الواقعۃ شمارہ : 64-65، رمضان المبارک و شوال المکرم 1438ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
سالِ رواں مجھے پنجاب کے کئی شہروں میں علمی خزینوں کی جستجو میں نکلنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ گو اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پنجاب جا چکا ہوں مگر سفر چند شہروں تک محدود رہا لیکن اس بار "‘محدودیت”کی ساری حدیں توڑ دیں۔ سفر اور مسلسل سفر رہا۔ لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، سمبڑیال (سیالکوٹ)، مری، اسلام آباد، فیصل آباد، ماموں کانجن، اوکاڑہ، خانیوال، ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالہ جانے کا اتفاق رہا۔ الحمد للہ سفر کی مشقت برداشت کی تو انعاماتِ الٰہی کا غیر معمولی فضل بھی ہوا۔ قیمتی اور نادر ذخیرئہ کتب کو دیکھنے کی سعادت ملی۔ متعدد اشخاص سے ملنا اور کئی علمی اداروں میں جانے کا با برکت اتفاق ہوا۔
ہمارے سفر کی ابتداء ۲۷ مارچ کو کراچی سے ہوئی۔ ہمارے دیرینہ رفیق محترم مولانا ابو موحد عبید الرحمٰن شریک سفر تھے۔ اس طرح سفر کا آغاز ہی علمی استعارے کے طور پر بہت بابرکت ثابت ہوا۔ میرا یہ سفر تقریباً ایک ماہ پر محیط رہا۔ روزنامچہ لکھنے کی نوبت نہ آسکی۔ اور نہ ہی میں مکمل رودادِ سفر یہاں تحریر کر رہا ہوں۔ تاہم جس ترتیب کے ساتھ جن اہم اشخاص سے ملاقات رہی اور جن اداروں میں جانا ہوا۔ ان سے متعلق مختصر تاثرات بیان کروں گا۔ کتب خانوں سے متعلق اپنی آراء تحریر کروں گا۔ اس سفر میں میرا اصل قیام گوجرانوالہ میں رہا۔ تاہم لاہور میں کئی بار آنا رہا۔
مولانا ابو موحد عبید الرحمٰن
مولانا موصوف کا نام الواقعہ کے پرانے قارئین کے لیے اجنبی نہیں وہ ابتدا میں الواقعہ کی مجلس ادارت کے رکن رہے ہیں۔ الحمد للہ ہمارے مابین اس وقت بھی نہایت اچھے روابط تھے اور اِس وقت بھی ہیں۔ جو سطحیت پسند یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات کے خاتمے کے بعد روابط برقرار نہیں رہ سکتے ان کے لیے ہمارے تعلقات ایک مثال ہیں اور محض تعلقات نہیں بلکہ خواشگوار تعلقات کہ جن کے ساتھ شراکت سفر بھی ہو رہا ہو۔ مولانا فروع میں حنفی اور اعتقاد میں سلفی ہیں۔ اس وقت "اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی” سے وابستہ ہیں۔ یہ ادارہ جماعت اسلامی پاکستان کے زیر انتظام ہے اور اپنے طور پر علمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہا ہے۔ مولانا ابو موحد سے سفر کی ابتدا ہوئی اور لاہور میں ان سے کئی بار ملاقاتیں رہیں۔ لاہور ہی میں ان کے ساتھ اردو بازار کے کئی مکتبوں میں بھی جانا رہا اور ان کے ساتھ مل کر ہم نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق کتابوں کی خریداری کی۔
حافظ احمد شاکر
