الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ
اشاعت خاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ
از قلم : محمد زبیر شیخ ( ملتان)
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔ ان مختلف الجہت خصوصیات میں سے ایک خصوصیت وہ رجال اللہ ہیں جنہیں تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ خصوصاً صحابہ کرام کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثال ہیں۔ اس مضمون میں انہی ہستیوں میں سے ایک منفرد ہستی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جن کی زندگی کفر کی موت تھی۔ وقت کی دھول بھی ان کی تابندہ سیرت کو دھندلا نہیں سکی۔ جو شرم وحیاء کا پیکر تھی۔ (مسلم: ۲۴۰۱)جو ہدایت اور علم کا سمندر تھی۔ تقویٰ اور پرہیزگاری جن کی سرشت میں شامل تھا۔ حتیٰ کہ زمانہ جاہلیت کی آلودگیاں بھی انہیں آلودہ نہ کرسکیں۔ (مسند احمد:۴۳۷) ۱۲سال تک خلافت سنبھالی۔ لا تعداد فتوحات حاصل ہوئیں۔اور اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوگئی۔امت کو اختلاف سے نکال کر اتفاق پر قائم کر دیا۔مسلمانوں کےلیے مال پانی کی طرح بہایا۔ مسجد نبوی وسیع کروائی۔
اس ہستی کا نام نامی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ کے مختصر حالات زندگی حسبِ ذیل ہیں۔
حالاتِ زندگی
پیدائش
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے ۔ اس اعتبار سے آپ نبی کریم ﷺ سے تقریباً ۵ سال چھوٹے تھے۔ (الإصابۃ في تمییز الصحابۃ لابن حجر: ۴/۳۷۷، طبع : دار الکتب العلمیۃ – بیروت)
نام ونسب، کنیت، لقب
آپ کا مکمل نام ونسب یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبد شمس قرشی اموی۔ آپ کی کنیت ابو عمر اور ابو عبد اللہ ہے۔ (الإصابۃ : ۴/۳۷۷) آپ کے القاب’’ذو النورین‘‘ اور ’’امین‘‘ ہیں۔ (سیرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، از سیف اللہ خالد، طبع دار الاندلس، ص: ۳۲)
آپ کی والدہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے نوازا تھا۔ (الإصابۃ: ۴/۳۷۷)
نبی کریمﷺ سے تعلق
بلاشبہ اسلام میں شرف کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر ہے۔ [الحجرات :۱۳ ] نبی کریمﷺ نے بھی فرمایا ہے: مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُه (صحیح مسلم : ۲۶۹۹)’’جس کو اللہ کے دربار میں اس کے اعمال نے پیچھے کردیا، اس کا خاندان اور حسب ونسب اسے آگے نہیں کرسکتا۔‘‘
نبی کریمﷺ نے تو اپنے خاندان والوں اور اہل بیت کو خطاب کرکے واضح طور پر فرما دیا تھا: –
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ – أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا – اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ المُطَّلِبِ لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا۔(صحیح بخاری: ۴۷۷۱)
’’اے جماعت قریش ! یا اسی طرح کا اور کوئی کلمہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ (اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو) اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے بنی عبد مناف ! اللہ کے ہاں میں تمہارے لیے بالکل کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اے عباس بن عبد المطلب ! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی ! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ ! محمد ( ﷺ ) کی بیٹی ! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں ، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا ۔ ‘‘
لیکن ہمارے معاشرے میں بعض لوگ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا کلمات اپنے منہ سے نکالتے ہیں وما تخفي صدورھم أکبر کے ہاں شرف کا معیار نسب ہے ۔ اس اعتبار سے بھی اگر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا خاندانی طور پر نبی کریمﷺ سے تین طرح کا تعلق ہے ۔ یعنی آپ کے نبی کریمﷺ سے تین رشتے تھے:-
