الواقعۃ شمارہ : 64-65، رمضان المبارک و شوال المکرم 1438ھ
از قلم : اے، ایف، ایم خالد حسین
بنگلہ سے انگریزی ترجمہ : محمد عالمگیر
انگریزی سے اردو ترجمہ : ابو عمار سلیم
علامہ عبد اللہ یوسف علی موجودہ دور کے مسلم ممالک کے علماء میں قرآن مجید فرقان حمید کے عالمانہ انگریزی ترجمہ اور اس کی دانشمندانہ تفسیر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ عالم اسلام کے لاکھوں مسلمانوں نے ان کی انگریزی زبان پر غیر معمولی مہارت، مرقع و مسجع جملوں کی بناوٹ، سائنسی اور عقلی معیار پر پورا اترنے والے تجزیے، فکر و نظر کی وہ ہمہ جہت گہرائی جس کے ذریعہ مختلف بیانات کے درمیان تعلق کو اجاگر کرنا اور ان کی اعلیٰ درجہ کی ذہانت و فطانت کو بے اندازہ سراہا ۔بہت سے غیر مسلموں نے ان کی دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کو پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔دنیا بھر کے متعدد پبلشر نے ان کی تحریروں کی طباعت کے ذریعہ منفعت کمائی جس میں ان کی اعلیٰ ترین ترجمہ و تفسیر
” Translation and Commentry of The Holy Quraan”
سر فہرست ہے۔ مگر جس کسمپرسی کے عالم میں اس عظیم دانشور اور علم کی وجیہ شخصیت نے اپنی زندگی کے آخری لمحات گزارے وہ پوری امت مسلمہ کے لیے تا قیامت ندامت اور شرمندگی کا باعث بنی رہے گی۔ لندن میں ۱۹۵۳ء میں ان کے انتقال کے وقت ان کے پاس نہ تو کوئی روپیہ پیسہ تھا اور نہ ہی کوئی مسلمان شخص ان کے ساتھ تھا۔ علامہ کے المناک اور دلسوز موت کی کہانی برطانیہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر نے ایک خط کے ذریعہ پاکستانی وزیر اعظم کو لکھ کر بھیجی تھی۔
عبد اللہ یوسف علی ہندوستان میں ۱۸۷۲ ء میں پیدا ہوئے۔ ممبئی کے ولسن کالج سے ان کی تعلیم کا آغاز ہوا جہاں سے وہ کیمبرج یونیورسیٹی گئے اور ماسٹر آف آرٹس اور ماسٹر آف لاء کی ڈگریاں حاصل کیں اور پھر لندن کے مشہور لنکن ان سے بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے عربی زبان کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی اور پھر اپنی پوری زندگی قرآن مجید کی اُن تفاسیر کے پڑھنے میں کھپادی جسے دنیا بھر کے مختلف پرانے اور نئے علماء نے لکھا تھا۔
ہندوستان واپس آنے کے بعد وہ مختلف جگہوں پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ڈسٹرکٹ جج کے عہدوں پر تعینات رہے۔ اور پھر حکومت ہند کے وزارت مالیات میں انڈر سیکریٹری کی خدمات انجام دیں۔ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں انہیں جوائنٹ سیکریٹری کا عہدہ بھی دیا گیا ۔ انسائکلوپیڈیا آف اسلام ان کے بارے میں لکھتا ہے:-
"انہوں نے ۱۹۱۰ء میں ناگپور میں ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ ایجو کیشنل کانفرس کی صدارت کی اور پھر کلکتہ میں ہونے والی ۱۹۱۲ء کے کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ ۱۹۱۶ء میں آپ امپیریل انسٹیٹیوٹ کے ہندوستانی معاملات کی کمیٹی کے ممبر تھے اور کئی خصوصی کمیٹی کے چیرمین بھی رہے۔ ۱۹۱۷ء میں آپ لندن یونیورسیٹی کے شعبہ مشرقی علوم کے اسکول کے ہندی و انڈین سوسائٹی اینڈ ریلجن میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۱ء میں وہ ریاست حیدر آباد دکن کے وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۵ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور پنجاب یونیورسیٹی کے فیلو بھی رہے۔ اس دوران میں آپ نے علیگڑھ یونیورسیٹی کورٹ کے ممبر کے طور پر نمایاں خدمات انجام دیں۔ ۱۹۲۸ء میں ہونے والی لیگ آف نیشنز کی جنرل اسمبلی کی میٹنگ میں آپ بطور ہندوستانی مندوب کے شریک ہوئے۔ ۱۹۱۸ء سے ۱۹۳۰ء کے دوران مذہب کے ذریعہ امن کے قیام کے لیے آپ نے ڈنمارک، سویڈن، ناروے، ہالینڈ ، امریکہ ، کینیڈا میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔”
آپ کے متعدد طویل تحقیقاتی مطالعات برائے اسلامی تاریخ، دعوہ و تبلیغ، تعلیماتی اصلاحات، ادب ، آثار قدیمہ ، مجسمہ سازی ، فنون لطیفہ اور رفاہ عامہ کے اوپر آپ کے کام ہندوستان اور یورپی اخبارات و رسائل میں چھپتے رہے۔ انسائکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق آپ نے ان کاموں کے علاوہ ۱۲کتابیں انگریزی زبان میں لکھیں جنہوں نے بین الاقوامی ریسرچ اسکالروں اور قارئین سے بڑی پزیرائی حاصل کی۔ مگر ان تمام کاموں کے علاوہ ان کی انگریزی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر نے پوری دنیا کے دانشوروں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی ۔ ان کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:-
1907 Indian Mohammedans
1916 Mestrovic and serbian sculptures
1923 Muslim Educational Ideals
1926 Islam as a World Force
1926 India and Europe
1929 Personality of Muhammad the Prophet
1932 Medivial India
1934 Translation and the Commentry of The Holy Quraan
1936 Life and Literatures
1936 Religion and Social Equality
1936 Islamic History, its Scope and Content
1940 The Message of Islam
قرآن مجید کے مختلف غیر ملکی علماء کے ترجمہ و تفسیر میں بہت نمایاں غلطیاں ہیں۔ ان علماء میں
Rev J.M Rodwell , George Sale , A. Ross , Prof E. M. Wherry وغیرہ غیر مسلم مترجم ہیں جنہوں نے قرآن کریم کا انگریزی میں ترجمہ کیاہے۔ درحقیقت ان لوگوں کا یہ کام فرانس کےDu Ryer اور اٹلی کے Maracciکے کاموں کا انگریزی ترجمہ ہے۔ یہ حقیقت آج بھی روشن ہے کہ یہ کام یورپی دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ ان تمام تراجم و تفاسیر میں عیسائی کلیسا کی اسلام دشمن سوچ بہت واضح ہے۔ یہ تمام مترجم دین اسلام کی اندرونی خوبصورتی اور دانشمندی کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مختصرا ً ایک جملہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر مسلموں اور اسلام دشمن حضرات کے تراجم اور تشریح افراتفری ، بے ہنگمی اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہیں۔
اسی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمان دانشوروں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ غیر مسلموں کی ان زہریلی چالوں کا توڑ کیا جائے اور قرآن مجید کی زبان و بیان کی خوبصورتی اور دانشمندانہ اقوال و فکر کو انگریزی جاننے والوں میں شائستگی کے ساتھ تعارف کرایا جائے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بیسویں صدی کے آغاز سے ہی علمائے اسلام نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کام کا بیڑا اٹھا یا اور میدان میں اترے۔ ان میں چند علماء کے اسمائے گرامی یوں ہیں:-
