الواقعۃ شمارہ : 61-62، جمادی الثانی و رجب المرجب 1438ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
ابھی کل کی بات تھی کہ ہمارے قلم نے حلب کی سر زمین پر آتش باری کا نوحہ لکھا تھا اور آج ادلب کی سوگوار فضا کا المیہ در پیش ہے۔ ارباب آئین و ریاست ہوں یا اصحاب منبر و محراب یا پھر ہنر مندانِ قلم و قرطاس کسی کے پاس فرصت نہیں کہ دم توڑتی لاشوں اور خوف و ہراس کی سراسیمہ فضاؤں پر ایک حرف تعزیت ہی ادا کریں۔ نغمہ شادی کے متوالوں کے پاس نوحہ غم کی فرصت کہاں ؟
انبیاء کی سر زمین- بلادِ شام – کا چپہ چپہ لہو لہو ہے۔ بستیاں اجڑ چکی ہیں، آبادیوں پر ویرانیوں کا غلبہ ہے، جن کوچوں میں کبھی معصوم مسکراہٹیں تھیں آج وہاں دہشت کا سناٹا ہے۔
وحشت و سراسیمگی کا بیج اس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتا جب تک یقین و عمل کی قوت شکست نہیں کھا جاتی۔ اور پھر وہ بستیاں جو محض بستیاں ہی نہ ہوں بلکہ جہاں کی فضائوں میں صدائے تکبیر بلند ہوتی ہو وہ اس وقت تک ویران نہیں ہو سکتی جب تک مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی اعتقادِ عمل کی دولت سے محروم نہیں ہو جاتی۔ سر زمینِ شام ایمان و کفر کا میزان ہے جہاں نفاق کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
آج امت مسلمہ اس درجہ مضمحل و منتشر ہو چکی ہے کہ ان کی آبادیاں ویران ہو رہی ہیں اور وہ اس کا درد بھی اپنے قلب میں محسوس نہیں کر سکتے۔
مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی سب سے بڑی معصیت یہ ہے کہ وہ اتحادِ قومی سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے افلاک و اہلاک کے ذمہ دار خود ہی ہیں۔ کسی نے انہیں زندگی کی شاہراہ میں نہیں ہرایا، وہ خود ہی دل ہار بیٹھے ہیں۔ اور معلوم ہے کہ اسے تو جتایا جا سکتا ہے جو لڑتا ہو مگر جس نے دل ہی ہار دیا ہو اس میں زندگی کی رمق کیسے پیدا ہو؟
آج مسلمان اعتقادِ عمل کے سارے خصائص سے یکسر محروم ہو گئے ہیں اور اس کی جگہ زندگی کی ساری رذالتوں نے لے لی ہے۔ اس انجام بد کے لیے سب سے زیادہ قصور وار وہ خود ہی ہیں۔ اسلام کو دنیا کی کسی طاقت سے کسی درجہ بھی کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اگر کوئی خطرہ ہے تو خود اپنے پیروئوں کی بد عملی اور بد اعتقادی سے۔ اعتقاد و عمل کی ایسی بدکاری، جس کی پرستش ترک کرنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ان کے عمل کی ہر سیاہی اعمالِ گزشتہ سے بڑھ کر تاریک و سیاہ ہے۔ ظلمات بعضھا فوق بعض کا منظرِ قبیح ہے۔
اعمالِ صالحہ کا درخت کبھی بے عملی کے بیج سے پروان نہیں چڑھ سکتا۔ ہم جب تک ان کنتم مؤمنین کے مخاطبِِ صحیح نہ بنیں ، ممکن نہیں کہ لا تھنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون کی نوید کے حقدار ٹھہریں۔