۱-آپ کی نانی محترمہ کا اسم گرامی ’’ام حکیم بیضاء‘‘ تھا جو کہ رسول اللہﷺ کی پھوپھی تھیں۔ (الإصابۃ:۴/۳۷۷)
۲-آپ کے نسب نامہ میں چھٹی پشت پر عبد مناف کا نام آتا ہے اور نبی کریمﷺ کے نسب نامہ میں بھی چھٹی پشت پر عبد مناف کا نام ہے۔ یہ بھی ایک خاندانی تعلق اور رشتہ ہے۔
۳-نبی کریمﷺ نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کی۔ ایک سیدہ رقیہ تھیں۔ (صحیح بخاری : ۳۱۳۰، وسنن بیہقی: ۱۸۵۸۵) دوسری ام کلثوم تھیں۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۵۸)
بعض لوگوں کو سیدنا عثمان کا نبی کریمﷺ سے یہ تیسرا تعلق برداشت نہیں ہوتا، اس لیے وہ سرے سے نبی کریمﷺ کی ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ باقی بیٹیوں کا انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ نبی کریمﷺ کی ان بیٹیوں کا تذکرہ ان کی کتابوں میں بھی ہے۔ مثال کے طور پر چند حوالے ملاحظہ فرمائیں: –
۱-الکافي للکلیني: ۱/۲۷۸، طبع: منشورات الفجر، بیروت – لبنان، دوسرا نسخہ : ۱/۵۰۹، طبع: دار التعارف للمطبوعات، بیروت –لبنان، اصول کافی مترجم: ۳/۵، طبع: ظفر شمیم پبلیکیشنز ٹرسٹ، ناظم آباد نمبر،۲کراچی
۲-حیات القلوب از ملا باقر مجلسی:۲/۸۷۱، طبع: امامیہ کتب خانہ، اندرون موچی دروازہ، لاہور
۳-نہج البلاغۃ، ص: ۳۱۳،طبع: دار العلوم للنشر والتوزیع، نہج البلاغہ مترجم، خطبہ نمبر : ۱۶۴، ترجمہ: ذیشان حیدر جوادی، ص: ۳۰۸-۳۰۹،طبع: محفوظ بک ایجنسی، مارٹن روڈ، کراچی۔ دوسرا نسخہ: خطبہ نمبر ۱۶۲ترجمہ: مفتی جعفر حسین، ص:۳۷۹،طبع: المعراج کمپنی، لاہور
حلیہ
آپ رضی اللہ عنہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی بہت خوبصورت تھے۔ درمیانہ قد، گھنگھریالے بال، گورے چٹے تھے۔ (سیدنا عثمان بن عفان ، شخصیت اور کارنامے مترجم، از محمد علی الصلابی، طبع: الفرقان ٹرسٹ، ص: ۳۸)
شادی اور اولاد
آپ کی پہلی شادی سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺسے ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بہن ام کلثوم رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں آئیں۔ ان کے فوت ہوجانے کے بعد آپ نے فاختہ بنت غزوان، ام عمرو بنت جندب، فاطمہ بنت ولید، ام البنین بنت عیینہ، رملہ بنت شیبہ، نائلہ بنت الفرافصہ سے مختلف اوقات میں شادی کی۔ شہادت کے وقت آخر الذکر آپ کے پاس موجود تھیں۔
ان مختلف بیویوں سے آپ کے۹بیٹے اور۷ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ (سیدنا عثمان بن عفان، شخصیت اور کارنامے، ص:۳۹)
قبول اسلام
جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر۳۴ برس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول اسلام کے شرف سے نوازا اور آپ کلمہ پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ آپ کے اسلام قبول کرنے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی کوششوں کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ (سیرت ابن ہشام، طبع: مکتبۃ مصطفیٰ البابی الحلبی – مصر، ص:۱/۲۵۰)
اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ان کا چچا حکم بن ابی العاص نے رسی میں جکڑ دیا اور نہایت تکلیف دی۔ (سیدنا عثمان بن عفان، شخصیت اور کارنامے، ص:۴۶)
فی سبیل اللہ ہجرت
آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی خاطر دو مرتبہ اپنے وطن کو چھوڑا۔ پہلی مرتبہ آپ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ پھر وہاں سے واپس مکہ آئے اور اس کے بعد ہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا تو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
غزوات میں شرکت
اسلام اور کفر کے درمیان جب پہلا معرکہ ہوا جسے غزوہ بدر کہتے ہیں، اس میں آپ شریک نہ ہو سکے کیونکہ اس وقت آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺبیمار تھیں اور آپﷺ نے خود سیدنا عثمان کو پیچھے رہنے کا حکم دیا تھا۔ (صحیح بخاری: ۳۱۳۰، وسنن بیہقی:۱۸۵۸۵)
