الواقعۃ شمارہ 51 – 52 ، شعبان المعظم و رمضان المبارک 1437ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
ایک طویل عرصے سے خواہش تھی کہ شمالی پنجاب کے مختلف شہروں کا علمی سفر کیا جائے، وہاں کے کتب خانوں کی زیارت کرکے آنکھوں کو ٹھنڈک پہچائی جائے اور پھر اسی بہانے اپنے پرانے دوستوں سے ملاقات کی جائے اور ان دوستوں سے بھی جن دوستی تو مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تھی مگر کبھی صورت آشنائی کی نوبت نہ آ سکی تھی۔ ”ادارہ احیاء التراث الاسلامی ” کویت سے انسلاک کے بعد میں نے فی الفور فیصلہ کیا کہ دس برس سے بھی زائد عرصہ پر محیط اس جمود کو توڑا جائے اور اپنی خلوت سے باہر نکل کر جلوت میں قدم رکھا جائے۔
١١ مئی کو بذریعہ قراقرم ایکسپریس ہمارے سفر کا آغاز ہوا۔ ابتدا ہی میں دو باتیں ایسی ہو گئیں جنہوں نے اس سفر کو محض علمی سفر نہیں رہنے دیا بلکہ میرے لیے اسے ایک یادگار سفر بھی بنا دیا۔ میرے فرزند عزیز محمد عثمان صدیقی جو ابھی اپنی عمر رواں کی پانچویں منزل میں ہیں، جنہیں آغاز سفر سے پہلے ان کی شرارتوں پر میں نے بہت ڈانٹا تھا ۔ ٹرین میں جب میں نے اپنی ضرورت کے لیے اپنا سفری بیگ کھولا تو دیکھا کہ اس میں انہوں نے اپنے دو کھلونے ڈال رکھے تھے تاکہ یہ کھلونے دورانِ سفر مجھے ان کی یاد دلاتے رہیں۔ بچے اور بالخصوص حساس بچے آبگینوں کی طرح ہوتے ہیں وہ بے شک زبان سے اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکیں مگر اپنے عمل سے احساس کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مجھے اپنے صاحبزادے سے ایسے کسی رویے کی توقع نہیں تھی باپ بیٹے کے رشتے کی یہ رعنائی پہلی بار میرے سامنے آئی اپنے قلب کی کیفیت کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ گو اس نے اپنے کھلونے ڈالنے کے لیے میری کچھ کام کی چیزیں نکال دی تھیں مگر اس کی محبت کے سامنے یہ خطا بہت معمولی محسوس ہوئی۔ وہ کھلونے دوران سفر میں نے اپنے ساتھ رکھے۔ ممکن ہے کہ بعض حضرات کے لیے یہ محض ایک بچکانہ حرکت ہو۔ لیکن ان حضرات کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے کہ میں اپنے بچے کو یقینا ان سے کہیں زیادہ جانتا ہوں۔ گو دنیا کا ہر باپ ہی اپنے بچے کو غیر معمولی بچہ سمجھتا ہے اور ایسا سمجھنا فطری بھی ہے لیکن میں ایسے کسی خمار میں نہیں۔ تاہم میں اتنا جانتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے دوران سفر جب بھی اس سے بات ہوئی اس کا تقاضا یہی تھا کہ میں فوراً واپس آجائوں اور اس کے رونے کی آواز میری جلد واپسی کا ایک سبب بن گئی۔
دوسری بات یہ ہوئی کہ لاہور میں میرا ارادہ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دیرینہ رفیق میاں عنصر محمود ایڈوکیٹ سے رابطہ کرنے اور ان سے مل کر آنے کا تھا۔ عنصر محمود سے میری دوستی مادی اعتبار سے تو ١٤ / ١٥ برس پرانی ہے مگر قلبی اعتبار سے اس رفاقت کی مدت کا حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم ایک ساتھ ہی گریجویشن کر رہے تھے۔ دورانِ طالب علمی ہم گھنٹوں ساتھ بیٹھتے زندگی کی مختلف حقیقتوں پر خوب بحثا بحثی کرتے بالفاظ دیگر رومی اور سعدی بننے کی کوشش میں مگن رہتے۔ اس عمر میں جب کہ لوگوں کی زندگی ہی تفریح ہوتی تھی ہماری تفریح ہی ”زندگی”تھی۔اب ہم اپنے قصہ سفر کی جانب مراجعت کرتے ہیں۔
