سفر سندھ : کچھ یادیں، کچھ باتیں – قسط : 1


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

عرصہ سے خواہش تھی کہ دیار سندھ کے ایک علمی مرکز پیر جھنڈا (سعید آباد، ضلع مٹیاری) اور نواب شاہ سے متصل لکھمیر میں موجود قیمتی کتب خانے کی زیارت کی جائے۔ الحمد للہ اس تقریب کی سعادت بھی بالکل اچانک ترتیب پا گئی۔ ہمارے محترم دوست مولانا انور شاہ راشدی عرصہ دراز سے ہمارے منتظر تھے ہی دوسری طرف ہمارے رفیقِ خاص حافظ شاہد رفیق (گوجرانوالہ) نے بھی اطلاع دی کہ وہ مولانا خبیب احمد اثری (فیصل آباد) کے ہمراہ مذکورہ کتب خانوں کی زیارت کے شوق میں ۲۶ اپریل کی صبح نواب شاہ تشریف لا رہے ہیں اگر یہ خاکسار بھی اس موقع پر حاضر ہو جائے تو مناسب رہے گا اس طرح مل بیٹھنے کا ایک بہانہ بھی بن جائے گا۔ بہر حال اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود راقم بھی عازم سفر ہوا۔ کراچی سے ایک دوست شاہ رخ خان بھی میرے ساتھ ہو گئے اور اس طرح سفر کا آغاز ہوا۔ شاہ رخ خان طالب علم ہیں اور لکھنے کا بھی شوق رکھتے ہیں گزشتہ الواقعۃ کے شمارے میں ان کا پہلا مضمون شایع ہوا تھا۔ اگر قلم و قرطاس سے اپنی وابستگی برقرار رکھیں تو یقیناً ان کی صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ نکھریں گی۔
تقریباً ایک ہی وقت جب کہ حافظ شاہد رفیق اور مولانا خبیب احمد نواب شاہ پہنچے، ہم نیو سعید آباد (ٹول پلازہ) ٹرمینل پر اترے۔ نماز فجر کا وقت ہوا چاہتا تھا ٹرمینل سے متصل مسجد ہی میں ہم نے نمازِ فجر ادا کی۔ کچھ دیر بعد مولانا انور شاہ حافظ صاحب کے ہمراہ ہمیں لینے پہنچ گئے۔
نیو سعید آباد ٹول پلازہ سے قریب ہی ہمارے میزبان مولانا انور شاہ راشدی پیر جھنڈا کا مسکن ہے۔ جہاں ہم سب پہنچے۔ اب کچھ ذکر خانوادہ پیر جھنڈا اور اس کی علمی میراث کا ہو جائے۔
دیارِ سندھ میں خانوادہ راشدی اپنی دینی، علمی و مجاہدانہ تاریخ کا حامل خانوادہ ہے۔ اس خانوادے میں کئی صدیوں سے مسلسل اصحاب رشد و ہدایت اور حاملین علم و فضیلت گزرے ہیں۔ خانوادہ راشدی کے موسس اعلیٰ حضرت پیر محمد راشد شاہ المعروف بہ روضہ دھنی (م ۱۲۲۳ھ) تھے۔ پیر محمد راشد شاہ کے چار صاحبزادے تھے۔ اوّل الذکر پیر سید صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا مشہور بہ تجر د دھنی (م ۱۲۴۶ھ) نہ صرف صاحب علم و فضل تھے بلکہ مجاہدانہ عادات و خصائل کے مالک بھی تھے۔ سید احمد شہید رائے بریلوی کے ہم مسلک و رفیق خاص تھے۔ ان کی تحریک جہاد کے ایک اہم رکن اور "حروں” کے روحانی پیشوا تھے۔ بلاشبہ ان کے بے شمار مرید تھے، جو ان پر اپنی جان نچھاور کر نے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
