الواقعۃ شمارہ : 58 ، ربیع الاول 1438ھ
از قلم : محمد زبیر شیخ ، ملتان
کسی سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کے لیے ہمارے ہاں زیادہ تر لفظ عشق استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لفظ ہماری محبت اور عقیدت کو بالکل صحیح انداز سے واضح کردیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عشق اور محبت وعقیدت میں بہت فرق ہے۔ آئیے اس فرق کو جاننے کے لیے مستند عربی لغات کی طرف چلتے ہیں تاکہ حق معلوم ہونے کے بعد ہم اپنی سابقہ غلطیوں سے رجوع کرکے صحیح بات کی طرف پلٹیں۔
محبت کا معنی
امام اللغة مجد الدین أبو طاہر محمد بن یعقوب الفیروز آبادی (المتوفی : ۸۱۷ھ ) اپنی کتاب "القاموس المحیط” میں تحریر فرماتے ہیں:-
"الحُبُّ : الوِدادُ، کالحِبابِ والحِبّ، بکسرہما، والمَحَبَّةِ والحُبابِ بالضم”
"حُبّ کا مطلب ہے محبت۔ حِبابِ، الحِبّ، المَحَبَّةِ، الحُبابِ کے بھی یہی معنی ہیں۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب کہتے ہیں۔” (القاموس المحیط للفیروز آبادی، ج:ا، ص:۷۰، طبع :مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزیع، بیروت لبنان)
محمد بن مکرم بن علی، أبو الفضل، جمال الدین ابن منظور الأنصاری الرویفعی الفریقی (المتوفی : ۷۱۱ھ) اپنی کتاب "لسان العرب” میں رقم طراز ہیں:-
"حُبّ کا متضاد بغض ہے۔ حُبّ کے معنی پیار و محبت ہیں۔ حُبّ کو حِبّ بھی کہتے ہیں۔ محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب یا مُحَبّ کہتے ہیں۔” (لسان العرب لابن منظور الفریقی، ج : ۱، ص : ۲۸۹، طبع : دار صادر بیروت)
أبو نصر سماعیل بن حماد الجوہری الفارابی (المتوفی : ۳۹۳ھ) نے بھی اپنی کتاب "الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة” میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔ (دیکھیے الصحاح للجوہری، ج : ۱، ص : ۱۰۵، طبع:دار العلم للملایین بیروت)
امام أبو القاسم الحسین بن محمد المعروف بالراغب الأصفہانی (المتوفی: ۵۰۲ھ) اپنی کتاب "المفردات فی غریب القرآن” میں محبت کی تعریف یوں کرتے ہیں:-
"المحبَّة : رادة ما تراہ أو تظنّہ خیرا”
"کسی چیز کو اچھا اور مفید سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا، اسے چاہنا محبت ہے۔” (ج : ۱، ص : ۲۱۴، طبع:دار القلم، الدار الشامیة – دمشق بیروت)
عشق کا مفہوم
آئیے اب لفظ عشق کا معنی و مطلب دیکھتے ہیں:
امام فیروز آبادی لکھتے ہیں:-
"عُجْبُ المُحِبِّ بمَحْبوبِہ، أو فْراطُ الحُبِّ، ویکونُ فی عَفافٍ وفی دَعارةٍ، أو عَمَی الحِسِّ عن دْراکِ عُیوبِہِ، أو مَرَض وسْواسِیّ یَجْلُبُہ لی نَفْسِہ بتَسْلیطِ فِکْرِہِ علی اسْتِحْسانِ بعضِ الصُّوَر۔”
"محب کا اپنے محبوب کو بہت زیادہ پسند کرنا، یا محبت میں غلو کرنا۔یہ محبت پاک بازی کی حدود میں بھی ہو سکتی ہے اور بدکاری میں بھی۔ یا پھر عشق کہتے ہیں: محبوب کے عیوب دیکھنے کی حس سے محروم ہوجانا۔ یا پھر عشق ایک مرض ہے جو عاشق کو خیالوں کی وادی میں دھکیل دیتا ہے کہ بعض صورتیں اس کو اچھی لگنے لگتی ہیں۔”( القاموس المحیط للفیروز آبادی، ج :۱، ص : ۹۰۹)
لسان العرب میں تقریباً یہی مفہوم موجود ہے۔ (لسان العرب لابن منظور، ج : ۱۰، ص : ۲۵۱) اور یہی مفہوم امام جوہری کی الصحاح میں ہے۔ (ج : ۴، ص : ۱۵۲۵)
امام ابن فارس اپنی کتاب "مقاییس اللغة” میں لکھتے ہیں:-
"عشق محبت کی حدود کو پھلانگنے کا نام ہے۔” (مقاییس اللغة لابن فارس، ج : ۴، ص : ۳۲۱، طبع:دار الفکر)
امام ابن ابی العز "شرح عقیدہ طحاویہ” میں فرماتے ہیں :-
” عشق اس بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں جس میں عاشق کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔”
مزید لکھتے ہیں کہ
” عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں شہوت ہوتی ہے۔” (ص : ۱۶۵، طبع : دار السلام)
محبت اور عشق میں فرق
محبت اور عشق میں جو فرق ہے، اسے امام أبو ہلال الحسن بن عبد اللہ بن سہل بن سعید بن یحیی بن مہران العسکری (المتوفی : قریباً ۳۹۵ھ ) یوں بیان کرتے ہیں:-
"ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ عشق کہتے ہیں معشوق سے اپنی مراد و مطلوب حاصل کرنے کی خواہش۔ اسی لیے اچھا کھانے کی چاہت کو عشق سے تعبیر نہیں کیا جاتا ۔ "
"اسی طرح عشق اس خواہش کو بھی کہا جاتا ہے جو حد سے بڑھ جائے اور عاشق اگر اسے پورا نہ کرسکے تو وہ خواہش اسے مار ڈالتی ہے۔” (الفروق اللغویة للعسکری، ج : ۱، ص : ۱۲۲، طبع : دار العلم والثقافة للنشر والتوزیع، القاہرة مصر)
محبت اور عشق میں فرق اس انداز سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ محبوب محبوب ہی رہتا ہے، کوئی محبّ ہویا نہ ہو جبکہ معشوق معشوق نہیں ہوتاجب تک کوئی عاشق نہ ہو۔
محبت کا تعلق اور نسبت رب، رسول کی اور ہر ایک کی طرف کی جاسکتی ہے جبکہ عشق کا تعلق صرف معشوق سے ہوتا ہے۔
محبّ ساری دنیا کے لیے سکون کا طلب گار ہوتا ہے جبکہ عاشق صرف اپنی جنسی تسکین چاہتا ہے۔ (ملخصاً از میں محبت کس سے کروں از الشیخ عظیم حاصل پوری، ص : ۲۳)
معلوم ہوا کہ عشق ایک مذموم فعل ہے جبکہ محبت ایک پسندیدہ فعل ہے۔
عشق کی شرعی حیثیت
قرآن و حدیث میں عقیدت و الفت کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ محبت ہی استعمال ہوا ہے۔ لفظ عشق کا استعمال ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ زلیخا کو یوسف علیہ السلام سے جو تعلق پیدا ہوگیا تھا، وہ تو ہر لحاظ سے عشق ہی تھا، لیکن قرآن مجید میں اس موقع پر بھی عشق کا لفظ لانے کی بجائے حُبّ کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ اس لفظ کے استعمال سے کس قدر پرہیز کرنے والے ہیں۔
ایک اشکال
بعض لوگ عشق کے ثبوت میں ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ نبی ﷺ ۖنے فرمایا:-
”من عشق، فعف، وکتم، وصبر، ثم مات کان شہیداً”
"جس نے عشق کیا، پھر پاک دامن رہا، اسے چھپایا اور صبر کیا، پھر مر گیا تو وہ شہید ہوگا۔ "
ازالہ
یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: سلسلة الاحادیث الضعیفة للألبانی رحمہ اللہ، ح : ۴۰۹۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان عُشَّاق بروزن فُسَّاق نے احادیث کو بھی معاف نہیں کیا اور اپنے پاگل پن کا ثبوت دینے کے لیے نبی ﷺپر جھوٹ بولنے سے بھی پرہیز نہیں کیا اور یوں نبی ﷺکی اس حدیث کا مصداق بنے کہ :
"مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ۔”
"جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔” (صحیح البخاری : ۳۴۶۱)
عشق عقلی میزان میں
عشق ایک دیوانگی ہے جو عاشق سے عقل و شعور کو ختم کرکے اسے پاگل پن میں مبتلا کر دیتی ہے جس کے بعد اسے کسی قسم کے نفع ونقصان کی تمیز نہیں رہتی، بس اپنی خواہش کو پورا کرنے اور معشوق کو حاصل کرنے کا خیال اس پر ہر وقت حاوی رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے کام سے عاجز ہوکر بیکار بن کر معاشرے میں عضو معطل بلکہ ایک بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔ مثال درکار ہو تو لیلی کے مجنوں کو دیکھ لیجئے، سسی کے پنوں کا جائزہ لیجئے، ہیر کے رانجھے کی داستان پڑھیے۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو اپنے اردگرد پھرتے، آہیں بھرتے، رت جگا کرتے، ہر شے سے بے خبر، بس اک معشوق میں مگن کسی نوجوان کو دیکھ لیجئے جو آپ کو عین انہی صفات کا حامل نظر آئے گا جو اوپر درج کی گئی ہیں۔
مُحِبّ رسول یا عاشق رسول؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مؤمن ومسلمان کو سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول ﷺسے محبت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کی آیات اور احادیث اس کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت الہٰی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:-
وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ (البقرة : ۱۶۵)
"ایمان والے اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔”
اور محبت رسول ﷺ کے بارے میں پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:-
"لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ، حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ ِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔” (صحیح البخاری : ۱۵)
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوںسے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔”
ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے یہ بات قسم اٹھا کر بھی فرمائی ہے۔ (صحیح البخاری :۱۴)
سوال یہ ہے کہ کیا اس شدید اور سب سے زیادہ محبت کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ عشق کا استعمال صحیح ہے؟ تو اس کا صاف، سیدھا ، واضح اور دو ٹوک جواب یہی ہے کہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً:-
(۱ ) لفظ عشق کا معنی اور مفہوم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار کے لیے استعمال کیا جائے کیونکہ عشق میں جو محبت ہوتی ہے، وہ شہوت سے پُر ہوتی ہے۔
(۲) اگر اس معنی سے صرف نظر کر لیا جائے اور بڑی بڑی پگڑیوں والے اپنے آپ کو عاشق کہلوابھی لیں تو کیا خواتین کے لیے اس لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی کہ وہ بھی عاشقان رسول کہلوا لیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا خواتین کے لیے الگ اسلام ہے اور مردوں کے لیے الگ؟
(۳) اہل بیت سے محبت ، عقیدت اور ان کی عزت کا خیال رکھنے کا ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔(صحیح مسلم : ۲۴۰۸ ) اہل بیت میں ازواج مطہرات اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن بھی شامل ہیں، کیا ان کے لیے بھی یہی لفظ استعمال کیا جائے گا؟ جو لوگ ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج سمجھتے ہیں اور پنجتن پاک کا نعرہ لگاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں پنجتن پاک سے محبت اور عشق ہے، کیا وہ اس پنجتن کے ایک ایک فرد کا نام لے کر عاشق ہونے کا اظہار کرسکتے ہیں ؟ مثلاً: عاشق رسول، عاشق علی، عاشق حسن، عاشق حسین تو ہر کوئی کہلوانے کو تیار ہوجاتا ہے لیکن عاشق فاطمہ لوگ نہیں کہلواتے۔ کیوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ سب سمجھتے ہیں کہ لفظ عشق کا استعمال مقدس ہستیوں کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔
(۴) ہر شخص یہ بات کہتا ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ سے محبت ہے۔ مجھے اپنے والدین سے محبت ہے۔ مجھے اپنی بہنوں سے محبت ہے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو زبان پر لا سکتا ہے کہ میں اپنی والدہ یا بہن یا بیٹی کا عاشق ہوں ؟ اگر نہیں تو کیا اللہ اور نبی ﷺ کی ذات مبارک ہی اتنی گئی گزری ہے کہ بے تکلف لوگ اپنے آپ کو عشق الہٰی میں غرق اور عاشق رسول کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں؟
عشق کا جواز اقبال سے
بعض لوگ جب کوئی اور چارہ نہیں دیکھتے تو فوراً کہتے ہیں کہ دیکھو جی ! علامہ اقبال نے بھی تو اپنی شاعری میں لفظ عشق کو استعمال کیا ہے اور بے تحاشا کیا ہے۔ کیا وہ بھی غلط تھے؟
اشکال کا حل
اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ ہوں یا کوئی اور صاحب علم و دانش، ہمارے لیے اصل دلیل قرآن وحدیث ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علامہ صاحب نے اسے اس کے مروجہ معانی ومفاہیم سے نکال کر ایک نئے معنی یعنی جوش، جنوں، انجام کی طرف دھیان دیے بغیر کام کرجانا وغیرہ میں استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:-
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
مذکورہ بالا شعر میں وہ لفظ عشق کو عقل کے مقابلے میں لے کر آئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عقل انسان کو آگ میں چھلانگ لگانے سے روکتی ہے، لیکن یہ ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ ایمانی ہی تھا جس نے انہیں عقل کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے رب کی خاطر آگ میں کود جانے پر آمادہ کیا۔
معلوم ہوا کہ علامہ صاحب کے طرز عمل سے استدلال غلط ہے اور صحیح بات وہی ہے کہ اس لفظ کا استعمال عموماً اور اللہ اور رسول ﷺ کی طرف نسبت کرکے استعمال کرنا خصوصاً غلط اور ناجائز ہے۔