ہوا یوں کہ آغاز سفر سے کچھ ہی قبل ان سے بات ہوگئی جب انہیں پتا چلا کہ میں لاہور آ رہا ہوں تو پھر انہوں نے میرے سارے پروگرام پر خط تنسیخ پھیر دی۔ اور صاف فیصلہ سنا دیا کہ اس پورے سفر میں وہ میرے ہمراہ رہیں گے۔ اسٹیشن پر مجھے ریسیو کرنے آئیں گے۔ اس کے بعد مجھے گجرانوالہ، سیالکوٹ ، فیصل آباد، ڈیرہ غازی خاں جہاں کہیں بھی جانا ہوگا وہ مجھے خود لے جائیں گے۔ میں نے بارہا سمجھایا کہ میں پہلی بار نہیں آ رہا آپ پریشان نہ ہوں مگر وہ بھلا ”کس کی بات مانے ہیں”۔ ان کی رہائش سمبڑیال (سیالکوٹ) میں ہے مگر مجھے ریسیو کرنے کی غرض سے شدت جذبات سے اس قدر مغلوب ہوئے کہ رات ہی کو لاہور آگئے جب کہ قراقرم ایکسپریس تقریبا ساڑھے گیارہ بجے دوپہر کو لاہور پہنچی۔ ٹرین ہی میں رات کے وقت مجھے ان کا بذریعہ ایس ایم ایس پیغام مل گیا کہ وہ لاہور پہنچ چکے ہیں۔ اصل میں ہماری یہ ملاقات تقریباً دس برس بعد ہو رہی تھی۔ ان سے ملنے کا اشتیاق تو مجھے بھی بڑی شدت سے تھا ۔ مگر ان کی بے لوث محبت اور اس گوشہ گیر فقیر کے لیے احساس کی ایسی شدت نے میرے اس سفر کو میرا ایک یادگار سفر بنا دیا۔
لاہور اسٹیشن پہنچا تو برادر عنصر محمود میرے استقبال کے لیے تیار کھڑے تھے ان کے ساتھ لاہور میں واقع ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ طے یہی پایا کہ ایک دن مکمل آرام کیا جائے اور ان کے ساتھ وقت گزارا جائے دوسرے دن صبح وہ مجھے گجرانوالہ چھوڑ دیں گے۔ چونکہ دس برس بعد ملاقات ہوئی تھی اس لیے خوب باتیں ہوئیں تھوڑی ہی دیر میں دس برس کا فاصلہ سمٹ آیا ۔ اگلا دن جمعہ تھا میں فکرمند تھا کہ ہم نمازِ جمعہ سے قبل گجرانوالہ پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں ، میرے خیال سے ہم نے لاہور سے نکلنے میں تاخیر کر دی تھی تاہم ہمارے رفیق سفر عنصر محمود ڈھارس بندھاتے رہے کہ ہم وقت پر گجرانوالہ پہنچ جائیں گے اور ان شاء اللہ با جماعت نمازِ جمعہ پڑھیں گے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہم گجرانوالہ پہنچ چکے تھے وہیں ہم نے ناشتہ کیا اور پھر انہوں نے مجھے گجرانوالہ جناب ضیا اللہ کھوکھر کی رہائش گاہ پر پہنچایا۔ مجھے پہنچا کر وہ اپنی رہائش گاہ سمبڑیال کے لیے روانہ ہوگئے۔ کھوکھر صاحب کی رہائش گاہ میں میرا تقریباً ١١ برس بعد آنا ہوا تھا گو اس دوران کراچی میں ان سے چند ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ میرا ارادہ چند دن رک کر ان کے قیمتی کتب خانے سے استفادے کا تھا۔ ان کا کتب خانہ بیش قیمت علمی جواہر سے معمور ہے۔ رسائل و جرائد کی بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ دو ہزار کے قریب سفر نامے موجود ہیں،اس کے علاوہ خود نوشت اور خاکوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ میں نے اپنے کام کا آغاز نمازِ جمعہ کے بعد موقوف رکھا۔ نمازِ جمعہ میں نے گجرانوالہ کی جامع مسجد میں ادا کی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ گجرانوالہ کی سب سے بڑی مسجد ہے اور یہاں جمعہ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ ١١ برس قبل جب میں یہاں آیا تھا تو اس وقت یہ مسجد تعمیر کے غالباً آخری مراحل پر تھی۔ تاہم اب ماشاء اللہ مکمل تیار ہو چکی تھی۔ اللہ اس مسجد کی رونق برقرار رکھے اور اسے خدمت دین کا بہترین ذریہ بنائے۔
نمازِ جمعہ کے بعد میں نے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ پرانے رسائل و جرائد کی ورق گردانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ تھوڑی دیر بعد جناب حافظ شاہد محمود مجھ سے ملنے آئے۔ حافظ صاحب بڑے خلیق آدمی ہیں ابتداء سفر ہی سے وہ مجھ سے رابطے میں تھے ، مسلسل میری خیریت دریافت کرتے رہے اور کسی بھی کام کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کرتے رہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے، آمین۔ وہ کئی عمدہ کتابوں کے ناشر ہیں پرانے علمی تراث کو نئے انداز میں پیش کرنے کا بہترین سلیقہ رکھتے ہیں۔ اب تک نواب صدیق حسن خاں ، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری وغیرہم کے علمی تراث پیش کر چکے ہیں۔ میں جب تک گجرانوالہ میں رہا حافظ صاحب روزانہ مجھ سے ملتے رہے۔ میرا ارادہ ان کے ساتھ جمعیة مناھل الخیریة کے دفتر جانے کا تھا۔دوسرے دن یعنی ہفتے کی صبح حافظ صاحب آ گئے اور ہم جمعیة مناھل الخیریة کے دفتر پہنچے یہاں کا انتظام و انصرام دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ پاکستان کے مختلف پسماندہ علاقوں میں یہ ادارہ بہترین خدمات انجام دے رہا ہے۔ حافظ صاحب نے ادارے کی لائبریری بھی دکھائی۔ ادارے نے قریب ہی میں دو کنال کی جگہ خرید لی ہے تاکہ وہاں اچھے انداز میں ایک لائبریری کی تعمیر کی جا سکے۔ یہاں ہماری مختصر سی ملاقات حافظ عبد اللہ سلیم صاحب سے بھی ہوئی۔ قدیم کتابوں کے ترجمہ و تخریج کے لیے حافظ صاحب موصوف خاصی شہرت رکھتے ہیں۔
حافظ شاہد صاحب بھی ادارہ احیاء التراث الاسلامی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا عارف جاوید محمدی صاحب کا کویت سے پیغام آیا تھا کہ وہ میرے سفر میں ہر ممکن سہولت بہم پہنچائیں ۔ در حقیقت یہ اللہ کریم کی کرم نوازی تھی کہ جہاں بھی گیا بہترین رفقاء سفر ملتے رہے۔ مولانا عارف جاوید قدیم علمی نوادرات کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ اللہ اس گوشہ گیر فقیر کے لیے ان کی نیک تمنائیں قبول فرمائے اور انہیں بہترین اجر عطا کرے، آمین۔ حافظ شاہد نے ادارہ احیاء التراث کی جانب سے مجھے دار ابی الطیب کی تمام مطبوعہ کتابوں کا سیٹ مرحمت فرمایا۔ جو بعد میں انہوں نے بذریعہ گڈز ٹرانسپورٹ روانہ کیں اور میںنے انہیں کراچی میں وصول کیا۔ بلاشبہ یہ کتابیں بہترین علمی و تحقیقی معیار کی حامل ہیں۔
چونکہ میرا قیام کھوکھر صاحب کے یہاں تھا اس لیے شام میں ان کے گھر آیا اور رات گئے تک رسائل و جرائد دیکھتا رہا یہاں میرا کل وقتی یہی مشغلہ تھا۔ حافظ شاہد صاحب نے میرے لیے ڈیجیٹل کیمرے کا بندو بست کر دیا تھا میں جن صفحات کی نقل لینا چاہتا لے سکتا تھا لیکن کیمرے سے تصویر کھینچ کھینچ کر مجھے زبردست تھکاوٹ کا احساس ہوا پھر میری رفتار بھی بہت سست تھی۔ اس کا حل بھی حافظ صاحب نے فوراً نکال دیا اور ادارے کے ایک نمائندے جناب عبید الرحمٰن کو بھیج دیا میں مطلوبہ صفحات پرٹیگ لگا دیتا اور وہ تصویر لے لیتے ان کی رفتار پروفیشنل ہونے کی وجہ سے بہت تیز تھی۔ میں نے اس عرصے میں ایک ہزار سے زائد صفحات منتخب کیے تھے اس قدر صفحات کی تصاویر لینے میں مجھے کئی دن مزید لگ جاتے الحمد للہ یہ مرحلہ بآسانی حل ہوا۔ کھوکھر صاحب اکثر ہی کسی نہ کسی بہانے مجھے گھر سے باہر لے کر نکلتے تھے۔ ان کے خیال سے یہ میری ذہنی تھکاوٹ کا بہترین حل تھا، گو مجھے کتابیں دیکھنے کی بالخصوص نوادرات دیکھنے کی ایسی عادت ہے کہ اس میں مجھے کوئی تھکاوٹ نہیں ہوتی ، طبعاً اگر محسوس بھی ہو تو تھوڑی ہی دیر میں دور ہو جاتی ہے۔ ایک دن کھوکھر صاحب مجھے لے کر گجرانوالہ میں پرانی کتابوں کے اسٹال لے کر گئے۔ وہاں میری دلچسپی کی کتابیں تقریباً نہیں تھی جو کتابیں نظرآئیں وہ کراچی میں عام دستیاب تھیں۔ زیادہ تر شعری مجموعوں کی بہتات تھی۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ زوال پذیر معاشرے میں شاعری تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں زوال پذیری کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں یہ نشانی کیسے ظاہر نہ ہوتی۔
