الواقعۃ شمارہ 51 – 52 ، شعبان المعظم و رمضان المبارک 1437ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط و زوال کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ہمارے لیے دین رسم سے نکل کر مالِ تجارت بن چکا ہے۔ ہم اللہ کے ساتھ تعلق کی بھی قیمت لگانے لگے ہیں۔ اپنی عبادتیں بھی بیچنا چاہتے ہیں۔ اپنے شوقِ زر پرستی کے اظہار کے لیے ہم نے دین کو بھی مشقِ ستم بنا ڈالا ہے۔ انحطاط اور زوال ایک دم سے پیدا نہیں ہوتے۔
زمانہ پرورش کرتا ہے برسوں حادثے ایک دم نہیں ہوتے
چند برس قبل رمضان ٹرانسمیشن کے نام سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا آج وہ اپنے برگ و بار لا رہا ہے۔
حرص بخشش میں تو نے اے زاہد بندگی کو گناہ کر ڈالا
قوم کو سیاسی شعور کے نام پر منتشر کرنے کے بعد اب مذہب کے دل و دماغ کو متاثر کرنے کی باری ہے۔ ایک میڈیا چینل نے قدم اٹھایا تو دوسروں نے بھی تقلید کی۔ دوڑ تو پھر دوڑ ہوتی ہے جیتنے کے لیے ہر حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٹی وی نے سیاست کو گندے پانی کا جوہڑ بنا دیا تھا اب مذہب کو مسخروں کا ریوڑ بنانا چاہتی ہے۔
رمضان المبارک کی مقدس راتوں کو مخلوط اجتماعات ہوتے ہیں جہاں جھوم جھوم کر اور لہک لہک کر مذہبی ترانے گائے جاتے ہیں۔ سال بھر دعوت عیش دینے والے ایک ماہ کے لیے مذہبی مفکر کا لبادہ اوڑھ کر دین کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف ہو جاتے ہیں۔
بات صرف اداکاری تک محدود نہیں رہتی بلکہ اپنے فہم دین و دانش کا بَرملا اظہار بھی کیا جاتاہے۔ دین کے مسلمات پر انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ ایک اینکر کو قادیانیت کا غم کھائے جاتا ہے۔ انہیں مسلمان بنانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ کیا یہ عین عقیدہ ختم نبوت سے انحراف نہیں ؟ ایمان دل کو یقین اور طمانیت عطا کرتا ہے۔ ہر عقیدہ اپنی اساس رکھتا ہے اور اسلام بدرجہ اتم اپنی اساس سے بہرہ ور ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص عقیدہ ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ایسی معلوم اور عیاں حقیقت پر بھی سوال کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ ان پر تو اللہ رب العزت کا یہ قول ہی صادق آتا ہے :
( وَ غَرَّ ھُمْ فِیْ دِیْنِھِمْ مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ ) آل عمران : ٢٤
” ان کی گھڑی ہوئی باتوں نے انہیں دین کے بارے میں دھوکہ میں مبتلا کر دیا ہے۔”
ایک بھانڈ مسخرہ اپنے مخلوط اجتماع کے جواز کے لیے کعبة اللہ کو مثال میں پیش کرتا ہے۔ گویا اس کے پروگرام میں ہونے والا اجتماع کیفیت میں کعبة اللہ کے اجتماع جیسا ہے۔ کیا یہ صریحاً کعبة اللہ کی توہین نہیں ؟ کیا شعائر الٰہی کا برملا مذاق اڑانا نہیں ؟
ہفتہ ، عشرہ قبل سے اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو فلاں اسکالر رقت انگیز دعا کرائیں گے۔ ان نادانوں کو کیا معلوم رقت کیا ہے۔ آمد اور آورد کسے کہتے ہیں۔ رقت غیر ارادی ہوتی ہے ، پیدا نہیں کی جاتی۔ ان کیفیات کی پیش بینی ممکن نہیں۔ ایسا تو کوئی اداکار ہی کر سکتا ہے ، سو کر گزرتا ہے۔
رمضان ہی کی آمد کے ساتھ ساتھ نعت خوانوں کا مہینہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ مدحت رسول ۖ کی نیکی تو مسلمہ ہے لیکن یہاں تو حبِّ رسول کی نسبت بھی بیچی اور خریدی جاتی ہے۔ ان نعت خوانوں کے کئی کئی البم فخریہ نکل چکے ہیں جو ثواب کا ساماں بھی کر رہے ہیں اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔ اِدھر کسی فلمی گانے نے عوامی پذیرائی حاصل کی ، اُدھر یہ نعت خواں اسی ساز اور لے پر نعت رسول ایجاد فرما دیتے ہیں۔ کیا طبلہ کی تھاپ اور ساز کی تھرک پر نعت خوانی خود تعلیمات رسول ۖ کا استہزا نہیں ؟ سماع اور مزامیر کے باب میں سب سے سخت مؤقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تھا لیکن آج ان ہی کے مقلدین ان کے مسلک کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے رسول ۖ کی عظمت ہی کا پاس نہ کیا وہ امام صاحب کے فرمان کا احترام کیا کرتے۔
آہ ، ہماری عبادتیں بھی گناہوں میں لت پت ہو چکی ہیں۔ ہم ایک ایسے تعفن زدہ ماحول میں جی رہے ہیں جہاں ہمارے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ سونگھنے کی حِس بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہم نیکی کو سمجھنا تو درکنار اس کی خوشبو سونگھنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔
گناہ کی سب سے بد ترین شکل یہ ہے کہ احساسِ گناہ ہی ختم ہو جائے۔ قلب غفلت کی راہوں پر گامزن ہو اور پھر اس پر نحوست کی سیاہی اس قدر بڑھ جائے کہ ہمیشہ کے لیے ہدایت سے نا امیدی کی مہر لگ جائے۔
ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ہم نے قرآن نے سے تعلق ختم کر لیا ہے۔ اپنی مقدس ساعتوں میں قرآن پڑھنے اور اسے سمجھنے کی بجائے دین کے نام پر لہو و لعب کی تقریبات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ جو اس شرکت سے ”محروم سعادت” ہیں وہ گھر ہی میں بیٹھ کر ”ثواب دارین” حاصل کر لیتے ہیں۔
دین کے نام پر ہونے والا ہر گناہ پہلے پہل تقدس کے پردے میں ظاہر ہوتا ہے ، پھر آہستہ آہستہ اس کی شناعت واضح ہوتی ہے۔ جیسے قلب پر ابتداً سیاہی کا محض ایک نقطہ لگتا ہے لیکن غفلت اس ایک سیاہ نقطے کو پورے قلب پر غالب کر دیتی ہے۔ اور جب قلب ہی زیرِ حجاب آجائیں تو اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ۔ اورجب قلب ہی پر ہزار قفل لگ گئے ہوں تو تدبر قرآن کی زحمت کون گوارا کرے ؟
( أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْأَنَ أَمْ عَلَیٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُھَآ ) محمد : ٢٤
”کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا پھر ان کے دلوں پر ہی قفل لگے ہیں ؟”
قرآن نے گمراہی کی ایک شکل یہ بھی بتائی ہے :
( لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ ) الحج : ٤٦
”آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔”
کیا ہمارے ارباب اقتدار میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو دین کے نام پر اس تجارت کا خاتمہ کر سکے ؟ جو اس بازار کی بساط ہی لپیٹ دے جہاں اللہ سے تعلق کا سودا ہو ؟ جہاں نبی سے اپنی نسبت کی قیمت وصول کی جاتی ہو ؟ جہاں دین کا استہزا عبادت بن گیا ہو ؟ ………
( أَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُل رَّشِیْد ) ھود : ٧٨
”کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں۔”
بایں احوال ہَمہ ! یہ میلہ چاہے سجتے رہیں۔ قوم اللہ کے غضب کا ساماں کرتی رہے ۔ اہل ایمان کے لیے اللہ کا حکم واضح ہے اور تعمیلِ حکم فرضِ عین !!
( وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا دِیْنَھُمْ لَعِبًا وَ لَھْوًا وَ غَرَّتْھُمُ الْحَیَٰوةُ الدُّنْیَا ) الأنعام : ٧٠
” ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔”