قرآن اور قرآن کے اردو ترجموں کے بارے میں چند حقائق


الواقعۃ شمارہ : 48 – 49  جمادی الثانی و رجب المرجب 1437ھ

از قلم : ابو الحسن

پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستانیوں کی مادری زبان عربی نہیں ، اس لیے قرآن سے تعارف ترجموں پر منحصر ہے۔ اس لیے قرآن سمجھنے کے لیے اردو ترجموں کا جائزہ لینا ضروری ہے اور کچھ حقائق قرآن کے بارے میں بھی جاننا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مبین کے لیے اپنے اسمائے حسنیٰ حکیم ، عظیم ، کریم ، مجید استعمال فرمائے۔ اللہ کا ایک نام ” النور ” ہے۔ سورہ تغابن کی آیت 8 میں بھی قرآن کو ” النور ” کہا گیا۔ اس کے علاوہ الکتاب ، الذکر ، مبارک کے الفاظ سے ذکر فرمایا گیا۔ لیکن سب سے زیادہ اس کے عربی زبان میں ہونے پر زور دیا گیا۔ آٹھ بار ” قراناً عربیاً ” اور دو بار ” لسان عربی مبین ” فرمایا گیا۔

ترجمے کی جانچ کے لیے ضروری ہے کہ جس زبان سے ترجمہ ہو رہا ہے اور جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے، دونوں کا جائزہ لیا جائے ، کیونکہ ہر قوم کی طرح ہر زبان کا مزاج، اسالیب بیان ، محاورے ، تشبیہات اور استعارے جدا ہوتے ہیں۔ اس جائزے سے ہی معلوم ہوگا کہ ترجمہ کا حق کس حد تک ادا ہوا اور اگر کچھ کوتاہی ہوئی تو کیوں ہوئی اور اسے کس طرح دور کیا جائے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ” ترجمان القرآن ” میں لکھتے ہیں :

” قرآن کا عربی زبان میں نازل ہونا اور جا بجا اس بات پر زور دینا کہ انا انزلنٰہ قراناً عربیاً ” ہم نے قرآن کو کسی اور زبان میں نازل نہیں کیا ، عربی میں نازل کیا۔” صرف اتنے ہی معنی نہیں رکھتا جس قدر اس وقت تک سمجھے گئے ہیں بلکہ ایک بہت زیادہ وسیع اور گہری حقیقت اس میں مضمر ہے۔”

ایک اور جگہ مولانا لکھتے ہیں :