۱-ڈاکٹر عبدالحکیم خان۔ پٹیالہ
۲-مرزا حیرت۔ دہلی
۳-نواب امداد الملک سید حسن بلگرامی۔ حیدر آباد دکن
۴-مولوی محمد علی۔ پنجاب
۵-حافظ غلام سرور ۔ سنگاپور کے ریٹائرڈ جج
۶-محمد مارما ڈیوک پکتھال۔ برطانیہ
ان میں سے ڈاکٹر عبد الحکیم کا کام طبع نہ ہوسکا جب کہ نواب بلگرامی کی زندگی نے وفا نہ کی کہ وہ اپنا کام پورا کرسکتے۔ مولوی محمد علی صاحب کے ترجمے کے بارے میں علامہ یوسف علی نے یوں کہا:-
"اس ترجمہ میں قابل قدر وضاحتی نوٹس ہیں اور مکمل فہرست بھی شامل ہے مگر اس کی انگریزی زبان پر گرفت بہت کمزور ہے جو عربی زبان سے ناواقف لوگوں کو متاثر نہیں کرسکتی۔اور پھر قادیانی طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے مخصوص طبقے سے باہر نہ نکل سکے۔”
حافظ غلام سرور صاحب کے کام کے بارے میں انہوں نے لکھا :-
"ان کے کام کو جو پزیرائی ملی وہ اس سے زیادہ کی حقدار تھی۔ انہوں نے تمام سورتوں کا مکمل خلاصہ دیا ہے مگر انہوں نے اپنے ترجمہ میں کوئی تشریحی نوٹس نہیں دیئے جو کہ مضمون کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ کیونکہ عربی الفاظ کے اندر معنی در معنی چھپے ہوئے ہیں جن کا اظہار اور تشریح نفس مضمون کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اور اس کے بغیر ترجمہ کرنے والا صحیح ترجمانی نہیں کرسکتا۔”
جناب مارما ڈیوک پکتھال کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے :-
"انگریز ہونے کے ناطے مارما ڈیوک پکتھال کی انگریزی زبان کی مہارت پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ اس کے علاوہ ان کی عربی زبان کی مہارت بھی دنیا بھر میں مسلم ہے۔ مگر انہوں نے بعض مقامات پر تشریح کرتے ہوئے ایسے نقاط بھی ڈالے ہیں جو خالصتاً ادبی ہیں اور عام قاری کے ذہن و گمان سے بالا تر ہیں۔”
یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ علامہ یوسف علی کا کام ان تمام عوارض سے پاک ہے اور دوسرے تراجم کے مقابلے میں ایک بہتر ترجمہ اور مختصر تشریح کا حامل ہے۔ بہت سارے ترجمہ کرنے والوں نے بہت سارے عربی کے الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے خیالی گھوڑے دوڑائے ہیں مگر علامہ عبد اللہ یوسف علی کا کام بڑا نپا تلا اور ایسی تمام اغلاط اور کمزوریوں سے مبرا ہے اور قرآن مجید کے روح اصلی سے انتہائی قریب ہے۔
علامہ عبد اللہ یوسف علی کو اس ترجمہ قرآن مجید اور اس کی تشریح کی تحریرکے لیے چالیس سال محنت کرنی پڑی۔ درست ترجمہ اور شہادتوں کے حصول کے لیے انہوں نے مختلف علاقوں کے کئی سفر اختیار کیے اور وقت کے بڑے علماء سے ملاقاتیں کیں اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کے لیے ان سے مدد حاصل کی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اسلاف کے عہدسے لے کر دور حاضر کی تمام تفاسیراور تشریحات کا مطالعہ کیا۔ اور ان تمام تحقیقات اور مطالعہ کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے مواد کو انہوں نے من و عن نقل کرنے کی بجائے بڑی عرق ریزی سے دیکھا اور سمجھا اور پھر ان کو اختیار کیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے یہ اعلان کیا :-
"میں ان تمام اہم تفاسیر کا نام لے رہا ہوں جن سے میں نے وقتاً فوقتاً استفادہ کیا ہے مگر یہ تمام تفاسیرمیرے لیے سند کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ یہ تفسیریں مختلف مکتب فکر پر مبنی ہیں اور ان میں سے بعض بہت ہی شدت پسند نقطہ نظر رکھتی ہیں جن سے میں متفق نہیں بلکہ میں نے صرف عمومی خیال سے استفادہ کیا ہے۔”
تفسیر حقانی کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ
"یہ اپنے انداز کی ایک جدید طرز کی تفسیر ہے اور میں نے اس سے بہت ستفادہ کیا ہے۔”
تفسیر جوہری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ،
"یہ قرآن کے جواہر تلاش کرکے لاتے ہیں اور سائنس کے حوالوں سے ان پر ایسی روشنی ڈالتے ہیں جن سے بہت سے نئے زاویوں کو وجود ملتا ہے۔”
سر سید احمد خان کی تفسیر کے بارے میں ان کی رائے بڑی توجہ کی حامل ہے۔ لکھتے ہیں کہ
"ان کی تفسیر کو علماء کی منظوری حاصل نہیں۔”
اس کام کے مستند اور معتبر ہونے کی وجہ سے اس کو سعودی حکومت کے شاہ فہد کے قرآن کی طباعت کے ادارے نے ۱۴۰۵ھ میں شاہی فرمان نمبر ۱۲۴۱۲ کے تحت منتخب کیا ۔ اور اس ترجمہ و تفسیر کو ۱۴۱۰ھ میں سعودی حکومت کے محکمہ حج و اوقاف نے طبع کیا اور پوری دنیا میں مفت تقسیم کیا۔ اس نسخہ کے انتخاب ، طباعت و اشاعت کے بارے میں اسلامی ریسرچ اور افتاء نے یہ وجوہات بتائیں:-
"مرحوم استاد عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ کو اپنے انتہائی عمدہ اور شائستہ انداز تحریر کی بدولت منتخب کیا گیا۔ اس کا خوبصورت انداز ترجمہ اور ایسے الفاظ کا انتخاب جو قرآن کے مطالب کے بہت قریب ہے کے علاوہ عالمانہ نوٹ اور تشریح بھی اس کے انتخاب کی ایک بڑی وجہ ہے۔”
گوناگوں صلاحیتوں ، اعلیٰ ذہانت اور عالمانہ انداز ترجمہ قرآن کے ساتھ انگریزی زبان اور ادب کے اوپر بڑی مضبوط گرفت نے علامہ یوسف علی کو بین الاقوامی شہرت اور عزت سے ہمکنار کیا۔مگر اس عظیم شخصیت نے اپنی زندگی کے آخری ایام لندن کی سڑکوں پر بھکاریوں کی طرح بڑی بے بسی، بے کسی، غربت اور سر پر کسی چھت کے بغیر گزارے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ اس حالت تک پہنچے۔ہمیں ان کے دیگر عزیز و رشتہ داروں کابھی کوئی علم نہیں کہ وہ ایسے وقت میں ان سے دور کیوں تھے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے اس بطل جلیل کو لندن کے مسلم حلقوں نے کیوں پناہ نہیں دی۔ کیوں ان کی بے بسی میں ان کی دلجوئی نہیں کی اور ان کو اس کسمپرسی کی حالت میں کیوں چھوڑ دیا۔ ممکن ہے کہ وہ شہرت پسندی کے خواہاں نہ ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہو یا پھر کسی انتہائی بڑی آزمائش نے ان کو اس آخری حد تک پہنچا دیا ہو۔ مگر اس کے باوجود یہ سوال موجود رہے گا کہ آخر مسلم دنیا کہاں گم تھی؟۔قرآن کریم کے پڑھنے اور ماننے والے کہاں تھے؟۔ یہ ایک ایسا شدید دکھ ہے جس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔ حلق خشک ہوگئے اور اس شرمندگی کو چھپانے کے لیے امت مسلمہ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
۱۹۵۳ء میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر جناب ایم اے شریف صاحب نے وزیر اعظم پاکستان جناب محمد علی بوگرا کو خط لکھا اور ان کی وفات کے کچھ حالات بیان کیے ۔ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ۸۰سالہ عبداللہ یوسف علی کسی انتہائی شدید مالی دشواریوں میں گرفتار ہو گئے تھے۔ ٹریفلگر اسکوائر میں انہیں روٹی کے لقمے کے لیے ہاتھ پھیلائے دیکھا گیا۔ان کے کپڑے چیتھڑوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ ان کے پاس ایک سوٹ کیس تھا جس میں سے ایک ڈھیلہ بھی برآمد نہیں ہوا۔ بعد میں انہیں کائونٹی کائونسل آف لندن کے تحت چلنے والے ناداروں اور غریبوں کے گھر میں لے جایا گیا۔ اس سال لندن کی سردیاں بھی بہت شدید تھیں اور ۹ دسمبر بروز بدھ دماغی توازن بگڑے ہوئے اس بوڑھے آدمی کو ویسٹ منسٹر کے علاقہ میں ایک گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا دیکھ کر پولیس نے اسے علاقہ کے ہسپتال میں پہنچا دیا۔ مگر وہاں سے اسی دن فارغ کر دیئے گئے اور ان کو Dove Home میں جو کہ لندن کائونسل کے زیر نگرانی چلنے والا بوڑھوں اور ناداروں کا گھر تھا پہنچا دیا گیا۔ دوسرے ہی دن یعنی ۱۰ دسمبر کو انہیں پھر ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ داخل ہونے کے تین گھنٹوں کے بعد ان کے دکھی دل نے اپنے ہم مذہب لوگوں کے خلاف دکھوں اور تکلیفوں کا لاوا اگل دیا اور انہی نفرتوں کے اظہار کی تلخی کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کا کوئی عزیز اور رشتہ دار کیوں ان کے جسد خاکی کولینے اور دفن کرنے کے لیے نہیں آیا ایک عجیب معمہ ہے جب کہ پاکستانی ہائی کمشنر ان سے واقف تھا اور وہ پاکستانی شہری بھی تھے۔ تاہم ضروری کارروائی کے بعد علاقہ کے کچھ مسلمانوں نے انہیں سرے بروک ووڈ کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ یوں اکیاسی سال کی عمر میں انتہائی الجھے ہوئے حالات کے ساتھ مسلم امہ کے ایک عظیم فرزند عبد اللہ یوسف علی کی زندگی کا دردناک اختتام ہوا۔ یہ عظیم مصنف و اسکالر ، بے غرض مبلغ اسلام، گونا گوں شخصیت کے مالک اور نابغہ روزگار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یورپ کی سرزمین میں دفن کرکے چھوڑ دیا گیا۔
ان کے ترجمہ کی پہلی اشاعت ۱۹۳۴ء میں ہوئی تھی جس میں انہوں نے لکھا تھا :-
"ہر مسلم مرد ، عورت اور بچے پر یہ فرض ہے کہ وہ قرآن مجید کو پڑھے اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کو سمجھے۔ اور وہ شخص جو اس کو پڑھنے اور سمجھنے کا قابل ہو تو یہ اس کے لیے فرض ہے کہ وہ اسے دوسروں تک اس کو پہنچائے، ان کو سکھائے اور سب مل کر اس روحانی ابدی پیغام سے استفادہ کریں جس کے ذریعہ ہدایت اور دائمی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن ایک مذہبی کتاب ہے جس کو نہ صرف زبان ، آواز اور آنکھوں سے دیکھ کر پڑھنا ہے بلکہ اپنی انتہائی دانش کو بروئے کار لا کر اس کو سمجھنا بھی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی دل کی رغبتوں سے اور عقل کی خالص ترین صلاحیتوں کے ساتھ اس کو سمجھا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے قاری قرآن مجید کو اسی جذبہ کے ساتھ پڑھیں۔ میری انتہائی درخواست اپنے پڑھنے والوں سے یہ ہے کہ اس پاک کتاب کی تلاوت کریں ، اس کو سمجھیں ، اس پر غور کریں ، اس کے احکامات پر عمل کریں اور اس پورے قرآن کو اپنے دل و دماغ پر حاوی کر لیں۔ جب ہی آپ اس کی تلاوت اور غور خوض سے اللہ کی شان کو جان سکیں گے اور اس کو پہچان سکیں گے۔”