ایمان، فریبِ نفس و نظر کے پردے میں – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 66 – 67، ذیقعد و ذی الحجہ 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

جس طرح تمناؤں کا سورج کبھی مایوسی کے آسمان پر طلوع نہیں ہوتا، اور جس طرح کسی مردہ جسم میں دل زندگی بن کر نہیں دھڑکتا، بالکل اسی طرح اعمال صالحہ کا بیج کبھی نفاق کی سر زمین پر بار آور نہیں ہوتا۔ ایمان ، یقین محکم کا دوسرا نام ہے، وہ خوف کے حصار اور مایوسی کے گرداب میں کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ قلب و نظر زیرِ حجاب ہیں، فکر و فہم اپنی نارسائی کی انتہا پر ہیں، جہل و تعصب نے حقیقت و معرفت کی راہ روک رکھی ہے اور ترکِ عمل کے حیلے نے توکل کے پردے میں پناہ لے لی ہے۔ اب بزدلی کے ساتھ ایمان کا اور ضلالت و گمراہی کے ساتھ ہدایت کی صداقت آفرینی کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر حقیقت کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا اور یقیناًایسا ہی ہے تو پھر یہ جو کچھ بھی ہے محض فریب نفس و نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایمان معلوم ہے اور اس کے تقاضے یقینی، ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی:
( قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ) (البقرۃ:۲۵۶)
یقیناً ہدایت گمراہی سے واضح ہو گئی۔‘‘ – اور-
( وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ ) (آل عمران: ۸۵)
’’پس جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین پر چلا تو وہ قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘
اس سطح ارضی پر ایک ارب سے زائد دل ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں دھڑکتے ہیں، ان میں مدعیانِ علم و تحقیق بھی ہیں اور صاحبانِ فکر و نظر بھی۔ ارباب جبہ و دستار بھی ہیں اور حاملانِ قوت و اقتدار بھی۔ مگر افسوس ان کے دل کی دھڑکنوں میں محبت کے ترانے تو ہیں جو سماعتوں کو سرشار کرتی ہے لیکن روح اس محبت کی لذت و لطافت سے یکسر محروم ہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو مکمل اخلاص کے ساتھ کارگاہِ عمل میں اللہ کی خاطر سعی و جستجو کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ہم نے غفلت کا نام مجبوری رکھ لیا ہے اور تساہل کو حکمت سمجھ لیا ہے۔ اب اگر ایمان کے تقاضے دل پر دستک دیتے بھی ہیں تو سماعتوں کی سطح پر معمولی سا تموج بھی برپا نہیں ہوتا۔
اب جہادکا فریضہ میدانِ عمل میں نہیں فیس بک کے صفحات پر انجام دیا جا رہا ہے اور مظلومانِ امت مسلمہ کے لیے ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر آوازیں بلند کی جا رہی ہیں۔ امراء و رئیسانِ ملّت اب بھی زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان کے رستے لہو پر آنسو بہا رہے ہیں اور واعظین محراب و منبر اب بھی زبان سے عمل کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
یہ بجا کہ آج ۵۶ اسلامی ممالک قوت و طاقت کے باوجود مظلومانِ امت مسلمہ کی داد رسی سے عاجز و مجبور ہیں لیکن اس کے ذمہ دار صرف حاملینِ قوت و اقتدار نہیں ہیں کیونکہ جیسی عوام ہوتی ہے ویسی ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں یہی قانونِ الٰہی ہے تو یہی دستورِ دنیا بھی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم ان مظلومین و محرومین کے زخموں پر اشک شوئی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ لاکھوں بے گھروں کو عزت سے زندگی مہیا نہیں کر سکتے، لاکھوں بھوکوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے ……….کیا کڑوڑوں کی آبادی میں مسلمان اس قدر عاجز ہیں کہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
اس سے پہلے کہ ان مظلوموں کی آہ و بکا آسمان کا سینہ چیر کر عرشِ بریں تک جا پہنچے، اس سے پہلے کہ کوئی مظلوم فریاد امت مسلمہ کے خلاف اللہ کی عدالت میں پیش ہو جائے، اور اس سے پہلے کہ ہماری زندگی کا سورج عمل کی دنیا میں گہنا جائے ، آؤ ! ہم ’’وہن‘‘ کی بیماری کو اپنے دل ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے نکال پھینکیں۔ ہماری تمناؤں کا سورج امید و یقین کے آسمان پر طلوع ہو اور ہمارے جسم میں اللہ کا یقین زندگی بن کر دھڑکے۔

One thought on “ایمان، فریبِ نفس و نظر کے پردے میں – اداریہ

  1. اپکی دلیرانه سوج اور اگاهی کسی تعارف کی محتاج نهین…لیکن اپ ن…جس مرکزی نقطه کی طرف اشاره کیا ه…وه انتهای اهمیت کا حامل ه…احسن اعمال کا تعلق ایمان کی کوالثی س…پر منحصر هوتاه…ملاوث…کهان…اور پین.. ادوایات سیلیکرهر سمت مین پروان چژه چکا ه…مگر اسکی اصل ابتدا…یا اتنها…اسی ایک لفظ …س…هی شروع هو کر اسی لفظ په ختم هوتی ه…اور وه واحد لمظ ایمان ه….

    پسند کریں

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.