لاہور اترتے ساتھ ہی میں سب سے پہلے اپنے محترم حافظ احمد شاکر صاحب کے پاس ان کے ادارے "دار الدعوة السلفیہ” گیا۔ حافظ صاحب بڑی محبت سے پیش آئے۔ وہ ان دنوں اپنے والد محترم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے مقالات و مضامین کا ایک مجموعہ تیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس کی کمپوزنگ دکھائی۔ مولانا بھوجیانی پاکستان کے بے مثال علماء میں سے ایک تھے۔ سلامت روی، اعتدال پسندی، جرات اظہار اور حق گوئی ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں۔ وہ کسی کی تنقیص کیے بغیر اپنے بات کہنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ علمی اعتبار سے ان کی تحریروں کا یکجا ہو جانا اصحاب علم کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ اللہ کرے یہ سعادت حافظ صاحب کو جلد از جلد حاصل ہو۔ حافظ صاحب چونکہ مجھ پر بڑے مہربان رہتے ہیں اس لیے ان سے اس سفر میں کئی بار ملاقات ہوئی اور گفتگو کا طویل دورانیہ رہا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں لاہور میں انھیں کے ادارے میں قیام کروں جہاں وہ میری میزبانی کے فرائض انجام دیں۔ یہ پیشکش انھوں نے انتہائی اخلاص کے ساتھ کی تھی جیسا کہ ان کا لہجہ اس اخلاص کا مظہر تھا تاہم یہ میرے لیے ممکن العمل نہ ہو سکا کیونکہ لاہور میں میرا اصل قیام اپنے دوست میاں عنصر محمود ایڈوکیٹ کے یہاں ہی رہا، تاہم ایک رات میں نے "دار الدعوۃ السلفیہ” کی لائبریری میں گزاری اور بلا شبہ اس کا مجھے بے حد فائدہ ہوا۔
حافظ صاحب لاہور کی گزشتہ سیاسی و سماجی تاریخ کے امین ہیں۔ ان سے ملاقات میں بہت سے باتیں معلوم ہوئیں اور عہدِ گزشتہ کے کئی بڑے دل چسپ واقعات اثنائے گفتگو تازہ ہوئے۔ حافظ صاحب اور ان کے فرزندانِ گرامی محض کتابیں طبع نہیں کرتے بلکہ بڑے سلیقے اور حسنِ اظہار کے ساتھ طبع کرتے ہیں۔ سیرت کی مشہور زمانہ کتاب "الرحیق المختوم” کے ناشر ہیں۔ ہفت روزہ "الاعتصام” لاہور کے مدیر مسئول ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کے حسنات کو قبول فرمائے ۔ آمین
جمعیة المناھل الخیریة، گوجرانوالہ
پہلے دن حافظ صاحب کے پاس چند گھنٹے قیام کے بعد میں نے گوجرانوالہ کی راہ لی۔ جہاں میری منزل "جمعیة المناھل الخیریة” کا دفتر تھا۔ جو بعد میں اس سفر میں میری اصل قیام گاہ بنا۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ ”عرفت باللہ بفسخ العزائم” اس کے جلوے کئی بار میں نے اس سفر میں دیکھے۔ کئی بار ایسا ہوا جو میں نے چاہا وہ نہ ہو سکا۔ حسرت نا تمام پر دل افسردہ بھی ہوا لیکن جلد ہی رضائے الٰہی سمجھ کر اسے گوارا کر لیا ۔ نتیجتاً جو ہوا وہ میری چاہت سے کہیں بہتر تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ رب العزت کے ساتھ کامل تسلیم و رضا میں جو نتائج پوشیدہ ہیں وہ انسان کی اپنی خواہشات کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ قرآن کریم نے سفر و سیاحت کی ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے :
قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ (العنکبوت : ۲۰)
"آپ فرما دیجیے کہ زمین میں گھومو پھرو اور دیکھو اللہ نے کیسے تخلیق کیا۔ ”
خلقتِ الٰہی کا نظارہ انسان کی چشم بصیرت کو وَا کر دیتا ہے۔ اور بلا شبہ سیاحت خواہ کسی درجے میں ہو انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ ہمیں کبھی ناکامی ملتی ہے تو اس لیے کہ اللہ ہمیں اس ناکامی سے کہیں بڑی کامیابی دینا چاہتا ہے لیکن عجلت پسند طبیعتیں مایوسی کے گرداب میں پھنس جاتی ہیں۔ نتیجتاً حسرت ناتمام کے داغ ان کا مقدر بنتے جب کہ صابرین کے لیے تو ان اللہ مع الصابرین کے نعمتِ عظمیٰ ہے۔میں نے بھی آرزو کی نا تکمیل پذیری سے شخصیت کی تکمیل سیکھی۔ صبر کی طاقت ملاحظہ کی۔ زندگی کے تجربات سیکھے۔
"جمعیة المناھل الخیریة” اپنے نام کی طرح خیر و برکات کا مرکز ہے۔ جو "ادارہ احیاء التراث الاسلامی” (کویت) کے زیر تحت اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ کئی مساجد ان کے زیر اہتمام تیار ہوئیں۔ کئی یتیم خانے ان کے زیر سر پرستی چل رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نشر علم کی سعادت بھی انھیں حاصل ہو رہی ہے۔ جمعیة کے دفتر کے قریب ہی ان کا کتب خانہ اور نشریاتی ادارہ "دار ابی الطیب” ہے۔ جس وقت میں وہاں گیا ادارے میں نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی تفسیر "ترجمان القرآن” کی کمپوزنگ اور اس کی تصحیح کا کام زور و شور سے چل رہا تھا۔ الحمد للہ اس وقت جب کہ یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں اس تفسیر کی پہلی جلد منصہ شہود پر آ چکی ہے۔
مولانا عارف جاوید محمدی
"جمعیة المناھل الخیریة” میں ہماری ملاقات مدیر ادارہ جناب مولانا عارف جاوید محمدی سے ہوئی۔ مولانا عارف جاوید کویت میں ادارہ جالیات کے مدیر ہیں۔ اس وقت وہ پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے۔ میرے سفر کی اس تاریخ کا تعین در اصل انھیں سے ملاقات کی خاطر کیا گیا تھا۔ میں ایسے وقت میں گوجرانوالہ پہنچنا چاہتا تھا کہ مجھے ان سے ملاقات اور بھرپور ملاقات کا وقت مل جائے۔ چنانچہ تقریباً ایک عشرہ ہمیں ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ مجھے مولانا موصوف سے مل کر بڑی خوشی ہوئی اور انتہائی طبعی مناسبت محسوس ہوئی۔ چونکہ وہ ایک عالمی ادارے سے وابستہ ہیں اور تبلیغ کے فرائض انجام دیتے ہیں اس لیے ان کی فکر و نظر کا زاویہ محدود نہیں بلکہ وسیع ہے۔ وہ بڑے نفیس اور اعلیٰ ذوق کے حامل ہیں۔ طبیعت کی نفاست اور کردار کی شرافت دونوں ہی ان میں بدرجہ اتم ہیں۔ غصہ نہیں کرتے ، کسی امر پر اپنی نا خوشگواری کا اظہار بھی کرنا ہو تو اس عمدگی سے کرتے ہیں کہ سننے والے پر گراں نہیں گزرتا۔ میں نے ان کے ساتھ دن کے اجالے میں معاملات کی گفتگو کرتے ہوئے بھی انھیں سنا اور رات کی تاریکی میں تزکیہ و تربیت اور اخلاقِ حسنہ کی باتیں بھی ان سے سنیں۔ جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا کہ مجھے ان سے طبعی مناسبت محسوس ہوئی یہی وجہ رہی کہ پہلے ہی دن سے چند گھنٹوں بعد ہی ہمارے مابین اجنبیت حائل نہیں رہی۔ مولانا ممدوح اہل حدیث ہیں اور سلسلہ بیعت کے قائل۔ خود انھیں مولانا محی الدین لکھوی سے بیعت کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیعت و ارادت کی وجہ سے اخلاقی تربیت اور تزکیہ کی راہ نکلتی ہے۔ راقم کو بھی ان کی اس تجویز سے مکمل اتفاق ہے۔ تاہم بیعت ہر کس و ناکس کی نہیں کرنی چاہیے اور اس کے لیے کسی عالم با عمل کا انتخاب انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اور مرشد کو خدا کے مرتبے پر فائز نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ زمانے میں اہل حدیث حضرات کے یہاں جو سلسلہ بیعت و ارادت قائم تھا اس کی سب بڑی خوبی یہی تھی تصوف میں اعتدال کا عنصر تھا۔ افسوس اس وقت تزکیہ و تربیت کی یہ درس گاہ "انڈسٹری” بن چکی ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہو گئی ہے۔
مولانا کو قدیم نوادرات جمع کرنے کا بے حد شوق ہے۔ انھوں نے اپنی رہائش گاہ میں ایک چھوٹا سا میوزیم قائم کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ کئی نوادارت جمع کر رکھے ہیں۔ مجھے کئی بار ان کے میوزیم کو دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کا ایک نمونہ، شاہ اسماعیل شہید کی تلوار کا نمونہ موجود تھا۔ انھیں جماعت مجاہدین کی تاریخ اور ان سے متعلقہ نوادرات سے بڑا شغف ہے۔ مجاہدین پہاڑوں میں چلنے کے لیے جو عصا استعمال کرتے تھے ایک عصا ان کے پاس ہے۔ جس مشکیزے میں پانی جمع کرتے تھے وہ بھی ان کے میوزیم کی زینت ہے۔ الغرض کئی نودرات تھے جو انھوں نے اپنے حسنِ ذوق کی وجہ سے جمع کر رکھے تھے۔ قرآن کریم کے نادر نسخوں اور اس کی اہم ترین طباعتوں کو جمع کرنے کا بھی مولانا موصوف کو از حد شوق ہے۔ دنیا میں قرآن کریم کی جو اہم طباعتیں ہوئی ہیں مولانا اس پر بڑی وسیع اطلاع رکھتے ہیں۔
اسلاف کرام کی تحریروں کے نمونے جمع کرنے کا بھی انھیں بہت شوق ہے۔ خطوط کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ان کے پاس محفوظ ہے۔ زندہ اہل علم کی بھی بڑی قدر کرتے ہیں۔ ہرن کی کھال پر متعدد اصحاب علم کی تحریروں کے نمونے انھوں نے لے رکھے ہیں۔ ایک رات اس گناہگار کی تحریر کا نمونہ لینے کی فرمائش بھی کر ڈالی۔ میں نےدیکھا اس پر بڑے بڑے اصحاب علم کے دستخط ہیں جنھوں نے مختلف آیات یا اقوال لکھ کر دستخط کیے ہیں۔ میں کہاں اس لائق تھا مگر ان کے شوق کے سامنے میرا انکار ہار گیا۔ چنانچہ "ربنا الرحمن المستعان” لکھ کر میں نے بھی اپنا نام لکھ ڈالا۔ اللہ ان کا حسنِ ظن سلامت رکھے اور مجھے اس درجہ صاحبِ فضیلت بننے کی توفیق عطا فرمائے جس کی مجھ سے میرے چاہنے والے توقع رکھتے ہیں۔ یہ تمام محبتیں اور اخلاص کی یہ شدتیں اللہ رب العزت کی خاطر ہیں اس لیے دعا کرتا ہوں کہ یہ تعلقات تادم آخر سلامت رہیں اورالحب فی اللہ کی بنیاد پر کی جانے والی ان محبتوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین
اپنے سفر میں اوّلین نمازِ جمعہ کی ادائیگی میں نے مولانا ہی کے اقتداء میں ادا کی۔ خطبہ بہت سادہ اور عام فہم تھا۔ لوگوں کے اخلاق و کردار کی اصلاح پر مشتمل تھا۔ عموماً خطبائے کرام خطبے کی اہمیت اور اس کی سماجی و معاشرتی اثر پذیری سے نا واقف ہوتے ہیں اور ایسے غیر ضروری ابحاث بیان کرتے ہیں جو عوام کے لیے سود مند نہیں ہوتا مجھے خوشی ہوئی مولانا داعیانہ مزاج رکھتے ہیں اسی لیے مخاطب کی سطح کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔
مولانا نے خطبہ جمعہ دیا لیکن نمازِ جمعہ ان کے صاحبزادے حافظ محمدشفیع نے پڑھائی۔ حافظ شفیع قرآن کریم کے حافظ اور خوش الحان قاری ہیں۔ ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا خاص لطف آیا۔
محمدی صاحب کے چار صاحبزادے ہیں۔ مجھے ان کے دو صاحبزادوں حافظ محمد شفیع اور حافظ محمد قاسم سے ملنے کا اتفاق رہا۔
غالباً ۱۰ مارچ کو مولانا عارف جاوید اپنے خانوادے کے ہمراہ کویت کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کی موجودگی میں میرا زیادہ تر وقت گوجرانوالہ اور کسی قدر لاہور میں گزرا۔ اس دوران گوجرانوالہ میں جناب ضیاء اللہ کھوکھر کے کتب خانے سے استفادہ کرتا ہے۔ محمدی صاحب کی روانگی کے بعد حافظ شاہد رفیق اور عبید الرحمٰن کے ہمراہ علمی خزینوں کی جستجو میں کئی شہروں میں جانا ہوا۔
ضیاء اللہ کھوکھر
جب کبھی میرا پنجاب لاہور یا گوجرانوالہ آنا ہوا تو جناب ضیاء اللہ کھوکھر کے یہاں میری آمد یقینی رہی۔ کچھ تو ان سے اپنے پرانے مراسم کا تعلق اور کچھ ان کے کتب خانے کی کشش اپنی طرف ہمیشہ کھینچ لیتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ کھوکھر صاحب اپنی ذاتی زندگی کی تمام تر مشکلات کے باوجود اہل علم کی آمد سے بڑے خوش ہوتے ہیں اور ان کی تکریم کو لازم سمجھتے ہیں۔ میرا شمار کسی طرح بھی اصحاب علم کے مقدس گروہ میں نہیں لیکن میرے ذوق و شوق کی وہ بڑی قدر کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی ان کے یہاں چند دن قیام رہا۔ تاریخ کے بہت سے قیمتی ذخیرے ان کے پاس محفوظ ہیں۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں کی کئی رودادیں ان کے پاس موجود ہیں۔ بعض نادر رسائل دیکھنے کا اتفاق رہا۔ کئی رسائل و جرائد اور کتب کی میں نے نقول بنوانی چاہیں جس کی کھوکھر صاحب نے بطیب خاطر اجازت مرحمت فرمائی۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔ آمین
گوجرانوالہ
گوجرانوالہ میں میرا پہلے بھی کئی بار آنا رہا ہے لیکن اس بار چونکہ قیام طویل تھا تو مشاہدہ بھی طویل رہا۔ اس شہر میں مساجد بکثرت ہیں اور الحمد للہ کی نمازیوں کی تعداد کا تناسب بھی مجھے دوسرے شہروں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ محسوس ہوا۔ یہاں قرات قرآن کریم کے بڑے مقابلے ہوتے ہیں۔ یہاں اکثر حفاظ کرام فن قرات کے ماہر ہوتے ہیں۔ جن کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی ایک خاص لذت ملتی ہے۔ کیا ہی مناسب ہو کو پاکستان میں تمام ائمہ مساجد کے لیے فن قرات سے واقفیت لازم قرار دی جائے۔ کیونکہ قرات قرآن بھی نماز میں خشوع و خضوع کا ایک اہم سبب ہے۔
میاں عنصر محمود ایڈوکیٹ
گوجرانوالہ کے قیام ہی کے دوران ایک شب برادرم عنصر محمود مجھ سے ملنے آئے، میرے پچھلے سفر میں بھی عنصر محمود صاحب کا طویل ذکر آ چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو : "الواقعہ” ، شمارہ ۵۱-۵۲، شعبان المعظم و رمضان المبارک ۱۴۳۷ھ)
عنصر محمود صاحب کی کار میں ہم گشت تفریح کرتے کرتے لاہور پہنچ گئے ایسا بالکل غیر ارادی طور پر ہوا تھا ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا کہ لاہور چلے جائیں گے۔ بہر حال پرانے اور بے تکلف دوستوں کے ساتھ کسی وقت بھی کسی طرح کا اتفاق ہو سکتا ہے۔
برادرم عنصر محمود کے ساتھ بھی ہماری کئی ملاقاتیں رہیں۔ اور ان کے ساتھ لاہور، گوجرانوالہ اور سمبڑیال ( سیالکوٹ) کے کئی چکر لگائے۔ یہ بھی ایک حسین اتفاق رہا کہ ان کے ساتھ جب جب قیام رہا تو موسم نے بھی اپنی بھرپور عنایت جاری رکھی۔ دورانِ سفر قوس و قزح کے رنگ بھی ملاحظہ کیے اور بارش کی پھوار سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ ایک بار کے سوا میں نے جتنی بار بھی لاہور سے گوجرانوالہ یا گوجرنوالہ سے لاہور کا سفر کیا تو انھی کے ساتھ کیا۔ اکثر مجھے کہیں جانا ہوتا تو میں ان سے دریافت کرتا کہ ان کا پروگرام کیا ہے یا وہ کہاں ہیں ؟ جواب میں ہمیشہ یہی ارشاد فرماتے کہ میں آپ سے بہت قریب ہوں اور کام نمٹا کر ایک گھنٹے میں آتا ہوں۔ ایک بار میں نے ان سے دریافت کیا کہ ایسا حسین اتفاق بار بار کیوں ہوتا ہے اور کہیں یہ آپ کی محبت بھری سازش تو نہیں۔ کہنے لگے کچھ باتوں کو راز ہی میں رہنے دیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ وہ میری خاطر اپنے گھر سے تشریف لے آتے تھے واقعتاً قریب نہیں ہوتے تھے اسی لیے کام کا نام لے کر ایک گھنٹے کی رعایت طلب کر لیتے تھے۔ میں ہمیشہ ان کے پُر خلوص محبت کا قرضدار رہوں گا اور چاہتا ہوں کہ ان کا مقروض ہی مروں۔
میاں عنصر محمود سے گاہے گاہے کئی ملاقاتیں رہیں۔ لاہور میں میرا قیام اصلاً انھیں کی رہائشگاہ میں رہا۔ دو دن کے لیے میں سمبڑیال میں بھی ان کے ساتھ رہا۔ وہ میرے بے تکلف دوست ہیں اس لیے میرے ساتھ تکلف نہیں کرتے تاہم ان کی سادگی بھی غضب کی ہوتی تھی۔
چھانگا مانگا
مولانا عارف جاوید صاحب کی کویت روانگی کے بعد حافظ شاہد رفیق صاحب کی معیت میں علمی خزینوں کی جستجو میں میرا پہلا سفر اوکاڑہ کے لیے ہوا۔ جہاں مولانا ابراہیم خلیل کا کتب خانہ ہماری منزل تھا اور "مدرسہ دار الحدیث” راجووال دوسری منزل۔ راستے میں چھانگا مانگا کے جنگلات بھی دیکھے اور دیگر فطری نظارے بھی۔ چھانگا مانگا سے گزرنا نگاہوں کے لیے بڑا خوبصورت منظر ثابت ہوا۔
چھانگا مانگا ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں ایک مصنوعی جنگل ہے۔اسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی ہاتھوں سے لگایا جانے والا مصنوعی جنگل قرار دیا جاتا ہے۔برطانوی دور حکومت میں بنائے جانے والے اس مصنوعی جنگل کے بنائے جانے کا مقصداس وقت کے اسٹیم انجنوں کو لکڑی فراہم کرنا تھا۔ چھانگا مانگا کے جنگلات بارہ ہزارایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں اس جنگل میں بھی درختوں کی کٹائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ جنگل معدومی کے خطرے سے دوچار ہو رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جنگل کی حفاظت کی جائے۔کیونکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے جو پاکستان میں واقع ہے۔فطرت کے اس بیش بہا خزینے کی حفاظت حکومت پاکستان کے لیے لازم ہے۔
مولانا محمد ابراہیم خلیل
اوکاڑہ میں ایک مقام حجرہ شاہ مقیم کے نام سے معروف ہے۔ یہی مولانا کا مسکن ہے۔
مولانا ابراہیم خلیل کا تعارف کراتے ہوئے مولانا اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب "چمنستان حدیث” میں لکھا ہے :-
"لمبا قد، چوڑا سینہ، کشادہ جبیں، متناسب الاعضاء، دھیما اسلوب گفتگو، سادہ مگر صاف ستھرا لباس مشتمل بر شلوار قمیص، سر پر ٹوپی، خیر خواہی اور ہمدردی کے پیکرِ پُر خلوص۔ یہ ہیں مولانا محمد ابراہیم خلیل فیروز پوری۔”( چمنستانِ حدیث: ۵۹۸)
مجھے بھی مولانا کے اس تعارف سے اتفاق ہے مجھے اس پر کچھ اضافہ نہیں کرنا سوائے اس کے کہ مولانا بڑے سادہ مزاج ہیںاور ان کی وضع قطع بھی اسی سادگی کی آئینہ دار ہے۔
حجرہ شاہ مقیم کے مرکزی بازار میں "مدرسہ دار السلام و مسجد ربانی” ہے جو ان کی کوششوں سے ۱۹۶۶ء میںبنی اور مولانا اس کے اولین خطیب مقرر ہوئے اور آج تک یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ جس پر نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اللہ رب العزت مولانا کی حسنات قبول فرمائے۔ آمین
اس سے قبل بھی مجھے مولانا سے ملنے کی سعادت حاصل رہی ہے ، یہ ہماری دوسری ملاقات تھی۔ مولانا کو آمد کا مقصد بتایا تو اپنے کتب خانے لے گئے جو کسی قدرے فاصلے پر ہے۔
مولانا موصوف نے اپنا کتب خانہ بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ پرانے پنجابی علماء کی کتابیں بکثرت ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر علماء کی پرانی طبع شدہ کتب بکثرت ہیں۔ چھوٹے کتب خانوں میں اس قدر قدیم ذخیرہ کم ہی کسی کے پاس ہوگا۔ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی متعدد کتابیں یہاں موجود ہیں۔ مولانا کتابوں کے معاملے میں بڑے با ذوق ہیں زیادہ تر کتابوں کو مجلد کروا کر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کتابیں محفوظ ہو جاتی ہیں۔
گو یہ مولانا کا ذاتی کتب خانہ ہے لیکن مولانا اپنے کتب خانے کی زیارت کے لیے آنے والوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں۔ کئی ایک اہل علم ان کے اس نادر ذخیرے سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔ مولانا نے بتایا کہ ایک صاحب نے اپنے تحقیقی مقالے برائے پی ایچ ڈی کے لیے اس کتب خانے سے بھرپور استفادہ کیا لیکن اپنے مقالے میں مولانا یا ان کے کتب خانے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اہل علم کی جانب سے ایسا امر افسوسناک بھی ہے اور شرمناک بھی۔
میرا یہاں قیام زیادہ نہیں محض چند گھنٹوں پر مشتمل رہا۔ تاہم اس امر کا بخوبی اندازہ ہوا کہ یہ کتب خانہ اطمینان سے دیکھے جانے کے لائق ہے۔ اللہ کرے جلد مجھے یہ سعادت حاصل ہو۔ آمین
دوپہر کا وقت اپنے عروج پر تھا مولانا کی خواہش تھی کہ وہ ہماری ضیافت اپنے ذوق و شوق کے ساتھ کریں لیکن ہماری اگلی منزل "مدرسہ دار الحدیث” راجو وال تھی۔ وقت کی کمی کے باعث ہمیں جلد نکلنا تھا اس لیے ضیافت کی دعوت قبول نہ کر سکے تاہم ان کے دعائوں کی سوغات لے کر رخصت ہوئے۔