الواقعۃ شمارہ 48 – 49 جمادی الاول و جمادی الثانی 1437ھ
از قلم : ابو محمد معتصم باللہ
پاکستان حالت جنگ میں ہے، دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اپنے عروج پر ہے ، جس کے الحمد للہ مثبت نتائج بر آمد ہوئے ہیں۔ کراچی جہاں ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر تھی اب انتہائی پُر امن حالات سے گزر رہا ہے۔ لوگ خوف و دہشت کی فضا سے باہر آ رہے ہیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ایک غیر معمولی کامیابی بھارتی را ایجنٹ کی گرفتاری ہے ، اللہ کرے اس گرفتاری کے مملکت پاک پر مثبت دور رَس اثرات پڑیں۔ ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے کی توفیق ملے اور بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں کا بھی سختی سے مؤاخذہ و محاسبہ کیا جا سکے۔
جب بات اندرونی دشمنوں کی جائے گی تو ملک میں جاری معاشی دہشت گردی سے صَرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ان معاشی دہشت گردوں سے نجات پانا بھی اشد ضروری ہے۔ ایسے تمام عناصر کا بھی احتساب کرنا ہوگا، خواہ یہ کوئی بھی ہوں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا طبقے سے ہو۔ ایک بد دیانت تاجر ہو یا ایک کرپٹ سیاست دان، دین کی تجارت کرنے والا استخواں فروش ہو یا غریبوں کا استحصال کرنے والا کوئی سیاسی رہنما۔ کوئی بھی مؤاخذے سے بالا تر نہیں ہونا چاہیے۔ آپریشن ضرب عضب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب ان معاشی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔
معاشی دہشت گردوں کی تلاش میں نکلا جائے تو یہ عقدہ کھلے گا کہ چور اور لٹیروں جنگلوں اور بیابانوں میں نہیں اونچے ایوانوں میں ملیں گے۔ اقتدار کے نشے ہی میں ظلم و استحصال کے جرام پروان چڑھتے ہیں۔
یہ معاشی دہشت گرد صرف دولت و زر لوٹنے والے لٹیرے نہیں ہیں ، قاتل بھی ہیں۔ غریب عوام کو غربت کی چکی میں پیس کر انہوں نے ان سے جینے کی ہر تمنا چھین لی ہے۔ یہ غریب اپنے کم وسائل آمدنی کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے خبریں بھی نظر سے گزرتی ہیں کہ ماں باپ غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے ہی بچے فروخت کر رہے ہیں۔ دنیا کا کون سا شخص ہے جو اپنے ہی بچوں کو بیچنے والی کسی ماں کے دکھ کا اندازہ لگا سکے ؟ جو اسباب زندگی کے تنگ ہونے کی بناء پر اپنے ہی بچوں کو بیچنے والے کسی باپ کی بے بسی کو سمجھ سکے ؟
ان غریبوں سے ان کے اسباب و وسائل کون چھین رہا ہے ؟ کون انہیں خود کشی پر مجبور کر رہا ہے ؟ اور کون ہے جو ماں باپ کو اپنے ہی بچے فروخت کر دینے کی حد تک بے بس کر دیتا ہے ؟
کیا یہ معاشی دہشت گرد کسی بھی طرح کسی ٹارگٹ کلر سے کم کی سزا کے مستحق ہو سکتے ہیں ؟
ادویات مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات دستیاب نہیں۔ سر کاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز بھی جو ادویات کے نسخہ جات لکھتے ہیں انہیں میڈیکل سٹورز سے خریدنا پڑتا ہے۔ ان میں بھی ڈرگ کمپنیوں کی ایسی ادویات کو ترجیح د ی جاتی ہے جو ڈاکٹرز کو بھاری رشوت دیتے ہیں۔ انہیں رشوتوں کی بدولت ڈاکٹر حضرات مہنگی دواؤں کے نسخے جات تحریر کرتے ہیں ، ایسی بے ضرر دوائیں بھی نسخے میں لکھتے ہیں جن کی اصلاً ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا ایسا کرنے والے ڈاکٹر اور ان کو ایسا کرنے کے لیے رشوت دینے والی کمپنیاں معاشی دہشت گرد نہیں ؟
اشیائے خورد و نوش تیل ، گھی ، مرچ مصالحہ جات ، خصوصاً روزانہ استعمال ہونے والی مشروبات کی بوتلیں مثلاً پیپسی ، کوک ، سیون اپ ، مرنڈا اور جوسز تو 100 فیصد جعلی تیار کیے جاتے ہیں۔ کھلم کھلا اس کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔مگر نہ کوئی پکڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی پکڑتا ہے۔ مارکیٹ بڑے بڑے ریسٹورنٹ ہیں ، عوام میں فاسٹ فوڈز کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ یہاں بھی وہی کساد بازاری ہے۔ مردہ جانوروں کے گوشت کھلائے جا رہے ہیں حتیٰ کہ حرام جانور بھی استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ ان سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا کبھی ان کے ذمہ داروں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی ہوئی ؟
پاکستان 80 کروڑ ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ یہ سب اسی معاشی دہشت گردی کا ہی کرشمہ ہے۔ 80 کروڑ ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ۔ کیا اس سے پاکستانی عوام کی زندگیوں میں کوئی فرق پڑا؟ کوئی مثبت تبدیلی آئی ؟ پھر یہ رقم آخر کہاں گئی ؟ ملک کو 80 کروڑ ڈالر کا مقروض بنانے والے افراد کیا قوم کے مجرم نہیں ؟ جنہوں نے کروڑوں کے قرضے لے کر اپنی تجوریاں بھریں ، اپنی قوت اقتدار کا نا جائز فائدہ اٹھایا۔ کیا یہ سب قابل معافی ہو سکتے ہیں ؟
عوام بخوبی جانتی ہے کہ اس ملک میں انصاف کس قدر مہنگا ہے ؟ ایک امیر مجرم کے لیے سزا کا تصور ناممکن نہیں تو تقریباً محال ہی ہے۔ یہ مجرم اگر کبھی گرفت میں آ بھی جائیں تو ان کی سزا میں تاخیر کرکے انہیں بھاگنے کا موقع فراہم کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشی دہشت گردی نے پورے سسٹم کو مفلوج کر دیا ہے۔
غریب عوام اناج کے دانے دانے کو ترس رہے ہیں اور حکمران لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں۔ عوام کو زندگی کے وسائل مہیا کرنے کی بجائے بغیر کسی عوامی مطالبے کے رنگین بسوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
بعض دفعہ تو اقتدار کا نشہ اس قدر چڑھتا ہے کہ ان کے گھریلو تقریبات عرس و برسی اور بارات و ولیمہ کا خرچا بھی سرکاری خزانے سے کیا جاتا ہے۔ ایسے میں غریب ، غریب تر اور ملک مقروض تر کیوں نہ ہو۔
سامراجی ممالک تو معاشی دہشت گردی تو تھی ہی، ان سے شکوہ کیسا ؟ لیکن انہیں یہ موقع بھی ہم نے ہی فراہم کیا ہے۔ خود ہماری اپنی پالیسایاں ایسی رہیں جس نے جائز آمدنی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی۔ بھٹو نے نجی اداروں اور صنعتوں کو قومیا لیا، جس سے سرمایہ کار مایوسی کا شکار ہوا، سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی اور صنعتیں لگنا بند ہو گئیں ۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کر کے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر ڈالے تو لوگ بھی سرمایہ بیرون ملک بھجوانے پر مجبور ہوئے۔ کتنی ہی ایان علی ہیں جن کی خدمات حاصل کی گئیں۔منی لانڈرنگ اپنے عروج پر پہنچی۔ قرضہ اتارو ملک سنوارو مہم میں جمع کردہ اربوں روپے بھی ڈکار لیے گئے۔ ملک کے خزانے سے لوٹی کی گئی یہ تمام رقم جمع کر لی جائے تو ملک کے تمام بیرونی قرضے اتر جائیں اور قوم خوشحالی کی جانب گامزن ہو جائے۔
اگر واقعتاً ملک سے دہشت گردوں کی صفائی کی مہم شروع ہو چکی ہے تو پھر دیانتاً ان معاشی دہشت گردوں کی صفائی بھی کرنی پڑی گی ورنہ صفائی کی ہر مہم ناکام رہے گی۔