پیر صبغت اللہ اپنے والد گرامی کے بعد ان کی مسند کے وارث قرار پائے، اسی وجہ سے وہ پیر پگاڑو، کے لقب سے معروف ہوئے۔ ان کے جانشین آج بھی پیر پگاڑو یا پیر پگاڑا کہلاتے ہیں۔ پیر صبغت اللہ نے اپنے بھائی پیر محمد یٰسین شاہ کو اپنے والد کی وصیت کے مطابق جھنڈا دیا جو شاہ افغانستان تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ نے سندھ میں اشاعت دین اسلام کی خاطر پیر محمد راشد شاہ کی خدمت میں ازراہ عقیدت پیش کیا تھا۔ پیر محمد یٰسین جھنڈا لے کر دوسری جگہ چلے گئے اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے پیر فضل اللہ شاہ سجادہ نشیں ہو ئے، ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی پیر سید رشید الدین شاہ ۱۲۸۷ھ میں "صاحب العلم الثالث” بنے۔ پیر رشید الدین شاہ نے ۱۳۱۷ھ میں وفات پائی۔ ان کے بعد ان کے عالی قدر صاحبزادے سیّد ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی سندھی ان کی مسندِ علم و فضیلت کے وارث ہوئے اور "صاحب العلم الرابع” بنے۔ ان کے حالات پر ایک تفصیلی مضمون راقم کے قلم سے مجلہ "الواقعۃ” کی زینت بن چکا ہے، شائقین اس طرف مراجعت کر سکتے ہیں (ملاحظہ ہو : شمارہ نمبر ۱۲-۱۳، جمادی الاول و جمادی الثانی ۱۴۳۴ھ)
سید رشد اللہ شاہ کو سندھ میں علمی پسماندگی کا بڑا احساس تھا، اسی لیے جب مولانا عبید اللہ سندھی نے مدرسہ دار الرشاد، کی تجویز پیش کی تو شاہ صاحب فوراً تیار ہو گئے۔ چنانچہ ۱۳۱۹ھ /۱۹۰۱ء میں، مدرسہ دار الرشاد نے اپنی عملی مساعی کا آغاز کیا۔ مدرسہ قائم کرنے کے لیے تمام تر سرمایہ سید رشد اللہ شاہ نے فراہم کیا اور اس کے تمام اخراجات کے کفیل وہی تھے۔ سات برس تک مولانا عبید اللہ سندھی کامل اختیارات کے ساتھ علمی اور انتظامی امور کے سر براہ رہے۔ یہ مدرسہ جلد ہی کامیابی کے منازل طے کرنے لگا۔ یہاں بلند پایہ ارباب علم تدریس کی ذمہ داریاں نبھاتے اور مدرسے کے معائنے اور امتحان کے لیے رفیع المرتبت علماء کو مدعو کیا جاتا، اس طرح ارض سندھ کا نصیبہ جاگ اٹھا، بڑے بڑے علمائے عظام یہاں تشریف لائےجن میں :-
1- علامہ شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری
2- مولانا محمود الحسن دیو بندی
3- مولانا سید انور شاہ کشمیری
4- مولانا اشرف علی تھانوی
5- ڈاکٹر ضیاء الدین احمد وائس چانسلر "علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی” علی گڑھ
6- مولانا حافظ محمد احمد صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند، وغیرہم شامل ہیں۔
سید ابو تراب رشد اللہ بڑے صاحب عزیمت بزرگ تھے۔ تحریک خلافت کے زمانے میں انھوں نے تحریک کی کامیابی کے لیے بڑی سر گرمی سے حصہ لیا۔ حکومت وقت کی جانب سے آپ کو اس راہ سے منحرف کرنے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ لیکن ان کے پایہ استقامت میں جنبش تک نہ ہوئی حتیٰ کہ انھیں پابند سلاسل بھی کیا گیا۔ تحریک خلافت میں سر گرمی سے حصہ لینے کی وجہ سے انھیں پیر صاحب خلافت والے کہا جانے لگا ۔
