بے نفع نماز


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی

 حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ایک بہت جامع دعا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے
اللّٰھم انّی اعوذبک من صلوٰۃ لا تنفع ( ابو داود
"اے اللہ ! میں ایسی نماز سے تیری پناہ مانگتا جس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔”
زبان سے لا الہ الاللہ کہنے والا اسلام میں داخل تو ہو جاتا ہے لیکن صرف اتنے سے اقرار سے وہ مسلمان نہیں ہوتا بلکہ اس اقرار کے بعد اس پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں اور ان سے عہدہ برآ ہونا ہی اصل مقصد اسلام ہے۔ اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ مسلمان جو نماز پڑھتا ہے وہ صرف نماز پڑھنے سے ہی مقیم الصلوۃ نہیں بن جاتا بلکہ اس کے پڑھنے سے اس پر بہت سی ذمہ داریاں آ پڑتی ہیں جن کو پورا کرنا اقامت الصلوۃ ہے۔ اگر نمازی اپنی نماز کی ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہ ہو تو محض نماز پڑھ لینا ایسا ہی ہوگا جیسے ایک نو مسلم اپنی زبان سے کلمہ توحید ادا کرلے لیکن اسلام کے اور کسی حکم کی تعمیل نہ کرے۔ نماز کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں وہی اور وہی مقصد صلوٰۃ ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ خود مقصود بالذات نہیں بلکہ وہ ذریعہ و وسیلہ ہے ایک بلند مقصد کا۔ یہ بلند اور اعلیٰ مقصود کیا ہے ؟ اسے مختصر لفظوں میں ’’اخلاقی اقدار کا قیام ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس مقصد کا ذکر یوں کیا ہے
ان الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر
یعنی : "نماز فحشاء اور منکر سے باز رکھتی ہے۔”
خود ہی سوچیے کہ سارے انبیاء صلوۃ پر اتنا زور دیتے رہے تو کیا اس سے مراد یہ تھی کہ چند اوقات میں چند کلمات و حرکات ادا کر کے فراغت حاصل کرلی جائے ؟ اور کیا اللہ کا عدل اسی کا متقاضی ہے کہ جو شخص کچھ کلمات ادا کرتے ہوئے اٹھا بیٹھی کر لیا کرے تو وہ جنت کا مستحق ہو جائے گا، خواہ کچھ بھی کرتا پھرے ؟ اور جو شخص یہ کلمات و حرکات نہ کرے اسے جہنم میں بھیج دیا جائے گا اگرچہ وہ کیسا ہی معقول اور صالح انسان ہی کیوں نہ ہو ؟ اور کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صلوٰۃ کا زندگی اور اس کے بے شمار عملی گوشوں سے کوئی تعلق نہیں یا اخلاق و معاملات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی صاحب عقل ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے گا۔
صلوٰۃ کا لفظ قرآن نے بڑے وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے اور ہم اپنی صلوٰۃ کو اسی وسیع معنی سے بے تعلق نہیں کر سکتے۔ ارشاد ہے
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہٗ وَ تَسْبِیحَہٗ (النور: ۴۱
"کیا تم نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین میں بسنے والے اور پروں کو پھیلائے ہوئے پرندے تسبیح الہٰی کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی صلوۃ اور تسبیح سے واقف ہیں۔”
ظاہر ہے کہ زمین و آسمان کی مخلوقات اور پرندے نہ قبلہ رو ہو کر نیت تحریمہ باندھتے ہیں نہ رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہیں اور نہ ہماری طرح خاص کلمات ادا کرتے ہیں۔ پھر ان کی صلوٰۃ کیا ہوئی ؟ ہر غور و فکر کرنے والا اس سوال کا یہی جواب دے گا کہ ان کی صلوٰۃ اپنے اپنے فرائض حیات یا فرائض وجود کو ادا کرنا ہے۔ ہم اپنی نماز کو اس وسیع معنی سے الگ نہیں کر سکتے۔ ہماری نماذ در اصل ایک تربیتی ادارہ ہے اور پوری اسلامی زندگی کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جن چیزوں کی مشق نماز میں کرائی جاتی ہے وہ صرف نماز میں ہی محدود نہ رہے بلکہ پوری زندگی کے تمام گوشوں میں اسی طرح پھیل جائے کہ ساری زندگی صلوٰۃ بن جائے۔ پوری زندگی کے صلوٰۃ بن جانے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ فرائض حیات بہ احسن وجوہ پورے ہوتے رہیں۔ یہاں بظاہر تو یہ آیت مرقومہ بالا کے مطابق انسان بھی آسمان و زمین کی مخلوقات اور پرندوں کی طرح صلوٰۃ ادا کرتا ہے۔ لیکن دونوں کی صلوٰۃ میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسری مخلوقات کی صلوٰۃ اخلاقی قدروں سے خالی ہوتی ہے اور انسان کو ہر قدم پر اخلاقی قدروں کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے، یوں تو زندگی یا وجود کے فرائض ساری کائنات ادا کرتی ہے لیکن انسان کو جو شئے غیر انسانی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ نہیں کہ انسان قیام و قعود رکوع و سجود کرتا رہے اور دوسری مخلوقات نہیں کرتی بلکہ یہ صرف اخلاقی اقدار ہی ہیں جو دونوں کے درمیان خط امتیاز کھینچتی ہیں۔ کھانا پینا، سر چھپانا، بقائے نسل، بال بچوں کی پرورش، اپنی حفاظت و راحت کی خواہش وغیرہ ساری باتیں انسان اور حیوان میں مشترک ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ حیوان کوئی کام اخلاقی اقدار کی بنیاد پر نہیں کرتا اور انسان کرتا ہے۔ اگر چاہیں تو ان تمام بیان کردہ حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ اقامت صلوٰۃ کا مطلب صرف نماز پڑھنا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ سے اخلاقی اقدار قائم کرنا ہے۔ اگر نماز کے ساتھ اخلاقی قدریں بھی قائم ہوتی رہیں تو وہ بلا شبہ اقامت صلوٰۃ ہے کیونکہ اصل انسانی فرائض حیات پورے ہو رہے ہیں اور اگر خدا نخواستہ ایسا نہیں ہے تو وہ اقامت صلوٰۃ نہیں بلکہ صرف نماز پڑھنا ہے جو کلمات اور حرکات کا مجموعہ ہے اور بس۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اور زندگی کے ہر گوشہ میں صلوٰۃ جو نتیجہ پیدا کرتی ہے وہی اس کا ثمرہ اور وہی اس کا نفع ہے۔ پیش نظر حدیث مبارک میں حضور ﷺ نے جس قسم کی صلوٰۃ سے اللہ کی پناہ مانگی ہے وہ وہی صلوٰۃ ہے جو بے نفع اور بے نتیجہ ہو۔ یعنی جس سے اخلاقی قدروں کے قیام میں کوئی نتیجہ خیز مدد نہ ملے۔ ایسے بے نفع نمازی مصلی تو ہوتے ہیں لیکن مقیم الصلوٰۃ نہیں ہوتے وہ ایسے ہی مصلی ہیں جن کے لیے فویل للمصلین (ایسے مصلیوں کے لیے بربادی) آیا ہے۔
جب کسی چیز کی ارتقائی حرکت رک جائے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ شئے اپنے مقام پر تھمی اور جمی رہے بلکہ اس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ اس میں تنزلی اور گراوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اگر صلوٰۃ کا نفع رک جائے تو فقط اتنا ہی نہیں ہو گا کہ وہ بے نفع رہے گی بلکہ اس کا رد عمل یہ ہوگا کہ وہ رفتہ رفتہ مضر ت کی طرف رجوع کرنا شروع کر دے گی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ جو صلوٰۃ نفع رساں تھی وہ مضرت رساں بن جائے گی۔ یہی وہ مقام ہے جس کے لیے فویل للمصلین ارشاد ہوا۔ یعنی وہ نمازی تو رہتا ہے لیکن وہ نماز اس کے لیے باعث برکت ہونے کی بجائے سببِ لعنت بن جاتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر ایک صحت مند معدے والا آدمی کھانا کھائے تو وہ اسے ہضم کر کے خون صالح اور توانائی پیدا کرتا ہے لیکن اگر معدہ اپنا کام چھوڑ دے تو فقط اتنا نہیں ہوگا کہ وہ کھانا کھاتا رہے گا بلکہ اس کے بعد دوسرا ردّ عمل شروع ہو جائے گا یعنی وہ کھانا سوئے ہضم اور امراض پیدا کرنا شروع کر دے گا۔ گویا پہلا اسٹیج ہی بے نفع ہوا اور اس کا دوسرا لازمی زینہ ہے اس کا مضرہونا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پہلے اسٹیج ہی سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ فرمایا کہ اللّٰھم انی اعوذبک من صلوٰۃ لا تنفع ( الٰہی میں نماز بے نفع سے تیری پناہ مانگتا ہوں)۔ یہ بے نفعی آخرکار مضرتوں کی طرف اپنا رخ پھیر لیتی ہے اور جو کچھ پہلے صرف نفع تھا وہ آخر میں مضر ہو جاتا ہے اور پھر اس کا معکوس ارتقا مضرت اور صرف مضرت ہی کی طرف ہو جاتا ہے۔ پس جس شخص کی صلوٰۃ کے نفع و ضرر کا اندازہ کرنا ہو اس کی اخلاقی زندگی ہی کو دیکھ کر صحیح رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی نمازوں کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اس کا رخ کس طرف ہے اللّٰھم انّی اعوذبک من صلوۃ لا تنفع۔آمین۔

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.