الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی 1437ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
جب رات تاریک ہو ، راستہ دشوار اور منزل نظروں سے اوجھل ، تو مسافر پر سفر کی لذت معدوم اور اس کا خوف غالب آ جاتا ہے۔
ہم ایک ایسے ہی سفر کے راہی ہیں ، ہمارے سامنے تاریخ کا ایک ایسا موڑ ہے جو تاریخ میں کبھی نہیں آیا ، ہر گزرتی ساعت حالات کی سنگینی کو بڑھا رہی ہے اور بڑھتی سنگینی ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ کر رہی ہے۔
مسافرانِ حق پرست کے قدم اگر کسی مقام پر متزلزل ہو بھی جائیں تو کیا ، قوت حق کا استحکام اور ثبات ایمان کی طاقت کبھی متزلزل نہیں ہو سکتی۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی مسافر دو گام چل کر ہمت ہار بیٹھے ، اسے اس کے حصے کی جزا مبارک۔ لیکن انجام کار انہیں کے ہاتھ ہے جنہوں نے منزل تک پہنچنے کی آس نہیں چھوڑی۔ کیونکہ و العاقبة للمتقین۔
نبوی عظمتوں کے متلاشی اور نبوی نقوشِ قدم کے پیروی کرنے والے حالات کی شوریدہ سری سے نہیں ڈرتے۔ راستے کی کٹھنائیاں ، تاریکی کا خوف اور راہ حق کی آزمائشیں ان کے جذبہ احساس سے ٹکراتی تو ضرور ہیں مگر انہیں شرمندہ احساس نہیں کر سکتیں۔
بلا شبہ اللہ نے کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ لا يكلف الله نفس الا وسعها۔
لیکن ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد خود اس کی زندگی سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس کی زندگی اس کی نہیں ہوتی : إِنَّ ٱللَّهَ ٱشۡتَرَىٰ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ أَنفُسَهُمۡ وَأَمۡوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلۡجَنَّةَۚ
وہ اپنے دامِ نفس کا اسیر نہیں ہوتا۔ وہ چلتا ہے مگر اس لیے نہیں کہ افرادِ زمانہ کا ساتھ دے ، بلکہ اس لیے کہ اس کے قدم اللہ کی راہ میں ، اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اٹھیں۔
راہ کی مشکلات اسے مایوس نہیں کر سکتیں ، جان کا خوف اسے ڈرا نہیں سکتا ، دنیا کی ایسی کوئی طاقت نہیں جو اس سے اس کی متاعِ گراں مایہ ( اللہ پر یقینِ محکم ) چھین سکے ، کیونکہ اسے اللہ کے ساتھ کیے گئے اپنی تجارت پر یقین کامل ہے۔ دنیا میں خواہ نتیجہ کچھ ہی نکلے آخرت میں اس کے لیے دائمی فوز و فلاح کی بشارت ہے۔ فَٱسۡتَبۡشِرُواْ بِبَيۡعِكُمُ ٱلَّذِي بَايَعۡتُم بِهِۦۚ وَذَٰلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ
اللہ کے ایک سپاہی کی موت اس وقت واقع نہیں ہوتی جب رشتہ سانس جسم سے منقطع ہوتا ہے ، بلکہ اس وقت واقع ہوتی ہے جب وہ اللہ کے لیے جینا ترک کر دیتا ہے۔
٭–٭–٭–٭–٭–٭–٭–٭