حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مدافعت


چند مدافعانہ روّیوں کے تناظر میں

الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ / ستمبر 2016ء

اشاعت خاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب بندے اور تقویٰ و صالحیت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ان کی حق پرستی اور صداقت آفرینی ہی تھی جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نےا نہیں اس امت مسلمہ کے دس بڑے مسلمانوں میں سے ایک بنا دیا۔  یہ امت عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کے احسانوں سے کبھی سبک دوش نہیں ہو سکتی اور نہ ہی خونِ عثمان ( رضی اللہ عنہ) کے مقدس چھینٹوں کا قرض اتار سکتی ہے جسے بڑی بے دردی سے بہایا گیا۔ 

تاریخ کا مطالعہ بہت دل چسپ ہے۔ اس پر فکر و تدبر سے جہاں ہم پر حقیقتوں کے در وَا ہوتے ہیں، وہیں اس سے اغماض اور تساہل سے معلوم حقیقتیں بھی مستور ہو جاتی ہیں۔

بعض لوگ تاریخ کے روشن مینار ہوتے ہیں مگر افسوس کہ انہیں تاریک گلیاں میسر آتی ہیں۔ وہ صرف دنیا کو دیتے ہیں مگر دنیا سب کچھ لے کر بھی احسان فراموشی کی ہر ہر رسم تازہ کر دیتی ہے۔

تاریخ کی ایسی ہی معلوم و مظلوم شخصیتوں میں ایک شخصیت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ہے۔ جن کی زندگی میں ان پر ناروا الزامات عائد کیے گئے اور جنہوں نے خون کے مقدس قطروں سے ان الزامات کو دھویا۔

حاملِ ایمان قلوب کے لیے تو ان الزامات کا جواب نہایت آسان تھا۔ صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہا پر جب منافقین نے تہمتِ ناروا تراشا، جس سے بعض اہل ایمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تو اللہ رب العزت نے ایک آسمانی تنبیہ نازل کی، جس میں ایمانی سبق پوشیدہ تھا:-

لَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِہِمْ خَیْراً وَقَالُوا ہَذَا اِفْک مُّبِیْن (النور:۱۲)

"جب تم لوگوں نے یہ سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھا گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔”

اللہ رب العزت نے یہ بھی بتا دیا کہ

لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُم مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلَّی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَاب عَظِیْم (النور: ۱۱)

"جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اتنا ہی گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس تہمت کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے عذابِ عظیم ہے۔”

اہل ایمان پر تعظیم عثمان لازم تھا اور ہے۔ایک ایسے صحابیِ رسول جسے زبانِ رسالت نے اللہ رب العزت کی دائمی رضامندی اور جنت کی بشارت دی۔ جس کے لیے مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذَا الْيَوْمکے الفاظ رسول اللہ ﷺ نے ادا کیے۔ اسے بھلا تہمت تراشوں کی دشنام طرازیاں کیا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ایک ایسی واحد عظیم شخصیت جس کے حرم میں رسول کی دو بیٹیاں آئیں۔ جسے اللہ کی راہ میں دو ہجرتوں کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایسی برگزیدہ ہستی کے لیے تہمت تراش زبانیں خواہ کچھ ہی کہیں ہمارے لیے تو صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے : ہَذَا اِفْک مُّبِیْن

فتنہ سبائیت نے عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کے کردار پر جو الزامات عائد کیے ان کے جوابات تو اسی وقت ادا ہو گئے تھے۔ صحابہ کرام کے مقدس گروہ اور اہل ایمان کے پاکیزہ قلوب نے ان الزامات کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ مگر سبائی فتنہ اتنا معمولی نہ تھا اس کے اثرات دور رَس تھے۔ یہ فتنہ بار بار جاگتا رہا اور اس کے اثرات کئی بار مرتب ہوتے رہے۔ افسوس خود مسلمان اہل علم و تحقیق بھی ان الزامات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

دوسری طرف پوری امت محمدیہ حق و انصاف کی عدالت میں، تاریخ کے صفحات پر عثمان رضی اللہ عنہ کی وکیلِ صفائی تھی۔

ذیل میں چند مدافعانہ روّیوں کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ یہ جائزہ ناقدانہ بھی ہے اور چند نئی جہتوں کی جستجو کا باعث بھی۔

بنی امیہ سے عمال کا تقرر

حضرت عثمان پر سبائی فتنہ پردازوں نے ایک الزام یہ عائد کیا کہ انہوں نے اپنے عہدِ خلافت میں بڑی تعداد میں بنو امیہ سے عمال (گورنرز) کا تقرر کیا۔ اس کا جواب تو خیر اسی وقت دیا جا چکا تھا۔ بنی امیہ سے تعلق رکھنے والے عہدِ عثمانی کے کئی عمال پہلے سے اس عہدے پر فروکش تھے۔ حضرت عثمان نے بنی امیہ سے تعلق رکھنے والے چند افراد کا تقرر کیا جسے مجموعی تعداد کے پیش نظر کثیر یا غالب حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حضرت عثمان کی مدتِ خلافت قریباً ۱۲ برس ہے۔ اس عہد کے کسی قابل ذکر مسلمان نے کبھی ان پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے کاروبارِ خلافت کو اپنے خانوادے تک محدود کرنے کی کوشش کی ۔ گویا یہ الزام خالص سبائی ذہن کا پیداوار تھا۔ حضرت عثمان مسلمانوں کے بہی خواہ تھے ان پر لازم تھا کہ وہ اپنی دانست میں بہتر سے بہتر عامل مسلمانوں پر مقرر کرتے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