اس کے علاوہ باقی غزوات میں آپ نے سرگرم شرکت کی۔
۶ ہجری میں نبی ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ صحابہ سمیت عمرہ ادا کررہے ہیں۔ آپﷺ نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلیے۱۴۰۰صحابہ کرام کے ساتھ رخت سفر باندھا اور عمرہ کرنے کےلیے روانہ ہوگئے۔ لیکن جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفار نے آگے جانے سے روک دیا۔ اس موقع پر آپﷺ نے کفار سے بات کرنے کےلیے سیدنا عثمان بن عفان کا انتخاب کیا اور انہیں اپنا سفیر بنا کر مکہ روانہ کیا۔ وہاں سے واپسی پر انہیں دیر ہوگئی جس پر مسلمانوں میں یہ افواہ اڑ گئی کہ عثمان شہید کردیے گئے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیعت لی جسے بیعت رضوان کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ الفتح اسی موقع کی مناسبت سے نازل فرمائی ہے۔ اس میں یہ پورا واقعہ موجود ہے۔
بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سفیررسول عثمان بن عفان نہیں، بلکہ عثمان بن مظعون تھے۔ ان کی تسلی کےلیے ان کی ایک کتاب کا حوالہ یہاں درج کیا جاتا ہے جس میں واضح طور پر عثمان بن عفان لکھا ہوا ہے۔ الکافي للکلیني، کتاب الروضۃ: ۸/۱۷۳، طبع: منشورات الفجر، بیروت – لبنان، دوسرا نسخہ:۸/۲۵۴، طبع: دار التعارف للمطبوعات، بیروت – لبنان
۹ ہجری میں ہونے والے غزوہ تبوک جسے جیش عسرۃ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ سخت گرمی کے موسم میں تھا، آپ نے اس کی تیاری میں اس قدر مدد کی کہ رسول اللہﷺ خوش ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: "جو اس لشکر کو تیار کرنے میں مدد کرے گا، اس کےلیے جنت ہے۔”(صحیح بخاری:۲۷۷۸) تو سیدنا عثمان نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔
خلافت صدیقی میں
نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد جب ابوبکر خلیفہ بنے تو سیدنا عثمان کا مجلس شوریٰ کے اہم ارکان میں شمار ہوتا تھا۔ آپ سیدنا ابو بکر کے جنرل سیکرٹری، ناموس اعظم اور کاتب اکبر تھے۔ (سیدنا عثمان بن عفان، شخصیت اور کارنامے، ص:۸۳)
خلافت فاروقی میں
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ان کی مجلس شوریٰ کے ارکان میں ایک اہم نام سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا تھا۔
خلافت عثمانی
جب ابو لؤلؤ فیروز نے سیدنا عمر کو زخمی کیا اور آپ کو اپنی وفات کا یقین ہوگیا تو آپ نے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنائی اور فرمایا کہ خلیفہ انہی میں سے کوئی ایک ہوگا۔ وہ چھ آدمی یہ تھے: عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، طلحہ بن عبید اللہ، زبیربن عوام، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف ( رضی اللہ عنہم)۔
اس موقع پر زبیر نے علی کا، طلحہ نے عثمان کا اور سعد نے عبد الرحمن بن عوف کا نام پیش کیا۔ آخر کار اتفاق رائے سے عثمان رضی اللہ عنہ ۴ محرم۲۴ ہجری کو مسند نشین خلافت ہوئے۔ (عثمان بن عفان، شخصیت اور کارنامے، ص: ۱۰۵)
بعض لوگوں کو خلفائے ثلاثہ یعنی سیدنا ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ انہیں غاصب قرار دیتے ہیں۔ جبکہ سیدنا علی بن ابی طالب کا اس بارے میں نقطہ نظر کیا تھا، اس کی وضاحت انہی کی ایک معتبر ترین کتاب سے ہوجاتی ہے۔ اس کتاب کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: –
’’إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر و عمر و عثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار و لا للغائب أن يرد، و إنما الشورى للمهاجرين و الانصار، فإن اجتمعوا على رجل و سموه إماما كان ذلك لله رضى، فإن خرج من أمرهم خارج بطعن أو بدعة ردوه إلى ما خرج منه، فإن أبى قاتلوه على أتباعه غير سبيل المؤمنين و ولاه الله ما تولى۔‘‘ (نہج البلاغۃ، ص: ۴۹۱،طبع: دار العلوم للنشر والتوزیع)
