عقل و عشق کا حسین امتزاج


الواقعۃ شمارہ : 61-62، جمادی الثانی و رجب المرجب 1438ھ

از قلم : مولانا شاہ محمد جعفر ندوی پھلواروی

ہر انسان کے اندر دو جوہر بہت نمایاں ہوتے ہیں ، عقل اور عشق۔ یہ دونوں جوہر انسانی الگ الگ وظائف و اعمال رکھتے ہیں اور ان کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چلتی۔عقل کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ معاملات زندگی کو سمجھ کر ایک صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں مدد دیتی ہے اور خطرات اور مہالک سے بچاتی ہے اور عشق کا وظیفہ یہ ہے کہ اقدار عالیہ کے حصول کی لگن پیدا کرتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے ابھارتاہے۔عقل یہ بتاتی ہے کہ فلاں کام نیکی کاہے اور یہ نیکی ضرور کرنی چاہیے۔ یا فلاں بات بہت بری ہے اور اس برائی کو نہیں کرنا چاہیے۔گویا عقل ہی کسی بات کے اچھے اور برے ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔لیکن اچھے کام کے اختیار کرنے اور بری بات کے ترک کرنے کی توفیق بخشنا عقل کا کام نہیں ، یہ عشق کا وظیفہ ہے۔ ایک شرابی عقل سے یہ اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ شراب نوشی بری چیز ہے اور اسے ترک کردینا چاہیے۔ اس کے باوجود وہ شراب نہیں چھوڑتا ہے۔اسے ترک کرانے والی چیز عقل نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرا جذبہ ہوتا ہے جسے عشق کہتے ہیں۔ یہی جذبہ کسی برائی سے نفرت پانے کی لگن پیدا کرتا ہے اور یہ جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ عقل "‘محو تماشائے لب بام” ہی رہتی ہے اور عشق "‘بے خطر آتش نمرود "میں کود پڑتا ہے۔
عقل و عشق دونوںکا وجود گاڑی کے دو پہیے ہیں جو اسے کسی منزل کی طرف رواں دواں لے جاتے ہیں۔ آپ اپنے گھر کے اخراجات کا بجٹ بناتے ہیں اپنی عقل سے لیکن اپنے گھر والوں سے جو محبت کرتے ہیں کیا وہ کسی عقل کا تقاضا ہوتا ہے۔ نہیں۔ وہ ایک دوسرا جذبہ ہے جس میں عقل کو دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف عشق کی کارفرمائی ہے۔
لیکن ہوشیار رہیے، ان دونوں کے نقص سے عقل حیلہ گر ہوتی ہے ، بہانہ جو ہوتی ہے۔ انسان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو حق بجانب ثابت کرنے Justificationکے لیے دلائل تلاش کر لیتی ہے۔ نیکی سے بچنے اور برائی پر عمل کرنے کے لیے وجہ جواز ڈھونڈھ نکالنا عقل کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہوتا ہے۔ایسی ہی عقل کو زیرکی کہتے ہیں اور مولانا رومی اسی زیرکی کے بارے میں فرماتے ہیں

می شناسد ہر کہ از سر محرم ست
زیرکی زابلیس و عشق از آدم است

اسی طرح عشق میں یہ عیب ہے کہ یہ اندھا ہوتا ہے۔ یہ نہ موقع دیکھے نہ وقت بس چل پڑتا ہے خواہ اس سے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔
یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے نقص و کمی کو دور کرکے تکمیل کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ہر ایک دوسرے کے بغیر لنگڑا ہوتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ عشق ایک سرپٹ دوڑنے والا گھوڑا ہے اور عقل اس کی لگام۔ صرف مہمیز عشق ہو تو گھوڑا کسی ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے اور عقل صرف عقلی لگام کھینچے رہے تو گھوڑا چل ہی نہ سکے۔
حسن و خیر اس میں ہے کہ دونوں میں توازن اور تناسب قائم رہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہیں۔ جہاں عقل گریز کرے وہاں عشق اسے حرکت میں لائے اور جہاں عشق سر پٹ دوڑے وہاں عقل لگام دے۔ یہ دونوں صحیح توازن و تناسب پر قائم رہیں گے تو وہی صراط مستقیم ہوگی اور اسی میں زندگی کا جمال ہوگا۔
بہترین امت صحابہ رسول اللہ ﷺ و رضی اللہ عنھم، ہر فرد عقل و عشق کا مظہر تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ بجز صدیق اکبر ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما، کے کسی میں عقل و عشق کا وہ متوازن امتزاج نہ تھا جو آئیڈیل اور اسوہ تامہ کا مقام رکھتا ہو۔ سب کے سب ہی دونوں کمال رکھتے تھے۔ لیکن زندگی میں بہتیرے مواقع ایسے آئے جہاں ان کے عشق پر عقل یا عقل پر عشق غالب آگیا بلکہ بعض صحابہ میںتو دوامی طور پر ایک عنصر غالب رہا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ میں بھر پور عشق موجود تھا اس سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا عقل غالب رہتی تھی اور ان کے صاحبزادے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میں نمایاں طور پر عشق غالب تھا۔ سیدنا علی، سیدنا عثمان ، سیدنا بلال پر بھی عشق غالب تھا۔ خالد بن ولید ، معاویہ بن ابی سفیان ، عباس بن عبد المطلب ، عمرو بن العاص پر عقل غالب تھی۔ ان حضرات میں سے کوئی مغلوب العشق عقل سے یا کوئی مغلوب العقل عشق سے خالی نہ تھا ( نعوذ باللہ) مگر زندگی میں بالعموم کوئی ایک عنصر غالب نظر آتا ہے۔
مستثنیٰ ذات صرف جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے ۔ کوئی مرحلہ زندگی بھی تو ایسا نہیں ملتا جہاں عشق کا موقع ہو اور وہاں عقل غالب آگئی ہو یا عقل کے موقع پر عشق نے غلبہ پا لیا ہو۔ جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پوری تاریخ پڑھ جا ئیے آ پ کو ایسا محسوس ہوگا کہ عقل و عشق دونوں متوازی خطوط پر اس طر ح دوڑ رہے ہیں کہ کوئی ایک عنصر آگے پیچھے نہیں ہوتابلکہ دونوں دوڑنے والے ایک دوسرے کی نسبت سے ساکن نظر آتے ہوں گے۔ جو فیصلہ عشق کا ہوتا ہے وہی عقل کا ہوتا ہے اور جو فیصلہ عقل دیتی ہے وہی عشق بھی دیتا ہے۔ کوئی سخت سے سخت تنقید کرنے والا مؤرخ بھی ایسا نہیں ملے گا جو صدیق کے کسی اقدام یا فیصلہ کو عقل و سیاست کی غلطی بتا سکے اور اس طرح کوئی غالی سے غالی صوفی ایسا نظر نہ آئے گا جو آپ کی کسی حرکت و سکون کو عشق کے خلاف کہہ سکے۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے، صلح حدیبیہ ہو رہی ہے جس میں ایک شرط ایسی رکھی گئی ہے جو کسی مسلمان کو گوارا نہیں۔ شرط یہ ہے کہ مکے سے بھاگ کر جو مسلمان جائے وہ واپس کردیا جائے، لیکن جو مسلمان مدینہ سے مکہ جائے وہ واپس نہیں کیا جائیگا۔ ابھی صلح نامہ پر دستخط بھی نہیں ہوئے کہ حضرت ابو جندل قید سے بھاگ کر حدیبیہ پہنچ گئے۔ فریاد کرکے وہ اپنے داغہائے زخم دکھاتے ہیں اور اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرتے ہیں۔ صحابہ تڑپ اٹھتے ہیں مگر کچھ حیل و حجت کے بعد وہ موت کے منہ میںپھر مکہ واپس کر دیئے جاتے ہیں اور یہ ایمان اور اطاعت کا مجسمہ بے تکلف واپس چلا جاتاہے۔ معاہدہ کی دفعہ ہی کیا کم دل خراش تھی، سیدنا ابوجندل کی واپسی نے اور بھی آگ پر تیل کا کام کیا۔ سارے مسلمان انتہائی شکستہ دل ہوگئے تھے کیونکہ چھہ میل کے فاصلہ سے بغیر عمرہ کیے واپس جا رہے تھے۔ سیدنا عمر تو آپے سے باہر ہوگئے اور حضور انور ﷺسے ایسے مکالمہ کرتے رہے جو ان کی عام روش کے خلاف تھا۔یہ ایک دو نہیں تھے ، چودہ سو مہاجرین و انصار کا جم غفیر تھا جو اپنا سر ہتھیلیوں پر لے کر آیا تھا۔ ایک اشارے پر پورا مکہ خاکستر ہوسکتا تھا۔ جوابی کارروئی نہ ہونے سے اہل اسلام اور بھی آزردہ خاطر ہو رہے تھے۔ سیدنا عمر حضور ﷺ سے گفتگو کرنے کے بعد سیدھا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور فریاد کرنے لگے کہ "یہ کیسا معاہدہ ہوا ہے جس نے مسلمانوں کو اس طرح دبا رکھا ہے ؟” یہ جناب عمر کی زبان نہ تھی بلکہ سارے مسلمانوں کی ترجمانی تھی۔ توقع تھی کہ جناب صدیق بھی ہمنوائی فرمائیں گے ، مگر آپ نے کیا جواب دیا، آپ ﷺنے فرمایا :”‘ اللہ کے رسول نے جو کچھ کیا ہے وہی ٹھیک ہے۔”
سوال یہ ہے کہ جناب صدیق کا یہ جواب عاقلانہ تھا یا عاشقانہ ؟ ہمارا ایمان ہے کہ یہ جواب عشق اور عقل کا دونوں کا حسین ترین امتزاج تھا۔ یہ صرف عشق اور رضا بقضائے رسول کا ہی مقتضا نہ تھا بلکہ کمال عقل و فہم بھی تھا۔ اس کے جن خوشگوار نتائج کو رسول اللہ ﷺکی نگاہ بصیرت دیکھ رہی تھی وہاں تک عقل صدیق بھی پہنچ گئی۔ حقیقت کا انکشاف نہ رسول کی نظروں میں قرین مصلحت تھا اور نہ صدیق کی نظر میں۔ اس لیے صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا فرمایا کہ اس کی مصلحت کو اللہ کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔
کیا مصلحت تھی اس معاہدہ حدیبیہ میں؟ سیرت نگاروں کی نظر اس کے صرف ایک پہلو پر پڑ سکی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس معاہدہ کے بعد باہمی روابط اور آمد و رفت شروع ہوگئی اور اس میل جول سے اہل کفر کی ساری غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔انہوں نے اسلام کے افکار و گفتار و کردار کا قریب سے مشاہدہ و مطالعہ کیا اور متاثر ہوکر لوگ اس کثرت سے مسلمان ہوگئے کہ ایک سال کے اندر ان نو مسلموں کی اس تعداد سے بھی زیادہ ہوگئی جو گزشتہ پندرہ سالوں میں ہو چکی تھی۔ سیرت نگاروں کا کہنا سو فیصد درست لیکن ایک حقیقت کی طرف ان کی نظر نہ جا سکی اور وہ یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے دو زبردست اور با اثر دشمن تھے۔ ایک قریش مکہ اور دوسرے یہود خیبر۔ دونوں سے بہ یک وقت دو دو ہاتھ کرنا آسان نہ تھا۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ نے ایک بڑے دشمن سے عدم جارحیت کا معاہدہ Non Agressive Pact کرکے اطمینان کر لیا۔ اب ایک دشمن رہ گیا تھا۔چند ہی دنوں میں لشکر اسلام نے خیبر کی طرف مارچ کیا اور اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ قریش مکہ ان کی مدد کے لیے نہیں آ سکتے تھے اس لیے کہ مسلمانوں سے معاہدہ صلح ہو گیا تھا۔ اہل خیبر کے ختم ہونے کے بعد اب صرف قریش ہی رہ گئے تھے جن میں کسی جنگ کے بغیر خود بخود اس تیزی سے اسلام پھیلنے لگا جس طرح خشک خس و خاشاک میں آگ پھیلتی ہے۔
حقائق کی ان تمام باریکیوں کو سمجھنے والا صرف ایک ہی انسان تھااور وہ تھا فرزند ابو قحافہ ( حضرت ابوبکر صدیق ) ۔ سیدنا عمر جیسا عاقل انسان بھی اس نکتہ کو برسوں کے بعد سمجھ سکا اور اپنی غلطی کے اعتراف کے طور پر ساری عمر خیرات وصدقات کرتا رہا۔ بہر حال جناب فاروق کی فریاد کے جواب میں جناب صدیق نے جو جواب دیا وہ محض تقاضائے عشق ہی نہ تھا بلکہ وہی تقاضائے عقل بھی تھا اور اس وقت اس عقل و حکمت کا حامل اس پوری امت میں سیدنا صدیق کے سوا کوئی نہ تھا۔
ایک اور مثال ملاحظہ ہو ۔ دنیا میں صحابہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کی جدائی سے زیادہ کوئی بڑا صدمہ تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ آنکھیں بند ہونے کی خبر سے سارے صحابہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ سیدنا عمر جیسا عاقل و دانا بھی اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ یہ ان سب کا عین تقاضائے عشق تھا۔ یہ عشق جناب صدیق اکبر میں بھی پورے عروج و کمال پر تھا لیکن ایسے نازک موقع پر مقتضائے عشق کے ساتھ ساتھ عقل و حواس کو قابو میں رکھنا اور لوگوں کو یقین دلانا کہ واقعی حضور ۖﷺ پردہ فرما چکے ہیں صرف صدیق اکبر کا کام تھا۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ تاہم آپ کے دو جملے پیش نظر رکھیے۔ ایک یہ کہ جسد مبارک کے پاس آکر پیشانی مبارک کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ "‘ آپ پر دوبارہ موت نہیں آئے گی۔” یعنی جو بشری موت آنی تھی وہ آ چکی۔ دوسرے وہ خطبہ دیکھیے جو اس کے بعد ہی مسجد نبوی میں آکر دیا ہے اس کے الفاظ ہیں : "تم میں جو محمد ۖ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ آپ ۖ کی وفات ہوچکی ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ محمد ۖ تو بس اللہ کے رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی رسول آکر گزرچکے ہیں۔ اگر آپ وفات پائیں گے یا قتل ہوںگے تو کیا تم الٹے پائوں پھر جائوگے۔”
دنیا کے کسی بڑے سے بڑے عاقل و فرزانہ خطیب کو لائیے، کیا وہ ایسے موقع پر جب کہ ہر ایک شخص پر عشق و دیوانگی کا عالم طاری ہو ایسا جامع و بلیغ اور عقل آفریں خطبہ دے سکتا ہے؟ جب ہی تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "‘ وما محمد الا رسول ۔۔۔” الخ والی آیت سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہم نے اس سے پہلے یہ آیت کبھی تلاوت ہی نہیں کی تھی۔ کیا امت میں عقل و عشق کا ایسا توازن رکھنے والا فرزند کبھی مادر گیتی نے جنا ہے؟ سچ فرمایا ہے حضور ۖ ﷺ نے کہ ”ما صب اللہ شیاً فی صدری الا صببة فی صدر ابی بکر ”( اللہ نے میرے سینے میں کوئی ایسی بات نہیں ڈالی جو میں نے ابوبکر کے سینے میں نہ انڈیلی ہو)۔ یعنی یہ تفسیر ہے فانزل اللہ سکینة علیہ کی ۔ (اللہ تعالیٰ نے صدیق اکبر کو اپنی طرف سے تسکین بخشی) ۔