یہیں ہماری ملاقات مولانا صفدر صاحب سے ہوگئی وہ اصلاً مناظرے کی دنیا کے آدمی ہیں۔ مختصر سی لیکن اچھی ملاقات رہی۔ انہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی۔ تاہم ان سے دوبارہ ملنا نہیں ہو سکا۔
منگل کی صبح میرا ارادہ سیالکوٹ اپنے دوست عنصر محمود کے گھر جانے کا تھا۔ ان سے بات بھی ہو گئی تھی مگر حافظ شاہد صاحب نے بتایا کہ وہ بھی سیالکوٹ جا رہے ہیں لہٰذا مجھے بھی چھوڑ دیں گے۔ گجرانوالہ سے سیالکوٹ جانے کا قریبی راستہ براہ ڈسکہ ہے تاہم وہ براہ وزیر آباد سیالکوٹ کے لیے نکلے ان کا ارادہ سوہدرہ میں ملک عبد الرشید عراقی صاحب سے میری ملاقات کرانے کا تھا۔
سوہدرہ گجرانوالہ کے اطراف میں واقع ایک مشہور تاریخی قصبہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے اصحاب علم پیدا ہوئے۔ طب میں بھی یہاں کے اطباء ملک بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ عراقی صاحب بڑے زود نویس ہیں، بہت کثرت سے لکھتے ہیں۔اب تک ان کی کئی درجن کتابیں چھپ چکی ہیں۔ سینکڑوں مضامین و مقالات پاک و ہند کے مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ دورانِ ملاقات انہوں نے اپنی ایک تازہ کتاب ”تاریخ نزول قرآن” عنایت کی۔ اسی دوران وہاں جناب ابو عمر عبد العزیز سوہدروی بھی تشریف لے آئے۔ ان کے قلب کا اخلاص ان کے چہرے پر ظاہر تھا۔ وہ بڑے سادہ طبیعت اور پُر خلوص شخصیت کے حامل لگے۔ عراقی صاحب کے یہاں سے نکل کر ہماری اگلی منزل ”جامعہ رحمانیہ” سیالکوٹ تھی جہاں مولانا عبد الحنان جانباز صاحب ہماری آمد کے منتظر تھے۔ اسی دوران وزیر آباد شاہراہ پر حافظ شاہد صاحب نے مولانا ظفر علی خاں کی رہائش گاہ اور ان کے اخبار زمیندار کا دفتر بھی دکھایا جہاں اب ان کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم ہے۔
سیالکوٹ میں کچہری روڈ سے تھوڑا آگے جامعہ رحمانیہ ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نمازِ ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ نمازِ ظہر حافظ شاہد محمود کی امامت میں ادا کی۔ نمازِ ظہر کے بعد ہی اصل تعارف ہوا۔ مولانا عبد الحنان سے یہ میری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ ان کے برادر صغیر پروفیسر عبد العظیم جانباز صاحب کا نام قارئین الواقعة کے لیے نیا نہیں، ان کے قیمتی نگارشات سے قارئینِ الواقعہ مستفید ہوتے رہتے ہیں، وہ بھی تشریف لے آئے تھے یہیں ہماری ملاقات مولانا محمد الیاس میر صاحب سے ہوئی، جو اس وقت جامعہ کے صدر مدرس ہیں۔ مجھے ان سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ کھانے کا وقت ہو چکا تھا اس لیے فوراً دستر خوان بچھا دیا گیا ۔دوران تناول بھی ہلکی پھلکی دل چسپ باتیں ہوتی رہیں۔