’’میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے ابوبکر و عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی۔ اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو نظر ثانی کا حق تھا اور نہ کسی غائب کو رد کرنے کا اختیار تھا۔ شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے، لہٰذا وہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے اور اگر کوئی شخص تنقید کرکے یا بدعت کی بنیاد پر اس امر سے باہر نکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے واپس لائیں ، اگر وہ انکار کر دے تو اس سے جنگ کریں کہ اس نے مؤمنین کے راستے سے ہٹ کر راہ نکالی ہے اور اللہ بھی اسے ادھر پھیردے گا جدھر وہ پھر گیا ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ مترجم، خط نمبر:۶، ترجمہ: ذیشان حیدر جوادی، ص: ۴۸۸- ۴۸۹، طبع: محفوظ بک ایجنسی، مارٹن روڈ، کراچی۔ دوسرا نسخہ: خط نمبر:۶، ترجمہ: مفتی جعفر حسین، ص: ۵۶۲، طبع: المعراج کمپنی، لاہور)
کارہائے نمایاں
آپ نے ۱۲سال تک خلافت کا کام سنبھالا۔ ۲۴ ہجری میں آذربائیجان اور ۲۷ ہجری میں طرابلس فتح ہوا۔۲۷ ہجری میں ہی اسپین پر حملے کیے۔۲۸ ہجری میں قبرص پر بحری حملے کے ذریعے فتح حاصل ہوئی۔ ۳۰ ہجری میں طبرستان فتح ہوا۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی اوربھی فتوحات حاصل ہوئیں۔ رومیوں سے بحری جنگ بھی آپ کے زمانے میں ہوئی۔
شہادت کے اسباب
اتنے عظیم الشان اور رحمدل خلیفہ کو ۳۵ ہجری میں ان کے گھر میں نہایت مظلومانہ طور پر شہید کر دیا گیا۔ اگر اس کے پیچھے اسباب کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں خوشحالی اور فارغ البالی آگئی تھی جس کی وجہ سے ان میں اسلام کےلیے وہ پہلے جیسا جوش وجذبہ باقی نہیں رہا تھا۔ اس کے علاوہ جو نئے لوگ مسلمان ہوئے تھے، ان میں خلوص و للہیت کی کمی تھی۔ آپ کے دور میں بہت سے عجمی ممالک سلطنت ِ اسلامیہ میں داخل ہوئے جس کی وجہ سے عجمی عناصر میں زیادتی ہوتی گئی ۔ علاوہ ازیں یہودو نصاریٰ کی ریشہ دوانیاں بھی جاری تھیں خصوصاً عبداللہ بن سبا یہودی کا اس سارے واقعہ میں بہت بڑا ہاتھ اور کردار تھا۔
چند الزامات اور ان کے جوابات
بعض لوگوں کو سیدنا عثمان سے خصوصی عداوت ہے، اس لیے وہ آپ پر چند مخصوص الزامات عائد کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کے واضح جواب کئی مرتبہ دیے جاچکے ہیں۔ چند مشہور اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ کیجیے:-
پہلا اعتراض
غزوہ بدر سے غیر حاضر رہے۔
دوسرا اعتراض
غزوہ احد میں پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے۔
تیسرا اعتراض
بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
جواب
ان تینوں کا اعتراضات کا جواب صحیح بخاری میں موجود ہے۔
عثمان بن موہب بیان کرتے ہیں کہ ایک مصری آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبد اللہ بن عمر ہیں۔ اس نے پوچھا۔ اے ابن عمر! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی؟ ابن عمر نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا۔ پھر اس نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے۔ جواب دیا کہ ہاں! یہ بھی صحیح ہے۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا: ’’اللہ اکبر‘‘ تو ابن عمر نے کہا: قریب آ جاؤ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاتا ہوں۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہیں (مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا)اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص (مسلمانوں میں سے) عثمان سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو نبی کریم ﷺ اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے۔ یہی وجہ ہوئی تھی کہ آپ ﷺ نے انہیں (قریش سے مذاکرات کرنے کے لیے)مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہو رہی تھی تو عثمان مکہ جا چکے تھے۔ اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد ابن عمر نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا : جاؤ، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ (صحیح بخاری: ۳۶۹۸)
