بیت المال کا اسلامی تصور


الواقعۃ شمارہ 56، محرم الحرام 1438ھ

از قلم : ابو نصر فاروق ، پٹنہ

جب کسی امت پر زوال طاری ہوتا ہے تب عقیدہ و ایمان اور عمل خیر و شر کے تعلق سے اس کے اساسی تصورات خلط ملط ہو جاتے ہیں اور زندگی صراط مستقیم سے محروم ہو کر جہالت کی گمراہیوں میں بھٹکنے لگتی ہے۔ ایک قادر مطلق حاکم اعلیٰ کے ہوتے ہوئے بھی اس کے ہونے کا یقینی تصور ذہنو ں سے اوجھل ہو جاتاہے اور قدم قدم پر اس سے بغاوت ہونے لگتی ہے اور جس حاکم کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے اس کو حاکم جابر سمجھتے ہوئے تقویٰ اور خشیت کے ساتھ اس کی تابع داری ہونے لگتی ہے۔ جب ہندوستان میں انگریز آئے تو یہاں انجمن سازی کا چلن شروع ہوا۔ہر انجمن کا ایک صدر ہوتا ہے اور اس کا ایک مالیاتی فنڈ بھی ہوتا ہے۔ زوال آمادہ مسلمانوں نے انجمن کو جماعت اور انجمن کے فنڈ کو بیت المال تصور کر لیا اور اس کی پیروی کرنے اور کرانے لگے۔قرآن کہتا ہے:-

الَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ( الحج : ۴۱ )

"وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں غلبہ عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰة دیں گے اور معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور انجام کار بھلائی انہیں کے لیے ہے۔”

یعنی اللہ تعالیٰ جب چاہے گا تو اپنے صالح اور فرما ں بردار بندوں کو زمین میں خلافت و حکومت عطا فرمائے گا۔یہ خلافت جو دراصل اسلامی حکومت ہوگی اس کی ذمہ داریوں میں اولین ترجیح نماز اور زکوٰة کو دی جائے گی اور اسی کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا کیا جائے گا۔جو فرد بھی اجتماعیت(یعنی حکومت) سے الگ رہے گا اس کی موت حالت ایمان میں نہیں بلکہ حالت کفر میں ہوگی۔ خلافت (اسلامی حکومت) میں جو مسلمان بھی جان بوجھ کر نماز کو ترک کرے گا اس کو ایمان و اسلام کے زمرے سے باہر شمار کرتے ہوئے غیر مسلم قرار دیا جائے گا اور مرنے کے بعد مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "آدمی اور اس کے شرک و کفر کے درمیان (فرق) نماز کو چھوڑنا ہے۔”(صحیح مسلم)

اسی طرح جو مسلمان اپنی زکوٰة حکومت کے خزانے(بیت المال) میں جمع نہیں کرے گا حکومت اس کے خلاف جہاد چھیڑے گی اور اسے کافر قرار دیتے ہوئے اس کو قتل کر دے گی۔

فَاِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّکَاةَ فَخَلُّواْ سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّہَ غَفُور رَّحِیْم ( التوبۃ : ۵ )

"پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤاور انہیں پکڑو اور گھیرواور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں توانہیں چھوڑ دو۔اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔”

اسی آیت کی رو سے حضرت ابوبکر صدیق بیت المال میں زکوٰة ادا نہیں کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنا چاہتے تھے۔خلافت (اسلامی حکومت) میں ایک محکمہ ہوگا جو نگرانی کرے گا کہ لوگ شریعت کے احکام کی پیروی کر رہے ہیں یا نہیں اور شریعت نے جن کاموں سے منع کیا ہے اس سے پرہیز کر رہے ہیں یا نہیں۔اس کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ حکومت نے ہر صاحب مال و زر کو ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو ٹیکس نہیں ادا کرے گا وہ جیل جائے گا۔ اسی طرح شراب پر پابندی لگا دی ہے جو شراب پئے گا وہ بھی جیل جائے گا۔اس میں ایک معروف ہوا اور ایک منکر ہوا۔

