جدیدیت اور میڈیا کا طریقہ واردات یہی ہے کہ وہ کبھی پہلے سوال کا جواب نہیں دیتا ہمیشہ دوسرے سوال کا جواب دیتا ہے۔ صرف جواب ہی نہیں دیتا، بلکہ ہمیشہ اپنے مخالفین سے دوسرا سوال ہی پوچھتا ہے۔ دوسرے سوال کو جدیدیت اہم ترین سمجھتی ہے اور صرف دوسرے سوال کا جواب مانگتی ہے میڈیا بھی ہمیشہ دوسرے سوال کا جواب مانگتا ہے کیونکہ اگر پہلے سوال کا جواب مانگ لیا گیا یا کسی نے پہلے سوال کا جواب دے دیا تو تمام کھیل ختم ہو جائے گا۔ لوگ میڈیا کے اصل چہرے کو پہچان لیں گے اور اس کے شر انگیز مقاصد سے آگاہ ہو جائیں گے انھیں پتہ چل جائے گا کہ سچ کا بیوپاری یہ میڈیا غیر جانبدار نہیں ہے مکمل جانبدار ہے۔ یہ صرف اور صرف آزادی کے عقیدے کی وکالت کر رہا ہے اور یہ میڈیا، دین، اخلاق، مذہب، روایت، اقدار، اجتماعیتوں سب کا مشترکہ دشمن ہے۔
میڈیا ہمیشہ دوسرا سوال کیوں پوچھتا ہے ؟
سوال یہ ہے کہ پہلا سوال کیا ہے اور دوسرا سوال کیا ہے ؟ اس کا جواب اس صدی کے بہت بڑے فلسفی سلاؤ ژی ژیک نے دیا ہے جو غامدی صاحب کے پسندیدہ ترین فلسفی ہیں اور غامدی صاحب اس کے فلسفے سے بہت متاثر ہیں ۱۹۹۸ء میں جب وہ کراچی کثرت سے آتے تھے تو سلاؤ ژی ژیک کی کتابیں ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔سلاؤ ژی ژیک ایک بد تمیز بد قماش فلسفی ہے جسے مغرب میں ایک خطر ناک فلسفی سمجھا جاتا ہے جو اپنے فلسفیانہ نکات گالیوں کے ذریعے پیش کرتا ہے اس کا خیال ہے کہ دنیا میں سب سے مو ثر ترین ذریعہ ابلاغ گالی ہے جس کے ذریعے فی الفور ابلاغ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے پسندیدہ فلسفی کا اصول ان کے اور میڈیا والوں کے فوری ابلاغ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ژی ژیک لکھتا ہے کہ ایک شخص روزانہ پانچ بجے اپنے دفتر سے گھر پہنچتا تھا ایک دن وہ حسن اتفاق سے چار بجے گھر پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی ایک اجنبی مرد کے ساتھ خواب گاہ میں ہم کلام ہے اس نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ کون ہے اور یہاں کیو ں ہے ؟ یہاں کیا کر رہا ہے ؟ (یہ پہلا سوال ہے)۔
بیوی نے جواب دیا یہ سوال غیر اہم ہے کہ یہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے اصل سوال یہ ہے کہتم یہاں چار بجے کیا کر رہے ہو تمہارے آنے کا وقت پانچ بجے ہے (یہ دوسرا سوال ہے)۔
ژی ژیک کہتا ہے کہ جدید دنیا میں ہمیشہ دوسرے سوا ل کا جواب دیا جاتا ہے پہلے سوال کو اسی طرح نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا اسی طرح ہمیشہ علماء سے دوسرے سوال کا جواب مانگتا ہے۔ قندیل بلوچ کو بھائی نے قتل کر دیا، شریعت میں اس کا کیا حکم ہے ؟ پہلے سوال کا جواب نہیں مانگتا کہ قندیل بلوچ اپنا جسم، عزت، عفت، عصمت میڈیا پر بیچ رہی ہے اس کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟کیونکہ میڈیا والوں کو پتہ ہے کہ اگر شریعت سے قندیل بلوچ کی زندگی کا حکم پوچھا گیا تو شریعت کہہ دے گی اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کر دو۔ قتلو ا تقتیلا (اور ہماری عدالت اور شریعت کورٹ کبھی اس حکم پر عمل نہیں کرے گی)۔
اگر قندیل بلوچ کی زندگی پر شریعت کا حکم نافذ ہو گیا تو پاکستان میں اسلام آ جائے گا۔یہ میڈیا کو منظور نہیں کیونکہ میڈیا کا کیا ہوگا ؟ اگر قندیل بلوچ کی زندگی پر شریعت نافذ ہو جاتی تو قندیل بلوچ کے بھائی کو قتل کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ خلاء کبھی باقی نہیں رہتا اسے کوئی نہ کوئی پر کر دیتا ہے۔ پاکستانی عدالت اور شریعت کورٹ اور نواز شریف خلیفۃ المسلین نے اپنا فرض پورا نہیں کیا تو اس خلاء کو قندیل کے بھائی نے پر کر دیا۔ مسئلہ ماڈرن ازم پیدا کر رہا ہے تم جواب علماء سے مانگ رہے ہو، علماء کیوں جواب دیں۔ آزادی کے مغربی عقیدے کو ریاست نے اختیار کیا ہے جو چاہے کہہ دو، جو چاہے کر لو، لڑکی گھر سے بھاگ جائے یہ اس کی آزادی ہے جب آزادی دی ہے تو اس کا ردعمل ہو رہا ہے۔ علماء اس کا کیا جواب دیں ؟
علماء کو تمام اہم مذہبی معاملات میں میڈیا کے شر انگیز سوالات کے جواب میں یہی کہنا چاہیے کہ آزادی اظہار رائے کا کفر تم عام کرو، ہر ایک کو آزادانہ کافرانہ زندگی بسر کرنے کی آزادی دو سب کو جو چاہے کہنے کی آزادی ہو جب ماڈرن ازم کی آزادی کے عقیدے کے خلاف بغاوت ہو، رد عمل ہو، تو علماء سے پوچھو یہ کیا ہو رہا ہے۔ اسلام جواب دے، اسلام مسئلہ حل کرے۔ یہ مسئلہ اسلام نے پیدا نہیں کیا ہے یہ مسئلہ انسانی حقوق کے منشور کے عقیدئہ آزادی نے پیدا کیا ہے وہی اس کا جواب دے۔