فسق و فجور کا آئینہ


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : ابو الحسن

اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ فی الارض کو تعقل، تفکر اور تفقہ کی صلاحیتیں عطا فرمائیں۔ ان نعمتوں کی قدر دانی کرنے والوں کو قوم یومنون ، قوم الصالحین ، قوم یعدلون قرار دیا۔ قوم نوح کے لوگوں کو جو اپنے پیغمبر کی جگہ سرکش ظالم حکمرانوں کی پیروی کرتے تھے قوماً عمین قرار دیا۔ فرمایا : وَأَغۡرَقۡنَا ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ‍َٔايَٰتِنَآۚ إِنَّهُمۡ كَانُواْ قَوۡمًا عَمِينَ ٦٤ ( الاعراف : 64 ) اور کافروں کے لیے عموماً فرمایا :

وَنَطۡبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَسۡمَعُونَ  ( الاعراف : 100 )

قرآن میں عقل کے اندھوں کے کاموں کو اثم ، عدوان ، عصیان کہا گیا۔ یہ الفاظ اردو میں مستعمل نہیں۔ قرآن کے دو الفاظ فسق اور فجور اردو میں اس طرح استعمال ہوتے ہیں گویا اردو ہی کے الفاظ ہیں لیکن عموماً ان کا اطلاق اخلاقی برائیوں اور چند انفرادی گناہوں شراب نوشی وغیرہ پر کیا جاتا ہےلیکن قرآن میں یہ الفاظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئے۔ مختلف آیات میں ان کے جو ترجمے کیے گئے ان سے تشفی نہیں ہوتی۔ اگر یہ مترجمین کی کوتاہی نہ ہو تو اردو زبان کی تہی دامنی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ قرآن کی عربی مبین الفاظ کا اردو ترجمہ آسان کام نہیں۔ قرآن کی چند آیات اور ان کے اردو ترجموں کا جائزہ لیں۔

سورہ عبس میں روزِ قیامت کافروں سے ہونے والے سلوک کے ذکر کے بعد آیت 42 میں ارشاد ہے :

أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡكَفَرَةُ ٱلۡفَجَرَةُ ٤٢

” اور یہی کافر بد کردار لوگ ہوں گے۔”

سورہ ص آیت 28 میں فرمایا :

أَمۡ نَجۡعَلُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ 

ٱلصَّٰلِحَٰتِ كَٱلۡمُفۡسِدِينَ فِي ٱلۡأَرۡضِ أَمۡ نَجۡعَلُ ٱلۡمُتَّقِينَ كَٱلۡفُجَّارِ ٢٨

” کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو زمین میں فساد مچاتے ہیں یا پرہیز گاروں کو بد کاروں جیسا کر دیں گے۔”

سورہ مطففین آیت 7 میں فرمایا :

كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلۡفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٖ ٧

” بد کرداروں کا نامہ اعمال سجین میں ہے۔”

قرآن میں ایک اور لفظ ” فاجراً ” استعمال ہوا ہے ۔ پہلے اس کا پس منظر دیکھیں :

 

