الواقعۃ شمارہ : 76 – 77 رمضان المبارک و شوال المکرم 1439ھ
اشاعت خاص : سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
از قلم : عبد المنان شورش، ڈیرہ غازی خان
نبی رحمت ﷺ کا وجود مسعود اس امت کے لیے سراپائے رحمت اس حد تک تھا کہ اگر کسی نے بحالت اسلام چہرہ پر انوار کا دیدار کر لیا تو ابد الآباد کے لیے جہنم سے چھٹکارا پا گیا۔ آپ ﷺ کے دو ر میں اہل اسلام انسانیت کا عروج اس بات کو سمجھتے تھے کہ جس نے شرفِ صحبتِ رسول پا لیا گویا اس نے دنیا و ما فیھا کا کل متاع خیر حاصل کر لیا ہے۔ یہ معیار عربی، عجمی، گورے کالے، مرد و زن تمام کے لیے یکساں تھا۔
اگر کوئی ہاشمی، قریشی نجیب الطرفین اس مقام بلند پر فائز نہ ہو سکا تو محض نسب کی یہ بلندی اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اہل السنۃ کا عقیدہ ہے کہ اہل بیت اطہار کے ذاتی اوصاف خاندانی شرف ان کی ناموسِ اسلامی پر مستزاد تو ہیں لیکن اساس نہیں۔ اس کو اساس جاننا روحِ اسلام سے نا واقفیت کے سوا کچھ نہیں۔ خود اہل بیت بھی عقیدت و محبت کا محور اسی چیز کو سمجھتے تھے۔ ذاتی پسند و نا پسند کی حیثیت نہیں بلکہ الفت و نیک جذبات اسی کے لیے جو دامن مصطفیٰﷺ میں جگہ پا گیا۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کسی نے نہیں کیا تو اس سے کوئی رشتہ داری نہ تعلق۔
زیر بحث سیرت سیدنا علی کے حوالے سے ابتدا میں اس مغالطہ کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ نامعلوم کیسے یہ تصور کر لیاجاتا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ جنھوں نے آغوش ِنبوت میں پرورش پائی ہو ان کے حب و بغض کا معیار اقتدار اور فرمانروائی ہو، اور جدال وجہاد کا محور حصولِ خلافت ہے ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘
تاریخ و سیرت اور حدیث کی کتابوں سے ادنیٰ ملابست رکھنے ولا شخص بھی جانتا ہے کہ ابو الحسنین سیدنا علی اقتدار و فرمانروائی جیسی سطحی چیزوں سے قطع نظر بالغ نظری سے تمام عمر اسلام و اسلامیان کے لیے سوچتے رہے اور محبت و نفرت کا مدار بھی صرف اسلام کو بنائے رکھا۔ ذیل میں خلفائے ثلاثہ سے آپ کے تعلقات کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ
1- حضرت علی آپ کے لیے انتہائی والہانہ جذبات رکھتے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق مرتدین کی سرکوبی کے لیے جب ذی القصہ کی جانب بنفس نفیس عازم سفر ہونے لگے تو سید نا علی نے آپ کی سواری کی لگام تھام کے فرمایاکہ’’ میں آپ سے آج وہی بات کہتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احد کے موقع پر فرمائی تھی: ’’اپنی تلوار میان میں ڈالیں اور (اپنی ذات کے بارے) میں ہمیں غم میں نہ ڈالیں مدینہ واپس تشر یف لے جائیں۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا۔ تو نظام اسلام ہی ختم ہو جائے گا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ص۳۱۴-۳۱۵، ج ۶)
2- حضرت علی کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے استفسار کیا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے بعد افضل ترین ہستی کون سی ہے تو انھوں نے فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ میں نے عرض کیا اُن کے بعد کون ہیں، تو انھوں نے فرمایا عمررضی اللہ عنہ۔ اس پر مجھے اندازہ ہو گیا کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کا سوال کروں گا تو یقیناً حضرت علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیںگے تو میں نے اپنے سوال کا انداز بدلا اور پوچھا کہ ان کے بعد تو آپ ہی ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا میں تو عام مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں۔ (صحیح البخاری حدیث ۳۶۷۱)
اسے کسر ِنفسی کا نام دیا جائے یا کچھ اور لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ کسرِ نفسی کرتے ہوئے اپنے سے افضل تو کسی کو اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب اس کی عقیدت و محبت دل میں ہو۔
نیز اس بات کو خود شیعہ علماء بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کہ حضرت علی سے یہ ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا اگر میرے پاس کوئی ایسا بندہ لایا گیا جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے تو میں اسے بہتان کی سزا دوں گا۔ (العیون و المحاسن، ص ۱۲۲، ج ۲)
اسی طرح الا حتجاج للطبرسی میں ہے کہ حضرت علی نماز کے لیے تیار ہوئے پھر مسجد آئے اور حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی۔ (الاحتجاج، ص ۹۴، ج ۱)
