الواقعۃ شمارہ : 66 – 67، ذیقعد و ذی الحجہ 1438ھ
از قلم : مولانا ابو علی اثری، اعظم گڑھ
مولانا ابو علی اثری کا یہ مضمون ہفت روزہ ”الاعتصام” لاہور ٢٠ دسمبر ١٩٦٠ء میں طبع ہوا تھا۔ مسئلہ باغِ فدک سے متعلق صاحبِ ”عون المعبود” علامہ ابو الطیب شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (١٨٥٧ء -١٩١١ئ) کا مؤقف خاتمہ اختلاف کا باعث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے رفعتِ کردار کے عین مطابق ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اسے قارئینِ ”الواقعة” کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
مولانا مجیب اللہ ندوی دار المصنفین کے رفقاء میں ایک صاحبِ فکر اہلِ قلم ہیں اور اسلامی فقہ و قانون پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا ایک مقالہ ”کیا متفقہ اسلامی احکام کو بھی اجتہاد سے بدلا جا سکتا ہے” کے عنوان سے ”معارف” اعظم گڑھ میں مسلسل شائع ہو رہا تھا۔ اس سلسلہ میں صاحب الحدیث مولانا شمس الحق ڈیانوی کی ”عون المعبود شرح ابی داود” بھی ان کے مطالعہ میں تھی۔ وہ اس کتاب میں باغِ فدک کی میراث کی حدیثوں اور ان کی شرح کا مطالعہ کر رہے تھے کہ شارح کی ایک نکتہ آفرینی پر بے اختیار ان کی زبان سے کلمۂ تحسین نکل گیا۔ دوڑے ہوئے میرے پاس آئے کہ دیکھو مولانا مرحوم نے کیا نکتہ پیدا کیا ہے۔ جس کی طرف شاید ہی کسی کا ذہن منتقل ہوا ہو۔ اس سے شیعہ حضرات کے سارے اختلافات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ میں نے سنا تو خیال ہوا کہ دیکھوں اردو زبان کے دوسرے محققین و ارباب تاریخ و سیر نے اس مسئلہ میں اپنی کیا تحقیقات پیش کی ہیں۔ ان کا سرسری جائزہ لینے کے بعد شارح ابی داود نے جو نکتہ پیدا کیا ہے۔ اس کو ناظرین الاعتصام کے سامنے بھی افادئہ عام کے خیال سے پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ بات عام طور سے مشہور ہے کہ باغِ فدک کے دعوٰے میراث کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ حضرت صدیقِ اکبر سے تادمِ مرگ ناراض رہیں اور اس دنیا سے اسی حالت میں تشریف لے گئیں اور حضرت ابوبکر سے صلح و صفائی نہ ہو سکی۔ اس کے ثبوت کے لیے بہت سی حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ ایک حوالہ ”الامامة و السیاسة” کا بھی دیا جاتا ہے جو ابن قتیبہ کی تصنیف ہے جس کو سنی علماء بھی مستند مانتے ہیں۔ ابن قتیبہ کے محقق اور قابلِ اعتماد ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اس میں بعض ایسی چیزیں درج ہو گئی ہیں۔ جو عقلاً قابل قبول نہیں ہیں۔ خصوصاً حضور کے وصال کے بعد حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی سیرت و زندگی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ محل نظر ہی نہیں، قابلِ اعتراض بھی ہے۔ اس لیے بعض محققین کا خیال ہے کہ یا تو یہ کتاب سرے سے ابن قتیبہ کی ہے ہی نہیں یا اس میں بہت سی چیزیں الحاقی ہیں جن میں یہ واقعہ بھی ہے۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سے ایک صاحب نے اسی کے متعلق رائے دریافت کی تھی۔ اس کے جواب میں انھوں نے لکھا ہے کہ اس کی تفصیلات جب صحیح بخاری اور دوسری کتبِ حدیث میں موجود ہیں تو ابن قتیبہ کی ”الامامة و السیاسة” سے خواہ مخواہ رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہ میراث کے معاملہ میں حضرت ابو بکر سے ناراض ضرور ہوئی تھیں لیکن اس کا جو نقشہ ابن قتیبہ نے کھینچا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر کی زبان سے حضور کا یہ ارشادِ مبارک حضرت فاطمہ نے سنا ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام کی میراث ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتی تو یقینا حضرت ابوبکر جیسے ثقہ اور عادل بزرگ سے یہ حدیث سننے کے بعد ان کو اس کی صحت سے انکار نہ رہا ہوگا اور اپنی رائے سے رجوع کرلیا ہوگا اور پھر ان سے بڑھ کر ارشادِ نبوی پر عمل کرنے کا جذبہ اور کسی میں ہو بھی سکتا تھا۔ انھوں نے وہی کیا جو ان جیسی حق پسند خاتون کو کرنا چاہیے تھا۔