کیا یہ رذالتِ عملی اور ضعفِ ایمانی کی انتہا نہیں کہ معصوم بچے کیمیائی حملوں کے نتیجے میں خون کی قے کر کر کے جانیں دے رہے ہیں اور ہم ابھی تک اسی اضطراب میں ہیں کہ ان کی اخلاقی تائید کریں یا نہ کریں۔ اس خوف اور اندیشے نے ہمیں بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے کہ مظلومانِ شام کے لیے بلند ہونے والی ہماری آواز کہیں ظالم اور اس کے ہمنوائوں پر گراں نہ گزرے۔
معصوم بچوں کی خاموش ہوتی نبض، دم توڑتی سانسیں اور دل کا ساتھ چھوڑتی دھڑکنیں بھی ہمارے قلب و نظر کی دنیا میں کوئی ہیجان پیدا نہیں کر پاتیں ، انقلابِ عمل کا طوفان کیا بپا کریں گی۔
دنیا میں اس وقت متعدد مقامات ہیں جہاںخونِ مسلم کی ارزانی ہے، جہاں ان پر زندگی اور اسبابِ زندگی تنگ کیے جا رہے ہیں لیکن ارض شام (۱) "حق و باطل کے معرکہ آخر” کا استعارہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی یہ مقدس سر زمین قسامِ ازل نے حق و باطل کے آخرے اور فیصلہ کن معرکے کے لیے مخصوص کی ہے۔ یہیں دجال کی فوجیں لشکرِ اسلامی سے ٹکرائیں گی اور اسی خاک مقدس میں ( بمقام لُد ، جو موجودہ اسرائیل میں ہے ) وہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔
بیسان کے نخلستان جو کبھی پھلوں سے لدے تھے ، اب اجڑ چکے ہیں۔ طبرستان کے دریا خشک ہو چکے ہیں۔ چشمہ زغر سوکھ چکا ہے اور اس کے اطراف کی ہریالی بنجر ہو چکی ہے۔ زمین پیاسی ہے اور آسمان روٹھ گیا ہے۔ شاید دجال بھی کہیں قریب ہی اپنے خروج کے انتظار میں ہے۔ (۲)
بے شک آج مسلمان ان کے غم کو اپنے سینے میں محسوس نہ کریں۔ نفاقِ عمل نے وحدتِ ایمان و عقیدہ سے خواہ کتنا ہی برگشتہ کر دیا ہو لیکن بخوبی جان لیں کہ ملاء اعلیٰ کی بلندیوں پر اہل شام کی ہر غم ناکی اور درد کی دوا ہوگی۔ اہل ایمان قلوب ہمیشہ ان کے غم سے اپنے دل کو آباد رکھیں گے کہ وہ اہلِ شام کا نوحہ کیوں نہ کریں جب کہ ان کی بربادی کا ماتم صدیوں قبل زبانِ رسالت ﷺ نے ان الفاظ میں کیا تھا:-
"إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ، فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ۔” (مسند احمد، مسند ابی داود الطیالسی، الآحاد و المثانی لابن ابی عاصم، صحیح ابن حبان، المعجم الکبیر للطبرانی)
"جب اہل شام میں فساد پھیل جائے گا تو تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی۔”
اہل شام کا فسانہ غم پوری امت مسلمہ کی داستانِ الم ہے۔ آئیے ! خاتمہ خیر کا نوحہ پڑھ لیں۔
حواشی
(۱) احادیث کی روشنی میں ارضِ شام سے مراد محض موجودہ مملکت شام نہیں، بلکہ اس میں لبنان ، اردن، فلسطین اور مقبوضہ اسرائیل بھی شامل ہے۔
(۲) بیسان کے نخلستان، طبرستان کے دریا اور چشمہ زغر ۔ یہ سب حدیث تمیم داری ( رضی اللہ عنہ ) کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے مطابق ان علامتوں کے ظہور کے بعد دجالِ اکبر کا خروج ہوگا۔ مخبر صادق ﷺ کے ماننے والے دیکھ لیں کہ یہ پیش گوئی اپنی تکمیل کے کس مقام پر ہے۔