حضرت ابوبکر صدیق بھی آپ اور آپ کے خانوادے کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نماز عصر پڑھ کر باہر نکلے حضرت علی بھی ہمراہ تھے دیکھا کہ راستے میں سیدنا حسن بن علی کھیل رہے تھے آپ نے انھیں کندھے پر اٹھا لیا اور فرمایا : بابی شبیہ بالنبی، لیس شبیھا لعلی
میرے والد ان پر قربان ہوں یہ نبی ﷺکی شکل مبار ک کے مشابہ ہیں اور علی کے مشابہ نہیں ہیں حضرت علی یہ سن کر ہنستے رہے۔ (مسند احمد، ص ۱۷۰، ج ۱)محبت کے یہ جذبات کبھی دشمنوں کے بچوں کے بارے میں نہیں ہوتے۔
سید نا عمر رضی اللہ عنہ ابن الخطاب اور حضرت علی رضی اللہ عنہ
حضرت عمر مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ہیں حضرت علی سے آپ کا مصاہرت کا رشتہ بھی ہے۔ حضرت عمر جناب علی کو مشیر خاص کی حیثیت دیتے تھے۔ حضرت عمر بہترین منتظم شخصیت تھے۔ ریاستی امور کو منظم کرنے کے لیے تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی تو صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ تاریخ کی ابتداء کہاں سے کی جائے ؟جناب علی کا مشورہ تھا کہ ہجرت نبوی سے اس کا اجراء کیا جائے آپ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور سن ہجری جاری فرما دیا۔(التاریخ الکبیر، ج۱، ص۹)
حضرت عمر نے کئی مرتبہ اپنا قائم مقام خلیفہ حضرت علی کو بنایا عمرو ابن العاص کے خط پر جب فلسطین تشریف لے گئے تو قائم مقامی کا قرعہ حضرت علی کے نام نکلا اسی طرح جب آپ نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا ازواج مطہرات ہمراہ تھیں۔ دار الخلافۃ حضرت علی کے ہی سپرد کر آئے۔ ( المنتظم بحوالہ سید نا علی رضی اللہ عنہ از ڈاکٹر علی محمد الصلابی )
آپ محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ ابو السفر روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی اپنے دور خلافت میں اکثر ایک ہی چادر زیب تن فرمائے رکھتے کسی نے کہا ! امیر المومنین اکثر آپ اسی چادر کو ہی کیوں پہنتے ہیں حضرت علی اس سوال پر رو پڑے اور فرمایا یہ چادر مجھے میرے مخلص دوست عمر بن الخطاب نے پہنائی تھی۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ حدیث نمبر ۱۲۰۴۷)
حضرت عمر کی در خواست پر حضرت علی نے اپنی بیٹی سیدہ ام کلثوم بنت علی آپ کے عقد میں دے دی اس رشتے کا اکابر شیعہ مؤرخین نے ذکر کیا ہے۔
معروف شیعہ مؤرخ احمد بن ابی یعقوب نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ام کلثوم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں، تو حضرت علی نے فرمایا : وہ ابھی چھوٹی ہے۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا جس طرف آپ کا دھیان گیا میرا وہ مقصد نہیں (یعنی میں صرف رسول اللہ ﷺ کے خانوادے سے نسبت قائم کرنا چاہتا ہوں) تو حضرت علی نے ام کلثوم کا نکاح ان سے کر دیا حضرت عمر نے دس ہزار دینا بطور مہر ادا کیے۔ (تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۴۹-۱۵۰)
رومیوں کے خلاف حضرت عمر نے بذات خود میدان کارزار میں اترنے کا فیصلہ کیا تو سید ناعلی سامنے آگئے اور فرمایا کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اہل اسلام کو کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی۔ (نہج البلاغۃ، ۱۹۶)
خود شیعہ عالم "بحار الانوار” میں رقمطراز ہے : حضرت عمر جب شہید کر دیے گئے اور آپ کی میت غسل و تکفین کے بعد لا کر رکھی گئی تو حضرت علی فرمانے لگے کہ میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے شخص سے زیادہ محبوب کوئی نہیں (بحار الانوار، ج ۲۸، ص ۱۱۷)
آخر میں سید نا عمر کی سید نا حسین بن علی سے محبت کا ایک حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت حسین سے فرمایا کہ کبھی ہمارے پاس بھی تشریف لایا کرو چنانچہ آپ ملاقات کے لیے تشریف لے گئے وہاں جا کر دیکھا کہ خلیفۃ المسلمین سید نا معاویہ سے محو گفتگو ہیں دروازے پر عبد اللہ ابن عمر کو بھی اجازت نہ ملنے پر روک دیا گیا تھا یہ دیکھ کر آپ بھی واپس گئے بعدازاں جب حضرت عمر سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے نہ آنے کا سبب استفسار فرمایا تو حضرت حسین نے فرمایا میں آیا تھا جب دیکھا کہ خود آپ کے صاحبزادے واپس لوٹ گئے ہیں تو میں بھی پلٹ آیا تو حضرت عمر نے فرمایا بیٹے : تم اجازت ملنے میں عبد اللہ سے زیادہ حقدار ہو۔ (الا صابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۱، ص ۱۳۳)
حضرت عمر کی خانوادہ رسول ﷺ اور خاندان علی سے محبت ہی تھی جس کے باعث فارس کے غنائم سے شاہِ فارس یزدگرد کی بیٹی شہزادہ رسول ﷺ کو مرحمت فرمائی اور حضرت حسین کے صاحبزادے سیدنا زین العابدین رحمۃ اللہ ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی وہ معروف شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اسلام کی سب سے زیادہ خدمت کی حضرت علی سے آپ کی محبت کا منہ بولتا ثبوت حضرت علی کے نکاح کے اخراجات ادا کرنا ہے۔
معروف شیعہ عالم علامہ اردبلی اس واقعہ کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ’’حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان کے پاس گیا اور وہ درع ۴۰۰ درہم میں انھیں فروخت کر دی جب میں نے رقم وصول کرلی اور انھوں نے درع لے لی تو فرمانے لگے کہ اے علی! کیا میں درع کا آپ سے زیادہ حقدار نہیں ؟ اور کیا آپ ان دراہم کے مجھ سے زیادہ حقدار نہیں ؟ میں نے کہا : بالکل ایسا ہی ہے تو اس پر حضرت عثمان نے فرمایا یہ درع میری طرف سے آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ چنانچہ میں درع اور دراہم دونوں ہاتھ میں لیے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عثمان کے اس حسن سلوک کے بارے میں بتایا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں خیر و بھلائی کی دعا کی۔‘‘ (کشف الغمۃ، ج ۱، ص ۳۱۴، فی تزویج سیدۃ نساء)
محترم قارئین ! اس بات کا انکار کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی حاکم و فرما نروا سخت مصیبت و آزمائش کے وقت صرف خاص ترین احباب سے ہی مشورہ کرتاہے۔ جب حضرت عثمان کے خلاف باغی مکمل طاقت سے جمع ہو کر آئے اور مقام ذی المروہ پر پڑاؤ ڈالا تو ان باغیوں سے مذاکرات کے لیے حضرت عثمان نے حضرت علی کو ہی بھیجا آپ نے ان سے ملاقات میں فرمایا اللہ کی کتاب کو سامنے رکھو۔ حضرت علی نے خلیفۃ المسلمین کے نمائندہ کی حیثیت سے ان سے مصالحتی معاہدہ فرمایا (سیدنا علی از ڈاکٹر علی محمد الصلابی) غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کوئی دشمنوں سے مذاکرات کرنے کے لیے دشمن کو بھیجتا ہے ؟ یہ مصالحتی معاہدہ ایک جھوٹے خط کو بنیاد بنا کر توڑ دیا گیا اور باغیوں نے واپس آکر سید نا عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا علامہ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ دوران محاصرہ حضرت علی نے حضرت عثمان کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس ۵۰۰ زرہ پوش جوان ہیں آپ اجازت دیں تا کہ میں ان باغیوں کے مقابلے میں آپ کا دفاع کروں ! حضرت عثمان نے جواباََ فرمایا اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون بہے۔ (تاریخ دمشق ۳۰۴)
سیدنا علی نے اپنے صاحبزاد گان کی ڈیوٹی لگا ئی کہ وہ حضرت عثمان کے دروازے پر پہرہ دیں بلکہ حضرت حسن تو مزاحمت کرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے۔ (الطبقات لابن سعد، ج ۸، ص ۱۲۸)
مشہور شیعہ مؤرخ مسعودی لکھتا ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان کے گھر میں شدید غمگین حالت میں داخل ہوئے اور اپنے بیٹوں سے فرمایا امیر المومنین کو کیسے قتل کر دیا گیا جبکہ تم دونوں دروازے پر موجود تھے حضرت حسن کو تھپڑ مارا حضرت حسین کو مکا مارا محمد بن طلحہ کو برا بھلا کہا اور عبد اللہ بن زبیر کو لعن طعن کیا۔
محترم قارئین ! ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کی ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جن سے فرقہ واریت کو ہوا ملے افرا تفری بڑھے، نفرتوں کی خلیج پیدا ہو۔ یہ روش نہ ہمارے ایمان کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس کی گنجائش ہے۔ تعلیمات مصطفویﷺکی تاثیر ہی ایسی تھی کہ اوس و خزرج جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی شیرو شکر ہو گئے تو باقی صحابہ کرام کے بارے کیا کہا جاسکتاہے۔ ایک ہندو شاعر کہتاہے کہ
باہمی نفرت و کینہ تھا و طیرہ جن کا
سبق ان کو انس والفت کا پڑھا یا کس نے
شراب اور نشے کے تھے جو ازل سے مشتاق
مئے و حدت کا انہیں جام پلا یا کس نے
اگر تاریخ کے کسی نازک موڑ پر ان نفوس قدسیہ کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہو بھی گئی ہو تو ہمارے لیے جناب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول مشعل راہ ہے۔ مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم کی بابت ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا ’’ تلک دما ء طہر اللہ ایدینا فلنطھر السنتنا‘‘(مسند احمد حدیث نمبر ۳۷۵۰)
یہ ایسے خون تھے کہ اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو ان سے پاک رکھا ہے کیا ہم اپنی زبانیں اس سے آلود کر دیں۔ (واللہ الموفق و ولی التوفیق)