قوم نوح ہی کو اللہ تعالیٰ نے ” اظلم و اطغیٰ ” قرار دیا وَقَوۡمَ نُوحٖ مِّن قَبۡلُۖ إِنَّهُمۡ كَانُواْ هُمۡ أَظۡلَمَ وَأَطۡغَىٰ ٥٢ ( النجم : 52 )  آنے والے ادوار کے مختلف معاشروں کی بہت سی برائیوں کی بنیاد اسی بد بخت قوم نے رکھی۔ قرآن نے اس طرح جامع اشارات کیے۔ تاریخ ان برائیوں اور ان کے نتائج کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ نوحی معاشرہ بد ترین پستی اور طبقاتی تقسیم کا شکار بلکہ شاہکار تھا۔ انسانوں کی اوصاف کے بجائے دولت کی بنیاد پر شریف اور ذلیل زمروں پر تقسیم انہوں نے ڈالی۔ آنے والے ادوار میں حتیٰ کہ خود اپنے معاشرہ میں ہم اس کی جھلکیاں دیکھ رہے ہیں۔ دینی اور دنیاوی امور میں معاشرے کی قیادت و سیادت چند سرداروں کے ہاتھ میں تھی۔ محل اور مندر کے گٹھ جوڑ کی بنیاد یہیں ڈالی گئی۔ معاشرے کے سارے وسائل پر انہی سرداروں کا قبضہ تھا۔ غربت ، مظلومیت ، کسمپرسی کے ستون پر دولت و اقتدار کے محل کھڑے کیے جاتے ہیں۔ عام آدمی کو اراذل سمجھا اور کہا جاتا تھا جن کا درجہ جانوروں سے کم ہوتا تھا۔ قرآن میں یہ لفظ دو بار انہی سرداروں کے منہ سے ادا ہوا۔ اراذل ہندو معاشرے کے نیچ ذات کہلانے والی قوموں کی طرح تھے یا ہمارے معاشرے کے ” کمی ” لوگوں کی طرح تھے۔ اعلیٰ ذات کے ہندؤوں اور ہمارے اعلیٰ نسل کے سرداروں ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، اہل ثروت و اقتدار کو ان مظلوموں کی جان لینے، جبری محنت لینے ، عورتوں کی عزت لوٹنے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ان سرداروں اور ان کے لائق جانشینوں کی خر مستیاں ہمارے سامنے ہیں۔ حکومتی مشنری ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ عدالتی نظام ان کے لیے مکڑی کا جال ہے۔ مکھی کی طرح کمی ہی اس میں پھنستا ہے ۔ ایسے معاشرے میں حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دینِ حق کی دعوت دی۔ ان کی تکذیب ، توہین اور تضحیک ہوتی رہی۔ انہیں دیوانہ بتا کر جھڑک دیا گیا۔ وَقَالُواْ مَجۡنُونٞ وَٱزۡدُجِرَ ٩ ( القمر : 9 ) ” نا سمجھ اراذل ” کی طرح دعوت حق کی قبولیت کو اپنی توہین سمجھنے والوں نے آخر میں دھمکی دی کہ اے نوح اگر تو اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دیا جائے گا۔ ہمارے مغرور زمینداروں کا غریب مزدوروں پر کتے چھوڑنے کا اس زمانہ میں رواج نہ تھا۔

ان حالات میں حضرت نوح نے بارگاہ الٰہی میں فریاد کی فَدَعَا رَبَّهُۥٓ أَنِّي مَغۡلُوبٞ فَٱنتَصِرۡ ١٠ ( القمر : 10 ) اور درخواست کی اے پروردگار ! تو زمین پر کسی کافر کو نہ چھوڑ۔ اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجرو ں اور ڈھیٹ کافروں کو ہی جنم دیں گے۔ إِنَّكَ إِن تَذَرۡهُمۡ يُضِلُّواْ عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوٓاْ إِلَّا فَاجِرٗا كَفَّارٗا ٢٧ ( نوح : 27 )

قوم نوح کی ساری بد اعمالیوں کو فجور کے لفظ میں سمو دیا گیا ہے۔ کیا قوم نوح کے معاشرے کی کچھ جھلکیاں ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہیں۔ کیا یہاں برائیاں نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ کیا اقتدار و اقتدار کی برائیاں وَلَا يَلِدُوٓاْ إِلَّا فَاجِرٗا كَفَّارٗا  کی تصدیق نہیں کر رہی ہیں۔

قرآن میں لفظ فسق اور اس کے مشتقات استعمال ہوئے۔ اردو میں بھی فسق و فجور ، فاسق و فاجر کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن قرآن میں اس لفظ کا استعمال بہت وسیع ہے۔ ہر قسم کے گناہ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے خواہ وہ روزمرہ کے معاشرتی معاملات کے احکام کی خلاف ورزی ہو یا قوموں کے اجتماعی گناہِ کبیرہ ۔ سورہ مائدہ ، سورہ الانعام آیت 145 ، اور سورہ بقرہ آیت 197 پہلے زمرے میں ہیں۔

اللہ کے فرشتے حضرت لوط کو اپنے آنے کی وجہ بتاتے ہیں :

إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَىٰٓ أَهۡلِ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ رِجۡزٗا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفۡسُقُونَ ٣٤ ( العنکبوت : 34 )

” ہم اس بستی والوں پر آسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں اس لیے کہ یہ بے حکم ہو رہے ہیں ۔”

سورۃ الانبیاء آیت 74 میں ارشاد ہوا :

وَلُوطًا ءَاتَيۡنَٰهُ حُكۡمٗا وَعِلۡمٗا وَنَجَّيۡنَٰهُ مِنَ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلَّتِي كَانَت تَّعۡمَلُ ٱلۡخَبَٰٓئِثَۚ إِنَّهُمۡ كَانُواْ قَوۡمَ سَوۡءٖ فَٰسِقِينَ ٧٤  ( الانبیاء : 74 )

” ہم نے لوط کو بھی حکم و علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات دی جہاں کے لوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے ، بدکار گنہ گار۔ "

فاسق کا لفظ قرآن میں 18 بار استعمال ہوا ہے لیکن سوء کے ساتھ فاسق اسی آیت میں ہی ہے۔

ہر مسلمان جانتا ہے حضرت لوط کی قوم کے منکرین کے اعمالِ قبیح کیا تھے۔ کیا ہمارا معاشرہ ان برائیوں سے مبرا ہے ؟ شہر قصور میں چھوٹے پیمانے پر جو کچھ ہوا وہ قوم لوط کی گناہ گاریوں سے بڑھ کر تھا۔ ان گناہ گاروں نے نہ صرف ہم جنسی کے گناہ کا ارتکاب کیا بلکہ اس کی اشاعت و تشہیر کی۔ فخریہ تصاویر بنائیں اور بدکاری کے شکار لوگوں سے بلیک میل کر کے گناہ کو آمدنی کا ذریعہ بنایا اور کیا قوم لوط کے خبیث فاسق کم سن لڑکوں اور لڑکیوں کو بد فعلی کے بعد قتل کر کے لاش پھینک دیا کرتے تھے اور اس معاملہ پر ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات کا رد عمل کیا تھا۔

سورہ احقاف آیت 20 میں ارشاد ہے :

فَٱلۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ ٱلۡهُونِ بِمَا كُنتُمۡ 

تَسۡتَكۡبِرُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِ بِغَيۡرِ ٱلۡحَقِّ وَبِمَا كُنتُمۡ تَفۡسُقُونَ ٢٠

” قیامت کے دن اللہ فاسقوں سے فرمائے گا آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس باعث کہ تم زمین پر نا حق تکبر کیا کرتے تھے اور اس باعث کہ تم حکم عدولی ( فسق ) کیا کرتے تھے۔”

قرآن میں استکبار سے متعلق بہت سی آیات ہیں ۔ استکبار کرنے والوں کو قوم مجرمین ظالمین ، اصحاب النار کہا گیا۔ سورہ بقرہ آیت 34 میں ارشاد ہے : جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ ٣٤ ” اس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منکروں میں سے تھا۔”

استکبار کے لیے اردو میں اور الفاظ فخر ، غرور و تعلی استعمال ہوتے ہیں ۔ ملک کی سیاسی لغت میں اسے وی آئی پی کلچر اور پروٹوکول کہا جاتا ہے۔ مگر یہ فسق و منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ غریبوں کی ہمدردی اور عوام کے خدمت گزاری کے دعویداروں کا پروٹوکول ہزاروں شہریوں کو ایذا رسانی کا باعث ہے۔ وی آئی پی افراد جب خود نمائی کے لیے سڑکوں پر قافلے کے ساتھ گزر کر کسی ہسپتال میں ایک یا چند مریضوں کی سیاسی عیادت کو جاتے ہیں تو ہسپتال کے عملے مریضوں اور ان کے تیمار داروں کے علاوہ بے شمار عام لوگوں کو ایذا پہنچاتے ہیں ۔ ” نیکی برباد ، گناہ لازم ” شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا گیا۔

ان کا عمل قرآنی احکام ، مہذب معاشروں کے اصول اور خود آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی اور اختیارات  کا ناجائز استعمال ہے۔ ٹی وی چینل پر رونق افروز ہونے والے علماء سے درخواست ہے کہ وہ اس آیت کی تشریح اپنے میڈیائی سرپرستوں اور بزعم خود ” لکل شئ علیم ” اینکروں کے سامنے کریں اگر خلاف مصلحت نہ سمجھیں سورہ حج آیت 34 میں اللہ القوی العزیز نے فرمایا : فَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞ فَلَهُۥٓ أَسۡلِمُواْۗ وَبَشِّرِ ٱلۡمُخۡبِتِينَ ٣٤ اخبات استکبار کی ضد ہے۔

بنی اسرائیل اہل کتاب تھے۔ خروجِ مصر کے بعد اپنے نجات دہندہ پیغمبر کے احکام کی عدم تعمیل ، بہانے وغیرہ قرآن میں ان کی نا فرمانیوں کا ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے  شکایت کی۔ يَٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُونَنِي وَقَد تَّعۡلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيۡكُمۡۖ ( الصف : 5 ) کچھ اثر نہ ہوا تو حضرت موسیٰ نے بارگاہ الٰہی میں درخواست کی رَبِّ إِنِّي لَآ أَمۡلِكُ إِلَّا نَفۡسِي وَأَخِيۖ فَٱفۡرُقۡ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡفَٰسِقِينَ ٢٥ (المائدۃ : 25 ) اور اللہ تعالیٰ  حضرت موسیٰ کو تشفی دی فَلَا تَأۡسَ عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡفَٰسِقِينَ ٢٦ ( المائدۃ : 26 ) اللہ اور اللہ کے رسول نے ان نا فرمانوں کو فاسق قرار دیا جو جماعتی مفاد کے خلاف کام کرتے تھے۔

پچھلی امتوں کے احوال فرضی قصے کہانیاں نہیں جیسا کہ کافر انہیں اساطیر الاولین کہا کرتے تھے۔ ان کے اعمال پیمانے ہیں ، جن سے ہم اپنے اعمال جانچ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ کس جرم پر فجار اور قوم فاسقین کا اطلاق ہوتا ہے۔ بہر حال ہماری قوم اس وقت کردار کے بحران کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کی ہر برائی دیگر پچاس برائیوں کا نچوڑ ہے۔ سورہ نور کی آیت 40 میں ایسی صورتحال کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : ظُلُمَٰتُۢ بَعۡضُهَا فَوۡقَ بَعۡضٍ إِذَآ أَخۡرَجَ يَدَهُۥ لَمۡ يَكَدۡ يَرَىٰهَاۗ” ایک تاریکی پر دوسری تاریکی ، آدمی اگر خود اپنا ہاتھ نکالے تو امید نہیں کہ سجھائی دے۔”

یہاں عرسوں میں ہلا گلا  ، میلاد النبی اور محرم کے جلوس افضل العبادات ہیں۔ سرکاری محکمے ڈاکوؤں کی کمین گاہیں ہیں ۔ تعلیمی اسناد ، اخلاق ، تجارت سب جعلی ہیں ، نام خوش نما ہیں اصلیت کچھ اور ہے۔ مفسد ، مصلح کہلاتے ہیں۔ رہزن ، رہنما۔ قرآن نے اسی صورتحال کو اس طرح بیان کیا : وَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ قَالُوٓاْ إِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُونَ١١ ( البقرۃ : 11 ) جب کفر کو اسلام سمجھ لیا گیا تو پھر نفاذِ اسلام کی جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ؟

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.