خانوادہ راشدی کی وہ اہم خصوصیت جس نے اس خانوادہ عالی مرتبت کو سندھ کے دیگر خانوادوں سے ممتاز کیا ان کا بیش قیمت خزینہ علم و حکمت یعنی کتب خانہ ہے۔ جس کی کشش ہمیں پیر جھنڈا تک لے گئی تھی۔ اس خاندان میں کتابیں جمع کرنے کی ابتداء سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید سے ہوئی جو خاندان راشدی کے موسس اعلیٰ پیر محمد راشد شاہ کے والد گرامی تھے۔ موصوف نے مختلف جگہوں سے کمیاب و نادر مخطوطات کو حاصل کر کے اپنے کتب خانے کی زینت بنایا۔ ذخیرہ کتب کا از حد شو ق تھا اور اس کی تکمیل کے لیے آئے دن مختلف مقامات کا دورہ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کتابیں باندھ کر کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں ڈاکوئوں نے کتابوں کے اس گٹھے کو مال سمجھ کر لو ٹ لیا اور آپ کو بڑی سفاکی سے شہید کر دیا۔ سید بقا شاہ لکیاری کی شہادت کے بعد یہ کتب علمیہ کا مختصر خزینہ سید محمد راشد شاہ کی تحویل میں آیا۔ ان کے دور میں کوئی خاص اضافہ تو نہ ہوا لیکن انھوں نے کتابوں کو بڑی حفاظت سے رکھا۔ پیر راشد شاہ کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک حصہ پیر پگاڑا اوّل سید صبغت اللہ شاہ راشدی کی ملکیت میں آیا اور دوسرا حصہ صاحب العلم الاوّل پیر محمد یٰسین شاہ کے زیر تحویل آیا۔ ان دونوں ہی بھائیوں نے کتب خانے کی خوب حفاظت کی اور اس کے خزینوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔
پیر محمد یٰسین شاہ سے یہ کتب خانہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا سید رشد اللہ شاہ کی تحویل میں آیا۔ سید رشد اللہ کا دور کتب خانے کی تاریخ کا زریں دور تھا۔ ممدوح نے نہ صرف کتابوں کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے ضروری انتظامات کیے بلکہ اس میں اضافے کے لیے بھی اپنے تمام تر ذرائع استعمال کیے۔ فراہمی کتب کے سلسلے میں تجار کتب سے ان کا خصوصی رابطہ رہتا تھا۔
سید رشد اللہ نے حصول کتب کے لیے زر کثیر خرچ کیا۔ اکثر نوادرات مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مصر، شام، استنبول، بغداد، دمشق اور اندرون ہند مختلف بلاد و اماکن سے قیمتاً حاصل کیے یا پھر ان کی کتابت کروائی۔ ان کتب خانوں سے کیے گئے بیش قیمت کتابوں کی متعدد نقول خود راقم نے اس کتب خانے میں ملاحظہ کی ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنے کاتبین مقرر کر رکھے تھے جن کا کام نادر کتابوں کی کتابت کر کے کتب خانہ پیر جھنڈا کے خزینوں میں اضافہ کر نا تھا۔
دیار سندھ کے اس جلیل القدر عالم نے نہ صرف یہ کہ خزائن علمیہ کو جمع کیا بلکہ اس کی حفاظت اور مستفدین کے لیے افادے کا بھی انتظام کیا۔ دور و نزدیک کے تشنگان علم آتے اور اس چشمہ علم سے سیراب ہو تے۔
سید رشد اللہ سندھی کی وفات (۱۹۲۳ء) کے بعد ان کا بیش قیمت کتب خانہ جو تقریباً ۲۵ ہزار کتب پر مشتمل تھا ان کے دونوں صاحبزادوں سید ضیاء الدین شاہ اور سید احسان اللہ شاہ میں برابر تقسیم ہو گیا۔ پیر ضیاء الدین شاہ کے صاحبزادے پیر وہب اللہ شاہ نے اپنے حصے میں آنے والی کتابیں ۱۹۹۰ء میں کراچی نیشنل میوزیم کو فروخت کر دی تھیں ۔
اس کے بر عکس سید احسان اللہ شاہ کا کتب خانہ روز افزوں ترقی پذیر رہا۔ انھیں کتابوں کی تلاش و جستجو کا شوق وراثت میں منتقل ہو ا تھا۔ سیّد احسان اللہ شاہ نے ۱۹۳۸ء میں وفات پائی۔ ان کی وفات پر مولانا ثناء اللہ امرتسری اپنے تعزیتی شذرے میں لکھتے ہیں:-
"سندھ جیسے پیر پرست ملک میں ضلع حیدر آباد میں گوٹھ پیر جھنڈہ میں ایک گدی ہے جس کے گدی نشیں اہل توحید چلے آئے ہیں۔ بسا غنیمت تھا کہ وہاں سے توحید کی آواز اٹھتی تھی۔ پیر احسان اللہ شاہ مرحوم وہاں کے مسند نشیں تھے۔ آپ اہل توحید اور اہل علم صالح نوجوان اور علماء کے قدر دان تھے۔ ناگاہ خبر آئی ہے کہ ۹ شعبان ۵۷ھ (مطابق ۴ اکتوبر) کو ہمیں ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ” (ہفت روزہ "اہل حدیث” امرتسر: ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۸ء)
علامہ سیّد سلیمان ندوی نے "معارف” (اعظم گڑھ) میںلکھا:-
"علمی حلقوں میں یہ خبر غم و افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ پیر جھنڈا گوٹھ ضلع حیدر آباد سندھ کے مشہور عالم پیر احسان اللہ شاہ جو قلمی کتابوں کے بڑے عاشق تھے۔ چوالیس ۴۴ برس کی عمر میں ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو اس دنیا سے چل بسے۔ مرحوم حدیث و رجال کے بڑے عالم تھے۔ ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ مشرق و مغرب، مصر و شام، عرب و قسطنطنیہ کے کتب خانوں ان کے کاتب و ناسخ نئی نئی قلمی کتابوں نقل پر مامور رہتے تھے۔ مرحوم ایک خانقاہ کے سجادہ نشیں اور طریق سلف کے متبع اور علم و عمل دو نوں میں ممتاز تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم پر اپنے انوار رحمت کی بارش فر مائے۔” (یادِ رفتگاں : ۱۸۶)
ان کے بعد ان کا کتب خانہ ان کے دونوں صاحبزادوں سید محب اللہ شاہ راشدی اور سید بدیع الدین شاہ راشدی میں تقسیم ہوا۔ یہ دونوں ہی حامل علم و فضیلت تھے۔ کتابوں سے ان کے بے پناہ شغف نے دونوں حصوں کو عظیم الشان کتب خانے میں بدل دیا۔گو اب دونوں ہی اپنے خالق کے جوار رحمت میں جا چکے ہیں تاہم ان کا کتب خانہ آج بھی شائقین علم کے لیے استفادے کا اہم مر کز ہے۔ ان کے اخلاف نے شائقین کتب کے لیے اپنے گراں قدر کتب خانے کے فیض کو عام کر رکھا ہے اور کتب خانے کے لیے آنے والے زائرین کی خدمت کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ سیّد محب اللہ شاہ نے ۱۹۹۵ء میں وفات پائی۔ ان کے صاحبزادئہ گرامی قدر مولانا قاسم شاہ راشدی الحمد للہ اپنے اسلاف کی نشانی بقیدِ حیات ہیں۔ اپنی بیماری کے باعث انھوں نے مدرسے اور کتب خانے کی ذمہ داری اپنے صاحبزادوں احسان اللہ شاہ راشدی اور مولانا انور شاہ راشدی کے سپرد کر رکھی ہے۔
مولانا انور شاہ راشدی ہمارے بہترین دوست اور نہایت فاضل آدمی ہیں۔ اپنے اسلاف کی علمی روایات کے امین و وارث ہیں۔ پورے اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر از حد خوشی ہوئی کہ وہ تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے بھی اپنا مستقل رشتہ استوار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز جلد ہی دنیا ان کی علمی و تحقیقی خدمات سے مستفید ہوگی۔
مولانا انور شاہ کی رہ نمائی میں ہمارا مختصر سا قافلہ چند گھنٹے پیر جھنڈا میں آرام کرنے کے بعد لکھمیرکے لیے روانہ ہوا۔ لکھمیرکے ذکر سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے رفقاء سفر کا مختصر تعارف کروا دوں۔
میرے دیرینہ رفیق جناب حافظ شاہد رفیق فاضل مدینہ یونی ورسٹی عصر حاضر کے بلند پایہ محقق ہیں۔ پرانی کتابوں کی جدید معیاری طباعت کا وسیع تجربہ رکھتے اور تحقیق کے جدید اسالیب کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق سے کئی علمی کتابیں منظر شہود پر آ چکی ہیں۔ ان دنوں نواب صدیق حسن خاں کی تفسیر "ترجمان القرآن” اور "فتاویٰ غزنویہ” کی تحقیق و مراجعت میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یادگارِ سلف حضرت علامہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری کی سوانح حیات نہایت تحقیق سے لکھ رہے ہیں۔
حافظ شاہد کے ساتھ مولانا خبیب احمد اثری فیصل آباد سے تشریف لائے اور پورے سفر میں یہ بھی ہمارے ساتھ رہے۔ اس سے قبل بھی فیصل آباد میں راقم کی اثری صاحب سے ملاقات ہو چکی ہے اس لیے ان سے کوئی اجنبیت نہیں تھی اور اس ملاقات میں تو دوستی کے کچھ منازل بھی طے ہو گئے ہیں۔ مولانا خبیب صاحب عصر حاضر کے جید محدث و مفسر علامہ ارشاد الحق اثری کے تلمیذِ خاص ہیں۔ ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد سے منسلک ہیں اور ان کی جودتِ علم کا اصل میدان حدیث ہے۔ جس میں یہ دادِ تحقیق دے رہے ہیں۔
لکھمیرضلع نواب شاہ میں واقع ہے، تاہم پیر جھنڈا سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ شاید آدھے گھنٹے سے بھی کم کی مسافت میں ہم وہاں بذریعہ کار پہنچ چکے تھے۔ لکھمیرمیں ایک قدیم مسجد دار السلام ہے۔ جہاں کئی نادر قیمتی مخطوطات اور پرانی مطبوعات موجود ہیں۔ جنھیں دیکھنے کا شوق ہمیں وہاں لے گیا۔ لکھمیرمیں ہمارے میزبان مولانا غلام حیدر، اعجاز احمد لکھمیری و دیگر احباب تھے۔ گائوں کے سیدھے سادے مخلص احباب جنھوں نے ہمیں پورا وقت دیا اور ہمارے اکرام میں کوئی کمی نہ کی۔ یہاں ہم نے صحیح بخاری کا ایک نادر مخطوطہ دیکھا جو ۹۵۵ھ کا مکتوبہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی حدیث و فقہ کے کئی مخطوطات نظر سے گزرے۔ یہاں سندھی زبان کے پرانے رسائل و جرائد بھی ہیں۔ جامعہ اسلامیہ کھڈہ (کراچی) کا ترجمان ماہوار جریدہ "الجامعہ” کی ۱۹۲۶ء کی ایک فائل دیکھی۔ ماضی قریب میں عرب کے ایک عالم علامہ عبد العزیز عرب سندھ میں بس گئے تھے۔ ان کے زیر سرپرستی سندھی زبان میں ایک جریدہ "محمدی” نکلتا تھا اس کی بھی کئی جلدیں یہاں محفوظ ہیں۔ سندھی زبان کا مذہبی لٹریچر بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہے۔

 

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.