الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ
از قلم : ابو عمار سلیم
۔ 2018ء کی آمد سے قبل ہی پاکستان ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہو گیا ہے اور یہ تصویر روز بروز زیادہ پراگندہ ہوتی اور خرابی کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ یہ مملکت جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اپنے قیام کے فوراً بعد ہی اور سب کچھ ہو گئی اسلامی نہ رہی۔ گو کہ بہت ساری غیر اسلامی طاقتیں اس کو تہہ تیغ کرنے میں پہلے روز سے ہی سازشوں میں مصروف رہی ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم پاکستانیوں نے بھی دل کھول کر ان کی تمام سازشوں میں ان دشمنوں کا پورا پورا ساتھ دیا۔ شروع دنوں میںہی بنیادی ریاستی اصولوں کی اور مقاصد ملّی کی جو راہ متعین کرلینی چاہیے تھی وہ پوری نہ ہوئی اور مختلف قسم کی سازشوں اور باہمی چپقلشوں کا شکار ہوگئی۔ نتیجہ کے طور پر ہم افراتفری اور جھگڑوں میں پھنس گئے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے لیے نہ تو اسلامی قوانین بنا سکے نہ قرارداد مقاصد جیسی کسی چیز پر متفق ہو سکے۔ شروع دن سے ہی یوں لگتا تھا کہ قوم کو بھی اس قسم کے کسی اقدام کی اہمیت کا احساس نہیں ہوا۔ اس قوم نے نہ تو اپنے لیے کوئی راستہ چنا نہ اپنی ضروریات کے مطابق کسی قسم کے پلان کو بنانے کی طرف توجہ دی کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ہم کیا کریں گے۔ آدھا ملک گنوا دیا اور اس قسم کے مزید حادثات کے سدباب کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ اگر ہم تاریخ امم پر نظر ڈالیں تو انہی دو تین صدیوں کے اندر ہمیں دنیا میں بے تحاشا اقوام نظر آئیں گی جنہوں نے ظلم اور استبداد سے نجات حاصل کی اور اپنی خود مختاری حاصل کی اور اپنے لیے ایک لائحہ عمل متعین کیا، قومی امنگوں کو سمجھا اور ان کے لیے راستے میں حائل تمام دشواریوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے، قوانین کو ڈھالا اور اپنا قومی تشخص درست کیا۔ ان میں سب سے بہتر اور درخشاں قوم امریکی نظر آتی ہے۔ ان کی تحریک آزادی کے تمام راہنما ئوں نے اپنے ہر قسم کے اختلافات کو بھلا کر ملک کی بہتری اور فلاح کے لیے متحد ہو کر آپس میں بیٹھ کر ایک راہ متعین کی اور پوری ایمانداری کے ساتھ اس پر گامزن ہوگئے اور آج دنیا پر ان ہی کی حکومت ہے۔ امریکہ کے علاوہ چین، کوریا، اسرائیل وغیرہ وہ ممالک ہیں جو آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اور ایک جداگانہ تشخص کے ساتھ پوری دنیا میں نمایاں ہیں۔ ان کے سامنے پوری قومی زندگی کا ایک مقصد ہے۔ ملک کے اندر بھلائی اور فلاح کے لیے بھی اور بین الممالک تعلقات کے لیے بھی ایک ایجنڈا ہے۔ اپنی تجارتی اور دفاعی ضروریات کے لیے بھی ان کے پاس ایک روڈ میپ موجود ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ ملک کے اندر کے معاملات کے لیے ان کے پاس ہر ایک شعبہ کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا ہوا ہے اور وہ اس کو بہتر سے بہتر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کی ضروریات کا پورا لحاظ کیا جاتا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کے پلان پر عمل در آمد ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہمارے پاکستان میں ہر طرف جوتیوں میں دال بٹتی نظر آ رہی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں معاشرہ کے مختلف طبقوں میں ہمیشہ سے ہی کوئی نہ کوئی اختلاف موجود رہا ہے۔ یہ اختلافات کبھی انتہائی شدید بھی ہو گئے اور کبھی بہت قتل و غارتگری بھی ان کی وجہ سے ہوئی۔ امریکہ کی مثال سامنے رکھیں تو دیکھیں کہ اپنی آزادی کے قریب ایک سو سال بعد ان کے یہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ بڑے شدید اختلافات سامنے آئے بڑا خون خرابہ ہوا مگر وقت کے لیڈروں نے مملکت کی بھلائی کے لیے افہام و تفہیم کے ذریعہ سے ایک راستہ چن لیا اور اس پر پورے اخلاص کے ساتھ چل پڑے۔ دیگر ممالک میں بھی اس طرح کے اختلافات ہوتے رہتے ہیں مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے ملک آپس میں بیٹھ کر اپنا راستہ نکال لیتے ہیں اور ہر قسم کے بحران سے باہر نکل آتے ہیں۔ مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے ساتھ ہی کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم ایک عجیب سی افرا تفری کا شکار ہیں۔ نہ تو ہماری حکومتوں کے پاس ملک چلانے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی پلان ہوتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے پاس ایسا کوئی ہوم ورک کیا ہوا ہوتا ہے جو حکومت چلانے میں ممد و معاون ہو۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہمارے پاس نہ تو کوئی مستحکم خارجہ پالیسی ہے نہ داخلی پالیسی۔ نہ تو ہم کوئی سود مند و قابل قبول تجارتی پالیسیاں بنا سکے اور نہ ہی قوم و ملک کی بھلائی کے کوئی فلاحی کام کرسکے۔ اس قسم کی ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ ہم پاکستانی خود اپنے آپ اور اپنی آنے والی نسل کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ وہ ممالک جنہوں نے ہمارے قریب قریب زمانہ میں آزادی حاصل کی وہ آج نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، ان کی معیشت مضبوط ہے بلکہ دوسروں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کو مالی امداد کے علاوہ فنی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کے پاس ایک پلندہ کاغذوں کا ان کے منشور کے نام سے موجود ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کاغذات میں نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل کی نشاندہی ہے۔ اور تو اور ان پارٹیوں کے پاس تو وہ ماہر لوگ بھی موجود نہیں جو معیشت، تجارت، مالیات، فنون اور تعلیم وغیرہ کی وزارتیں چلانے کے اہل ہوں۔ بلکہ تقریباً تمام کی تمام پارٹیوں میں اجڈ وڈیروں اور اکھڑ ملکوں، چودھریوں، سرداروں کی بھر مار ہے جن کی پبلک مقامات پر حرکتیں دیکھ کر دیکھنے والوں کی گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ نعرہ ہوتا ہے کہ روٹی کپڑا مکان دینگے مگر کیسے دیں گے اس کے لیے ان کے پاس کوئی تجاویز نہیں۔ غریبوں اور ہاریوں کسانوں کی بھلائی کے دعوے تو بے شمار ہیں مگر بہتری کیسے آئے گی یہ نہ تو پارٹی کے لیڈر کو معلوم ہے اور نہ ہی ان کرتا دھرتا اشخاص کو۔ عوام کو بے وقوف بنانا، ان کے جذبات کو ہوا دینا اور بھڑکانا، ہڑتالیں کروانا، دھرنے دے کر معیشت کے راستے میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دینا انھیں آتا ہے مگر ملک و قوم کی بہتری اور بہبود کی خاطر اپنے مفادات کو ترک کر دینا یا افہام و تفہیم سے کام لینا نہیں آتا۔ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو یہ نظر آئے گا کہ ایک ایٹم بم بنانے کے علاوہ ہم نے قومی سطح پر کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ ۷۰ برس گذار دیے اور دنیا کے ممالک کی نظروں میں ہم آج بھی بھیک منگے ہی ہیں۔ کشکول اٹھاکر در بدر مارے پھرنا اور جو کچھ اس کشکول میں آ جائے اسے اپنے بینک اکائونٹ میں منتقل کرنے سے آگے کچھ نہیں آتا۔ یہ باتیں ہیں تو بہت تلخ مگر ہیں سچ۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا مگر ایسا ہی ہوا ہے۔ جب ہی تو ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ ہر ایک آنکھیں دکھا رہا ہے دھمکیاں دے رہا ہے جیسے ہم تر نوالہ ہیں اور ہمیں آسانی سے نگل لیا جائے گا۔
موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو ایسا لگ رہا ہے جیسے پاکستان کا تعارف یہ ہے کہ یہ ایک دہشت گرد ملک ہے جو دہشت گردوں کی آب یا ری کر رہا ہے، ان کو پناہ دیتا ہے، ان کی تربیت کرتا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں ان کو بھیج کر دہشت گردی کرواتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو پاکستان بذات خود دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ملک ہے۔ بھانت بھانت قسم کے دہشت گرد اس ملک میں آکر چھپے ہوئے ہیں اور آئے دن اپنی تخریبی سرگرمیوں سے پاکستان کا سکون تباہ کیا ہوا ہے۔ کئی عشرے گذر گئے کہ جگہ جگہ دھماکے ہو رہے ہیں۔ ہر شہر میں دھماکے کیے گئے۔ پہلے پہل عوام کے ہجوم اور بازاروں میں دھماکے کیے گئے، پھر مذہبی اجتماعات پر دھماکے کرائے گئے۔ اب دھماکوں کا رخ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج و پولیس کی شخصیات کی طرف ہو گیا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے نام نہاد سیاسی پارٹیوں نے اور ملک کے حکمراں جماعتوں نے کسی وقت بھی ان معاملات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ ایک اکیلی پاکستان کی فوج ہے جو خود اس بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالے بیٹھی ہے اور جو تھوڑی بہت بہتری ہے وہ انہی کی قربانیوں اور کوشش کا ثمرہ ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ایک قومی یکجہتی پالیسی ہوتی جس کے تحت تمام ادارے اور لیڈران مل کر کام کرتے اور ملک کو اس دلدل سے نکال لیا جاتا۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو اس وقت کا سب سے بڑا معاملہ امریکہ کی دھمکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے اور اس دھمکی پر فوری عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان کی امداد روک دی گئی ہے، پاکستان کے ساتھ تمام دفاعی معاہدے معطل کر دیئے گئے ہیں، پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کی نگہداشت والے ملک میں شامل کر دیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں یہ پابندیاں آئے دن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں جن کا اختتام خاکم بدہن پاکستان کے اوپر امریکی افواج کا اپنے حمایتیوں کے ساتھ حملہ نظر آ رہا ہے۔ نا اہل حکومت اور بغیر فکر و نظر والے وزراء اور سربراہ مملکت کو یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان الزامات کا جواب کیسے دیا جائے۔ ٹوٹا پھوٹا سا بے اثر بیان وزیر دفاع کی طرف سے آیا تو ہے جو پھسپھسا بھی ہے اور بودا بھی ہے۔ ہماری افواج نے البتہ ایک دبنگ بیان دیا ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی دھمکیوں کے جو اثرات آنے والے ہیں ان کے اوپر پہلے سے ہی غور کیا جائے اور ان کے اثرات کا سدباب کیا جائے۔ ہم نے کہہ تو دیا ہے کہ ہمیں امداد نہیں چاہیے مگر یہ نہیں سوچا ہے کہ امداد بند ہو جائے گی تو کیا ہوگا۔ اس وقت جو طوفان اٹھے گا اس کے لیے اب تک تو حکومت کو خود بھی تیار ہو جانا چاہیے تھا اور عوام کو بھی تیار کر لینا چاہیے تھا۔ یہ حق ہے کہ ان غیر ملکی امدادوں نے بلکہ یوں کہیں کہ بھیک نے پاکستانی قوم کی خود داری کو مجروح کیا ہے بلکہ ہماری ترقی کی راہیں بھی روک دی ہیں۔ حکومت صرف وہ راستے تلاش کر رہی ہے جس کے ذریعہ مزید امداد مل جائے، یا پھر کسی طور کچھ قرضہ اور مل جائے۔ امریکہ امداد نہیں دے رہا ہے تو چین دے دے اور آئی ایم ایف تو ہے ہی جو اپنی من مانی شرطوں پر قرضہ دے دے گا اور عوام کا خون چوس لیا جائے گا۔
امریکی دھمکی کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس کا تانا بانا اسرائیل اور قادیانیوں سے جا کر ملتا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ اسرائیل کو ہم سے کیسی دشمنی ہے۔ اگر اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان کا بیان دیکھیں جو اس نے اسرائیل کے ایوان میں دیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ اسرائیل کو کسی عرب یا اسلامی ملک سے کوئی خطرہ نہیں ہے سوائے پاکستان کے۔ کیونکہ پاکستانی یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور عربوں اور اسلامی مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیں گے اس لیے اس نے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست کیا جائے۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے قادیانیوں کو اپنے یہاں پناہ دی اور آج ان کا ہیڈ کوارٹر اسرائیل میں قائم ہے اور پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے کی کاروائیاں بھی ہو رہی ہیں اور پلان بھی تیار ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امریکہ دیکھنے میں تو اسرائیل کا مربی و مددگار نظر آتا ہے مگر دراصل امریکہ کی حکومت، اس کی فوج، اس کے سیاست دان سب کے سب اسرائیل کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی قادیانی ہمدردی اور پاکستان دشمنی کی بنا پر تین چار ماہ قبل امریکہ کی ایک فوجی تنظیم نے پاکستان کو یہ حکم دیاتھا کہ قادیانیوں کو مسلمان مانا جائے اور ان کو پاکستان کی آئین جس کی رو سے اقلیت قرار دیا گیا ہے، آئین کی وہ شق بدل ڈالی جائے۔ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ بے غیرت اور قومی و مذہبی حمیت سے محروم پاکستانی حکومت نے اس حکم کو قبول کر لیا۔ اس کے اولین اقدام کے طور پر الیکشن کے حلف نامے میں تبدیلی کرنے کے احکامات جاری ہو گئے۔ ایک کٹھ پتلی وزیر نے قادیانی ٹی وی کو اپنے انٹرویو میں وا شگاف اعلان فرمایا کہ ہم پاکستان میں قادیانیوں کو ان کا حق دلائیں گے اور آئین کی شق میں ترمیم کروائیں گے۔ وہ تو شکر ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں ایسے غیرت مند اور حضور ﷺ کے جان نثار علماء اور عوام موجود ہیں جنہوں نے اس حکومتی اقدام کے خلاف بہت پر زور احتجاج کیا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ جب قادیانیوں کی یہ چال کامیاب ہوتی نظر نہیں آئی تو انہوں نے اسرائیلی سرپرستی کو مزید بھڑکایا اور ان کے ذریعہ سے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف بیان دے۔ امریکی صدر کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں ہے کہ اس نے اپنی ناسمجھی میں ایسا بیان دیا ہے۔ وہ ایک شاطر انسان ہے جس کا مقصد صرف اپنی دولت بڑھانا اور اپنی ہوس کی پیاس بجھانا ہے۔ اپنی حرکات و سکنات یعنی Body Language
سے وہ ایک بے انتہا کینہ پرور اور اذیت پسند انسان نظر آتا ہے۔ وہ اس دھمکی پر بس نہیں کرے گا بلکہ اپنی انا اور ذہنی پراگندگی کی وجہ سے وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائے گا اور پاکستان کے اوپر پورا دبائو ڈالے گا اور اس نے ضرورت محسوس کی تو عین ممکن ہے کہ پاکستان پر ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر حملہ بھی کر دے۔ گو کہ امریکہ میں ہی ٹرمپ کے اس بیان پر کافی رد عمل ہوا ہے اور وہاں کے سیاسی شخصیتوں اور صحافیوں نے اس بیان کے خلاف بڑی آواز اٹھائی ہے اور حکومت کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی ناراضگی سے خود امریکہ کو نقصان ہوگا اور افغانستان میں موجود امریکی فوج کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور امریکہ کے مفادات پر منفی اثرات پڑنے کے علاوہ امریکہ ایک پرانے ساتھی سے محروم ہو جائے گا۔