سیدنا ابن عمر نے غزوہ احد میں پیچھے ہٹنے پر جس معافی کا تذکرہ کیا ہے، وہ قرآن مجید میں ہے: –
‹إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ(آل عمران: ۱۵۵)
” تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ پھیری جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے، درحقیقت ان کے بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان نے ان کو لغزش میں مبتلا کردیا تھا۔ اور یقین رکھو کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے۔ یقیناً اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا بردبار ہے۔”
چوتھا اعتراض
انہوں نے لوگوں کو خصوصاً اپنے رشتہ داروں کو دل کھول کر عطیات دیے۔
جواب
آپ پہلے ہی مالدار تھے۔ بئر رومہ کی خریداری اور جیش عسرہ کی تیاری والے واقعات سے ان کی مالداری واضح ہے۔ انہیں بیت المال سے دوسروں کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے یہ بےبنیاد الزام ہے۔
پانچواں اعتراض
قرآن کو جلایا۔
جواب
اس کی وجہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان امیر المؤمنین عثمان کے پاس آئے۔ اس وقت حضرت عثمان آرمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لیے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے ، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی قرأت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: امیرالمؤمنین! اس سے پہلے کہ یہ امت (امت مسلمہ) بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے ، آپ اس کی خبر لیجئے ۔ چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کہلا بھیجا کہ صحیفے (جنہیں زید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروا لیں ۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت ، عبد اللہ بن زبیر ، سعد بن العاص ، عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔ عثمان نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں زید سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا ۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے ۔(صحیح بخاری:۴۹۸۷)
گویا کہ یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کا اچھا عمل تھا جو انہوں نے امت کی خیرخواہی اور بھلائی کے پیشِ نظر کیا تھا۔
اہل بیت سے تعلق
بعض لوگوں کے نزدیک صحابہ کرام کا خاندانِ علی سے اچھا سلوک نہیں تھا اور ان کی آپس میں شروع سے دشمنیاں تھیں۔ اس سلسلہ میں سیدنا عثمان پر بھی کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور انہیں خاندانِ علی کا دشمن ثابت کیا جاتا ہے۔ آئیے انہی کی کتابوں کے حوالہ سے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعتاً یہی صورتحال تھی؟
جب سیدنا علی کی شادی کا موقع آیا تو سیدنا علی کے پاس بطور سامان صرف ایک زرہ تھی۔ سیدنا عثمان بن عفان نے وہ زرہ چار سو درہم میں خرید لی۔ جب سودا مکمل ہوگیا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے زرہ اور علی رضی اللہ عنہ نے درہم پکڑ لیے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ابو الحسن! کیا اب میں زرہ کا تمہاری نسبت اور تم درہموں کے میری نسبت زیادہ حق دار نہیں ہو؟‘‘ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔‘‘ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ زرہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میں نے درہم اور زرہ کو پکڑا اور رسول اللہﷺ کے پاس چلا گیا۔ وہاں جا کر میں نے درہم اور زرہ کو آپﷺ کے سامنے رکھا اور سارا معاملہ گوش گزار کیا کہ کس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے میری خیرخواہی کی ہے۔ تو آپﷺ نے عثمان رضی اللہ عنہ کےلیے دعائے خیر فرمائی۔ (کشف الغمۃ في معرفۃ الائمۃ لابي الحسن علي بن عیسیٰ الاربلي، طبع: دار الاضواء بیروت، ج:۱، ص: ۳۶۸-۳۶۹، وفي نسخۃ أخریٰ: ج:۱، ص: ۳۵۹، طبع: مکتبۃ بني ھاشم – تبریز)
