الواقعۃ شمارہ 48 – 49 جمادی الاول و جمادی الثانی 1437ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
پاکستان کی نظریاتی سرحدیں عرصہ ہوا پامال ہو چکی ہیں ، اب تو اس نظریے کی لاش کے چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔ پاکستان اسلام کےنام پر وجود میں آیا، کم سے کم برصغیر کے مسلمانوں کو یہی جذباتی نعرہ دیا گیا۔ لیکن روزِ اوّل ہی سے یہاں اسلام کا دیس نکالا رہا۔ آقاؤں کے چہرے بدلے، غلامی کے انداز بدلے۔ باقی سب کچھ وہی رہا۔ مرعوب زدہ ذہنیت نے مسند اقتدار سنبھال لی۔ اسلام کا مذاق اڑانے کی رسم چل پڑی ، کھل کر کہنے کی جرات نہ ہوئی تو "مولوی” پر غصہ نکالا گیا۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ غلامی سے بغاوت ، اور بغاوت سے انقلاب کا عمل جاری رہے گا۔
جس دن اہل پاکستان ایک مجمع یا بھیڑ کی بجائے ایک نظریہ بن جائیں گے اس دن صحیح معنوں میں انقلاب بھی آ جائے گا اور آزادی کی نعمت سے ہمکنار بھی ہوجائیں گے۔ لیکن "آزادی” کا مفہوم بھی واضح ہونا چاہیے۔ ہر رشتے اور بندھن سے آزادی، اخلاق و ضوابط سے آزادی ، دین و شریعت سے آزادی ………… اصلاً آزادی نہیں۔ ایک بہیمانہ زندگی ہے، نفسِ رذیلہ کی اسیری ہے۔ قوانینِ فطرت سے بغاوت ہے۔
آج دنیا کو آزادی مطلوب ہے اس لیے کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کے غلام بن سکیں۔ لیکن ایک مسلمان کو آزادی چاہیے کہ وہ اللہ کے قوانین پر بلا روک ٹوک عمل کر سکے۔
گزشتہ ڈیرھ دو دہائیوں سے یہ احساس دینی حلقوں میں شدت سے پروان چڑھ رہا ہے کہ دین و شریعت کو اس ملک میں نشانہ استہزاء بنایا جا رہا ہے ، کھلے عام شعائرِ اسلامی کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ اس مملکتِ پاک کے نظریاتی تشخص کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ حالیہ چند برسوں میں کئی ایک مقتدر اشخاص تھے جو موت کی سزا کے حقدار تھے لیکن ان سب کو کھلے عام نظر انداز کر کے صرف ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا دینا اس کی ایک اہم مثال ہے۔ اصحاب رسوخ و اقتدار تو اپنی جگہ ، ملک کی ایک عام ماڈل گرل بھی ارباب اقتدار کی نگاہوں میں اس قدر معتبر ٹھہرتی ہے کہ اپنے ایک بالکل ظاہر و یقینی جرم پر بھی با عزت رہائی کی مستحق قرار پاتی ہے۔
بڑے بڑے جرائم میں ملوث افراد پکڑے جاتے ہیں ، ان کی انگلیاں اصحاب رسوخ و اقتدار کی جانب اٹھتی ہیں مگر وہ اصحاب رسوخ پُر از اطمینان اپنے اپنے عیش کدوں میں دادِ عیش دے رہے ہیں۔ نہ باز و پرس کو کائی خوف ہے اور نہ ہی کسی قسم کا احساس گرفت۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا :” معاشرہ ظلم و ستم کے ساتھ تو چل سکتا ہے لیکن عدل کے بغیر نہیں چل سکتا۔”
” عدل ” اس ملک سے عَنقا ہو چکا ہے۔ غریب مجرم قابلِ گرفت ہے اور امیر کے لیے با عزت رہائی۔
ظلم و ستم سے پروان چڑھی حکومت تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ وہ ساری طاقتیں رکھنے کے باوجود بھی اخلاقی طاقت سے محروم ہوتی ہے۔ وہ اپنی محکوم عوام کے سامنے تو تو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن اپنے آقائے ولی نعمت کے سامنے سر بسجود رہتی ہے۔ اس میں اتنی ہمت نہیں کہ قومی دشمنوں پر ہاتھ ڈال سکے۔ بھارت کے جاسوس پکڑے جا رہے ہیں، ملک میں بھارت اور ایک برادر اسلامی ملک کی سازشیں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ ان سازشوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ ہزاروں بچوں نے داغ یتیمی کو سہا ، ہزاروں بیواؤں نے بیوگی کی چادر اوڑھی، ہزاروں مائیں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہوئیں، ہزاروں باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے سے یکدم بچھڑ گئے۔ یہ سب کسے مورد الزام ٹھہرائیں ؟ وہ مقتولین جو اپنے پیاروں کے لیے جینا چاہتے تھے کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کریں۔ ارضِ پاک پر گرنے اور بہنے والی خون کی یہ بوندیں کس کے نشانِ قدم کی طرف اشارہ کریں۔ ان سازشی عناصر کی طرف جو ملک میں بد امنی اور انارکی پھیلا رہے ہیں یا ان کی طرف جو ان کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔
دنیا میں حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ صرف ایک طاقت ور اور مضبوط پاکستان ہی تاریخ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ ملک کو طاقت ور اور مضبوط بنانے کا کام صرف ایک با کردار قیادت ہی کر سکتی ہے۔ ملک میں ایک با کردار قیادت کا خلاء موجود ہے۔ وہ وقت قریب ہےجب یہ خلاء پُر ہوگا کیونکہ یہ تاریخ کے تدریجی مراحل ہیں، ہر خلاء کبھی نہ کبھی پُر ضرور ہوتا ہے ایسے میں خلاء پیدا کرنے والوں کو خلاء پُر کرنے والوں سے شکایت نہیں ہونی چاہیے۔