شیعہ حضرات کی جہاں بہت سی چیزیں ہیں جن کو شیعہ مؤرخین اور ذاکرین بیان کرتے ہیں۔ ان میں ایک اہم واقعہ یہ بھی ہے اور اس کی وجہ سے صدیقِ اکبر کو نعوذ باللہ من ذٰلک ان کی مخصوص مجالس میں نشانہ تبرا بنایا جاتا اور خلافت کا غاصب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ خاندانِ رسالت کے ساتھ جتنا تعلق خاطر شیخین کا تھا کم کسی کا رہا ہوگا۔ حضرات حسنین کی دلداری و دل جوئی کے واقعات سے ان دونوں بزرگوں کے سوانح حیات لبریز ہیں۔
مولانا شبلی نے ”الفاروق” میں بڑی تفصیل سے اس واقعہ کو لکھا ہے لیکن اس میں کہیں حضرت فاطمہ کی رنجش کا ذکر نہیں ہے۔ باغ فدک یہودیوں کے قبضہ میں تھا جس کا سردار یوشع بن نون نامی ایک یہودی تھا۔ آنحضرت جب خیبر کو فتح کرکے لَوٹے تو محیصہ بن مسعود انصاری کو حضور نے فدک والوں کے پاس تبلیغ اسلام کے لیے بھیجا۔ یہودیوں نے صلح کا پیغام بھیجا اور معاوضۂ صلح میں اپنی آدھی زمین جس میں یہ باغ فدک بھی تھا، دینا منظور کیا۔ اس طرح سے یہ تاریخی باغ اسلام کے قبضہ میں آیا اور حضور نے اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے خاص کر لیا تھا۔ اسی میں سے آپ سال بھر کا خرچ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی عامۂ مسلمین کے مصالح و ضروریات پر صرف فرما دیتے تھے۔ اس لحاظ سے نہ وہ حضور کی ذاتی ملکیت تھی نہ اس میں وراثت کا قانون چل سکتا تھا۔ جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ان کے پاس فدک کے دعویدار ہوکر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صاف کہہ دیا کہ اس کی آمدنی حضور کی ذاتی ضروریات میں خرچ ہوتی تھی لیکن وہ حضور کی ملکیت نہیں تھا۔ اس لیے اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جا ری ہو سکتا۔
اس صاف بیانی کے بعد ان حضرات اور دوسرے بنی ہاشم کے تاثرات کیا تھے۔ اس کا پتہ ”الفاروق” سے نہیں چلتا۔ اس سے پہلے حضرت ابوبکر نے جو فیصلہ کیا تھا۔ اسی کی تائید اپنے دورِ خلافت میں حضرت عمر نے بھی کی اور یہی درحقیقت صحیح بھی تھا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں اس میراث کا قطعہ فیصلہ ہو جانے کے بعد پھر حضرت عباس اور جناب امیر اس کے دعویدار بن کر بارگاہِ خلافت میں کیوں گئے تھے۔ اس پر مولانا شبلی نے روشنی نہیں ڈالی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی ہاشم کو آخر آخر تک حضرت ابوبکر کے فیصلہ سے اتفاق نہیں تھا اور وہ باغ فدک کو حضور ہی کی ملکیت سمجھتے تھے اور رہ رہ کر اپنا دعویٰ پیش کرتے تھے۔ بظاہر ہوتا تو یہ چاہیے تھا کہ حضور کا ارشادِ مبارک سننے کے بعد جب حضرت فاطمہ خاموش ہو گئی تھیں تو وہ بھی خاموش ہوجاتے۔
”خلفائے راشدین” دار المصنفین کی اہم کتابوں میں سے ہے اور شاید اردو میں اس موضوع پر پہلی کتاب ہے جو اس جامعیت سے لکھی گئی ہے۔ اس کے مصنف حاجی معین الدین صاحب ندوی استھانوی ہیں جو بعد میں پٹنہ اورینٹل لائبریری میں کٹیلاگر ہو گئے تھے۔ اس کا مقدمہ شاہ معین الدین احمد ندوی نے لکھا ہے لیکن حیرت انگیز طور اس اہم اور اسلام کے دو بڑے فرقوں کے مختلف فیہ مسئلہ سے اس میں سرے سے تعرض ہی نہیں کیا گیا ہے۔ جو اس کتاب کا بڑا نقص ہے۔