خلافت (اسلامی حکومت) کا جو مالیاتی نظام ہوگا اس کا نام ہے بیت المال۔حکومت کو زکوٰة، صدقات، عطیات،اوقاف،فدیے،مال غنیمت اور فے سے جو بھی آمدنی ہو گی وہ سب بیت المال میں جمع کی جائے گی۔ بیت المال کو جدید اصطلاح میں آپ Ministry of Financeسمجھئے۔زکوٰة کی مد میں صرف نقد رقم ہی نہیں آئے گی،غلہ، مویشی، سونا، چاندی اورہر طرح کے اسباب جمع ہوں گے۔ ان کی تحصیل، تقسیم، نگرانی،حساب و کتاب اور پہرے داری کے لیے ایک پورا عملہ بحال کیاجائے گا جو سال بھر حکومت کا ملازم بن کر یہ کام کرتا رہے گا۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی معاشی مصروفیت نہیں ہو سکے گی۔یعنی وہ کہیں Part time job نہیں کرپائے گا۔اس پورے عملے کو عاملین علیہا کی مد سے تنخواہ اور دیگر سہولیات مہیا کرائی جائیں گی۔خلیفہ کے لیے بیت المال ایک امانت ہوگا جس میں سے وہ اپنی خواہش اور پسند سے کچھ بھی خرچ نہیں کر پائے گا۔ہرخرچ قانون شریعت کے مطابق ہوگا۔کسی کو دیا جائے گا تو اللہ کے حکم سے اورکسی کو نہیں دیاجائے گا تو وہ بھی اللہ کے حکم سے۔اگر بیت المال کی کوئی چیز غائب ہو جائے گی تو بیت المال کے ذمہ داروں سے باز پرس نہیں ہوگی ۔خلیفہ خود اس کو تلاش کر کے واپس لائے گا کیونکہ اللہ کے سامنے اس خسارے کی جواب دہی خلیفہ کی ہے بیت المال والوں کی نہیں۔اور اگر خلیفہ وقت محتاج و مجبور تک بیت المال کی امدادپہنچانے میں کوتاہی کرے گا تو وہ اپنے غلام سے مدد نہیں لے گا بلکہ اپنے کاندھوں پر غلے کی بوریاں اٹھا کر حاجت مند تک پہنچائے گا(حضرت عمر کا اونٹ تلاش کرنے اور محتاج خاتون تک غلہ پہنچانے کا واقعہ)۔ بیت المال کے آمد و خرچ میں اگر کسی بھی فرد کو شکایت ہوگی تو وہ بلا جھجھک خلیفہ سے کیفیت طلب کرے گا اور خلیفہ کو عوام کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنی ہوگی(حضرت عمر کے کرتے کا واقعہ)۔بیت المال کی کوئی چیز اگر کوئی مسلمان چوری کرے گا تو وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ابوہریرہ کہتے ہیں ، رسول اللہ ۖ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا جس میں مال غنیمت کی چوری کے مسئلے کو بڑی اہمیت کے ساتھ پیش کیا۔آپ ﷺۖ نے فرمایا:-

"میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ ہے جو زور سے بلبلا رہا ہے اور یہ آدمی کہہ رہا ہے اے اللہ کے رسول ﷺ! میری مدد فرمائیے اور میں کہوں میں تیری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا، میں نے تو دنیا میں تجھ تک بات پہنچا دی تھی ۔” (بخاری،مسلم)

اب آپ غور فرمائیے کہ وطن عزیز میںجتنی جماعتیں ہیں ان میں ایسی کونسی اجتماعیت کہ جس سے باہر رہنے والاکافر کی موت مرے گا ؟ خلیفہ کے ہوتے ہوئے اگر کوئی دوسرا فرد خلیفہ ہونے کا دعویٰ کرے گا تو پہلے سے موجود خلیفہ اس کو قتل کر دے گا۔جتنے امیر ہیں ان میں اصلی خلیفہ کون ہے اور نقلی خلیفہ کون ہے ؟ کس کو زندہ رہنے کا حق ہے اور کس کا قتل واجب ہے ؟ کس جماعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا محکمہ قائم کر رکھا ہے جو مسلمانوں کو باجماعت نماز نہیں ادا کرنے پر اوربدعی طلاق دینے پر کوڑے لگانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے ؟ کس جماعت یا ادارے کا بیت المال وہ بیت المال ہے جس میں زکوٰة ادا نہیں کرنے پر مسلمان کافر قرار پائے گا اور اس کا قتل جائز ہو جائے گا ؟ کیا بیت المال رکھنے کے دعوے دار اپنے یہاں آمد و خرچ کا مکمل حساب و کتاب رکھتے ہیں۔ اکاؤنٹنگ کا جو موجودہ طریقہ رائج ہے اس کے مطابق ان کے یہاں Income & Expenditureکا Statement تیار کیا جاتا ہے ۔ ہر سال اس کا آڈٹ کرایا جاتا ہے۔اگر نہیں تو کیسے سمجھا جائے گا کہ کتنی رقم کہاں سے کس کس مد میں آرہی ہے اور کہاں کہاں کن کن مدات میں خرچ ہو رہی ہے۔جب رسول اللہ ۖﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق تیس سال کے بعد خلافت کا خاتمہ ہو گیا اور بتدریج بادشاہت رواج پاگئی تو حکومت کا بیت المال شاہی خزانہ بن گیااور بادشاہ کو یہ حق حاصل ہو گیا کہ وہ جیسے چاہے اس خزانے کو خرچ کرے۔رعایا میں کسی کو ہمت نہ تھی کہ دور فاروقی کی طرح بادشاہ سے خزانے کے خرچ کا حساب مانگے۔اس وقت سے لے کر آج تک یہ صورت حال باقی ہے کہ ہر جماعت کے بیت المال پر اس کے سربراہ اور اس کے حاشیہ برداروں کو اختیار ہے کہ جیسے چاہیں جہاں چاہیں خرچ کریں اور کسی کو ہمت نہیں ہے کہ ان سے سوال کر سکے۔ اہل جماعت اور اہل امارت میں اقتدار اور دولت کی ہوس اتنی بڑھ چکی ہے کہ زمین ، جائیداد اور آمدنی کے لیے آپس میں مار دھاڑ، مقدمہ بازی اور قتل و خوں ریزی تک ہو رہی ہے۔پہلے یہ معاملہ عوام سے پوشیدہ تھا لیکن اب اخباروں میں اس کے چرچے عام ہو چکے ہیں۔

ہندوستان کے ایک بڑے عالم، مفکر اور دانشور نے بہت صحیح بات کہی تھی کہ سمندر میں جہاز چلا جارہا تھا۔ مسافر اس جہاز پر سوار اپنی منزل کی طرف گامزن تھے۔ اچانک طوفان آیا اور جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ طوفان کی وجہ سے بے شمار لوگ ڈوب گئے۔ٹوٹے ہوئے جہاز کا جو تختہ جن لوگوں کے ہاتھ لگا انہوں نے اس پر سوار ہو کر اپنی جان بچائی اورتختے پر بہتے ہوئے تقدیر کے سہارے ساحل تک پہنچنے کی آس لگائے رہے۔ بعد میں ان تختے پر بہنے والوں نے دعویٰ کرنا شروع کیا کہ وہ تختے پر نہیں جہاز پر سفر کر رہے ہیں اور اس پر آپس میں مناظرہ بازی ہونے لگی۔ حالاں کہ تختے پر بہنے والے جہاز پر سفر نہیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح وطن عزیز میںکوئی جماعت ایسی نہیں ہے جو الجماعت ہونے کا دعویٰ کرے اور جماعت سے باہر رہنے والوں کو کافر قرار دے،بے نمازی کو مسلمان نہ مانے، بیت المال میں زکوٰة جمع نہ کرنے والے کو قتل کر دے ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شعبے کا تو نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس حالت میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وطن عزیز کے مسلمانوں پر زکوٰة بیت المال میں جمع کرنا فرض اور لازم ہے تو کتنی غیر شرعی بات کہتا ہے۔جو لوگ بیت المال کے نام پر کسی ادارے یا جماعت کو اپنی زکوٰة دیتے ہیں وہ دراصل بیت المال کے تصور کے تحت ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ جس ادارے یا جماعت کو پسند کرتے ہیں یا مسلکی لحاظ سے اس سے وابستہ ہیں اس کو اپنی زکوٰة دیتے ہیں۔زکوٰة کے سلسلے میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ امت کے مالداروں سے لی جائے گی اور امت کے ناداروں کو لوٹائی جائے گی، تاکہ معاشی ناہمواری کم کی جا سکے۔ بتائیے یہ نادار افراد ہوں گے یا جماعتیں ہوں گی ؟

جن لوگوں نے جماعتیں یا ادارے قائم کر کھے ہیں وہ تو لوگوں سے کہیں گے ہی کہ زکوٰة بیت المال میں دیجئے،لیکن اس اپیل کے پیچھے یہ پیغام بھی ہوگا کہ صرف ہمارے ہی بیت المال کو زکوٰة دیجئے، دوسروں کے بیت المال کو نہ دیجئے۔غور کیجئے یہ زکوٰة کا اجتماعی نظم قائم کرنے کی بات ہوئی یا دکانداری ہوئی ؟

حدیث رسول ﷺۖ کے مطابق کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے جب کوئی اس کا ساتھ دیتا ہے تو وہ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے۔جن لوگوں نے ایسی غلطیاں کی ہیں ان کو تائب ہوکر اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے اور آئندہ کے لیے کتمان حق سے گریز کرنا چاہئے۔ وما علینا الا البلاغ

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.