الواقعۃ شمارہ : 76 – 77 رمضان المبارک و شوال المکرم 1439ھ
اشاعت خاص : سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
از قلم : مولانا سید اسماعیل مشہدی
آج ہم خلفائے راشدین المہدیین میں سے خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی سیرتِ مقدس پر لکھنے بیٹھے ہیں جس طرح ہم نے اصحابِ ثلاثہ سے متعلق مقالات لکھ کر ان لوگوں کے شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی تھی، جو ان حضرات اصحابِ ثلاثہ پر کسی نہ کسی سبب سے بدظن اور بدگو ہیں، اسی طرح اس مقالے میں امیر المومنین حضرت علی کی عظیم الشان ہستی کے خوردہ گیروں اور عیب چینوں کے تمام الزامات کی بدلائل تردید کریں گے (ان شاء اﷲ العزیز) اور ان سے متعلق ان کے شکوک و شبہات اور بد گمانی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور افراط و تفریط سے مبرا اہلِ سنت کا صحیح مسلک پیش کریں گے۔
مہاجرین کی فضیلت اور مرتبہ
سورت توبہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:-
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُونَ (التوبۃ: ۲۰)
’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی (رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں اپنا گھر بار چھوڑا) اور اپنی جان اور مال سے ﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا، ان کا درجہ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا ہے اور یہی لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔‘‘
یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ ۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (التوبۃ : ۲۱-۲۲)
’’ان کا رب ان کو اپنی مہربانی اور رضا مندی سے ایسے باغات کی خوش خبری دیتا ہے جن میں پائیدار اور ہمیشہ کا آرام ہے، ہمیشہ ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے، بے شک اﷲ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا ذخیرہ ہے۔‘‘
اس مضمون کی اور بیسیوں آیات قرآن مجید میں موجود ہیں جن سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ سب جنتی ہیں اور فائز و کامیاب ہیں۔
ان آیاتِ مبارکہ میں : اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ سب ماضی مطلق کے افعال ہیں، یعنی جو لوگ رسول اﷲ کی حیاتِ بابرکات میں آپ کے سامنے ایمان لائے اور پھر حضور کی رفاقت میں یا آپ کی اجازت سے اپنا آبائی وطن چھوڑا اور پھر خطرناک وقت آنے پر اپنی جانِ عزیز تک ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے سے دریغ نہیں کیا، وہ لوگ یقیناً قابلِ ستائش اور مغفرت یافتہ ہیں۔
ناظرین غور فرمائیں ! اس آیت میں ایمان، ہجرت اور جہاد فی سبیل اﷲ میں مکمل انسانوں کو مبشر بالجنۃ، عظیم المرتبت، رفیع المقام، رحمت حاصل کردہ، رضا یابِ الٰہی قرار دیا ہے۔
اب ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ حضرت علی میں شیخین کرام (حضرت صدیق و فاروق) اور حضرت عثمان کی مانند یہ صفاتِ ثلاثہ اکملاً موجود تھیں اور اس صحیح نتیجے پر ناظرین کو پہنچانا ہے کہ یہی اور ان کے ساتھ دوسرے اصحاب رسول حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت طلحہ وغیرہم ہی ہیں جن کا اس مندرجہ آیتِ قرآنی میں ذکرِ خیر کیا گیا ہے۔
حضرت علی کا سلسلۂ نسب
علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب۔ حضرت علی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی محسن، مربی اور محب چچا صاحب جناب ابو طالب کے فرزندِ ارجمند تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسعد بن ہاشم تھا۔ یہ پہلی ہاشمیہ تھیں کہ خاندانِ ہاشمی میں منسوب ہوئیں۔ اسلام لائیں، ہجرت فرمائی، حضرت علی، جعفر اور عقیلy کی والدہ یہی تھیں۔ آپ کی والدہ صاحبہ نے مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ عاجز راقم نے خود ان کی قبر مبارک کو قبرستان کی مشرقی دیوار کے بالکل متصل دیکھا ہے۔ (نوّر اﷲ قبرھا)
حضرت علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری اپنی تصنیفِ لطیف ’’رحمۃ للعالمین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ فوت ہوئیں تو نبی ﷺ نے ان کے کفن میں اپنا کرتا عطا فرمایا اور جب ان کو لحد میں اتارا گیا تو آنحضرت ﷺ بھی لحد میں ان کے ساتھ لیٹ گئے اور فرمایا: میں نے قمیص اس لیے دیا کہ ﷲ تعالیٰ ان کو حلّہ جنت پہنائے اور ساتھ اس لیے لیٹا کہ قبر کی وحشت جاتی رہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے حق میں فرمایا کرتے تھے کہ چچا ابو طالب کے بعد ان سے بڑھ کر میرے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا اور کوئی نہ تھا۔
سبحان اللہ ! یہ ہیں حضرت علی کی قابلِ صد رشک والدہ، جن کی آنحضرت ﷺ اتنی تعریف و توصیف بیان فرما رہے ہیں۔ اس عظیم المرتبت ماں کا دودھ حضرت علی نے پیا تھا۔ ان کی گود آپ ﷺ کی ابتدائی تربیت گاہ بنی، ان کی مشفقانہ، محسنانہ اور متحملانہ طبیعت سے آپ نے فیض پایا اور سیکڑوں اسباق حاصل کیے۔ آپ جانبین سے ہاشمی ہیں اور یہ بات آپ کی خصوصیات میں شمار ہونے کے لائق ہے۔
آپ کا شاندار بچپن
حضرت ابن عباس اور حضرت سلمان فارسی کا فرمان ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بعد سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے تھے۔ اس وقت ان کی عمر آٹھ سال کی تھی۔ تمام تواریخِ اسلامی اور کتبِ حدیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں میں سے سب سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجہ ایمان لائیں، مردوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق اور لڑکوں میں سے سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے تھے اور ان کی عمر ایمان لانے کے وقت آٹھ سال کی تھی۔ (تفسیر وحیدی)
آٹھ سال کی عمر انسان کا عالمِ بچپن شمار ہوتا ہے اور عالمِ بچپن کی کوئی ناجائز حرکت خدا کے ہاں قابلِ سزا نہیں ٹھہرتی اور یہاں تو حضرت علی کا عالمِ بچپن بھی پاک و صاف گزرتا ہے۔ اس لیے آپ کے آٹھ سالہ عالمِ بچپن کو دورِ جاہلیت کا نام ہی نہیں دینا چاہیے۔
آپ کے والد ابو طالب اور والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ حضور اکرمﷺ سے حد سے زیادہ شفقت و محبت رکھتے تھے اور اپنی اولاد کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ یہ بھی تمہارے حقیقی بھائیوں ہی کی مانند ہیں۔ ان سے محبت کا راستہ استوار رکھو اور حضرت علی یہ مشفقانہ برتائو روزانہ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے بھی آپ کو بچپن سے ہی آنحضرت سے قلبی لگائو ہو گیا اور چونکہ خود آنحضرت ﷺ تمام لغویات سے محفوظ رکھے جاتے تھے اور ﷲ تعالیٰ کی طرف سے خاص حفاظت کا انتظام تھا، لہٰذا حضرت علی بھی ہم صحبت رہنے کے باعث تمام لغویات سے بچے رہے تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ایک مرتبہ ایامِ قحط میں آنحضرت ﷺ (جو اس وقت تجارت پیشہ ہونے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے شادی کرنے کے باعث فارغ البالی سے زندگی بسر فرماتے تھے) اور آپ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب نے باہم مشورہ کیا کہ یہ قحط کا وقت ہے اور ابو طالب کا کنبہ بڑا ہے، مناسب ہے کہ اُن کے ایک ایک لڑکے کو ہم اپنے گھر لے آئیں، اس طرح کچھ تو ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔
چنانچہ دونوں ابو طالب کی خدمت میں پہنچے اور اپنی خواہش بیان کی، ابو طالب نے کہا کہ عقیل کو تو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جائو۔ اس پر حضرت جعفر کو حضرت عباس بن عبد المطلب اپنے گھر لے گئے اور حضرت علی بن ابو طالب کو آنحضرت ﷺ اپنے گھر لے آئے۔ اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک پینتیس سال کی تھی اور حضرت علی کی عمر پانچ سال کے قریب تھی۔
اب جبکہ بچپن ہی میں رسول اکرم ﷺ حضرت علی کو اپنے چچا کے ہاں سے اپنے گھر لے آئے تھے تو کیونکر بری ہوا لگ سکتی تھی اور لغویات کی پرچھائیں پڑ سکتی تھی ؟ جیسا کہ پہلے عرض کی جا چکی ہے کہ حضرت علی بچپن ہی میں رسول اللہ ﷺ کی صحبتِ صالح میں آگئے تھے اور اس اصلی تربیت گاہِ عالم کے اولین تربیت یافتہ ہونے کے شرف سے مشرف تھے۔
حضرت علی کا ایمان، عقل کی میزان میں
گزشتہ آیتِ مبارکہ میں پہلا قدم ایمان کا ہے۔ حضرت علی کے توحیدِ خدا اور رسا لتِ مصطفی پر ایمان لانے سے متعلق تمام تواریخِ اسلام اور کتبِ حدیث مثل صحیح بخاری شریف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے یہی اس دولت سے مالا مال ہوئے تھے۔ علامہ قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری کی تحقیق دقیق یہ ہے کہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کے بعد سب سے پہلے حضرت علی مرتضیٰ ہی ایمان لائے تھے۔
جیسا کہ پہلے عرض کی جا چکی ہے حضرت علی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے والدین کا مشفقانہ برتاؤ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ہو رہے تھے۔ رحمت خدا شاملِ حال ہوئی تو رسول اللہe ان کو بچپن میں اپنے گھر لے آئے۔ اس طرح ہر وقت صحبتِ صالح میں رہنے کے باعث وہ رسول اللہ ﷺ سے بہت مانوس ہو گئے تھے۔ توفیقِ ایزدی کا کرشمہ کہیے کہ بچپن میں ہی رسول اللہ اور اسلام کی صداقت کا سکہ ان کے قلبِ مطہر میں بیٹھ گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ایمان لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کا دامن تھامے رہے اور سفر و حضر میں ساتھ رہے۔ دعوائے نبوت صادقہ کے بعد ابتدائی تین سال جن میں رسول اللہ ﷺ انتہائی خاموشی کے ساتھ تبلیغ اسلام فرماتے تھے۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کی مانند حضرت علی بھی وابستہ دامانِ یار رہے ہیں۔
چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی کسی پہاڑ کی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، اتفاقاً حضرت علی کے والد ابو طالب ادھر آ نکلے اور خاموش کھڑے نماز کے لیے دونوں کی حرکات دیکھتے رہے۔ جب نماز ختم ہو چکی تو پوچھا کہ یہ کیا مذہب ہے جو تم نے اختیار کر لیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دینِ ابراہیمی ہے۔ ابو طالب نے حضرت علی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ بیٹا تم محمد ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑنا، مجھ کو یقین ہے کہ محمد ﷺ تم کو نیکی کے سوا کسی برائی کی ترغیب ہر گز نہ دیں گے۔ (تاریخ اسلام: ۱/۹۶ از اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی)
اس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ اُن ایام میں جب کہ چھپ چھپ کر نمازوں کی ادائیگی ہوتی تھی، حضرت علی رسول ﷲ ﷺ کے خانہ مبارک میں بھی اور باہر بھی آپ کی معیت میں ہوتے تھے۔
تین سال کی خاموش تبلیغِ اسلام کے بعد فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ [الحجر: ۹۴] ’’تم کو جو کچھ حکم دیا گیا ہے اُسے کھول کر سنائو۔‘‘ کا حکم نازل ہوا۔ تعمیلِ حکم کے لیے آپ ﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر تمام قبائل کو جمع کر کے پہلی مرتبہ علانیہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کیا۔ جس پر ابولہب وغیرہ قریشی سردار حد سے زیادہ برافروختہ ہو گئے۔ چند روز کے بعد وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ [الشعراء : ۲۱۴] ’’یعنی قریبی رشتے داروں کو ڈراؤ‘‘ نازل ہوئی۔ رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علی کو جو آپ کے گھر میں تشریف فرما تھے، حکم دیا کہ ضیافت کا انتظام کرو۔ چنانچہ انھوں نے ضیافت کا انتظام کیا، قریباً تمام افرادِ خاندانِ ہاشم اس ضیافت میں آئے۔ جب سب کھانا کھا چکے تو آپe نے کچھ فرمانا چاہا، لیکن ابو لہب کی یاوہ گوئی کے باعث آپ کچھ نہ فرما سکے اور اہلِ خاندان منتشر ہو گئے۔
دوسرے روز آپ نے پھر ضیافت کا انتظام کر کے رشتے داروں کو بلوایا، جب سب کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اُن کو مخاطب فرمایا کہ دیکھو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ جس سے زیادہ اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلے کی طرف نہیں لایا۔ بتائو اس کارِ خیر میں کون میرا معاون ہو گا؟ یہ سن کر سب خاموش تھے، کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تفسیر ابن کثیر کی روایت کے مطابق حضرت علی اٹھے اور کہا: میں آپ کا ساتھ دوں گا، حضرت علی قد کے لحاظ سے ذرا پست تھے۔ ابھی بچہ تھے اور کمزور نظر آرہے تھے۔ اس پر یہ جراَت مندانہ اور عالی حوصلہ الفاظ سن کر دیگر افرادِ خاندان ہنس پڑے اور مذاق اڑاتے ہوئے باہر نکل گئے۔
اس ضیافتِ طعام کے موقع پر تمام خاندان میں سے صرف ایک حضرت علی ہی رسول ﷲ ﷺ کی امداد و اعانت کا اعلان فرما رہے ہیں۔ خاندان کے تمام افراد کی موجودگی میں جذبۂ محبت میں سرشار انسان کے سوا کون ایسے دلیرانہ الفاظ زبان پر لا سکتا تھا۔ رسول ﷲ ﷺ سے وابستگی اور آپ پر دل و جان سے شیفتگی اور پختگی ایمان و ایقان کے سوا کون سی چیز ایسے الفاظ زبان پر لانے کی محرک ہو سکتی تھی، اس کے علاوہ خطرناک موقع پر رسول ﷲ ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑنا، شبِ ہجرت، بدر، اُحد، خندق، صلح حدیبیہ، فتح مکہ، خیبر اور حنین کے واقعات میں شاندار اور پر شجاعت کارنامے انجام دے کر امتیاز حاصل کرنا اس بات پر شاہدِ عدل ہے کہ حضرت علی کا ایمان خدا کی توحید اور رسول ﷲ ﷺ کی رسالت پر پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔
حضرت علی کی ہجرت
زیب عنوان کی رو سے اہلِ ایمان کی دوسری صفت ہجرت مذکور ہے۔ ایمان کے بعد اب حضرت علی کی ہجرت کا حال ملاحظہ فرمائیے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ [الأنفال: ۳۰]
’’اے نبی! اﷲ تعالیٰ کی اُس نعمت کو بھی یاد کرو جبکہ کافر تیرے ساتھ فریب بازیاں کر رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر دیں یا جلاوطن کر دیں وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے، اور اﷲ تعالیٰ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب مدبرین سے زیادہ مستحکم تدبیر کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔‘‘
کی تفسیر امام المفسرین حضرت علامہ ابن کثیر اپنی شہرہ آفاق تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں یوں فرماتے ہیں کہ کفارِ مکہ کا یہ مشورتی واقعہ ابو طالب کی موت کے تقریباً تین سال بعد کا ہے۔ ان کی موت نے ان کی جراَتیں دوبالا کر دی تھیں اور انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کی ایذا دہی پر کمر باندھی تھی۔ اس کے بعد مشورہ کا پورا واقعہ حضرت امام احمد بن محمد بن حنبل کی مسند احمد سے لکھا ہے، جس کا لبِ لباب یہ ہے۔
مکہ کا دار الندوہ میں ایک رات سردارانِ قریش جمع ہوئے۔ ملعون ابلیس ایک بہت مقطع بزرگ کی صورت میں مجلس میں آ بیٹھا اور خود کو اہلِ نجد کا شیخ ظاہر کیا۔ رسول ﷲ ﷺ کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنے کے خیال سے سرداروں نے اپنی اپنی آراء پیش کرنی شروع کیں۔ کسی نے کہا : اسے قید کر کے بھول جائو۔ کسی نے کہا : مار ڈالو، کسی نے کہا : دیس نکالا دے دو۔ میر مجلس شیخ نجدی ہر رائے کو بدلائل رد کر دیتا تھا۔ آخر ابو جہل نے کہا : ہر قبیلے سے ایک نوجوان، جری، بہادر مانا ہوا شخص چن لو۔ سب نوجوان ایک ساتھ اُس پر حملہ کریں اور اپنی تیز تلواروں سے اُس کے ٹکڑے اڑا دیں۔ پھر تو اس کے قبیلہ ہاشم کے لوگ یہ ہمت نہیں کر سکیں گے کہ تمام قبائل قریش سے لڑیں۔ اس صورت میں اس کا خون تمام قبائلِ قریش میں بٹا ہوا ہو گا، ناچار وہ دیت لینے پر آمادہ ہو جائیں گے اور ہم اس بلا سے چھوٹ جائیں گے۔
اس تجویز پر شیخ نجدی اُچھل پڑا اور کہا : بس یہی کرو اور اس قصے کو ختم کر دو، چنانچہ اس گزشتہ شب کی قرارداد کے موافق عمل پیرا ہونے کے لیے کفار نے شاموں شام آنحضرت ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے۔ آپ کو ﷲ تعالیٰ نے جبرئیل کے ذریعے سے اس مجلس کی طے شدہ تجویز سے با خبر کر دیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو بلا کر اپنے بستر پر اپنی سبز چادر اوڑھ کر لیٹنے کو فرمایا اور خود باہر تشریف لائے۔ قریش کے مختلف قبائل کا جتھہ آپ کے گھر کو گھیرے کھڑا تھا۔ آپ زمین سے ایک مٹھی مٹی اور کنکر کی بھر کر اُن کے سروں اور ان کی آنکھوں میں ڈال کر سورت یاسین کی آیت فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ [یٰس : ۹] (پس وہ نہیں دیکھتے ہیں) تک تلاوت فرماتے ہوئے باہر نکل گئے۔
آنحضرت ﷺ اپنے مکان سے یوں نکل کر سیدھے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کے گھر پہنچے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے موافق انھیں ساتھ لے کر غارِ ثور میں جا چھپے۔ حضرت علی آپ کے بستر مبارک پر استراحت فرما رہے اور مشرکین یہ سمجھ کر خود رسول اکرم ﷺ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے ہیں۔ ساری رات پہرہ دیتے رہے، صبح سب کود کود کر پہنچے، دیکھا تو حضرت علی ہیں، ساری تدبیر چوپٹ ہو گئی، پوچھا کہ تمہارے صاحب کہاں ہیں ؟ حضرت علی نے اپنی لا علمی ظاہر کی، یہ لوگ نشانِ قدم دیکھتے ہوئے اُس غارِ ثور کے پاس سے گزرے، لیکن دیکھا کہ وہاں مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے، کہنے لگے : اگر وہ اس میں جاتے تو جالا کیسے سلامت رہ جاتا۔ حضور ﷺ نے تین راتیں اُسی غار میں گزاریں۔
یہاں تک تو واقعہ ہجرت ہم نے معتبر ترین تفسیر ابن کثیر سے نقل کیا ہے۔ صاحبِ تفسیر نے ’’مسند امام احمد‘‘ سے باسند نقل فرمایا ہے۔ نہ صرف ابن کثیر نے یہ واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے، بلکہ تمام مفسرین اہلِ سنت کا اس پر اتفاق ہے اور ان مفسرینS نے اہلِ سنت کے نزدیک قابلِ اعتماد کتبِ حدیث سے نقل کیا ہے۔ گویا ایک گونہ تمام علمائے اہلِ سنت کا اس واقعہ پر اتفاق ہے۔
ایک تاریخی روایت میں یوں بھی مذکور ہے کہ وحی الٰہی کے مطابق حضرت علی کو اپنے بستر پر سلاتے وقت خود اپنے دستِ مبارک سے اپنی چادر ان پر ڈالی اور فرمایا کہ لو! اطمینان سے سوئے رہو، یہ محاصرین تم کو قتل کر دینے پر قادر نہیں ہو سکتے۔ نیز امانتیں جو اہلِ مکہ کی آپ ﷺ کے پاس تھیں وہ بھی حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کے سپرد کر کے سمجھا دیں کہ صبح اٹھ کر یہ امانتیں اُن کے مالکوں کے پاس پہنچا دینا، اس کے بعد خود بھی مدینہ کی طرف آجانا۔
رسول ﷲ ﷺ کے یہ چچا زاد بھائی حضرت علی مرتضیٰ جو بیٹے کی طرح آپ ہی کے پاس رہتے تھے، رات بھر اطمینان سے سوئے رہے، خود فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرما دیا کہ یہ محاصرین مجھ کو قتل نہیں کر سکیں گے۔ تو میرے دل میں یقین محکم نے جگہ پکڑ لی کہ جب آنحضرت ﷺ کی زبان صداقت بیان سے یہ نکلا ہے تو کفار قطعاً میرے قتل پر قادر نہیں ہو سکیں گے، چنانچہ اس یقین کی بنا پر مجھے ایسی گہری نیند آئی کہ پھر میں تمام عمر ایسی شب ہجرت والی میٹھی نیند کو ترستا رہا ہوں۔
صبح جب کفار نے چادر اٹھا کر آنحضرت کے بجائے حضرت علی کو دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے۔ ادھر ادھر بھاگے اور حضرت علی سے انھوں نے کچھ تعرض نہ کیا۔ حضرت علی نے اطمینان سے مفوضہ امانتیں مالکوں کو پہنچائیں۔ رسول ﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق جب تک غارِ ثور میں رہے، حضرت علی مکہ میں مقیم رہ کر امانتیں لوگوں کے سپرد کرتے رہے۔ جب رسول ﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق غارِ ثور سے مدینہ شریف کی طرف روانہ ہوئے، اُسی روز حضرت علی مکہ سے مدینہ کی طرف چلے، چونکہ حضرت علی تنہا روانہ ہوئے، اس لیے رات بھر چلتے اور دن کو کہیں چھپ کر پڑے رہتے۔ آنحضرت ﷺ معروف راستے سے بچ کر تشریف لائے، مگر چونکہ پیدل تھے، اس لیے آنحضرت ﷺ سے تین چار دن بعد قبا پہنچے۔ رسول ﷲ ﷺ ابھی قبا میں ہی فروکش تھے کہ حضرت علی بھی قبا سے مدینہ کی طرف روانگی سے پہلے آپ کی خدمت میں پہنچ گئے۔
قابلِ غور امر
