اصنام – قسط 1


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : کلیم الدین احمد

کلیم الدین احمد ( 1908ء – 1983ء ) اردو و انگریزی کے مشہور ادیب ، شاعر و نقاد تھے۔ وہ صادق پور پٹنہ کے ممتاز مجاہد خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ اصناف شعر و ادب سے متعلق ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ 1981ء میں بھارتی حکومت نے انہیں ادب کے لیے بہترین خدمات انجام دینے پر ” پدم شری ” اعزاز سے بھی نوازا۔ ” اصنام ” ان کی توحیدی مزاج کی حامل ایک گراں قدر تحریر ہے ، اصل تحریر انگریزی میں ہے ، اس کا اردو ترجمہ جناب محمد عطاء اللہ خان نے کیا جو نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے 1992ء میں منظر شہود پر آیا۔ اس کی افادیت کے پیش نظر قارئین الواقعۃ کے لیے یہ کتابچہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ مطبوعہ نسخے میں قرآنی آیات درج نہیں تھے صرف ترجمے پر اکتفا کیا گیا تھا تاہم ادارہ الواقعۃ نے قرآنی آیات کا اندراج بھی کر دیا ہے۔ ( ادارہ )

٭  ٭  ٭  ٭  ٭

1-اب بھی زندہ ہیں لات و منات

بت پرستی صرف گزرے ہوئے زمانے کی بات نہیں۔ اس دور علم و آگہی میں بھی اس کا سکہ دورِ جاہلیت کی طرح جاری ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ آج کے بتوں نے اپنی صورتیں بدل لیں ہیں۔ ان تازہ خداؤں نے نہایت کامیابی اور ہوشیاری سے اپنا بھیس بدل لیا ہے۔ اپنی اقسام کے لحاظ سے یہ بھیس عالم گیر ہے اور ہمیشہ کی طرح ہمارے افکار و تصورات پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ ہمارے جذبات کو اس طرح بہائے لے جا رہے ہیں کہ اس سے قبل اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا یہ ہمیں خفیہ طور پر دور جاہلیت کے کاموں کی طرف مائل کیے ہوئے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ اب ہم لکڑی یا پتھر کے بنے ہوئے پرانے بتوں کو نہیں پوجتے ہیں ، لیکن ان سے کہیں زیادہ دلکش اور عظیم بت ، ہم نے اپنی تحریکات ، وابستگی ، آرزو اور محبوب نظر کے خوشنما سنگ مرمروں سے تراش لیے ہیں۔ یہ نئے اصنام شجر و حجر کے پرانے اصنام کی طرح ان گنت ہیں اور بے بس بھی ، تاہم وہ ہماری نظروں میں مقدس ہیں ہم ان کی پرستش کرتے ہیں ۔ ہمیں یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہم ایسا کر رہے ہیں۔ ہمارے کان ہیں مگر ہم سنتے نہیں ! ہماری آنکھیں ہیں مگر ہم دیکھتے نہیں ! ہماری سمجھ ہے مگر ہم سمجھتے نہیں !

دیکھیے ! اب بھی وہ روشنی کھلی اور صاف چمک رہی ہے جس نے حضرت ابراہیم کو سیدھی راہ دکھائی تھی :

وَإِذۡ قَالَ إِبۡرَٰهِيمُ لِأَبِيهِ ءَازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصۡنَامًا ءَالِهَةً إِنِّيٓ أَرَىٰكَ وَقَوۡمَكَ فِي ضَلَٰلٖ مُّبِينٖ ٧٤ وَكَذَٰلِكَ نُرِيٓ إِبۡرَٰهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلِيَكُونَ مِنَ ٱلۡمُوقِنِينَ 

٧٥ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيۡهِ ٱلَّيۡلُ رَءَا كَوۡكَبٗاۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّيۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَآ أُحِبُّ ٱلۡأٓفِلِينَ ٧٦ فَلَمَّا رَءَا ٱلۡقَمَرَ بَازِغٗا قَالَ هَٰذَا 

رَبِّيۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمۡ يَهۡدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلضَّآلِّينَ ٧٧ فَلَمَّا رَءَا ٱلشَّمۡسَ بَازِغَةٗ قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَآ 

أَكۡبَرُۖ فَلَمَّآ أَفَلَتۡ قَالَ يَٰقَوۡمِ إِنِّي بَرِيٓءٞ مِّمَّا تُشۡرِكُونَ ٧٨ ( القرآن – الانعام : 74-78 )

” اور ( وہ وقت یاد کرو ) جب ابراہیم نے اپنے آذر سے کہا کہ تم بتوں کو معبود قرار دیتے ہو ؟ بیشک ! میں تو تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں ( مبتلا ) دیکھتا ہوں۔” ( 74 )