کھانے کے بعد مولانا عبد الحنان جانباز نے اپنے رفقاء کے ساتھ مجھے اپنا ادارہ دکھایا۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ رحمانیہ کا مختصراً تعارف کرایا جائے۔ یہ جامعہ شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز شارح سنن ابن ماجہ کے خلوصِ نیت کا مظہر ہے۔ اس کا سابقہ نام ”جامعہ ابراہیمیہ” تھا۔ ١٩٦٤ء میں میانہ پورہ سیالکوٹ میں حاجی خدا بخش مرحوم نے اسے قائم کیا۔ وہی اس کے اخراجات کے کفیل تھے۔ مدرسے کا صدر مدرس مولانا محمد علی جانباز کو مقرر کیا گیا۔ ١٩٧٠ء کو حاجی خدا بخش صاحب مدرسے کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہوگئے اور مدرسہ کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ مدرسہ بند ہونے کے بعد مولانا محمد علی جانباز ناصر روڈ پر واقع ایک جامع مسجد میں آگئے اور یہاں تدریسی سلسلہ شروع کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ مدرسے کے لیے متصل زمین کے حصول کی کوشش بھی شروع کی۔ الحمد للہ ١٩٨٠ء میں مدرسے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ جہاں اس وقت مدرسے کی عمارت موجود ہے۔ یہاں طلبائے دین کے لیے بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی رہائش و طعام کا بہترین انتظام کیا جاتا ہے۔ مدرسے کی اپنی لائبریری ہے۔ جہاں علوم اسلامی کے تقریباً ہر فن پر امہات کتب موجود ہیں۔ رسائل و جرائد کا بھی اچھا ذخیرہ موجود ہے۔ یہیں مجھے الواقعہ کے شمارے بھی نظر آئے ۔ پروفیسر عبد العظیم صاحب نے بتایا کہ ان کا ارادہ ان شماروں کو مجلد کرنے کا ہے تاہم بعض شماروں کی کمی کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ مطلوبہ شماروں کے نمبر فراہم کر دیں تاکہ یہ شمارے انہیں مہیا کیے جا سکیں۔
یہاں سے فراغت کے بعد حافظ شاہد محمود نے مجھے سمبڑیال چوک پر چھوڑا جہاں عنصر محمود صاحب میرے لیے چشم براہ تھے۔ عنصر محمود کے ساتھ سب سے پہلے میں ان کے قائم کردہ پنجاب کالج سمبڑیال گیا۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ عنصر محمود صاحب ماہر قانون ہی نہیں بلکہ ماہر تعلیم، ایک بہترین منتظم اور دانشورانہ صلاحیتوں کے حامل بھی ہیں۔ ان کے یہ جوہر میرے لیے نئے تو نہیں تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں خاصا نکھار آ گیا تھا۔ پنجاب کالج، سمبڑیال کی آبادی سے تھوڑا دور ایک پُر فضا مقام پر قائم ہے۔ اسی سے متصل ان کا اسکول بھی۔ یہ اسکول اور کالج دونوں ہی سیالکوٹ کے انتہائی اہم تعلیم اداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ کالج کے قائم ہوئے صرف ٣ سال ہوئے ہیں لیکن اس مختصر سی مدت میں کالج نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ کالج کی ایک لائبریری بھی ہے۔ طلباء و طالبات کے لیے کلاسز کا علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ جلد ہی ان کا ارادہ ایک یونی ورسٹی قائم کرنے کا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی قائم کردہ یونی ورسٹی بھی ایک انتہائی معیاری درس گاہ ثابت ہوگی۔
اس کے بعد ہم سمبڑیال میں واقع ان کی رہائش گاہ پہنچے۔ کچھ دیر آرام کے بعد سر شام ہم پھر شہر کی زیارت کے لیے نکلے۔ شہر کا ایئر پورٹ بھی دیکھا اور نہر کے کنارے چارپائی پر بیٹھ کر تربوز بھی کھایا۔ دیسی انداز سے تربوز کھانے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ شہر کے لوگوں کے لیے بھی یہ تفریح کا ایک اچھا ذریعہ بن گیا تھا۔ لائن سے چارپائیاں لگی ہوئی تھیں اور اکثر جوان حضرات وہاں براجمان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
