یک نظر بر فتوحات عہد عثمانی


الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ / ستمبر 2016ء

اشاعت کاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا عبد الرحیم اظہر ڈیروی

اسم و نسب
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی اموی ہیں۔ ان کا نسب اور رسول اللہ ﷺ کا نسب عبد مناف میں مل جاتا ہے۔ ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور بعض لوگوں نے ابو عمرو بیان کی ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے ان کی کنیت ابو عمرو تھی ، پھر ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہو گئی جن کی والدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ تھیں۔ عثمان بن عفان کی والدہ ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس جو عبد اللہ بن عامر کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور ارویٰ کی والدہ بیضاء بنت عبد المطلب تھیں جو رسول کریم ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ ذو النورین آپ کا لقب تھا۔ ( اسد الغابہ از الشیخ مؤرخ عز الدین بن الاثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری)
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ولادت سے متعلق علامہ الشیخ سیّد الشبلنجی المدعو بمؤمن لکھتے ہیں :-
"وُلد عثمان بالطائف بالستۃ السادسۃ من عام الفیل۔”(کتاب نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار )
یعنی : "عثمان غنی طائف میں عام الفیل کے چھٹے سال پیدا ہوئے۔ ”
بنو امیہ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے ہی معزز چلا آتا تھا۔ جمیع قریش میں بنی ہاشم کے سوا کوئی ان کا ہمسر نہیں تھا۔ آپ کا خاندان امیہ بن عبد شمس کے نام سے منسوب ہو کر اموی کہلاتا تھا۔
قبولِ اسلام
عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا جب جوان ہوئے تو تجارت شروع فرما دی اور دیانت و راستی اور معاملہ فہمی کی بنا پر جلد شہرت حاصل ہو گئی اور مال و دولت کی فراوانی کے باعث آپ غنی کے نام سے مشہور ہوئے۔ عثمان غنی کے سیدنا ابوبکرؓسے گہرے دوستانہ تعلقات تھے ۔ جب سیدنا ابوبکر ؓ اسلام لائے تو انہوں نے اپنے دوست و احباب میں اسلام کا تذکرہ کیا ، چنانچہ جن نیک دل و مخلص لوگوں نے اسلام قبول کیا ان میں سیدنا عثمان غنیؓ بھی تھے۔ اس بارے میں علامہ شیخ سید الشبلنجی مذکور لکھتے ہیں :-
"وکان اسلامہ علیٰ ید ابی بکرؓ۔”(نور الابصار)
یعنی : "انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔”
سیدنا عثمان غنیؓ کی سیرت و کردار امت مسلمہ کے لیے ایک مثالی اور عظیم تاریخی باب ہے۔ جنہوں نے اپنے گہرے دوست سیدنا ابوبکرؓ کے ذریعے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت اسلام کی ۔ یہ آپ کی دیانت داری اور نیک نیتی کا واضح ثبوت ہے کہ آپ نے اپنے خاندانی دباؤ کے قطع نظر اسلام کی حقانیت قبول کرلی۔ آپ کے اموی خاندان کے بڑے بڑے سردار عقبہ بن معیط اور ابو سفیان وغیرہ کی مخالفت کے باوجود دین اسلام پر استقامت اختیار رکھی اور ایمان و علم و حلم اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے انتہائی عظیم ثابت ہوئے ۔ آپ کا شمار سابقین اولین ، عشرہ مبشرہ اور خلفاء راشدین میں ہوتا ہے۔
دورِ خلافت
سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد مخالفین اسلام نے یہ خیال پیدا کیاکہ ممکن ہے کہ اب اسلامی خلافت و حکومت برقرار نہ رہ سکے۔ اس حوالے سے شہادت فاروق اعظم کے فوراً بعد بعض مفتوحہ علاقے، خاص طور پر ایران کے اکثر علاقوں میں بد نظمی اور بغاوتیں شروع ہونے لگیں۔ لیکن امیر المومنین سیدنا عثمان غنیؓ نے اپنی حکمت و دانائی سے ان پر قابو پا لیا۔ آپؓ سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد مشاورت اور متفقہ رائے سے خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تھے۔ عظیم مؤرخ ابو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع الزہری لکھتے ہیں سب سے پہلے جس نے سیدنا عثمان غنیؓ سے بیعت کی وہ عبد الرحمٰنؓ ہیں پھر علیؓ بن ابی طالب دوسری روایت عبد اللہ بن سنان الاسدی سے مروی ہے کہ جب عثمان غنیؓ خلیفہ بنائے گئے تو عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ ہم نے سب سے برتر صاحب نصیب سے کوتاہی نہیں کی۔ (طبقات ابن سعد) یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا علی المرتضیؓنے امیر المومنین سیدنا عثمان غنیؓکی سب سے پہلے بیعت کی اس کے بعد پے در پے لوگ آئے اور بیعت کرنے لگے۔(حوالہ مذکور)