” اور اسی طرح ابراہیم کو ہم نے دکھا دی آسمانوں اور زمین کی حکومت تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔” ( 75 )

” تو یوں ہوا کہ جب رات ابراہیم پر چھا گئی ، انہوں نے ایک تارہ دیکھا ، بولے : یہی میرا پروردگار ہے۔ لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو بولے : میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔” (76 )

” پھر جب چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا ، بولے : یہی میرا پروردگار ہے۔ لیکن جب ( وہ ) بھی غروب ہو گیا تو بولے کہ اگر میرا پروردگار مجھے ہدایت نہ کرتا رہے تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں۔” ( 77 )

” پھر جب سور کو چمکتے ہوئے دیکھا تو بولے: یہی میرا پروردگار ہے۔ یہی سب سے بڑا ہے۔ لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو بولے : اے لوگو ! اس شرک سے میں بری ( اور بیزار ) ہوں جو تم کرتے ہو۔” ( 78 )

نئے دیوتا

إِنِّي وَجَّهۡتُ وَجۡهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضَ حَنِيفٗاۖ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ ٧٩ ( القرآن – الانعام : 79 )

” یقیناً میں نے اپنا رخ یکسو ہو کر اس کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔”

اب بھی نورِ ہدایت کی کرنیں بکھری پڑی ہیں مگر ان کی چمک عبث ہے۔ ہم ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ ارضی پرچھائیوں نے انہیں تاریک بنا دیا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ پرچھائیاں ہمارے قد آور دانش کدوں اور ہمارے روحانی جاہلیت کے میناروں سے نکل رہی ہیں۔ یہ تاریک پرچھائیاں دراصل ہمارے ان تازہ دیوتاؤں کے مجسمے ہیں جو ہم نے اس مالک حقیقی کی جگہ پر نصب کر لیے ہیں جو کہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور ہم نے ان دیوتاؤں کو خدائے واحد مطلق کا شریک کار بنا لیا ہے۔

قوم ، نسل ، ملک اور مملکت ………… پرانے وہی اصنام ہیں ، جو جدید دانش ورانہ ، روپ اختیار کر چکے ہیں مگر ہم انہیں پہچانتے نہیں۔ ان کو مقدس سمجھتے ہیں اور ان کو پوجتے ہیں۔

قوم ، نسل ، ملک اور مملکت کیا ہیں ؟ ………… قوم اپنی تعریف کی رو سے وہ عوام یا فرقہ ہے جس کے افراد ایک شہری حکومت کے تحت آپس میں متحد و منظم ہوں اور عام طور سے ایک ایسی سر زمین پر آباد ہوں ، جو دوسروں سے علیحدہ حیثیت رکھتی ہو ……… نسل نوعِ انسان کی ایک خاص قسم ہے ، جس کے افراد کی متعدد خصوصیات آپس میں مشترک ہوں ……… ملک کسی خاص اقتدارِ اعلیٰ یا حکومت کے زیر نگیں ایک قطعہ زمین ہے ، جس میں خاص لوگ آباد ہوں یا کسی متعین جغرافیائی حدود کے اندر رہتے ہوں ……… مملکت ، ایک سیاسی فرقہ ہے جو ایک منفرد حکومت کے تحت منظم ہو ، جس کو وہاں کے عوام نے برتر و اعلیٰ قوت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہو اور وہ اس سے اتفاق رکھتے ہوں۔

یہ سب ابتدائی باتیں ہیں مگر بعض اوقات ایسی باتوں کا ذکر بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محض اتفاقات زمانہ کی وجہ سے کوئی شخص کسی خاص قوم ، نسل ، ملک یا مملکت سے تعلق رکھتا ہے۔ قوم ، نسل ، ملک یا مملکت نہ تو کوئی ما فوق الفطرت چیز ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ انہیں ہو بہو دیتاؤں کی طرح پوجا نہیں جا سکتا تاہم یہ پوجے جاتے ہیں اور ہم یہ جانتے بھی نہیں کہ ہم نے ان کو اپنا دیوتا بنا لیا ہے۔ فطری وابستگی اور عقیدت کی بنا پر یہی دیوتا کی صورت اختیار کر لیتی ہیں یہ وابستگی اور عقیدت فطری تو ضرور ہیں مگر ہم انہیں جتنی اہمیت دیتے ہیں ، یہ اتنے اہم نہیں ہیں۔ اگر ہمیں ان کی اصلیت اور قدر کا پتہ ہو تو یہ ہمارے دیوتا نہ بن سکیں۔ لیکن جب ہم ان کو ان کی قد و قامت سے زیادہ بلند و شاندار بنا دیتے ہیں تو یہی چیزیں ہمارے سامنے دیوتا بن کر نمودار ہوتی ہیں۔ ان کی پرچھائیوں سے پھیلنے والی تاریکی ہماری تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ہماری نادانی تو دیکھیے ، ہم ان کو روشنی کا منارہ سمجھ بیٹھتے ہیں گویا کہ ان سے سارے جہاں کو روشنی مل رہی ہے مگر ان کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندھیروں سے ہماری اپنی آنکھوں کی روشنی بھی غائب ہو جاتی ہے۔ جو ہمارے لیے بہت ہی ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔ ایک جزو کل پر محیط ہو جاتا ہے۔ اتفاقی و عارضی واقعات ، ابدیت کی جگہ لے لیتے ہیں اور ہم اس وابستگی کو جو صرف بنی نوع انسان اور کائنات کے لیے ہے ، ہم اپنی جماعت ، قوم ، نسل ، ملک یا مملکت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔

قومیت ، حب الوطنی ، میرا ملک ، صحیح ہو یا غلط ، نسلی برتری ، مملکت سے اندھی وفا داری ، نئی قسم کے وہ انوکھے اصنام ہیں ( جو واقعاتی طور پر زیادہ نئے نہیں ہیں ) جنہوں نے شجر و حجر کے پرانے دیوتاؤں کی جگہ سنبھال لی ہے۔ جب رپرٹ بروک ( ایک انگریز شاعر ) کہتا ہے :

مجھے موت آ گھیرے جب میں یہ خیال کروں ،

کہ وہ کوئی غیر ملکی میدان کا گوشہ ہے

جو ہمیشہ کے لیے انگلینڈ ہے۔

جب وہ یہ بات کہتا ہے تو گویا وہ بت پرستی کی مصدقہ لے میں بات کرتا ہے۔ یہ صرف اسی کی تنہا لے نہیں ہے۔ ان تازہ خداؤں کی شان میں ، ایسی بے شمار زبانیں ، ان گنت طرز اور الگ الگ راگ میں نغمے الاپ رہی ہیں۔ ان کے چنگ و رباب کے شور میں صوتِ ہادی دب کر رہ گئی ہے۔

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

بہر کیف ، صرف ایسا ہی نہیں ، بلکہ خدا کا پیغام اب بھی سنا جا سکتا ہے۔ اس کی پکار صاف اور غیر مبہم ہے۔ خدا پکار رہا ہے کہ ان ننھے ننھے سیاہ بتوں کی پوجا ترک کر دو اور صرف میری عبادت کرو۔ مگر ہم ہیں کہ اس پکار پر کان نہیں دھرتے ، کیونکہ ہمارے دل چھوٹے ہیں اور ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں سے وابستگی پیدا کر کے ہی زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے خود ساختہ بت ہی بھلے نظر آتے ہیں۔ اس عظیم ہستی کی پکار ہمیں دہشت زدہ کر دیتی ہے اور ہم مارے خوف کے پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ ہم اس سے محض اس لیے خوف زدہ ہیں کہ ہم صحیح طور پر اس کو پہچان نہیں پاتے۔

دیکھنے والی آنکھیں ، سننے والے کان اور ہمہ وقت روشن و بیدار دانش ، اسلام کے لائے ہوئے ارمغان ہیں ، ہم نے سب کچھ بچا رکھا ہے صرف ان ارمغان کو کھو دیا ہے۔ جسم باقی ہے روح نکل چکی ہے۔ عربی ، ایرانی ، افغانی اب بھی موجود ہیں ، بھلا یہ تو بتائیں مومن کہاں ہیں ؟

مومنوں کے دل سے ایمان نکل چکا ہے۔ یہ بھی ان ہی نو ساختہ بتوں کے پجاری ہیں ، انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ، صنم خانوں کے رموز و اشارات استعمال کرتے ہیں اور ان ہی کی زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ قوم ، نسل ، ملک اور مملکت کی تاریک پرچھائیوں نے ان کی بصارت چھین لی ہے۔ ان کے قلوب بدل چکے ہیں۔ ان کے دلوں سے روح پرور شعاعوں کے بدلے تاریک بادلوں کے مرغولے اٹھتے ہیں۔ ان کے فیضان کے سوتے خشک ہو چکے ہیں۔

جانب دارانہ وفا داری ، بے وقعت اتفاقات اور گمراہ کن عقائد ہی ان کی آنکھوں میں عظیم تر نظر آتے ہیں اور انہوں نے زندہ و ابدی حقیقتوں کے چہروں کو تاریکی کے ان بادلوں کے گوشوں میں چھپا لیا ہے۔

اسلام جانب داری ، معمولی نوعیت کے فروعی اور اتفاقاتی واقعات اور گمراہ کن عقائد کو واشگاف انداز میں رد کرتا ہے۔ یہ تمام وقتی مصلحت ، اتفاقی معاملات ، جانب داری اور کوتاہ نظری کے چراغوں کو گل کر کے ، صرف حقیقی زندگی کا ایک شعلہ روشن رکھنا چاہتا ہے۔ ایک مومن ظلمت کے ان خداؤں کی پرستش نہیں کر سکتا کیونکہ یہ دیوتا حق کی روشنی کے دشمن ہیں اس لیے کہ ان کے جلووں کی کرشمہ سازی کی قلعی کھل چکی ہے۔ مسلمان سراب کا شکار نہیں ہو سکتا ! ……… وہ اپنی وفا داری صرف ایک مملکت سے استوار رکھتا ہے ، یعنی جہاں ہو خدا کی حکمرانی ، یعنی زمین پر آسمان کی بادشاہت!

اسلام راضی بہ رضا ، ہو جانے کا نام ہے۔ اسی تسلیم و رضا ہی میں سکون ہے۔ یہ سپردگی کوئی غلامی نہیں ہے۔ یہ ایک نجات ہے ہماری فطرتی بندشوں سے نجات اور ہماری خود ساختہ بندشوں سے نجات۔ اس کے معنی ہیں آزادی ، آزادی اپنی خودی کو ترقی دینے کے لیے۔ ارضی پرچھائیاں غائب ہو جاتی ہیں اور ہم اپنے اندر چمکنے والی آسمانی روشنی میں ، روز روشن کی طرح ، عقابی نگاہ سے ، راہ مستقیم پا جاتے ہیں۔

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

( اقبال )

2-انہوں نے ہمیں کیا دیا ہے

نورِ الٰہی اب بھی ضو فشاں ہے :

ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ 

مَثَلُ نُورِهِۦ كَمِشۡكَوٰةٖ فِيهَا مِصۡبَاحٌۖ ٱلۡمِصۡبَاحُ فِي زُجَاجَةٍۖ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوۡكَبٞ دُرِّيّٞ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٖ مُّبَٰرَكَةٖ زَيۡتُونَةٖ لَّا شَرۡقِيَّةٖ وَلَا غَرۡبِيَّةٖ يَكَادُ زَيۡتُهَا يُضِيٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٞۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٖۚ يَهۡدِي ٱللَّهُ لِنُورِهِۦ مَن يَشَآءُۚ وَيَضۡرِبُ ٱللَّهُ ٱلۡأَمۡثَٰلَ لِلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ ٣٥ ( القرآن – النور : 35 )

” اللہ ( ہی ) آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور ( ہدایت ) کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک طاق ہے ، اس میں ایک چراغ ہے ، چراغ قندیل میں ہے ، قندیل گویا ایک چمکدار ستارہ ہے۔ چراغ روشن کیا جاتا ہے ایک نہایت مفید درخت ( یعنی ) زیتون سے جو نہ پورب رخ ہے اور نہ پچھم رخ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود جل اٹھے گا اگرچہ آگ اسے بھی نہ بھی چھوئے۔ نور ہی نور ہے۔ اللہ اپنے اسی نور تک جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ور اللہ لوگوں کے لیے ( یہ ) مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔” ( 35 )

یہ آسمانی روشنی ، خدا کی ایک زمیں پر پڑنے والی پرچھائیوں کے تین عفریت کا پتہ دیتی ہے۔ جن کی اصلیت صرف باریک دھوئیں کی ایک لپیٹ ہے ، مگر افسوس ہے ہماری نادانی پر کہ ہم اس کو نور کی کرن سمجھ بیٹحے ہیں اور ان کی پرستش میں جبیں جھکا دیتے ہیں۔ ( ان تاریکیوں ) نے بہت سے لوگوں کو ( بھٹکا کر ) ہلاک کر دیا ہے۔

تہذیب و تمدن

ان دیوتاؤں میں سے ایک کا نام تہذیب و تمدن ہے۔ اسے ہم خود اپنے ہاتھوں سے تخلیق کرتے ہیں اور اس سے بہت ہی عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ ہمیں اس قدر مقدس نظر آتا ہے کہ ہم اسے دیوتا بنا لیتے ہیں اور اسے ارادی طور پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ہم نہایت اشتیاق سے وہ تحفہ وصول کرتے ہیں جو ہم نے ہی دیا تھا۔

ان تحائف میں سے سب سے زیادہ عظیم اور گرانقدر تحفہ وہ قوت ہے جو ہمارے ماحول کو منظم ، متناسب رکھتی ہے اور اس کو چلاتی ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو انسانی فائدے کے لیے فطرت کے عناصر کو مسخر کرتی ہے مگر یہ تحفہ ان بتوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہے کہ وہ ہم کو یہ دے سکیں۔ یہ خدا کا عطیہ ہے :

ٱللَّهُ ٱلَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ ٱلۡبَحۡرَ لِتَجۡرِيَ ٱلۡفُلۡكُ فِيهِ بِأَمۡرِهِۦ وَلِتَبۡتَغُواْ مِن فَضۡلِهِۦ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ ١٢ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا مِّنۡهُۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَتَفَكَّرُونَ ١٣ ( القرآن – الجاثیہ : 12-13 )

” اللہ وہی ہے ، جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر بنایا تاکہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کی ( دی ہوئی ) روزی تلاش کرو ، اور تاکہ تم شکر کرو۔” ( 12 )

” اس نے تمہارے لیے مسخر بنایا جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین ہے سب کو اپنی طرف سے ، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔” ( 13 )

لیکن ہم تدبر نہیں کرتے۔ ہم نا شکرے ہیں۔ ہم نے خدا کا شریک ٹھہرا لیا ہے اور ہم اس اختیار کو ، جو خدا کی بے پایاں رحمت سے ہمیں ملے ہیں ، غلط طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان اختیارات کو خدا کی رضا جوئی کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ ہم انہیں خدا کی مرضی کے خلاف اپنی آرزوؤں کو طمانیت بخشنے کے لیے استعمال کرتے ہیں :

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٰتِ 

مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلۡبَنِينَ وَٱلۡقَنَٰطِيرِ ٱلۡمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلۡفِضَّةِ وَٱلۡخَيۡلِ ٱلۡمُسَوَّمَةِ وَٱلۡأَنۡعَٰمِ وَٱلۡحَرۡثِۗ ذَٰلِكَ مَتَٰعُ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسۡنُ ٱلۡمَ‍َٔابِ ١٤ ( القرآن – آل عمران : 14 )

” لوگوں کے لیے خوشنما کر دی گئی ہے ، مرغوبات کی محبت ( خواہ ) عورتوں سے ہو یا بیٹیوں سے یا ڈھیر لگے ہوئے سونے اور چاندی سے یا نشان پڑے ہوئے گھوڑوں سے یا مویشیوں سے یا زراعت سے ، یہ ( سب ) دنیوی زندگی کے سامان ہیں اور حسن انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے ( جہاں واپس جانا ہے )۔”

ہمیں وہ چیزیں بخشی گئی ہیں جو ہمیں مرغوب ہیں اور مزید چیزوں کے آنے کا وعدہ ہے۔ اس ارض حیات کی اشیاء ہی ہمیں خوشنما نظر آتی ہیں اور ان کے دلفریب نگاروں نے ہمیں ان منزلوں سے غافل کر دیا ہے ، جو خدا سے قریب تر ہیں۔ یہ دلکش اشیاء رومانیت کی بجائے مادیت کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہم اس دنیا کو آرام و راحت کا گھر بنانا چاہتے ہیں مگر ہم یہ محسوس نہیں کرتے اور زیادہ اغلب یہ ہے کہ ہم یہ جانتے بھی نہیں کہ مادی عیش و آرام ذہنی بے حسی ، اخلاقی پستی اور روحانی بے بصری کی طرف لے جاتے ہیں۔

امریکہ اس عظیم دیوتا یعنی تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے اور لاہور کی بجائے نیو یارک میں اس کے منادر ہیں ، جہاں کی عمارتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ اس کا مقدس ارادہ ہے کہ خدا کی حسین و جمیل دنیا کی ساری زمیں کو وسیع و عریض اور بے کراں نیو یارک میں تبدیل کر دیا جائے جہاں بلند سے بلند تر فلک بوس عمارتیں سر اٹھائے کھڑی ہوں۔

نیز ان فلک بوس عمارتوں میں جڑواں دیوتا …………… تہذیب و تمدن اور ” قادر مطلق ڈالر ” کی پرستش کی جائے۔ سنہری بچھڑا ایک بار پھر اپنے روپ میں ظاہر ہو چکا ہے۔ آہ ! کوئی موسیٰ آ کر اس سنہری بچھڑے کو جلا کر خاکستر کر ڈالے اور اس کی خاک کو دریا برد کر دے۔

زندگی زیادہ آرام دہ ہوگئی ہے لیکن اس کے سامنے اب کوئی با معنی نصب العین نہیں ہے۔ یہ معنی و مفہوم سے خالی کر دی گئی ہے۔

ہماری زیست کی ضروری تعمیر نَو کی بیداری خود آگاہی میں شکستگی ، بے یقینی ، سعی لا حاصل بے بنیاد جذبوں اور زعم باطل کی علامات پائی جاتی ہیں اور اس آب حیات کی تشنگی پائی جاتی ہے جو ناکام و بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔

آب حیات ناکام و بے اثر ثابت ہو چکا ہے کیونکہ ہم نے اس بسنتی راہ کو اختیار کر لیا ہے جو دائمی الاؤ کی طرف جاتی ہے۔ مستقیم اور محدود راہ کا اختیار کرنا ہی ہماری زندگی کی وہ واحد تنظیم نو ہے جو ہمیں نجات دے سکتی ہے :

قُلۡ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيۡرٖ مِّن ذَٰلِكُمۡۖ لِلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ عِندَ رَبِّهِمۡ جَنَّٰتٞ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَأَزۡوَٰجٞ مُّطَهَّرَةٞ وَرِضۡوَٰنٞ مِّنَ ٱللَّهِۗ ( القرآن – آل عمران : 15 )

” جو لوگ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس باغ ہیں کہ ان کے نیچے نہریں پڑی بہہ رہی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور صاف ستھری ( پاک ) بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ( حاصل ) ہو گی۔”

اشتراکیت

لیکن ہم خدا کی رضا کے متلاشی نہیں ہیں اور آب حیات کی تشنگی سے مغلوب ہو کر ایک دوسرے بت ، اشتراکیت کی طرف چل پڑے ہیں۔ یہ بت کسی حد تک ، پہلے بت سے زیادہ پُر کشش ، مہربان اور با اختیار نظر آتا ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ یہ نہ صرف چند بلکہ بہت سارے لوگوں کو عیش و راحت ، مادی عیش و راحت بخشے گا۔ یہ سنہری بچھڑے کا کھلا دشمن ہے اور اسے قابل نفرت گردانتا ہے۔ عرصے سے متوقع کسی موسیٰ کی طرح یہ دھمکی دیتا ہے کہ وہ اس سنہری بچھڑے کو جلا کر خاک کر دے گا اور اسے دریا برد کر دے گا۔ مگر یہ خدا کا رسول ، موسیٰ نہیں ہے۔ یہ ( بھی ) ایک دیوتا ( ہی ) ہے جس نے خدا کا بہروپ اختیار کر لیا ہے۔ یہ اپنے پجاریوں سے ارضی جنت کا وعدہ کرتا ہے اور یہ وعدہ ( محض ) خالی خولی معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ رحمتیں نازل کرتا ہے تقریباً خدائے واحد مطلق کی طرح :

وَهُوَ ٱلَّذِيٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَخۡرَجۡنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَيۡءٖ فَأَخۡرَجۡنَا مِنۡهُ 

خَضِرٗا نُّخۡرِجُ مِنۡهُ حَبّٗا مُّتَرَاكِبٗا وَمِنَ ٱلنَّخۡلِ مِن طَلۡعِهَا قِنۡوَانٞ دَانِيَةٞ وَجَنَّٰتٖ مِّنۡ أَعۡنَابٖ وَٱلزَّيۡتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُشۡتَبِهٗا وَغَيۡرَ مُتَشَٰبِهٍۗ ٱنظُرُوٓاْ إِلَىٰ ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثۡمَرَ وَيَنۡعِهِۦٓۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمۡ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يُؤۡمِنُونَ ٩٩ ( القرآن – الانعام : 99 )

” اور وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی روئیدگی کو نکالا پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ ہم اس سے اوپر تلے چڑھے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گچھوں سے خوشہ ( نکلتے ہیں ) نیچے کو لٹکے ہوئے اور ( ہم نے ) باغ ، انگور اور زیتون اور انار کے پھل پیدا کیے باہم مشابہ اور غیر مشابہ ، اس کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو ( دیکھو ) ، بے شک ان سب میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان کی طلب رکھتے ہیں۔”

ظاہری آنکھوں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس دیوتا نے ، خدا کی بنائی ہوئی ان اشیاء کو ، اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ، یہ دولت کی فروانی ، عیش کے یہ سامان ، رنگ برنگ کے یہ ارضی تحائف ، ( وہ دے سکتا ہے ) مگر ان کے مبادل روحانی مسرتوں کو بھی فراہم کرنا ، اس کے بس کی بات نہیں۔ یہ دیوتا ہمارے لیے دوسرے دیوتاؤں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے فیاضِ مطلق کا سوانگ رچایا ہوا ہے۔ اسے لا شعوری طور پر بڑی آسانی سے خدا بنایا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہ فیاض قدرت کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے اس لیے یہ ہم سے اس قسم کی پرستش کروا سکتا ہے ، جو صرف خدائے بزرگ و برتر ہی کو زیب دیتا ہے۔

تاہم منبع انوار و تجلیات کی کرنیں ، اب بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی روشنی میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس دیوتا کے تصرف میں فقط ارضی اشیاء ہیں۔ گو کہ یہ مادی چیزیں اس کے تصرف میں بڑی وافر مقدار میں ہیں  ……………مگر تصرف ہی کیا ؟ یہ تو سراسر عارضی ہیں۔ یہ دیوتا ہمیں تشنگی کے اس صحرا میں چھوڑ جاتا ہے جہاں سیری کبھی حاصل نہیں ہوتی۔

یہ دیوتا انصاف ، فیاضی اور مہربانی ایسی الوہی صفا ت سے یکسر خالی ہے۔ یہ بد ترین قسم کا جابر و ظالم ہے۔ یہ ہمارے اجسام کے لیے نہایت خوبصورت اور آرام دہ مکان تو ضرور تعمیر کر دیتا ہے مگر ستم یہ ہے کہ وہ ساتھ ہی ساتھ ہماری روح اور ذہن کو اس پر قفس کر دیتا ہے اور اس طرح ہماری بیدار روح کو بلاک کر دیا ہے۔ سرسی (Circe) کی طرح یہ بھی مردوں کو حیوانوں کی طرح پالتا ہے ، انہیں اچھی اچھی خوراک فراہم کرتا ہے مگر غیرت و حمیت کے جذبے کو ان سے چھین لیتا ہے۔ یہ ایک مجرم ہے اور جرائم کرتا ہے۔

سائنس

ان دو دیوتاؤں کی پشت پر ، ان سے زیادہ قد آور ایک تیسرا دیوتا نصب ہے۔

جسے عرف عام میں سائنس کہا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں دیوتا سائنس ہی سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ سائنس ہی نے ہماری زندگی کو زیادہ آرام دہ بنا دیا ہے۔ اس نے نہ صرف ہمارے اجسام کے لیے دیدہ زیب اور آرام دہ رہائش گاہیں تعمیر کر دی ہیں ، بلکہ اس نے اسی طرح کے خوبصورت مکانات ہمارے اذہان کے لیے بھی بنا دیئے ہیں۔ اس نے ہمیں نہایت گراں قدر علم سے نوازا ہے مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس نے ہمیں محض ایک علم دیا ہے۔ یہ علم بھی محض مادی عیش و عشرت کی طرح ناکافی ہے ، اس دیوتا کو تعمیر و ترکیب کی قوت تو ضرور حاصل ہے ، مگر یہ مطلوبہ مقاصد بروئے کار لانے سے بے بس ہے۔ بے شک یہ ہمیں علم کی روشنی بخشتا ہے ، تاہم ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ ہماری منزل کہاں ہے۔ اصل منزل سے اسی دوری کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا اخلاقی پستی کے تقریباً لا علاج مرض میں مبتلا ہو گئی ہے۔ سائنس کا عظیم ترین تحفہ ، ” ایٹم بم ” ایک مکمل تباہی کا سامان !

اس بت کی تحدید ، جیسا کہ یہ طاقت ور ہے ، دو رخی ہے ( ایک یہ کہ ) یہ اپنے پجاریوں سے ، پوجا پاٹ کے لیے ان گنت مندریں بنواتا ہے مگر ان سب کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ۔ اور یہ ان مندروں میں سے ہر ایک میں ( محض ) جزوی حقائق نازل کرتا ہے۔ یہ جزوی حقائق مفید بھی ہو سکتے ہیں مگر ان کا ( اصل ) کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے افکار و تصورات کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس دیوتا کے پرستاروں نے اس ضرورت کو محسوس کیا ہے کہ ان منتشر اور منتشر کرنے والے چھوٹے چھوٹے معابد کی بجائے ایک عظیم مندر بنا لیا جائے۔ استعارہ کے طور پر :

” اس بات کی بہت سی علامات پائی جاتی ہیں کہ آنے والا دور ایک یکجا سائنس کا قیام دیکھ سکے، جس میں نامیاتی اور غیر نامیاتی دونوں شعبے ہوں ، نفسیات کے موضوع اور ممکنہ طور پر سماجی علوم کے لیے بھی سائنسی مطمع نظر فراہم ہو سکے۔ سائنس کی مختلف شاخوں کے مابین تعلقات کی اہمیت کو پہلے ہی محسوس کیا جا چکا ہے۔ تاہم اب تک انہیں اچھی طرح سمجھا نہیں جا سکا ہے۔ مستقبل کے یکجا سائنس میں خصوصی سائنس کے مختلف طریقوں کی پیچیدگی اور محکمہ جاتی تقسیم کے مسائل کو ایک آسان اور جامع مرکب سے دور کیا جا سکے گا۔”

اس کی دوسری تحدید یہ ہے کہ یہ غیر ذمہ داری کے شوق کو ہوا دیتی ہے اس کے تحائف بہت ہیں …………… بہت ہی زیادہ۔ مگر اس کے پیچھے اس کو قابو کرنے والا نہ کوئی مقصد ہے نہ کوئی منصوبہ اور نہ کوئی ضابطہ کار ، ان فراخدلانہ تحائف نے ہمیں ایک سیدھی کھڑی چٹان کے بالکل کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ لا مقصدیت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے :

” سائنس وہ عنصر ہے جو انسان کے مقدر کے ستارے کا تعین کر سکتا ہے۔ کسی فرقے کے سائنس دانوں اور دوسرے افراد کی یہ طے شدہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ آیا یہ انسانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ کہ اس سے کوئی خرابی نہیں ہے۔”

لیکن فیضانِ خداوندی کے بغیر یہ تحادید حاصل نہیں ہو سکتیں۔ کاش ! انسان نے حق و راستی کے مذہب …………… اسلام کو اپنا لیا ہوتا تو آج اسے ماورائی سائنس کے ما بعد الطبیعات کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ، جس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اسلام آغاز ہی سے اس کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ اس نے سائنس کے ان تحائف کو الوہی مقاصد سے مزین کر کے دوسری تحدید یعنی لا پروائی و غیر ذمہ داری پن کو بھی دور کر دیا ہوتا۔

اسلام سائنس و حکمت کا مخالف نہیں ہے۔ یہ اسے خدا کا صرف ایک خادم سمجھتا ہے۔ سائنس تو اس وقت تباہ کن ہوتی ہے ، جب وہ دیوتا کی طرح مقدس صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بہر حال اب ایسا معلوم ہوتا ہے ( اور قرائن یہ بتاتے ہیں ) کہ جھوٹے اصنام کے پجاریوں کا جو کبھی مقدر تھا ، وہ اب جلد ہی ، بے صنم سائنس کے پرستاروں کا نصیب بن جائے گا۔

فَلَمَّا رَأَوۡهُ عَارِضٗا مُّسۡتَقۡبِلَ أَوۡدِيَتِهِمۡ قَالُواْ هَٰذَا عَارِضٞ مُّمۡطِرُنَاۚ بَلۡ هُوَ مَا ٱسۡتَعۡجَلۡتُم بِهِۦۖ رِيحٞ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٞ ٢٤ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيۡءِۢ بِأَمۡرِ رَبِّهَا فَأَصۡبَحُواْ لَا يُرَىٰٓ إِلَّا مَسَٰكِنُهُمۡۚ كَذَٰلِكَ نَجۡزِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡمُجۡرِمِينَ ٢٥ ( القرآن – الاحقاف : 24-25 )

” پھر جب ان لوگوں نے بادل کو اپنی وادیوں کے مقابل آتے دیکھا تو بولے : یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔ نہیں ! یہ تو وہ ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے یعنی ایک آندھی جس میں درد ناک عذاب ہے۔” ( 24 )

” وہ ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے ہلاک کر دے گی۔ چنانچہ وہ ایسے ہو گئے کہ بجز ان کے مکانات کے کچھ دیکھنے کو نہیں رہا۔ ہم مجرموں کو یوں ہی سزا دیتے ہیں۔” ( 25 )

وہ سائنس جس میں اسلام کی روح شامل ہو ، وہی ہمیں تباہی سے بچا سکتی ہے۔ انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ( اشیاء کے بارے میں ) جاننے کی خواہش رکھتا ہے اور چیزوں کی اصلیت جاننا چاہتا ہے اور یہ خواہش خدا کی طرف سے پیدا ہوتی ہے :

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِ‍ُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ ٣١ قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ ٣٢  (القرآن – البقرۃ : 31-32 )

” اور اللہ نے آدم کو نام سکھلا دیئے ہیں ، کُل کے کُل ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ پھر فرمایا ( فرشتوں سے ) : بتلاؤ تو ان کے نام اگر سچے ہو۔” ( 31 )

” وہ بولے : تو پاک ہے ، ہمیں تو کچھ علم نہیں مگر ہاں وہی جو تو نے ہمیں علم دیا۔ بے شک ! تو ہی بڑا علم والا ، حکمت والا ہے۔” ( 32 )

عبادت اور سائنس محض دو راہیں ہیں ، جن کی منزل ایک ہے۔ ان دونوں راہوں کو یکجا کر کے ہی ، ہم خدا کے مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہیں۔

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ لَأٓيَٰتٖ لِّأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ ١٩٠ ٱلَّذِينَ يَذۡكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَٰمٗا وَقُعُودٗا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمۡ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هَٰذَا بَٰطِلٗا سُبۡحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ ١٩١ (القرآن – آل عمران : 190-191 )

” بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے ادل بدل میں اہل عقل کے لیے (بڑی ) نشانیاں ہیں۔” ( 190 )

” یہ ایسے ہیں کہ جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر ( برابر ) یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ اے پروردگار تو نے یہ ( سب ) لا یعنی نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو محفوظ رکھ ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔” ( 191 )

یہاں ان دونوں راہوں کی ، کھلے طور پر ، نشان دہی کر دی گئی ہے، اور یہ بات مساوی طور پر عیاں ہے کہ یہ دونوں راہیں ، در اصل ، ایک ہی ہیں۔

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.