الواقعۃ شمارہ : 78 – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ
از قلم : ابو عمار سلیم
اسلام کی تعلیمات کا طرہ امتیاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید اللہ کی وحدانیت کے احکام سے بھرا پڑا ہے۔ جگہ جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مخاطب کر کے اپنے مالک و خالق ہونے کا اعلان کیا ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ اس کی ذات کو ہر قسم کے شرک سے پاک رکھا جائے۔ پوری کائنات میں کوئی ایک ذات بھی اس قابل نہیں ہے کہ اللہ کی ہمسری کر سکے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جو اس کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے والا ہو یا اس کا مدد گار ہو۔ وہ اکیلا ہی خالق ہے اور اکیلا اس پوری کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے اور اس کا نظام چلانے والا ہے۔ طرح طرح کی مثالیں دے کر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ نظام قدرت اللہ کے احکامات کا پابند ہے اور کسی کے بس میں نہیں کہ اس میں ذرہ برابر تغیر اور تبدیلی کر سکے۔ انسان کو اسی خالق و مالک، رب کائنات کے آگے جھکنے کا حکم ہے اور اس کے علاوہ ہر قسم کے معبود کا انکار ہی انسانیت کی معراج ہے اور کامیابی و فلاح کا راستہ اسی میں ہے۔
انسان کا ازلی دشمن شیطان مردود کسی بھی لمحہ انسان کو بھٹکانے اور غلط راستوں پر ڈالنے سے باز نہیں آتا۔ حضرت آدم و حوا علیہم السلام کو جنت سے بے دخل کروا کر ان سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیا اور اس کے بعد نسل آدم کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ حضرت آدم کے دو بیٹوں میں عداوت ڈالی اور ان کو آپس میں لڑوا دیا اور اس دشمنی کو ایسی بلندی تک پہنچایا کہ ایک بھائی کے ہاتھوں دوسرے بھائی کا قتل کروا دیا۔ یوں دشمنی اور عداوت میں بھائی کے قتل کا رواج پڑا۔ مقتول تو اپنی جان سے گیا مگر قاتل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ کا کندا بن گیا، اور یہ شیطان کی کامیابی کی ایک سیڑھی ہوئی۔ دشمنی کی یہ ریت اور اس کا یہ بھیانک انجام اس دن سے آج تک ایسے جوش و خروش سے جاری و ساری ہے کہ اب تو، بہ یک جنبش ابرو ایک انسان اپنے جیسے ہزاروں انسان کو چشم زدن میں ٹھکانے لگا دیتا ہے اور ایسی سفاکی اور بربریت پر کسی کو کوئی تاسف اور شرمندگی بھی نہیں۔
ابلیس کی زندگی کا مقصد و مطلب ہی یہ ہے کہ اولاد آدم کو اس طرح قعر مذلت میں گرائے کہ وہ کسی طرح سے بھی اللہ کی نظروں میں سرخرو نہ ہونے پائے اور پھر قیامت کے دن وہ چھاتی ٹھونک کر اللہ رب العزت کے سامنے کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا کہ یا اللہ میں نہ کہتا تھا کہ یہ انسان بڑا نا شکرا ہے اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا نا فرمان پائے گا:-
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِىْ لَاَقْعُدَنَّ لَـهُـمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْـمَ – ثُـمَّ لَاٰتِيَنَّـهُـمْ مِّنْ بَيْنِ اَيْدِيْـهِـمْ وَمِنْ خَلْفِهِـمْ وَعَنْ اَيْمَانِـهِـمْ وَعَنْ شَـمَآئِلِهِـمْ ۖ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُـمْ شَاكِـرِيْنَ (الاعراف: ۱۶-۱۷)
"کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا، اور تو اکثر کو ان میں سے شکرگزار نہیں پائے گا۔”
اس کا خیال ہے کہ وہ اس طرح انسان کو اللہ کی نظروں میں گرا کر حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے کا جواز پیدا کرلے گا اور اللہ کی سزا گرفت اور پکڑ سے بچ جائے گا۔ دیکھا جائے تو ابلیس کی تلبیس و ترغیب کے ذریعہ اللہ کے راستے سے ہٹانے کی کوششیں اور نسل انسانی کی اس کی بات نہ ماننے کی یہ جنگ اس کرہ ارض پر ہماری موجودگی کا جواز ہے اور اس میں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ثابت قدمی ہی آخرت کی کامیابی اور لازوال عنایات اور خوشیوں کا ضامن ہے۔ انسان کا آخرت میں کامیاب ہونا شیطان مردود کی ہار ہے اور وہ اس ہار سے بچنا چاہتا ہے اور اپنے کام میں مصروف عمل ہے۔ اپنی جنگ جیتنے کے لیے اس نے بے حساب حربے ایجاد کیے ہیں۔ اپنے گردا گرد نظر دوڑایئے تو آپ کو معاشرہ میں جتنی خرابیاں نظر آئیں گی وہ سب کی سب شیطان کی ایجاد کردہ ہیں۔ قتل کی مثال تو میں نے دے دی، اس کے علاوہ چوری، زنا، سود، شراب خوری، ملاوٹ، دھوکہ دہی، جھوٹ اور معاشرہ میں رائج وہ تمام برائی جن کو آپ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے یہ سب شیطان کی طرف سے انسان کو تحفہ میں ملی اور انسان نے ان سب کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ نزدیک کرکے اس سے چمٹ گیا، اور حضرت انسان کی بے حسی اور بے خبری دیکھیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں واشگاف الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حساب کتاب کے وقت انسان اللہ سے کہے گا کہ یہ غلط کام تو مجھ کو شیطان مردود نے اکسا کر کروا یا ہے اس کی سزا تو اس کو ملنی چاہیے۔ اس وقت شیطان کہے گا کہ مجھ کو کیوں الزام دیتے ہو، میں نے تو تمہارے سامنے ایک بات رکھی تھی کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تو تمہارا اپنا تھا، تم نے یہ کیوں کیا۔ اب اس کا خمیازہ خود بھگتو۔
وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِىَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّـٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطَانٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُـمْ لِىْ ۖ فَلَا تَلُوْمُوْنِىْ وَلُوْمُـوٓا اَنْفُسَكُمْ ۖ مَّـآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُـمْ بِمُصْرِخِىَّ ۖ اِنِّـىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْـتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ۗ اِنَّ الظَّالِمِيْنَ لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ (سورۃ ابراہیم: ۲۲)
"اور جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہے گا بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے وعدہ خلافی کی، اور میرا تم پر اس کے سوا کوئی زور نہ تھا کہ میں نے تمہیں بلایا پھر تم نے میری بات کو مان لیا، پھر مجھے الزام نہ دو اور اپنے آپ کو الزام دو، نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہو، میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں کہ تم اس سے پہلے مجھے شریک بناتے تھے، بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔”
اور پھر سورۃ حشر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:-
كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّـىْ بَرِىٓءٌ مِّنْكَ اِنِّـىٓ اَخَافُ اللّـٰهَ رَبَّ الْعَالَمِيْنَ(الحشر: ۱۶)
"(اور اس کی ) مثال شیطان کی سی ہے کہ وہ آدمی سے کہتا ہے کہ تو منکر ہوجا، پھر جب وہ منکر ہو جاتا ہے تو کہتا ہے بے شک میں تم سے بری ہوں کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہاں کا رب ہے۔”
اللہ اللہ، کتنی محبت کرنے والا ہے ہمارا رب کہ اس نے انسان کو پہلے سے یہ بتا دیا ہے کہ شیطان کی باتوں پر عمل کرو گے تو قیامت کے دن وہ اپنا دامن چھڑا جائے گا۔ اللہ اس کو سزا دے یا نہ دے یہ اللہ کا اختیار ہے مگر کفریہ کام کو کرنے کی سزا بہر حال انسان کو ملے گی۔ مگر اتنی واضح ہدایت کے باوجود شیطان کو اپنا مربی و راہبر بنانے سے نسل انسانی میں کم ہی لوگ ہیں جو محفوظ رہے ہیں۔
ابلیس مردود کی ان ہی گوناگوں تلبیسوں میں سے ایک تلبیس قبر پرستی ہے جس کے ذریعہ سے اس نے انسان کو مرے ہوئے لوگوں کو حاجت روا بنا کر ان کی پرستش پر لگا دیا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ نوح کی آیت ۲۲ کی رو سے اس مردود نے اس وقت کے لوگوں کو گذرے ہوئے پانچ نیک لوگوں یعنی ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو معبود بنوا رکھا تھا اور وہ ان کی پوجا کرتے تھے اور ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ یہ تو شاید انسانی تاریخ کی سب سے پرانی بت پرستی اور قبر پرستی کی مثال ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وقت میں ہم جانتے ہیں کہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت پڑے تھے اور ان کی پوجا ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں غیر اسلامی ادیان میں اور خصوصی طور پر ہندوئوں کے یہاں بت پرستی ابھی بھی موجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو ابلیس لعین نے قبرستان میں پہنچا دیا ہے اور وہاں پر قبر پرستی جس شدت سے جاری ہے وہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
یہی قبر پرستی ہے جو ابتداء میں قبر پر حاضری اور اس کے آگے جھکنے، سجدہ کرنے اور چومنے جیسے اعمال تک محدود رہتی ہے مگر پھر رفتہ رفتہ ان ہی بزرگوں کی تصویریں بن جاتی ہیں اور بت بھی تیار ہوتے ہیں جن کے آگے مناجات ہوتی ہے ان پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور ان کے آگے منتیں اور مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ کوئی بیٹا مانگ رہا ہے، کسی کو مالی مشکلات کا حل چاہیے، کوئی بیماری سے تنگ آیا ہوا ہے اور صحت کا طلبگار ہے۔ اپنی تمام حاجات کے لیے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ طرح طرح کے چڑھاوے چڑھا رہا ہے کھانے اور مٹھائیاں کھلا رہا ہے، مجاوروں کو کپڑے پہنا رہا ہے نذرانے پیش کر رہا ہے۔ جو قبرستان میں جاکر یہ سب نہیں کر سکتا وہ اپنے گھروں میں ان ہی کی تصاویر کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہے، اور جس کے پاس تصویر نہیں ہے وہ اپنے تصور میں ان بزرگوں سے التجائیں کر رہا ہے اور اپنی مرادیں پوری کرانے کے لیے زور لگا رہا ہے۔ آپ حضرات میں سے بہت سے لوگوں نے حضرت عبد القادر جیلانی ، خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت علی ہجویری یا پاک پٹن میں حضرت فرید الدین کی اور دیگر جگہوں پر دوسرے بزرگوں کی تصویریں ضرور دیکھی ہوں گی۔ یہ تصویریں ابتدا میں تو احتراماً بنتی ہیں پھر شرک کا راستہ کھل جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اسلام میں تصویر بنا نا حرام قرار دیا گیا ہے۔ میں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا گہ کراچی میں کئی ایک نرسریوں پر علامہ اقبال، قائد اعظم، لیاقت علی خان، جناب عبد الستار ایدھی اور دیگر اکابر کے مجسمے بکتے ہیں اور یہ مجسمے گوتم بدھ کے ٹیکسلا سے نکالے ہوئے چھوٹے چھوٹے بتوں جیسے نہیں ہوتے، قد آدم ہوتے ہیں۔ یہ مجسمے گھروں میں، اسکولوں میں اور پارکوں میں نصب ہو جاتے ہیں۔ آج لوگ ان مجسموں کو ان کی محبت اور ان بزرگوں کی عملی جدوجہد اور کامیابیوں کے اعتراف کی وجہ سے خریدتے ہیں اور اپنے گھروں میں ڈیکوریشن کے لیے رکھتے ہیں مگر کون جانے کہ کل ہمارا ازلی دشمن ہمیں ان کی بھی پوجا پر نہ لگا دے۔ قائد اعظم کی ایک آنکھ پر چشمہ لگی ہوئی تصویر والا آدھا مجسمہ آپ کو ہمارے ملک کے بیشتر دفاتر میں دیواروں پر لٹکا ہوا دکھائی دے گا۔ یہ قائد سے محبت کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ کل پتہ نہیں شیطان مردود اس مجسمہ سے کیا کام لے اور ہمیں بدعت اور شرک کی کن راہوں پر ڈال دے۔ آپ کو نائلہ اور آساف کا واقعہ تو معلوم ہی ہوگا کہ کس طرح ان دونوں نے خانہ کعبہ کے اندر گھس کر بدکاری تو اللہ نے ان پر عذاب ڈالا اور انھیں جلا کر کوئلہ میں تبدیل کر دیا۔ جب لوگوں کو ان کی جلی ہوئی اور کوئلہ ہوئی لاشیں ملیں تو لوگوں میں غم و غصہ بڑھا اور بڑوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ان کی لاشوں کو اٹھا کر دور کہیں پھینک دیا جائے۔ ایسے میں شیطان مردود وہاں ایک معزز بزرگ کی شکل میں ظاہر ہوا اور لوگوں سے کہا کہ یہ کیا کرتے ہو کہ اللہ کے عذاب کو لوگوں کی نظروں سے دور کرتے ہو۔ یہ تو مقام عبرت ہے۔ ان کی تشہیر ہونی چاہیے تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر سبق حاصل کریں اور آئندہ ایسی قبیح حرکت کوئی اور کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائے۔ اس لیے ان جلی ہوئی کوئلہ لاشوں کو خانہ کعبہ میں رکھو تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر عبرت پکڑیں۔ شروع شروع میں تو شاید لوگ ان کو دیکھ کر عبرت پکڑتے ہوں گے مگر وقت گزرنے کے ساتھ شیطان نے لوگوں کو ان کی پوجا پر بھی لگا دیا اور وہ جو اللہ کی سزا اور عذاب کا ایک نمونہ تھے لوگوں کے معبود بن گئے جن کے آگے ہاتھ پھیلایا جا رہا تھا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں بتوں کو بھی گرا یا تھا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو یقیناً اس بات کا ادراک تھا کہ شیطان بت پرستی پر ڈالنے سے پہلے لوگوں کو ورغلا کر قبر پرستی کرواتا ہے۔ بزرگوں، پیغمبروں اور ہدایت یافتہ لوگوں کی قبروں پر لے جاکر وہاں ان کو چومنے اور ان پر سجدے کرنے کو کہتا ہے۔ پھر ان کے آگے ہاتھ پھیلا کر ان سے منتیں اور مرادیں مانگنے کو سکھاتا ہے۔ پھر یہ عقیدہ ان کے دلوں میں پختہ کرتا ہے کہ یہی تو وہ لوگ ہیں جو اللہ کے برگزیدہ ہیں اور اللہ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتا اس لیے تمہاری مراد پوری ہوگی تو انہی کی سفارش سے ہوگی۔ یوں قبر پرستی عبادت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی کے پیش نظر رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا:-
"عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ لعن اللہ الیہود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیاھم سجداً۔” (بخاری)
"ام المومنین حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرضِ وفات میں ارشاد فرمایا کہ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ ”
اسی خطرہ کے تحت جہاں آپ ﷺ نے لوگوں کو قبر پرستی سے روکا تو اللہ کے آگے بھی التجا کی:-
” اللھم لا تجعل قبری وثباً یعبد۔ ”
"اے اللہ میری قبر کو عبادت گاہ نہ بنانا۔”
حضور ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیمات اور ان کی ہدایت کی روشنی اور ان کی پالیسیوں کی بدولت حضور ﷺکی قبر مبارک تو عبادت گاہ میں تبدیل نہیں ہوئی مگر شیطان مردود نے مسلمانوں کو دوسری جگہ شکار کر لیا اور شکار بھی ایسا کیا کہ شاید اتنی شدت سے قبر پرستی پہلے کبھی نہیں ہوئی جیسی آج ہو رہی ہے۔ ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہو گیا ہے کہ ہم لوگوں نے اللہ کو اپنا کارساز سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے جیسے کمزور اور بے بس انسانوں کو اپنا مددگار سمجھ لیا ہے۔