دار المصنفین کی دوسری کتاب ”سیر الصحابیات” میں صحیح بخاری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس فیصلہ سے حضرت فاطمہ کو سخت قلق ہوا اور وہ حضرت ابوبکر سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ آخر وقت تک ان سے گفتگو نہیں کی۔ لیکن اس پر درایت کی روشنی میں مصنف نے کوئی محاکمہ نہیں کیا ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ معہ خاندان بنی ہاشم کے اکابر کے جب حضرت ابوبکر کی خدمت میں اپنا دعوٰے لے کر آئے تو حضرت ابوبکر نے ان سے فرمایا کہ میں حضور کے اعزہ کو اپنے اعزہ و اقارب سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ وہ اس جائداد سے آپ کی زندگی میں جس حد تک فائدہ اٹھاتے تھے اس سے اب بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن یہ حضور کی ملکیت نہیں ہے اور نہ اس میں وراثت کا قانون جاری ہو سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں مستند ترین کتابوں میں ایک کتاب ”سیرة الصدیق” بھی ہے جو وقت کے مستند ترین عالم و مؤرخ ادیب اور مولانا شبلی کے گہرے دوست و ہم فکر مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کی تصنیف ہے۔ جو تنہا حضرت صدیق کے حالات میں اردو کی پہلی کتاب اور بہت ہی پُر مغز ہے جس کا ایک فقرہ بھی زائد اور سند سے گرا ہوا نہیں ہے۔ لیکن اس میں بھی اس مسئلہ کے متعلق ایک لفظ نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علی گڑھ کے سیاسی مصالح کی بنا پر اس مسئلہ پر بحث کرنا انھوں نے مناسب نہیں سمجھا اور اس سے یونہی گزر گئے۔ حالانکہ حضرت ابوبکر کے دورِ خلافت کے اہم فیصلوں میں ایک فیصلہ باغ فدک کی میراث بھی تھا جس کے دعویدار حضرت عباس ، حضرت علی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم جیسے اجلہ صحابہ اور دوسرے بنی ہاشم تھے، لیکن انھوں نے بلا خوف لومة لائم حضور کے ارشادِ مبارک کی روشنی میں فیصلہ کر دیا اور حضرت فاروق tکی تائید و توثیق کے بعد ہمیشہ کے لیے اس نزاع کا خاتمہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ حضرت علی کے دورِ خلافت میں بھی اس کا کسی کو خیال نہیں پیدا ہوا۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جناب شروانی نے حضرت صدیق کی زندگی کے اس اہم واقعہ کی تفصیل کیوں نہیں بیان کی۔ اس کا بظاہر ایک ہی سبب ہو سکتا ہے جو ہمیشہ سر سید کے پیشِ نظر رہا یعنی کالج کے سیاسی مصالح اور شیعہ امراء و والیانِ ریاست کا تعاون۔ اس سے پہلے جب مولانا شبلی نے ”الفاروق” کی تالیف کا ارادہ کیا تھا تو انہی مصالح کے پیشِ نظر سر سیّد نے پسند نہیں کیا تھا اور دل سے چاہتے تھے کہ مولانا شبلی اس ارادہ سے باز آجائیں لیکن وہ اس کے لکھنے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے اس لیے سر سید کا کوئی حیلہ کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا شروانی نے ”سیرة الصدیق” تو لکھی لیکن اس میں سر سید اور کالج کی مصلحت کا پورا پورا لحاظ رکھا اور کوئی بات اس میں ایسی آنے نہیں دی جو کالج کی مصلحتوں کے خلاف ہو۔ چنانچہ یہ واقعہ بھی اسی خیال کے پیشِ نظر انھوں نے قلم انداز کر دیا۔ جس کی کمی اس کتاب کے مطالعہ کے وقت بے طرح محسوس ہوتی ہے کاش کہ شراونی صاحب زندہ ہوتے اور اس کمی کی طرف ہم ان کو توجہ دلا سکتے۔
”سیر الصحابیات” کے مؤلف مولانا سعید انصاری نے صافی بکڈپو منڈی بہاء الدین پنجاب کے لیے ”سیر الصحابہ” کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا لیکن اس کی وہ ایک ہی جلد لکھنے پائے تھے کہ ان کا تعلق اس سے منقطع ہو گیا۔ یہ جلد حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حالات و سوانح میں ہے۔ اس میں بھی انھوں نے اسی واقعہ کو دہرا دیا ہے جو وہ اپنی سابق کتاب ”سیر الصحابیات” میں لکھ چکے تھے۔ یعنی یہ کہ جب حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو جواب دیا تو وہ ناراض ہو کر اپنے مکان چلی آئیں اور حضرت ابوبکر کو چھوڑ دیا ۔ اور وفات کے وقت تک ان کا یہی عالم رہا۔ لیکن اس میں ایک واقعہ کا اضافہ ہے وہ یہ کہ حضرت فاطمہ کی طرح بعض ازواج مطہرات بھی اپنے کو اس کا حق دار سمجھتی تھیں۔ چنانچہ جب انھوں نے حضرت عثمان کو اس کے لیے حضرت ابوبکر کے پاس بھیجا تو حضرت عائشہ نے حضور کی حدیث سنائی تو سب کی سب خاموش ہوگئیں۔
مصر کے مشہور مصنف محمد حسین ہیکل کی ایک کتاب ابھی ابھی اردو میں ترجمہ ہوکر آئی ہے جس کا نام ”ابوبکر ” ہے۔ خاصی ضخیم ہے اور حضرت ابوبکر کے غزوات اور مجاہدانہ کارناموں کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور زندگی کے ایک ایک جزئیہ پر ورق کے ورق لکھ ڈالے ہیں لیکن اس اہم واقعہ پر دو چار سطر لکھ کر وہ اس طرح گزر گیا ہے کہ گویا ان کی زندگی یا دورِ خلافت کا کوئی اہم واقعہ ہی نہیں ہے جس کی طرف خاص طور سے اعتناء کیا جائے۔
اسی مصنف کی ایک اور کتاب اردو میں ترجمہ ہو کر آئی ہے۔ اس کانام ”عمر” ہے۔ یہ مقدمة الذکر کتاب سے کہیں زیادہ ضخیم ہے۔ اس نے حضرت عمر کی لائف اس انداز سے لکھی ہے کہ اس میں افسانہ کا رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر واقعہ کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے لیکن اس اہم واقعہ کا پوری کتاب میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس کا ایک باب حضرت عمر کے اجتہادات پر ہے اور قدرتی طور پر اس واقعہ کا ذکر اس باب کے تحت آنا چاہیے تھا لیکن ہم نے اس کی ایک ایک سطر پڑھ ڈالی۔ لیکن یہ واقعہ ہم کو اس میں بھی نظر نہیں آیا۔ جب اس نے اپنی کتاب ”ابوبکر” میں دوچار سطر سے زیادہ اس پر نہیں لکھا تو حضرت عمر کے واقعات زندگی کے سلسلہ میں لکھنے کی اس سے کیا توقع ہو سکتی تھی۔ بہر حال یہ کمی اس میں بھی شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ بے شبہ اس کا اصل تعلق تو عہدِ صدیقی ہی سے تھا لیکن حضرت عمر کے عہد میں ارضِ خیبر و باغِ فدک کے نظم و نسق کے متعلق جو تبدیلیاں ہوئیں اور جس طرح ان کا انتظام و انصرام حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے سپرد ہو گیا تھا اس کو تو بہر حال ”عمر” کے فاضل مصنف کو ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے اس کو سرے سے نظر انداز ہی کر دیا۔ ممکن ہے مصنف نے تاریخ اسلام کی ان اہم اور مقدس شخصیتوں کے اختلاف اور شکر رنجی کو منظر عام پر لانا پسند نہ کیا ہو۔ یہی زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔
لکھنؤ کے مشہور شیعہ مناظر مولانا عبد الشکور صاحب نے بھی ”خلفائے اربعہ” خلفائے راشدین کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ توقع تھی کہ اس مسئلہ پر ان کی کتاب میں تفصیل ملے گی لیکن تفصیل تو درکنار اجمالی طور پر بھی کچھ نہیں لکھا ہے۔ انھوں نے خلافتِ صدیقی کے با برکت کارنامے کے تحت ان کے جو کارنامے گنائے ہیں۔ ان میں ایک کارنامہ باغِ فدک کی میراث کا بھی بتایا ہے کہ حضرت فاطمہ نے اپنی میراث طلب کی تو حضرت صدیق نے وہ حدیث سنا کر جو اوپر متعدد جگہ بیان ہوئی ہے فرمایا کہ میرے پاس میرا جس قدر مال ہے وہ سب آپ کا ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ کا حضرت صدیق سے رنجیدہ ہونا بالکل بے اصل بات ہے اور اس کو میں متعدد رسالوں میں تحقیق سے لکھ چکا ہوں (مولانا عبد الشکور صاحب کے یہ رسالے ہماری نظر سے نہیں گزرے)۔
