مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کا خاندان


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : عبید اللہ لطیف، فیصل آباد

جب بر صغیر پاک و ہند میں صلیبی انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں داخل ہو کر ایک سازش کے ذریعے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کو ختم کر کے نا جائز طور پر قبضہ کر لیا تو اس قبضہ کے خلاف مسلمانوں کے ایک طبقے نے انگریزوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر دیا۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں میں سے جہادی جذبے کو ختم کرنے کے لیے صلیبیوں کو ایک ایسے ایجنٹ کی ضرورت تھی جو صلیبیوں کی حمایت اور مسلمانوں کے عقائد میں بگاڑ پید ا کر کے حکومت برطانیہ کے خلاف کی جانے والی جہادی تگ و تاز کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس مقصد کے لیے صلیبی انگریزوں کی نظر کرم ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں مقیم ایک شاطر شخص مرزا غلام احمد قادیانی پر ٹھہری۔ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف ادیب اور خطیب آغا شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ
’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میں برطانوی عمال کی ان یادداشتوں کا جائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کے لیے ۱۸۶۹ء کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتا چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سلب کر کے انھیں کس طرح رام کیا جا سکتا ہے۔ اس وفد نے واپس جا کر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نے

The Arrival of British Empire in India

(ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ) کے عنوان سے رپورٹ لکھی انھوں نے لکھا:-
’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹ

Apostolic Prophet

(حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میںپروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘(تلخیصات)
مرزا غلام احمد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء) ملازم تھا۔ آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ آپ کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندرون خانہ بات چیت کرتے۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا۔ اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آ گئے۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا، ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔‘‘ (تحریک ختم نبوت، ص ۲۲، ۲۳ مؤلفہ آغاشورش کاشمیری)
آئیے اب آپ کو مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے خاندان کے بارے میں مرزا قادیانی ہی کی زبانی آگاہ کرتا چلوںکہ وہ کون تھا ؟ اور اس نے کس طرح اسلامی عقائد میں بگاڑ پیدا کرنے اور امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی ؟۔
بقول مرزا غلام احمد قادیانی وہ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر میں چراغ بی بی کے بطن سے پیدا ہوا۔ (بحوالہ کتاب البریہ، ص ۱۵۵، مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ص ۱۷۷)
’’مرزاغلام مرتضیٰ کے پانچ بچے تھے۔ سب سے بڑی بیٹی مراد بی بی اس سے چھوٹا غلام قادر، اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا جو جلد فوت ہو گیا۔ اس سے چھوٹی ایک لڑکی جو مرزا کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی۔‘‘ (بحوالہ حیات طیبہ از شیخ عبدالقادر قادیانی، ص ۹)
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ احمدیت میں مرزاغلام احمد قادیانی کا جو شجرہ نسب دیا گیا ہے اس کے مطابق وہ تین بھائی تھے۔
1 مرزاغلام احمد قادیانی
2 مرزا غلام قادر
3 مرزا عبد القادر
سیرت المہدی کے پہلے ایڈیشن میں بھی تاریخ احمدیت کے حوالے سے ان تینوں بھائیوںکا ہی ذکر کیا گیا ہے لیکن دوسرے ایڈیشن میں مرزا عبد القادر کو اس کے بھائیوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ۔
مرزا غلام احمد قادیانی اپنی ابتدائی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے خود رقم طراز ہے:-
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں معلم میری تربیت کے واسطے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا ۔۔۔۔۔ میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اوربعداس کے جب میںسترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گلی علی شاہ تھا اور ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میںپڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان میں آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘ (کتاب البریہ ، حاشیہ ص ۱۶۳، مندرجہ روحانی خزائن، ج ۱۳ ص ۱۷۹ تا ۱۸۱)
محترم قارئین! ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی اپنے ایک استاد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