خلافتِ عثمانی کے آغاز میں عاملین
مولانا ابو القاسم رفیق دلاوری لکھتے ہیں خلافت عثمانی کے آغاز میں امیر المومنین کے عامل یہ تھے۔
مقام عمل
نام عامل
مکہ معظمہ
نافع بن عبد الحارث الخزاعی
طائف
سفیان بن عبد اللہ ثقفیؓ
صنعاء
یعلیٰ بن امیہ
جند
عبد اللہ بن ربیعہؓ
کوفہ
مغیرہ بن شیبہؓ
بصرہ
ابو موسیٰ اشعری ؓ
مصر
عمرو بن العاص
حمص
عمیر بن سعد
شام
معاویہ بن ابی سفیان
بحرین و توابع
عثمان بن ابی العاص ثقفی
قضائے کوفہ
شریح
قضائے بصرہ
کعب بن سور
(سیرت ذو النورین بحوالہ ابن اثیر)
سیدنا عمر فاروقؓ اپنے دورِ خلافت میں ملکی نظم و نسق اور طریقہ خلافت و حکومت کا ایک مستحکم و مربوط اور مضبوط دستور العمل بنا چکے تھے جس کے باعث امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کے لیے معاملہ سہل و آسان اور ساف نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے خلیفہ اول ابوبکر صدیقؓکی اعتدال پسندی اور خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کے تدبر و تفکر اور حکمت عملی کو اپنا شعار بنایا۔ تقریباً ایک سال تک سابقہ نظام میں کوئی تبدیلی مناسب نہیں سمجھی۔ تاہم خلیفہ ثانی کی وصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مغیرہ بن شیبہ کو ہٹا کر ان کی جگہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو کوفہ کا والی مقرر کیا۔ علامہ شیخ جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی لکھتے ہیں: –
"وفي هذه السنة من خلافته فتحت الري، وكانت فتحت وانتقضت، وفيها أصاب الناس رعاف كثير، فقيل لها: سنة الرعاف، وأصاب عثمان رعاف حتى تخلف عن الحج وأوصى، وفيها فتح من الروم حصون كثيرة، وفيها ولى عثمان الكوفة سعد بن أبي وقاص وعزل المغيرة۔”( تاریخ الخلفاء )
یعنی : جس سال سیدنا عثمان غنیؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو اسی سال ملک رَے فتح ہوا اور اسی سال لوگوں میں نکسیر کا مرض پھیل گیا یہاں تک کہ سیدنا عثمان غنی بھی اس مرض میں مبتلا ہوگئے اور حج کرنے کا ارادہ تھا لیکن اس کے باعث ارادہ ترک کر دیا۔ اور مرض کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے وصیتیں بھی شروع فرما دیں اور اسی مرض کی وجہ سے اس سال کا نام بھی سنۃ الرعاف یعنی نکسیر کا سال رکھا گیا۔ اس سال ملک روم کے اکثر حصے فتح ہو چکے تھے اور سیدنا عثمان غنی نے اسی سال مغیرہ کو کوفہ سے معزول کر کے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو ان کی جگہ حاکم و گورنر مقرر کر دیا۔
فتوحاتِ عثمانی
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد مخالفین اسلام نے یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ اب مسلمان کمزور ہو چکے ہیں۔ کیونکہ سیدنا فاروقِ اعظم ایک حیرت انگیز مدبر و مفکر اور معاملہ فہم تھے۔ مزید یہ کہ ان کے دور میں جمیع مسلمان رشتہ وحدت میں منسلک تھے۔ انہوں نے وحدت عقیدہ، وحدت جنس و قوم اور وحدت زبان و بیان کے ذریعے تمام اہل اسلام کو مستحکم و مربوط اور متحد بنا دیا تھا۔ اور فاروق اعظم نے خلافت و حکومت کے وہ آئین و قانون وضع کیے جو بعد میں ایک مثالی حکومت کی اساس قرار پائے۔ اس لحاظ سے سیدنا عمر فاروق کو اسلام کے سیاسی نظام کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جب سیدنا عثمان غنی خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تو شر پسند عناصر نے آپ کے خلاف سازشیں اور بغاوتیں شروع کر دیں خصوصاً ایران کے اکثر علاقوں میں شدید مخالفت شروع ہوئی، اور خلیفہ ثالث کے بارے میں لوگوں کی عقول و اذہان میں یہ خیال پیدا کیا گیا کہ خلافتِ عثمانی فتنہ و فساد کا دور ثابت ہوگا۔ جو مخالفین کا ایک بڑا مغالطہ تھا۔ خلفاءِ اربعہ میں سب سے زیادہ طویل دورِ خلافت سیدنا عثمان غنی کا دورِ مسعود ہے۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کا دورِ خلافت عرصہ تقریباً بارہ سال رہا ان کے دورِ خلافت میں کئی فتوحات ہوئیں اور مجاہدینِ اسلام اپنی جرأت و ہمت اور جذبے سے آگے بڑھتے گئے اور فتوحات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
امیر المومنین سیدنا عثمان غنی اگرچہ حلیم الطبع تھے لیکن ملکی معاملات میں سختی و احتساب اور سنجیدگی کو اپنا شعار بنایا۔ اطراف ملک کے حالات لوگوں سے دریافت کرتے اور ان کے حالات غور و فکر سے سماعت فرماتے ، تمام ملک میں اعلانِ عام تھا کہ جس شخص کو کسی عامل و گورنر سے کوئی شکایت ہو تو وہ حج کے موقعہ پر آ کر بیان کرے۔