اس مقام پر جواب دیتے ہوئے اکثر مدافعین معلوم حقیقتوں کو ترک کر کے مستور خواہشات کو ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً یہ تصور کہ بنی امیہ حکمرانی کی اعلیٰ ترین صلاحیت رکھتے تھے جس سے دیگر عرب بشمول دیگر قریش محروم تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تصورات کے لیے کوئی نصِ قطعی ان کے پاس نہیں۔ حدیث میں الائمۃ من القریش کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، کاروبارِ خلافت کو بنی امیہ تک محدود نہیں کیا گیا۔

فنِ جہاں بانی ایک فطری فن ہے۔ جس شخص میں اس کے فطری جوہر نہ ہوں وہ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی یہ جوہر اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا۔ قدرت اپنے انمول تحفے صرف ایک گھرانے کے لیے کبھی مخصوص نہیں کرتی۔ تاہم اکثر مدافعین اس حقیقت کو فراموش کر گئے۔ مثلاً مولانا فدا علی طالب لکھتے ہیں :-

” ہم سب جانتے ہیں کہ ابو بکر رضی للہ عنہ تیمی تھے اور عمر رضی اللہ عنہ عدوی تھے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ اُموی تھے۔ بنی تیم اور بنی عدی دونوں قبیلے اگرچہ شرافت اور طہارت نسب کے اعتبار سے بنی امیہ اور بنی ہاشم سے کم مرتبہ نہیں تھے لیکن حکومت اور سیادت ہمیشہ آل عبد مناف کے پاس رہی۔ آل عبد مناف میںبنی اُمیہ روسائے قریش اور بنی ہاشم مذہبی پیشوا رہے۔جس طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی انتہائی دانائی تھی کہ انہوں نے تیمی اور عدوی کو عامل نہیں مقرر کیا اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ اور نیز علی رضی اللہ عنہ کی انتہائی فراست تھی جو انہوں نے آل عبد مناف کو اپنے اپنے دور خلافت میں حاکم و عامل بنایا۔ …….. ابو سفیان اور نیز دیگر اُموی ہر زمانہ میں اپنے کو مستحق سیادت اور امارت کا اہل سمجھتے رہے۔ …….. فاروقی عہد معدلت خلافت راشدہ کا بہترین زمانہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس با برکت عہد میں ہی جو لوگ برسر اقتدار اور بہترین عامل تسلیم کیے گئے وہ اسی خاندان کے افراد یعنی معاویہ ، یزید اور سعید ابن العاص ہیں۔…….. عشرہ مبشرہ کے علاوہ کوئی تیمی رسول ﷺ ۖکے عہد میں اور کوئی عدوی رسول ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ممتاز اور بر سر اقتدار نظر نہیں آتا۔ بر خلاف امویین کے جو عثمان رضی اللہ عنہ سے پیشتر بھی ہر زمانہ میں معزز عہدوں پر فائض اور سارے قبائل قریش میں ممتاز و سرفراز رہے۔ اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بنی تیم کو جو ان سے پیشتر رسول ﷺ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ نے بنی عدی کو جو ان سے قبل رسول ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانوں میں بھی بر سر اقتدار نہ تھے اپنی حکومت میں شریک کار نہیں بنایاتو ان کے اس طرزِ عمل سے نہ تو ان کے اعزہ کو ان سے شکایت کا موقع مل سکتا تھا اور نہ خود ان کو کسی قسم کی دقت کے پیش آنے کا احتمال ہو سکتا تھا۔بہ خلاف عثمان کے کہ اگر یہ امویین کو جو ان کے قبل ہی سے عامل اور حاکم ہوتے چلے آرہے تھے اپنی حکومت کے زمانہ میں بھی بر سر اقتدار نہ رکھتے تو ایک طرف تو ان کے بھائی ان کو قاطع رحم کے لقب سے یاد کرتے اور دوسری طرف وہ حکومت بعض قابل ترین کارکنوں کی امداد سے محروم ہو جاتی۔……. سرور عالم ﷺ ۖ کی رحلت کے بعد تیرہ برس کا زمانہ ایسا ملتا ہے جس میں عرب و حجاز پر تیمی و عدوی حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ قلیل مدت ہی آل عبد مناف پر گراں گزرتی مگر شیخین کا اقتدار ، ان کا تقدس ، ان کا تقویٰ و ورع، ان کی وجاہت اور شخصیت، ان کا اسلامی اور ایمانی امتیاز، ان کی صداقت اور راستی، ان کا عدل و انصاف ایسا زبردست اور قوی تھا کہ آل عبدمناف میں کسی فرد کو بھی چوں وچرا کی گنجائش نہ ہوئی۔ لیکن جہاں ابو بکر و عمر اپنے حالات اور اپنی شخصیت سے بخوبی واقف تھے وہاں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہر تیمی صدیق اکبر اور ہر عدوی فاروق اعظم نہیں ہےجو سادات قریش کو اپنی شخصیت سے قابو میں رکھ سکے۔ لیکن عثمان رضی اللہ عنہ یہ جانتے تھے کہ ہر اُموی سید قریش ہے اور رئیس بطحی ٰ ہے اور اس قبیلہ کے ہر فرد میں حکومت اور سیادت کرنے کے جوہر موجود ہیں۔”(۱)