حالات حاظرہ کے جن پہلوئوں کو اوپر بیان کیا گیا ان کے پیشِ نظر ایسی سنگین صورت حال کے ہوتے ہوئے ہمارے سیاستدان اور حکمران کیا کر رہے ہیں ۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ یہ موقع ایسا تھا جب قوم کے ہر فرد کو متحد ہو جانا چاہیے تھا۔ ایک آگ تھی جو قومی غیرت و حمیت کی لگ جانی چاہیے تھی۔ مگر ہو کیا رہا ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کے اوپر الزامات کی بھرمار کیے جا رہے ہیں۔ اہل اور نا اہل کی لڑائی ہو رہی ہے۔ امانت دار اور خائن کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ مجھے کیوں نکالا اور اس کو کیوں چھوڑ دیا کا ہنگامہ برپا کیا جا رہاہے۔ مزید دھرنوں اور ہڑتالوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کون کون چور ہے اور کون بے ایمان ہے کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ملک پر اتنی بڑی مشکل گھڑی آئی ہوئی ہے مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ کسی جگہ بھی اتحاد اور ایک جان ہونے کی کوئی آواز نہیں اٹھی۔ ہیہات ہیہات۔ کیا یہ ویسا ہی معاملہ نہیں جب اسلامی سلطنت پر تاتاریوں کا حملہ ہو رہا تھا اور اس وقت کے علماء ایک دوسرے کو کافر اور بے دین ثابت کرنے پر جھگڑا کر رہے تھے۔ آج ان علماء کی جگہ ہمارے موجودہ سیاستدانوں نے لے لی ہے۔ یہ احساس کسی کو نہیں ہے کہ اللہ نہ کرے پاکستان کی سالمیت ہی باقی نہ رہے گی تو یہ جھگڑے کس کام کے ہوں گے۔ عوام تو لگتا ہے کہ بے شعور ہے اسے کسی سود و زیاں کا کوئی ادراک ہے نہ یہ احساس ہے کہ ہماری سالمیت پر کیسے حملے ہونے والے ہیں۔ ہمیں نہ تو اسلام سے کوئی محبت ہے نہ پاکستان کی کوئی فکر ہے۔ عوام اپنے ذاتی دکھ اور غربت کے ہاتھوں مفلوج ہوئی ہے۔ پٹرول کی مہنگائی اور بازار میں قیمتوں کی چڑھان نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کو اپنی روٹی اور ضروریات زندگی سے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ اگر کچھ پڑھے اور سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہیں بھی تو ان میں سے اکثریت اس بات پر پریشان ہیں کہ امریکی امداد بند ہو جائے گی تو زندگی اور سخت ہو جائے گی۔ حکومت کی سطح پر کوئی سخت اقدام نہ ہونے کی بنا پر نظر آ رہا ہے کہ یہ کسی طرح سے امریکہ کو راضی کرلے تاکہ امداد جاری ہو جائے خواہ اس کے لیے کچھ قومی غیرت و حمیت کو قربان کرنا پڑے۔ فوج نے البتہ دو ٹوک بیان دیا ہے کہ پاکستان کو کسی امریکی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنی غیرت کے بدلے امداد نہیں چاہتے۔ برابری کی بنیاد پر اور عزت کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر کیا پاک فوج کا یہ بیان امریکیوں کو روکنے میں معاون ہو گا ؟ یہ ایک عظیم سوال ہے جس کا جواب حکومت وقت کو دینا چاہیے۔
آئیے ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ پاکستان اپنے قدرتی وسائل اور بے پناہ ہنر مند افرادی طاقت کے باوجود آج تک افرا تفری میں کیوں مبتلا ہے۔ ہمارا شمار دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور غریب ملکوں میں کیوں ہوتا ہے۔ ہم کیوں دنیا بھر کے بے ایمانوں اور رشوت خوروں، دھوکہ دہی کرنے والوں میں ایک بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری صنعت آگے بڑھنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔ ہمارا فیصل آباد دنیابھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ایک اونچا مقام رکھتا تھا اور دوسرا مانچسٹر کہلاتا تھا، آج ایک پژمردہ اور بے کسی کا شکار شہر میں تبدیل ہو گیا۔ اس کی تمام صنعتی ترقی رک گئی اور بنگلہ دیش منتقل ہو گئی۔ ہماری قومی ائر لائین پی آئی اے دنیا کی دوسری یا تیسری بہترین ہوائی کمپنی سے گر کر بد حال ترین ادارے میں تبدیل ہو گئی کہ حکومت اس کو پرائیویٹ اداروں کو فروخت کرنا چاہ رہی ہے۔