” اصل یہ ہے کہ عہد جاہلیت کی عربی اگرچہ صحرائیوں کی عربی تھی لیکن زبان کی نوعیت بول رہی ہے کہ یہ صحرائیوں کی پروردہ نہیں ہو سکتی۔ اتنی وسیع ، اتنی ہمہ گیر ، اتنی دقیقہ سنج ، اس درجہ متمول زبان ضروری ہے کہ صدیوں کی متوارث اور مسلسل ادبی زندگی سے ظہور پذیر ہوئی ہو۔ جو زبان قرآن کے معانی و دقائق کی متحمل ہو گئی۔ کیونکر ممکن ہے کہ اسے غیر متمدن قبائل کی ایک بدوی زبان تسلیم کر لیا جائے ؟ …………یہ زبان جس پر زندگی و خلود کی آخری مہر قرآن نے لگائی ، در اصل مدنی نشو و نما کے اتنے مراحل سے گزر چکی ہے کہ دنیا کی کوئی زبان بھی اس وصف میں اس کی شریک نہیں۔ سمیری ، اکادی اقوام کا تمدن ، نینوا اور بابل کی علمی کامرانیاں ، قدیم مصری لغات کا عمرانی سرمایہ آرامی زبان کا عروج و احاطہ ، کلدانی اور سریانی کا ادبی تمول دراصل ایک ہی زبان کی لغوی تشکیل و تکمیل کے مختلف مرحلے تھے اور اس نے آگے چل کر چوتھی صدی کی عربی کا بھیس اختیار کیا۔  ……………آج ہم تعجب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ ظہور مسیح علیہ السلام سے آٹھ نو برس پہلے آشوری اور بابلی زبان میں طبق، مسلک، شمس، سماء ، فلک ، نجم ارض وغیرہ ٹھیک ٹھیک انہی معنوں میں مستعمل تھے جن معنوں میں آج مستعمل ہیں …………… عربی زبان کے ابتدائی مواد نے ایک کتابی اور ادبی زبان کی حیثیت حاصل کر لی تھی اور اس میں نہ صرف موجودہ اسماء و مصادر ہی پائے جاتے ہیں ، بلکہ بعض حروف نحویہ تک موجود ہیں۔ مثلاً عطف وہی ” و ” ہے اور اپنی ابتدائی فنیقی شکل میں لکھا جا رہا ہے۔ الف لام بدستور حرف تعریف ہے اور ہر اسم سے پہلے اپنی نمود رکھتا ہے۔ مثلاً الملک ، الجبل ۔ ” ذی ” بمعنی ذو ، ذو الجلال ، ذو القرنین ہر جگہ نمودار ہے۔ اسم اشارہ وہی ” ھو ” ہے ۔ ” علیٰ ” اسی معنوں میں مستعمل ہے جس میں اب مستعمل ہوتا ہے۔ نیز ملک، فعل، طمع ، محن ، فتح ، ٹھیک انہیں معنوں میں بولے گئے جو بعد کو لغت قریش میں بولے گئے۔ یہ معلوم ہو گیا کہ تورات کے نزول اور کتب خانہ بابل کی الواح سے بھی پہلے عربی زبان کے مواد و مصادر نے ایک مکتوب اور مرسوم زبان کی نوعیت اختیار کر لی تھی۔ یعنی اس درجہ تک پہنچ چکی تھی کہ اس میں اعلانات و فرامین لکھے جاتے تھے۔ محض بول چال کی زبان نہ تھی۔”

مولانا کے اقتباس میں جن وسیع اور گہری حقیقتوں کا صرف اشارہ کیا گیا تھا ، وہ تو ظاہر نہیں ہوئے ، لیکن عربی زبان کی قدامت ، وسعت اور عظمت کا کچھ اندازہ ہوا۔ زبان معاشرے کی ذہنی استعداد ، تہذیب ، ثقافت ، علمی کامرانیوں، معاشرتی احوال و اقدار ، معاشی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ایک زبان وادی ، دجلہ و فرات ، فلسطین اور وادی نیل کی مختلف تہذیبوں کا نچوڑ اپنے میں جذب کرتی ہوئی چوتھی صدی عیسوی میں قریش کی عربی کا بھیس اختیار کر کے حضرت خاتم النبیین ﷺ کی بعثت کا انتظار کرتی رہی اور قرآن کی شکل میں انہی کے مقدس ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ عربی زبان کا قرآن اور اسلام سے دائمی رشتہ قائم ہو گیا۔ قرآن واحد آسمانی کتاب نہیں ہے۔ قرآن سے پہلے زبور ، تورات اور انجیل نازل ہو چکی تھیں۔ قرآن میں صحف ابراہیم کا بھی ذکر ہے ، صرف ذکر۔ دنیا جانتی ہے کہ کوئی کتاب اپنی اصلی حالت میں نہیں۔ قرآن نازل فرمانے والے ” الحفیظ ” نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ فرمایا :

انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون ( الحجر : 9 )

قرآن آج بھی وہی ہے جو تقریباً چودہ سو سال سے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں پڑھا جا رہا ہے، لیکن آج تک کوئی فرق نہیں آیا۔ ایک لفظ نہیں بدلا۔ زبانیں بدلتی رہتی ہیں۔ الفاظ متروک ہوتے ہیں ، ان کے املاء اور ادائی کے طرز میں تبدیلی ہوتی ہے۔ آج انگریزی وہ نہیں ہے جو 1400ء میں مرنے والے جیوفری چاسر کی تھی۔ اٹھارویں صدی میں استعمال ہونے والی اردو بدلی۔ لفظ ” سوں ” اور ” سیں ” آج ” سے ” پڑھے جاتے ہیں۔ ” کُون ” ” کو ” ہو گیا۔ ” ہمن کون ” آج ” ہم کو ” ہے۔ لیکن قرآن کا ایک لفظ نہیں بدلا۔ عربی زبان دنیا کی واحد زبان ہے جو قرآن کے دامن میں قیامت تک محفوظ رہے گی اور قیامت تک انسان کی ذہنی استعداد خواہ کچھ ہو ، کتنی ہی ترقی کرے ، وہ ہر ذہنی تشنگی کی سیرابی کا سامان رکھتی ہے۔

عربی زبان کے الفاظ کی ترکیب ، اصول و قواعد دیگر زبانوں سے جدا ہیں۔ الفاظ میں بہت لچک ہے۔ تین حروف ( حروف ثلاثہ ) کے خام مال کو ابواب ( سانچوں ) میں ڈھال کر مختلف مصادر حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر ان کے مشتقات حاصل کرتے ہیں۔ ہر باب کے مصدر کا الگ الگ خاصہ ہے۔ اب تک قرآن کی ایک صفت زبان کے سلسلے میں لکھا گیا۔ قرآن کی تعلیمات پر بحث نہیں کی گئی۔ وہ مضمون کا موضوع نہیں۔

ہماری زبان اردو ہے۔ ہمارا قرآن ، کتب احادیث و فقہ سے تعارف اردو ترجموں کے ذریعے ہے۔ یہاں اردو زبان کی تاریخ یا اس کی خصوصیات پر بحث کی ضرورت نہیں۔ مقصد ایک آیت اور ایک حدیث کی روشنی میں بحیثیت ایک مسلمان ہمارے قرآن کے تعلق سے چند امور پر توجہ دلانی ہے۔

سورہ محمد آیت 24 میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے سوال فرمایا :

افلا یتدبرون القرآن ام علیٰ قلوب اقفالھا

” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں ؟ "

پس ہمیں ان قفلوں کو کھولنے کے لیے غور و خوض کی چابی ڈھونڈنی ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :

"ان الله یرفع بهذا الکتاب اقواما و یضع به آخرین۔"

دنیا نے دیکھا کہ جاہل عربوں کی قوم کو قرآن کی بدولت کیسی رفعتیں اور شوکتیں ملیں اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کتاب کے ہوتے ہوئے ہم پستیوں ، گمراہیوں ، نا مرادیوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قرآن کو النور کہا گیا اور رسول ﷺ کو مخاطب کر کے کہا گیا :

الر کتب انزلنا الیک لتخرج الناس من الظلمت الی النور  ( ابراہیم : 1 )

ہمارے پاس یہ ” النور ” ہے ، پھر بھی ہم ظلمات میں گھرے ہوئے ہیں۔ کیوں ؟ کیا قرآن کی ہدایت اور ظلمات سے نور کی طرف لے جانے کی صلاحیت ختم ہو گئی ؟ نعوذ باللہ ۔ پھر کیا وجہ ہے ؟

اللہ نے ہر چیز اور ہر فعل کو ایک خاصیت دی ہے جو اس کے وجود کا حصہ ہے۔ زہر کی خاصیت ہلاک کرنا ہے۔ شہد کی خاصیت شفا بخشنا ہے۔ آگ کی خاصیت جلانا ہے۔ برف کی خاصیت ٹھنڈک ہے۔ بعض الفاظ مشتعل کرتے ہیں۔ دل آزاری کرتے ہیں۔ بعض تسکین و تشفی کا باعث ہیں۔ بعض رُلاتے ہیں۔ بعض ہنساتے ہیں ، بشرطیکہ سننے والا بے حس نہ ہو ۔ بعض اشیاء میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے تو بعض اشیاء میں اثر پذیری کی خاصیت ہے۔ موسیقی کی مختلف آوازوں اور دھنوں کی الگ الگ تاثیر ہے۔ حزنیہ اور طربیہ۔ ان کے اثر انداز ہونے کی شرط یہ ہے کہ اثر پذیر ہونے کی قوت سماعت اپنی قدرتی حالت پر قائم رہے ، ورنہ بھینس کے آگے بین بجانے کے محاورے سے سب واقف ہیں۔ فالج سے جلد بے حس ہو جائے تو گرمی اور سردی کی اثر اندازی معطل ہو جائے گی۔

ہم پر قرآن کی آیات کیوں اثر نہیں کرتیں ؟ کوئی اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا۔

قریش کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا۔ رسول کریم ﷺ نے دعوت دی۔ شروع میں انہوں نے قبول نہیں کی۔ مخالفت کی اور خود رسول اللہ ﷺ کو قائل کرنے ایسے لوگوں کو بھیجا جن کے زورِ کلام اور اندازِ گفتگو کی اثر اندازی مشہور تھی۔ رسول کریم ﷺ ان کی باتیں سنتے اور ایک یا دو آیاتِ قرآنی سناتے۔ لبید بن ربیعہ عامری عرب جاہلیت کے مشہور شاعر تھے۔ قرآن سننے کے بعد شاعری چھوڑ دی۔ حافظ قرآن ہوئے اور پھر ایک ہی شعر کہا جس میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ انہیں موت سے پہلے ایمان لانے کی سعادت ملی۔

ولید بن مغیرہ یہ کہنے پر مجبور ہوا : ” ابھی میں نے محمد ( ﷺ ) کا کلام سنا۔ بخدا نہ وہ انسانوں کا کلام ہے نہ جنات کا۔ بخدا اس میں بڑی شیرینی ہے۔ بڑی رعنائی ہے۔ بڑی دلآویزی ہے۔ وہ ایک ایسا درخت ہے جو پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ وہ ایک چشمہ ہے جو شیریں پانی سے ابل رہا ہے۔ بخدا یہ کلام اونچا ہو کر رہے گا۔ اسے نیچا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سر بلند ہو کر رہے گا۔ ولید بن مغیرہ کا یہ قول بھی تاریخ نے محفوظ رکھا۔ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب نہ کاہن ہے ، نہ مجنوں نہ شاعر ہے نہ ساحر۔ قسم ہے خدا کی شعر و شاعری اور ادب کے بارے میں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کلام سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اس سے بہتر کلام ممکن نہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ ہرگز کلام بشر نہیں۔ ولید ایمان نہیں لایا مگر اس کی سخن فہمی قرآن کی عظمت کے اقرار پر مجبور ہوئی۔

پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم پر کلام الٰہی کیوں اثر نہیں کرتا ؟ کیا اس کی اثر اندازی ختم ہو گئی یا ہماری اثر پذیری ؟ کیا قرآن کی تعلیمات کا اثر صرف عربی زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے ؟ دوسری زبانوں میں ترجموں کے ذریعے نہیں ؟ لیکن قرآن تو تمام انسانوں کے لیے نازل ہوا۔ صرف عربی بولنے والوں کے لیے نہیں۔ اہمیت پیام اور تعلیمات کی ہے جو جسم کی مانند ہیں۔ جب کہ زبان کی حیثیت لباس کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ قمر میں چار بار فرمایا :

لقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر

” ہم نے قرآن سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے۔ ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا ؟ "

قرآن کےتراجم و تفاسیر میں بہت اختلافات ہیں۔ ان کی اصلیت اور وجوہات کا جائزہ لینے سے پہلے چند مبادیات پر غور کریں۔

زمین کی سطح ہموار نہیں۔ انسان کی ظاہری حالت ، قد و قامت میں اختلاف ہے۔ کہیں رزق میں وسعت ہے ، کہیں تنگی۔ اسی طرح انسان کی ذہنی صلاحیتیں بھی یکساں نہیں۔ انسان کے وجدان و حواس کے علاوہ دماغی و ذہنی صلاحیتوں کے کئی پہلو ہیں جنہیں مختلف نام دیئے گئے ہیں۔ سوجھ بوجھ ، دانائی ، ذہانت ، فہم و فراست ، پیش بینی ، مصلحت اندیشی ، قوت حافظہ وغیرہ الفاظ سے سب مانوس ہیں۔ قرآن میں انسانوں کو ودیعت کردہ ذہنی صلاحیتوں کو مختلف نام دیئے گئے ہیں۔ شرح صدر ، علم و حکمت ، فرقان ، رسوخ فی العلم ، الہام ، القاء وغیرہ۔ اللہ کے رسول ﷺ کو حکم ہوا کہ علم کے لیے نہیں ، ازدیادِ علم کے لیے دعا مانگیں۔ ایک خاص قسم کا علم ہے جسے علم لدنی کہا گیا ہے۔ لدن کے پانچ مشتقات قرآن میں اٹھارہ بار استعمال ہوئے۔ نمونے کے طور پر دو درج کیے جاتے ہیں۔

زکریا علیہ السلام بوڑھے ہو گئے تھے ، ان کی بیوی بانجھ تھیں۔ انہوں نے وارث کے لیے دعا مانگی : فھب لی من لدنک ولیا

اللہ نے اولاد عطا کی۔ یہ من لدنک ایسی حالت میں کہتے ہیں جب کہ ظاہری قدرتی اسباب کے غیاب یا خلاف میں کوئی چیز دی جائے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ایک گمنام بندے کے پاس موسیٰ علیہ السلام کو چند افعال کی پوشیدہ حکمتوں کا علم حاصل کرنے بھیجا۔ اس بندے کے تعلق سے فرمایا : اتینٰہ رحمۃ من عندنا و علمناہ من لدنا علما

عطائے علم لدنی محض منشائے الٰہی ہے۔ ذٰلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

تصوف میں انسانی کسب سے حاصل شدہ ایک ذہنی و روحانی صفت کو کشف کہا جاتا ہے۔ فلاسفہ نے بھی اس حقیقت کا ادراک کیا۔ مشہور جرمن فلسفی شوپنہار کہتا ہے :

"خدا داد صلاحیتیں (Natural Abilities) ہر قسم کی تربیت کی کمی کی تلافی کر سکتی ہے لیکن کوئی ذہنی تربیت قدرتی صلاحیتوں سے محرومی کا ازالہ نہیں کر سکتی۔”

قرآن کے اردو مترجمین و مفسرین کی ذہنی صلاحیت اور علمی استعداد کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ سوچ کے معیار کے اختلافات نتائج میں لازماً ظاہر ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں۔

بچہ وجدانی طور پر بڑوں کی نقل کرتا ہے۔ مادری زبان سیکھنے کے لیے کوئی شعوری کوشش نہیں کی جاتی جس طرح غیر ارادی قدرتی طور پر جسمانی کمیت میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح رفتہ رفتہ مادری زبان سیکھ لی جاتی ہے، لیکن یہ صرف روز مرہ کی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے ہے۔ زبان دانی میں ترقی کے لیے شعوری طور پر کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ان کوششوں کی اسی طرح کوئی حد نہیں جس طرح علم کی حد نہیں۔ کسی زبان سے محض واقفیت اور زبان پر عبور میں وہی فرق ہے جو سرسری ملاقات اور گہرے یارانے میں ہے۔ زبان پر عبور کے لیے شعر و ادب کا گہرا مطالعہ ضروری ہے۔ زبان کے الفاظ میں بہت لچک ہوتی ہے اور نثر کے بجائے نظم میں لفظ کے استعمال کی وسعتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ادب سے تعارف کافی نہیں۔ مسلسل خور و خوض ، مسلسل مطالعہ سے ادب کا ذوق اور ادبی شعور پروان چڑھتا ہے اور وہ چیز پیدا ہوتی ہے جسے سخن فہمی کہتے ہیں جو سخن طرازی سے بلند چیز ہے۔ زبان خیالات کا جامہ ہے لہٰذا قد و قامت کے حسن کو دو بالا کرنے والا جامہ بھی موزوں اور دیدہ زیب ہوتا ہے۔ اونچے خیالات کے اظہار کے لیے نکھری اور ستھری زبان درکار ہے اور زبان کی قدر دانی کی ضرورت بھی۔ زبان کے رموز سے واقفیت کی ضرورت بھی۔

بعثت نبوی کے وقت عربی میں ایمان اور عمل صالح کے الفاظ تھے جب کہ اس وقت عربوں کے ایمان میں خدائے واحد پر ایمان ، انبیاء ، آسمانی کتب اور حیات آخرت پر ایمان شامل نہیں تھا۔ مشرکین عرب ، نماز ، روزہ ، زکوٰہ نہیں جانتے تھے۔ شراب ، زنا، جوئے سے اجتناب کا تصور نہیں تھا۔ مگر لفظ عمل صالح ان کی زبان کا جز تھا۔ مدنی زندگی میں احکام خداوندی کے تحت ایمان کے اور عمل صالح کے مفہوم متعین ہوئے اور دوسرے معنوں میں لغت کے الفاظ اصطلاح بن گئے۔ یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کوئی لفظ لغوی معنوں میں استعمال ہوا یا اصطلاحی معنوں میں۔ لفظ اصطلاح بن کر بھی لغوی بنیاد سے محروم نہیں ہوتا۔ قرآن کا مقصد نزول انسانوں کی ہدایت ہے۔ اس لیے مکی آیات میں بہت سے قرآنی الفاظ لغوی معنوں میں استعمال ہوئے۔ جو اس وقت سمجھے جاتے تھے۔ مدنی آیات میں وہ الفاظ اصطلاحی مفہوم میں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کسی مکی آیت میں یا ایھا الذین آمنوا کا خطاب نہیں۔ مدنی آیات میں ہے۔ مکی آیات میں یا ایھا الناس اور یا بنی آدم کا خطاب ہے۔

اللہ تعالیٰ کو ایک انسان کے ذریعے اپنے بندوں کو ہدایت دینی تھی۔ اللہ نے حضرت خاتم النبیین کو معلم بنا کر مبعوث فرمایا۔ انہیں ایک ایسی جماعت کی تشکیل کرنی تھی جس کے افراد کے دماغ قرآنی تعلیمات کے سانچوں میں ڈھل جائیں۔ ان کے اعمال ان کے اعتقادات و نظریات کا عملی نمونہ بن جائیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ تعلیمات نا قابل عمل تصورات نہیں۔ انہیں عقائد و عبادات کی تعلیم دینی تھی۔ ان کے اخلاق سدھارنے تھے۔ انہیں خوشگوار عائلی زندگی کے ڈھنگ سکھانے تھے۔ انہیں انسانی رشتوں کے حقوق بتلانے تھے۔ انہیں حق کے پھیلاؤ اور باطل سے بچاؤ کے طریقوں سے روشناس کرنا تھا۔ غرض زندگی کے ہر پہلو پر توجہ دینی تھی اور اس طرح دینی تھی کہ جو نمونے نمودار ہوں ، وہ قیامت تک لوگوں کی رہبری کا ذریعہ بنیں۔ اس لیے احکام وقتاً فوقتاً حسب ضرورت نازل ہوئے اور کل احکام نازل ہونے میں 23 برس کا عرصہ لگا۔ ان میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہا۔ قرآن اور کتابوں کی طرح مرتب نہیں ہوا۔ اس کی انفرادیت اپنی مثال آپ ہے۔ کافروں کو یہ بات کھلتی تھی کہ وہ اعتراض کرنے سے پہلے سمجھتے تھے کہ ان کے اعتراض کا کوئی جواب نہیں مل سکے گا۔ لیکن وحی الٰہی سے ان کی امیدوں کے خلاف جواب مل جاتا تھا۔ سورہ فرقان ، آیات 32 – 33 میں ہے :

و قال الذین کفروا لو لا نزل علیہ القرآن جملۃ واحدۃ کذٰلک لنثبت بہ فؤادک و رتلنٰہ ترتیلا ولا یاتونک بمثل الا جئنٰک بالحق و احسن تفسیراً

” کافر کہتے ہیں اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتارا گیا ؟ یہ اس لیے کیا گیا کہ تمہارے دل کو مضبوط کیا جائے۔ اس لیے تھوڑا تھوڑا اتارا گیا۔ اور جب بھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات یا عجیب سوال لے کر آئے تو اس کا شافی جواب اور بہترین توضیح ہم نے تمہیں دے دی۔” (دیگر مصلحتوں کا ذکر نہیں کیا گیا)۔

قرآن تھوڑا تھوڑا اترا اور قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب نزول آیات کی ترتیب سے بہت مختلف ہے ۔ اس لیے سورتوں میں آیات کے باہمی ربط کا معلوم کرنا اور سورت کے مرکزی موضوع کا تعین کرنا غور طلب امر ہے۔ چونکہ بظاہر بعض جگہ آیات بے ربط معلوم ہوتی ہیں ، اس لیے ترجمہ سے پہلے یہ ضروری ہے کہ چند ضروری مباحث سے قاری کو روشناس کیا جائے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں :

"ہر کتاب اور تعلیم کے کچھ ضروری مقاصد ہوتے ہیں اور اس کی تمام تفصیلات انہیں کے گرد گردش کرتی ہیں۔ جب تک یہ مراکز سمجھ میں نہ آئیں ، دائرے کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ قرآن کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے بھی چند مرکزی مقاصد و مہمات ہیں اور جب تک وہ صحیح طور پر نہ سمجھ لیے جائیں ، اس کی کوئی بات صحیح طور پر سمجھی نہیں جا سکتی۔”

یہ مراکز کیا ہیں ؟ اللہ کی جلالتِ شان کا تصور ، نبوت کے خصائص ، اقسام القرآن ، امثال القرآن ، طریقِ استدلال ، تنزیل و تریب آیات ( شانِ نزول ) ، قصص الانبیاء کے دور اور مقاصد کا جائزہ اور تاریخی قوانین کا استنباط۔

قرآن کے جتنے ترجمے عدداً و نوعاً اردو زبان میں ہیں ، وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ مطبوعہ ، غیر مطبوعہ ترجمے و تفاسیر نظم اور نثر میں تقریباً ایک سو ہیں۔ سترہویں صدی وعیسوی سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کلام الٰہی ہے۔ اس کے غوامض غیر محدود ہیں۔ اس سمندر سے ہر غواص کو موتی ملتے رہیں گے۔ ترجمہ و تفسیر ، مترجم و مفسر کی ذہنی و علمی استعداد اور فہم کا اظہار ہے۔ کسی ترجمہ و تفسیر کو حرف آخر نہیں کہہ سکتے۔ ترجمہ و تفسیر کا کام بہت محنت طلب ہے اور قرآن سے محبت کا ثبوت ہے جن لوگوں نے یہ کام کیا، اللہ تعالیٰ ان کی محنت و محبت کو قبول فرمائے۔ کچھ فروگزاشتیں ہیں۔ فہم کی نارسائیاں ہیں۔ علم کی کوتاہیاں ہیں۔ اللہ انہیں معاف فرمائے۔ ہم ان مقدس ہستیوں کے احسان مند ہیں لیکن ہماری وفا داری قرآن سے ہونی چاہیے۔ کسی مترجم و مفسر کی ذات سے نہیں۔ اس لیے کسی جگہ کوئی نقص یا کوتاہی نظر آئے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ بصد ادب اس کی نشاندہی کر دی جائے ، ورنہ شخصیت پرستی کے جرم کے مرتکب ہوں گے۔ کوئی شخص تنقید سے بالاتر نہیں۔ حافظ ذہبی کا قول ہے :

"و کل امام یوخذ من قوله و یترک الا امام المتقین ﷺ۔”

یعنی ہر امام کے قول میں اخذ و ترک سے کام لیا جائے گا بجز امام المتقین ﷺ ۔

اور امام مالک نے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

” سوائے اس صاحبِ قبر کے ، ہر ایک سے سوال کیا جا سکتا ہے۔”

رسول کریم ﷺ کے اس منفرد اعزاز میں کسی اور کو شریک کرنا ” شرک فی الرسالتِ خاتم النبیین ” ہے۔

مولانا آزاد نے قرآن کے صحتِ فہم کے لیے عربی لغت و ادب کے صحیح ذوق کو شرطِ اوّل قرار دیا۔ اردو تراجم و تفاسیر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر اصحاب کو عربی لغت سے شناسائی ہے ، آشنائی نہیں۔ انہوں نے قواعد عربی سے صرف مصافحہ کیا ہے ، معانقہ نہیں۔ ہمارے مترجمین و مفسرین میں تقلیدی اور تحقیقی ذہن کا نمایاں فرق ہے۔ مولانا محمود الحسن کے ترجمے پر مولانا اشرف علی تھانوی سے تقریظ لکھنے کی فرمائش کی گئی جو خود بھی مترجم و مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ تو جواب لکھ بھیجا :

"قرآن مجید مترجم ، ترجمہ حضرت استاذی قدس سرہ پہنچ کر موجبِ مسرت و منت ہوا۔ آپ نے حسنِ ظن سے مجھ کو اظہار رائے کا امر فرمایا ہے۔ مگر غالباً آپ کو حضرت کا اور میرا تعلق معلوم ، یا اس وقت ذہن میں نہیں رہا۔ ورنہ میرے لیے ایسی جسارت کی تجویز نہ فرماتے۔ مجھ کو حضرت سے جو تعلق ہے اس کا نام تلمذ ہے۔ وہ علوم میں تقلید کا ہے ، نہ کہ تنقید کا۔”

اس کے بَر خلاف ابو الکلام آزاد اپنے ” ترجمان القرآن ” کے تعارف میں لکھتے ہیں :

” کامل ستائیس برس سے قرآن میرے شب و روز کے غور و فکر کا موضوع رہا ہے۔ اس کی ایک ایک سورت ، ایک ایک مقام ، ایک ایک آیت پر میں نے وادیاں قطع کی ہیں اور مرحلوں پر مرحلے طے کیے ہیں۔ تفاسیر و کتب کا جتنا مطبوعہ و غیر مطبوعہ ذخیرہ موجود ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کا بڑا حصہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ خاندانی تعلیم اور سوسائٹی کے اثرات نے جو کچھ میرے حوالے کیا تھا ، میں اوّل دن سے اس پر قناعت کرنے سے انکار کر دیا اور تقلید کی بندشیں کسی گوشے میں روک نہ سکیں اور تحقیق کی تشنگی نے کسی میدان میں بھی ساتھ نہ چھوڑا۔”

” میرے کا کوئی یقین ایسا نہیں ہے جس میں شک کے سارے کانٹے نہ چبھ سکے ہوں اور میری روح کا کوئی اعتقاد ایسا نہیں ہے جو انکار کی ساری آزمائشوں سے نہ گزر چکا ہو۔ میں نے زہر کے گھونٹ بھی ہر جام سے پیئے ہیں اور تریاق کے نسخے بھی ہر دار الشفاء کے آزمائے ہیں۔ جب میں پیاسا تھا تو میری لب تشنگیاں دوسروں کی طرح نہ تھیں اور جب میں سیراب ہوا تو میری سیرابی کا سر چشمہ بھی شاہراہِ عام پر نہ تھا۔”

مترجمین و مفسرین قرآن کے تقلیدی اور تنقیدی ذہن اور طرزِ فکر کا اختلاف بلکہ تضاد ان کے ترجموں اور تفاسیر میں آنا ضروری تھا اور آیا۔ ہر ترجمہ اور تفسیر پر مشہور معاصر اہلِ قلم نے جو تبصرے کیے وہ ناقدانہ رائے کم اور معتقدانہ مدحت طرازی زیادہ ہے۔ صحیح تعریف کرنا ایک مشکل ہے۔ غیر مستحق تعریف سے مداح پر چاپلوسی کا الزام آ سکتا ہے اور ممدوح پر در پردہ طنز شمار کیا جا سکتا ہے۔ فرطِ عقیدت سے جھکی پلکوں کی چلمن سے جلوہ حقیقت کی نظارگی ممکن نہیں۔ ایک امریکی مصنف کہتا ہے :

” قابلیت سے زیادہ ممتاز ، بہت زیادہ نتھری ہوئی لطیف ، بہت زیادہ کمیاب ایک چیز ہے اور وہ ہے قابلیت کو جانچنے کی قابلیت۔”

کتنے ہیں جو اس قول کی گہرائی اور صداقت کی کماحقہ جانچ کرنے کا دعویٰ کر سکیں۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.