اس کے بعد جب نکاح کی مجلس منعقد ہونے لگی تو رسول اللہﷺ نے ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر اور بہت سے انصار صحابہ کو بلا بھیجا۔ (کشف الغمۃ: ۱/۳۵۸، وفي نسخۃ أخریٰ:۱/۳۴۸)
فضائل سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ
۱-نبی کریمﷺ نے کئی مرتبہ آپ کو جنت کی بشارت دی۔(صحیح بخاری: ۲۷۷۸،۶۲۱۶)
۲-جن دس صحابہ کرام کو نبی کریمﷺ نے نام بنام جنت کی بشارت دی، انہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ (سنن ابی داود:۴۶۴۹)
۳- اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کی اور غریب الدیار بنے۔ (بخاری:۳۶۹۶)
۴- نبی کریمﷺ کے خلفاء راشدین میں آپ کا تیسرا نمبر ہے۔
۵-بئررومہ خرید کر وقف کیا اور نبی کریمﷺ کی اس بشارت کا مصداق بنے: ’’جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲۷۷۸)
۶-نبی کریمﷺکے عہد میں صحابہ کرام ابو بکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو۔ (صحیح بخاری:۳۶۹۷)
۷-نبی کریمﷺ نے اپنی زندگی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید قرار دیا تھا۔ (صحیح بخاری: ۳۶۹۹)
ضعیف احادیث
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب میں مذکورہ اور غیر مذکورہ صحیح روایات کے ہوتے ہوئے ضعیف روایات کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دو ضعیف احادیث پیش کی جاتی ہیں جو ہمارے ہاں عمومی طور پر سیدنا عثمان کے فضائل ومناقب میں بیان کی جاتی ہیں:-
۱-سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ تو آپﷺ نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔ آپﷺ سے پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! اس سے پہلے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی پر جنازہ کی نماز نہ پڑھی ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا ، تو اللہ نے اسے مبغوض کر دیا “ (سنن ترمذی:۳۷۰۹)
تبصرہ:امام ترمذی نے اس روایت کے ایک راوی ’’محمد بن زیاد‘‘ کو سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ البانی نے اس روایت پر ’’موضوع‘‘ کا حکم لگایا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ:۱۹۶۷)
۲-سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ”ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے ، اور جنت میں میرے رفیق عثمان ہوں گے۔“ (سنن ترمذی: ۳۶۹۸)
تبصرہ:امام ترمذی نے اس روایت کی سند کو منقطع قرار دیا ہے۔کیونکہ حارث بن عبد الرحمن بن ابی ذباب نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ (تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف للمزي:۴/۲۱۲، طبع: المکتب الاسلامي)
حاصل ہونے والے اسباق
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں گزشتہ اقوام کے واقعات بیان کرکے فرمایا ہے:-
‹لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ› (یوسف:۱۱۱)
’’یقیناً ان کے واقعات میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے بڑا عبرت کا سامان ہے ۔‘‘
اس سے ہمیں یہ قاعدہ اور قانون ملتا ہے کہ ہم جب بھی کوئی واقعہ پڑھیں یا کسی کی سیرت سے واقف ہوں تو ہمیں اس سے اپنے لیے اسباق اخذ کرنے چاہییں۔ اسی قاعدہ اور قانون کے تحت سیرت عثمان سے اخذ ہونے والے چند اسباق حسبِ ذیل ہیں:-
۱-دین کےلیے جان ومال کی قربانی کا جذبہ ہمارے اندر ہونا چاہیے۔
۲-دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو کوئی حرج محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
۳-شرم و حیا کو اختیار کرنا چاہیے ۔
۴-صبروتحمل اور حلم وبردباری کو اپنانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