بعثت رسول کے وقت قریش کی بارہ شاخوں کو مکہ مکرمہ کی سیاست و تمدن میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ ان میں عددی لحاظ سے سب سے بڑی شاخ بنی امیہ کی تھی۔ اس لیے انہیں سیاسی رسوخ بھی حاصل تھا اور ایسا ہونا فطری بھی تھا۔ تلک الایام نداولھا بین الناسکا قانون ہمیشہ تاریخ کے عروج و زوال کی داستان بن کر ظاہر ہوتا رہا ہے۔

اسلام نے عرب کی سیاست اور اس کے تمدن کو بہت کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھیوں اور دیگر مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قریش کی ایک شاخ بنو تیم کے سربراہ کی حیثیت سے کبھی نہیں دیکھا بلکہ انہیں اپنا خلیفہ افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق ابو بکر الصدیقکی بنیاد پر منتخب کیا۔ ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کو کسی نے عدوی نہیں جانا بلکہ ان کے لیے زبانِ رسالت سے نکلے ہوئے یہ مقدس الفاظ یاد رکھے لو کان بعدی نبیا لکان عمر۔

یہ سمجھ لینا کہ ” ہر اُموی سید قریش ہے اور رئیس بطحی ٰ ہے اور اس قبیلہ کے ہر فرد میں حکومت اور سیادت کرنے کے جوہر موجود ہیں۔”

فطرت کے اصولوں سے عدم واقفیت کا مظہر ہے۔ کیا صدیق اکبر اور فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہما) جیسی حکمرانی کی کوئی ایک مثال بھی بنی امیہ اپنی تاریخ سے پیش کر سکتی ہے ؟ بنی امیہ پر ہی اس کا انحصار نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ صدیق و فاروق کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ یہ دونوں براہِ راست تربیت نبوی کے فیض یافتہ تھے۔ جیسی عظیم اور کثیر صحبت انہیں میسر آئی کسی دوسرے کو نہ آ سکی۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ان کے سوا اور کون ہے جو اپنی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہو؟ جو اس عہد کی تاریخ پر اثر انداز ہو ؟ جس کے لیے قرآنی آیات کا نزول ہوا ہو ؟

جہاں تک ابوبکر و عمر ( رضی اللہ عنہما) نے کسی تیمی یا عدوی کو کاروبارِ خلافت میں شریک نہیں کیا ۔ تو اس کی وجہ کسی تیمی یا عدوی کی عدم صلاحیت نہیں۔ بلکہ ان دونوں کا کمالِ ورع و تقویٰ تھا۔ حضرت ابوبکر کے دو داماد طلحہ و زبیر ( رضی اللہ عنہما) عشرہ مبشرہ کے معزز رکن تھے۔ حضرت طلحہ کا تعلق بنو تیم سے تھا۔ مگر ان دونوں کو حضرت ابوبکر نے اپنے عہدِ خلافت میں کبھی کوئی عہدہ نہیں دیا۔ یہ دونوں اس پایے کے اشخاص ہیں کہ جنہیں حضرت عمر شایانِ خلافت سمجھتے ہوئے خلافت کے لیے چھ رکنی وفد میں بھی نامزد کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبد الرحمٰن بن ابی بکر کا شمار عظیم جرنیل صحابہ میں ہوتا ہے۔

حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعید بن زید کا شمار بھی عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ وہ نسباً عدوی بھی تھے۔ حضرت عمر کے آخری ایام میں خود ان کے علاوہ عشرہ مبشرہ کے سات ارکان زندہ تھے۔ انہوں نے عشرہ مبشرہ سے وابستہ چھ افراد کو خلافت کے لیے نامزد کیا لیکن عشرہ مبشرہ کے ساتویں رکن سعید بن زید کو نامزد نہیں کیا کیونکہ وہ ان کے حقیقی بہنوئی تھے۔ حضرت سعید نے ۵۱-۵۲ھ میں وفات پائی۔ اگر حضرت عمر انہیں ممکنہ خلافت کے بورڈ کا ایک رکن نامزد کر جاتے تو یہ عین مبنی بر انصاف ہی ہوتا مگر یہ حضرت عمر کا کمالِ تقویٰ ہی تھا کہ انہوں نے حضرت سعید کو خلافت کے لیے نامزد نہیں کیا۔ حضرت عمر کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمر کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ بعض صحابہ کی خواہش تھی کہ حضرت عمر انہیں خلافت کے لیے نامزد کریں مگر حضرت عمر نے انہیں بھی کاروبارِ خلافت سے دور رکھا۔

ہمارے یہاں تاریخ کا علم رکھنے والے تو میسر آ جاتے ہیں مگر تاریخ کے ساتھ انساب سے دل چسپی رکھنے والے خال خال ہی ہیں۔ قریش کی یہ بارہ شاخیں آپس کی رشتے داریوں سے منسلک تھیں۔ گو یہ بارہ شاخیں تھیں مگر ہر شاخ دوسری شاخ سے مصاہرانہ تعلق رکھتی تھی۔

حضرت عثمان نے بنی امیہ کی غیر معمولی تعداد کو کاروبارِ خلافت میں دخیل نہیں کیا تھا۔ بنی امیہ کے جو اراکین کاروبارِ خلافت سے منسلک تھے ان میں سے کئی ایک ان کے عہد خلافت سے قبل منسلک چلے آ رہے تھے۔ صحابہ کرام نے ان پر کبھی ایسا کوئی الزام عائد ہی نہیں کیا۔ سبائی اعتراضات کے جواب کے لیے ایسے ہوائی قلعے تعمیر کرنا قطعاً درست نہیں۔

بیت المال سے اپنے رشتے داروں کو نوازنا

حضرت عثمان پر دوسرا بڑا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بیت المال سے اپنے قریبی رشتے داروں کو عطیات عطا کیے۔ آج کی اصطلاح میں گویا حضرت عثمان پر کرپشن کا الزام عائد کیا گیا۔حضرت عثمان نے اپنی زندگی کے (غالباً) آخری خطاب میں اپنے اوپر عائد الزامات کی بخوبی وضاحت کی تھی جس کی تمام کبار حاضر صحابہ نے پُر زور تائید کی۔ ان میں اس الزام کی بھی وضاحت موجود ہے۔ انہوں نے اپنے اقرباء کو جو کچھ دیا وہ ان کا ذاتی مال سے انفاق ہے۔ جس پر کسی کے لیے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔

عام طور پر مدافعین حضرت عثمان کی اسی تقریر کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن سیرت عثمان کے زریں  صفحات سے کئی ایک قیمتی جہتیں ظاہر ہوتی ہیں جو اس الزام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتی ہیں۔

حضرت عثمان صرف قریش کے نہیں بلکہ عرب کے امیر ترین افراد میں سے ایک تھے۔ خورشید احمد فارق، شہادت کے وقت حضرت عثمان کی معاشی حیثیت اور جائیداد سے متعلق لکھتے ہیں:ـ-

"عثمان غنی ( المتوفی ۳۵ھ) بارہ لاکھ پچاس ہزار روپئے، اور بقول بعض ایک کڑوڑ ساٹھ لاکھ روپئے۔ دس لاکھ روپے اور بقول مسعودی پانچ لاکھ روپے کی جائیداد جو انہوں نے زندگی ہی میں عزیز و اقارب میں بانٹ دی تھی، ہزار اونٹ ، ایک حویلی۔” (۲)

غزوہ تبوک کے موقع پر جیش عسرۃ کی تیاری حضرت عثمان کے مال سے ہوئی۔ مدینہ کے مفلوک الحال مسلمانوں کی خشک ہونٹوں کو عثمان ( رضی اللہ عنہ ) ہی نے بئر رومہ کاکنواں خریدکر تَر کیا۔ عہدِ رسالت ﷺ میں مسجد نبوی کی توسیع کے لیے عثمان ( رضی اللہ عنہ) ہی نے اس کے متصل زمین خرید کر فی سبیل اللہ وقف کی۔ عہدِ صدیقی میں پڑنے والے قحط کے لیے عثمان ( رضی اللہ عنہ ) ہی نے اپنے غلے کی بوریاں اور اناج کے ہر ہر دانے کو مسلمانوں پر نثار کر دیا۔ خود اپنے دورِ خلافت میں ہر سال حجاجِ کرام کی ضیافت اپنی جیبِ خاص سے کی۔ مسجد نبوی کی پختہ تعمیر کا مرحلہ آیا تو اپنے ذاتی مال سے رسول اللہ ﷺ کی مسجد کو جس شخص نے سب سے پہلے پختہ تعمیر کرایا وہ بھی عثمان ( رضی اللہ عنہ ) ہی ہیں۔ یہ سب تاریخ کی معلوم حقیقتیں ہیں۔ اسلامی ریاست تو عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کے اقتصادی احسانات کی زیر بار ہے۔ ایسے شخص پر یہ الزام عاید کرنا کہ اس نے بیت المال سے اپنے رشتے داروں کو عطیات عطا کیے کس قدر لغو ہے۔

حضرت عثمان کو اللہ نے دولت سے حصہ وافر دیا، مگر وہ زر پرست نہیں تھے۔ وہ خوددار ضرور تھے مگر خود غرض نہیں تھے۔ ان کی میزانِ مروّت نے ان کے درِ دولت کو ہر کسی کے لیے کھول رکھا تھا۔ اپنے اور بیگانے سبھی مستفید ہوئے۔ وہ خرچ کرنے کے عادی تھے۔ وہ صرف اس لیے خرچ نہیں کرتے تھے کہ لوگوں کی مشکلیں دور ہوں اور مفلوکوں کی عسرت کو یسرت سے بدل دیں۔ بلکہ وہ روٹھوں کو منانے اور بگڑوں کو سنوارنے کے لیے بھی خرچ کرتے تھے۔ ان کا کنبہ بہت بڑا تھا۔ ان کے خاندان کے بہت سے افراد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگوں میں مارے گئے تھے۔ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کا ایک بڑا بوجھ تھا جسے انہوں نے اٹھا رکھا تھا۔ وہ سب کے غم خوار تھے۔ اپنے خانوادے کی کفالت ، اپنے اعزہ کی دل جوئی اور اپنے رشتے داروں سے صلہ رحمی وہ شروع سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہی رَوش زندگی کے آخری بارہ سالوں میں بھی برقرار رہی ۔ تو پھر اس پر طعن کیسا؟ صرف اس لیے کہ وہ آخری بارہ سال ان کے عہدِ خلافت کے سال ہیں ؟ اور کیا خلیفہ بننے کے بعد انسان اپنے رشتے داروں کے حقوق سے بالاتر ہو جاتا ہے ؟ تاریخ میں ہمیں ایسی بھی بکثرت مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی مال سے حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر معززین انصار کو بھی نوازا ۔

ہمیں اپنی نسلوں کو عظمتِ عثمانی سے آگاہ کرنا چاہیے یہ الزامات خود ھَبَاء مَنثُوراً ہو جائیں گے۔

واقعہ شہادت عثمان کو واقعہ کربلا نہ بنائیے

یہ اللہ کا احسانِ عظیم ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کسی مذموم فرقے کے ذوقِ تفرقہ پرستی کی نذر نہیں ہوئی۔ ماتم عثمان کوئی مذہبی فریضہ نہیں بنا۔ ان کی شہادت کسی فرقے کی بنیاد نہیں بنی۔ لیکن رافضیت کا ردّ عمل جو ناصبیت کے عنوان سے پروان چڑھا، اس نے جب واقعہ شہادت عثمان پر خامہ فرسائی کی تو مدافعت کے نام پر اپنے گمراہ کن نظریات کو تاریخ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ بعض کبار صحابہ کو واقعہ شہادت عثمان میں براہ راست ملوث کرنے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرانے کی سعی کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تو بالعموم ناصبی حضرات حضرت عثمان کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیتے ہی ہیں۔ لیکن خورشید احمد فارق نے تو یہ غضب کیا کہ شاذ اور واہی قسم کی روایات کی مدد سے ام المومنین عائشہ صدیقہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کو بھی بالواسطہ شہادت عثمان میں ملوث کر دیا۔ (۳)

ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی بد ترین گمراہی ہے جس کی کسی صورت تائید نہیں کی جا سکتی۔

تاہم بعض نادان قسم کے اہل علم جو پوری دیانت داری سے حضرت عثمان کی مدافعت کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں ۔ ان کا خامہ بھی کبھی کسی مقام پر ناصبی فریب کا دام اسیر بن جاتا ہے۔

حضرت عثمان کے واقعہ شہادت کو رقم کرنے کے لیے مناسب ہے کہ صحیح روایات کو اخذ کیا جائے از خود کسی قسم کی ملمع کاری سے گریز کرتے ہوئے حقیقت نگاری کا فریضہ انجام دیا۔

محمد بن ابی بکر کے سلسلے میں لوگ عدم توازن کا شکار ہوئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ محمد بن ابی بکر سبائی فتنہ پردازوں کے دام فریب میں آ گئے اور حضرت عثمان کے مخالف بھی ہو گئے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ برآمد کر لینا کہ وہ قاتلین عثمان کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں کسی طرح درست نہیں۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ اور حضرت علی انہیں سمجھاتے ہیں۔ وہ خود شہادت والے دن حضرت عثمان کے گھر جاتے ہیں ان سے سخت کلامی بھی کرتے ہیں لیکن جب حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ آج آپ کے والد زندہ ہوتے تو شرمندہ ہوتے ۔ یہ سن کر محمد بن ابی بکر واپس چلے آتے ہیں۔ تاریخ نے گو محفوظ نہیں رکھا لیکن ممکن ہے حضرت عثمان نے اپنی ذات سے متعلق عائد کردہ الزامات کی وضاحتیں بھی پیش کی ہوں جسے سن کر انہوں نے تسلیم کرتے ہوئے واپسی کا رخ اختیار کیا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان کی طرف سے مدافعت کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہو لیکن جس طرح حضرت عثمان نے سب کو اپنی مدافعت کے لیے تلوار اٹھانے سے منع کیا ، انہیں بھی منع کر دیا۔

بایں ہمہ یہ قیاسات ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ محمد بن ابی بکر ، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے۔ حضرت علی کے زیر عاطفت ہی وہ پروان چڑھے۔ انہیں قاتلین عثمان میں شمار کرنا گویا بالواسطہ حضرت علی کو قتلِ عثمان کا ذمہ دار ٹھہراناہے۔ جب کہ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ حضرت علی کے عہدِ خلافت میں محمد بن ابی بکر ان کے معاون تھے اور انہیں کے حکم پر وہ مصر کے عامل بنے۔

اس لیے محمد بن ابی بکر کے لیے بلا وجہ کی قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ کسی بھی صحیح تاریخی روایت سے ثابت نہیں کہ وہ براہِ راست قتلِ عثمان میں شریک تھے۔ وہ سبائی سازشی فتنوں سے متاثر ضرور ہوئے اور جہاں تک متاثر ہونے کا تعلق ہے تو اس عہد کے کئی ایک افراد لا شعوری طور پر ان فتنوں سے متاثر ہوئے۔ اور حد تو یہ ہے کہ آج تک ہو رہے ہیں۔

نواسہ رسول ﷺ سے سیّدنا عثمان کی نسل

رسول اللہ ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ بڑی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، حضرت ابو العاص اموی رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں تھیں جن سے ایک صاحبزادے علی اور ایک صاحبزادی امامہ پیدا ہوئیں۔ حضرت علی نے عین عالم شباب میں شہادت پائی اور ان کی نسل جاری نہ ہوسکی۔

رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں سیدہ رقیہ و سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہما یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان کے عقد میں آئیں۔ صرف سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے ایک صاحبزادے عبد اللہ الاکبر پیدا ہوئے۔ مگر وہ بھی بچپن ہی میں وفات پا گئے اور نسل کا اجراء نہ ہوسکا۔

رسول اللہ ﷺ کی چوتھی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت علی کے حرم میں آئیں اور ان سے دو صاحبزادے حسن و حسین رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے جن سے نسل جاری ہوئی۔ گویا اولادِ رسول کا سلسلہ صرف حضرت حسن و حسین ہی سے جاری ہو سکا۔

عالم اسلام میں بالعموم اور برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اولادِ رسول سے نسبت اور "سیّد” بننے کا شوق جنون کی حد تک پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انساب کی تبدیلی اور جعلی انساب تیار کر لینا معمولی بات ہے۔ وا حسرتا ! لوگوں کے یہ تو ممکن نہ ہو سکا کہ وہ سچے غلام رسول بنتے اس لیے انہوں نے جھوٹا آل رسول بننا آسان جانا۔