Green Tail
کا جو افتخار تھا اس کو آج خود پاکستانی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اسٹیل مل کو کون سے گھن لگ گئے جو آج فالج زدہ ہو کر حکومت کے اوپر ایک معاشی بوجھ بنی بیٹھی ہے۔ یہ تو صرف دو تین مثالیں ہیں۔ باریک بین حضرات یقیناً ان سے کہیں زیادہ اداروں اور معاملات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ نا اہلی اور نا کارکردگی کا راز کیا ہے۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ میرے جیسے سفید سروں والے حضرات جو پاکستان کے بننے کے فوراً بعد یا کچھ آگے پیچھے پیدا ہوئے، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آج تک پاکستان کو چلایا یا اس کا تشخص بنایا یا یوں کہیں کہ اس کو بگاڑ کے راستے پر ڈالا۔ یہ نسل پچھلے ستر برسوں سے پاکستان پر حاوی رہی اور اپنے آباو اجداد کی قربانیوں سے حاصل کیے ہوئے ملک کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ کامیابیوں اور ترقیوں کے جا بجا حوالے ملتے ہیں مگر رشوت ستانی، اقربا پروری، غلط فیصلوں، ناکام پالیسیوں کی کہانی اتنی طویل ہے کہ چھوٹی موٹی کامیابی کسی شمار میں ہی نہیں آتی ہیں۔آج ایک دانشور کی تقریر سنی، وہ مثال دے رہے تھے کہ ہمارا تو اب یہ حال ہے کہ لوگ جب مقدمہ میں الجھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وکیل کرنے کی بجائے جج ہی کرلو۔ عدلیہ کا تقدس اپنی جگہ مگر عوام الناس میں جو بات پھیلی ہوئی ہے اس میں آخر کچھ نہ کچھ تو ہے، یا نہیں ؟ ہم لوگ بات بات میں کہتے ہیں کہ فلاں جگہ میری فائل پھنسی ہوئی ہے کام نہیں ہو رہا ہے تو مشورہ دیا جاتا ہے کہ فائل میں پہیے لگا دو کام ہو جائے گا۔ ہمارا معاشرہ فی الوقت ایک بگڑا ہوا غیر اسلامی معاشرہ ہے جس میں سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف اپنے مذہب سے دوری اور اس کی اعلیٰ تعلیم سے بے رخی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم صرف اپنی ذات تک محدود رہے اور اپنی ذاتی مفاد کی خاطر ہم نے اپنی غیرت اور حمیت تک کو بیچ دیا۔ نہ تو معاشرہ میں اقدار کی تقدیس کو بحال کیا، نہ اپنے بچوں کی تربیت مہذب معاشروں اور اسلامی اصولوں اور اقداروں پر کی، نہ اپنے گردا گرد کے ماحول کو پاک و صاف رکھا، اور نہ غیر اخلاقی چیزوں کو اپنے گھروں میں داخل ہونے سے روکا۔ جھوٹی انا اور جھوٹی آن بان کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا اور وہ تمام چیزیں جو معاشرہ کو بنانے میں کردار ادا کر سکتی تھیں انھیں نظر انداز کرتے چلے گئے۔ ہر وہ غلط کام جس کے سامنے ہمیں ہمارا دین بند باندھنے کا حکم دیتا ہے ہم نے اس کو روکنے کی بجائے اپنا لیا اور آج ہمارے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اس معاشرہ سے رشوت کو کیسے ختم کریں۔ سود کی لعنت کے بارے میں تو یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ تو ہماری معیشت سے نکل ہی نہیں سکتا۔ حکومتی سرپرستی میں سودی کاروبار نہ صرف انتہائی زور و شور سے جاری ہے بلکہ شاید ممکن ہو تو اس کی شرعی ممانعت کو بھی ختم کر دیا جائے۔ فحاشی اور عریانی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے نظر آ رہا ہے مغرب کا مادر پدر آزاد معاشرہ بھی ہم سے پیچھے رہ جائے گا۔ شادی بیاہ کی رسموں میں جو خرافات داخل ہو گئی ہیں ان میں کمی ہونے کی بجائے اس میں روز بروز ایک نیا اضافہ ہو رہا ہے۔جب اپنے بچوں کو حرام کھلائیں گے تو حرام ہی پھلے پھولے گا اور ان میں بھی حرام خوری ہی ودیعت ہوگی۔
وقت کی اہم ترین ضرورت آج یہ ہے کہ اس کشکول سے نجات حاصل کریں جس نے ہمیں اقوام جہاں میں بے عزت اور بے غیرت قرار دیا ہے۔ اے دنیا کے امیر لوگو ! اللہ کے واسطے ہماری امداد بند کر دو اور ہمیں بھوکا مرنے دو۔ جب بلا کسب کے مال ملنا بند ہو جائے گا تو شاید ہم اپنی روٹی کمانے کے لیے اپنا ہاتھ پیر ہلائیں گے اور اپنی بہتری، فلاح و بہبود کے لیے کچھ سوچیں گے۔ اپنی گندم اور دیگر غلہ اگائیں گے۔ اپنی معیشت اور صنعت کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ کے آگے جھکیں گے اپنے معاملات کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلانے کی کوشش کریں گے۔ پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملے گی تو بے شک نہ ملے مگر عزت کی روکھی سوکھی روٹی ہمیں دنیا والوں کی نظروں میں سرخرو تو کر دے گی۔ سودی لین دین نے ہماری کل معیشت کو حرام پر لگا دیا ہے۔ ہماری ہر چیز میں حرام داخل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے تمام معاملات شیطانی راستے پر چل رہے ہیں۔ہم اگر ایک مرتبہ سود سے نجات حاصل کرنے کا سوچ لیں تو میرا ایمان ہے کہ اللہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے لیے راستے آسان کر دیں گے۔ بس ایک جذبہ اور کچھ اخلاص کی ضرورت ہے۔
ہمارے علماء اور پڑھے لکھے طبقے کو چاہیے کہ سامنے آئیں اور عوام میں غیرت و حمیت کی روح پھونکیں۔ عوام کو تیار کریں کہ ہمیں سختی جھیلنی ہے، بھوکا رہنا منظور ہے مگر اپنی عزت اور قومی حمیت کے عوض نہ امداد چاہیے نہ روٹی۔ جب ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم گھاس کھا کر زندہ رہ لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے راستے بھی آسان کر دیئے اور اسباب پیدا کر دیئے کہ ہم بڑی مصیبت جھیلے بغیر اور گھاس کھائے بغیر ہی ایٹمی ممالک کی صف میں آ کھڑے ہوئے اور دشمنوں نظروں کو ہمیشہ کے لیے جھکا دیا۔
پاکستان اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے یہ ہماری بقا کا یا تباہی کا دوراہا ہے۔ اگر ہمیں اپنی آزادی برقرار رکھنی ہے اور اقوام عالم کی نظروں میں عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو ہمیں ہرصورت میں اپنا بھیک مانگنے والوں کا تشخص توڑنا ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم بھیک بھی مانگتے رہیں، ہاتھ پھیلائے رکھیں اور یہ امید بھی کریں کہ لوگ ہماری عزت کریں گے اور ہمارے ساتھ برابری کا برتائو بھی کریں گے۔ پاکستانیو ! کسی بھول میں نہ رہنا۔ دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کی آج کل عزت صرف اس وقت کرتا ہے جب اسے معلوم ہو کہ سامنے والا بھی تگڑا ہے اور میری ہر بات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہماری جو تصویر اس وقت دنیا کے سامنے ہے وہ ایک کمزور اور بے حیثیت قوم کی ہے جو دہشت گرد بھی ہے اور دنیا جہاں کے عیوب سے بہرہ ور ہے۔ ہم اس تشخص کے ساتھ اپنے لیے کسی کی آنکھ میں عزت کی لو نہیں جلا سکتے۔ ہم کسی کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بھی نہ ہوں گے اور ہم کمزور نظر آئیں گے تو لوگ ہمیں تر نوالہ سمجھ کر چٹ کر جائیں گے۔ اب اس قوم کو یہ سوچنا ہے کہ ہم کیا کریں۔ کیا ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک ہو جائیں، اپنا کشکول توڑ دیں اور سینہ ٹھوک کر تمام دشمنوں کے سامنے ڈٹ جائیں ؟ یا دوسری صورت میں اپنی عزت، غیرت، حمیت سب کچھ بیچ دیں اور ان کی تمام زیادتیوں اور تحقیر کو برداشت کرلیں اور ہمیشہ کے لیے اقوام عالم کی نظروں میں ایک حقیر قوم کی طرح زندہ رہیں۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