جیسا کہ قارئین کرام نے پڑھا ہے اس شب ہجرت کو رسول ﷲ ﷺ حضرت علی کو اپنے بستر میں سلا رہے ہیں اور وہ منہ لپیٹ کر گہری نیند سو گئے ہیں۔ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کے ایمان کی پختگی دیکھیے اور فرمانِ رسول ﷲ ﷺ (کہ یہ کفار تم کو قتل نہیں کر سکتے) کی صداقت پر کامل اعتماد ملاحظہ فرمائیے کہ کفار غصے سے بھرے ہوئے عزم بالجزم کے ساتھ جان لیوا محاصرہ ڈالے کھڑے ہیں اور منہ لپیٹے سوئے ہوئے آدمی سے متعلق ہر آن خیال رکھ رہے کہ یہ ہمارا مطلوب سو رہا ہے، ابھی اٹھ کر باہر آئے گا تو اس کو تلواروں کی ایک ہی ضرب سے ختم کر دیں گے اور یہ بھی امکان ہے کہ وہ اعدائے رسول دیوار پھاند کر صحن میں آجائیں، کیوں کہ حضرت ﷺ صحن میں سو رہے تھے اور بغیر چادر اٹھا کر چہرہ دیکھنے کے جوشِ غضب میں تلواریں برسا دیں، کیوں کہ ان کو چہرے سے چادر ہٹا کر تحقیق کرنے کی کیا پڑی تھی، ان کو تو کامل یقین تھا کہ یہ محمد ﷺ ہی لیٹے ہوئے ہیں۔ ان تمام امکانات و خدشات کے باوجود حضرت علی مطلق نہیں گھبرا رہے اور اطاعتِ رسول کو پیشِ نظر رکھ کر جان کو جوکھوں میں ڈال دینے پر آمادہ ہو گئے ہیں اور رسول ﷲ ﷺ کے فرمان کی صداقت پر اتنا یقین محکم رکھ رہے ہیں کہ گہری اور میٹھی نیند سو رہے ہیں۔ بھلا دشمنوں کی سر پر موجودگی کے وقت کون شخص آرام سے سو سکتا ہے۔ حضرت علی نے یقین کی ایک مثال قائم فرما دی۔
دوسرا ملاحظہ فرمائیے کہ امانتیں لوگوں کی سپرد کر کے رسول ﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق مدینہ کو روانہ ہو رہے ہیں۔ پیدل ہیں کوئی راہ نما ساتھ نہیں۔ یہ راستہ پہلے کبھی دیکھا نہیں، رات کو چلتے ہیں اور دشمنوں کے ڈر کے مارے دن کو کسی پہاڑ کی چٹان کی اوٹ میں چھپے رہتے ہیں، یہ پہاڑی اور دشوار گزار سفر اسی طرح طے فرماتے ہیں۔ اس سفر کا حال حجاج کرام سے پوچھیے موٹر پختہ سڑک پر جا رہا ہے اور ہر طرف سرخ، سیاہ پہاڑ نظر آرہے ہیں اور پہاڑوں کے باعث سڑک متعدد مقامات پر بل کھاتی ہے۔ جدہ سے مدینہ کی طرف قریباً سو ڈیڑھ سو میل میدانی سفر کے بعد پھر سلسلہ کوہ شروع ہو جاتا ہے اور تین سو میل تک سوائے پہاڑوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ میں تو یہ پہاڑی سلسلہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ بارہا خیال آتا تھا کہ ﷲ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷲ ﷺ کو یہ دشوار گزار راستے طے کرنے پڑے اور صحابہ کرام ان گھاٹیوں سے گزر کر مدینہ منورہ پہنچے۔ ﷲ ﷲ یہ نظارہ دیکھ کر دل شہادت دینے لگا تھا کہ اخلاص، للہیت، رسول ﷲﷺ کی رسالت پر پختہ ایمان کے بغیر اپنے وطن چھوڑ کر ان دشوار گزار راستوں میں پڑنا کیسے ممکن ہے۔
جہاد فی سبیل ﷲ
زیب عنوان آیتِ کریمہ کی رو سے ایمان و اسلام میں عمل صحابہ کرام میں تیسری صفت حسنہ جہاد فی سبیل ﷲ کا ذکر ہے۔ جہاد فی سبیل ﷲ کے سلسلہ میں پہلے جہاد بالمال کا ذکر ہے۔ حضرت علی اصحاب ثلاثہ، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم کی مانند شروع شروع متمول نہیں تھے، لیکن جتنا کچھ بھی خدا کا دیا رکھتے تھے، اس میں بالالتزام فی سبیل ﷲ خرچ کرتے تھے۔ چنانچہ قریباً قریباً تمام اہلِ سنت مفسرین نے جن کا شیوہ اور لازمہ زندگی ہی دامنِ انصاف سے وابستہ رہنا ہے بالاتفاق امتِ مرحومہ کے حبر امت مفسر قرآنِ رسول ﷲ ﷺ کے دعا یافتہ حضرت عبد ﷲ بن عباس کا یہ قول نقل فرمایا ہے: وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا [الدھر: ۸] حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شان میں اتری ہے۔ یہ دونوں خود بھوکے رہتے مگر یتیم اور محتاج کو کھلا دیتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ کی محبت سے یتیم، مسکین اور قیدی کو کھانا کھلاتے تھے، یعنی اپنی ضرورت اور حاجت پر ان لوگوں کا کھانا مقدم رکھتے تھے حالانکہ خود اپنے آپ کو کھانے کی خواہش ہوتی، مگر خود نہ کھا کر ان لوگوں کو کھلا دیتے۔ بعض مفسرین کے قول کے مطابق قیدی سے مراد غلام اور لونڈی ہیں۔ وہ بھی قیدی کی طرح دوسروں کے بس میں ہوتے ہیں۔ عَلٰی حُبِّہٖ ’’خدا کی محبت سے‘‘ میں ’’ہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع اگر طعام سمجھا جائے تو معنی یوں ہو گا (کھانے کی احتیاج اور خواہش رکھ کر) مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے تھے۔ بعض مفسرین، مثلاً : حضرت نواب وحید الزمان نے اس طرح بھی تفسیر فرمائی ہے اور اگر معنی خدا کی محبت سے ہی کا رہنے دیا جائے تو بھی بات وہی ہے کہ ان کی زندگی کا نصب العین خدا کے فضل اور اس کی رضا کا حصول ہے۔ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَانًا [المائدۃ: ۲] ﷲ تعالیٰ کی حاجت مند مخلوق کو وہ کھانا اسی لیے کھلاتے ہیں کہ ان کا پیٹ بھرے گا وہ خوش ہوں گے، چونکہ ریا و طمع کا محل درمیان میں نہیں ہوتا۔ محض وجہ ﷲ کھلاتے ہیں اس لیے کھانے والوں کے خوش ہونے خدا تعالیٰ خوش ہو جاتا ہے۔
جہاد بالنفس
قرآنِ حکیم میں دینِ اسلام کی مدد کرنے کے سلسلہ میں مال سے جہاد کے بعد اپنی جان سے جہاد کا ذکر ہے، یعنی ان مومنین، صادقین صحابہ کرام نے اپنے اموال راہِ خدا میں لٹائے اور اگر اعدائے دین، دینِ حق کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حملہ آور ہوئے، یا ان کی کی طرف سے کسی شرارت اور سازش کا پتا چلا تو اپنی عزیز جانیں تک راہِ خدا میں نثار کرنے کو تیار ہو گئے۔ غربت و افلاس ا ور بے سرو سامانی کی وجہ سے اسلحہ سے لیس نہ ہونے کے باوجود انھوں کے کفار کے منہ موڑ دیے۔ جہاد بالنفس کے سلسلہ میں نان جویں پر گزر اوقات کرنے والے یہ شیرِ خدا حضرت علیt اپنی شمشیر خار اشگاف ذوالفقار کو اپنے ہاتھ میں لے کر جب نکلتے تھے تو کفار کے دل دہل جاتے تھے اور رجز حیدری سے میدانِ جنگ گونج اٹھتا تھا۔ رسولِ اکرم ﷺ کے عہدِ سعادت مہد میں جنگِ تبوک کے سوا تمام جنگوں میں آنحضرت کی فوج میں رہے اور رفیقِ شفیق ہونے کا ثبوت دیا۔ جس طرح رسول ﷲ ﷺ کی اجازت سے حضرت عثمان جنگِ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اسی طرح جنگِ تبوک میں حضرت علی کو آنحضرت ساتھ نہیں لے گئے تھے، حالانکہ حضرت علی کی زبردست خواہش تھی کہ اس فوج کے ایک سپاہی وہ بھی ہوں، لیکن حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : ان کو آپ کے اہلِ بیت کی نگرانی کے لیے چھوڑا جا رہا ہے۔
جنگِ بدر
یہ کفر و اسلام کے درمیان پہلا زبردست معرکہ ہے۔ اس عظیم الشان جنگ کا ذکر ﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید کی سورہ انفال میں مفصلاً فرمایا ہے۔
مختصراً یہ کہ یہ وہ جنگ ہے جس میں صحابہ کرام تفسیر ابن کثیر کی روایت کے مطابق تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکینِ مکہ ایک ہزار سے زیادہ۔ امام ابن کثیر حضرت علی کا قول لائے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : انھیں جنگِ بدر میں حضرت مقداد کے سوا کسی کے پاس گھوڑا نظر نہ آیا۔ گویا سامان جنگِ کی یہ حالت تھی یہی وہ با عظمت جنگ ہے، جس میں رسول ﷲ ﷺ نے اپنی مٹھی بھر بے سامان فوج کو دیکھا اور فوراً اپنے لیے ایک جھونپڑی تیار کرائی، جس میں تمام صحابہ میں سے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق آپ کے پہرے دار ہوئے۔ آپ ﷺ نے اس مبارک جھونپڑی میں قبلہ رخ ہو کر صبح تک ﷲ تعالیٰ سے دعا کی۔ روئے گڑ گڑائے اور مناجات کی اور یہ الفاظ کہے :-
"اللّٰھم ان تھلک ھذہ العصبۃ من أھل الإیمان الیوم فلا تعبد في الأرض ابداً۔” (تفسیر ابن کثیر تحت آیت : اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ [الانفال: ۹])
’’اے ﷲ! اہلِ زمین کی تھوڑی سی جماعت اگر آج ہلاک ہو جائے گی تو پھر کبھی بھی تیری توحید کے ساتھ عبادت زمین پر نہیں ہو گی۔‘‘
بخاری و مسلم میں ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت حاطب بن ابو بلتعہ کے قتل کا مشورہ رسول ﷲ ﷺ کو دیا تو آپ نے فرمایا : بدری صحابی ہیں تم نہیں جانتے ﷲ تعالیٰ نے بدریوں پر نظر ڈالی اور فرمایا تم جو چاہو کرو میں نے تمھیں بخش دیا الفاظ یوں ہیں:-
"وما یدریک لعل ﷲ الطلع علی أھل بدر فقال اعملوا ما شئتم قد غفرت لکم۔”
یہ صحیحین کی روایت ہے۔ اہلِ تشیع کے اطمینان قلب کے لیے گزارش ہے کہ ان کی معتبر تفاسیر مجمع البیان طبرسی اور خلاصۃ المنہج کاشانی میں بھی سورت انفال ذکر جنگِ بدر میں یہ روایت موجود ہے۔
ابنِ کثیر اور امام المحدثین امام بخاری نے بھی باب باندھا ہے۔ ’’بدر کے دن فرشتوں کا اترنا‘‘ پھر حدیث لائے ہیں کہ جبرائیل نبی اکرم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بدری صحابہ کا درجہ تم میں کیسا سمجھا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اور مسلمانوں سے بہت افضل۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا : اسی بدر میں آنے والے فرشتے بھی اور فرشتوں سے افضل گنے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں شیعہ مفسرین نے بھی بدری صحابہ کو بہترین سرومان روئے زمین تمام زمین کے آدمیوں سے بہتر کہا ہے۔
یہی وہ جنگ ہے جس میں ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی امداد اور حوصلہ افزائی کے لیے فرشتوں کی فوج بھیجی اور قرآنِ پاک میں فرمایا: وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ [آل عمران: ۱۲۳] ’’بدر میں ﷲ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔‘‘
نتائج
اس جنگ میں حصہ لینے والے مسلمان اہلِ ایمان ہیں۔ مغفرت یافتہ ہیں۔ امت کے بہترین افراد ہیں۔ روئے زمین کے آدمیوں سے اچھے ہیں۔ خداتعالیٰ نے ان کی جانبازی کو مدنظر رکھ کر فرشتوں کی فوج امداد کے لیے بھیجی، مدد کے قابل پایا، مدد فرما کر وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْر کے الفاظ ارشاد فرمائے۔
ضروری درخواست
مندرجہ بالا روایات اور نتائج کی روشنی میں دیکھیے اور تعصب کی پٹی کو آنکھوں سے اتار پھینکئے کہ بدری صحابہ میں سے کسی صحابی رسول ﷺ سے متعلق اپنے دل میں ذرہ برابر بد گمانی لا کر اپنے ایمان کو نہ گنوائیے اور اس ثابت شدہ امر سے اعراض نہ فرمائیے کہ بدری اصحابِ مغفرت یافتہ ہیں اور روئے زمین کے افراد سے افضل و بہترین لوگ ہیں۔ ایک ضروری بات قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر توبہ نفسِ نفیس اس جنگ میں شمولیت فرما تھے اور حضرت عثمان غنی کو حضور اکرم نے اہلِ بدر میں شامل فرمایا تھا۔ تو آسمانِ اسلام کے ستاروں میں سے سب سے زیادہ چمک دمک رکھنے والے ان چار ستاروں (حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنھم) میں سے کسی کے متعلق بھی بدظنی رکھ کر ان کی چمک دمک سے انکار کر کے شیرہ چشم کہلوایا جائے اور ارشادِ رسولِ کریم ﷺ: "أصحابی کالنجوم بانھم اقتدیتھم اھتدیتم” کے تحت ان کی اقتدا سے رو گردانی کر کے خدا تعالیٰ کی ہدایت سے ہی محروم رہا جائے۔
اس جنگ میں حضرت علی کا کردار
مورخین اہلِ سنت و الجماعت (یعنی اہلِ حدیث اور ائمہ اربعہ کے مقلدین یا محدثین اور فقہاء یا اہلِ حدیث، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کی تحریر کے مطابق جنگِ بدر کے لیے ۱۷ رمضان المبارک ۲ھ میدان کارزار گرم ہوا۔ طرفین سے صفوفِ جنگ آراستہ ہوئیں۔ اس کے بعد لشکرِ کفار سے رسمِ عرب کے موافق اولی عتبہ و شیبہ پسران ربیعہ اور ولید بن عتبہ میدان میں آئے اور ’’ھَلْ مِنْ مُبَازِرٍ‘‘ (ہے کوئی مقابلے پر آنے والا) ہی کا نعرہ لگایا یہ سن کا انصار کے تین شخص چھلانگیں لگاتے اور تلواروں کو تولتے ہوئے میدان میں پہنچ گئے۔ عتبہ نے یہ معلوم کر کے اہلِ مدینہ میں سے ہیں نہایت متکبرانہ انداز اور درشت لہجہ میں کہا : ’’مَا لَنَا بِکُمْ مِنْ حَاجَۃٍ‘‘ ’’ہم کو تم سے لڑنے کی ضرورت نہیں‘‘ پھر چلا کر کہا : ’’یا محمد أخرج إلینا اکفاءنا من قومنا‘‘ ’’اے محمد ہمارے مقابلے کے لیے ہماری ذات برادری کے لوگوں کو بھیجو۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی اور حقیقی چچا حضرت حمزہ اور عبیدہ بن الحرث کو میدان میں نکلنے کا حکم دیا، تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنوں کو بچاتے ہیں اور دوسروں کو مقابلہ کفار کے لیے بھیجتے ہیں، اس لیے پہلے اپنوں کو میدانِ جنگ میں جانے کا حکم صادر فرمایا۔ حضرت علی اور حضرت حمزہ نے عتبہ اور ولید دونوں باپ بیٹے کو ایک ہی وار میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شیبہ کے مقابلے میں حضرت عبیدہ زخمی ہو گئے یہ دیکھ کر حضرت علی نے بڑھ کر شیبہ کا کام تمام کر دیا۔
اس کے بعد جنگ مغلوبہ شروع ہو گئی۔ حضرت علی، حضرت حمزہ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر رضی اللہ عنھم نے دشمن کے لشکر میں قیامت برپا کر دی۔ غرق آہن کفار کے سر کٹ کٹ کر گرنے لگے، کچھ قتل ہوئے، کچھ قیدی اور باقی سر پر پائوں رکھ کر بھاگ گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی۔
جنگِ اُحد
جنگِ بدر کے بعد دوسرے سال ۳ھ میں ہی کفار تین ہزار کا لشکر جرار کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ رسولِ اکرم ﷺ ہمراہ سات سو جان نثار صحابہ کی جماعت تھی۔ منافقین راستہ ہی سے واپس ہو گئے تھے۔
جنگِ اُحد میں جب یہ خبر اُڑی تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے جامِ شہادت نوش فرما لیا تو بعض صحابہ کرام بایں خیال پیچھے ہٹ گئے تھے کہ اب لڑائی سے کیا فائدہ جن کے لیے لڑنا تھا وہ تو شہید ہو گئے، لیکن جب پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ زندہ ہیں تو جس کو جس حالت میں بھی یہ خبر پہنچی وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آنے کے لیے مصروف سعی ہوا۔ اتنے میں کفار حضور کو نرغہ میں لے چکے تھے اور تیر و تلوار سے پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آج ان کا خاتمہ کر دیں۔ اس ہنگامہ، زود خورد اور خطر ناک موقعہ پر جو چند صحابہ کرام حضور کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے رہے تھے اور حملہ آور کے ہر وار کو روکتے تھے، ان میں سے حضرت علی بھی تھے جو پروانہ وار شمع رسالت کے گرد رہے تھے۔
جنگِ خندق
تفسیر ابن کثیر کی روایت کے مطابق یہ جنگ ۵ھ ماہِ شوال میں ہوئی تھی۔ مدینہ کے یہودیوں نے کفارِ مکہ کو مسلمانوں کے خلاف مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے پیغام بھیجا۔ وہ پہلے ہی موقعہ کی تلاش میں تھے، چنانچہ قریش مکہ نے چاروں طرف آگ لگا دی۔ غطفان وغیرہ کئی قبائل کو اپنے ساتھ ملایا اور تفسیر ابن کثیر [سورت احزاب] میں مرقوم روایت کے مطابق دس ہزار کا لشکر تیار کر کے اسلام کے استیصال کی آخری کوشش عمل میں لانے کے لے ائمۃ الکفر بیت اﷲ میں قسمیں کھا کر روانہ ہوئے۔ ابو سفیان صخر بن حرب جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، ان سب کے سردار بنے۔
نبی اکرم ﷺ کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ نے بمشورہ حضرت سلمان فارسی مدینہ شریف کی مشرقی سمت میں خندق کھدوا دی۔ جب کفار مدینہ شریف کے قریب پہنچ گئے تو خندق کے اوپر ہی ان کو رکنا پڑا۔ نبی اکرم بھی اپنے صحابہ کو جو صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے میں آگئے۔
اس موقعہ پر یہودیانِ مدینہ بھی باہمی معاہدہ کو کالعدم قرار دیا اور کفار کی حمایت پر تل گئے۔ یہ وہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئیں، دل اُلٹ گئے، طرح طرح کے خیالات آنے لگے، جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہو گئے۔ مہینا بھر تک محاصرہ کی سی تلخ صورت قائم رہی۔ مشرکین خندق پار کر کے دستی لڑائی تو نہیں لڑ پائے، لیکن گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کر دیا۔
ایک بات
اس سخت جنگ میں نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کو جو سب کے سب قائم اور مضبوط رہے تھے، کیونکر نہ خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔ جن کے ارشاد اور اس ابتلائے شدید میں محکمی اور استقامت کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا [الاحزاب: ۹] ’’اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو، تب تمہارے خلاف آنے والے لشکرِ کفار پر ہم نے آندھی اور لشکر بھیجے، جن کو تم نے دیکھا ہی نہیں۔‘‘
سورہ احزاب میں آیت کے شروع میں اس جنگ کے مجاہدین کو یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا ’’اے ایمان والو!‘‘ کے خطاب سے اﷲ تعالیٰ نے خطاب فرما کر یہ آندھی اور اپنے لشکر بھیجنے کا احسان جتلا رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ تو ان سب کو جن میں اصحاب اربعہ (حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی رضی اللہ عنھم) پیش پیش ہیں ایماندار قرار دے رہا ہے۔ اب کون ہے جو ان کو بے ایمان کہہ سکے۔ (معاذ اﷲ)
جنگِ خندق میں حضرت علی کا کردار
عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع قوی پہلوان اور فنِ سپہ سالاری میں یکتا تھا۔ ایک دفعہ ہمت کر کے خندق سے اپنے گھوڑوں کو کُدا لایا یہ حال دیکھ کر رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلہ پر جائو۔ آپ گئے تھوڑی دیر دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی، لیکن بالآخر حضرت علی نے کفر کے اس دیو کو تہِ تیغ کیا، جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انھوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے۔ (تفسیر ابن کثیر تحت آیت: یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآئَتْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا [الاحزاب: ۹])
صلح حدیبیہ
جنگِ خندق کے بعد کفار مرعوب ہو گئے اور نبی اکرم ﷺ نے ہی بطور پیش گوئی فرما دیا کہ اب ہم پر چڑھ کر کوئی نہیں آئے گا۔ ۲ھ میں چھوٹے چھوٹے واقعات تو اور بھی پیش آئے سرکش قبائل کو راہِ راست پر لانے کے لیے نبی اکرم ﷺ چھوٹے چھوٹے فوجی دستے بھیجتے رہے جو فتح یاب ہوتے رہے۔ اہم واقعہ حدیبیہ کے مقام پر کفارِ مکہ سے صلح کا ہے۔
مختصر یہ کہ رسول ﷲ ﷺ نے بیت ﷲ میں داخل ہونے کا خواب دیکھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو سنایا پیغمبروں کا خواب وحی الٰہی ہوتا ہے۔ چودہ سو کے قریب صحابہ کرام عمرہ کے لیے آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ شریف آنے کو تیار ہو گئے۔
منزلیں طے کرتے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفارِ مکہ نے روک دیا۔ آنحضرت ﷺ نے ہر ممکن طریقے سے ان کو سمجھانے کی کوشش فرمائی کہ ہم صرف زیارت بیت اﷲ کے لیے آئے ہیں۔ لڑنے کے لیے نہیں آئے تم رکاوٹ نہ ڈالو، لیکن وہ نہ مانے۔ بالآخر آخری کوشش کے طور پر حضرت عثمان کو سفیر بنا کر قریش کے پاس بھیجا۔
حضرت عثمان کو کفارِ مکہ والوں نے کہا : تم بیت اللہ کا طواف کر لو، لیکن محمد (ﷺ) کو اجازت نہیں دیں گے۔ حضرت عثمان نے فرمایا : میں نبی اکرم ﷺ کے بغیر کبھی طواف نہیں کرنے کا، چنانچہ آپ کو ان کو سمجھانے میں دیر لگ گئی۔ ادھر خبر اُڑ گئی کہ حضرت عثمان قید کر لیے گئے۔ جب نبی اکرم ﷺ نے یہ خبر سنی تو آپ ایک کیکر کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور بیعت کے لیے ہاتھ پھیلا دیا کہ اب کفار نے میرے سفیر کے ساتھ بُرا برتائو کیا ہے، میں انتقام لوں گا۔ جنگ لڑنے کی بیعت کرو۔ سب صحابہ کرام نے جن میں حضرت علی، حضرت عمر، حضرت ابو بکر صدیق بھی شامل تھے بیعت کی۔ بعد ازاں آنحضرت نے اپنے ایک ہاتھ مبارک کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر اپنے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو بھی اس بیعت رضوان میں شامل فرمایا۔
جب حضرت عثمان واپس بسلامت آگئے تو لڑائی کا ارادہ ہٹ گیا۔ آخر کفار کے سفراء کا آنا جانا شروع ہو گیا اور گفتگو آخر اس پر منتج ہوئی کہ صلح نامہ لکھا جائے اور آنحضورﷺ مع اپنے رفقاء کے واپس چلے جائیں۔ اگلے سال آئیں اور کچھ اور بھی شرائط پیش کیں جو آنحضرت ﷺ نے قبول فرما لیں اور صلح نامہ لکھا گیا۔
کاتبِ صلح نامہ
صلح نامہ کی کتابت کے لیے آنحضرت نے حضرت علی کو طلب فرمایا۔ حضرت علی نے بحکمِ رسول ﷲ دستاویز کے ابتدا میں ’’بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم‘‘ لکھا۔ سفیر قریش سہیل نے کہا کہ ہم رحمان کو نہیں جانتے۔ ہمارے رسم کے مطابق ’’بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ‘‘ ’’اے اللہ ! میں تیرے نام سے شروع کرتا ہوں‘‘ لکھو ! نبی اکرم ﷺ نے کہا : سہیل کی بات مان لو۔ جب حضرت علی نے آنحضرت کا اسمِ گرامی ’’محمد رسول اللہ‘‘ لکھا تو سہیل نے اعتراضاً کہا کہ اگر ہم ان کو رسول اﷲ تسلیم کر لیں تو ہمارے تمہارے درمیان نزاع کیا باقی رہ جاتی ہے۔ تم صرف ’’محمد بن عبد ﷲ‘‘ لکھو۔ جناب رسالتِ مآب ﷺ نے فرمایا کہ میں خدا کا رسول بھی ہوں تم مانو یا نہ مانو اور محمد بن عبد ﷲ بھی ہوں۔ پھر حضرت علی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا سہیل کی خواہش کے مطابق ’’محمدبن عبد ﷲ‘‘ ہی لکھ دو۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنابِ رسول ﷲ ﷺ کا خیال یہ تھا کہ لفظی نزاع جنگ کی صورت اختیار نہ کر جائے۔
حضرت علی نے عرض کی کہ مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا کہ میں لفظ ’’رسول ﷲ‘‘ کو قلم سے کاٹوں۔ چنانچہ نبی اکرم نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ پر قلم پھیر دیا۔ اس کے بعد شرائط قلمبند ہوئیں۔
اس عظیم الشان واقعہ کے فضائل
قرآنِ کریم سورہ فتح میں اس واقعہ کا مہتمم بالشان ذکر موجود ہے۔ اس صلح کو ﷲ تعالیٰ نے فتح مبین فرمایا۔ اس میں درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں سے متعلق ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:-
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ [الفتح: ۱۸]
’’اس میں شک و شبہہ کی قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی کہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کرنے والوں سے خدا تعالیٰ راضی ہو گیا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ [الفتح: ۱۰] ان بیعت کرنے والے صحابہ کرام کے ہاتھوں پر اﷲ کا ہاتھ ہے، نیز کہا انھوں نے تیری بیعت کر کے گویا خدا کی بیعت کی۔
آپ غور فرمائیے ’’ان کے ہاتھوں پر ﷲ کا ہاتھ ہے‘‘ بیعت کرتے وقت رسول ﷲ کا ہاتھ نیچے، بیعت کنندہ کا اوپر اور اس کے اور رسول ﷲ ﷺ کے ہاتھوں کے درمیان میں ان بیعتِ رضوان والے صحابہ کرام کے ہاتھ آگئے، ان دو مبارک ہاتھوں کے درمیان میں آئے ہوئے ہاتھ کبھی جھوٹوں کے ہاتھ ہو سکتے ہیں ؟ اس درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں سے متعلق نبی اکرم ﷺ کی حدیث بھی ہے:-
"لَا یَدْخُلُ النَّارَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرۃ۔” (أبي داود)
’’درخت کے نیچے بیعت کرنے والے آگ میں ہر گز داخل نہیں ہوں گے۔‘‘
ایک غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جب رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علی کو لفظ رسول اﷲ کاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو انھوں نے کیوں نہ کاٹا۔ گویا حکمِ رسول کی مخالفت کی۔ ایسے دوستوں پر واضح ہو کہ اپنے ہاتھ سے نہیں کاٹوں گا۔ جذبۂ دل کے ماتحت تھے۔ مطلب ان کا یہ تھا کہ جب میں دل سے آنحضرت ﷺ کو ’’رسول ﷲ‘‘ تسلیم کر چکا ہوں تو اپنے ہاتھ سے اس مرکزِ ایمان لفظ کو کیسے کاٹوں۔ یہ تمام محبت و ایمان کا تقاضا تھا، اس کو نہ آنحضرت نے تمام عمر مخالفت رسول قرار دیا اور نہ صحابہ کرام نے حضرت علی پر ان الفاظ کی رو سے یہ الزام قائم کیا۔ سب سمجھتے تھے کہ حضرت علی نے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ ہم مسلمانوں کو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت پر اتنا پختہ یقین اور لفظ رسول ﷲ سے اتنی محبت ہے کہ اگر کسی جگہ یہ لفظ لکھ دیں تو اس پر قلم پھیرنا تعظیم و احترام کے خلاف سمجھتے ہیں۔
جنگِ خبیر (محرم ۷ھ)
رسول ﷲ ﷺ سفر حدیبیہ سے واپس مدینہ تشریف لائے تھے کہ یہ سننے میں آیا کہ خبیر کے یہودی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہاں خالص یہودی قوم کی آبادی تھی۔ انھوں نے قبیلہ بنو غطفان کے چار ہزار جنگجوئوں کو بھی کچھ دینے کا لالچ دے کر ساتھ ملا لیا۔
آنحضرت ﷺ سے سفرِ صلح حدیبیہ میں ساتھ رہنے والے صحابہ کو بمطابق وحی خدا نے سفرِ خیبر میں ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تجویز یہ منظور ہوئی تھی کہ اس خطرناک دشمن کو آگے بڑھ کر جا لینا چاہیے۔ صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی جن میں سے دو سو اسپ سوار تھے۔
خیبر کے قلعے دس تھے جن کے اندر دس ہزار جنگی مرد رہتے تھے (فتح الباری)۔ پہلے دن حملہ آور فوج کا سردار محمود بن مسلمہ کو بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ خود بھی حملہ آور فوج میں شامل ہوئے تھے۔ باقی فوجی کیمپ حضرت عثمان کی زیرِ نگرانی تھا۔
محمود بن سلمہ پانچ روز برابر حملہ کرتے رہے، لیکن قلعہ نطات فتح نہ ہوا۔ پانچویں روز وہ شہید ہو گئے۔ فوج کی کمان اُن کے بھائی محمد نے سنبھالی۔ انھوں نے یہودیوں کو متاثر کرنے کے لیے اُن کے نخلستان کے درختوں کو کاٹنا شروع کیا، فوراً حضرت ابوبکر صدیق نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر التماس کی کہ نخلستان کو کاٹنے سے منع فرمایا جائے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے حکم امتناعی صادر فرمایا۔
شام کو محمد بن مسلمہ واپس آگئے اور اپنے بھائی کی شہادت کا قصہ بیان کیا۔
حدیث الرایہ
رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا:-
"لا عطین الرایۃ غلاً رجلاً یحبہ ﷲ و رسولہ یفتح ﷲ علیہ۔” (صحیح البخاري باب المناقب علی بن أبي طالب)
’’کل فوج کا نشان اس شخص کو دوں گا جس سے خدا اور رسول محبت کرتے ہیں اور خدا اسے فتح عنایت فرمائے گا۔‘‘
اس رات پاسبانی لشکر کی خدمت حضرت عمر بن خطاب کے سپرد تھی، وہ گردش کرتے ہوئے ایک یہودی کو گرفتار کر لائے، اس سے بہت قیمتی راز معلوم ہوئے۔
نوٹ: اگر جنگِ خیبر کا حال تفصیل سے معلوم کرنا ہو تو حضرت علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی تصنیف ’’رحمۃ للعالمین‘‘ جلد ۲ ملاحظہ فرمائیں۔ میں اس کتاب کو سامنے رکھ کر خلاصہ بیان کر رہا ہوں۔
صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کو یاد فرمایا۔ عرض کی گئی، انھیں آشوبِ چشم ہے اور درد بھی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے انھیں بلا کر لب مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا نہ سرخی باقی رہی نہ درد۔ پھر فرمایا: علی جائو راہِ خدا میں جہاد کرو۔ چنانچہ حضرت علی نے قلعہ ناعم پر جنگ کی طرح ڈالی۔ قلعہ کا مشہور سردار مرحب جو خود کو ہزار آدمیوں کے برابر کہا کرتا تھا۔ میدان میں نکلا اور اپنی بہادری کی تعریف میں باتیں کی۔ اس کے مقابلے کے لیے حضرت عامر بن الاکوع نکلے، مقابلہ شروع ہوا۔ حضرت عامر نے مرحب کی طرف تلوار چلائی وہ لمبائی میں چھوٹی تھی، ان ہی کے گھٹنے پر لگی، جس کے صدمے سے بالآخر یہ شہید ہو گئے۔
پھر حضرت علی مرتضیٰ خود میدان میں نکلے۔ رجز پڑھی ڈھال کندھے پر رکھی اور تلوار کو ہاتھ میں تولا اور دشمنِ دین کو للکارا کچھ دیر مقابلہ رہا۔ آخر حضرت علی نے غضبناک ہو کر تلوار کا ایسا ہاتھ لگایا کہ مرحب کی خود آہنی کو کاٹتا عمامہ کو قطع کرتا، سر کے دو ٹکڑے بناتا ہوا گردن تک جا پہنچا اور ہزار بہادروں کے برابر کا یہ دیو کفر اوندھا ہو کر زمین پر گر گیا۔ اس کا بھائی یاسر نکلا، اس کو رسول ﷲ ﷺ کے پھوپھی زاد یکے از عشرہ مبشرہ حضرت زبیر بن عوام نے خاک میں سُلا دیا، اس کے بعد عام حملہ سے قلعہ فتح ہو گیا۔ اس کے بعد دوسرے قلعے بھی ﷲ کی مدد سے یکے بعد دیگرے فتح ہوتے گئے۔
فتح مکہ
جب قریشِ مکہ سے حدیبیہ کے لکھے ہوئے عہد نامۂ صلح کی عہد شکنی ہو گئی تو رسولِ اکرم ﷺ انھیں عہد شکنی کی سزا دینے دس ہزار صحابہ کرام کا لشکر لے کر نکلے۔ دفعتاً مکہ مکرمہ کے حدود میں پہنچ گئے۔ ابو سفیان اس لشکر کی آمد کی خبر سن کر یہ معلوم کرنے نکلا کہ یہ کس کا لشکر ہے۔ ادھر عمِ رسول حضرت عباس حضور اکرم ﷺ کا خچر لے کر گشت کر رہے تھے کہ کوئی مکہ کا با اثر آدمی ملے اسے سمجھائیں، تاکہ حدِ حرم میں لڑائی نہ ہو۔ ابو سفیان کے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔ حضرت عباس نے آواز پہچان کر ابو سفیان کو اپنے پیچھے خچر پر بٹھا لیا اور خدمتِ عالی مقام میں لے آئے۔ آپ نے فرمایا: چچا ان کو اپنے خیمہ میں رات رکھو۔ صبح ابو سفیان نے وضو اور نماز کا نظارہ دیکھا اسلام کی صداقت کا نور دل میں چمکا کلمہ و شہادت پڑھا۔ حضور اکرم ﷺ کی بیعت کی۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے ایمان لانے کے بعد فرمایا اور یہ اعزاز بخشا کہ جو شخص حضرت ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے بھی پناہ دی جائے گی۔
مکہ کے مسلم سردار ابو سفیان کے مسلمان ہو جانے کے بعد کسی کافر کو میدان میں آنے کی جراَت نہ ہوئی۔ مسلمان ہر گلی سے بآرام گزرتے گئے۔ ایک گلی میں معمولی چھڑپ ہوئی۔ آخر تمام مسلمان بیت ﷲ شریف میں آ جمع ہوئے۔ یہاں کعبہ کے دروازے کے قریب کھڑے خدا کے رسولِ امین ﷺ نے دس ہزار تلواروں کے چھائوں کے نیچے زبردست معرکہ آرا تاریخی اور اصولی تقریر بیان فرمائی۔ عام اعلانِ معافی فرمایا۔ عمر بھر ستانے والوں سے قوت پا کر بھی کوئی انتقام نہیں لیا۔ خدا کے وعدے کے مطابق مکہ فتح ہو گیا۔ اس عظیم الشان فتح کے موقعہ پر حضرت علی بھی شامل تھے۔ یہ فتح ۸ھ میں ہوئی تھی۔
جنگِ حنین
تفسیر ابن کثیر میں سورہ توبہ کی آیت: لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ [التوبۃ : ۲۵] ’’یقیناً ﷲ تعالیٰ نے تمہیں بہت سے میدانوں میں فتح دی اور حنین کی لڑائی والے دن بھی‘‘ کے تحت مرقوم ہے کہ یہ لڑائی فتح مکہ کے بعد ماہِ شوال میں ہوئی تھی۔ نیز لکھا ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموماً مکی حضرات مسلمان ہو چکے تو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے ان کا سردار مالک بن عوف نصری ہے، ا س قبیلہ کے علاوہ اور کئی قبیلے بھی ان کے ہمنوا ہو چکے ہیں۔ اس مقام پر حضرت امام ابن کثیر نے ان کے نام بھی گنائے ہیں۔
آنحضرت ﷺ اپنے اس لشکر کو لے کر مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا، ان کے مقابلے کے لیے نکلے۔ تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی ساتھ ہو لیے۔
مکہ اور طائف کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے، اس جگہ کا نام حنین تھا۔ صبح منہ اندھیرے کمین گاہ میں چھپے ہوئے ہوازن کے تیر اندازوں نے بے خبری میں مسلمانوں پر اچانک تیر بازی شروع کر دی، مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گئی اور بعض منہ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
لیکن رسول ﷲ ﷺ قبیلہ ہوازن کے لوگوں کی طرف بڑے۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے۔ حضرت عباس آپ کی سواری کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب بائیں طرف نکیل پکڑے ہوئے تھے۔ جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے۔ آپ ﷺ بآواز بلند اپنے تئیں پہچنوا رہے تھے۔
"ان النبي لا کذب۔ أنا ابن عبد المطلب۔”
’’میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں۔ اولاد عبد المطلب میں سے ہوں۔‘‘
