الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ
از قلم : مولانا محمد ابو القاسم فاروقی ، بنارس
مولوی بشیر الدین دہلوی نے "واقعات دار الحکومت دہلی” کی جلد دوم میں ایک عجیب و غریب حویلی کا ذکر کیا ہے، جو بہت خوب صورت اور عالی شان تھی، لیکن اس کا نام نمک حرام کی حویلی تھا، اس نام نے حویلی کے سارے حسن کو غارت کر دیا تھا، نام کس طرح کردار کا استعارہ بن جاتا ہے، اس کی مثال یہ حویلی تھی، در اصل مرہٹوں نے ایک شخص منشی بھوانی شنکر کو ایک معزز عہدے پر فائز کرکے دہلی سے متعلق ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دیں، مرہٹے رو بہ زوال ہوئے تو ہوا کا رخ دیکھ کر اس نے پالا بدل دیا اور انگریزوں سے مل گیا، مرہٹوں نے اسے منصب سے معزول کر دیا، انگریزوں نے انعام میں اس کے لیے پنشن مقرر کر دی، دلی والے اسے نمک حرام کہنے لگے، اس کا مکان جو مسجد فتحپوری سے اسٹیشن کی سڑک یعنی مشن روڈ پر کوچہ گھاسی رام میں تھا، نمک حرام کی حویلی کہلایا، اس نام کی وجہ سے منشی بھوانی شنکر بہت رنجیدہ اور کبیدہ خاطر رہتا تھا، اس نے اپنے انگریز آقاؤں سے داد فریاد کی، حکم جاری ہوا کہ کوئی منشی کو نمک حرام اور اس کے مکان کو نمک حرام کی حویلی نہ کہے، حکم سرکاری ہو تو اس کے مطابق سرکاری کاغذات میں ضرور لکھا جائے گا، مگر سوچ پر پابندی اور زبان بندی کتنے دنوں تک جاری رہ سکتی ہے، ہر شخص کی زبان پر یہی نام چڑھا رہا۔
تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے، وہ اچھے برے، چھوٹے بڑے سارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ رکھتی ہے، یزدانی اور اہرمنی کرداروں کا کچا چٹھا وقت ضرورت پیش کرتی رہتی ہے، جھوٹے پروپیگنڈوں اور فرضی تشہیر کے ذریعہ ہم اپنے کالے کرتوتوں پر آج تو پردہ ڈال سکتے ہیں، لیکن تین نہیں تیرہ نسلیں گذرنے کے بعد بھی تاریخ آئینہ دکھا دے گی کہ یہ تیرے آبا و اجداد کے سیاہ کارنامے ہیں، یقین نہ آئے تو آئیے آپ کو ایک رنگ محل کی سیر کراتے ہیں، جس کے مالک نے وطن اور قوم کے ساتھ بھیانک غداری کی، پوری دہلی کو برباد کر دیا، یہ پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کا ایک گھناؤنا کردار تھا، جس نے چند سکوں کے عوض خود کو انگریزوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا، آگے کیا ہوا یہ تاریخ کی زبانی سنیے:
۱۲/ ستمبر سے ۲۴/ستمبر ۱۸۵۷ء تک دہلی کے عوام اور مجاہدین آزادی ایک ایک انچ زمین کے لیے لڑتے رہے، ہتھیار کے نام پر کسی کے ہاتھ میں لاٹھی تھی تو کسی کے پاس چارپائی کی پاٹی، کچھ لوگوں کے پاس زنگ خوردہ تلواریں تھیں، میرٹھ سے آئے ہوئے سپاہیوں کے پاس ضرور بندوقیں تھیں، ۲۴/ ستمبر تک انگریزوں نے دہلی پر مکمل قبضہ کر لیا، دہلی کے کوچۂ و بازار میدان جنگ کا سماں پیش کر رہے تھے، جامع مسجد کے پورے علاقے میں ہر جگہ لاشیں بکھری ہوئی تھیں، در و دیوار انقلابیوں کے خون سے لالہ زار تھے۔
۱۹/ ستمبر کو جنرل بخت خاں لال قلعہ میں بادشاہ سے ملنے آئے، اس وقت تک قلعہ محفوظ تھا، انھوں نے سمجھایا کہ باشاہ سلامت! ماناکہ دہلی پایۂ تخت ہے، لیکن یہ فوجی قلعہ نہیں ہے، لڑائیوں کے لیے ایسے مقامات محفوظ نہیں ہوتے ہیں، شہر نشیب میں ہے اور دشمن پہاڑی پر، اوپر سے حضور کے نا تجربہ کار شہزادے مرزا مغل کمانڈر انچیف قدم قدم پر ہمارے کام میں رکاوٹ بنتے رہے، شکست ہونا لازمی ہے، اب بھی کچھ نہیں بگڑا، آپ ہمارے ساتھ محفوظ مقام پر چلیں، پورا ملک اور تمام ریاستیں آپ کے ساتھ ہیں، ہم انگریزوں کو منھ توڑ جواب دیں گے، بادشاہ بخت خاں کی اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اور اگلے دن بخت خاں کو ہمایوں کے مقبرے میں ملنے کو کہا۔ یہ بخت خاں کون تھے، یہ بھی سنتے چلیں:
آپ کا نام بخت بلند خاں تھا، روہیلوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اپنی مجاہدانہ سر گرمی اور مقصد کی سچائی کا لافانی نقش چھوڑا، سلطان پور علاقہ کے رہنے والے تھے، انگریزی فوج میں ملازمت کرلی اور ایک خاص مقام حاصل کر لیا، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ مشہور وہابی عالم مولوی سرفراز علی نے ان کے خیالات میں انقلاب برپا کر دیا، حکیم احسن اللہ خاں نے اپنے بیان میں بخت خاں کو وہابی العقیدہ بتلایا، تحریک کی ناکامی کے بعد وہ غائب ہو گئے، فرنگی حکومت تلاش بسیار کے باوجود ان کا سراغ نہ لگا سکی۔( ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص۱۸۱)
مرزا الٰہی بخش، جنھیں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر اور شہزادوں کی گرفتاری کی ذمہ داری سونپی تھی، سایہ کی طرح بادشاہ کے ساتھ لگے رہے، وہ پل پل کی خبر منشی رجب علی اور دیگر مخبر ین کے ذریعے بھیجتے رہے، انھیں حکم ملا کہ وہ بہادر شاہ کو کسی طرح باغیوں کے ساتھ جانے نہ دیں، الٰہی بخش بادشاہ کے پاس آیا، چکنی چپڑی باتیں کیں، باشاہ کو بڑھاپے کا احساس دلایا، برسات کے موسم کی دلآزاریاں بتلائیں، ننھے ننھے شہزادوں اور بیگمات کی تکلیفوں کا نقشہ کھینچا، فرنگیوں سے معاملات کی صفائی کی ذمہ داری لی، بادشاہ شش و پنج میں پڑگیا اور کوئی فیصلہ نہ کرسکا، ایک خواجہ سرا نے کہا بھی کہ حضور مرزا کی باتوں میں نہ آئیں یہ تو انگریزوں سے ملے ہوئےہیں۔
دوسرے دن بہادر شاہ اپنے متعلقین کے ہمراہ ہمایوں مقبرے میں چلے گئے،پہلے درگاہ حضرت نظام الدین گئے، اس وقت وہ تین وقت کے فاقے سے تھے، اف! یہ زار و نزار بوڑھا درگاہ حضرت نظام الدین میں مزار کے تکیہ سے لگا بیٹھا ہے، سفید داڑھی پر گرد و غبار ہے، چہرہ اترا ہوا ہے، درگاہ کے متولی سے مانگ کر بیسنی روٹی اور سرکہ کی چٹنی کھا رہا ہے۔ (خواجہ حسن نظامی: دہلی کی جانکنی، ص ۳۷ )
الٰہی بخش لاسلکی بنے ہوئے تھے، بادشاہ کی ہر حرکت پر ان کی نظر تھی، فوراً انگریزوں کو بادشاہ کے ہمایوں مقبرہ پہنچنے کی اطلاع دی، حکم ملا کہ ۲۴ گھنٹے تک وہ بادشاہ کو روکے رکھیں، تاکہ ہم اسے گرفتار کر سکیں، بخت خاں پھر آکر بہادر شاہ سے ملے، بہت دیر تک بحث و تکرار ہوتی رہی، بہادر شاہ بخت خاں کے ساتھ جانا چاہتے تھے، الٰہی بخش انھیں روکنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہے تھے، آخر میں انھوں نے بخت خاں پر الزام رکھ دیا کہ بادشاہ کی آڑ میں تم خود حکومت کرنا چاہتے ہو اور مغلوں سے صدیوں کا انتقام لینا چاہتے ہو، روہیلہ فوجی پٹھان تحمل کھو بیٹھا اور میان سے تلوار نکال لی، ممکن تھا کہ اسی وقت وہ اس غدار قوم اور فرنگیوں کے کاسہ لیس کا سر قلم کر دیتا، لیکن بادشاہ نے روک دیا۔
بادشاہ نے الٰہی بخش کے پھینکے ہوئے دانے چگ لیے اور ان کے دام فریب میں گرفتار ہو گیا، انھوں نے بخت خاں کی پیشکش ٹھکرا دی، اور اپنی بد نصیبی پر خود اپنی مہر لگا دی اور فیصلہ کن لہجے میں کہا: ” بخت خاں مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، میں نے اپنا معاملہ تقدیر کے حوالہ کر دیا، آخر الٰہی بخش کی مدد سے ہڈسن نے بادشاہ کو گرفتار کر لیا، بادشاہ صرف مرزا الٰہی بخش کو گھورتے رہے۔ ابھی شاہزادوں کی گرفتاری کا مرحلہ باقی تھا، مرزا الٰہی بخش اور منشی رجب علی ہڈسن کے ہمراہ شاہزادوں کی گرفتاری کے لیے آئے، شہزادوں کو ان کے بعض رفقا نے مشورہ دیا؛ مرنا ہر حال میں ہے شاہزادو! تلواریں نکال لو اور ان مٹھی بھر فرنگیوں کو خاک چٹا دو، تیموری نسل کے شاہزادوں کا یہی دستور ہے، بات بگڑتی دیکھ کر الٰہی بخش نے جاں بخشی کروانے کا وعدہ کیا اور انھیں مقابلہ سے باز رکھا، شہزادوں کے ہتھیار رکھوا لیے گئے، ہڈسن نے ان کے کپڑے اتر وائے اورچند لمحوں میں تیس شاہزادوں کو موت کی نیند سلا دیا، ان کے سر خوان میں سجا کر بہادر شاہ کے سامنے بھیجے گئے کہ یہ ہے آپ کی وہ نذر جو بند ہوگئی تھی، بادشاہ نے یہ منظر دیکھ کر صرف اتنا کہا کہ الحمدللّٰہ تیموری شہزادے اسی طرح سرخ رو ہوتے ہیں۔ (خواجہ حسن نظامی: دہلی کی جانکنی، سید مصطفی خورشید رضوی: تاریخ جنگ آزادئ ہند ۱۸۵۷ء، کنھیا لال :محاربۂ عظیم ۱۸۵۷ء، حسام الدین: تصویر کا دوسرا رخ، ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ تدوین و ترجمہ: خلیق احمد نظامی ،مفتی انتظام اللہ شہابی: ۱۸۵۷ء کے غدار علما، ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علما، مولانا غلام رسول مہر: ۱۸۵۷ء کے مجاھدین،سرگزشت مجاہدین، ۱۸۵۷ء کے غداروں کے خطوط : عاشور کاظمی، ظہیر الدین دہلوی کا روز نامچہ)
مرزا الٰہی بخش بہادر شاہ ظفر کے سمدھی تھے، پہلے اپنی بیٹی حاتم زمانی بیگم کا نکاح شاہزادہ فتح الملک بہادر سے کر دیا، اسی راہ سے وہ شاہی محل میں بہت زیادہ دخیل ہو گئے، اپنی خوشامدانہ اور لچھے دار باتوں سے بادشاہ کو اپنا اسیر بنا لیا، انگریزوں سے ساز باز کرلیا، بادشاہ اور شاہزادوں کی گرفتاری کی ذمہ داری انھیں کے سر ڈالی گئی تھی اور انھوں نے اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی، انگریزوں نے ان پر انعام و اکرام کی بارش کر دی، لیکن ساتھ ہی جلاوطنی کے احکام بھی صادر کر دیے، مرزا غالب ایک خط میں لکھتے ہیں:
"”مرزا الٰہی بخش کو حکم کرانچی بندر جانے کا ہے، انھوں نے زمین پکڑی ہے، سلطان جی میں رہتے ہیں، عذر کر رہے ہیں، دیکھیے بہ جبر اٹھ جائے یا خود اٹھ جائیں۔””
آخرش جلا وطنی کے احکام واپس لیے گئے، ۲۱/ مارچ ۱۸۷۸ء کو ان کا انتقال ہوا۔( ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۷۹)
مرزا الٰہی بخش کا رنگ محل:
محلہ گنج میر خاں کے علاقے میں تراہے پر ایک عظیم الشان محل مرزا الٰہی بخش کا تھا، اس کا نام رنگ محل تھا، انگریزوں کی خصوصی عنایت سے دولت کی ریل پیل ہوگئی یہ محل مرزا جمشید بخت نے بڑی آرزووں کے ساتھ بنوایا تھا، مرزا نے منھ مانگی قیمت دے کر اسے خرید لیا، مرزا کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ثریا جاہ کے قبضے میں آگیا، پھر الٰہی بخش کی پوتیوں کے پاس آگیا، بعد ازاں اسے تحصیل کچہری بنا دیا گیا، ثریا جاہ کو آٹھ سو روپیہ ماہانہ باپ کی وفاداریوں کا انعام ملتا رہا، (واقعات دارالحکومت جلد دوم) معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۷ء تک انگریزی حکومت کی مہربانیاں ان کے خاندان پر برقرار رہیں، ظاہر ہے انگریز قوم جیسی عہد نا شناس سے یہ امید کیونکر کی جاسکتی کہ نوے سال تک وہ احسان کا قرض چکا ئیں گے۔
دیوان سنگھ مفتون جو آزادی سے قبل کے نامور صحافی تھے اور ایک ہفت روزہ مصور اخبار ” ریاست” پابندی کے ساتھ نکالتے تھے، وہ اپنی آپ بیتی مطبوعہ ۱۹۵۷ میں ذکر کرتے ہیں کہ دہلی میں ایک صاحب مرزا خیر الدین دہلوی تھے (واضح رہے کہ مولانا آزاد کے والد کا نام مولانا شاہ خیر الدین دہلوی تھا ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۱ اور وفات ۱۸۹۸ء ہے) مرزا جی کو انگریز حکام میں بڑا اثر و رسوخ تھا، آنریری مجسٹریٹ رہے اور کسی پولیٹیکل منصب پر بھی فائز تھے، انگریز حکومت ایک ہزار روپیہ ماہانہ پابندی سے دیتی تھی، دولت گھر کی لونڈی تھی، ۱۹۴۷ء کے فساد میں لوگوں نے انھیں لال قلعہ کی طرف بد حواس، افتاں و خیزاں اس حال میں بھاگتے دیکھا کہ نہ سر پر ٹوپی اور نہ پیر میں جوتی تھی، ساری جائداد اور دولت چھوڑ چھاڑ، جان ہتھیلی پر لے کر کسی طرح پاکستان پہنچ گئے، وہاں سیاسی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی کہ ان کا تعلق قلعۂ معلی سے ہے، لیکن جب یہ انکشاف ہوا کہ جد امجد مرزا الٰہی بخش تھے، لوگ ملنے سے کترانے لگے، آج بھی ان کی اولاد جہاں کہیں ہوگی، اپنے خاندانی بزرگوں کا نام آتے ہی شرم سے سر جھکا لیتی ہوگی۔
آج دیوبند مکتبہ فکر جو اصل اہل سنت ہونے کا دعویدار تھا اسے بھی مرزا الہی بخش غدار کی مار پڑی ہوئ ہوئ ہے ۔اسی کے بنگلے میں بنی مسجد میں انہی کے رکھے امام مولوی محمد اسماعیل کے بیٹے مولوی الیاس نے تبلیغ کے نام پر الیاسی تحریک کے ذریعے جہاد کو وہ نقصان پہنچایا جو کوئ دشمن بھی نہ پہنچاسکا۔اپنی اس خود ساختہ تحریک کو جہاد کہ اسلام کے تاروپود بکھیر رکھ دیئے۔
پسند کریںپسند کریں