قبرستانوں میں جا کر دیکھ لیجیے۔ قبروں پر قبے اور عمارتیں بنی ہوئی ملیں گی۔ کوئی چھوٹا پیر ہے کوئی بڑا پیر ہے۔ کوئی بیٹے دینے کا ماہر ہے اور کوئی بیٹیوں کا رشتہ دلانے اور ان کی شادیاں کرانے کا ایکسپرٹ ہے۔ جگہ جگہ درختوں پر یا ان ہی آشیانوں کی کھڑکیوں اور چھجوں پر سبز، لال، نیلے پیلے دھاگے اور دھجیاں لٹکتی نظر آئیں گی جو کسی منت یا مراد کے لیے لٹکائی گئی ہوں گی۔ بعض قبروں کے مجاور یا وہاں کے سجادہ نشیں پیر کچھ پڑھے ہوئے دھاگے اور کڑے وغیرہ طالب مراد کے ہاتھوں اور پیروں میں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو کبھی نہ اتارنا کیونکہ ان کی برکت سے تمہارا یہ کام ہوگا اور فلاں مراد پوری ہوگی۔ ایک دن مسجد میں ایک نوجوان دکھائی دیا جس نے اسی طرح کے دھاگے اپنی کلائی پر اور پیروں کے ٹخنوں پر باندھے ہوئے تھے۔ پوچھا کہ یہ کس لیے ہے تو بتایا کہ میرے پیر صاحب نے دیئے ہیں کہ اس سے میری مشکلات اور پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ اس سے پوچھا کہ بھائی اگر پیر صاحب کے اس عمل سے ہماری پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں تو اللہ پاک کی ذات عالی کا تو کوئی مصرف نہ ہوا تو کیا اللہ نے جو کہا اور رسول اللہ ﷺ نے جو سکھایا کہ جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ سے مانگو وہ سب غلط ہو گیا، نعوذ باللہ۔ وہ بیچارہ بحث تو نہ کرسکا مگر اس نے جو کچھ بھی کہا اس سے ظاہر ہوا کہ اس کا ایمان اپنے پیر صاحب کے ان دھاگوں پر اللہ پر ایمان سے کہیں زیادہ مضبوط تھا اور اللہ اس کی مدد کو آئے یا نہ آئے پیر صاحب ضرور مدد کریں گے۔ العیاذ باللہ۔
ہمارے معاشرہ میں پیروں اور فقیروں پر یہ ایمان اس قدر مضبوط ہے کہ اس کی مثال شاید دنیا کے کسی اور علاقہ میں نہ ملے۔ پیروں کو اتنے بلند مرتبہ اور مقام پر بٹھایا جاتا ہے کہ شاید ـ….. (استغفراللہ)۔
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ ایک مرتبہ اپنے والد صاحب کے ساتھ کسی بزرگ کے گھر گیا میری عمر شاید اس وقت گیارہ یا بارہ سال کی ہوگی۔ ہمارے وہ بزرگ اپنے چند دوستوں سے محو گفتگو تھے۔ ان کی باتیں تو میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر پاس ادب میں چپ بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک کسی بات پر کسی صاحب نے ان بزرگ سے ان کے پیر صاحب کا نام پوچھا۔ تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ لوٹا لائو۔ میں نے ادھر ادھر لوٹا تلاش کیا مگر نہ ملا۔ دیر ہو گئی تو وہ مجھ پر برس پڑے اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ اتنے میں کسی نے ان کے ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑا دیا۔ انھوں نے اس پانی سے کلی کی اور اگالدان میں تھوکتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ بیٹا لوٹا اسی لیے مانگا تھا کہ مجھے کلی کرنی تھی۔ میرے دوست نے میرے پیر میاں کا نام پوچھا تھا تو میں کلی کے بغیر کیسے ان کا نام لوں۔ عزت و تکریم کی یہ آنکھوں دیکھی بلکہ بھگتی ہوئی کارروائی نے مجھے تمام عمر پریشان کیے رکھا۔ میں نے اس کے بعد بطور خاص اس بات کو نوٹ کرنے کی کوشش کی کہ کیا یہ بزرگ اور ان جیسے دوسرے، کبھی سرور کائنات سید المرسلین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کا نام لینے سے پہلے کلی کرتے ہیں یا نہیں۔ یقین مانیے کہ میں نے یہ دیکھا کہ بھرے کلے پان چباتے اور تھوکتے ہوئے، سگریٹوں کا دھواں اڑاتے ہوئے اکثر و بیشتر لوگ حضور پاک ﷺ کا نام لینے کے لیے ایسی تعظیم کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ شاید کہ اس کی حاجت بھی نہیں اور اگر ہوتی بھی تو سید المرسلین خاتم النبیین سے بڑھ کر کون تھا جس کا نام لینے کے لیے کلی تو کیا وضو کی ضرورت ہونی چاہیے تھی۔ مگر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شیطان کے بہلانے اور راستے سے ہٹانے کے بہت سے طریقے ہیں اور وہ یہ کام کئی اسٹیجوں میں کرتا ہے۔ پہلے وہ ایک کام پر لگاتاہے جو بظاہر دیکھنے میں کچھ برا نہیں لگتا اور اس کو کرتے ہوئے آپ کے کان نہیں کھڑے ہوتے۔ پھر دوسرے اسٹیج میں وہ ایک قدم اور آگے لے جاتا ہے، ابھی بھی آپ کو کچھ غلط نہیں نظر آتا۔ پھر اس کے بعد مزید کچھ منازل طے کرانے کے بعد آپ کو اس جگہ پہنچا دیتا ہے جو کھلم کھلا شرک یا بدعت کا مقام ہوتا ہے۔ اب یہاں پہنچ کر آپ کی آخرت تو لٹ گئی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبارک کی سورۃ النساء، آیت نمبر ۴۸ میں یہ اعلان کر رکھا ہے:-
اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ افْـتَـرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا
"بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا جو اس کا شریک ٹھہرائے اور شرک کے علاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے بخشتا ہے، اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑا ہی گناہ کیا۔”
کیونکہ اللہ بڑا ہی غیور ہے اور اپنے ساتھ کسی کی برابری اور ہمسری اس کو پسند نہیں ہے۔یہاں آکر شیطان مردود تو کامیاب ہوگیا اور اس نے ایک نیک اور صالح انسان کو پٹری سے اتار کر شرک کے اندھیروں اور دائمی عذاب کی اذیتوں میں داخل کر دیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی اس ازلی دشمن کے تمام حربوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
ہمارے ملک میں تقریباً تمام قبرستانوں میں آستانے اور ڈیرے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ان قبروں کی دیکھ بھال کرنے والوں اور ان کے مجاور اور خدمت گار موجود ہوتے ہیں جو اکثر و بیشتر ان جگہوں پر غیر قانونی معاملات، چرس افیون وغیرہ کے کاروبار اور دیگر غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان سے بڑے پیمانے پر بزرگان دین کے مزارات اور روضوں پر بدعات اور شرک کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جتنے بڑے بزرگ گزرے ہیں انھوں نے اپنی تمام عمر شرک و بدعات سے دوری کی تعلیم دی اور لوگوں کو بھٹکنے سے بچا کر اسلام کے سیدھے اور سچے اصولوں پر چلا کر رکھا۔ مگر آج ان کے دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد ان کے قبروں کی پرستش ہونی شروع ہوگئی ہے اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ سوشل میڈیا آج کل بہت فعال ہے اور ہر ایک کے گھر میں گھسا ہوا ہے۔ آپ اس سے بچنا چاہیں یا نہ چاہیں یہ آپ کو گھیرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ آیئے اس سوشل میڈیا کی ایک کارروائی آپ کے گوش گزار کروں۔ پچھلے دنوں میرے پاس ایک ویڈیو کلپ آئی جو جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم اور محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے مزار پر بنائی گئی تھی۔ اس میں ایک صاحب جو غالباً مزار کے خادم تھے وہ زور شور سے اس بات کا پرچار کر رہے تھے کہ بھٹو صاحب مانگنے والے کو بیٹا دیتے ہیں، استغفر اللہ۔ وہ مثالیں دے کر واضح کر رہے تھے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ فلاں کو بھی بیٹا ملا اور فلاں کو بھی باوجود کبر سنی کے بیٹا مل گیا۔ بھٹو صاحب تو قلندر تھے اور ہیں۔ لال شہباز قلندر تو فقیر قلندر تھے بھٹو صاحب سیاسی قلندر ہیں۔ یہ سیاسی قلندر کی ترکیب آپ نے پہلے نہیں سنی ہوگی۔ ایک مشہور سیاستدان نے فرمایا کہ جیسے میرا ایمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ہے اسی طرح میرا یہ ایمان بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی عورت کو پیغمبری دیتا تو وہ بے نظیر بھٹو کو بھی پیغمبر بناتا، استغفر اللہ ثم استغفر اللہ۔ یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا انھوں نے ابطال کر دیا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ صاحب یقیناً کوئی عالم دین نہیں اور انھیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوگا کہ اللہ نے جب کوئی پیغمبر بھیجا تو اس کو معصوم بنایا اور اپنے معاشرہ کا بہترین انسان بنا کر بھیجا۔ انھوں نے جو کچھ بھی کہا شیطان کے بہکاوے میں آکر کہا۔ وہ یقیناً شیطان کے ایجنٹ تھے اور شیطان کا پیغام پاکستانیوں تک پہنچا رہے تھے۔ کتنے ہی معصوم اور بھولے بھالے لوگ ان کی اس بات سے بھٹکیں گے اور مرادیں مانگنے پہنچ جائیں گے۔ اللہ ان سب کی حفاظت کرے بطور خاص سندھ کے سیدھے سادے مسلمانوں کو ان کے چنگل سے بچائے۔آمین
آج کا مسلمان شرک و بدعات کے جن اندھیروں میں گم ہے اس کا بنیادی سبب جہالت ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے دوری اور سنت نبوی کا علم نہ ہونے کی بدولت انسان اس گڑھے میں گرتا چلا جا رہا ہے جس سے بچانے کے لیے ہمارے آقا سید المرسلین ﷺ مبعوث ہوئے تھے۔ ہمارے دین میں اس قدر بگاڑ پیدا کر دیا گیا ہے کہ ہم اس مادر پدر آزاد معاشرہ میں دین کی تعلیمات اور نیک و صالح بزرگوں کی ہدایت کے بغیر ایک کٹی پتنگ کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ جس نے جس طرف لگا دیا اس طرف لگ گئے۔ نہ یہ جانا کہ یہ ہمارا دین ہے یا نہیں اور نہ یہ پوچھا کہ کیا یہ سنت نبوی کے قریب بھی ہے۔ مساجد میں اکثر و بیشتر دینی تعلیم اور قرآن مجید کے احکامات کا علم دینے کی بجائے دیو مالائی قصے کہانیاں، بزرگان دین کے مافوق الفطرت واقعات وغیرہ سنائے جا رہے ہیں۔ تعلیم کا تو ذکر ہی کیا کہ جو دینی تعلیم کسی وقت میں دی جاتی تھی اور قرآ ن و سنت کے مطابق ہوتی تھی اسے کاٹ چھانٹ کر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اس سے کم از کم دینی ضروریات تو پوری نہیں ہوتی۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کا یہ انداز ہے کہ جس ماں کی گود میں بچہ پل کر اچھے اور برے کی تمیز سیکھتا تھا، دین کے بنیادی معاملات سے آگاہی حاصل کرتا تھا وہاں اب جِنگل اور نرسری راہیم سے آبیاری ہو رہی۔ بچوں کی تربیت کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ والد صاحب بزرگوار اپنے کاروباری معاملات میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ بچہ کس اسکول میں پڑھتا ہے۔
مسلمانو ! ہوش میں آئو۔ یقین جانو کہ ہم جس راستے پر گامزن ہیں وہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے۔ جس طرح کے اعمال ہم کر رہے ہیں وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والا ہے۔ اللہ کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے دوری ہمارا خسارہ ہے۔ پتہ نہیں کہ ہم دنیا میں کیا کچھ حاصل کرلیں مگر یہ یاد رہے کہ ہمارا مطمح نظر دنیا نہیں آخرت ہے، اور آخرت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہی ملے گی۔ اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرانی تعلیمات ہیں۔ مسلمانو! قرآن سے تعلق جوڑو، اس کی تلاوت پابندی سے کرو، اس کے احکامات کو سیکھو اور ان احکامات پر دل و جان سے عمل کرو۔ یقین جانو کہ یہی بھلائی کا راستہ اور آخرت کی کامیابی اسی سے وابستہ ہے۔ اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی اور ہمارے آل اولاد کو بھی قرآن مجید سے رابطہ قائم کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین۔