علاوہ ازیں مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ ﷲ کے بندو کہاں چلے ہو۔ میری طرف آئو میں ﷲ کا سچا رسول ہوں۔ حضرت عباس سے مسلمانوں کو آوازیں دلوائیں۔
جس وقت مسلمانوں میں اضطراب پھیلا اور آپ ﷺ اپنے خچر کو بڑھاتے ہوئے اس قسم کی آوازیں دے رہے تھے آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسّی یا سو کے قریب صحابہ رہ گئے تھے، مثلاً : حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عباس، حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت ابو سفیان بن حارث، حضرت ایمن بن ام ایمن، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم وغیرہ۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آپ نے اپنے عمِ محترم کو یہ حکم دیا تھا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں۔ پس آپ ﷺ نے یہ کہہ کر کہ اے ببول کے درخت کے تلے بیعت کرنے والو! اے سورہ بقرہ کے حاملو ! پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچی ہی تھی کہ انھوں نے ہر طرف سے لبیک لبیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر اور سنبھل کر آپ کے آس پاس کھڑئے ہوئے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اَڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اور اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکارِ نبوت میں حاضر ہو گیا۔ مقابلہ شروع ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا مانگنی شروع کر دی۔ مٹی کی مٹھی بھر کر بھی کفار کی طرف پھینکی، جس سے ان کی آنکھیں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے، انھیں شکست ہو گئی۔
ضروری اشارہ
سورہ توبہ میں اس واقعہ کے ضمن میں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’یقیناً ﷲ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی اور حنین کے دن بھی۔ جب کہ تم کو اے مسلمانو! اپنی کثرت پر ناز ہونے لگا تھا، لیکن اس کثرت افواج نے تم کو کوئی فائدہ نہ دیا، بلکہ زمین باوجود کشادگی کے تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔‘‘
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا [التوبۃ: ۲۶]
’’پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وہ لشکر بھیجے جنھیں تم دیکھ نہیں رہے تھے۔‘‘
غور فرمائیے ﷲ تعالیٰ اپنی تسکین رسول ﷲ ﷺ پر اور اس جنگ میں شامل صحابہ پر (جن کو مومنین فرما رہا ہے) اتار رہا ہے اور غیب سے امداد فرما رہا ہے۔ سب صحابہ پر تسکین کا لفظ عام ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا۔ آپ ﷺ کے ساتھ صرف اسّی مہاجر و انصار رہ گئے تھے، ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر ﷲ تعالیٰ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا۔
گویا حضرت ابن مسعود کے خیال کے مطابق پیٹھ نہ دکھانے والوں پر ﷲ تعالیٰ نے تسکین نازل فرمائی تھی۔ اب ناظرین کرام خود فیصلہ فرمائیں کہ تسکینِ الٰہی کبھی بے ایمان شخص کے دل پر اتر سکتی ہے ؟ یہاں جب ﷲ تعالیٰ ان صحابہ کو مومنین فرما کر ان پر اپنی تسکین کے نزول کا ذکر فرما رہا ہے تو اب وہی شخص ان کو غیر مومنین کہہ سکتا ہے۔ جس کو ﷲ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی اس بات پر یقین نہ ہو یا جو قرآن کا منکر ہو یا جو ﷲ تعالیٰ کا منکر ہو یا جو ﷲ تعالیٰ کو صادق القول نہ مانتا ہو۔ قرآن کو کلام ﷲ ماننے والے شخص کے لیے یہی آیت صحابہ کی تعریف میں کافی ہے اور اس آیت میں حضرت علی، حضرت ابو بکر، حضرت عمر رضی اللہ عنھم کے خلاف عناد رکھنے والے شخص کے لیے دعوتِ فکر ہے اور ان کے مومنین کاملین ہونے کے زبردست دلائل ہیں۔
علاوہ ازیں
محاصرہ طائف وغیرہ میں حضرت علی مستلزم رکابِ نبوی رہے۔مختصراً یہ کہ جنگِ تبوک کے سوا ہر جنگ میں رسول ﷲ ﷺ کے ہمراہ رہے۔ آپ ﷺ کی شمشیر خار اشگاف نے بڑے بڑے سرکشوں کی سرکوبی کی۔ جنگ میں حضور کے دائیں بائیں رہتے۔ کسی جنگ میں کسی حالت میں بھی پسپا نہیں ہوئے۔ آپ ﷺ کی خدا داد طاقت بدنی اور کفار پر بجلی بن کر گرنے والی تلوار نے اسلام کی گرانقدر خدمات سر انجام دیں اور رسول ﷲ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہی اسلام کی اشاعت میں حصہ لیا۔ جب فتوحات حاصل ہوتی گئیں، سلطنت اسلامیہ قائم ہو گئی تو رسول ﷲ ﷺ نے آپ کو یمن کے علاقے میں یہ حکم دے کر بھیجا کہ جہاں کہیں بھی پختہ قبر دیکھو گرا دو، چنانچہ آپ نے یہ خدمت بھی سر انجام دی۔ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ خود حج کو تشریف نہ لے جا سکے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ ان کے چلے جانے کے بعد سورہ توبہ نازل ہوئی، جس میں مشرکین سے مکمل بیزاری کا اعلان تھا۔ اس سورت کو سنانے کے لیے رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علی کو منتخب فرمایا۔ آپ نے عرفات کے میدان میں اس سورت کی قریباً چالیس آیت بآواز بلند پڑھ پڑھ کر سنانی شروع کر دیں، پھر منیٰ میں آکر آپ نے ڈیروں میں، خیموں میں اور پڑائو میں جا کر منادی شروع کر دی، تاکہ سب حاجیوں کے کانوں میں رسول ﷲ ﷺ کا پیغام پہنچ جائے۔ وہ پیغام یہ تھا : ’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت ﷲ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے‘‘ حضرت علی کا اعلان کرتے کرتے گلا بیٹھ گیا۔ (تفسیر ابن کثیر)
رسول ﷲ ﷺ نے اپنے عہدِ مبارک میں سیدنا حضرت علی مرتضیٰ کو علاقہ یمن کی طرف قاضی (مقدمات و نزاعات کا فیصلہ کرنے والا) بنا کر بھیجنا چاہا تو انھوں نے عرض کی : یا رسول ﷲ!
’’تُرْسِلْنِيْ وَاَنَا حَدِیْثُ السِّنِّ وَلَا عِلْمَ لِيْ بِالْقَضَاءِِ‘‘
’’اے خدا کے رسولِ مکرم ! آپ ﷺ مجھے بھیج رہے ہیں، حالانکہ ابھی میں نو عمر ہوں اور علمِ قضا سے بھی کچھ بہرہ نہیں رکھتا۔‘‘
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:-
"اِنَّ اللّٰہَ سَیَھْدِيْ قَلْبَکَ وَیُثَبِّتُ لِسَانَکَ۔” (أبو داود)
’’گھبرائو مت ﷲ تعالیٰ تمہارے دل کو ہدایت دے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا۔‘‘
ہادی کامل کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوتی رہی، آپ تمام صحابہ کرام میں معاملہ قضا میں ماہر کامل تسلیم کیے گئے۔ تنازعات کے فیصلے جو حضرت علی نے دیے کتب تواریخ میں محفوظ ہیں، انھیں دیکھ کر فی الواقع حیرت ہوتی ہے کہ یہ فیصلے ان کو کیسے سوجھے تفسیر ابن کثیر کی روایت کے مطابق اعلانِ برات مذکورہ کے لیے بھیجتے وقت رسول ﷲ ﷺ نے بطور دعا کے کہا تھا یا ﷲ ! علی کے دل کو ہدایت دے اور اس کی زبان کو ثابت رکھ۔ بس اس دعا کا اثر تھا کہ آپ کی زبان سے صحیح فیصلے صادر ہوتے تھے کبھی غلط بات نہیں کی اور نہ معاذ ﷲ کبھی یا وہ گوئی سے کام لیا جو بات کی صحیح کی۔
جب مکہ مکرمہ فتح ہو گیا، قریش کے سر علم اسلام کے آگے جھک گئے۔ تمام اہلِ عرب جو قریش کی طرف دیکھ رہے تھے، انھیں مسلمان ہوئے سن کر اسلام قبول کرنے کے لیے وفود کی شکل میں مدینہ منورہ میں آنے شروع ہوئے۔
اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ . وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا[النصر: ۱،۲]
’’جب ﷲ تعالیٰ کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہو گیا۔ اے میرے رسول! آپ لوگوں کو ﷲ تعالیٰ کے اس برحق دینِ اسلام میں گروہ در گروہ داخل ہوتے دیکھو گے۔‘‘
گروہ در گروہ والا فرمودہ قرآن پورا ہونے لگا، ان دنوں آنحضرت ﷺ کو مشغولیت کے باعث مدینہ منورہ ہی میں قیام فرما رہنا پڑتا تھا۔ ان وفود کے کھلانے پلانے کا انتظام حضرت علی کے سپرد تھا، کیوں کہ یہ گھر کے آدمی تھے، اس بہت اہم اور تکلیف دہ کام کو حضرت علی نے کمال خوشی سے پورا کیا۔
غرض کہ رسو ل ﷲ ﷺ کے زمانہ حیات میں آپ کی اجازت کے بغیر ایک منٹ بھی حضرت علی آپ ﷺ سے جدا نہیں ہوئے۔ جان نثارانہ پاس رہے۔ آنحضرت ﷺ کے فرمائے ہوئے کام کو دوڑ دوڑ کر سرانجام دیتے۔ آپ ﷺ بھی ان کا خاص خیال رکھتے، کبھی کبھی صبح کی نماز کے لیے بھی آواز دیتے، تاکہ اگر وہ سوئے ہوں تو جاگ اٹھیں۔ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت سے کوئی خادمہ طلب کرنے گئیں۔ آدمیوں کا ہجوم دیکھ کر واپس آگئیں، رسول اکرم ﷺ نے دیکھ لیا تھا۔ تقسیمِ غنیمت سے فارغ ہو کر بیٹی کے گھر آئے، جانے اور پھر واپس آنے کی وجہ دریافت کی وہ کچھ شرمائیں، حضرت علی نے ماجرا سنایا۔ رسول برحق ﷺ نے خادمہ کی جگہ وظیفہ بتایا کہ رات کو سوتے وقت ۳۳ بار سبحان ﷲ، ۳۳ بار الحمد للہ، ۳۴ ﷲ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ خادمہ سے بہتر ہے۔ (نسائی کے سوا جملہ صحاح)
ایک مرتبہ حضرت علی کسی سبب سے گھر سے مسجد میں فرش زمین پر سو رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ بیٹی کے گھر تشریف لے گئے پوچھا علی کہاں ہیں۔ بیٹی کی عرض کی وہ باہر مسجد میں گئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو مسجد میں پایا۔ زمین پر لیٹنے کے باعث جسم مبارک اور کپڑوں پر مٹی لگ گئی تھی۔ آپ کپڑوں پر ہاتھ مار کر فرما رہے ہیں:-
’’اے مٹی کے باپ اٹھ بیٹھ۔ حضرت علی کو رسول ﷲ ﷺ کی عطا کردہ یہ کنیت بہت پیاری تھی۔‘‘ (بخاری باب مناقب علی بن ابو طالب)
ایک جاہلانہ غلط فہمی کا ازالہ
مندواں والا ضلع سیالکوٹ میں ایک دفعہ راقم الحروف خطبہ جمعہ دینے گیا وہاں کے اہلِ حدیث خطیب مولوی عطاء ﷲ صاحب نے مجھے بتایا کہ یہاں ایک شیعہ دوست نے یہ بات پھیلا رکھی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علی کو ابو تراب کہا یعنی مٹی کا باپ اور حضرت آدم مٹی سے بنائے گئے تھے اور حضرت علی کے باپ ہیں، لہٰذا حضرت علی حضرت آدم کے باپ ہوئے اور کل دنیا حضرت علی کی اولاد ہوئی۔
یہ بات کہنے والا شاید ذرا بھی غور و فکر سے کام نہیں لے رہا کہ مٹی کی کثرت جسم کے گرد دیکھ کر حضرت علی کو آنحضرت نے ابو تراب کہہ دیا، جس طرح حضرت ابوہریرہ کے پاس بلی دیکھ کر بلی کہہ دیا تو عربوں کا محاورہ تھا، جس کے پاس کسی چیز کی کثرت دیکھتے اس کے متعلق کہہ دیتے کہ فلاں تو فلاں چیز باپ ہے۔
فتح مکہ کے دن نبی اکرم ﷺ نے خطبہ میں انسانی مساوات کا درس دیتے ہوئے فرمایا تھا۔
"کُلُّکُمْ مِنْ آدَمَ وَ اٰدَمُ مِنْ تُرَاب۔”
تم سب آدم کی اولاد ہو اور وہ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یعنی آخر میں تم سب کی اصل ایک یعنی مٹی ہے تو ایک پر دوسرا فخر کیوں کرے ؟ اس شخص کی یہ بات جب صحیح ہوتی اگر نبی اکرم ﷺ فرماتے: "أبُوْ مِنْ تُرَابْ خُلِقَ مِنْ تُرَابْ یَا أَبُوْ مَنْ کَانَ مِنْ تُرَابْ” یعنی باپ اس شخص کا جو مٹی سے پیدا کیا گیا یا مٹی سے ہوا۔
حضرت ابو بکر صدیق کی بیعت خلافت
خاتم النبیین ﷺ چند روز بیمار رہ کر راہِ گزر عالم بقا ہو گئے اور امتِ مرحومہ کو داغ مفارقت دے گئے تمام انصار و مہاجرین نے بڑے پیار اور محبت سے جنازے کی نماز ادا کی۔ سب اپنے محبوب ترین رسول ﷺ کی آخری زیارت سے مشرف ہو لیے تو سیدنا حضرت ابو بکر کی روایت کردہ حدیث کہ نبی کو وہاں دفن کیا جاتا ہے جہاں فوت ہو (موطاء امام مالک) کے مطابق تمام صحابہ کرام نے سرورِ کائنات کو حجرہ عائشہ صدیقہ میں دفن کر دیا۔ وہی گھر آنحضرت کا روضہ اطہر ہوا، اسی گھر کو وہ شرف حاصل ہوا، جو زمین و آسمان کی کسی جگہ کو نہ حاصل ہو سکا۔ (علامہ وحید الزماں)
حضرت ابو بکر صدیق کے دست حق پرست پر سقیفہ کی بیعت ہو چکی تھی، جس کی تفصیل کتب تاریخ و سیر میںملاحظہ فرمائیں۔ تجہیز و تکفین نبوی ﷺ سے فارغ ہو کر اگلے روز حضرت ابو بکر صدیق نے منبر پر بیٹھ کر بیعتِ عامہ لی۔ ایک تاریخی روایت کے مطابق ۳۳ ہزار صحابہ کرام نے ایک دن میں بہ طیب خاطر بیعت کر لی، پھر تمام ملک عرب اور سارے مسلمانوں نے آپ کو خلیفہ رسول ﷲ ﷺ تسلیم کر لیا۔
ایک تاریخی شہرت
مولانا اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی نے قدیم کتب تاریخ سے لکھا ہے کہ حضرت علی نے چالیس روز تک محض اس شکایت کی بنا پر بیعت نہیں کی کہ سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت میں ہم کو کیوں شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا۔ جب حضرت ابو بکر صدیق نے ان کو معاملے کی نزاکت سمجھائی اور مہاجرین و انصار کے درمیان نزاع رفع نہیں ہو سکتا تھا تو یہ سن کر حضرت علی نے اپنی شکایت واپس لے لی اور مسجد ِ نبوی میںمجمع عام میں بیعت کی۔
کسی مورخ نے لکھا ہے کہ سترہ دن کے بعد بیعت کی، کسی نے کہا ہے چھے ماہ توقف کیا جب حضرت فاطمہ کی وفات ہوئی اس کے بعد بیعت کی۔
اس عاجز کا خیال یہ ہے کہ تمام باتیں محض افسانے ہیں اور کسی مصلحت کے تحت گھڑے گئے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق کی بیعت سے حضرت علی کے توقف کرنے کی بات غلط مشہور کی گئی ہے، حالانکہ ان سے بعجلت تمام بیعت کرنے کی روایت علامہ ابن جریر طبری نے حبیب بن ثابت تابعی سے لکھی ہے۔ اس حبیب تابعی کو علامہ ذہبی نے ثقہ کہا ہے اور امام بخاری نے فرمایا ہے کہ یہ وہ راوی ہیں، جنھوں نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے حدیثوں کی سماعت کی تھی۔ (میزان الاعتدال، ۱/۱۰۹)
حضرت علی کے بیعت کرنے کی روایت
"کَانَ علیّ في بیتہ إذا أتی فقیل لہ قد جلس أبو بکر للبیعۃ، فخرج في قمیص ما علیہ ازارٌ ولارداء عجلا کراھۃ أن یببطی عنھا حق بایعہ۔ ثم جلس إلیہ وبعث إلی ثوبہ فتجلہ ولزم مجلسۃ‘‘
’’حضرت علی اپنے گھر ہی میں تشریف فرما تھے کہ کسی نے ان کو اطلاع دی کہ حضرت ابوبکر صدیق بیعت لینے کے لیے بیٹھ گئے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ حضرت علی صرف قمیص پہنے ہی آگئے، تہ بند اور اوپر کی چادر کا بھی انتظار نہ کیا، انھوں نے اتنی جلدی اس خیال سے کی کہ کہیں وہ بیعت سے پیچھے نہ رہ جائیں، اس معاملے میں دیر ان کو پسند نہ تھی، پس انھوں نے حضرت ابوبکر سے بیعت کی، پھر ان کے پاس ہی بیٹھ گئے، وہاں ہی کپڑے منگوا کر زیبِ تن فرمائے اور جب تک یہ مجلس رہی وہیں تشریف فرما رہے۔‘‘
اس روایت نے تمام شکوک و شبہات پر پانی پھیر دیا ہے اور توقف کے افسانوں کا راز کھول دیا ہے۔
علامہ قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری نے اپنی تصنیف ’’رحمۃ للعالمین‘‘ جلد ۲ صفحہ نمبر ۱۹۲ پر ’’الاستیعاب‘‘ لابن عبد البر کے حوالے سے بیعتِ خلافت کی بابت حضرت علی کا ارشاد نقل فرمایا ہے:-
’’إن رسول ﷲ ﷺ مرض لیالي وأیاماً ینادی بالصلاۃ فیقول: مروا أبا بکرٍ یصلی بالناس، فلما قبض رسول ﷲ ﷺ نظرت فإذا الصلاۃ علم الإسلام، وقوام الدین فرضینا لدنیانا من رضی رسول ﷲ ﷺ لدیننا، فبایعنا أبا بکر‘‘
’’رسول ﷲ ﷺ چند شب اور چند روز بیمار رہے، حضورﷺ سے نماز کے لیے عرض کی جاتی تو فرما دیتے کہ ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھائے۔ پھر جب نبی ﷺ کا انتقال ہو گیا تو میں نے غور کیا کہ نماز تو اسلام کا رکن ہے اور اسی پر دین کا قیام ہے، اس لیے ہم نے دنیا کی حکومت کے لیے اسی پر رضا مندی ظاہر کر دی جسے رسول اللہ ﷺ نے ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تھا اور اسی لیے ہم نے ابوبکر کی بیعت لی۔‘‘
ان معتبر روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے دل کی خوشی سے بیعتِ خلافت کی تھی، اکراہاً نہیں۔ بیعت کے بعد خلیفہ اول کے ممد و معاون رہے جب حضرت ابوبکر نے زکات ادا نہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو بعض قبائل نے مدینے پر حملہ کر دیا، اس وقت حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے والوں میں حضرت علی پیش پیش تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کو اپنے مشیران خاص میں رکھا اور باغِ فدک کا انتظام ان ہی کے سپرد فرما دیا تھا، تاکہ اس کی آمدنی وہ اپنے زیرِ اہتمام اہلِ بیت نبوی ﷺ پر بھی خرچ کریں اور دیگر ان جگہوں پر خرچ فرمائیں، جہاں رسول ﷲ ﷺ خرچ فرماتے تھے۔ یاد رہے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی شامل ہیں (قرآن کریم آیت تطہیر) خلفائے ثلاثہ میں سے باغ فدک کی آمدنی میں سے کسی نے ایک دانہ تک نہیں لیا۔
حضرت ابو بکر اور حضرت علی کے آپس کے تعلقات اور حضرت ابو بکر کا خاندان نبوت سے محبت و پیار مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہے عقبہ بن حارث کہتے ہیں:-
’’رَأَیْتَ أَبَا بَکْرٍ وحمل الْحسن وَھُوَ یقول بابي شیبۃ بالنبی، لَیْسَ شَیْباَ بِعليٍّ وَعَلِی یَضْحَکُ‘‘ (صحیح البخاري، باب مناقب الحسن والحسین)
’’میں نے حضرت ابوبکر کو دیکھا وہ حضرت حسن کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرماتے تھے میرا باپ قربان۔ ان کی شکل تو رسول ﷲ ﷺ سے ملتی جلتی ہے۔ حضرت علی سے مشابہ نہیں ہیں اور حضرت علی یہ بات سن کر پاس کھڑے ہنس رہے تھے۔‘‘
نیز حضرت ابوبکر کا یہ قول تاقیامت درخشندہ رہے گا۔
’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَقَرَابَۃُ رَسُوْلِ اللہ ﷺ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِيْ‘‘ (صحیح البخاري)
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے رسول ﷲ ﷺ کے اقربا سے نیک سلوک کرنا مجھے اپنے اقربا سے زیادہ پیارا ہے۔‘‘
حضرت علی تو حضرت ابوبکر سے اتنی محبت اور قلبی لگاؤ رکھتے تھے کہ جب ان کی زوجہ محترمہ دخترِ رسول ﷲ حضرت فاطمہ فوت ہو گئیں تو نماز جنازہ حضرت ابو بکر سے پڑھوائی، حالانکہ خود پڑھ سکتے تھے، چنانچہ ’’نہج البلاغۃ‘‘ کے مشہور شارح ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کے جنازے کی نماز پڑھائی تھی اور چار تکبیریں کہی تھیں۔
’’ان أبا بکر ھو الذي صلیّٰ علیٰ فاطمہ و کَبَر اَرْبَعاً‘‘ (شرح نہجۃ البلاغۃ إیران: ۲/۸۸۰)
یہی شیعوں کے مجتہد اعظم ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کے جنازے کے پاس کھڑے ہو کر حضرت علی نے جو تقریر کی تھی، اس میں کہا تھا:-
’’رحمک ﷲ أبابکر کنت أول الناس إسلاماً‘‘ (أیضاً: ۱/۷۔۹)
’’اے ابو بکر رحمت ہو اﷲ تعالیٰ کی آپ پر اور آپ ہی ہیں سب لوگوں میں سے پہلے اسلام لائے۔‘‘
خلیفہ اول اور حضرت علی کے تعلقات محبت اور حضرت علی کا ان کو خلیفہ اول دل و جان سے سمجھنا ان چند روایات شیعہ سنی دونوں کی معتبر کتابوں کی ہیں۔ شیعہ احباب کو ایسی روایات پر غور کرنا چاہیے کہ جب حضرت علی ان اصحابِ ثلاثہ سے محبت کر رہے ہیں، ان سے قطعاً تبرّا (بیزاری) نہیں کرتے۔ کمال محبت سے ان کے مبارک ناموں پر اپنے بیٹے کے نام رکھ رہے ہیں، ان کے مشیر ہیں، ان کی خاطر مانعینِ زکات اور مرتدین سے لڑائی کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ حضرت علی کے مذہب کے خلاف ان صحابہ سے تبّرا کا مذہب کہاں سے چلا۔
جب وہ اس پر غور کریں گے تو ان شاء ﷲ حضرت علی کا صحیح مذہب ان کو نظر آ جائے گا اور وہ ہے رسول ﷲ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام سے دل و جان سے محبت رکھنا۔
حضرت علی اور حضرت عمرفاروق
حضرت ابوبکر صدیق کی وفات حسرت آیات کے بعد حضرت عمرفاروق کے ہاتھ مبارک پر بیعت خلافت ہوئی اور تمام مسلمانوں نے برضا و رغبت تمام بیعت کر لی، کسی نے بھی تردد و تامل نہیں کیا۔ سیدنا حضرت علی مرتضیٰ نے بھی بطیب خاطر بیعت فرما لی۔
بیعتِ خلافت کے بعد حضرت علی نے بڑی گرم جوشی سے امیر المومنین حضرت عمر کی اعانت فرمانی شروع کی۔ حضرت علی کو حضرت عمر نے اپنی پارلیمنٹ کا رکنِ اعلیٰ قرار دیا۔ مشیرِ اعظم یا وزیراعظم بنایا۔ حضرت عمر ہر اہم معاملے میں ان کے مشورے سے مستفید ہوتے۔ حضرت علی کے مشورے کے بعد بے تامل عمل پیرا ہو جاتے۔ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ یا ﷲ! ایسا نہ ہو ہم کسی الجھن میں گرفتار ہو جائیں اور اس کو سلجھانے والے حضرت علی ہم میں موجود نہ ہوں۔ ادھر حضرت علی سے کسی نے ان کے عہدِ خلافت میں عرض کی کہ کیا وجہ ہے آپ کے پیشروئوں کی خلافتیں کامیاب رہیں اور آپ کے وقت میں جھگڑے بپا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ان کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم۔ خلافت کی کامیابی کا انحصار دیانت دارنہ مشورہ پر ہے۔
تاریخ اٹھا کر کھول کر دیکھیے، متعدد معاملات میں تمام صحابہ کا مشورہ ایک طرف ہے اور حضرت علی کا مشورہ ان کے خلاف۔ حضرت عمر، حضرت علی کے مشورے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اگر بوقتِ مشورہ حضرت علی خاموش رہتے تھے تو حضرت عمر فرماتے تھے اے ابو تراب! آپ بھی کچھ فرمائیے، خاموش کیوں ہیں۔ چنانچہ وہ اظہارِ خیال فرماتے اور اس پر عمل ہوتا۔ بیتِ مقدس کو حضرت عمر، حضرت علی کے مشورے کے موافق گئے تھے، حالانکہ حضرت عثمان ذو النورین کا مشورہ بھی نہ جانے کا تھا۔ اس سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنا نائب حضرت علی کو بنایا۔ روم، شام اور ایران کی بعض جنگوں میں خود حضرت عمر نے سپہ سالارِ لشکر اسلام بن کر عزم مصمم کر لیا تھا، لیکن حضرت علی کے روکنے سے رک گئے۔
سو ہاتھ لمبا رَسّا اور سرے پر گانٹھ (پنجابی مثل) حضرت علی کو حضرت عمر سے بہت محبت تھی اور اتنی عقیدت کہ ان کو ان کے عہدِ خلافت میںنام اور کنیت کی بجائے ہمیشہ امیر المومنین کہہ کر پکارتے۔ شیعہ حضرات کے معتبر ترین شارح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید فرماتے ہیں:-
’’ان علیا لم بخاطب عمر منذولي الخلافۃ باکنیۃ وإنما کان یخاطبۃ بامرۃ المسلمین ھکذا ینطق کتب الحدیث وکتب السیر والتاریخ‘‘ (نہج البلاغۃ مطبوعۃ ایران: ۲/۶۳۴)
’’جب سے حضرت عمر نے امرِ خلافت سنبھالا تھا حضرت علی نے ان کو کنیت سے نہیں مخاطب کیا تھا، بلک امیر المومنین کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ حدیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں سے اسی طرح ثابت ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے حضرت علی کو اتنی محبت اس وجہ سے بھی تھی کہ وہ بچپن ہی سے ان دونوں اصحاب کو سیدنا حضرت رسول اکرم ﷺ کے پاس بطورِ وزیر و مشیر کے دیکھتے تھے، کیوں کہ بعثت رسول ﷲ ﷺ کے وقت حضرت علی کی عمر مبارک پانچ برس کی تھی۔ بعض نے ایمان لانے کے وقت آٹھ برس کی عمر لکھی ہے اور وہ دونوں صاحب حضرت ابو بکر۳۸، اور حضرت عمر۳۳ برس کے لگ بھگ تھے۔ خود حضرت علی فرماتے ہیں:-
’’قال علی کثیراً ما کنت اسمع رسول اللہ ﷺ یقول کنت انا و أبو بکر و عمر وفعلت وأنا و أبو بکر و عمر و خرجت انا و أبو بکر و عمر و دخلت أنا و أبوبکر و عمر‘‘ (صحیح البخاری)
’’حضرت علی فرمایا کرتے تھے : میں رسول ﷲ ﷺ سے اکثر اس قسم کے الفاظ سنا کرتا تھا کہ میں، ابو بکر اور عمر تھے۔ میں نے ابو بکر و عمر نے فلاں کام کیا۔ میں، ابو بکر اور عمر فلاں جگہ، اور میں، ابو بکر اور عمر فلاں مقام میںداخل ہوئے۔‘‘
ان سب بزرگوں کے درمیان کامل اتحاد تھا، حضرت علی محبت و شفقت رکھتے تھے اور وہ خلفائے کرام بھی عقیدت و احترام سے پیش آتے تھے۔ جب حضرت عمر ایک مجوسی کے ہاتھ شہید ہوئے، جنازہ اٹھتے وقت حضرت علی نے حضرت فاروقِ اعظم کی عظیم ترین دینی اور ملی خدمات (جو انھوں نے قبل خلافت اور عہدِ خلافت میں انجام دیں) کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیسی حسرت سے یادگار رہنے والے الفاظ فرمائے:-
’’قال (علي ) ما من الناس أحد أحب إلی ان القی ﷲ بما في صحیفۃ من ھذا المسجی‘‘ (ازالۃ الخفاء، طبع اول، ۱/۳۱۸)
’’حضرت علی نے فرمایا لوگوں میں کوئی بھی ایسا نہیں کہ خدا کے حضور میں اس کا اپنا نامۂ اعمال کے ساتھ پیش ہونا بہ نسبت ان صاحب جنازہ کے نامۂ اعمال کے مجھے زیادہ محبوب ہو۔ یعنی کاش! میرا بھی نامۂ اعمال ان ہی کے نامۂ اعمال جیسا ہو۔‘‘
حضرت علی اور حضرت عثمان
حضرت عمر کی شہادت عظمیٰ کے بعد حضرت عثمان غنی خلیفہ منتخب ہوئے۔ تمام جماعت مسلمین نے بالاتفاق ان کے ہاتھ مبارک پر بیعت خلافت کی۔ حضرت علی نے بغیر کسی ملالِ خاطر کے بیعت فرمائی۔ بیعت کے بعد جس طرح شیخین کرام کی خلافتوں کو کامیاب بنانے کے لیے ساعی رہے تھے، اسی طرح حضرت عثمان غنی کے بھی مشیر اعلیٰ بنے اور خیر خواہانہ مشورے پیش فرماتے رہے۔ حج کے سفروں میں بھی اکثر امیر المومنین کے ہمراہ رہتے۔ نزاعات کے فیصلوں کے وقت بھی۔
حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے عہدِ خلافت، مواخات، مساوات اور اسلامی یکجہتی کے شاہکار تھے۔ اس زمانے کو خلافت راشدہ کا سنہری زمانہ کہہ سکتے ہیں۔ تمام مسلمان متحد اور ایک دوسرے پرمہربان تھے، مخالفت کا نام بھی ان کے درمیان نہیں آیا تھا۔
اس زمانے کی برکات خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی کے عہدِ خلافت تک باقی رہیں۔ اس خلافت کے اواخر میں عبد ﷲ بن سبا نامی ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا، جو بباطن اپنے آبائی مذہب یہودیت پر قائم رہا اور بظاہر اسلام کو لبادہ اوڑھ لیا۔ یہ شیطان صفت انسان بڑا مکار اغیار، زبردست معاندِ اسلام اور غضب کا سازشی تھا، اس نے ابتدا میں حبِ علی اور حبِ اہلِ بیت کے پرکشش الفاظ استعمال کر کے اصحابِ ثلاثہ کو غاصب خلافت کہنا شروع کیا اور حضرت علی کی تعریف میں غلو کیا۔ درحقیقت وہ سب مسلمانوں کا دشمن تھا، اس شخص نے مدینہ، مکہ، بصرہ، کوفہ اور مصر وغیرہ تمام بلادِ اسلامیہ میں گھوم پھر کو نو مسلم اور سیدھے سادھے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا۔ بعض لوگوں نے اس کی ان شرارت آمیز حرکات سے پہنچانا کہ یہ کوئی دشمنِ دین ہے، انھوں نے اسے ڈانٹا۔ جس جگہ اسے معلوم ہوتا تھا کہ میری شیطنت پر سے پردہ اٹھ گیا، وہاں سے خاموشی سے نکل جاتا۔ بعض لوگ اس کے دامِ فریب میں آ گئے۔ یہ سازشی آدمی دام فریب میں آئے ہوئے لوگوں کی ایک مقامی جماعت بنا دیتا اور چکنی چپڑی باتوں سے ان کو آیندہ کے لیے راہِ عمل بھی سمجھاتا۔
اس سازشی اور مکار انسان کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے بنیادی عقائد میں خرابی ڈال کر امتِ مسلمہ میں تفرقہ ڈالا جائے، اگر یہ متحد رہے تو تمام دنیا عَلمِ اسلام کے نیچے آجائے گی اور ان اہلِ اسلام کے فتوحات کے ریلے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی، چنانچہ وہ دشمن یہودی اپنی اس اسکیم کو کسی قدر جامۂ عمل پہنا گیا۔
اس یہودی مذکور سے اثر پذیر لوگوں کو تاریخ میں سبائی گروہ یا سبائی منافقین کا نام دیا گیا۔ ان سبائی منافقین کی پیہم سازشوں اور خلیفہ سوم حضرت عثمانt کے خلاف نفرت آمیز باتوں کے جا بجا پھیلانے کا اثر یہ ہوا کہ مصر کے سبائی حیلے بہانے سے مدینہ منورہ میں آئے اور ان کے بد ترین ہاتھوں سے حضرت عثمان غنی مظلومانہ شہید ہو گئے۔ سبائی سازشوں کا مقصد پورا ہو گیا کہ جماعتِ مسلمین میں تفرقہ کا دروازہ کھل گیا۔
ان مصری بلوائیوں نے جب حضرت علی کو حضرت عثمان اور اپنے درمیان نمایندہ بنایا تو جس قسم کے الفاظ اس موقع پر حضرت علی نے حضرت عثمان کی شان میں استعمال فرمائے، ان کا ذکر نہج البلاغۃ کے حوالے سے مقالہ متعلق امیر المومنین حضرت عثمان غنی میں گزر چکا ہے۔ کس طرح حضرت علی حضرت عثمان کو اپنے جیسا صحابیِ رسول، اپنے جیسا صاحبِ علم اور دامادِ رسول فرما رہے ہیں۔
پھر جب اطلاع پہنچتی ہے کہ بلوائیانِ مصر نے خلیفہ ثالث حضرت عثمان کے مکان کا محاصرہ کر لیا ہے تو اپنے صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین کو پہرہ دینے کے لیے روانہ فرمایا کہ جا کر بلوائیوں کو پسپا کر دو۔ یہ دونوں صاحبزادے آخر تک بلوائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آخر دروازے کی طرف سے بلوائیوں کا کوئی چارہ نہیں چلتا، تو اُن میں سے کچھ پیچھے سے دیوار پھاند کر حضرت عثمان کو شہید کر جاتے ہیں اور کچھ بلوائی حضرت حسنین و دیگر پہرے دار اولادِ صحابہ کے مقابلے پر رہتے ہیں، تاکہ ان محافظوں کو ادھر ہی مصروف رکھیں۔
جب حضرت علی کو حضرت عثمان کی یوں مظلومانہ شہادت کی خبر پہنچی تو آکر اپنے صاحبزادوں کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم سے حفاظت کیوں نہ ہو سکی، انھوں نے عرض کی کہ ہم نے تو اپنی جانیں دینے تک سے گریز نہیں کیا۔ عالم الغیب تو خدا ہے، انھیں یہ پتا نہیں چل سکا کہ بلوائی کسی اور راستے سے حضرت عثمان کے پاس پہنچ گئے ہیں۔
حضرت علی پر ایک اور الزام اور اس کا جواب
خارجیوں کا حضرت علی پر یہ الزام ہے کہ اصل میں انھوں نے معاذ ﷲ حضرت عثمان کو شہید کر دیا، تاکہ خود منصبِ خلافت سنبھالیں، ورنہ بلوائی محاصرین حضرت علی کے زیرِ اثر تھے، وہ ان کو سمجھا سکتے تھے، وہ ان کے ذریعے حضرت عثمان تک اپنی بات پہنچا سکتے تھے، خود ان کی بات تسلیم کر کے کیوں واپس نہ ہوتے جب محاصرین کا محاصرہ شدید ہو گیا تھا تو خود تلوار ہاتھ میں لے کر کیوں نہ نکلے اور وہ تلوار جو عمرو بن عبدود اور مرحب جیسے بہادروں کو موت کے گھاٹ اتار چکی تھی، وہ خلیفہ رسول ﷲ ﷺ کی حفاظت کے لیے کیوں میان سے نہ نکلی اور بعد میں قاتلینِ عثمان، حضرت علی کے لشکر میں شامل رہے اور باوجود مطالبہ پر حضرت امیر معاویہ کے، ان کو واپس نہ دیا۔
جواب
حضرت علی چونکہ رسول ﷲ ﷺ کے چچا زاد بھائی، داماد اور مخلص صحابی اور سابقین اولین میں سے تھے، اس لیے عالمِ اسلام میں ان کا اثر و رسوخ مسلّم تھا، لوگ ان سے محبت رکھتے تھے۔ بلوائیانِ مصر نے ان کے ذریعے اپنا مطالبہ حضرت عثمان غنی تک پہنچایا۔ تو یہ قدرتی بات تھی
دوسری بات یہ تھی کہ جو سبائی منافقین حضرت علی سے اپنی عقیدت و محبت ظاہر کرکے اپنے عظیم مقصد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ حضرت علی جیسے بزرگ ان پر خوش گمان رہیں۔ خوش گمانی کے تحت یہ اپنے گھر میں رہیں اور وہ اپنا کام کر سکیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق چونکہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب دان نہیں، اس لیے حضرت علی کو آخر تک ان پر یہ بدگمانی نہیں ہوئی کہ وہ قتل تک نوبت پہنچا دیں گے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ یہ خیال رہا کہ وہ محاصرہ کر کے ڈرا دھمکا کر گورنر چاہتے ہیں۔
جن آدمیوں کو ﷲ تعالیٰ نے لڑکے عطا فرمائے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ انسان کو لڑکے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ اب جب حضرت علی اپنے جگر گوشوں کو بھیج دیتے ہیں تو باقی کسر کیا رہ گئی؟!
حضرت امیر معاویہ کا مطالبہ یہ تھا کہ محمد بن حضرت ابوبکر صدیق کو ان کے حوالے کیا جائے کہ وہ بھی قاتلین میں سے ہیں۔ حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ فرماتے تھے کہ جب حضرت عثمان کے شہید ہونے کی اطلاع مجھے پہنچی، اس سے کچھ مدت پہلے محمد بن ابوبکر میرے پاس تھا۔ اس کو کیونکر قاتل سمجھا جائے۔ حضرت علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پہلے میرے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرو، اس کے بعد تحقیقات کر کے صحیح قاتلینِ حضرت عثمان کا پتا لگایا جائے اور انھیں جامِ اجل پلایا جائے۔ بلوہ کی صورت تھی، ملزموں کا پتا لگانا بھی کارے دارد تھا، اسی شش و پنج میں وقت گزرتا گیا۔ سازشی سبائیوں کے پائوں مضبوط ہوتے گئے، انھیں سازشوں کے جال پھیلانے کا موقع ملتا گیا اور حادثاتِ محزوں وقوع پذیر ہوتے گئے۔