ایک اور موقع ملاحظہ کیجئے۔ وفات سے پہلے حضور ۖ نے پانچ ہزار کا ایک لشکر ( جس کے سردار اسامہ بن زید تھے) رومیوں سے مقابلہ کے لیے شام کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ ابھی کچھ ہی دور لشکر گیا تھا کہ وفات نبوی ۖ کی خبر عام ہوگئی۔ ہر طرف ارتداد کے فتنے بری طرح پھیل گئے۔ مرکز کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ سب نے حتیٰ کہ عاقل و فرزانہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی رائے دی کہ "‘ پہلے گھر کی آگ بجھائیے۔ اس وقت ہر طرف فتنہ ارتداد پھیلا ہوا ہے۔ لشکر اسامہ کو نہ بھیجئے بلکہ پہلے گھر کے فتنوں کا سر کچلئے۔”‘ بات بڑی معقول تھی اور اسی لیے سب اسی پر مُصر تھے۔ لیکن نبی ۖ جیسی بصیرت رکھنے والا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تنہا اس رائے کا مخالف تھا۔ آپ نے فرمایا :”‘ حضور ۖ نے اپنے ہاتھوں سے جو لشکر جس مقصد کے لیے تیار فرمایا تھا یہ اسی مہم پر جائے گا۔” ساری دنیا ایک طرف صدیق تنہا ایک طرف۔ جناب صدیق کا یہ جواب عشق کے عین مطابق ہے لیکن بظاہر عقل کا تقاضا نہیں معلوم ہوتا۔ مگر کون جانتا تھا کہ جناب صدیق کا یہ جواب محض جواب عشق نہ تھا عین جواب عقل بھی تھا۔ آپ کے اصرار سے لشکر اسامہ روانہ ہوگیا جس سے دو زبردست فائدے ہوئے۔ ایک تو رومیوں کا سیلاب وہیں سرحد شام پر روک لیا گیا کیوں کہ وفات نبوی ﷺ کے بعد ان کا اہل اسلام پر یکایک ٹوٹ پڑنا عین قرین قیاس تھا۔ دوسرا عظیم فائدہ یہ ہوا کہ مرتدین مسلمانوں کا یہ حوصلہ دیکھ کر خود پست ہوگئے۔انہوں نے دیکھا کہ مسلمان تو ایسے بلند حوصلہ ہیں کہ رومیوں سے ٹکر لے رہے ہیں ان کی نگاہوں میں ہماری کیا ہستی ہے۔ یہ تو ہمیں پیس کر رکھ دیں گے۔ جناب صدیق کے اس اقدام سے ان کے حوصلے قدرتی طور پر پست ہوگئے۔اور ادھر آپ نے مختلف دستے مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیج دیئے اور تھوڑے ہی دنوں میں سارا فتنہ ختم ہوگیا۔ دیکھا آپ نے کس طرح صدیق کے عقل و عشق متوازی خطوط پر ایک حسین امتزاج کے ساتھ چل رہے ہیں ؟
ایک عجیب نازک موقع اور بھی ملاحظہ فرمائیے۔ بیٹی پر اتہام لگایاجاتاہے۔ کون سی بیٹی ؟ وہ جو اہل بیت رسول ہے ( بنص قرآنی)۔ جس کا فقہ اسلامی میں کوئی ہمسر نہیں۔جو رسول کی سب سے زیادہ چہیتی بیوی ہے۔ عصمت و پاکدامنی جس کے قدموں پر سجدہ ریز ہے۔ اس بیٹی پر منافقین اتہام لگاتے ہیں۔ اتہام بھی کیسا ؟ اس فعل کا جس سے شنیع کوئی فعل نہیں۔یہ کون ہے ؟ صدیق کی بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔ بڑے گھر کی بڑی بات۔ سارے زمانے میں خبر پھیل گئی۔ مقدمہ پیش ہوا۔لوگوں نے مخالف و موافق رائیں دیں۔ کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ سیدہ صدیقہ کا کھانا پینا چھوٹ گیا۔ بخار آنے لگا۔نحیف و نڈھال ہوکر پلنگ سے لگ گئیں۔کاشانہ نبوت سے اپنے باپ کے گھر آ گئیں۔کون باپ ہے جو اپنی لاڈلی بیٹی کا یہ حال دیکھ کر برداشت کرلے اور اس کا کلیجہ شق نہ ہو جائے۔ کون باپ ہے جو اپنی دختر پر ایسا فحش الزام سن کر آپے سے باہر نہ ہوجائے ۔ مگر اللہ اکبر ! یہ صدیق اکبر ہی کا جگر اور ان کا کلیجہ تھا کہ اس داستان کی پوری تاریخ میں آپ کو ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ملے گا جہاں اس صدیق نے بارگاہ رسالت میں سفارش کا ایک لفظ بھی زبان سے نکالا ہو۔وہ اپنے مشن میں کام کیے جاتاہے اور بیٹی کے معاملہ میں عقلاً و عشقاً آسمانی فیصلہ پر کلی اعتماد رکھتا ہے۔ یہ حوصلہ ، یہ ظرف ، یہ اعتماد ، یہ عقل اور عشق صدیق اکبر کے سوا اور کہاں نظر آسکتا ہے۔ جانب داری اور پاسداری حمیة الجاہلیة اور خاندانی عصبیت سے اتنی دور صدیق کے علاوہ کون رہا ہے ؟ علیٰ صاحبہ و علیہ الصلوٰة و السلام۔ یہ نازک ترین موقع وہ تھا جہاں ایک باپ کی عقل دیوانی ہوجاتی ہے لیکن صدیق کے عقلی توازن میں سر مو فرق نہیں آیا اور عشق جس مقام پر تھا وہیں رہا۔
ایک اور عجیب واقع ملاحظہ ہو۔ سیدنا صدیق کے عہد میں مسلمانوں کو وظائف دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیدنا فاروق نے تقسیم کا طریقہ کار یہ بتایا کہ "‘ جو لوگ سابقون اولون میں ہیں اور جن کی قربانیاں زیادہ ہیں ان کو مقدم رکھ کر انہیں وظیفہ دیا جائے اور جو لوگ آخر میں ایمان لائے اور جن کی قربانیاں بہت کم ہیں ان کو مؤخر رکھ کر وظیفہ کم رکھا جائے۔”‘ بات عقل کے مطابق تھی اور عشق کے اقدار کے خلاف بھی نہ تھی۔ لیکن جناب صدیق نے فرمایا کہ”‘ دنیا میں سب کی معاشی ضرورتیں یکساں ہوتی ہیں اس لیے سبھوں کو برابر وظیفہ ملنا چاہیے۔ رہا ان کا ایثار یا اولیت تو اس کی جزا اللہ تعالیٰ آخرت میں ان کو عطا کرے گا۔” عہد صدیق تک یہی انداز تقسیم رہا۔ سیدنا فاروق نے اپنے دور میں ترتیب یہ رکھی کہ قرابت داران رسول مثلاً عباس بن عبد المطلب، پھر ازواج مطہرات ، پھر اہل بدر ، پھر ۔۔۔۔۔ الخ۔ لیکن جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا ؟ سیدنا عمر نے فرمایا :”‘ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال سب کو برابر کردوں گا۔”‘ مگر افسوس کہ آپ جلد ہی شہادت کے درجہ پر فائز ہوگئے اور اپنے ارادے کی تکمیل نہ کرسکے۔ یعنی جو فیصلہ کم و بیش بارہ سال پہلے حضرت ابوبکر صدیق نے کیا تھا اس کی صحت اب کھلی تھی ۔ اس سے عقل صدیق کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ لیکن یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ حضرت عمر کو ایثار و اولیت کا عشق تھا اور جناب صدیق کو مساوات اور عوام کی معاشی ضروریات کا عشق تھا۔ یہ ہے توازن عشق و عقل۔ ان دونوں کا ایسا حسین امتزاج کسی اور میں نظر نہیں آسکتا۔
ہاں ایک موقع ایسا ہے جہاں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ عشق اور عقل کا توازن کیوں باقی نہیں رہا۔ وہ موقع یہ ہے کہ غزوہ تبوک کے لیے چندے کا دفتر کھلا ۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق بہت کچھ لایا۔ سیدنا عمر اپنا آدھا مال لے آئے۔ سیدنا صدیق اپنا ایک ایک تنکا تلاش کرکے سارا مال لے آئے۔ حضور ﷺ نے ہر ایک سے دریافت فرمایا کہ اپنے بال بچوں کے لیے کیا رکھا ہے؟۔ حضور ۖ کے سوال کے جواب میں کہ جس نے جتنا بھی مال اپنے بال بچوں کے لیے رکھا تھا وہ بتا دیا۔ جناب صدیق رضی اللہ عنہ سے جب حضور ﷺ نے پوچھا کہ تم نے اپنے اہل و عیال کے لیے کیا رکھ چھوڑا تو آپ نے جواب دیا کہ "اللہ ورسولہ” بس اللہ اور اس کا رسول اپنے گھر والوں کے لیے رکھ لیا ہے۔ یہ وہ جواب تھا جو کائنات کے ایک ایک ذرہ پر ہمیشہ کے لیے فخر و ناز کے ساتھ ثبت ہوگیا۔ یہ صحیح ہے کہ

ہر کہ عشق مصطفیٰ ۖ سامان اوست
بحر و بر در گوشئہ دامان اوست

لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں عشق و عقل دونوں کا توازن کہاں باقی رہا ؟ یہ تو سرا سر عشق تھا جس میں عقل دب کر رہ گئی۔ میری سمجھ میں اس کا جو جواب آتا ہے وہ یہ ہے :-
۱-عام طور پر صدیق کی زندگی میں عشق و عقل کا توازن ہی قائم رہا ہے۔اگر ایک موقع اس کے خلاف نظر آتا ہے تو اس سےتوازن عشق و عقل کا کلیہ نہیں ٹوٹتا۔
۲- توازن کے یہ معنی نہیں کہ عشق و عقل دونوں ہم وزن ہوں ۔ توازن کا مطلب یہ ہے کہ جس موقع پر جتنے عشق کی یا جتنے عقل کی ضرورت ہو اسی قدر وہ ظاہر ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کسی موقع پر نوے فیصد عشق اور دس فیصد عقل کی ضرورت ہو یا اس کے برعکس ہو ۔ اس صورت میں اتنا ہی توازن ہے۔
۳-یہ کیوں کر دعویٰ کیا جا سکتا ہے عشق کی فراوانی میں اہل و عیال کی عقلی کفالت کو جناب صدیق فراموش کر گئے ہوں۔ آپ تجارت کرتے تھے۔ آپ کو یقین ہوگا بال بچوں کی کفالت کے لیے بہت جلد کچھ آ جائے گا۔ لہٰذا اس وقت جو کچھ گھر میں تھا سب اٹھا کر لے آئے اور یہ عقل کا فیصلہ تھا۔ اس موقع پر ایک اور صحابی ہیں جو سونے کا ایک ڈلا لے کر حاضر ہوئے۔حضور ۖ نے پوچھا کہ بال بچوں کے لیے کیا رکھا ہے ۔ انہوں نے بھی یہ جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول۔ حضور ﷺ نے یہ جواب سن کر وہ سونے کا ڈلا اتنی زور سے ان کی طرف پھینکا کہ راوی کے بیان کے مطابق انہیں لگتا تو ضرور گہرا زخم آ جاتا۔ اس کے بعد حضور ۖنے فرمایا کہ "‘ عجیب لوگ ہیں کہ اپنا سب کچھ لے آتے ہیں اور جب میں پوچھتا ہوں کہ اپنے اہل وعیال کے لیے کیا رکھا ہے تو کہہ دیتے ہیں اللہ و رسولہ۔” دیکھنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ بالکل اسی بات پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کمال درجے کی خوشنودی ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے کے ساتھ اظہار ناراضگی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ حضور ۖ کے علم کے مطابق یہ دوسرا شخص اپنے بال بچوں کو تہی دست کر رہا تھا۔ حضور ۖ کو علم ہوگا کہ اس کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں اور جناب صدیق کے متعلق بھی حضور ﷺ جانتے تھے کہ یہ عاقل انسان قریب ترین مستقبل میں اپنے اہل و عیال کے لیے بھی کوئی بندوبست کر لے گا۔ اور اس کا یہ عقلی فیصلہ درست ہے کہ اس وقت جو کچھ ہے سب حاضر کردو۔ ‘اگر صرف عشق مطلوب ہوتا تو حضور دوسرے شخص سے بھی اظہار خوشنودی فرماتے۔
لیکن وہاں صرف عشق تھا اور یہاں صدیق کا فیصلہ مطابق عقل بھی تھا اور مطابق عشق بھی۔
دراصل یہ جواب اس پوری کائنات میں صرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص تھا۔
کوئی دوسرا ان کی ریس اسی وقت کرنے کا حق رکھتا تھا جب کہ اس کا فیصلہ بھی عشق و عقل دونوں کا مظہر ہوتا۔
غرض ہر قدم پر دیکھتے جائیے، ا س پوری امت میں عقل و عشق کا حسین ترین متوازن و مناسب امتزاج رکھنے والا فرزند ابو قحافہ کے سوا کوئی نظر نہ آئے گا۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.