یہ آل رسول ﷺ کا شرف پانے کی کشش تھی یا پھر حضرت علی سے رشک و حسد کی ایک شکل، کہ حضرت عبد اللہ بن رقیہ زوجہ عثمان بن عفان سے بھی اجرائے سلسلہ نسل کا دعویٰ کیا گیا۔

ابو الحسن علی بن حسین بن علی المسعودی (م ۳۴۶ھ) پہلے مؤرخ ہیں جنہوں نے لکھا :-

"وکان لہ من الولد: عبد اللہ الاکبر و عبد اللہ الاصغر، أمھما رقیۃ بنت رسول اللہ ﷺ،۔۔۔۔۔۔۔ وکان عبد اللہ الاکبر یلقب بالمطرف لجمالہ و حسنہ، وکان کثیر التزوج، کثیر الطلاق، ۔۔۔۔۔۔۔۔ وبلغ عبد اللہ الاصغر من السن ستاً و سبعین عاماً، فنقرہ دیک فی عینہ، فکان ذٰلک سبب موتہ۔”(۴)

” اور ان کے لڑکے عبد اللہ اکبر اور عبد اللہ اصغر تھے۔ ان دونوں کی ماں رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ عبد اللہ اکبر کا لقب اپنے حسن و جمال کی وجہ سے المطرف تھا۔ وہ کثرت سے شادیاں اور کثرت سے طلاق دیتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ عبد اللہ اصغر ۷۶ سال کی عمر کو پہنچے تھے کہ مرغ نے ان کی آنکھ پر ٹھونگ مار دی جو ان کی موت کا سبب بنا۔”

لیکن مسعودی کا یہ دعویٰ بالاتفاق غلط ہے۔ وہ واحد مؤرخ ہیں جنہوںنے ایسا دعویٰ کیا۔ مستزاد یہ کہ وہ عبد اللہ اصغر کو بھی سیدہ رقیہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ ان سے قبل کے مؤرخین بھی اس کی تائید نہیں کرتے۔

فن انساب پر لکھی گئی ابتدائی کتاب "نسب قریش” کے مصنف مصعب بن عبد الله بن مصعب بن ثابت بن عبد الله بن الزبير، أبو عبد الله الزبيري (م ۲۳۶ھ ) جو خود قریشی النسل ہیں۔ فرماتے ہیں :-

"فولد عثمان بن عفان: عبد الله الأكبر، توفي وهو ابن ست سينين، ودخل رسول الله ﷺ قبره، وأمه رقية بنت النبي ﷺ، وعبد الله الأصغر، أمه فاخته بنت غزوان۔”(۵)

” عثمان بن عفان کے لڑکے عبد اللہ اکبر نے چھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ رسول اللہ ﷺ ان کی قبر میں اترے۔ ان کی ماں رقیہ بنت نبی ﷺ تھیں۔ اور عبد اللہ الاصغر کی ماں فاختہ بنت غزوان تھیں۔”

ابو جعفر محمد بن حبيب بغدادي (م ۲۴۵ھ) نے "المحبر” میں لکھا ہے :-

"و (رقية) تزوجها عتبة بن أبي لهب فأمرته أم جميل بنت حرب بن أمية بفراقها ففارقها. فخلف عليها عثمان بن عفان رحمه الله فولدت له عبد الله، وبه كان يكنى، درج صغيراً.”( ۶)

” رقیہ کی شادی عتبہ بن ابی لہب سے ہوئی تھی ۔ عتبہ کو ( اس کی ماں ) ام جمیل بنت حرب بن امیہ نے رقیہ سے علیحدگی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ جب عتبہ نے انہیں چھوڑا تو عثمان بن عفان رحمہ اللہ نے ان سے شادی کی۔ ان سے عبد اللہ پیدا ہوئے۔ جن کے نام پر حضرت عثمان کی کنیت ہے۔ یہ بچپن ہی میں وفات پا گئے۔”

احمد بن یحیٰ بن جابر بن داود البَلَاذُري (م ۲۷۹ھ) لکھتے ہیں :-

"وولد لعثمان بْن عَفَّان رَضِيَ اللَّه تَعَالَى عَنْهُ: عَبْد الله الأصغر، أمّه فاختة بنت غزوان أخت عتبة بْن غزوان، وعبد اللَّه الأكبر، أمه رقية بنت النَّبِي ﷺ نقر عينه ديك فمات۔”(۷)

” عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لڑکے عبد اللہ الاصغر کی ماں فاختہ بنت غزوان ، عتبہ بن غزوان کی بہن تھیں۔اور عبد اللہ الاکبر کی ماں رقیہ بنت نبی ﷺ تھیں ۔ ان کی آنکھ پر مرغ نے ٹھونگ مار دی تھی جس سے ان کی وفات ہوئی۔ "

ابو جعفر محمد بن جرير الطبري (م ۳۱۰ھ) نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:-

"أن عُثْمَان بن عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يكنى فِي الْجَاهِلِيَّة أبا عَمْرو، فلما كَانَ فِي الإِسْلام ولد لَهُ من رقيه بنت رسول الله ص غلام فسماه عَبْد اللَّهِ، واكتنى بِهِ، فكناه الْمُسْلِمُونَ أبا عَبْد اللَّهِ، فبلغ عَبْد اللَّهِ ست سنين، فنقره ديك عَلَى عينه، فمرض فمات فِي جمادى الأولى سنة أربع من الهجره، فصلى عليه رسول الله ﷺ۔”(۸)

” عثمان بن عفان کی کنیت جاہلیت میں ابو عمرو تھی۔عہدِ اسلام میں رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ سے ان کا لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبد اللہ تھا۔ اسی کے نام پر ان کی کنیت تھی۔ مسلمانوں نے انہیں ابو عبد اللہ کہا۔ عبد اللہ جب چھ برس کے ہوئے تو ان کی آنکھ پر مرغ نے ٹھونگ مار دی۔ جمادی الاول ۴ھ میں اس مرض سے ان کی وفات ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز پڑھی۔”

امام ابو محمد علي بن حزم ظاهري (م ۴۵۶ھ) اپنی مشہور کتاب "جمہرۃ الانساب العرب” میں لکھتے ہیں :-

"فولد عثمان بن عفان: عبد الله الأكبر: أمه رقية بنت رسول الله ﷺ مات صغيرا، وله ستّ سنين۔”(۹)

” عثمان بن عفان کے لڑکے عبد اللہ الاکبر کی ماں رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ تھیں ۔ وہ بچپن میں وفات پاگئے جب کہ ان کی عمر چھ برس تھی۔ "

مسعودی کے سوا تقریباً تمام مؤرخین اس امر پر یک زبان ہیں کہ عبد اللہ بن رقیہ نے بچپن میں وفات پائی۔ (۱۰)

ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری (م ۲۷۶ھ) کو گو یہ التباس ہو گیا کہ عبد اللہ الاکبر کی والدہ فاختہ بنت غزوان تھیں اور عبد اللہ اصغر ، سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ کے فرزند تھے۔(۱۱)

لیکن انہیں بھی تسلیم ہے :-

"وتزوجها عثمان بن عفان مكة، وماتت بها بعد مقدمه المدينة بسنة وعشرة أشهر وعشرين يوما۔ وولدت لعثمان: عبد الله، وهلك صبيا لم يجاوز ست سنين، وكان نقره ديك على عينه، فمرض ومات.”(۱۲)

"حضرت رقیہ کی شادی عثمان بن عفان سے مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے مدینہ میں ہجرت کے ایک سال، دس ماہ اور بیس دن بعد وفات پائی۔ ان کے بطن سے حضرت عثمان کے صاحبزادے عبد اللہ پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں چھ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ ان کی آنکھ میں مرغ نے ٹھونگ مار دی تھی جس سے وہ بیمار ہو گئے اور اس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔”

ایسے میں تنہا مسعودی کی روایت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟

ماضی قریب میں مسعودی کے اس بیان کو غیر معمولی اہمیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ایسے انساب بھی پیش کر دیئے گئے جن سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ نواسہ رسول عبد اللہ سے سیدنا عثمان کی نسل جاری ہوئی۔(۱۳)

عبد اللہ نام کے حضرت عثمان کے کئی احفاد تھے۔ عبد اللہ اکبر جنہیں المطرف بھی کہا جاتا تھا وہ حضرت عثمان کے صاحبزادے عمرو کے بیٹے تھے۔(۱۴)

انہیں عمرو بن عثمان کے ایک بیٹے عبد اللہ اصغر بھی تھے۔(۱۵)

عبد اللہ الاکبر المطرف کے بیٹے محمد الاصغر تھے جنہیں "الدیباج” کہا جاتا تھا۔ یہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب کے بطن سے تھے۔ انہیں کے بارے میں ابن قتیبہ اور بلاذری نے لکھا ہے:-

"وكان كثير التّزوج، كثير الطّلاق۔”(۱۶)

"بہت زیادہ شادیاں کرتے اور بہت طلاق دیتے تھے۔””

ان کی ایک اہلیہ فرماتی تھیں :-

"”إنما مثله مثل الدّنيا لا يدوم نعيمها، ولا تؤمن فجائعها۔”(۱۷)

"ان کی مثال دنیا کی ہے جس کی نعمتیں ہمیشہ نہیں رہتیں اور جس کی مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔” "

مسعودی کی عبارت میں جو جو مغالطے تھےان کی بخوبی وضاحت تاریخ کی دوسری کتابوں سے ہو جاتی ہے۔

مسعودی کے سوا قدیم مؤرخین میں کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا، اور خود مسعودی کی تردید ان سے قبل کے مؤرخین کی تحریروں سے ہو جاتی ہے۔ جن میں سب سے اہم مصعب بن عبد اللہ الزبیری القرشی ہیں۔

اور سب سے بڑھ کر خود مسعودی بھی اپنے بیان میں متزلزل ہیں۔ اپنی ایک کتاب ” "التنبیہ و الاشراف” میں لکھتے ہیں :-

"عبد الله الأكبر توفى وله من العمر ست سنين أمه رقية بنت رسول الله ﷺ۔”(۱۸)

"عبد اللہ الاکبر کی وفات چھ برس کی عمر میں ہوئی ان کی والدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ تھیں۔”

مسعودی کے اس اعتراف کے بعد ان دعاوی کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو اس ضمن میں کیے جاتے ہیں ؟

عثمانیوں میں جو بھی عبد اللہ بن عثمان کی نسل سے ہونے کا دعویدار ہے وہ اصلاً عبد اللہ الاصغر بن عثمان یا حضرت عثمان کے کسی عبد اللہ نامی حفید کی نسل سے ہے، نہ کہ عبد اللہ بن رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ کی نسل سے۔ کیونکہ عبد اللہ بن رقیہ کا بچپن میں وفات پانا معتبر ذرائع تحقیق سے ثابت ہے۔

حضرت عثمان کی رفعت و عظمت ان کے ذاتی کردار کی بدولت ہے ۔ نواسہ رسول حضرت عبد اللہ سے ان کے نسل نہ جاری ہونے سے خود حضرت عثمان کی سیرت کے عظیم نقوش دھندلا نہیں سکتے۔ مدافعت کی ایسی شکل اور محبت کا ایسا اظہار علم و تحقیق کی دنیا میں قطعاً پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا۔

حاصل کلام

حضرت عثمان غنی کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ، حتیٰ کہ ان کی شہادت سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ خود مسلمان اہلِ علم و تحقیق کا ایک گروہ ان کے مقدس کردار پر کیچڑ اچھالتا اور ان سبائی الزامات کو درست سمجھتا ہے جو محض الزامات تھے۔ جن کی تردید کے لیے سیرت عثمان کا ہر ہر ورق عظمت و عزیمت کی مثالوں سے معمور ہے۔

حواشی 

(۱) صدیق اکبر و عثمان ذو النورین، ص ۲۳-۲۵

(۲) حضرت عثمان کے سرکاری خطوط ، ص ۳۹-۴۰

(۳) حضرت عثمان کے سرکاری خطوط ، ص۵۹، ۶۳، ۶۴، ۶۶۔انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ تاریخ سے واقف ایک قابل محقق کس طرح تعصب میں اندھا ہوکر واہی روایتوں سے استدلال کرکے صحابہ کے مقدس کردار پر ایسی غلاظت پھینکنے کی کوشش کرتا ہے جو انتہائی مذموم ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار و عمل کا ایسا نقشہ کھینچا گویا وہ سب حریصانِ دنیا تھے اور کاروبارِ خلافت کے حصول کے لیے ہر حد تک جا سکتے تھے۔اس طرح قرآنی رحماء بینھم کی مکمل نفی کر دی گئی۔ رافضیت اور ناصبیت کی شکلیں تو معروف اور مشتہر ہیں لیکن یہ کونسی شکل ہے جس کی زد سے نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بچتے ہیں اور نہ ہی ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما ہی کو امان ملتی ہے۔

(۴) مروج الذھب و معدن الجوھر : ۲/۲۶۱، المکتبۃ العصریۃ بیروت ۱۴۲۵ھ-۲۰۰۵ء

(۵) نسب قريش : ۱/۱۰۴، تحقیق : ليفي برو فنسال، الناشر: دار المعارف، القاهرة

(۶) المحبر : ۵۳، تحقيق : إيلزة ليختن شتيتر، الناشر: دار الآفاق الجديدة، بيروت

(۷) جمل من أنساب الأشراف: ۵/۶۰۰، تحقيق : سهيل زكار و رياض الزركلي، الناشر : دار الفكر بيروت ۱۴۱۷ھ- ۱۹۹۶ء

(۸) تاريخ الرسل و الملوك : ۴/۴۱۹-۴۲۰، الناشر : دار التراث بيروت، ۱۳۸۷ھ

(۹) جمهرة أنساب العرب : ۸۳، الناشر : دار الكتب العلمية بيروت،۱۹۸۳ء-۱۴۰۳ھ

(۱۰) مثلاً : ٭تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير: ۳۱، للامام أبي الفرج عبد الرحمن ابن الجوزي (م ۵۹۷ھ)، الناشر: شركة دار الأرقم بن أبي الأرقم بيروت، ۱۹۹۷ء ٭ الكامل في التاريخ : ۲/۶۳، عز الدین ابو الحسن علي بن محمد بن محمد بن عبد الكريم ابن الاثیر الجزري (م ۶۳۰ھ )، تحقيق : عمر عبد السلام تدمري، الناشر: دار الكتاب العربي بيروت،۱۴۱۷ھ-۱۹۹۷ء ٭ الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة: ۲/۱۷۰، للعلامۃ محمد بن أبي بكر بن عبد الله بن موسى الأنصاري التِّلمساني المعروف بالبُرِّي (م بعد ۶۴۵ھ )، الناشر : دار الرفاعي للنشر والطباعة والتوزيع الرياض، ۱۹۸۳ء-۱۴۰۳ھ ٭ تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ۲/۲۵۱، للامام شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (م ۷۴۸ھ)، تحقیق : عمر عبد السلام التدمري، ناشر: دار الكتاب العربي بيروت، ۱۴۱۳ھ-۱۹۹۳ء

(۱۱) المعارف: ۱۹۸، تحقيق : ثروت عكاشة، الناشر : الهيئة المصرية العامة للكتاب القاهرة، ۱۹۹۲ء

(۱۲) المعارف: ۱۴۲

(۱۳)مثال کے طورپر : "سادات بنی رقیہ” ، از حکیم فیض عالم صدیقی۔” آخری نبی کی دو شریک حیات سیدہ خدیجۃ الکبریٰ اور سیدہ عائشہ صدیقہ” : ۳۱-۳۲، از علامہ تمنا عمادی۔

(۱۴)المعارف: ۱۹۹، انساب الاشراف : ۵/۶۰۲، تاریخ الاسلام للذہبی : ۵/۱۹۸

(۱۵) المعارف : ۱۹۹، انساب الاشراف : ۵/۶۰۲

(۱۶) المعارف : ۱۹۹، انساب الاشراف: ۵/۶۰۶

(۱۷)المعارف : ۱۹۹، انساب الاشراف: ۵/۶۰۶

(۱۸) التنبيه والإشراف: ۲۵۵، تحقیق : عبد الله إسماعيل الصاوي، الناشر : دار الصاوي القاهرة

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.