فتح رَے
پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ خلافت عثمانی کے سالِ اول میں ملک رَے فتح ہوا اور اسی کو امام سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق "معجم البلدان” کی تلخیص میں لکھتے ہیں: رَے : طہران کے جنوب مشرق میں ایک اہم شہر ہے ، جو امام فخر الدین رازی، ابوبکر الرازی اور دیگر متعدد حکماء و علماء کا مولد تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ علاقہ دریائے جیحون کے ساحل پر بخارا کے سامنے واقع ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب
علامہ بلاذری نے فتح رَے سے متعلق کچھ طویل لکھا ہے جس کا خلاصہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے سیدنا عمار بن یاسر کو لکھا جو اس وقت کوفہ کے عامل تھے ۔ يأمره أن يبعث عروة بن زيد الخيل الطائي إلى الرّيّ ودستبى في ثمانية آلاف، ففعل وسار عروة لذلك فجمعت له الديلم وأمدوا أهل الرّيّ ۔۔۔۔یعنی عروہ بن زید طائی کو آٹھ ہزار سپاہ کے ساتھ رَے کے علاقے بھیجا جائے۔ جب عروہ بمع لشکر وہاں پہنچے تو َیلم ان کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے اور اہلِ رَے نے ان کی مدد کی۔ لیکن رب العزت نے اہلِ اسلام کو کامیاب کیا۔ اور اس معرکہ سے دَیلم اور اہل رَے کی قوت بالکل نیست و نابود ہو گئی۔ علامہ بلاذری لکھتے ہیں کہ فرحان بن زیبندی نامی سردار کا ایک مضبوط قلعہ تھا وہ بھی اسلامی لشکر سے ٹکرایا لیکن شکست کھاکر صلح کرلی کہ وہ جزیہ اور خراج ادا کرے گا۔ اور اس سردار ابن زیبندی نے اہل رَے و قوسس کی طرف سے پانچ لاکھ درہم کی رقم اس غرض سے پیش کی کہ ان میں سے نہ کسی کوقتل کیا جائے اور نہ گرفتار کیا جائے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی آتش کدہ منہدم کیا جائے۔ سیدنا عمرو نے اس کی درخواست بھی قبول کرلی۔ اس کے بعد سیدنا عمرؓنے عمارؓکو معزول کر کے مغیرہ بن شیبہ کو کوفہ کا والی تعینات کر دیا تو مغیرہؓنے اپنی طرف سے کثیر بن شہاب حارثی کو رَے کا گورنر مقرر کر کے بھیجا۔
جب کثیر بن شہاب رَے کے علاقہ پہنچے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں کو باغی پایا جب اہل رَے کی حالت بہتر نظر نہ آئی اور اطاعت کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر مجبوراً مقابلہ کرنا پڑا خوب لڑائی ہوئی آخر اہل رَے مقہور و مجبور ہو کر اطاعت پر مائل ہوئے اور جزیہ و خراج کا معاہدہ بھی کر لیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ کثیر بن شہاب جو رَے اور قَزوَین کا والی تھا اور پُر عزم سردار تھا۔ (بلاذری )
اہل رَے نے جب ۲۵ ھ میں بغاوت کا علم دوبارہ بلند کیا اور سیدنا سعد بن ابی وقاص دوسری مرتبہ کوفہ کے والی منتخب ہوئے تو اس نے رَے پر لشکر کشی کی اور وہاں کے باغیوں اور سرکشوں کو مقہور کر کے لے گئے المرام اینکہ اہل رَے ہمیشہ باغی لوگ تھے اور ہر دور میں یہ مفتوح و مقہور رہے کیونکہ وہ اپنے غلط حرکات سے باز نہ رہتے۔
امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد اہل رَے نے پھر علم بغاوت بلند کر دیا۔ جو یہ ان کی آخری بغاوت و سرکشی تھی۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی نے اپنے عامل کوفہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کو حکم جاری کیا کہ وہ قرظہ بن کعب انصاری جو جلیل القدر اصحاب الرسول میں سے تھے۔ سیدنا عثمان غنی نے ان کا انتخاب اس لیے مناسب سمجھا کہ وہ عہد خلافت فاروقی میں بھی رَے کی ایک لڑائی میں شرکت فرما چکے تھے۔ المختصر اینکہ سیدنا قرظہ نے متعلقہ مقام پر پہنچ کر باغیوں اور سرکشوں کو خوب مارا یہاں تک کہ ان کی بغاوت اور خود سری کا جذبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ اور مکمل طور پر مطیع و فرماں بردار ہو گئے۔ ( فتوح البلدان بلاذری، طبری وغیرہ )
فتح اسکندریہ
اسکندریہ مصر کی معروف بندرگاہ کا نام ہے۔ اس علاقہ کو سکندر اعظم نے آباد کیا تھا اور تمام مصر سکندر اعظم کے قبضہ میں تھا جب سکندری حکومت کا نظام کمزور ہوا تو بطالسہ بر سر اقتدار آ گئے جو ایک طویل عرصہ تک رہے اس خاندان میں ۱۲ بادشاہ ہوئے اور وہ بطلیموس کے لقب سے معروف ہوئے۔ مذکورہ ۱۲ بادشاہوں کے بعد رومی قابض ہو گئے۔ جو ایک طویل عرصہ تک حکومت کرتے رہے پھر ایک وقت آیا کہ اسکندریہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور رومی محکوم ہو گئے جو رومیوں کو سخت ناگوار ہوا ، وہ دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے اور اہل اسکندریہ کو بھی بغاوت پر خوب اکساتے رہتے ، انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ اگر رومیوں سے اسکندریہ ہاتھ سے بالکل نکل گیا تو ان کے استقرار و وجود کو خطرہ لازم ہوگا۔ رومیوں کا اشتعال دلانا اور ابھارنا اسکندریہ کے رومی لوگوں کی خواہشات نفس کے عین مطابق ثابت ہوا۔ اس طرح انہوں نے ان کی بغاوت کی دعوت قبول کرلی اور قسطنطین بن ہرقل کو خط بھیجا جس میں اہل اسلام کی قلت تعداد اور اسکندریہ میں رومیوں کی ذلت و رسوائی کا تذکرہ کیا۔ اس وقت سیدنا عثمان غنی مصر سے سیدنا عمرو بن العاص کو معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن سعد ابی سرح کو مقرر کر چکے تھے اسی دوران رومیوں کا کمانڈر انچیف منویل نے اسکندریہ کا رخ کیا تاکہ اس کو مسلمانوں سے واپس لے، اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر ۳۰۰ کشتیوں میں پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ اسکندریہ پہنچا۔ جب اہل مصر کو خبر ملی کہ رومی فوج اسکندریہ پہنچ چکی ہے تو انہوں نے امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کو لکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ عمرو بن العاص کو واپس ان کی جگہ پر بحال کیا جائے تاکہ رومیوں کا مقابلہ کیا جا سکے، کیونکہ انہیں اس کا طویل تجربہ ہے اور رومیوں کے دلوں میں عمرو بن العاص کی ہیبت سمائی ہوئی ہے، اہل مصر کے اس مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے سیدنا عثمان غنی نے عمرو بن العاص کو مصر کی امارت پر بحال کر دیا۔
منویل کی فوج نے اسکندریہ میں خوب لوٹ مار مچائی اور اس کو زمین دوز کر کے اس کے ارد گرد بستیوں میں ظلم و ستم برپا کر دیا۔ عمرو بن العاص نے انہیں ڈھیل دے دی تاکہ جس قدر فساد کرنا چاہیں کر لیں، اور مصریوں کے سامنے مسلم حکمرانوں اور رومی حکمرانوں کے درمیان فرق بھی سمجھ آ جائے۔ ان کے دلوں میں رومیوں کے لیے غیض و غضب بھر جائے اور رومیوں کے لیے ذرا بھی محبت و شفقت ان کے دلوں میں باقی نہ رہے۔ منویل اسکندریہ سے اپنے لشکر کے ساتھ نکلا اور زیریں مصر کا رخ کیا۔ عمرو بن العاص نے خاموشی اختیار کی۔ کوئی نقل و حرکت شروع نہ کی اور نہ کسی نے رومیوں کا مقابلہ کیا۔ سیدنا عمرو بن العاص کے بعض ساتھیوں کو اس صورت حال پر تشویش لاحق ہوئی، لیکن عمرو کی رائے کچھ اور تھی، ان کی رائے تھی کہ رو می خود ان کا رخ کریں، کیونکہ بلا شبہ اس دوران میں رومی مصریوں کا مال لوٹیں گے اور ان کے حق میں حماقتوں کا ارتکاب کریں گے۔ جس کی وجہ سے مصریوں کے دلوں میں رومیوں کے خلاف بغض و عناد اور غیظ و غضب جنم لے گا اور ایسی صورت میں جب مسلمان رومیوں کے مقابلے کے لیے اٹھیں گے تو مصری خود رومیوں کے خلاف ان کا تعاون کریں گے، چنانچہ عمرو بن العاص نے اپنی اس سیاست کی تحدید کرتے ہوئے فرمایا ! رومیوں کو چھوڑو، ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرو، یہاں تک کہ وہ خود میرے پاس آئیں اس طرح وہ خود آپس میں ذلت و خواری اٹھائیں۔ عمرو بن العاص کا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ رومیوں نے دل کھول کر لوٹ مار اور فساد مچایا۔ مصری ان کی کارستانیوں سے چیخ اٹھے، اور اس انتظار میں لگ گئے جو انہیں ان مفسدین کے شر سے نجات دلائے۔ منویل نقیوس پہنچا۔ ( نقیوس : اسکندریہ و فسطاط کے درمیان ایک بستی ہے ) سیدنا عمرو بن العاص اس سے مقابلہ کے لیے تیار ہوئے۔ اور اپنی فوج کو ترتیب دیا اور ان کے ساتھ اس سرکش دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلے اور نقیوس قلعے کے پاس تیل کے ساحل پر دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں، طرفین سے اپنی اپنی بہادری کا مطاہرہ کرایا گیا۔ دونوں فریق نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جس سے جنگ کی شدت اور اشتعال میں اضافہ ہوا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عمرو بن العاص دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور اپنے گھوڑے کو ان کے کے گھوڑوں کے درمیان گھسا دیا، اپنی تلوار ان کی تلواروں کے درمیان لہرائی اور لوگوں کے سروں اور سرماؤں کی گردنوں کو کاٹتے چلے گئے ایک وقت آیا جب آپ کے گھوڑے کو تیر لگا اور وہ ڈھیر ہو گیا، اس وقت آپ زمین پر آ گئے اور پیداہ صفوں میں شامل ہو گئے۔ آپ کو اس حالت میں دیکھ کر مسلمان جنگ کے لیے شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، تلواروں کی جھنکار ان کو خوف زدہ نہ کر سکیں۔
مسلمانوں کے حملوں کے سامنے رومیوں کے عزائم پست ہو گئے اور ان کی قوتوں نے جواب دے دیا، رومیوں کی شکست دیکھ کر مصری نکل کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کے لیے ان راستوں کو درست کرنے لگے جس کو دشمن نے تباہ و برباد کر دیا تھا ، ان پلوں کی تعمیر کرنے لگے جس کو انہوں نے توڑا تھا۔ اس دشمن پر مسلمانوں کی فتح دیکھ کر مصریوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا، جس نے ان کی عزتوں کو لوٹا تھا ، ان کے مال و جائیداد کو برباد کیا تھا۔ جب عمرو بن العاص اسکندریہ پہنچے تو اس کا محاصرہ کر لیا اور منجنیقیں نصب کر لیں اور گولہ باری بھی جاری رہی یہاں تک کہ اسکندریہ کے لوگوں کی ہمت پست ہو گئی۔ اس لڑائی میں منویل مارا گیا اور مسلمان اسکندریہ میں فاتحانہ طریقے سے داخل ہوتے ہوئے شہر کے وسط میں پہنچ گئے ۔ سیدنا عمرو بن العاص نے اس وقت جنگ سے رک جانے کا حکم دیا جب کہ مقابلے کے لیے ان کے سامنے کوئی باقی نہ رہا۔ المرام اینکہ اسکندریہ فتح ہو گیا۔ (سیدنا عثمان بن عفان :شخصیت و کارنامے ، تالیف ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ) کتاب مذکور میں یہ بھی مؤلف نے لکھا ہے کہ اسکندریہ سے مشرق و جنوب پر مسلمانوں کا قبضہ تھا جب کہ مغرب کی طرف برقہ، زویلہ اور مغربی طرابلس کو سیدنا عمرو بن العاص نے فتح کر کے جزیہ پر مصالحت کے عوض اس جہت کو مامون بنا لیا تھا۔ البتہ شمال میں رومی پڑتے تھے، لیکن اولاً وہ اس قدر شکست خوردہ ہو چکے تھے کہ ودبارہ اس طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کا کوئی معین و مددگار یہاں باقی نہ رہا تھا اور مسلم فوجیں نہایت مستعدی اور اہتمام کے ساتھ سمندر کی نگرانی پر لگی ہوئی تھیں۔
فتح افریقہ
مؤرخ اسلام اکبر شاہ خاں نجیب آبادی لکھتے ہیں : عبد اللہ بن سعدؓنے امیر المومنین عثمان غنیؓ سے اجازت طلب کی کہ شمالی افریقہ پر چڑھائی ہونی چاہیے۔ اِس زمانہ میں افریقہ ایک براعظم کا نام ہے مگر اُس زمانہ میں افریقہ نام کی ایک ریاست بھی تھی، جو طرابلس اور طنجہ کے درمیانی علاقہ پر پھیلی ہوئی تھی، لیکن اس زمانہ میں افریقہ ان ملکوں کے مجموعہ پر بھی بولا جاتا تھا جو آج کل بر اعظم افریقہ کے شمالی حصہ میں واقع ہیں۔ یعنی طرابلس، الجیریا، تیونس، مراکو وغیرہ۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنیؓ نے عبد اللہ بن سعد کو افریقہ پر فوج کشی کی اجازت دے دی۔ انہوں نے ۱۰ ہزار فوج کے ساتھ مصر سے خروج کر کے علاقہ برقہ میں سرحدی رئیسوں کو مغلوب کیا۔ ان سرداروں اور رئیسوں کو اپنے زمانہ حکومت میں سیدنا عمرو بن العاص بھی چڑھائی کر کے جزیہ کی ادائیگی کے لیے مجبور کر چکے تھے اور بعد میں وہ موقع پاکر خود مختار ہو گئے۔ اس لیے اس بار انہوں نے جزیہ ادا کرنے اور اپنے آپ کو محکوم تسلیم کرنے میں زیادہ چوں چرا نہیں کی۔ اس کے بعد جب عبد اللہ بن سعد ملک کے درمیانی حصے اور طرابلس کی طرف بڑھنے لگے تو سیدنا عثمان غنیؓ نے مدینہ منورہ سے ایک فوج مرتب کر کے ان کی مدد کے لیے روانہ کی۔ اس فوج میں عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن عباسؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، عمرو بن العاص، حسین بن علیؓ، ابن جعفرؓ، وغیرہم شامل تھے۔ یہ فوج مصر سے ہوتی ہوئی برقہ میں پہنچی تو وہاں عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے استقبال کر کے ان سے ملاقات کی اب سب مل کر طرابلس کی طرف بڑھے۔ رومیوں نے طرابلس سے نکل کر مقابلہ کیا مگر شکست کھا کر بھاگے۔ مسلمانوں کا طرابلس پر قبضہ ہوگیا۔ قبضہ مکمل ہونے کے بعد خاص ریاست افریقہ کی طرف لشکر اسلام بڑھا۔ افریقہ کا بادشاہ جرجیر نامی قیصر کا ماتحت اور خراج گزار تھا اس کو جب اسلامی لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تو اس نے ایک لاکھ بیس ہزار فوج جمع کر کے ایک شبانہ روز کی مسافت پر آگے بڑھ کر مقابلہ کیا۔ دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل پہنچ گئے تو عبد اللہ بن سعد نے سب سے پہلے عیسائی لشکر کو دعوت اسلام دی جرجیر نے اس دعوت کا صاف انکار کر دیا اور جب جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس کا بھی انکار کر دیا۔ پھر مسلمانوں نے صف آرائی کر کے لرائی شروع کر دی۔ خوب لرائی ہوئی اتنے مسلمانوں کی کمک کے لیے ایک تازہ دم فوج پہنچی اور لشکر اسلام سے نعرہ تکبیر بلند ہوا۔ ( تاریخ اسلام جلد اوّل )
المرام اینکہ دوری کے باعث لشکر اسلام کے پہنچنے کی اطلاع مدینہ منورہ میں جلدی نہیں پہنچ سکی تھی۔ سیدنا عثمان غنی تک ابھی کوئی خبر نہیں پہنچ سکی تھی اور دن بھی زیادہ گزر گئے تھے تو انہوں نے عبد الرحمٰن بن زبیر کو بمع فوجی دستہ افریقہ روانہ کیا۔ جب یہ لشکر اپنی منزل کو پہنچا تو مجاہدین اسلام نے دیکھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جرجیر نے یہ نعرہ سن کر پوچھا کہ یہ نعرہ تکبیر کیوں بلند ہوا ہے ؟ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے فوج کا ایک دستہ پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہ نعرہ بلند ہوا۔ یہ سن کر جرجیر بے حد متفکر اور پریشان ہوا۔ پھر اگلے دن جب لڑائی ہوئی تو عبد اللہ بن زبیر نے میدان جہاد میں امیر عبد اللہ بن سعد کو موجود نہیں پایا۔ اور ان کی عدم موجودگی سے متعلق پوچھا، جس کو علامہ ابن اثیر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :-
"فَلَمْ يَرَ ابْنَ أَبِي سَرْحٍ مَعَهُمْ، فَسَأَلَ عَنْهُ، فَقِيلَ إِنَّهُ سَمِعَ مُنَادِيَ جُرْجِيرَ يَقُولُ: مَنْ قَتَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعْدٍ فَلَهُ مِائَةُ أَلْفِ دِينَارٍ وَأُزَوِّجُهُ ابْنَتِي، وَهُوَ يَخَافُ، فَحَضَرَ عِنْدَهُ وَقَالَ لَهُ: تَأْمُرُ مُنَادِيًا يُنَادِي: مَنْ أَتَانِي بِرَأْسِ جُرْجِيرَ نَفَّلْتُهُ مِائَةَ أَلْفٍ وَزَوَّجْتُهُ ابْنَتَهُ وَاسْتَعْمَلْتُهُ عَلَى بِلَادِهِ. فَفَعَلَ ذَلِكَ، فَصَارَ جُرْجِيرُ يَخَافُ أَشَدَّ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ۔” (الکامل فی التاریخ لابن اثیر )
یعنی : "جب ابن الزبیر کو امیر عبد اللہ بن سعد نظر نہ آئے تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جرجیر نے اعلان عام کرایا کہ جو عبد اللہ بن سعد کو قتل کرے گا اسے ایک لاکھ دینار بطور انعام دیا جائے گا اور جرجیر اپنی بیٹی کی شادی بھی اس کے ساتھ کر دے گا۔ اس لیے امیر عبد اللہ نہیں آئے یہ سن کر عبد اللہ بن زبیرؓامیر عبد اللہ کے پاس ان کے خیمہ میں پہنچے اور ان سے کہا آپ بھی اپنے مجاہدین اسلام میں اعلان کرادیں کہ جو بھی جرجیر کا سر کاٹ کر لائے گا اسے مال غنیمت سے ایک لاکھ دینار انعام کے طور پر دیا جائے گا۔ اور جرجیر کی بیٹی سے اس مجاہد کا نکاح کر دیا جائے گا اور اسے جرجیر کے ملک کا حاکم بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ عبد اللہ بن سعد نے عبد اللہ بن زبیر کی بات پر عمل کرتے ہوئے اعلان عام کرا دیا اور اسی روز سے جرجیر امیر عبد اللہ سے زیادہ کوف زدہ رہنے لگا اور اپنے لیے شدید خطرہ محسوس کرنے لگا۔”
عبد اللہ بن سعد نے اکابرین جماعت اصحاب الرسول سے مشورہ کر کے اپنے تمام لشکر کو تیار رکھا، گھوڑوں اور دیگر سامان حرب کو تیار کیا تاکہ لڑائی کو حتمی شکل دی جائے۔ آخر کار خوب لڑائی ہوئی، ظہر تک گھمسان کی جنگ جاری رہی، جب اذان ظہر ہوئی تو رومیوں نے اپنے خیموں میں واپس ہونا چاہا لیکن عبد اللہ بن زبیر نے ان کو موقع نہ دیا۔ شدید لڑائی جاری رکھی حتیٰ کہ وہ تھک گئے، پھر دونوں فریق اپنے اپنے خیموں میں واپس ہوئے اور اپنے ہتھیار اتار کر آرام کرنے لگے ، عبد اللہ بن زبیر نے ان تازہ مجاہدین کو جن کو خیموں میں رکھا تھا، ساتھ لیا اور اچانک رومیوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کے اندر گھس کر یکدم ہلہ بول دیا۔ ان کو اسلحہ اٹھانے کا موقع تک نہیں مل سکا۔ اس ہلہ میں جرجیر کو مجاہد اسلام عبد اللہ بن زبیر نے قتل کیا۔ رومیوں کو شکست فاش ہوئی اور کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے اور جرجیر کی بیٹی کو قید کر لیا گیا۔
امیر عبد اللہ نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا اور مال و متاع بھی قبضہ میں لے لیا۔ شہسوار کو تین ہزار دینار اور پیادہ کو ایک ہزار دینار غنیمت میں ملے۔ جیسا کہ علامہ ابن الاثیر نے اپنی کتاب "الکامل فی التاریخ” میں بیان کیا ہے:-
"وَلَمَّا فَتَحَ عَبْدُ اللَّهِ مَدِينَةَ سُبَيْطِلَةَ بَثَّ جُيُوشَهُ فِي الْبِلَادِ فَبَلَغَتْ قَفْصَةَ، فَسَبَوْا وَغَنِمُوا، وَسَيَّرَ عَسْكَرًا إِلَى حِصْنِ الْأَجَمِ، وَقَدِ احْتَمَى بِهِ أَهْلُ تِلْكَ الْبِلَادِ، فَحَصَرَهُ وَفَتَحَهُ بِالْأَمَانِ، فَصَالَحَهُ أَهْلُ إِفْرِيقِيَّةَ عَلَى أَلْفَيْ أَلْفٍ وَخَمْسِمِائَةِ أَلْفِ دِينَارٍ، وَنَفَّلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ابْنَةَ الْمَلِكِ، وَأَرْسَلَهُ إِلَى عُثْمَانَ بِالْبِشَارَةِ بِفَتْحِ إِفْرِيقِيَّةَ۔”