حضرت ابوبکر کے سوانح و حالات میں ایک ”صدیق اکبر” ندوة المصنین دہلی سے شائع ہوئی ہے جو مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کی ”الصدیق” سے کہیں زیادہ ضخیم اور جامع ہے۔ اس کے مصنف ماہنامہ ”برہان” دہلی کے مشہور مرتب مولانا سعید احمد اکبر آبادی ہیں۔ اس میں خیبر و فدک کی جائدادوں کے متعلق بڑی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ پہلے اس کی مختصر تاریخ ہے۔ اس کے بعد ہے کہ حضور کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ اور حضرت عباس، حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خیبر و فدک کی زمینوں میں آنحضرت کا جو حصہ تھا اس کی وراثت کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں جناب ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے آنحضرت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا اور آلِ محمد اس مال میں سے کھائیں گے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر نے کہا کہ آنحضرت جس کام کو جس طرح کرتے تھے میں اس کو اسی طرح کروں گا۔ اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کروں گا۔ حضرت فاطمہ یہ سن کر کبیدہ خاطر واپس چلی گئیں اور جب تک زندہ رہیں حضرت ابوبکر سے کلام نہیں کیا۔ حضرت فاطمہ کی معیت میں حضرت عباس بھی تھے۔ ان پر حضرت ابوبکر کے ارشادات کا کیا اثر ہوا، اس کو ”صدیق اکبر” کے فاضل مصنف نے بیا ن نہیں کیا۔ ان معاملات سے زیادہ دلچسپی انہی کو تھی۔ انہی نے حضورکی علالت کے زمانہ میں حضرت علی کو حضور کے پاس بھیجنا چاہا تھا کہ حضور ابھی زندہ ہیں ، جاکر خلافت کا مسئلہ براہِ راست طے کرلو۔ لیکن حضرت علی نے ان کے مشورہ پر عمل نہیں کیا۔ فرمایا کہ اگر اس وقت خدانخواستہ خلافت سے محروم ہو گیا تو پھر قیامت تک میں خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ یقینا حضرت عباس بھی بارگاہِ صدیقی سے کبیدئہ خاطر ہی ہوکر اٹھے ہوں گے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ کے حضرت ابوبکر سے کبیدہ خاطر رہنے اور نہ بولنے کی روایتیں جن راویوں سے مروی ہیں ان میں بعض ایسے ہیں جن میں تشیع پایا جاتا تھا۔ مصنف کا رجحان اس طرف ہے کہ جب باغ فدک کے متعلق حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر سے حضور رسالت مآب کے قطعی فیصلے سنے تو وہ مطمئن ہوگئیں اور ان کا تکدر جاتا رہا۔ اگر ان کو دنیا میں کچھ اور دن رہنے کا موقع ملا ہوتا تو یقینا ان کی زندگی ہی میں یہ مسئلہ صاف ہوجاتا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ حضور کے وصال کے چھ ہی مہینے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئیں اور یہ مسئلہ اختلاف آرا کا مرکز بن گیا۔
مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت عباس اور حضرت علی کو اس کے لیے جو اصرار رہا وہ درحقیقت ان جائدادوں کی وراثت کے لیے نہیں تھا، کہ اس کا فیصلہ حضور ہی کے زمانہ میں ہو چکا تھا بلکہ ان کی تولیت کے لیے تھا۔ چنانچہ حضرت عمر نے اپنے دورِ خلافت میں ان کی تولیت یہ کہہ کر حضرت عباس اور حضرت علی کے سپرد کر دی تھی کہ اگر آپ دونوں اس شرط کو پورا نہ کرسکے تو مجھے واپس کر دینا۔ آپ کی طرف سے میں اس کا انتظام کروں گا۔ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ان جائدادوں کا انتظام انہی دونوں بزرگوں کے متعلق تھا اور ان کی آمدنی انہی مصارف میں صرف ہوتی تھی جن مصارف میں زمانہ نبوی اور صدیقی میں صرف ہوتی تھی۔ حضرت علی کے عہدِ خلافت میں بھی یہی صورت قائم رہی، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہوا۔
ہم بھی مصنف کی اس رائے سے متفق ہیں کہ حضرت فاطمہ کے حضرت ابوبکر سے کبیدئہ خاطر رہنے اور زندگی بھر نہ بولنے کی روایت میں تشیع کو خاصا دخل ہے۔ ورنہ حضرت فاطمہ جیسی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیٹی کے باپ کے ارشادات سُن کر مطمئن نہ ہونے کے کیا معنی ہیں؟
اب ہم صاحبِ ”عون المعبود شرح ابی دادو” نے جو نکتہ پیدا کیا ہے اس کی تفصیل پیش کرتے ہیں اور یہی در حقیقت اس داستان سرائی کا مقصود ہے۔ انھو ں نے لکھا ہے کہ باغِ فدک کی میراث کے سلسلہ میں حضرت ابوبکر و حضرت فاطمہ میں گفتگو ضرور ہوئی تھی۔ جس میں نقطۂ نظر کا اختلاف بھی ضرور تھا لیکن پھر اس کے بعد نفسِ مسئلہ پر جناب فاطمہ نے حضرت ابوبکر سے باپ چیت نہیں کی۔ نہ اس کی ضرورت تھی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جناب فاطمہ باغِ فدک کے مسئلہ پر حضرت ابوبکر کے نقطۂ نظر سے بالکل متفق ہوگئی تھیں۔ اس لیے کہ پھر ان کی زندگی بھر گفتگو کی نوبت نہیں آئی۔ لہٰذا اختلاف و نزاع کا یہاں سرے سے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جس کو بلا وجہ کھینچ تان کر پیدا کیا جا رہا ہے۔ اگر حضرت فاطمہ کو جناب ابوبکر کے نقطۂ نظر سے اتفاق نہ ہوتا یا وہ اپنے مطالبہ اور رائے پر مصر رہتیں تو اس رائے کے اظہار سے دنیا کی کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی تھی اور پھر کسی مسئلہ میں حضور کے منشاء کو جناب فاطمہ سے بڑھ کر سمجھ کون سکتا تھا۔ انھوں نے حضرت ابوبکر سے آنحضرت کا ارشادِ گرامی سنا ہوگا تو یقینا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہونگی۔ جس کی تعبیر ”لم یتکلم” سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ یعنی پھر وہ اس مسئلہ پر بولیں ہیں نہیں۔ اس سادہ واقعہ کو بعض لوگوں نے رنگ آمیزی سے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
ہم اس تحقیق انیق پر مولانا ڈیانوی کی روحِ پاک کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ ان کی نظر اس نقطہ تک پہنچ گئی۔ جہاں تک بڑے بڑے اہلِ تحقیق و نظر کی نگاہِ تحقیق نہیں پہنچ سکی تھی ۔ انھوں نے سارا زور ”لم یتکلم” پر دیا ہے جس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر سے یہ حدیث سنی تو خاموش ہوگئیں، کچھ بولیں نہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس مسئلہ پر پھر انھوں نے خلیفۂ رسول سے بات چیت نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ وقت کے اور مسائل و امور پر بات چیت اور تبادلۂ خیال کا سلسلہ ضرور قائم رہا ہوگا اور حضرت ابوبکر نور دیدئہ رسول سے ضرور مشورے کرتے رہے ہوں گے۔ لیکن صرف اس مسئلہ پر دوبارہ خلیفہ رسول سے بات چیت نہیں کی ہوگی۔ واقعہ کی یہی سادہ اور صحیح صورت ہے۔ بھلا ابوبکر جیسے رقیق القلب بزرگ ایک لمحہ کے لیے بھی جگر گوشہ رسول کو اپنے سے ناراض رکھ سکتے تھے۔ آل رسول سے جناب صدیق کو جو غیر معمولی محبت و اخلاص تھا اس کے یہ قطعاً منافی تھا۔
اگر تمام شمارے pdf کی شکل میں ہوں تو برائے مہربانی وہ ارسال فرما دیں.
اللہ آپ کو جزائے خیر دے. آمین.
پسند کریںپسند کریں
اس لنک کی سخت ضرورت ہے
پسند کریںپسند کریں