اس کے بعد عنصر محمود صاحب مجھے سیالکوٹ کی مین شاہراہ پر واقع اپنے قائم کردہ رہائشی سوسائٹی ”خیابانِ رحمٰن” دکھانے لے گئے۔ اس رہائشی پروجیکٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسجد، پارک، مارکیٹ کے ساتھ ساتھ ایک قطعہ ارضی شہر خموشاں ( قبرستان) کے لیے بھی وقف ہے۔ عام طور پر اپنے خریداروں کو خالی پلاٹ فروخت کرتے ہیں۔ لیکن مسجد کے پلاٹ کو انہوں نے اہل محلہ کی ذمہ داری نہیں بنایا بلکہ اللہ کا گھر اپنے ذاتی مصارف سے تیار کیا اور اخلاص و للّٰہیت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ سوسائٹی کا سب سے قیمتی قطعہ ارضی اللہ کے کے گھر کے لیے وقف کیا۔ میں نے ان کی تیار کردہ مسجد دیکھی ما شاء اللہ انتہائی خوبصورت ہے۔ اس کی خوبصورتی میں عنصر محمود کے اخلاص اور ذوقِ جمالیات دونوں ہی کا دخل ہے۔
رات جب گھر پہنچے تو عنصر محمود صاحب کے ایک دوست شاہد محمود وڑائچ صاحب کو بھی بلوا لیا، ان کی رہائش بھی سمبڑیال میں عنصر صاحب کی رہائش سے قریب ہی ہے۔ وڑائچ صاحب سے میرا غائبانہ تعارف تھا۔ انہوں نے ایک کتاب ” صدائے حکمت” کے عنوان سے لکھی ہے، جس میں معاشرے میں موجود بعض لسانیاتی اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وڑائچ صاحب نے اپنی کتاب کے ٣ نسخے مجھے پیش کیے۔ میں ان کے لیے الواقعہ کا قرآن نمبر لے گیا تھا ، ان کی خدمت میں پیش کیا۔ خاصی دیر تک مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پر بات چیت رہی۔
وڑائچ صاحب کے جانے کے بعد رات گئے تک عنصر محمود سے بات چیت چلتی رہی اور ہم دونوں اپنی عمر گزشتہ کی یادوں کو تازہ کرتے رہے۔
دوسرے دن تقریباً دو پہر ہم سمبڑیال سے براستہ ڈسکہ لاہور کے لیے نکلے ۔ لاہور پہنچ کر طے یہ پایا کہ عنصر بھائی میرے لیے اسٹیشن جا کر کل بروز جمعرات کراچی کے لیے ٹکٹ بک کرائیں گے اور اپنی رہائش گاہ چلے جائیں گے۔ جب کہ میں دار الدعوة السلفیہ کی لائبریری سے مختصر سے استفادے کے بعد اردو باز ار میں جناب ھناد شاکر سے مل کر ان کی رہائش گاہ پہنچ جائوں گا۔
دار الدعوة السلفیہ کی لائبریری کے قریب ہی مین روڈ پر انہوں نے مجھے چھوڑا۔ یہاں سے میں لائبریری پہنچا۔ لائبریری میں رنگ و روغن کا کام جاری تھا۔ کتابوں کی ترتیب بھی نئے مرحلے میں داخل تھی عام زائرین کے لیے لائبریری سر دست بند تھی۔ دار الدعوة السلفیہ کی عمارت کئی منزلہ ہے۔ گرائونڈ فلور پر ہفت روزہ ”الاعتصام” کا دفتر ہے۔ یہیں حافظ محمد سلیم صاحب سے ملاقات ہوئی جو ”الاعتصام” کے منیجر ہیں۔ میرے پہنچنے کی اطلاع حافظ شاہد محمود دے چکے تھے۔ میں لائبریری چلا گیا اور اپنی بعض مطلوبہ رسائل و جرائد و کتب دیکھ لیںاور ان کی کاپی بھی کروالی۔ میرے پاس چونکہ وقت کم تھا اس پر مستزاد وہاں بجلی بھی غائب تھی اور گرمی اپنے شدت عروج پر تھی اس لیے میں مطلوبہ کام ہونے کے فوراً بعد ہی وہاں سے نکل آیا۔ میں جب بھی لاہور آیا ہوں تو جناب حافظ احمد شاکر ( مدیر مسئول ”الاعتصام” ) سے ضرور ملا ہوں مگر اس بار نہیں مل سکا، جس کا مجھے افسوس رہا۔ بایں ہمہ اب میری منزل اردو بازار تھی جہاں میں اپنے رفیقِ دیرینہ جناب ھناد شاکر سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔
لائبریری سے نکل کر میں روڈ تک پہنچا جہاں شیخ علی ہجویری کا مزار ہے۔ اس کے اطراف میں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ سڑک کراس کرکے جیسے ہی اردو بازار کی طرف جانے لگا تو دیکھا کہ برادرم عنصر محمود مسکراتے ہوئے میری ہی طرف چلے آ رہے ہیں۔ میں نے اسے نظر کا دھوکہ جانا لیکن پتہ چلا کہ انہوں نے میرے لیے معمولی سی زحمت بھی برادشت نہیں کی۔ اپنے سارے کام ملتوی کرکے میرا یہاں پارکنگ میں انتظار کر رہے تھے اور اطلاع اس لیے نہیں دی تاکہ میں لائبریری میں اپنے کام میں خلل انداز نہ ہوں (لائبریری ٥ بجے بند ہوتی تھی اس لیے ان کا ارادہ ٥ بجے ہی مجھ سے رابطہ کرنے کا تھا، لیکن میں نسبتاً جلد فارغ ہو گیا تھا)۔ یقین جانیے ان کے اس بے پناہ خلوص کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ موجود نہیں۔ ہم نے پڑھا ہے کہ جذبات کے اظہار کے لیے لوگ آب دیدہ کا لفظ کثرت سے لکھتے اور بولتے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو اس وقت ان کے احساس کی شدت کے سامنے میرا دل ہی پانی بن کر بہہ گیا تھا۔
اس مقام پر ایک لمحے کے لیے رک کر میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے اپنی زندگی میں ایسے بہترین رفقاء عطا کیے کہ جس کے لیے میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ جناب ( کموڈور ) سلیم احمد صدیقی، ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری، جناب ابو عمار سلیم،استاذِ مکرم مولانا ابو عبد المجید محمد حسین ، جناب اشرف موٹن، محترم تنویر احمد بٹ وغیرہم میرے ایسے ہی رفقاء حیات میں سے ہیں۔ یہ تمام حضرات مجھ سے عمر میں کئی برس بڑے ہیں ۔ میں ان کی بزرگانہ شفقت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہوں۔ ان کا اخلاص میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے بر عکس برادر عنصر محمود میرے ہم عمر ہیں ۔ کسی انسان کی زندگی میں ایسے افراد کا اجتماع جو کسی مادی غرض و غایت سے بلند ہو اور خالصتاً فکری و نظریاتی بنیادوں پر استوار ہو، اس عہدِ مادیت پرست میں ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔
عنصر محمود کے اخلاص نے مجھے اپنے احساس کی دنیا میں دھکیل دیا ، اب ایک بار پھر قصہ سفر کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ عنصر محمود کے ساتھ میں اردوبازار پہنچا ۔ ان کی کار چونکہ گلی کی تنگی کے باعث اندر داخل نہ ہوسکتی تھی اس لیے وہ باہر ہی اپنی کار میں میرا انتظار کرتے رہے اور مجھے یہ پیشکش کی کہ میں اطمینان کے ساتھ اپنا کام نمٹا کر آئوں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس طرح انتظار کروانا مجھے خود پسند نہیں تھا اس لیے میں چاہتا تھا کہ جلد از جلد اپنے کام سے فارغ ہو جائوں۔
سب سے پہلے میں دارالکتب السلفیہ ھناد شاکر صاحب کے پاس پہنچا۔ یہ بڑے پُرخلوص شخصیت کے حامل ہیں۔ اخلاقی سطح بھی بلند ہے۔ بہت پُر تپاک انداز سے ملے۔ کئی برس بعد ملاقات ہورہی تھی۔ چونکہ گرمی کا موسم تھا اس لیے میرے لیے شربت منگوانے کا آرڈر دیا۔ میں نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے رخصت لی اور قریب ہی مکتبہ قدوسیہ عمر فاروق قدوسی سے مل آیا۔ میری واپسی تک شربت نہیں پہنچ سکا تھا مجھے برادر عنصر محمود بھی یاد آرہے تھے جو میرا انتظار کر رہے تھے میں نے ھناد بھائی سے جلد جانے کی وجہ بتائی اور جانے کی تیاری کرنے لگا۔ ھناد بھائی نے میرے دوست کے لیے اپنے مکتبے کی ایک بہترین و عمدہ کتاب ”آداب زندگی” عنایت کی یہ امام بیہقی کی تصنیف ہے جس کا انہوں نے اردو ترجمہ کروایا ہے اور اچھی انداز سے طبع کیا ہے۔ یہ کتاب میں نے ان کی طرف سے عنصر محمود کو پیش کی۔ اتنے میں شربت میں آگیا اور میں ”خانقاہِ ھنادیہ” کے اس تبرک کو پی کر باہر نکلا۔
اس کے بعد میں عنصر بھائی کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ رات گئے تک مختلف سیاسی و سماجی امور پر باتیں ہوتی رہیں۔ دوسرے دن چار بجے مجھے لاہور سے نکلنا تھا اس لیے دوسرے دن کا پروگرام یہ طے پایا کہ ہم پنجاب یونی ورسٹی جائیں گے جہاں مجھے شعبہ عربی اورینٹل کالج جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام لکھے گئے ایم فل کا ایک مقالہ بعنوان ”مولانا شمس الحق ڈیانوی-بحیثیت محدث ”دیکھنا تھا۔ یہ مقالہ ١٩٧١ء میں لکھا گیا تھا۔ مقالہ نگار عطاء الرحمٰن ہیں۔ عام طور پر معروف یہی ہے کہ علامہ شمس الحق پر پہلی کتاب شیخ محمد عزیر شمس ( نزیل مکہ مکرمہ) نے ” حیاة المحدث شمس الحق و اعمالہ” ( مطبوعہ بنارس ١٩٧٩ء ) لکھی۔ لیکن یہ مقالہ اس سے ٨ برس قبل تکمیل پذیر ہوا تھا جو افسوس کبھی مرحلہ طباعت سے نہ گزر سکا۔ گو اب اس موضوع پر یونی ورسٹی و جامعت کی سطح پر بہت کام ہو چکا ہے۔ جامعہ خرطوم ( سوڈان)، جامعہ اسکندریہ ( مصر) اور بغداد وغیرہا سے بھی علمی مقالے سامنے آ چکے ہیں۔ الحمد للہ پنجاب یونی ورسٹی کی لائبریری میں یہ مقالہ موجود تھا اور میں نے اسے ملاحظہ کیا۔ پنجاب یونی ورسٹی ہی کی لائبریری میں میری تالیف کردہ دو کتابیں بھی موجود تھیں۔
مقالہ دیکھنے کے بعد ارادہ تھا کہ ڈاکٹر محمد ارشد (پنجاب یونی ورسٹی) سے ملاقات کی جائے۔ ڈاکٹر ارشد نے عالمی شہرت یافتہ مفسر و مترجم قرآن محمد اسد پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ لاہور آنے کے بعد ہی سے ان سے مسلسل رابطہ رہا تھا۔ میں ان سے ملنے کا آرزو مند بھی تھا۔ مگر وقت کی کمی کے باعث نہ مل سکا۔
اسی طرح ”ادارہ پاکستان شناسی”کے ڈائرکٹر جناب ظہور الدین امرتسری سے بھی ملنا چاہتا تھا کہ وہ جب بھی کراچی آئے مجھ سے ضرور مل کر گئے۔ مگر افسوس انہیں میں اپنے آنے کی اطلاع بھی نہ دے سکا۔
دوپہر کا کھانا ہم نے پنجاب یونی ورسٹی کی کینٹین میں کھایا۔ اس کے بعد برادر عنصر محمود نے مجھے اسٹیشن پر چھوڑا اور یہ وعدہ لیا کہ میں جلد ہی دوبارہ لاہور آئوں گا۔ قراقرم ایکسپریس پر بیٹھتے ساتھ ہی میرا یہ علمی و یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔ دوسرے دن میں تقریباً ١١ بجے کراچی پہنچ چکا تھا۔
اس پورے سفر کے دوران مولاناعبد الرحیم اظہر ڈیروی اور مولانا محمد یٰسین شاد صاحب سے مسلسل رابطہ رہا۔ مولانا ڈیروی کی شدید خواہش تھی کہ میں ڈیرہ غازی خاں آئوں۔ ایک دن ان کے پاس ٹھہروں۔ اپنے شہر کے مختلف اصحاب علم دوستوں کو انہوں نے میری آمد کی اطلاع بھی دے دی تھی۔ مگر تقدیرِ الٰہی میں ہماری یہ ملاقات مقدر نہ تھی۔ مولانا عبد الرحیم اچھے صاحبِ علم ہیں۔ الواقعہ کے مستقل قارئین کے لیے ان کا نام اجنبی نہیں۔ کم لکھتے ہیں مگر جو لکھتے ہیں پوری دل جمعی اور تحقیق سے لکھتے ہیں۔ افسوس میں ان کی خدمت میں باریاب نہ ہوسکا۔
میں جب گجرانوالہ ہی میں تھا تو اطلاع ملی کہ ہمارے دوست مولانا حمید اللہ خاں عزیز مدیر ”تفہیم الاسلام”مولانا محمد اسحاق بھٹی پر اپنی خصوصی اشاعت کی طباعت کی غرض سے احمد پوری شرقیہ سے لاہور آئے ہوئے ہیں۔ مگر یہاں پہنچ کر گرمی کی شدت نے انہیں نڈھال کر دیا اور وہ ہسپتال جا داخل ہوئے۔ لاہور پہنچ کر میری خواہش تھی کہ ان کی عیادت کی جائے ۔ ان سے پہلے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔تاہم ان سے رابطہ نہ ہو سکااور اس پر مستزاد میرے پاس وقت بھی کم تھا۔
الحمد للہ یہ سفر اپنی پوری رعنائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اللہ کریم تمام رفقاء سفر کو بہترین دینی و علمی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین