جود و سخا کا پیکر عظیم — خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ


الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

از قلم : ابو عمار سلیم

اللہ رب العزت نے اپنی زمین کو بنایا اور اسے اپنی بہترین تخلیق یعنی انسان کے سپرد کردیا اور اس پر اسے اپنا نائب بنا کر اتار دیا۔اللہ نے جو تمام علوم کا منبع اور جاننے والا ہے، اپنی خلقت عظیم ،انسان کو خود اپنے علم کا جتنا حصہ چاہا عطا کر دیا۔اور یہ علم حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بذات خود بغیر کسی واسطہ کے عطا کیا۔اور اسی علم کی بدولت انسان تمام فرشتو ں کا مسجود بنا اور اللہ کے دربار میں شرف حاصل کیا۔ جب انسان زمین پر اتارا گیا تو اس نے اللہ کے ودیعت کردہ اسی علم کی بدولت دنیا کے حالات کے مطابق اپنا راستہ چنا اور اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ بدلتے ہوئے موسمی تغیرات ، جغرافیائی حالات ، زمین کے خطرناک چیلنج ، مشکل حالات اور رزق کے حصول کے ذرائع کے مطابق اپنا ایک معاشرہ قائم کیا۔ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات اس ابتدائی انسانی معاشرہ کا بنیادی پتھر تھا مگر وقت کے گذرنے کے ساتھ ، اقدار کی تبدیلی اور معاشرتی حاجات کے تحت انسان اپنے راستے تبدیل کرتا رہا اور زندگی گذارنے کے ڈھنگ اور طور طریقوں میں بھی تبدیلیاں کرتے ہوئے ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔زندگی کے تمام شعبے اس ارتقا کی زد میں آئے۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ انسان نے اپنی زندگی کو بہ سہولت گذارنے کی خاطر اس دوران اپنے لیے ایک معاشی نظام بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتیں انسان کے لیے راستے نکالتی رہیں اور اس نے اپنی گذران کا ایک مفصل ڈھانچہ تیار کرلیا۔ معاشی مضبوطی کو انسان نے اپنے لیے بہت ہی اہمیت دی اور اس کو اپنی زندگی سہولت کے ساتھ گذارنے اور رزق کی فراہمی کا بہت بڑا سہارا بنا دیا ۔ اسی احساس کی بدولت انسان نے کسب معاش کو اپنے اوپر لازم کرلیا اور مختلف ذرائع ایجاد کرتا رہا۔ کھیتی باڑی جیسے ابتدائی ذرائع رزق سے شروع کرکے آج کے دور کے انتہائی پیچیدہ معاشی فلسفہ تک آ پہنچا۔الغرض مضبوط اقتصادی حالات بہترین زندگی کا جزو لازم بن گیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ انسان کی ضرورت غلہ ، معدنیات، سونے چاندی سے ہوتی ہوئی روپیہ پیسہ تک آ پہنچی اور اب یہی انسان کی حیثیت کو جانچنے کا معیار ٹھہرا۔ زیادہ روپیہ سونا چاندی اور زمین جائداد بہتر اور مضبوط شخصیت کی ضمانت بن گئی۔اللہ تعالیٰ نے جو علم اور دماغ عطا کیا اس کو انسان نے روپیہ پیسہ سونا چاندی وغیرہ کے حصول میں خوب خوب استعمال کیا۔ نتیجہ کے طور پر ہم جائزہ لیں تو دور انسانی کے ہر موڑ پر ہمیں بڑے دولت مند لوگ نظر آتے ہیں جنہیں اللہ نے نوازا اور ان کے اوپر اپنی رحمتوں اور نوازشوں کے خم کے خم لنڈھائے۔ انسان جو بات نہیں سمجھا وہ یہ تھی کہ اللہ نے جو عنایات اس پر جاری کر رکھی ہیں وہ دراصل اس کی محنت کا صلہ تو ہے مگر اللہ کی عنایت بھی ہے اور اللہ کی طرف سے فتنہ بھی ہے اور آزمائش کا ایک جال ہے۔روپیہ پیسہ کی فراوانی نے انسان کو بھٹکایا بھی بہت مگر بہت سے لوگوں کی آخرت کی بہتری کی ضمانت بھی بن گیا۔ بڑے بڑے بادشاہ جیسے نمرود و فرعون جو گذرے وہ تو بے شمار زمین و جاگیر اور سونے چاندی کے ذخائر کے مالک تو تھے ہی لیکن ان کے ساتھ ہی ان کے حاشیہ نشینوں نے بھی خوب خوب دولت کمائی۔ ہامان ، شداد، قارون وغیرہم، کا تذکرہ تو قرآن میں بھی ہوا اور ان کی سرکشی اور طغیان کو اللہ نے جس طرح مٹایا اس کا بھی تذکرہ ہوا۔ مگر انسان نے ان تمام واقعات سے بہت ہی کم سبق سیکھا۔ آج بھی دیکھیں تو دنیا میں دولت جائز و ناجائز طریقوں سے حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ۲۰۱۶ء کے لیے فوربس کے ادارے نے دنیا کے تمام ارب پتی لوگوں کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں کل ۱۶۹۴ حضرات کے نام ہیں جن کے اثاثے ۷۵ ارب ( بل گیٹس) سے لے کر ایک ارب تک کا اثاثہ رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اس میں موجودہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ صاحب ساڑھے چار ارب امریکی ڈالر کے ساتھ ۳۲۴ ویں نمبر پر ہیں۔مگر ان تمام حضرات میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے یہ سب جائداد و دولت صرف اپنی ذات کے لیے جمع کی۔ ان میں معدودے چند ہی ہیں جو اپنا مال انسانیت کی بھلائی فلاح اور دکھی انسانیت کی خدمت میں لگاتے ہیں۔
اللہ نے اپنے بہت سے بندوں کو ایسی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں کہ وہ مٹی کو بھی ہاتھ لگائیں تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ اور ایسے لوگ انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔اللہ کا فضل اور عنایتیں لوگوں پر بہت نازل ہوئیں۔ قرآن کریم کے بقول قارون کے خزانوں کے صندوقوں کی چابیاں کئی تنومند لوگ مل کر اٹھایا کرتے تھے۔قرآن نے لوگوں کی تعداد نہیں بتائی مگر پرانے ادیان کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی چابیاں تین سو خچر وں پر لادی جاتی تھیں۔آج بھی بل گیٹس کے مال کو اٹھایا جائے تو پتہ نہیں اس کا کتنے ٹن وزن بنے گا۔ بہت سے نیک لوگ قارون کو بھی سمجھاتے تھے کہ اکڑ کر مت چل ، فساد نہ پھیلا یہ اللہ کا کرم ہے اس کی شکر گزاری کر مگر وہ سرکش یہی کہتا رہا کہ یہ سب میرے علم اور ہنر کا نتیجہ ہے۔ آج بھی آپ کے علم میں ایسے بہت سے پیسے والے لوگ ہوں گے جو اپنی دولت پر اکڑتے ہیں اور بھلائی و فلاح کے لیے کسی غریب پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ قرآن کا یہ کہنا ہے کہ جو تمہاری ضروریات سے زیادہ ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور آخرت کے خزانوں میں جمع کرادو جہاں یہ کئی گنا بڑھ کر تمہیں ملے گا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمیں قرآن پر بھروسہ ہے اور نہ اللہ کے وعدہ پر۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے اللہ کے وعدہ پر اعتبار کرلیا اور اپنا مال اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کردیا۔ ایسے ہی اللہ کے نیک بندوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کے خلیفہ ثالث اور آپ ۖ کے داماد حضرت ذوالنورین عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
حضرت عثمان بن عفان ایام جاہلیت میں بھی رئوسائے قریش میں گنے جاتے تھے۔ زمین جائیداد کے مالک بھی تھے اور تجارت کی بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی عمدہ سوجھ بوجھ عطا کی تھی۔ آپ قریش کے بہت بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کی تجارت شام ، یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں پھیلی ہوئی تھی۔ آپ کے تجارتی قافلے میں ہزار دو ہزار اونٹ ہوا کرتےتھے ا ور غلہ اناج کے علاوہ دیگر اشیائے ضرورت بھی لاتے اور لے جاتے۔ ایمان دار ہونے کی بدولت عرب کے اس وقت کے رواج کے مطابق دیگر حضرات بھی اپنا سامان ان کے قافلے میں شامل کرتے اور منافع کماتے۔ الغرض یہ کہا جائے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ بابرکت ہاتھ عطا کیے تھے کہ مٹی کو بھی چھو لیں تو وہ سونا بن جاتی تھی۔اسلام سے قبل بھی آپ نے بہت دولت کمائی اور اسلام کے بعد بھی آپ کے ذرائع تجارت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں تیزی اور فراوانی رہی تو بے جا نہ ہوگا۔ عمدہ کھانے خود بھی کھاتے اور لوگوں کی دعوت و ضیافت بھی خوب فرماتے۔ آپ یہ تلقین بھی کیا کرتے تھے کہ کھانا اچھا کھایاکرو۔ آپ خود اچھا لباس پہنتے اور اچھے سجیلے جوان تھے۔اور کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کے رزق میں جب فراوانی کر رکھی تھی، ذاتی طبیعت میں کوئی بخل اور کنجوسی نہ تھی تو زندگی گذارنے کے ڈھنگ اور طور طریقے بھی اسی کی مطابقت سے نفیس اور پسندیدہ تھے۔ آج کے دولت مندہاتھ میں پیسے آجانے کے بعد اس کے بے جا نمود و نمائش اور کردار و اخلاق کی مختلف برائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ طغیان و سرکشی اور شراب و شباب کی گناہ آمیز زندگی ان کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ لیکن حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کا اپنا ارشاد ہے کہ باوجود تمام فراوانیوں کے میں نے ایام جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب پی اور نہ ہی زنا اور جوا کے نزدیک گیا اس لیے کہ مجھے ذاتی طور پر ان اعمال سے نفرت تھی، اور جس ہاتھ سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا اس ہاتھ کو تمام زندگی اپنی کمر سے نیچے نہیں لے گیا۔ اللہ اللہ کیا احتیاط ہے اور کیسی پاکیزگی ہے۔ یقیناً جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو طبیعت اتنی مبارک اور پاکیزہ عطا کی جب ہی تو آپ کو یہ سعادت تمام بنی آدم پر اللہ نے دی کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے قبل تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی بھی نبی اور پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئیں ہوں۔ یہ آپ کی فضیلت کی انتہائی عظیم مثال ہے جس کے بعد آپ کے مناقب گنانے کی کسی کو کوئی ضرورت ہی نہیں۔ اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا گیا اور آپ کے لیے یہ وجہ افتخار بن گیا۔ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ حلم و برد باری، حیا، عفت و پاک دامنی، امانت داری، خوش کلامی ، زہد و ورع ، ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہنا آپ کی عظیم المرتبت شخصیت کے بڑے روشن منارے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ اسلام کے ابتدائی دور میں مدینہ منورہ کے مضافات سے کوئی درماندہ اور پریشان حال شخص مدینہ آیا۔ اسے مدد کی شدید ضرورت تھی اور ہر طرف سے مایوس ہوکر شہر آیا تھا کہ شاید یہاں سے کچھ امداد مل جائے تو مشکل آسان ہو جائے۔ مدینہ میں وہ کسی کو جانتا نہ تھا ۔ مسجد میں کسی کو اپنا حال بتایا اور درخواست کی کہ میری مدد کرو۔ اس شخص نے کہا کہ میں تو اس قابل نہیں ہوں ، ہاں تمہیں ایک آدمی کا بتا تا ہوں اس کا نام عثمان ہے تم اس کے پاس چلے جائو تمہارا کام ہو جائے گا اور ساتھ ہی حضرت عثمان کا گھر بھی دکھا دیا کہ یہ گھر ہے۔ مغرب ہو چکی تھی اندھیرا پھیل رہا تھا۔ یہ شخص پر امید ہو کر حضرت عثمان کے گھر کے دروازے پر پہنچا اور چاہا کہ دستک دے کہ اچانک اندر سے کسی کی لونڈی کو ڈانٹنے کی آواز آئی کہ اس کمرے میں جب کوئی بھی نہیں ہے تو یہاں چراغ کیوں جلا رکھا ہے۔ یہ آدمی تو ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا کہ یا اللہ یہ بندہ تو اتنا کنجوس ہے کہ صرف ایک چراغ جلنے پر اتنا برہم ہو رہا ہے۔ اس کے دل نے کہا کہ چلو واپس چلو یہاں کام نہیں بنے گا۔ مگر پھر خیال آیا کہ جس نے یہاں کا پتہ بتایا تھا وہ بڑے ہی پر زور طریقہ سے کہہ رہا تھا کہ یہاں تمہارا کام ہو جائے گا۔ یہ سوچ کر اس نے قدم بڑھایا اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے حضرت عثمان نمودار ہوئے۔ اس شخص نے ڈرتے ڈرتے اپنی غرض بتائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی بات سنی اور اس سے کہا کہ مدینہ شہر کے باہر فلاں جگہ جائو وہاں تمہیں ایک قافلہ کا پڑائو ملے گا ۔ یہ میرا تجارتی قافلہ ہے جو آج واپس آیا ہے۔ اس قافلہ میں فلاں شخص ملے گا جو اس کا نگہبان ہے اس کو میرا یہ رقعہ دے دو وہ سارا قافلہ بمعہ اس کے سازوسامان کے میں تمہیں دیتا ہوں ۔ یہ سب تمہارا ہے لے جائو۔ وہ شخص بہت حیران ہوا کہ اتنی بڑی سخاوت، ایسا بڑا صدقہ اور ایسی عظیم الشان قربانی۔ وہ بولا کہ حضرت ابھی تو آپ اپنی لونڈی کو صرف ایک چراغ کے بے جا جلنے پر اس بری طرح ڈانٹ رہے تھے اور ادھر یہ فیاضی، یہ کیا ماجرا ہے۔ آپ نے فرمایا فضول خرچی اللہ کو ناپسند ہے اور گناہ کے زمرے میں آتی ہے اور صدقہ اللہ کوبہت پسند ہے جس کا صلہ اللہ ستر گنا سے بھی بڑھا کر دیتا ہے۔ سبحان اللہ۔
جود و سخا کا یہ کوئی واحد مظاہرہ نہیں تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی تمام زندگی اسی طرح کی سخاوت اور فیاضی کا عملی مظہر تھے۔ لوگوں کی دل کھول کر مدد کرنا، قرض مانگنے والوں کو کبھی انکار نہ کرنا اور شاذ ہی کسی سے رقم کا تقاضہ کرنا، دوسروں کی ضروریات کو سمجھنا اور ان سے واقف رہنا اور ہر گھڑی ان کی بلا کسی جھجھک کے مدد کرنا آپ کا شعار رہا۔ اپنے عزیز و اقرباء اور اپنے قبیلہ کے تمام لوگوں کی خبر گیری اور ان کی معاونت اور مدد اپنی تمام ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ کر فرماتے۔ یہاں تک کہ اپنی خلافت کے دور میں مال غنیمت کی تقسیم میں لوگوں کا جو حصہ ہوتا تھا وہ لوگ تو بیت المال سے اٹھا کر اپنے گھر لے جاتے تھے مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہ مال بیت المال سے اٹھا کر سیدھا اپنے ضرورت مند اعزا اور اقربا کو دے دیا کرتے تھے۔ خلافت کے خلفشار کے زمانے میں خارجیوں اور منافقوں نے جو الزامات آپ پر عائد کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بیت المال سے مال اٹھا کراپنے رشتہ داروں کو دے دیا۔ جب کہ اصل صورت حال ایسی نہ تھی۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے ہر جمعہ کے دن ایک غلام آزاد کرتا آیا ہوں۔ اگر کسی ہفتہ ناغہ ہوا تو اس سے اگلے جمعہ کو دو غلام آزاد کردئیے۔ اب ذرا حساب لگائے کہ آپ جناب نے جب اسلام قبول کیا اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً ۳۵ برس تھی اور آپ کی شہادت کے وقت آپ کی عمر تقریبا ً ۸۸ برس تھی۔ یہ لگ بھگ ۵۳ برس بنتے ہیں۔ کم سے کم کا حساب بھی رکھیں تو آپ اگر ہر برس پچاس غلام آزاد کرتے تھے تو پورے عرصہ میں آپ نے کم از کم دو ہزار چھ سو پچاس (۲۶۵۰) غلام آزادکیے اور اپنی شہادت سے ایک دن قبل آپ کے پاس ۴۰۰ غلام تھے جن کو آپ نے اس ایک دن میں آزاد کر دیا۔ گویا آپ نے اپنی جود و سخا سے بھر پور زندگی میں ۳۰۰۰ لوگوں کی گردن کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑایا۔ یہ کیا کچھ کم بات ہے۔ اتنا بڑا دل کیا کسی عام انسان کا ہو سکتا ہے اور پھر یہ کہ اللہ رب العزت نے، جو ہر نیکی اور صدقات کو ستر سے سات سو گنا بڑھا کر یا اس سے بھی زیادہ دینے کا وعدہ کیا ہے ، اس کے دربار میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کتنی کمائی کی۔ کتنے لوگ اس امت میں ایسے ہوں گے جو ان کی برابری کرسکیں گے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت سے اسلام کی جس طرح مدد کی اس کے مظاہر اور بھی زیادہ دل پذیر اور ایمان افروز ہیں۔ آپ فرماتے تھے کہ میں وہ ہوں جس نے سید الکونین نبی الاکرم صادق الوعد ﷺ کے ہاتھوں سے تین مرتبہ جنت خریدی ہے۔ ان اعمال کی تمام تفصیل تاریخ کی کتابوں اور سیرت خلیفہ ثالث میں موجود ہیں۔ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ المنورہ پہنچے تو وہاں ایک کنواں بئر رومہ نامی تھاجس کا پانی اچھا اور میٹھا تھا ایک یہودی کی ملکیت میں تھا جو مہنگے داموں پانی بیچتا تھا۔ مسلمانوں کو پانی کی شدید قلت بھی تھی تو حضور اکرم ۖ ﷺنے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ جو اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے اس کے لیے جنت ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کون سبقت کر سکتا تھا۔ آپ فوراً اس یہودی کے پاس پہنچے اور اس سے سودا کرنا چاہا مگر یہودی بیچنے کو تیار نہ ہوا تو آپ نے اس سے انتہائی مہنگے داموں آدھے کنویں کا سودا کرلیا اور طے یہ پایا کہ ایک دن پانی وہ نکالے گا اور ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کا پانی نکالیں گے۔ حضرت عثمان نے اپنی باری مسلمانوں کے لیے وقف کر دی۔ مسلمان اپنی باری پر خوب پانی نکالتے تو یہودی کو اس پانی کا کوئی پیسہ نہ ملتا۔ اس کو نقصان کا اندازہ ہوا تو اس نے اپنا آدھا کنواں بیچنے کا عندیہ ظاہر کیا اور حضرت عثمان نے باقی آدھا کنواں بھی خرید لیا اور سارے کا سارا پانی مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔ رسول اکرم ﷺ بہت خوش ہوئے اور اس عظیم کام کے اوپر حضرت عثمان کو جنت کا مژدہ سنایا۔ وہ با برکت کنواں اُس وقت سے آج تک مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ آج بھی وہ کنواں اور اس سے متصل کھجوروں کا باغ موجود ہے جو حجاج کرام کے لیے زیارت کی ایک جگہ ہے۔آج کل اس کے پانی سے کھجوروں کو سیراب کیا جاتا ہے جس میں اس وقت تقریباً ڈیڑھ ہزار درخت ہیں اور اس کی کھجور بازار میں بھی بکتی ہے اور رمضان میں مسجد نبوی ۖ میں روزہ داروں کا مفت روزہ افطار کرانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ پچھلے پندرہ سو برسوں سے اس نیکی کا جو منافع اللہ کے پاس حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے اکائونٹ میں جمع ہو رہا ہے اس کی مقدار کتنی ہوگی اور اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ حضرت عثمان کو کیا بدلہ دیں گے۔ اور تو اور جناب مجیب الرحمان شامی کے حوالے سے خبر یہ ملی ہے کہ اس بئر رومہ کا اندراج مدینہ المنورة کی میونسپلٹی میں آج بھی حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے نام سے ہے اور اس باغ اور کنویں کی نگرانی سعودی حکومت کا محکمہ زراعت کرتا ہے۔ اس کی جو آمدنی ہوتی ہے اس کا آدھا فلاحی کاموں میں استعمال ہوتا ہے اور بقیہ آدھا ایک سعودی بینک میں حضرت عثمان ابن عفان کے نام سے اکائونٹ میں جمع ہوتا ہے۔جو سعودی محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی ہے اور یتیموں ، بیوائوں اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کے سلسلہ میں ان ہی کے زیر انتظام خرچ کیا جاتا ہے۔ اور اب اس جمع شدہ رقم سے ایک بڑی زمین خریدی گئی ہے جس پر ایک فائیو اسٹار عظیم الشان ہوٹل، فندق عثمان بن عفان کی تعمیر ہو رہی جس سے اندازہ ہے کہ سالانہ پچاس ملین ریال کی آمدنی متوقع ہے۔
غزوہ تبوک ایک ایسا عظیم غزوہ تھا جو اسلام کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب لانے والا تھا۔ اپنے وقت کی سب سے بڑی سپر پاور یعنی روم کی سلطنت سے ٹکرائو تھا۔ اس کے لیے تیاری بھی بہت چاہیے تھی اور جس کے لیے لشکر بھی بہت بڑا درکار تھا۔ اس کام کو پورا کرنے کے لیے رسول اکرم ﷺ مسلمانوں کو اس غزوہ کی بڑی ترغیب دی ساتھ ہی چندہ دینے کا بھی فرمایا۔ یہی وہ موقع تھا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا آدھا مال لا کر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال پیش خدمت کیا اور فرمایا کہ میں نے پیچھے اللہ اور اس کے رسول کو اپنے گھر والوں کے لیے چھوڑدیا ہے۔اس موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک ہزار سونے کے دینار پیش کیے۔ حضور اکرم ﷺۖ بڑی دیر تک وہ دینار اپنی گود میں لیے بیٹھے اس کو الٹ پلٹ کرتے رہے اور فرمایا کہ آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اللہ اللہ کیا عمدہ صلہ ملا۔ کیسا بلینک چیک عطا کیا آقائے نامدار نے۔ ہے کوئی اس کی مثال۔
اسی جیش عسرہ میں حضرت عثمان نے اپنی جیب سے ایک ہزار سواروں کا لشکر تیار کیا ۔ اس کے لیے سواری ، سواری کا کل سامان یہاں تک کہ لگام اور اونٹوں کی رسی بمع ہتھیار کے خدمت نبوی میں پیش کرکے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ رسول بر حق صادق الوعد ۖ نے ان کو جنت کی حتمی خوش خبری سنائی ۔
اسی طرح ایک موقع پر جب اسلام تیزی سے پھیلا اور لوگ جوق درجوق مسلمان ہونے لگ گئے تو مسجد نبوی جسے حضور پاک ﷺۖنے مدینہ منورہ آنے کے بعد اپنے تھوڑے سے ساتھیوں کی ضرورت کے مطابق بنائی تھی وہ چھوٹی پڑنے لگی تو نبی اکرم ﷺۖ نے فرمایا کہ جو مسجد نبوی کے ساتھ والی زمین خرید کر مسجد میں شامل کرے اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ حضرت عثمان کے حبیب ،دوست ، سسر، آقا و مولا کی طرف سے ارشاد ہو اور جنت کا بھی وعدہ ہو اور عثمان اس پر جھٹ پٹ عمل نہ کریں ، ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ بہت سارے مسلمانوں کے بس میں شاید اس وقت اتنی گنجائش نہ ہو کہ زمین خرید سکیں۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تو ایسی کوئی مشکل نہیں تھی۔ آپ نے جلد از جلد وہ زمین خریدی اور مسجد کی توسیع کے لیے خدمت نبوی علیٰ صاحب التسلیم میں پیش کر دی اور جناب صادق الوعدﷺسے جنت کی بشارت حاصل کرلی۔ سبحان اللہ۔ کیسے سچے شیدائی تھے پیغمبر اسلام کے اور کیسی حرص تھی جنت حاصل کرنے کی۔
ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ منورہ اور ملحقہ علاقوں میں بہت شدید قحط پڑا۔ لوگ بہت پریشان ہوئے اور امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امیرالمومنین نے فرمایا صبر کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو ، عنقریب اللہ کے ایک نیک اور محبوب ترین بندے کے ہاتھوں تمہاری مشکل حل ہوجائے گی۔ اسی رات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ واپس آیا جس میں ایک ہزار اونٹ غلہ اور اناج سے بھرے ہوئے تھے۔ مدینہ کے سارے تاجر دوڑے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور زیادہ سے زیادہ پیش کش کرکے غلہ حاصل کرنا چاہا مگر وہ جو غنی تھا اسے دنیاوی مال و دولت کی ہوس کب تھی وہ تو ایک ایسا تاجر تھا جو تجارت اللہ کے ساتھ کرتا تھا۔ انہوں نے انتہائی سختی سے تمام خریداروں کو واپس لوٹایا اور خلیفة المومنین کے پاس جاکر تمام مال اور غلہ ان کے حوالہ کر دیا کہ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے آپ اسے جیسے چاہیں لوگوں میں بانٹ دیں۔ سبحان اللہ۔ ہمارے آقا و مولا سید الکونین خاتمی المرتبت حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ نے ایسے ہی توآپ کو غنی کا خطاب نہیں دے دیا تھا۔ آپ اس خطاب کے بالکل صحیح حقدار تھے۔ دیکھیے کہ کیسی تجارت انہوں نے اللہ کے ہاتھوں کی۔ اور پھر امیر المومنین نے آپ کے لیے جو کلمات خیر کہے ہوںگے یقینا اللہ کے دربار میں ان کی بڑی قدرو منزلت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
آپ رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں بھی اپنی فیاضی اور سخاوت میں کم نہ رہے۔ لوگوں کی داد رسی ، کم حیثیت اشخاص کی امداد، یتیموں اور بیوائوں کی کفالت، بھوکوں کو کھانا کھلانا، غلاموں کو بلا کسی اجر کے آزاد کرانا یہ سب آپ کے معمولات میں شامل رہا مگر اس دور میں آپ نے اوپر ہونے والے اخراجات بہت کم کرلیے تھے اور ان کے مزاج کی سادگی ان کے اوپر عود کر آئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن شداد سے مروی ہے کہ میں نے امیرالمومنین کو جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تو مجھ کو ان کا انتہائی سادہ لباس دیکھ کر بڑی عبرت ہوئی کہ جس شخص کے دروازے پر ہر روز ہزاروں کا کپڑا اور جنس ضرورت مندوں کو صدقہ ہوتا ہے اس کا اپنا لباس پانچ درہم سے زیادہ کا نہ تھا۔
حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ہر سال حج کرتے تھے۔ دوران حج جو بھی اخراجات اٹھتے وہ سب کے سب آپ اپنی ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے اور بیت المال پر اس کا کوئی بوجھ نہ ڈالتے۔ پورے موسم حج میں تمام آنے والے حجاج کرام کو کھانا خود اپنی طرف سے کھلاتے تھے۔ ذرا غور کریں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے حجة الوداع کے موقعہ پر حضور ۖﷺ کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب حجاج نے حج کیا تھا۔ آپ ۖ کی رحلت کے بعد اور حضرت عثمان کے دور آخر تک تیس سال کے عرصہ میں حجاج کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوگیا ہوگا اور ہر سال کتنے حاجی حج کے لیے جاتے ہوں گے اور ان تمام لوگوں کی مکمل ضیافت امیرالمومنین کے ذاتی جیب سے ہو رہی ہوتی۔ یقیناً لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً کا عملی مظاہرہ تھا۔ آپ خلیفة المسلمین تھے اور آپ کو کسی سے کوئی غرض تو تھی نہیں اس لیے آپ جو بھی کر رہے تھے اور اس مد میں جتنے عظیم اخراجات ہو رہے تھے آپ کی ذاتی جیب سے ہو رہے تھے۔ فی سبیل اللہ ہو رہے تھے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طرح کے کتنے سخی دنیا میں گذرے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے لٹاتے رہے ہوں گے۔ مگر ہمارے اسلاف میں سے حضرت ذوالنورین نے جو تاریخ اس سلسلہ میں رقم کی ہے میرا یقین راسخ ہے کہ ایسا کچھ پچھلے پندرہ سو برسوں میں شایدکسی نے نہیں کیا ہو گا۔ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درجات میں اضافہ کرے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کے لیے قرآن کریم کے اس دعوے کی عملی تفسیر کرا دی کہ اللہ کے راستے میں خرچ کی ہوئی رقم اور مال اللہ کے وعدے کے مطابق بڑھا چڑھا کر واپس کر دی جاتی ہے۔ آپ کے فیض کا دریا آج بھی جاری و ساری ہے۔ آپ کا خرچ کیا ہوا مال اور اس سے بنایا ہوا اثاثہ آج پندرہ سو سال کے بعد بھی عوم الناس کے لیے اتنا ہی سود مند اور فیض مند ہے جیسا آپ کے دور میں تھا۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.