ـ’’ہمارے استادایک شیعہ تھے گل علی شاہ ان کا نام تھا کبھی نماز نہ پڑھا کرتے تھے منہ تک نہ دھوتے تھے۔‘‘ (ملفوظات مرزاقادیانی جلد اول، ص ۳۸۵ طبع چہارم )
محترم قارئین ! اب آپ خود اندازہ لگائیں جس شخص کے استاد ایسے کردارکے حامل ہوں گے اس کی تربیت کیسی ہو گی ؟
ایک طرف تو مرزا غلام احمد قادیانی اپنے اساتذہ کا تذکرہ کر رہا ہے تودوسری طرف حلفیہ بیان دیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ آنے والا علم دین خداسے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا سو میں حلفًا کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔‘‘ (ایام الصلح، صفحہ ۱۶۸، مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۴، صفحہ ۳۹۴)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے ابتداء میں آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرنے شروع کیے جن کے نتیجے میں مرزا قادیانی کو عام مسلمانوں میں شہرت ملنا شروع ہوئی۔ ان مناظروں اور مباحثوں کا مقصد اسلام کی حقانیت کو واضح کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی خود رقم طراز ہے کہ
’’ میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریر یںشائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بد نیتی سے عاشق تھا اور با ایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا۔ تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ، ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بد زبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یکد فعہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میںآیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں سے اول درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اول درجہ کا بنا دیا ہے۔ (1) والد مرحوم کے اثر نے (2) اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے (3) خدا تعالیٰ کے الہام نے۔ اب میں اس گورنمنٹ کے زیر سایہ ہر طرح خوش ہوں۔‘‘ (تریاق القلوب ص : ب، ج مندرجہ روحانی خزائن ج ۱۵ ص ۴۹۰، ۴۹۱)
محترم قارئین ! یہ تو تھا مرزا قادیانی کے مناظروں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھنے کا مقصد۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو جب ان مناظروں اور مباحثوں کی وجہ سے شہرت ملی تو مرزا غلام احمد قادیانی نے پچاس جلدوں پر مبنی ایک کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے شائع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس میں اسلام کی حقانیت کے لیے تین سو دلائل پیش کیے جائیں گے اور اسی سلسلہ میں لوگوں سے چندے کی اپیل کی۔ لوگوں نے بھرپور چندہ دیا۔ چنانچہ مرزا نے ۱۸۸۰ء میں براہین احمدیہ کا پہلا اور دوسرا حصہ ۱۸۸۳ء میں تیسرا اور ۱۸۸۴ء میں چوتھا حصہ شائع کیا۔(بحوالہ روحانی خزائن، ج ۱، ص ۱)
ان کتابوں میں مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو ایک مجدد کے طور پر پیش کیا۔ پھر طویل عرصہ تک لوگوں کے اصرار کے باوجود ’’براہین احمدیہ‘‘ کا کوئی حصہ شائع نہ کیا اور آخرکار ۱۹۰۵ء میں براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ شائع کیا جس کے دیباچہ میں مرزا قادیانی نے اپنی دھوکے باز فطرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:-
’’ پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفاء کیاگیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لیے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا۔‘‘ (براہین احمدیہ، ج ۵ ص ۷، مندرجہ روحانی خزائن، ج ۲۱، ص ۹)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے جس کتاب میں تین سو دلائل اسلام کی حقانیت کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا تھا اس نے ان تین سو دلائل میں سے ایک دلیل بھی پیش نہیں کی۔ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد جسے قادیانی حضرات قمر الانبیاء کے لقب سے جانتے ہیں اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں رقم طراز ہے کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میں براہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تواس وقت آپ ’’براہین احمدیہ ‘‘ تصنیف فرما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحات تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کیے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھا کہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہر ہو جائے گی اور آپ کا ارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کا انتظام ہو تو کتاب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی زائد کرتے جاویں۔ چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیفی حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے۔ یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نا مکمل۔ ان چار حصوں کے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدائی تصرف کے ما تحت رک گئی اور سنا جاتا ہے کہ بعد میں ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہو گئے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی، ج ۱، ص ۹۹-۱۰۰، روایت نمبر ۱۲۳طبع چہارم)
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی کی پہلی شادی ۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ء میں ہوئی۔ پہلی بیوی سے مرزا کے دو بیٹے تھے۔ مرزاقادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب سیرۃ المہدی میں رقم طراز ہے کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑی بیوی سے حضرت مسیح موعود کے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اعنی مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد، حضرت صاحب ابھی بچہ ہی تھے کہ مرزا سلطان احمد پیدا ہو گئے۔ اور ہماری والدہ صاحبہ سے حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل اولاد ہوئی: عصمت جو ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی اورء میں فوت ہو گئی۔ بشیر احمد اول جو ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۸ء میں فوت ہو گیا۔ حضرت خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے۔ شوکت جو ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئی اور ۱۸۹۲ء میں فوت ہوئی۔ خاکسار مرزا بشیراحمد جو ۱۸۹۳ء میں پیدا ہوا۔ مرزا شریف احمد جو ۱۸۹۵ء میںپیدا ہوئے ۔ مبارک بیگم جو ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئیں۔ مبارک احمد جو ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوا اور ۱۹۰۷ء میں فوت ہو گیا۔ امۃ النصیر جو ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئی اور ۱۹۰۳ء میں ہی فوت ہو گئی۔ امۃ الحفیظ بیگم جو ۱۹۰۴ء میں پیدا ہوئیں۔ سوائے امۃ الحفیظ بیگم کے جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال کی تھیں باقی سب بچوں کی حضرت صاحب نے اپنی زندگی میں شادی کر دی تھی۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج اول، ص ۴۷، طبع چہارم روایت نمبر ۵۹)
مرزا غلام احمد قادیانی کی دوسری شادی نصرت بیگم کے ساتھ ۱۸۸۴ء میں ہوئی۔ مرزا قادیانی کی دوسری شادی پر تبصرہ کرتے ہوئے مرزا بشیراحمد سیرۃ المہدی میں رقم طراز ہے کہ
’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمھارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیاںسے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلے پر سے گزرتی ہے تواس وقت تمھارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے میں ان دنوں کچھ بیمار ہوئی تو تمھارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والدصاحب بہت ماہر طبیب ہیں آپ ان سے علاج کروائیں۔ چنانچہ تمھارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔ جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمھارے تایا مجلس لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے۔ اور ایک نیچے کوٹھڑی میں تمھارے ابا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمھارے دادا صاحب تھے۔ تمھارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ اس کے بعد میں جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمھارے دادا فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ تمھارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ (قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی۔ اور وہ گائوں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہاںہمارے مکان میں آ جائیں۔ میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمد (یعنی مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے۔ اس لیے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہوگی۔ چنانچہ میر صاحب نے مان لیا اور ہم یہاں آ کر رہنے لگے۔ ان دنوں میں جب بھی تمھارے تایا گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لیے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لیے تیار کیے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں۔ جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں، میں ان کے چھوٹے بھائی کو بجھوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمھارے ابا کو کباب بھجوا دیے اور نائن نے مجھے آ کر کہا کہ وہ بڑے شکرگزار ہوئے تھے اور انھوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انھوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا۔ اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن ان کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی تھی اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ لیکن جب اس بات کی اطلاع تمھاری تائی کو ہوئی تو انھوں نے بہت برا منایا کہ میں ان کوکیوں کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانے میں تمھارے ابا کے سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا۔ ہر بات میں انھیں تکلیف پہنچاتی تھیں۔ مگر تمھارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے۔ ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمھارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آ کر کہتے تھے کہ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے۔ اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے اور چونکہ تمھاری اماں اس وقت جوان ہو چکی تھیں۔ ہمیں ان کی شادی کا فکر پیدا ہوا اور میرصاحب نے ایک خط تمھارے ابا کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے، دعا کریں خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے۔ تمھارے ابانے جواب میں لکھا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتاہوں اور آپ کو معلوم ہے کہ گو میری پہلی بیوی موجود ہے اوربچے بھی ہیں مگرآج کل میںعملاً مجرد ہی ہوں وغیرہ ذلک۔ میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں اسے برا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا اور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمھاری اماں کے لیے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی۔ حالانکہ پیغام دینے والوںمیں سے بعض اچھے اچھے متمول آدمی بھی تھے۔ اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمھارے نانا کے بہت تعلقات تھے۔ انھوں نے کئی دفعہ تمھارے ابا کے لیے سفارشی خط لکھے اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بڑے نیک، شریف اور خاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق دوسرے ان دنوں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا۔ بالآخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی۔ اسے رشتہ دے دو۔ میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا۔ جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا تم ساری عمر اسے یونہی بٹھا چھوڑو گی۔ میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجے اچھا ہے۔ میر صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزا غلام احمد کا بھی خط آیا ہوا ہے۔ جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا : اچھا پھر غلام احمد کو لکھ دو۔ چنانچہ تمھارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا اوراس کے آٹھ دن بعد تمھارے ابا دہلی پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ایک دو نوکر تھے اور بعض ہندو اور مسلمان ساتھی تھے۔جب ہماری برادری کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا ہے۔ اور کئی لوگ ان میں سے اسی ناراضگی میں نکاح میں شامل بھی نہیں ہوئے۔ مگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہوا تھا نکاح پڑھا کر رخصتانہ کر دیا ۔ تمھارے ابا اپنے ساتھ کوئی زیور یا کپڑا وغیرہ نہیں لے گئے تھے، بلکہ صرف ڈھائی سو روپیہ نقد لے گئے تھے۔ اس پر بھی برادری والوں نے بہت طعن دیے کہ اچھا نکاح ہوا ہے کہ کوئی زیور، کپڑا ساتھ نہیں آیا۔ جس کا جواب ہماری طرف سے یہ دیا گیا کہ مرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں ہیں اور گھر کی عورتیں ان کے مخالف ہیں اور پھر وہ جلدی میں آئے ہیں۔ اس حالت میں وہ زیور کپڑے کہاں سے بنوا لاتے۔ الغرض برادری کی طرف سے اس قسم کے طعن تشنیع بہت ہوئے اور مزید برآں یہ اتفاق ہوا کہ جب تمھاری اماں قادیان آئیں تو یہاں سے ان کے خط گئے کہ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوں اور شاید اس غم اور گھبراہٹ سے مرجاؤں گی۔ چنانچہ ان خطوں کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لوگوں کو اور بھی اعتراض کا موقع مل گیا۔ اور بعض نے کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تواس کی نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیوں خراب کی۔ اس پر ہم لوگ بھی کچھ گھبرائے اور رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد میر صاحب قادیان آ کر تمھاری اماں کو لے گئے۔ اورجب وہ دہلی پہنچے تو میں نے اس عورت سے پوچھا جس کو میں نے دلی سے ساتھ بھیجا تھا کہ لڑکی کیسی رہی ؟ اس عورت نے تمھارے ابا کی بہت تعریف کی اور کہا کہ لڑکی یونہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہو گی ورنہ مرزا صاحب نے تواس کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ اور تمہاری اماں نے بھی کہا کہ مجھے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا، مگر میں یونہی گھبرا گئی تھی۔ اس کے تھوڑے عرصے کے بعد تمہاری اماں پھر قادیان آ گئیں اور پھربہت عرصہ کے بعد واپس ہمارے پاس گئیں۔‘‘ (بحوالہ سیرۃ المہدی ج اول طبع چہارم ص ۳۹۸-۴۰۱، روایت نمبر ۴۴۱)
محترم قارئین ! یہ عبارت کسی تبصرہ کی محتاج نہیں کیونکہ ہر باشعور شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مرزا کے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اسے کھانا پہنچانا، میر صاحب کے دعا کا کہنے کے جواب میں مرزا قادیانی کا خود کو رشتہ کے لیے پیش کرنا اور معقول رشتوں کو ٹھکرا کر ایک بوڑھے شخص (مرزا قادیانی) کو ترجیح دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟
مرزا قادیانی نے اپنا اور اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’میں ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھاجن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انھوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر (جنگ آزادی) کے وقت سرکار انگریزی کی امداد (مسلمانوں کی مخالفت) میں دیئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میںمصروف رہا۔ اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔ پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا۔ تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میںاپنی قلم سے کام لیتا ہوں۔ اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کی ہیں ان سب میں سرکار انگریزی کی اطاعت اور ہمدردی کے لیے لوگوں کو ترغیب دی اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں نہایت مؤثر تقریریں لکھیں اور پھرمیں نے قرین مصلحت سمجھ کر اسی امر مخالفت جہاد کو عام ملکوں میں پھیلانے کے لیے عربی اور فارسی میں کتابیں تالیف کیں جن کی چھپوائی اور اشاعت پر ہزار ہا روپیہ خرچ ہوئے۔۔۔۔ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد اور حفظ امن اور جہادی خیالات کو روکنے کے لیے برابر سترہ برس تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا۔ کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص ۴ تا ۸، مندرجہ روحانی خزائن، ج ۱۳ ص ۴ تا ۸)
مزید ایک اور مقام پرمرزاقادیانی اپنے خاندان کا یوں تذکرہ کرتاہے کہ
’’میرا خاندان ایک خاندان ریاست ہے۔ اور میرے بزرگ والیان ملک اور خود مختار امیر تھے جو سکھوں کے وقت میں یکدفعہ تباہ ہوئے اور سرکار انگریزی کا اگرچہ سب پر احسان ہے مگر میرے بزرگوں پر سب سے زیادہ احسان ہے کہ انھوں نے اس گورنمنٹ کے سایہ دولت میں آ کر ایک آتشی تنور سے خلاصی پائی اور خطرناک زندگی سے امن میں آ گئے۔ میرا باپ مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھا۔۔۔۔۔۔۔حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لیے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروںکی نظر میں وہ ایک وفادار رئیس تھے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انھوں نے ۵۷ء (جنگ آزادی) کے ایک نازک وقت میںاپنی حیثیت سے بڑھ کرپچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں میں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لیے دئیے تھے۔ چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے مردانہ وار لڑائی مفسدوں (مجاہدین اسلام) سے کر کے اپنی جانیں دیں۔ اور میرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم تموں کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی۔ غرض اسی طرح میرے ان بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال سے اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتوں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا۔‘‘ (کشف الغطاء صفحہ ۹، مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۱۸۵)
مرزا قادیانی مزید رقمطراز ہے کہ
’’یہ تومیرے باپ اور میرے بھائی کا حال ہے۔ اور چونکہ میری زندگی فقیرانہ اور درویشانہ طور پر ہے اس لیے میں ایسے درویشانہ طرز سے گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور امداد میں مشغول رہا ہوں۔ قریبََا انیس برس سے ایسی کتابوں کے شائع کرنے میں میں نے اپنا وقت بسر کیا ہے جن میںیہ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو سچے دل سے اس گورنمنٹ کی خدمت کرنی چاہیے اور اپنی فرمانبرداری اور وفا داری کو دوسری قوموں سے بڑھ کر دکھلاناچاہیے اور میں نے اسی غرض سے بعض کتابیں عربی زبان میں لکھیں اور بعض فارسی زبان میں اور ان کو دور دور ملکوں تک شائع کیا۔ اور ان سب میں مسلمانوں کو بار بار تاکید کی اور معقول وجوہ سے ان کو اس طرف جھکایاکہ وہ گورنمنٹ کی اطاعت بدل و جان اختیار کریں۔ اور یہ کتابیں عرب اور بلاد شام اور کابل اور بخارا میں پہنچائی گئیں۔ اگرچہ میں سنتا ہوں کہ بعض نادان مولویوں نے ان کے دیکھنے سے مجھے کافر قرار دیا ہے اور میری تحریروں کو اس بات کا ایک نتیجہ ٹھہرایا ہے کہ گویا مجھے سلطنت انگریزی سے ایک اندرونی اور خفیہ تعلق ہے اور گویا میں ان تحریروں کے عوض میں گورنمنٹ سے کوئی انعام پاتا ہوں لیکن مجھے یقینََا معلوم ہوا ہے کہ بعض دانشمندوں کے دلوں پر ان تحریروں کا نہایت نیک اثر ہوا ہے اور انھوں نے ان وحشیانہ عقائدسے توبہ کی ہے جن میںوہ برخلاف اغراض اس گورنمنٹ کے مبتلاتھے۔‘‘ (کشف الغطاء صفحہ ۹، مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۱۸۵)
محترم قارئین ! یہ تھا ننگ ناموس و ملت آنجہانی مرزا قادیانی اور اس کا خاندان جس نے اسلام اور امت مسلمہ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.