جب عبد اللہ بن زبیر نے شہر سبیطلہ کو فتح کر کے اپنی فوجوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا۔ دشمن فوج قبضے میں آ گئی جہاں انہیں قیدی اور مال غنیمت ہاتھ آئے۔ اجمر قلعہ پر آپؓنے فوج کشی کی ، جس کے باعث لوگ قلعہ میں محصور ہو گئے۔ عبد اللہ بن زبیر نے اس کا محاصرہ کر لیا اور اسے احسن انداز اور امان سے فتح کیا۔ افریقہ کے لوگوں نے آپ سے مصالحت کر لی۔ عبد اللہ بن زبیر کو جرجیر کی بیٹی عطیہ میں ملی اور ان کو عبد اللہ بن سعد نے فتح کی بشارت دے کر سیدنا عثمان غنیؓکے پاس روانہ کیا۔ ( الکامل فی التاریخ لابن اثیر)
فتح آرمینیہ
آرمینیہ ،جو بحیرہ خَزَر کے مغرب میں ایک ملک ہے جس کے شمال میں بحیرہ اسود، جنوب میں آذر بائیجان اور مغرب میں بلادِ روم ہے۔ ( معجم البلدان )
ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی لکھتے ہیں کہ عثمان غنیؓکے عہدِ خلافت میں پہلی مرتبہ اسلامی فوجوں نے آرمینیہ کا رخ کیا، چنانچہ اسلامی لشکر حبیب بن مسلمہ فہری کی قیادت میں اس کی طرف روانہ ہوا جو آٹھ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا، اس لشکر نے آرمینیہ کے متعدد مقامات کو فتح کر لیا۔ چنانچہ حبیب بن مسلمہ فہری نے امیر المومنین عثمانؓسے مدد طلب کی تو سیدنا عثمان غنیؓنے سلمان بن ربیعہ باہلیؓکی قیادت میں کوفہ سے تقریباً چھ ہزار مجاہدین کو روانہ کیا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی لشکر کی قیادت سلمان بن ربیعہ باہلی کو سونپی گئی۔ کیونکہ آرمینیہ کا امیر سیدنا عثمان غنیؓنے انہی کو مقرر فرمایا تھا۔ ( بحوالہ الفتوح/ابن اعثم ) سلمان بن ربیعہؓآرمینیہ میں گھس گئے پھر خزر کے علاقے میں در اندازی کی اور ہر جگہ فتح و نصرت نے آپ کے قدم چومے البتہ شاہِ خزر کے ساتھ عظیم معرکہ پیش آ گیا جس میں دشمن کی تعداد تین لاکھ اور اسلامی فوج صرف دس ہزار تھی، اس معرکہ میں سلمان بن ربیعہ اور آپ کے تمام ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ امیر المومنین سیدنا عثمان نے حبیب بن مسلملہ کو لکھاکہ وہ آرمینیہ کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں ، چنانچہ وہ اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے اور یکے بعد دیگرے مختلف مواقع فتح کرتے ہوئے آگے بڑھے، وہاں مسلمانوں کو ثابت قدمی حاصل ہوئی اور وہاں کے لوگوں سے بعض معاہدے بھی کیے۔ ( بحوالہ الولایۃ علی البلدان ) پھر عثمان غنیؓنے مناسب سمجھا کہ انہیں الجزیرہ کی سرحدوں پر روانہ کریں کیونکہ آپ کو وہاں کا اچھا تجربہ تھا اور آپ کو اس پر قدرت حاصل تھی، اور آپ کی جگہ آرمینیہ پر حذیفہ بن یمان کو مقرر فرمایا جو پہلے آذربائیجان کے گورنر تھے۔ اس طرح آرمینیہ بھی خلافتِ عثمانی کے زیر اقتدار آ گیا اور مفتوح ہوا۔ ( کتاب سیدنا عثمان غنی بن عفانؓ )
فتح قبرص
قبرص اس جزیرہ کا پرانا نام ہے جو شام سے تقریباً ساٹھ میل کے فاصلے پر بحیرہ روم کے قریب میں ہے جو اب Cyprus سائپرس کے نام سے معروف ہے۔ یہ یورپ اور روم کی طرف سے مصر اور شام کی فتح کا دروازہ ہے۔ مصر و شام کی حفاظت اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو ۔ اس لیے امیر معاویہ نے خلافتِ فاروقی میں اس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی تھی مگر سیدنا فاروق اعظم بحری جنگ کے خلاف تھے۔ اس کے بعد ۲۸ھ میں امیر معاویہ نے امیر المومنین سیدنا عثمان غنی سے باصرار قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی اور اطمینان دلایا کہ بحری جنگ جس قدر خطرناک سمجھا جاتا ہے اس قدر خوفناک نہیں ہے۔ اس بارے میں سیدنا عثمان غنی نے جواب میں لکھا کہ تمہارا بیان درست و صحیح ہے تو حملہ میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس مہم میں اسی کو شریک کیا جائے جو اس مہم میں خوشی سے شامل و شریک ہونا چاہتے ہوں۔ چنانچہ سیدنا امیر معاویہؓنے بحری بیڑا تیار کرایا اور عبد اللہ بن قیس کی زیرت قیادت قبرص پر پہلا بحری حملہ کیا گیا۔ قبرص کے باشندے لڑائی میں ماہر و قابل نہ تھے جس کے باعث سات ہزار دینار سالانہ ادا کرنے اور بحری جنگوں میں رومی بیڑوں کی نقل و حرکت کی اطلاع بہم پہنچانے کی شرط پر صلح کر لی۔ امیر معاویہ نے قبرص کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ یہ صلح کئی سال تک قائم رہی لیکن ۳۳ھ میں اہل قبرص نے رومیوں کو امداد دی اور معاہدہ صلح توڑ دیا تو امیر معاویہؓنے قبرص پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا اور وہاں با قاعدہ طور پر مسلمان فوج اور بحری بیڑہ متعین کر دیا اور اسی زمانہ میں قیصر روم نے پھر مصر پر حملہ کیا لیکن مسلمان مجاہدین کے بحری بیڑے نے بر وقت امداد کر کے رومیوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور اسکندریہ کے علاقے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہونے دی۔ ( تاریخ طبری و الکامل ابن اثیر)
تکمیل فتح ایران
خلیفہ ثانی امیر المومنین عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں ایران کا اکثر حصہ فتح ہو چکا تھا۔ مگر بعض علاقے مکمل طور پر مطیع نہیں ہوئے تھے۔سیدنا عثمان غنی کے خلیفہ ہونے کے کچھ دنوں بعد فارس میں بغاوت شروع ہونے لگی تو عبد اللہ بن عامر جو ابو موسیٰ اشعری کی جگہ بصرہ کے گورنر مقرر کیے گئے تھے ، وہ فوراً فارس پہنچے اور اس علاقہ کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ اس عرصہ میں سعد بن العاص حاکم کوفہ نے طبرستان کو دوبارہ فتح کرنے کے بعد نیشا پور کا محاصرہ کر لیا۔ ایک ماہ بعد وہاں کا حاکم اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ایران کا بد قسمت بادشاہ یزدگرد جس کے دل میں ایران واپس لینے کی تڑپ آخری دم تک رہی وہ ۳۱ ھ میں ایک چکی والوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور دیگر باغی لوگ دب گئے۔ اس طرح ایران کی فتح مکمل ہوئی۔
حاصلِ کلام
خلافتِ عثمانی میں اسکندریہ، افریقہ، آرمینیہ، قبرص اور ایران و رَے کے علاوہ اور بھی کئی فتوحات ہوئیں۔ یہ جمیع فتوحات عثمانی اس حقیقت کی آئینہ دار ہیں کہ ان کے دور میں اہلِ اسلام اسی جرأت و بسالت، ایمان و ایقان، اخلاص و وفا، شوقِ شہادت اور ان اوصاف و اخلاق کے حامل رہے جن سے فاروقی خلافت میں متصف ہوئے اور وہ آغازِ اسلام سے ان کا طرہ امتیاز رہا۔ اگرچہ خلافت عثمانی کے اواخر میں امت مسلمہ اندرونی انتشار و خلفشار کا شکار ہو گئی تھی تاہم ان کی قوت ایمانی اور مومنانہ جرأت میں کوئی فرق نہ آیا۔ اور وہ فاروقی دور کی طرح ملکوں پر ملک فتح کرتے چلے گئے۔
سیدنا عثمان غنیؓ فطرتاً پاک باز، نیک دل، دیانت دار اور راست باز جلیل القدر صحابی اور خلیفۃ المسلمین تھے، حیا اور رحم و کرم والے تھے، وہ نہایت فیاض و سخی تھے۔ آپؓاپنی فیاضی و سخاوت کے باعث بڑے ہر دل عزیز اور مقبول خاص و عام تھے۔ بہت حلیم الطبع تھے۔ وہ خلفاء سابقین کے اسوہ حسنہ کو مد نظر رکھتے تھے۔ کئی مرتبہ گورنروں نے مشورہ دیا کہ ان فتنوں کو طاقت سے دبا دیا جائے ۔ مگر سیدنا عثمان غنی فرمایا کرتے تھے کہ میں مسلمانوں کا خون بہانا پسند نہیں کرتا اس طرح امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کی شرافت اور رحم دلی و نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سازشیں شروع ہوئیں۔ ۲۳ھ میں امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کے خلاف ایک سوچی سمجھی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کا اصل بانی عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا۔ یہ بظاہر مسلمان ہو گیا تھا۔ ( یہ صنعاء یعنی یمن کا رہنے والاتھا ) اسے ابن السوداء بھی کہتے تھے۔ یہ مسلمانوں میں عجیب و غریب عقائد ایجاد کر کے پھیلاتا اور اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتا تھا۔ اس نے سیدنا عثمان پر ایسے الزام تراشے اور ایسی تہمتیں لگائیں جو قیاس و وہم میں نہیں آ سکتی تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی جن کی عمر اس وقت تقریباً ۸۲ سال تھی ، کو ۱۸ ذی الحجہ کو روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ انہوں نے تقریباً ۱۲ سال تک ۴۴ لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطہ پر اسلامی حکومت کی اور نظام خلافت کو چلایا۔ خلیفہ ثالث امیر المومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اول ۶-۷ سال فتوحات و کامرانی کے ایسے عظیم عنوان سے عبارت ہیں کہ جن پر تاریخ اسلام ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ ان شاء اللہ الکریم
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی و لکم و لسائر المسلمین و المسلمات و المومنین و المومنات

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.