سنا ہے آپ ﷺہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
ہمارے ہاں اکثر گلیوں، بازاروں میں دیواروں پر اور دکانوں اور گھروں میں کیلنڈرز وغیرہ پر یہ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ
سنا ہے آپ ﷺہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
میرے گھر میں بھی چراغاں ہوجائے یا رسول اللہ ﷺ
یہ شعر، اگر اسے شعر کا نام دیا جانا درست ہو، بالکل غلط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سنی سنائی بات ہے ، کوئی پختہ اور مضبوط بات نہیں جیسا کہ شاعر موصوف کا اقبالی بیان ہے۔ اور سنی سنائی بات کا شریعت میں جو مقام ہے، وہ اس حدیث سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ
"کَفَی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔” (صحیح مسلم : ۵ )
"کسی بھی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔”
پھر یہ سنی سنائی بات قرآن وحدیث کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی وفات کا تذکرہ کیا ہے۔ اور احادیث ہمیں بتاتی ہیں کہ نبی ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ اور وفات کے بعد نبی ﷺ کا مقام اور ٹھکانہ احادیث کی رو سے جنت ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک لمبی روایت موجود ہے کہ دو فرشتوں نے خواب میں نبی ﷺکو چند ایک مقامات کی سیر کروائی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ذرا اوپر نظر اٹھا کر تو دیکھیے۔ آپ ﷺ نے جب دیکھا تو ایک محل نظر آیا جو سفید بادلوں جیسا تھا۔فرشتوں نے جب بتایا کہ یہ آپ کا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:مجھے اس میں جانے دو۔ اس پر فرشتوں نے جواب دیا
"اِنَّہُ بَقِیَ لَکَ عُمُر لَمْ تَسْتَکْمِلْہُ فَلَوِ اسْتَکْمَلْتَ أَتَیْتَ مَنْزِلَک۔”
ابھی آپ ﷺکی عمر کے کچھ سال باقی ہیں۔ جب وہ پورے ہوجائیں گے تو آپ ﷺ اپنے اس محل میں تشریف لے جا سکیں گے۔ (صحیح البخاری : ۱۳۸۶)
معلوم ہوا کہ نبی ﷺ اب اپنی حیات دنیوی پوری کرنے کے بعد جنت میں اپنے محل میں تشریف فرما ہیں۔ اور جنت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کے قید خانے میں کون آنا چاہے گا ؟ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:-
"الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ۔”(صحیح مسلم : ۲۹۵۶ )
"دنیا مؤمن کے لیے قیدخانہ ہے۔”
اسی طرح رسول رحمت ۖفرماتے ہیں :-
"مَا مِنْ عَبْدٍ یَمُوتُ، لَہُ عِنْدَ اللہِ خَیْر، یَسُرُّہُ أَنْ یَرْجِعَ ِلَی الدُّنْیَا، وَأَنَّ لَہُ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، ِلَّا الشَّہِیدَ لِمَا یَرَی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَةِ، فَاِنَّہُ یَسُرُّہُ أَنْ یَرْجِعَ ِلَی الدُّنْیَا، فَیُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَی۔” (صحیح البخاری : ۲۷۹۵)
مرنے کے بعد جس بندے کے لیے اللہ کے ہاں خیر و بھلائی ہوگی، وہ کبھی بھی دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرے گا، چاہے اس کے لیے ساری دنیا ہی کیوں نہ وقف کر دی جائے۔ سوائے شہید کے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ اس نے شہادت کی جو فضیلت دیکھی تھی، وہ اسے آمادہ کرے گی کہ وہ دنیا میں لوٹ آئے اور دوبارہ اللہ کے راستے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دے۔
ان احادیث کے پیش نظر یہ کہنا کہ سنا ہے آپ ﷺ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں بالکل غلط ثابت ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح کے یہ عاشق ہیں، نبی ﷺ تو انہیں دیکھنا ہی پسند نہ فرمائیں گے کیونکہ شرک وبدعات میں یہ ڈوبے ہوئے، فرائض کے تارک اور سنتوں کا مذاق اڑانے والے ہیں، ان کے گھر تشریف لانا تو دور کی بات ہے!!!
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث پر چلنے اور سیرت کے اصل پیغام توحیدوسنت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین